ہفتہ، 2 فروری، 2013

دہلی میں مسجد نور کے بعد اب غوثیہ مسجد کی شہادت

دہلی میں مسجد نور کے بعد ۔۔۔
غوثیہ مسجد کی شہادت 


محمد علم اللہ اصلاحی

ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر اور جمہوری ملک کہا جاتا ہے۔ سیکولر ریاست کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ایسی ریاست جس میںمذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی کہیںکوئی گنجائش بھی نہ ہو اور ارباب اقتدار کے ذریعہ عملاًکسی بھی مذہب کو نہ تو سرپرستی حاصل ہو اور نہ ہی سرکار اپنے فیصلوں کے اثرو نفوذمیں مذہبی سروکاررکھے۔ ایسی ریاست نہ کسی مذہب کے حق میں اور نہ ہی مخالفت میں قدم اٹھاتی ہو۔لیکن صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے توہمارے یہاں بہت سارے معاملوں میں سیکولرزم محض کاغذوںتک محدود ہے، حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ شاید اسی سبب سے ایک خاص فرقہ کی املاک کو تباہ و برباد کرنا،ان کی مساجد و مقابر کوزمیں بوس کردینا ،ان کی مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنا ،حکومتی سرپرستی میں فسادات کروانا ، ان کے بچوں کو زندہ جلا دینا ،ان کی خواتین کے ساتھ سر عام بد تمیزی اور عصمت کو تار تار کرنا ،ان کے بے قصور نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دینااور ہر طرح سے انھیں ہراساں و پریشاںکر ان کی زندگی کا قافیہ تنگ کردینا معمول کا حصہ بن گیا ہے۔حکومتیں اس طرح کا گھٹیا کام کرتے ہوئے ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتیں، اس طرح کا کام کرتے ہوئے انھیں نہ تو عدالتوں کا ڈر ہوتا ہے اور نا ہی انسانیت کا غم ۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد تابڑ توڑ فسادات سے ابھی یہ قوم ابھر بھی نہیں پائی تھی کہ ایک مرتبہ پھر اس قسم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ابھی حال ہی میں دھولیہ میں اسی قسم کے ایک فساد کے بعد جس میں 5مسلمان پولس کے ذریعہ یک طرفہ کا روائی میں بھون دئے گئے ۔وہیں تمام قوائد و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے راجدھانی دہلی میں ایک اور مسجد شہید کر دی گئی ۔سخت سردی میں غیر قانونی کالونیوں کے نام پرانہدامی کاروائی کے سبب تین لوگوں کی جانیں تلف ہو چکی ہیں لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔حیرت یہ بھی ہے کہ ایسے موقع پربھی مسلمان ،ان کے ذمہ داران اور ان کی تنظیمیں اتحاد کا ثبوت دینے کے بجائے ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں ۔ میڈیا نے بھی حسب معمول اس خبر کو اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا اور ڈی ڈی اے کے ذریعے بغیر کسی اطلاع کے5 دسمبر2012کو غوثیہ کالونی (خسرا نمبر 217مہرولی) میں انہدامی کارروائی کی ابتدا کے بعد 12دسمبر 2012کو 400سال پرانی مسجد ،سیکڑوں قبریں اور درگاہوں کو بھی مسمار کردیا گیا

آج تک کالونی والے کھلے آسمان کے نیچے اس کڑکڑاتی سردی میں جینے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ ایک مہینہ میں سردی کی وجہ سے تین لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور کئی لوگ زیر علاج ہیں۔جو مسجد منہدم کی گئی ہے حقیقت میں وہ آثارِ قدیمہ سے متعلق ہے لیکن اپنی روایت کے مطابق ڈی ڈی اے معاملہ کی لیپا پوتی میں لگ گیا ہے اور اب تو اس قسم کی بھی باتیں کی جانے لگی ہیں کہ ہم نے آثارِقدیمہ والی مسجد منہدم نہیں کی ہے بلکہ غلطی سے صرف ایک طرف کی دیوار ٹوٹ گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈی ڈی اے نے چھت سمیت پوری مسجد شہید کر دی ہے ،صرف ایک دیوار باقی ہے۔ سردی میں جہاں دہلی سرکاربے گھر لوگوں کو سر چھپانے کے لئے انتظام کر رہی ہے ،وہیں دوسری طرف اسی سرکارنے برسوں سے گھر بناکر رہ رہے لوگوں کے سر سے چھت چھین لیاہے۔پولس والے ڈنڈے کی زور پر ان کے لحاف اور بستر تک چھین لے جاتے ہیں ۔

خبروں کے مطابق ستمبر میں ڈی ڈی اے نے اس زمین کو خالی کرانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد وقف بورڈ کی طرف سے اس کومکتوب ارسال کیا گیا تھا کہ یہ قدیم قبرستان ہے۔ اس لئے اسے ایسے ہی رہنے دیا جائے۔ اس پر توجہ دیئے بغیر ڈی ڈی اے نہ صرف اندھا دھندانہدامی کاروائی نجام دیتے ہوئے تمام جھگیوں اور جوبھی رہائشی شکل کے مکانات تھے ،سب کو تباہ کر دیا بلکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے بے شمار قبور کی توہین کی اور انہیں منہدم کر دیا۔ قبریں اندر سے اکھاڑ کر ان کے نشان بھی زمیں بوس کر دئے۔ انھوں نے اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اس علاقہ کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ ان میں ان بزرگان عظام کی قبریں بھی ہیں جنھوں نے مذہب و ملت سے پرے ہندو مسلم کے درمیان بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیاتھا ۔لیکن افسوس یہاں ساری چیزوں کو ملیا میٹ کر دیا گیااور مسجد و قبرستان سمیت بہار شریف میں مدفون بزرگ حضرت یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر اور مرشدحضرت نجیب الدین فردوسی کی سات سو سال پرانی قبرپر بھی بلڈوزر چلا دیا جس کا ذکروقف بورڈ کے 1980 کے گزٹ میں بھی موجودہے۔


ڈی ڈی اے کی نگاہ تو اس زمین پر پہلے سے ہی تھی۔ اس کا یہ کہنا کہ ہم نے یہ زمین پہلے ہی اکوائر کر لی تھی اور اب تو ہم صرف غیر قانونی قبضہ ہٹا رہے ہیں اس حد تک درست ہے جب اس پر متبرک مزار، درگاہیں، قدیم قبریں اور مسجدنہ ہوں۔ بتایا جاتا ہے کہ 1957 میں ہی یہ زمین حکومت نے ایکوائر کر ڈی ڈی اے کودے دی تھی۔ وقف بورڈ نے کئی مرتبہ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانی چاہی لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ یا حل نہیں نکل سکا۔ ایک مقدمہ درگاہ کے متولی کی طرف سے ہوا کہ قبرستان ان کی تولیت میں ہے لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیااور کہا کہ وہاں موجود قبروں کو چھوڑ کر باقی زمین ڈی ڈی اے کی ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ڈی ڈی اے نے اپنی کارروائی میں قبروں اور وہاں موجود غوثیہ مسجدتک کو نہیں چھوڑا۔یہ مسجد ایک قناتی شکل میں تھی جسے گزشتہ تیس چالیس سالوں میں مسلمانوں نے باقاعدہ مسجد بنا کر اس کا نام مسجدغوثیہ رکھ دیا تھا اور وقف بورڈ نے باقاعدہ اسکے لئے تنخواہ دار امام بھی مقررکیا ہوا تھا ۔


یہاں بات بات صرف مسجد اورقبروں کو شہید کر دینے تک محدود نہیں ہیبلکہ ڈی ڈی اے نے ایک ہزار خاندانوں کو سردی کے سخت موسم میں بے گھر کر دیا۔ یہ ڈی ڈی اے سے کی جانے والی سب سے بے رحم کارروائی تھی جسے غیر ضروری عمل قرارددیکر ان کی باز آبادکاری کے اقدامات کئے جانے چاہئے تھے۔مگر تا ہنوز ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایک طرف توکانگریس کہتی ہے کہ ہم لاکھوں غریب لوگوں کے لئے گھر بنا رہے ہیں یا جو لوگ سردی میں سڑک پر سو رہے ہیں، ان کیلئے رین بسیرا بنا رہے ہیں دوسری طرف جن لوگوں کے سرجھگیاں چھپائے تھیں ان کے سر سے چھت چھین لی اور سردی کے اس موسم میں لوگوں کو آسمان کے نیچے ڈال دیا۔لیفٹیننٹ گورنرکی جانب سے ایک مذہبی کمیٹی قائم ہے جس کے سامنے اس طرح کے تمام معاملات رکھے جاتے ہیں۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس معاملہ میں اس کمیٹی سے رابطہ تک کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ دہلی وقف بورڈ کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاناچاہئے وہ غلطی پر ہیں۔ زمین ایکوائر کے 53 سال بعداب فیصلہ ڈی ڈی اے کے حق میں ہونے کے زیادہ امکان ہیں ۔ پہلے جو متولی عدالت گئے انہیں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مسلمانوں کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ایک طرف تو ڈی ڈی اے دھیرے دھیرے ان کی زمین کو ہضم کرنے میں لگا ہے وہیں جب خود مسلمانوں سے کچھ بد روزگارو بد قماش افراد ان کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ جب یہ زمین ایکوائر کی جا رہی تھی اور نہ ہی گزشتہ 53 سال میں زمین کو ڈی ڈی اے سے واپس لینے کی کوشش یا اقدامات کئے گئے ۔دھیرے دھیرے خسرہ نمبر 217 کے عظیم قبرستان پر مسلمانوں میں سے کئی لوگوں نے جھگیاں بنا لیں۔ خبروں کے مطابق دلی میں سر چھپانے کے لئے جگہ تلاش کرنے والے غریبوں کو جھگیاں حال کے دنوں تک ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے میں دی جاتی رہیں اس وقت بھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔


اس ملک میں نہ جانے کتنی ایسی وقف املاک ہیں جن پر ناجائز سرکاری اور غیر سرکاری قبضہ ہے۔مذکورہ’مسجد‘ وقف کی زمین پر تھی‘ وقف ذمے داران کو اب تک یعنی گذشتہ 35 برسوں میں ساری دقتیں اور الجھنیں حل کر لینی چاہئے تھیں۔ بھلا اس طرح کے لاپرواہ وقف ذمے داران کو کب تک مسلمان برداشت کرتے رہیں گے۔مسجد کی شہادت سے رنجیدہ مسلمانوں کے زخموں پر اب نمک پاشی بھی شروع کردی گئی ہے۔مسجد کی شہادت کا جوا ز تلاش کیا جارہا ہے۔ ایک گروپ کا یہ کہنا ہے کہ ہندوانتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی سے اٹھے شوروغل کو دبانے کے لئے اورانتہا پسند ہندؤں کی توجہ ہٹانے کے لئے کانگریس نے مسلمانوں کی مسجد شہید کرائی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کے جِن اور اپنی بدعنوانیوں پر سے توجہ ہٹانے کی یہ کوشش ہے۔مسلمانوں کا سوال ہے کہ توجہ ‘ہٹانے کیلئے کیا مسلمانوں کی مسجد ہی شہادت کے لئے ملی تھی۔


یہاں ایک حقیقت کی طرف مزید توجہ ضروری ہے۔تعصب۔سرکاری اہلکاران اور پولیس کا مسلمانوں کے تئیں تعصب اب ایک دم بے نقاب ہوگیا ہے۔ پہلے یہ بم دھماکوں میں بے نقاب ہوا اور اب دہلی میں مسجد کی شہادت نے اسے بے نقاب کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومتوں اور سیاستدانوں کو پڑی نہیں ہے کہ سرکاری اہلکاران اور پولیس والوں کے ذہنوں کوخبث اور تعصب سے پاک کیا جائے اور پڑی بھی کیوں ہوگی ان کے ذہن جو خود تعصب کے زہر سے مسموم ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں اور جماعتیں مل کر انتخابات کی تیاری میں مصروف کانگریس کواپنی طاقت اور حیثیت دکھا دیں تاکہ وزیر اعلی اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو فکر بدلنے پر مجبورکیا جا سکے اور ڈی ڈی اے سے کہا جائے کہ پبلک انٹرسٹ میں مہرولی میں خسرہ نمبر 217 کی زمین واپس اس کے اصل مالکان کو بھیجی جا رہی ہے۔ ایسانہ کر اس مسئلہ کو مسلکی رنگ دینامسجد کی آڑ میں اپنی روٹیاں سینکنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔حکمت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان متفقہ طور پر حکومت کوبتائیں کہ مسجد، درگاہ اورقبور کی شہادت برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت نے 53 سال پہلے خسرہ نمبر 217 کی زمین لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت ہی عوامی انٹرسٹ میں زمین لوٹا سکتی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہم متحد ہوں۔