پیر، 17 مارچ، 2014

کیوں مانگا جاتا ہے بار بار ہم سے وطن پرستی کا ثبوت؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
ابھی حال ہی میں ہندوستان پاکستان میچ کے بعد ملک میں جس قسم کے حالات پیدا ہوئے اس نے سنجیدہ طبقہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک کس راہ پر گامزن ہے ۔اولا اترپردیش کے شہر میرٹھ کی سوامی ویویکا نند سوبھارتی یونیورسٹی سے چھپن کشمیری طلبہ کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی پذیرائی کرنے اور پاکستانی بلے بازوں کی ستائش پر تالیاں بجانے کی پاداش میں ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔اور یونیورسٹی سے معطل بھی کر دیا یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی طور پر جگ ہنسائی کے بعد مقدمہ واپس بھی لے لیا گیا ۔ابھی یہ معاملہ پوری طرح حل بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی قسم کا ایک اور واقعہ پیش آیا اور میرٹھ یونیورسٹی کے رویہ پر ہی گامزن کچھ شر پسند طلبہ کے مطالبہ کے بعد شادرا یونیورسٹی گریٹر نویڈا سے چھہ طلبہ کو ہاسٹل سے بے دخل کیا گیا میڈیائی رپورٹوں کے مطابق جن چھ طالب علموں کو ہاسٹل سے نکالا گیا ہے ان میں چار کشمیر کے ہیں جبکہ دو کا تعلق اتر پردیش سے ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہندوستان پاکستان میچ کے بعد خصوصاً اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔اس سے قبل بھی صرف اسی طرح کے میچ کو بہانا بناکر کئی ریاستوں میں فساد کراکر مسلمانوں کے سرمایہ کو تباہ برباد کرنے کی سازش کی گئی ہے ۔تو کئی جگہ ہندو مسلم تشدد کے واقعات ہوئے ہیں ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ بعض عناصر مستقل فیس بُک اور اسی طرح سوشل میڈیا کا سہارا لے کر تشدد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے عناصر بہت تھوڑے ہیں لیکن ان کی حرکتوں سے پورے ملک کی بد نامی ہوتی ہے ،اور ان کی شرارتوں کی وجہ سے پوری قوم کو دکھ ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان میچ نہ ہو وہ ہی بہتر ہے ۔ 

اس مرتبہ بھی اس میچ کو لیکر سوشل سائٹوں پرغیر سنجیدہ تبصرے اور غیر متوازن تحریریں پیش کی گئی ہیں ،ان میں مستقل مسلمانوں کے اوپر ان کی قومیت اور ملک سے محبت پر سوال اٹھائے گئے ہیں ۔بعض نوجوانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دینے کی کوشش کی گئی ، بعض جواب ایسے بھی دئے گئے جن کا موضوع سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،مثال کے طور پر ایک نو مسلم ’’ٹھاکر ایم اسلام ونئے ‘‘ نے اپنے ہندی بلاگ’’ ٹھاکر اسلام ‘‘ نامی بلاگ میں ’’مسلمانوں ہندوستان چھوڑ دو اور پاکستان چلے جاؤ ؟‘‘کے عنوان سے اپنے احساسات کا ذکر کرتے ہوئے ایسے سوالوں کا جواب بھی دینے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں’’ایک صاحب بس میں بیٹھے میری طرف اشارہ کرکے اپنے ساتھیوں سے میرے بارے میں برا بھلا کہہ رہے تھے،میں نے پوچھا ایسا کیوں کہہ رہے ہو بھائی؟ وہ صاحب بولے تم لوگ کھاتے ہو ہندوستان کا اور گاتے ہو پاکستان کا میں نے کہا ایسا آپ سے کس نے کہا وہ بولے ہندوستان اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو مسلمان پاکستان کی تعریف کرتے ہیں جب کہ رہتے ہندوستان میں ہیں۔ میں نے کہا یہ تو کھیل کا اصول ہے جو بہتر کھیلے گا اس کی تعریف ہونی ہی چاہئے کیا انگلینڈ یا ویسٹ انڈیزکے کھلاڑی جب اچھا کھیلتے ہیں تو آپ ان کی تعریف نہیں کرتے ؟ ‘‘

اس کے بعدوہ مزید جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اسلام میں کہا گیا ہے کے وطن پرستی نصف ایمان ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو کیا مسلمان اپنے پیغمبر کی بات نہیں مانیں گے ؟کیا سرحدوں پر مسلمان فوجی جنگ کے دوران کسی سے پیچھے رہتے ہیں ؟ کیاہندوستان کو آزاد کرانے میں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ نہیں دیا؟ ‘‘ پھر وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر کوئی آدمی کسی ملک میں پانچ سال مسلسل رہ لے تو اسے اس ملک کی وطنیت مل جاتی ہے جبکہ مسلمانوں کے ماں باپ دادا پردادا اسی ہندوستان میں پیدا ہوے وہ کسی اور ملک کیوں جائیں گے ؟ جب دنیا میں چار ہی تہذیبیں تھیں یعنی چار جزیرے 1 ۔ وادی دجلہ 2 ۔ وادی نیل3۔وادی فرات 4۔وادی سندھ یہیں پر دنیا آباد تھی نہ ہندوستان تھا نہ ہی کوئی اور ملک اس وقت آریہ آئے تھے دوسرے ممالک سے سندھ وادی پر جس نے بڑھتے بڑھتے بعد میں ہندوستان کی شکل لی کیا آریہ ہندوستان کو چھوڑ کر کسی اور ملک جا سکتے ہیں ؟ ‘‘پھر انھوں نے آگے لکھا ہے ’’ آر ایس ایس کے ایس کے سی سدرشن نے ریٹائر منٹ لینے کے بعد کچھ دن پہلے لکھنؤ میں مسلمانوں کے اجلاس میں کہا تھا کہ ثقافت کبھی نہیں لڑتی ہمیں لڑاتی ہے تو صرف سیاست۔وہ لوگ میرا منہ دیکھ رہے تھے‘‘۔

اس سلسلہ میں ایک اور بلاگر نور محمد نے اپنے بلاگ میں ایک واقعہ رقم کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں ’’ میرے ماموں بھارت پیٹرولیم میں ملازمت کرتے تھے،کرکٹ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا کبھی بھی میچ نہ دیکھتے تھے،ایک بارہند وپاک کا میچ چل رہا تھا، ان کے آفس ( ڈپارٹمنٹ) میں یہ واحد مسلم شخص تھے۔ تولوگوں نے ان سے کہا کہ سر آج کون جیتنا چاہیئے ماموں جان سمجھ گئے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ان سے پوچھ رہے ہیں۔ اب انہوں نے جو جواب دیا ۔ وہ بہت ہی مزے دار تھا۔ماموں جان ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر آج ہندوستان بمقابلہ پاکستان ہے تو ہندوستان کو جیتنا چاہئے اور اگر یہ مقابلہ ہندو اور مسلمان کے بیچ ہے تو مسلمان کو۔اب کہو تم کس مقابلے کی بات کر رہے ہو۔بے چارے سب اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔آگے انھوں نے لکھا ہے کہ ’’۔ہم ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے وقت میں ہم اگر ہمت سے کام لیں تو ہمیشہ مدمقابل کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔پھر انھوں نے آگے لکھا ہے ’’میرا گمان ہے کہ شاید ہی کوئی ہندی مسلم اس طرح کے سوالات سے بچ پاتا ہوگا۔اسی لئے میں نے اسے شیئر کرنا مناسب سمجھا کہ ہمیں اس طرح کے جذباتی سوالات کا اطمینان بخش جواب دینا آسان ہوجائے۔یعنی سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر ہم ان کے باتوں میں آ کر جذباتی ہو گئے تو پھر ہمیں ہی نقصان ہوتا ہے‘‘۔
نور محمد کا کہنا اپنی جگہ بالکل درست ہے اوراس قسم کے اور بھی کئی واقعات ہیں جن کا اگر میں تذکرہ کرنے لگوں تو صرف اسی پر کئی صفحات لکھے چلے جائیں گے ۔خود میرے ساتھ ایسے کئی واقعات پیش آچکے اورمیں نے کچھ ایسے مشاہدات کیے جنہوں نے مجھے یہ تمام چیزیں لکھنے پر مجبور کیا ۔میرے ایک دوست نے مجھ سے بتایا ’’میں ندوہ میں طالب علم تھا شہر کسی کام سے آیا ۔میں ایک دوکان کے پاس سے گذر رہا تھا جہاں پر کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔کچھ لوگوں نے میرے اوپر کمنٹ کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو (ایک انتہائی غلیظ لفظ جسے میں یہاں نہیں لکھ سکتا)آگیاپاکستانی ۔ مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی میں نے حیرت سے پوچھا کیا ہوا ؟تو وہ لوگ آپس میں یہ کہتے ہوئے ٹھہاکہ مار کر ہنسنے لگے کہ دیکھا کیسا بے وقوف بنا رہا ہے یہ ہم لوگوں کو اور پھر گالیاں ۔۔‘‘چند احباب کی جانب سے اسی قسم کی باتیں سننے اور پڑھنے کے بعد میں نے اپنے بلاگ اور فیس بک میں اسٹیٹس اپڈیٹ کیا تو کئی لوگوں نے میرے اوپر ہی کمنٹ کرنا شروع کر دیا ۔
