کانوں کو بھلی لگنے والی تقریر
محمد علم اللہ
ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سر براہان اپنے اپنے عوام کو کس طرح بے وقوف بناتے ہیں؟ اور عالمی برادری کے درمیان اپنی شبیہ کس طرح بہتر سے بہتر دکھانےکی کوشش کرتے ہیں ؟ اس کا اندازہ گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور بعد ازاں ہندوستان کے وزیر خارجہ ششما سوراج کا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں کل کے خطاب سے لگایا جا سکتا ہے۔
میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے تعلق سے خطاب یا بیان پر کچھ عرض نہیں کرنا چاہتا ، تاہم ہندوستان کے وزیر خارجہ ششما سوراج نے اندرونِ ملک کے تعلق سے جو باتیں کہی ہیں اسے محض لفاظی سے ہی تعبیر کیا جائے گا ۔ محترمہ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ٹکاو ترقی کا جو ہدف دو ہزار تیس تک کے لئے بنایا تھا اس ہدف کو ان کی حکومت نے تقریبا دو سال میں ہی مکمل کر لیا ۔مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا صفائی مہم کے تحت پورے ملک کے چار لاکھ سے زائد اسکولوں میں بیت الخلا بنایا گیا ،ملک میں میک ان انڈیا کا اعلان ہو رہا ہے۔ جن دھن یوجنا جو دنیا کی سب سے بڑی غریبوں کو فائدہ پہنچانے والی مالی اسکیم ہے کے تحت پچیس کروڑ غریب لوگوں کے بینک اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں ۔ آج عالمی منڈی میں اقتصادی کساد بازاری کے باوجود بھی ہندوستان ایک بڑی اور مضبوط معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
محترمہ کی تقریر سُن کر سوچ رہا ہوں یہ سب کہاں ہو رہا ہے محض کاغذ میں یا سرکاری فائلوں میں۔محترمہ نے دہشت گردی کو بڑھا دینے والے ممالک اور انسانیت کے خلاف اقدام کرنے والی قوموں کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کر دینے کی بھی بات کی ، یہ تو یقینا اچھی بات ہے لیکن اس بارے میں کیا کہا جائے کہ خود ہمارا ملک فلسطین میں ظلم و بر بریت کا ننگا ناچ ناچنے والے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے، اس سے دفاعی معاہدے کرتا ہے ، اسلحہ خرید کر اس کو مضبوط بناتا ہے، اور تو اور اس ظلم کے خلاف جو اسرائیل نے فلسطین میں نصف صدی سے برپا کیا ہوا ہے، آواز اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کرتا ۔
بلاشبہ ایسی تقریریں کانوں کو سننے میں بھلی لگتی ہیں، اور ایسی تقریر لکھنے اور کرنے والے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، لیکن اسے بھی زیادتی سے ہی ہو تعبیر کیا جائے گا کہ ہم ایسی باتوں کو من و عن قبول کر لیں ۔
محمد علم اللہ
ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سر براہان اپنے اپنے عوام کو کس طرح بے وقوف بناتے ہیں؟ اور عالمی برادری کے درمیان اپنی شبیہ کس طرح بہتر سے بہتر دکھانےکی کوشش کرتے ہیں ؟ اس کا اندازہ گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور بعد ازاں ہندوستان کے وزیر خارجہ ششما سوراج کا اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں کل کے خطاب سے لگایا جا سکتا ہے۔
میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے تعلق سے خطاب یا بیان پر کچھ عرض نہیں کرنا چاہتا ، تاہم ہندوستان کے وزیر خارجہ ششما سوراج نے اندرونِ ملک کے تعلق سے جو باتیں کہی ہیں اسے محض لفاظی سے ہی تعبیر کیا جائے گا ۔ محترمہ نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ٹکاو ترقی کا جو ہدف دو ہزار تیس تک کے لئے بنایا تھا اس ہدف کو ان کی حکومت نے تقریبا دو سال میں ہی مکمل کر لیا ۔مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا صفائی مہم کے تحت پورے ملک کے چار لاکھ سے زائد اسکولوں میں بیت الخلا بنایا گیا ،ملک میں میک ان انڈیا کا اعلان ہو رہا ہے۔ جن دھن یوجنا جو دنیا کی سب سے بڑی غریبوں کو فائدہ پہنچانے والی مالی اسکیم ہے کے تحت پچیس کروڑ غریب لوگوں کے بینک اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں ۔ آج عالمی منڈی میں اقتصادی کساد بازاری کے باوجود بھی ہندوستان ایک بڑی اور مضبوط معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
محترمہ کی تقریر سُن کر سوچ رہا ہوں یہ سب کہاں ہو رہا ہے محض کاغذ میں یا سرکاری فائلوں میں۔محترمہ نے دہشت گردی کو بڑھا دینے والے ممالک اور انسانیت کے خلاف اقدام کرنے والی قوموں کو عالمی برادری سے الگ تھلگ کر دینے کی بھی بات کی ، یہ تو یقینا اچھی بات ہے لیکن اس بارے میں کیا کہا جائے کہ خود ہمارا ملک فلسطین میں ظلم و بر بریت کا ننگا ناچ ناچنے والے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے، اس سے دفاعی معاہدے کرتا ہے ، اسلحہ خرید کر اس کو مضبوط بناتا ہے، اور تو اور اس ظلم کے خلاف جو اسرائیل نے فلسطین میں نصف صدی سے برپا کیا ہوا ہے، آواز اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کرتا ۔
بلاشبہ ایسی تقریریں کانوں کو سننے میں بھلی لگتی ہیں، اور ایسی تقریر لکھنے اور کرنے والے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، لیکن اسے بھی زیادتی سے ہی ہو تعبیر کیا جائے گا کہ ہم ایسی باتوں کو من و عن قبول کر لیں ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں