محمد علم اللہ
ہم میڈیا سے وابستہ افراد روزانہ ہی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے لاشوں کے انبار ، لوگوں کی دردناک موت ، کٹے پھٹے بدن اور دماغ تک باہر نکل آئے سر دیکھتے ہیں ۔ روزانہ ایسی چیزیں دیکھنے کی وجہ سے یہ معمول کی شئے نظر آنے لگتی ہے ۔ لیکن کبھی کبھی کچھ تصاویر ایسی آجاتی ہیں جو ذہن و دماغ کو ہلا کر کے رکھ دیتی ہیں۔ کل کی ایسی ہی اس تصویر نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ جس میں ایک مجبور و بے بس شوہر اپنی بیوی کے لاش کو کاندھے پر رکھ کر دس کلومیٹر تک پیدل ہی ڈھونے پر مجبور ہوتا ہے اور بے حس و حرکت افراد تماشائی بنے اسے دیکھتے رہتے ہیں۔ میڈیا والے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے تو اسٹوری اہم ہے۔ یعنی آپ گاڑی میں بیٹھ کر دم توڑتی انسانیت کی ویڈیو گرافی کر سکتے ہو ۔ اس کو اس چنگل سے نکالنے کی کوشش نہیں کر سکتے ۔ تف ہے ایسی میڈیا پر اور اور ایسے میڈیا کارکنوں پر ،ایسی اسٹوری پر اور ایسی سوچ پر۔
احساس و جذبہ سے عاری ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں ،جہاں انسانیت مر چکی ہے ۔ یہ تصویر سوالات کھڑے کرتی ہے ہمارے ضمیر پر ۔ پارہ پارہ ہوتی انسانیت پر۔ لوگوں کے مرتے احساس پر اور ان سب سے بھی بڑھ کر دم توڑ چکے اس نظام پر جس میں ایک غریب کو اپنی بیوی کی میت کو لے جانے کے لئے ایک عدد گاڑی بھی نہ مل پا تی۔ جب کہ اسی ملک میں دو ٹکے کے جاہل لیڈران کے قافلے کے لئے بھی انتظامیہ منٹوں میں سرکاری گاڑیوں کی قطار لگا دیتی ہے۔ ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں ؟ جہاں ایک غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں