جمعہ، 8 فروری، 2013

عالمی کتاب میلہ اور پاکستانی اسٹالس


عالمی کتاب میلہ اور پاکستانی اسٹالس

 محمد علم اللہ اصلاحی

آج دہلی میں منعقدہ عالمی کتاب میلہ میں جانے کااتفاق ہوا۔میں بطور خاص پاکستانی بکس اسٹالس میں بہت امیدوں کے ساتھ گیا کہ کچھ کتابیں خرید سکوں لیکن بہت مایوسی ہوئی۔ اکثر اسٹالوں میں وہی جنت کی کنجی،بہشتی زیور،پنج سورہ،پاکستانی سولہ سورہ ،وہابی ازم ایک فتنہ،بریلویوں کا پوسٹ مارٹم وغیرہ جیسی کتابیں ملی۔اسے دیکھ کر کافی حیرت ہوئی اور افسوس بھی ۔کچھ کتابیں نئے موضوعات پر تھیں بھی تو اسکی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ خریدنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔پھر بھی میں نے قدرت اللہ شہاب صاحب کی شہاب نامہ اورسید عبد اللہ کی اداس نسلیں خریدی ۔ منثورات والوں نے بھی وہی کتابیں اپنے اسٹال میں لگائی تھیں جو مرکزی مکتبہ بہت پہلے سے چھاپتا اور بیچتا رہا ہے۔کئی کتابوں کے اسٹالس ایسے بھی نظر آئے جو بالکل خالی پڑے تھے تاہم اس پر پاکستانی بک اسٹالوں کے نام درج تھے ۔ پاکستانی انا ہزارے یعنی طاہرالقادری کی تصویر بھی ایک بک اسٹال میں نمایاں انداز میں آویزاں نظر آئی۔معلوم ہوا کہ موصوف کے ادارہ سے شائع ہونے والی کتابوںکا یہ اسٹال تھا جہاں بے چارے کتب فروش جھک مارتے نظر آئے(شایدمکھی ومچھر کی کمی کابھی یہاں انہیں بہت زیادہ احساس ہورہا ہوگاکہ لوگ خالی اوقات میںمچھرمار کر اور مکھیاں بھگا کراپنے اوقات صرف کرلیاکرتے ہیں)۔پتہ نہیں یہ اسٹال ہندوستانیوں کو کیوںمتوجہ نہیں کرسکا،حالانکہ ان کے عقائد کے ماننے والوںکی ایک کثیر تعدادیہاں بھی موجود ہے۔شاید پچھلے زمانہ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے طاہرالقادری کی ملاقات اور مصافحہ و معانقہ کا یہ اثررہاہوگا یاپھراسلام آباد کو تحریر اسکوائر میں بدل ڈالنے کا خواب سجانے والے روحانی مبلغ کی اپنے مشن 
میں ناکامی کا شاخسانہ کہ اس اسٹال پر”ہو کا عالم“دیکھنے کو ملا۔

بزم قلم والوں نے جگہ نہیں دیا ۔  بزم قلم میں شائع اس تاثر پر اشرف کمال صاحب کے ایک اعتراض کا جواب ،جسے : نوٹ
 اشرف کمال صاحب
تسلیمات

آپ کا جواب دیکھا محترم سچ بتاں آپ کے یہاں ایسا ہوتا ہوگا، ہمارے یہاں تو ایسا کوئی بھی رواج نہیں ہے ۔یہ واقعی کتاب میلہ ہے یا نہیں ،دیکھنا یا جاننا چاہتے ہیں تو خود یا کسی ایلچی کو بھیج کر حقیقت حال معلوم کر لیجئے ۔ہمارے یہاں کتاب میلوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔یہ آپ کے یہاں کی طرح کسی کمپنی کی مشہوری کے لیے فٹ پاتھ پہ سجا عالمی کتاب میلانہیں بلکہ ستر کی دہائی سے لگاتار جاری23واںعالمی کتاب میلہ ہے۔ یوں تو ہندوستان میں ہر سال کتاب میلے لگتے ہیں لیکن یہ وہ عالمی میلہ ہوتا ہے جس کاانعقادہر دوسرے سال. 38300 مربع میٹر پر مشتمل دہلی کے پرگتی میدان میںمنعقدکیا جاتا ہے۔ آپ کے علم کے لئے عرض کر دوں کہ دہلی کایہ عالمی کتاب میلہ فرینک فرٹ کتاب میلہ اور لندن بک فیئر کے بعد سب سے زیادہ معززاور معتبر مانا جاتا ہے۔یہ ہم نہیں کہ رہے بلکہ دوسروں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔مجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کتاب میلہ کی شہرت کی وجہ ہندوستان کے اشاعتی گھرانوں کا تخلیقی و تحریری معیار ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں شائقین علم و ادب اورکتابوں کا بڑھتا بازاربھی ہے۔آپ سی این این ،رائٹر ،بی بی سی لندن اور الجزیرہ وغیرہ کی رپورٹیں ہی دیکھ یا پڑھ لیتے تو یہ تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ ہندوستان دنیا میں کتابوں کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔شاید اسی سبب پوری دنیا کے ناشروں کی نظرہندوستان کے بازار پر قبضہ کرنے یا پھر وہاں سے منافع کمانے پر لگی ہے۔یہ منظر صرف انگریزی کو لے کر ہی نہیں ہے،اردو،ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کا مارکیٹ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے اور آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ بے سبب ہی نہیں فرینک فرٹ بک فیئرنے ہندوستان کو دو مرتبہ سب سے عمدہ کتابیں چھاپنے کا ایوارڈدے دیا ہے۔اگر میں آپ سے کہوں گا کہ اس وقت ہمارے ملک میں تقریبا بارہ ہزار پبلشر ہیں اور ہر سال تمام زبانوں کو ملا کر تقریبا ایک لاکھ نئی کتابیں چھپ رہی ہیں تو آپ تو مانیں گے نہیں۔ اس لئے اب زیادہ کیا بتاں۔ویسے اس ذیل میںآپ اپنے ملک کے ہی دانشوروں اور اہل علم سے حقیقت جان لیتے،اور پھر کوئی رائے قائم کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔اپنے منہ میاںمٹھوبنناور تخلیقی معیار میں پاکستان کوخود سے منفردشناخت کامالک تصور کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ ذی علم ہستیاں آپ کے مفروضے کو درست نہ قرار دے دیں۔ہندوستان میں بطور خاص اردوکتابوں کی اشاعت کے طویل سلسلوں اور صحافتی سرگرمیوںپر آپ کے ملک سے تعلق رکھتے والے ممتاز دانشور محمود شام کی گہری نظر ہے۔ڈینگیں ہانکنے سے قبل ذرا ان کے خیالات جان لیجئے۔موقع نہ ہو کم از کم ان کے یہ دو مضامین ضرور پڑھ لیں،جس کا لنک میں ذیل میں پیش کررہاہوں تاکہ بے عقلی والی باتیں دوبارہ آپ نہ لکھیںاور مجھے تلخ تبصرے کی ضرورت درپیش نہ ہو۔



 ولسلام 
علم اللہ