ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا ، دہلی میں عصری اردو صحافت

ابھی حال ہی میں میرے ایک ’’صحافی دوست‘‘ شاہد الاسلام کی کتاب آئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔’’ دہلی میں عصری اردو صحافت۔۔۔تصویر کا دوسرا رُخ‘‘۔۔۔ اب تک کئی بڑے صاحبان قلم نے ان کی متذکرہ کتاب پر تبصرے لکھے ہیں۔ سب کا اپنااپنا انداز ہے۔ ایک تبصرہ یہ بھی ہے جسے جناب کے کے کھلر نے رقم کیا ہے جو اردو کے گنے چنے ہندو قلم کار ہیں اور جنہیں ہم اردو کے باقیات الصالحات کے درجہ میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ اردو زبان و ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے احباب کے لئے یہ تبصرہ پوسٹ کر رہا ہوں ۔۔ضرور پڑھئے ۔۔۔ مزا آئے گا۔۔۔۔
...........
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا ، دہلی میں عصری اردو صحافت
(شاہد الاسلام کی زبانی)
از کے کے کھلر
اگر آپ اردو صحافت کی بلندی دیکھنا چاہتے ہیں تو مولانا آزاد، حسرت موہانی اور شبلی نعمانی کو پڑھیئے اور اگر اسی صحافت کی پستی درکار ہے تو دہلی کے 85 اخبارات میں کسی کو بھی اٹھالیجئے۔ لیکن صحافتی تقاضہ یہ ہے کہ ان 85روزناموں میں 6درجن سے زیادہ روزنامے ایسے ہیں جن کی بقول شاہد الاسلام زیارت کا انہیں کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ ہر روزنامے کا دعویٰ ہے کہ وہ ہزاروں میں چھپتا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پردہ داری ،چور بازاری اور سرقہ داری اور ناشائستہ الفاظ کا استعمال ان روزناموں کا دستور بن چکا ہے۔ اردو صحافت جو کسی زمانے میں ایک مشن تھی آج ایک بزنس اور تجارت کی شکل میں ابھر رہی ہے اور اردو صحافی کی گورنمنٹ کی گرانٹوں اور ڈی اے وی پی کے اشتہاروں کے باوجود بھوک نہیں مٹتی۔
کہتے ہیں کہ جب سکندر ایک اپلی کے بھیس میں پورس کا جاہ و جلال دیکھنے کے لئے پورس کے دربار میں پہنچا تو پورس نے اپنے درباری باورچی کو حکم دیا کہ یونان کے بادشاہ کے لئے ایک ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی سونے کی روٹی تیار کی جائے کیونکہ ہندستانیوں کی بھو ک تو گیہوں کی روٹی سے مٹتی ہے لیکن یونان کے بادشاہ کی بھوک سونے کی وٹی سے۔ سکندر یہ سن کر طیش میں آگیا اور اس کا ہاتھ اپنی تلوار کی میان تک پہنچ گیا۔ لیکن وہ سنبھلا اور بولا ” آپ میرے بادشاہ کی توہین کر رہے ہیں۔ آپ کو جو کہنا ہے میرے بادشاہ کے سامنے کہئے۔“
”ہم جو کہہ رہے ہیں آپ کے بادشاہ کے سامنے کہہ رہے ہیں“ یہ سنتے ہی درباریوں کی تلواریں میان سے باہر نکل آئیں۔ دربار میں سنسی پھیل گئی۔ یہ دیکھ کر سکندر نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہا۔ ”یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک نہتے انسان پر اتنے لوگ ٹوٹ پڑیں۔ یہ کیسا سلوک ہے۔“ پورس نے سکندر کو یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ اب ملاقات میدان جنگ میں ہوگی۔ جہاں آپ نہ اس بھیس میں ہونگے اور نہ نہتے۔ عین اسی طرح دلی کے اردو صحافیوں کی بھوک گندم کی روٹی سے نہیں مٹتی انہیں سونے کی روٹی چاہئے۔ لیکن جب حکومت انہیں روٹی کے بجائے کیک کھانے کو کہتی ہے تو بات بگڑجاتی ہے۔
ان بگڑے ہوئے حالات میں دلی کا اردو صحافی خوف زدہ ہے۔ تنگ دل ہے۔ وقت شناس ہے۔کیوں؟ اس کیوں کا جواب شاہد الاسلام کی 316صفحات پر مبنی بعنوان ’دہلی میں عصری اردو صحافت‘ تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اسی تصویر کے دوسرے رخ کی قیمت350روپے ہے اور اسے ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاﺅس دہلی نے شائع کیا ہے۔ مقدمہ شاہین نظر کا ہے جو فی الوقت شاردا یونیورسٹی سے وابستہ ہےں اور ٹائمس آف انڈیا پٹنہ(انگریزی) روزنامے سے منسلک ہیں۔
بے چہرہ صحافت :۔ منظر نامہ بعنوان ”بے چہرہ صحافت“حقانی القاسمی کا ہے جس میں انہوں نے اردو صحافت کی نہ صرف ماضی کی تصویر جو معتبر اور معیاری تھی اور دوسری طرف موجودہ صحافت کے زوال کے اسباب کی تصویر، اس کی پستی اور بلندی کو نہایت شائستہ زبان میں قلم بند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاہد الاسلام نے صحافت کو تحریک اور تجارت دونوں مشکلوں میں دیکھا ہے اور ان نام نہاد صحافیوں کو بے نقاب کیا ہے جو ڈی اے وی پی اور دیگر سرکاری اداروں سے ہونے والی آمدنی سے مالا مال ہوئے ہیں۔ بہرحال اردو صحافت کا سب سے برا حال دہلی کے روزناموں میں ہے جو نہایت بے حیائی کے ساتھ پاکستانی اخبارات کی خبریں اور ادارتی مضامین میں سرقہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔حتیٰ کہ ہندستان ایکسپریس جس سے وہ خود وابستہ ہیں پر بھی انہوں نے چوٹ کی ہے ۔ لکھتے ہیں کہ
سرقہ دار ادارتی صفحہ:۔” ادارتی صفحہ پر شائع کئے جانے والے مضامین برسوں پاکستانی اخبارات سے سرقہ کی صورت میں حاصل کئے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی مضامین پر مبنی نہایت بے شرمی کے ساتھ پاکستانی ویب سائٹ سے چوری کئے جاتے ہیں۔ اور انہیں ادارتی صفحہ میں اشاعت کردیا جاتا ہے۔“
سرقہ داران دہلی:۔ دلی کے یہ سرقہ دار بھول گئے ہیں کہ مانگے کے اجالے سے گھر روشن نہیں ہوتے اور گورنمنٹ کی گرانٹوں پر پلے ہوئے اردو کے صحافی اردو کی جڑیں دن بدن کمزور کررہے ہیں۔ اردو کے بڑے سے بڑے صحافی نے گرانٹ لینے سے انکار نہیں کیا لیکن قاری کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ گورنمنٹ کی گرانٹ مت لو یہ رشوت ہے۔ اردو کے سب سے بڑے وقت شناس گوپی چند نارنگ نے بھی اردو والوں کو یہی صلاح دےکر گمراہ کیا تھا۔ حالانکہ وہ خود گورنمنٹ کے ٹکروں پر پلے ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی گورنمنٹ سروس کرتے ہوئے بھی گورنمنٹ کی اردو پالیسی کا مرثیہ پڑھنے سے نہیں چوکتے۔ لیکن اردو سے ان کی والہانہ محبت ہے اسی والہانہ محبت کی ایک مثال حاضر ہے۔فاروقی صاحب محکمہ ڈاک خانہ جات کے ملازم تھے۔بیورو آف پروموشن فار اردو کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن جب ان کے اپنے ڈاک تار محکمہ میں ان کی ترقی قریب آئی اور انکی تنخواہ میں تھوڑا اضافہ ہواتو ان کی اردو نوازی اور والہانہ محبت یک لخت ختم ہوگئی اور 24گھنٹے کا نوٹس دیکر اپنے محکمہ میں واپس چلے گئے۔ کلدیپ نیر جن کی معاشی زندگی کا آغاز پرانی دہلی کے کسی اخبار سے شروع ہوا کچھ ہی عرصے بعد اردو اخبار کی نوکری چھوڑ کر انگریزی اخبار اسٹیٹس مین(Statesman) میںچلے گئے۔ فرماتے ہیں کہ یہ قدم انہوں نے حسرت موہانی جو ان کے اردو دفتر کے پاس ہی رہتے تھے کے کہنے پر اٹھایا۔ موہن چراغی کو بھی افسوس ہوا کہ انہوں نے اردو صحافت کے بجائے انگریزی صحافت کی اتنی خدمت کی ہوتی تو وہ اپنی آخری عمر میں اتنے بے کس اور بے سہارا نہ ہوتے۔ یاد رہے کہ اردو کے یہ کاغذی شیر پاکستان کے امتیازی تغمے بھی لے چکے ہیں اور ہمارے اخباری نمائندہ اور مدیر ان کی سرقہ دارانہ تحریریں چھاپنے کے لئے پیش پیش ہیں۔ فاروقی صاحب تو خود بھی شب خون نام کا رسالہ نکالتے تھے۔
شاہد صاحب نے ایک اور نقطے پر زور دیا ہے کہ بے شک انٹرنیٹ اور سائبر کلچر نے دنیا کو ایک عالمی گاﺅں میں تبدیل کردیا ہے اور اطلاعات پر اجارہ داری بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے لیکن دلی کی صحافت شاہجہاں آباد کی چہار دیواری کی تنگ اور تاریک گلیوں سے باہر نہیں نکلی ۔ پھاٹک حبش خان، گلی قاسم جان، بلی ماران، دریبہ، کناری بازار کا نام سنتے ہی دلی کے اردو صحافیوں کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ وہ عالمی گاﺅں کے بجائے عالم میں انتخاب کی باتیں کرتے ہیں۔ جولیّس سیزر(Julius Caesar) کے زمانے میں اخبار دیواری تھے۔ دہلی کے اندر اخبار آج بھی بیشتر چہار دیواری ہیں۔
سرکولیشن:۔ شاہد صاحب نے سرکولیشن سے متعلق کچھ حیران کن حقائق کا انکشاف کیا ہے ۔ اوکھلا اور فتح پوری کو چھوڑ کر اردو کا پسندیدہ اخبار مشکل سے ہی ملتا ہے۔ میں وسنت کنج میں رہتا ہوں۔ جہاں تقریبا چار لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن اردو جاننے والے ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم ہیں۔ مجھے اردو کا اخبار یا رسالہ خریدنے کے لئے کناٹ پیلس کے سنٹرل نیوز ایجنسی میں جانا پڑتا ہے۔ اگر مجھے اپنا مضمون فوٹو کروانا ہو تو بھی مشکل کیونکہ فوٹو کرنے والے کو اردو کے مضمون کو staple کرنا نہیں آتا۔ وہ غلط جگہ stapleکرتا ہے۔ کیونکہ اردو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور دیگر زبانیں بائیں سے دائیں۔
ناقص ترجمے:۔ اور یہاں بات ترجمے کی آتی ہے تو حالات اور بھی بدتر ہیں۔ اردو کے شاید ہی کسی اخبار میں کوئی معتبر مترجم ہوگا۔ بیشتر اخبارات میں وہائٹ پیپر(White Paper) کا ترجمہ سفید کاغذ ہے۔ Copy rightصحیح کاپی۔Red light zoneسرخ بستیوں کا علاقہ۔ بلی ماران گیٹ کا ترجمہCat killer's gate ہی چلتا ہے حالانکہ بلی ماران میں کوئی گیٹ نہیں ہے۔ یہ ایک گلی ہے جہاں مرزا غالب رہتے تھے۔ کسی زمانے میں یہ ایک لکڑی کا ٹال تھا اور حال ہی میں یہ برات گھر کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو طوفان آجاتا۔ لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ہر چیز ممکن ہے۔ بہت جد و جہد کے بعد حکومت نے اس گھر کو Heritage gharکا (Status) درجہ دیا ہے اور پھر بہت اردو کا دم بھرنے والے اردو کے اخبار خرید کر نہیں پڑھتے۔ جو میری طرح پڑھتے ہیں ۔یاتو سن رسیدہ ہیں۔ یا پھر جنہیں مسلم حالات و مسائل سے واقفیت میں کسی بنا پر دل چسپی ہے۔ یہ ایک ایسی تلخ سچائی ہے جس سے انکار یا فرار کی قطعا گنجائش نہیں نکلتی۔
