قاہرہ کے سب سے پرانے شاپنگ سینٹر ماوسکی اسٹریٹ کی بھیڑ باڑ سے نکل کر ہم اپنے چھوٹے سے احاطہ میں پہنچے۔ اس کی ایک طرف الازہر مسجد کا چوڑا سیدھا ماتھا تھا ۔ ایک دوہرے گیٹ اور سایہ زدہ پیش دالان سے گذر کر ہم مسجد کے صحن میں آئے ۔ قدیم محرابی راہداریوں میں گھرا ہوا چو کور احاطہ ۔لمبے گہرے رنگ کے جبوں اور سفید پگڑیوں میں ملبوس طلبا تنکوں سے بٹی چٹائیوں پر بیٹھے دھیمی آواز میں کتب اور مسودات پڑھ رہے تھے ۔ لیکچر پرے واقع مسجد کے مسجد کے کھلے اور وسیع و عریض ڈھکے ہوئے ہال میں دئے جاتے تھے ۔ متعدد اساتذہ بھی ستونوں کی ایک قطاروں کے درمیان بچھی چٹائیوں پر بیٹھتے اور ہر استاد کے سامنے طلبا کی ٹولیاں نیم دائرے بنا کر بیٹھی ہوتیں ۔ لیکچر دینے والا کبھی اپنی آواز بلند نہ کرتا ، لہذا اس کا ہر لفظ سننے کے لئے بہت زیادہ توجہ کی ضرورت تھی ۔ آپ سوچتے کہ اس قسم کا انہماک حقیقی تبحر علمی کی طرف لیجاتا ہوگا لیکن شیخ المراغی نے جلد ہی میرے تمام وہم منتشر کر دئے ۔
اس نے مجھ سے پوچھا ۔: آپ ان طلبا کو دیکھ رہے ہیں ؟یہ ہندوستان کی مقدس گایوں کی طرح ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گلیوں میں ملنے والا ہر طباعت شدہ کاغذ کھا جاتی ہیں ۔ جی ہاں وہ صدیوں قبل لکھے ہوئے کتب کے تمام چھپے ہوئے صفحات ہڑپ کر جاتے ہیں ، مگر انھیں ہضم نہیں کر پاتے ۔ یہ خود غور و فکر نہیں کرتے ، وہ پڑھتے اور دہرائی کرتے ہیں ، نسل در نسل ۔
میں نے بات کاٹی : لیکن شیخ مصطفی ، الازہر تو اسلامی علوم کا مرکز ہے اور دنیا کی قدیم ترین یو نیورسٹی ہے ۔ آپ اس کا نام مسلم ثقافتی تاریخ کے تقریبا ہر صفحہ پر دیکھتے ہیں ۔ گزشتہ دس صدیوں کے دوران یہاں پیدا ہونے والے عظیم مفکروں ، ماہرین الٰہیات ، مورخین ، فلسفیوں اور ریاضی دانوں کا کیا ہوا ؟۔
انھوں نے تاسف بھرے انداز میں جواب دیا ۔: اس نے کئی سو سال قبل انھیں پیدا کرنا بند کر دیا ۔ مانا کہ حالیہ ادوار میں کبھی کبھی الازہر سے کوئی آزاد مفکر ابھر کر سامنے آ گیا ۔ لیکن بحیثیت مجموعی الازہر بانجھ پن کا شکار ہو چکی ہے ۔ جس کا نقصان ساری مسلم دنیا کو ہو رہا ہے اور اس کی تحریک انگیز قوت بجھ چکی ہے ۔ان قدیم مسلم مفکرین ، جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کئی سو سال بعد ان کے خیالات کو سمجھنے اور ترقی دئے جانے کے بجائے محض رٹا لگایا جائے گا ۔ کہ جیسے وہ مطلق اور ناقابل تر دید سچائیاں ہوں ۔ اگر کوئی بہتری لانی ہے تو موجودہ نقالی کے بجائے غور و فکر کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے۔۔۔ ۔
الازہر کے کر دار کے بارے میں شیخ المراغی کی صاف گوئی نے مجھے مسلم دنیا کو درپیش ثقافتی انحطاط کی عمیق ترین وجوہ میں سے ایک کو جاننے میں مدد دی ، کیا اس قدیم یو نیورسٹی کی متکلمانہ سڑاند مسلم حال کے سماجی بانجھ پن میں منعکس نہیں ہو تی تھی ، کیا اس عقلی جمود کا ہم مقام بہت سے مسلمانوں کی جانب سے غیر ضروری غربت کی مجہول تقریبا لاپر وا قبولیت ، متعدد ماجی خرابیوں کو چُپ چاپ سہنے میں نہیں ملے گا ۔
میں نے خود سے سوال کیا کہ کیا مسلم زوال کے انھیں قاب محسوس شواہد کی وجہ سے سارے مغرب میں خود اسلام کے متعلق تصور سرایت کر گئے تھے ۔۔۔۔
The Road to Makka ..189-190
written By : Muhammad Asad
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں