بدھ، 19 فروری، 2014

ابھیجیت کی اسیری کاقصہ


محمد علم اللہ اصلاحی 
یہ کہانی ہے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے گریجویٹ ابھیجیت کی۔ساکن بنڈوتھانہ رانچی کے ابھیجیت رہائی کے بعد ٹیچر بن کر نونہالوں کو بہتر زندگی کا سبق دینے کی خواب سجائے ہوئے ہیں۔ان کی عمر تقریبا 30سال کی ہوگی ،انھیں دفعہ 302یعنی قتل کئے جانے کے جرم میں عمر قید کی سزا ملی ہوئی ہے۔اورتب سے یعنی 1998سے یہ اپنے رہائی کے ایک ایک دن کا انتظار کر رہے ہیں،جھارکھنڈ کے کھونٹی جیل میں بھی کئی سال گذارچکے ابھیجیت کو 2002 میںبرسا منڈا جیل لایا گیا تب سے اب تک وہ یہیں ہیں، جیل میں رہتے ہوئے انھیں تقریبا 13 سال ہوچکے ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے ان سے ان کے جرم کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا یہ ایک حادثہ تھا، میرے چچا اور ان کے لڑکے آپس میں لڑائی کر رہے تھے، اسی درمیان دھکا مکی میں میرے چچا کے سر پر چوٹ آئی اور وہ چوٹ ان کے لیے موت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور چونکہ وہ خود ایک سال کی سزا پا کر جیل سے باہر آئے تھے، ایک سال پہلے انہوں نے اپنے لائسنس بندوق سے میرے والد کو مارا تھا اس لیے وہ جیل گئے تھے جب ان کا انتقال ہوا تو میرے چچا زاد بھائیوں نے مجھے پھنسا دیا کہ میں نے ان سے والد کا بدلہ لیا ہے، مجھے آج بھی یاد ہے وہ جنوری کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا۔
ہم نے جب پوچھا جیل اور اس سے باہر کی زندگی میں کتنا فرق ہے تو کہتے ہیں بہت فرق ہے، باہر کی زندگی سے جیل کی دنیا کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے، یہاں روزانہ کا بندھا ٹکا اصول ہے جسے آپ کو ہی کرنا ہے، نہیں تو جائیں گے کہاں، باہر دوستوں کے ساتھ گھومنا، خوش گپیاں کرنا ، من پسند کھانا کھانا، کھیلنا سب جیل میں نصیب نہیں ہونے والا،باہر کی دنیا ہی الگ ہے۔
ابھیجیت جیل میںاپنی روزانہ کی مشغولیت کے بارے میں بتاتے ہیں’ صبح 6 بجے اٹھ جاتے ہیں، نہا دھو کر اور دوسری ضروریات سے ہوکر ناشتہ کرتے ہیں، 7 سے 8:30 تک فٹ بال کھیلتے ہیں، پھر کلاس کی تیاری شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہاں پر پہلے کلاس سے لے کر بی اے تک کلاسیں ہم ہی دیکھتے ہیں اس لئے 9 ساڑھے 9 بجے تک کلاس پہنچ جانا پڑتا ہے، کلاسیں تقریبا دو بجے تک چلتی ہیں، کھانا تو صبح ہی مل جاتا ہے اسی کو لے کر رکھ لیتے ہیں دیر سے کھانے کی عادت ہے اس لئے دو بجے کے بعد ہی کھانا کھاتے ہیں، اس کے بعد کمپیوٹرلیب چلے جاتے ہیں (جس میں 34 سے 35 کمپیوٹرہیں) ساڑھے تین تک کمپیوٹر کلاس ہوتی ہے، کمپیوٹر کلاس جب ختم ہو جاتی ہے تو تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں اس کے بعد گھومنے کے لیے نکل جاتے ہیں، پھر شام 4 بجے آفس جاتے ہیں جہاں خط اور دیگر چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں، 6 بجے سے پہلے کمرے میں آ جاتے ہیں کیونکہ 6 بجے وارڈ بند کر دیا جاتا ہے، 6 بجے کے بعد چاہے تو اپنے کمرے میں مطالعہ کرتے ہیں یا پھر کوئی سیریل وغیرہ دیکھتے سو جاتے ہیں۔ہم نے ا ن سے پوچھا جیل آنے سے قبل جیل کے بارے میں آپ کے ذہن میں کیا خاکہ تھا تو کہتے ہیںیہاں آنے سے پہلے جیل کے بارے کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ہاں فلموں میں تو دیکھا تھا، اخباروں میں بھی ایک دو چیزیں پڑھی ہوگی لیکن کچھ یاد نہیں ہے۔اچھا فلموں میں جو کچھ دکھایا جا تا ہے جیل کے بارے میں اس میں کتنی فیصد صداقت ہوتی ہے تو ابھیجت کہتے ہیں،فلموں میں جیل کے بارے میں جو کچھ بھی دکھایا جاتا ہے، اس میں سچائی تو ہے، لیکن جو ماحول دکھایا جاتا ہے جیسے قیدیوں کے ساتھ ظلم اور مار پیٹ وغیرہ، ویسا جیل میں نہیں ہوتا، جیل آنے کے بعد تو آدمی ایک طرح سے محفوظ ہو جاتا ہے. یہاں مارپیٹ نہیں ہوتی ہے، لیکن اکثر فلموں میں یہی دکھایا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔ان کا ماننا ہے کہ فلمیں کرائم کو بڑھا دیتی ہیں اس لئے اس معاملہ میں محتاط رویہ اپنانا چاہئے اور کرائم سے متعلقہ چیزیںیا اس کی تفصیلات قطعا نہیں دینی چاہئے اس سے بچوں کے علاوہ عام لوگوں کے ذہن میں بھی بہر حال برا اثر پڑتا ہے۔اور انسان غیر ارادی طور پر اس سے سیکھتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے یہ بات بالکل کہی جا سکتی ہے کی فلمز کرائم کو فروغ دیتی ہے۔ہم نے پوچھا تو کیسی چیزیں بننی چاہئے فلموں میں تو کہتے ہیں بہت ساری چیزوں کو دکھایا جا سکتا ہے، قانون کی پیچیدگیوں کو دکھایا جا سکتا ہے، ایک بھراپورا خاندان ایک آدمی جیل میں کس طرح ختم ہو جاتا ہے اسے دکھایا جا سکتا ہے الغرض پوری ایک دنیا ہے بہت ساری چیزوں پر کام ہو سکتا ہے۔خود کس طرح کی فلمیں بنانا پسند کریں گے تو کہتے ہیں لوگوں کے اوپر psychological اس کا اثر کیسے پڑتا ہے اسے دکھانا پسند کرونگا۔
جیل میں لڑائی جھگڑ ا جیسا کہ عموما فلموں وغیرہ میں دکھایا جاتا ہے اس بارے میں ان کا کہنا تھا بے شک کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خطرناک ثابت ہو جاتی ہیں جو لڑائی کی شکل اختیار کر کے جان لیوا حادثہ تک پہنچ جاتی ہیں۔قیدیوں کے بارے میں عام طور پر جیل سے باہر ایک غلط امیج ہے اس بارے میں وجوہات جاننے کے لئے جب ہم نے ان کی  رائے جاننی چاہی تو ان کا کہنا تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہے، یہ غلط بات ہے جو باہر پھیلی ہوئی ہے، بغیر وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جو جتنا بڑا مجرم ہے جیل میں اسے اتنی ہی عزت ملتی ہے یہاں ایسا نہیں ہوتا ہے! بلکہ ایسے مجرم کی حقیقت سامنے آتی ہے تو لوگ اس سے نفرت ہی کرتے ہیں،. ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایسے لوگ جیل میں قیدی بچوں جو عمر میں چھوٹے ہوتے ہیں سگریٹ، بیڑی اور اسی طرح چھوٹی موٹی چیزیں دے کر اپنا کام کرتے ہیں یہ لوگ ایسے بچوں کا استحصال بھی کرتے ہیں کئی بار بچوں کے ساتھ اپنی جنسی خواہش بھی بجھاتے ہیں لیکن ایسی خبریں باہر لیک نہیں ہوتی، اگر پتہ بھی چل جائے تو جیل باہر نہیں جانے دیتی ایسی خبروں کو کہ انتظامیہ کی بد نامی ہوگی۔جیل میں میڈیا والوں کی آمد کی بابت ابھیجت کہتے ہیں یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا چاہئے میڈیا سے وابستہ لوگوں کو بھی آنے کی اجازت ملنی چاہئے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ جیل کے اندر کیا ہے۔جیل کی پہلی رات بڑی دقت طلب ہوتی ہے اس بارے میں ابھی جیت کہتے ہیں بہت آدمی تو خود ہی سہمے رہتے ہیں، وارڈ میں چلے جانے کے بعد کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو پیار کرتے ہیںکئی لوگ تو روتے ہوئے جیل سے جاتے ہیں۔جی جب پہلی بار انسان جیل میں آتا ہے تو اسے ایڈجسٹ کرنے میں کافی وقت لگتا ہے، کھانے پینے میں بھی کافی پریشانی ہوتی ہے، خاص طور سونے کے لئے کافی پریشانی ہوتی ہے، شروع شروع میں جیسے نیند ہی نہیں آتی۔ابھیجیت اپنے گھر مان باپ ،بھائی بہن سب کو بہت یاد کرتے ہیں کہتے ہیں ،گھر کی یاد تو بہت آتی ہے،جب بھی خالی ہوتے ہیں گھر ہی یاد آتی ہے پتہ نہیں کیا تبدیلی آئی ہے۔جیل میں اصلاح کے امکانات کی بابت ابھیجیت کی رائے ہے کہ 80 فیصد لوگ راہ راست پر آ جا تے ہیں۔اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس بارے میں ابھیجیت کہتے ہیں ہم سوچتے ہیں دکھ کے دن ہمیشہ نہیں ہوتے، آج نہیں تو کل سکھ کے دن آئیں گے، دکھ تو سب کے ساتھ آتا ہے لیکن آپ اس کو کس طرح کاٹ لیتے ہیں در اصل فن یہی ہے۔

1 تبصرہ جات:

Dohra Hai نے لکھا ہے کہ

ابھیجت کی باتوں سے بہت کُچھ نیا سیکھنےاورسمجھنے کومِلا