مشن سے کمیشن:۔ کوئی زمانہ تھا جب اردو صحافت کو ایک مشن کا درجہ حاصل تھا آج یہ کمیشن پر چل رہا ہے۔ اور پورے کا پورا ایک پروفیشنل کی شکل اختیار کرچکا ہے اور بزنس کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ یعنی اگر منافع ہے تو اخبار چلاﺅ ورنہ بند کردو۔بہار میں تو کہاوت ہے۔ مرغ لڑائے جائیںگے بوٹی کے واسطے اخبار نکالے جائیںگے روٹی کے واسطے اردو اخبارات میں فلم اور کھیل کی خبریں تو چھپتی ہیں لیکن تعلیم ، سائنس ، تجارت، صنعت وحرفت، تکنیکی اور طبی امور کے مضامین نہیں چھپتے کیونکہ بیشتر مدیروں کو ان مضامین کا نہ کوئی علم ہے نہ شوق، کسی زمانے میں اخبار کا منصب تھا ۔ کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو۔
اردو یوجنا انگریزی یوجنا کی نقل:۔ اب گورنمنٹ کا ایک ماہانہ رسالہ ”یوجنا“ ہے جو اوپر لکھے مضامین کی اردو صحافت میں کمی کو پورا کرنے کے لئے شروع کیا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ اردو کا رسالہ لکھنے والے اردو نہیں جانتے اور جو اردو جانتے لیکن وہ ان انسانی وسائل کے فروغ والے مضامین سے بے خبر ہیں۔ نتیجتا یہ رسالہ ایک ترجمے کا دفتر بن کر رہ گیا ہے اور ترجمے کا معیار اس کے بارے میں کچھ بھی لکھنا بے کار ہے۔ گورنمنٹ کا ایک اور ماہانہ رسالہ ہے۔ ”آجکل“ وہ اپنے اصلی مقصد سے کب کا دور جاچکا ہے اور اردو ادب کا ضمیمہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اردو اکیڈمیوں کے رسالے چونکہ گورنمنٹ کے ہیں۔ وہاں مضامین صرف گورنمنٹ کے نقطہ نظر سے چھپتے ہیں۔ اردو کونسل کے رسالہ کا معیار نہ گفتہ بہ ہے۔ وہ بکتا ہی نہیں اور بیشتر ردی کے بھاﺅ جاتا ہے۔رہی ریڈیو اور دوردرشن کی بات وہ بھی نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔
”روزگار سماچار“ اردو کا نام نہاد ایڈیشن:۔ ایک اور گورنمنٹ کا ہفتہ وار نکلتا ہے جس کا نام ہے”روزگار سماچار“ اس میں دو یا تین اقتصادی، سماجی اور انسانی وسائل کے فروغ کے لئے مضامین چھپتے ہیں۔ رسالہ در اصل انگریزی زبان میں چھپتا ہے اور اردو ایڈیشن انگریزی ایڈیشن کا ترجمہ ہے۔ صرف انگریزی مضامین کو معاوضہ ملتا ہے۔ اردو اور ہندی والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ جہاں تک اردو ورزن(Version) کا سوال ہے۔ پہلے تو اس کا ترجمہ ناقص ہے دوسرے جس انگریزی کے ادیب نے یہ مضمون لکھا ہے اس کو علم ہی نہیں کہ وہ اردو میں بھی چھپ رہا ہے۔ اگر علم ہے تو المیہ یہ ہے کہ اسے اردو نہیں آتی۔ پھر ایک اور بات ہے کہ انگریزی والا(Employment news) لاکھوں میں چھپتا ہے اردو کی زیادہ سے زیادہ دوسو کاپیاں چھپتی ہیں۔ جوکسی بھی اخبار کے اڈے پر نہیں آتیں۔ یہی حال ریلوے کا ٹائم ٹیبل اردو میں بھی چھپتا ہے لیکن آج تک کسی نے یہ کاپی دیکھی۔ یاد رہے کہ اردو میں ریلوے کے ٹائم ٹیبل کی اشاعت گجرال کمیٹی کی ایک اہم سفارش تھی۔ ڈاک گھروں میں اردو کا نام کی کوئی چیز نہیں۔ اردو جاننے والے محلوں کے ڈاکیوں کو اردو نہیں آتی۔ حتیٰ کہ اردو اخبارات میں کیشیر(Cashier) اور اکاﺅنٹنٹ(Accountant) کو اردو نہیں آتی۔ ان کے سارے اکاﺅنٹ انگریزی میں ہیں۔( Students) طلبہ اور طالبہ کی رہنمائی کےلئے کسی اخبار میں کچھ نہیں ملتا۔ IASاور Banking کی کوچنگ کے سہولتیں کہاں دستیاب ہیں کسی اردو اخبار میں نہیں چھپتی۔
شاہد الاسلام لکھتے ہیںکہ” دہلی کے اخبارات میں صحافتی سنجیدگی غائب ہوتی جارہی ہے اور مذہبی وابستگی اردو صحافت پر اس حد تک غالب آجاتی ہے کہ یہ فیصلہ کرنا بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے اردو صحافت اپنے طرز عمل سے صحافیانہ کردار ادا کررہی ہے یا قائدانہ رول نبھا رہی ہے۔ لہٰذا دہلی سے شائع ہونے والے تمام اردو اخبارات کوئی تعمیری کردار نہیں نبھا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔“ آگے چل کر شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ اردو پر ظلم اور زیادتی کی خبریں تو شائع ہوتی ہیں لیکن اردو کی حقیقی صورت حال کیا ہے؟ قارئین کو یہ بتانے سے اردو اخبارات قاصر ہیں۔ آپ کو ایک سال کے اردو اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد بھی یہ پتہ نہیں لگ سکے گا کہ بحیثیت مجموعی پرائمری اسکولوں کی کتنی تعداد ایسی ہے جہاں اردو کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ موجود ہیں۔ مگر اساتذہ کا تقرر عمل میں نہیں آیا۔ کتنے اسکول اردو میڈیم کے ہیں جہاں ہندی میڈیم میں تعلیم دی جارہی ہے۔ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کی دہلی میں کیا صورت حال ہے۔ اس کا بھی کوئی اندازہ اردو اخبارات کو نہیں ہے۔“ اور کتنے طالب علم ایسے ہیں جو اردو کی تعلیم ناقص ہونے کی وجہ سے ہندی میڈیم میں چلے گئے ہیں۔ پڑھائی کے بیچ اسکول چھوڑنے والوں کی کتنی تعداد ہے۔ یہ تو گورنمنٹ کو بھی پوری طرح سے نہیں پتہ۔ ریلوے کے قلیوں کے بچے، رکشہ چلانے والوں کے بچے، کوڑا اٹھانے والوں کے بچے اور گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے بارے میں تو کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ غیر رسمی تعلیم بڑے بینڈ باجے سے شروع ہوئی تھی۔ آج اس کا نام لیوا کوئی نہیںہے۔ بچہ مزدوری جو قانونا جر م ہے۔ زوروں پر ہے۔
اخلاقیات :۔ شاہد الاسلام صاحب کے نظریئے میں صحافت میں اخلاق کا درجہ بہت اونچا ہے مگر آج کی اردو صحافت میں اخلاقی قدروں کو نظر انداز کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ شاہد صاحب رقم سرا ہیں۔
”اردو صحافت میں اخلاقی قدروں کا گلا گھونٹنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس سلسلے کی عہد بہ عہد تجدید ہوتی ہے۔ اردو صحافتی سرگرمیوں کی انجام دہی کے درمیان بالکل متوازی انداز سے اردو صحافت کو دریدہ ذہن بنانے اور چرب زبانی کے ذریعے مفاد خصوصی حاصل کرنے کی کوششیں جارہی ہیں۔ دہلی میں عصری صحافت کا منظر نامہ بھی اس سے خاصا متاثر دکھائی دیتا ہے۔ بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ایسے کھوٹے سکوں کو سکہ رائج الوقت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے“۔
بہر حال اردو اخبارات کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی فہرست لمبی ہے اور تصویر کا دوسرا رخ بہت مایوس کن ہے۔ سہیل انجم جو ایک طویل مدت سے قومی آواز سے منسلک رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اردو صحافت کا رکنان کے لئے تو مشن بنی ہوئی ہے لیکن مدیروں اور مالکان کیلئے یہ بہترین تجارت اور بزنس ہے۔ دن بھر کی سخت محنت اور مشقت کرنے کے بعد شام کے وقت صحافیوں کو جزاک اللہ کہہ کر رخصت کردیا جائے اور اگر کارکن اپنی محنت کا کچھ معاوضہ مانگیں تو یہ کہہ کر ان کی زبان بند کردی جائے کہ آپ اردو کی خدمت کررہے ہیں اب اردو صحافت کو خدمت کی نہیں راست تجارت بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان مالکوں اور مدیروں کی زینت جو خود تو آم کھاتے ہیںمگر کارکنوں کو چھلکے اور گھٹلیاں دینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
دوسرے الفاظ میں اچھا مالک اور مدیر وہ ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے یعنی دودھ خود پی جائے اور پانی اپنے کارکنوں کو دے۔حال ہی میں انہوں نے اخبار مشرق میں لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں اردو اخباروں کی تعداد سیلاب کے پانی کی مانند بڑھی ہے۔ لیکن جس طرح سیلاب اپنے ساتھ وبائی امراض کا تحفہ بھی لے کر آتا ہے اسی طرح کثرت اخبار بھی بہت سی صحافتی خرابیاں وبائی شکل میں اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اور اس وبائی شکل کو ’تصویر کا دوسرا رخ‘ کے عنوان سے شاہد الاسلام نے بڑی دیانت داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بقول ظفر انور وہ ایک بے خوف اور بے لاگ صحافت کے علمبردار کہے جاسکتے ہیں جن کی عبارت کی روانی ، زور بیان، بلاغت اور تاثیر کلام کی اپنی ایک الگ کیفیت ہے۔ وہ ان صحافیوں کے جانشین ہیں جنہوں نے اپنے جگر کے لہو سے وادی ¿ صحافت کی آبیاری کی ہے۔ 1995 میں صرف22سال کی عمر میں انہوں نے قلم سنبھالا۔ وہ دن اور آج کا دن ان کا قلم اخبار و رسائل میں رواں دواں ہے۔ ان کا قلم آج تک نہ جھکا ہے۔ وہ اردو ادب کے ڈاکٹر جانسن ہیں جنہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں بھی کسی صحافتی تقاضے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ جو سچ ہے وہ سچ جو جھوٹ ہے وہ جھوٹ، جو حق ہے وہ حق جو ظلم ہے وہ ظلم۔ پنچابی کے شاعر بلے شاہ نے اپنی چالیسویں سالگرہ پر ایک شعر کہا تھا۔ ”کر بسم اللہ کھول دی میں نے چالیس گانٹھیں“ شاہد الاسلام نے 39 گانٹھیں تو کھول دی ہیں جو چراغ راہ میں منزل نہیں ہیں۔ چالیسویں گانٹھ کے کھلنے کا میں بڑی بےتابی سے انتظار کررہا ہوں۔
کتاب کے اختتام پر شاہد الاسلام صاحب لکھتے ہیں۔ ”دہلی میں اردو صحافت کا کردار کبھی قابل رشک ہوا کرتا تھا لیکن آج یہی اردو صحافت بے وزن ، بے اختیار، بے وقار اور بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے۔ بھلا ایسا کیوں نہ ہو کبھی اردو صحافی جام شہادت نوش کیا کرتا تھا لیکن آج۔۔۔۔۔۔ صحافت کی آبرو نیلام ہورہی ہے ۔ مسائل و مشکلات سے گھری اردو صحافت معیاری نقطہ نظر سے وجود کی آخری لڑائی لڑ رہی ہے“۔
”وہ صرف معتبر تھا جو نکلا تھا برملا یہ اور بات ہے کہ لہو تھوکنا پڑا“
لیکن اس کے باوجود شاہد صاحب پر امید ہیں اور اردو صحافت ایسے مسیحا کی منتظر ہے جس کی شرمندہ احسان ہوکر یہ صنف ادب اپنی حرمت، عزت، وقار اور اعتبار کو دوبارہ بحال کرسکے گی۔ بظاہر مستقبل قریب میں اس کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں لیکن اردو صحافت کے دن ضرور پھریںگے۔
کہتے ہیں سکندر ہر فتح کے بعد تاوان جنگ سے ملی ہوئی رقم اپنی فوج میں بانٹ دیا کرتا تھا۔ ایک شام سیلوکس نے اپنے بادشاہ سے پوچھا، حضور والا، آپ نے اپنے لئے کیا رکھا ہے۔ سکندر نے بادلوں سے گھرے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا”امید“ جس پر دنیا قائم ہے۔ جوہر دھڑکتے سینے میں موجود ہے۔ جو ہر خزاں رسیدہ چمن کو گلشن بہار بنادیتی ہے“ مبارک ہو شاہد بھائی۔