نو مسلم ونئے کی تحریر کے کے جواب میں برادران وطن کے جانب سے جس قسم کے غلیظ کمنٹ کئے گئے ہیں ۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا ۔تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ وطن پرستی نصف ایمان ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو۔یہ حدیث نہیں ہے۔محدثین نے اسے موضوع قرار دیا جس کی دسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔حدیث حب الوطن من الایمان لا اصل لہ عند الحفاظ (المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ص: 91)اسلام میں وطن پرستی مقدم ہوتی تو نبی کریم کبھی ہجرت نہ فرماتے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان کو فطری طور پر اپنے پیدائشی وطن سے محبت ہوتی ہے اور یہ نبی کریم کو بھی مکہ مکرمہ سے تھی ۔
وطن اور وطنیت کے حوالہ سے پچھلے ایک سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں دونظریے ہیں جن میں سے ایک نظریہ کے علم برداراقبال تھے اور دوسرے کے مولانا حسین احمد مدنی ،میں اس موضوع پر نہیں جانا چاہتا تھا تاہم اپنے ایک ہندو دوست کی جانب سے کہ ہندوستانی مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں کیا یہ ملک کے خلاف نہیں ہے اس سوال کے جواب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معروف پروفیسرکیسونت نے جو جواب دیا وہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں انھوں نے کہا’’ قومیت کے تئیں کسی ملک کے عوام کو مطمئن کرنا اسٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔اگر مسلمان کھیل میں پاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں تو یہ اسٹیٹ کی ناکامی ہے، ان کے ساتھ ظلم اور تشدد کا رویہ اپنایا جاتا ہے اس لئے وہ اس طرح کرتے ہیں۔لیکن اس سے قومیت مجروح ہوتی ہو ،ایسا بالکل بھی نہیں ہے ‘‘۔ پروفیسر کیسونت کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ نہیں اپنایا جا رہا؟کیا انھیں انصاف مل رہا ہے؟ان کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا رہا ہے ؟
ظاہر ہے ایسی صورت حالات میں مستقل طور پر زندگی گذارنے والا انسان جھلاہٹ اور بے بسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اس صورت حال میں ماہرین نفسیات کے مطابق وہ کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے لیکن یہاں پراس بات کی داد دینی چاہیے کہ اب تک مسلمانوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن نا انصافی اور حق تلفی کے احساس کا لاوا ان کے اندرمستقل پک رہا ہے۔اور یہ احساس اور چبھن کا نتیجہ ہے۔جسے آپ احتجاج کی ایک شکل بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کے اور بھی وجوہات ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ مسلمانوں میں ناخواندگی کو بھی اس کی وجہ مانتے ہیں۔ تو کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد شاذ ہیں جوپاکستان کو کرکٹ میں سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی تو اپنی جگہ درست ہے کہ تمام مسلمان پاکستان کو سپورٹ نہیں کرتے ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو ہندوستان کو ہی سپورٹ کرتی ہے۔اس بارے معترضین کچھ کیوں نہیں کہتے۔ پھر ایسے بہت سے غیر مسلم بھی تو ہیں جو پاکستان کو پسند کرتے ہیں ان کو غدار کیوں نہیں کہا جا تا؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے تمل سری لنکن تمل سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں تو اس پر معترضین اپنی زبان کیوں بند کر لیتے ہیں ؟
اس کا جواب معروف ہندی صحافی پر بھاش جوشی اپنی کتاب ’’کھیل صرف کھیل نہیں ہے ‘‘ میں دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’پاکستانیوں میں بھارت کولے کر انتہائی جارحیت دکھائی دیتی ہے وہ طاقت یا اپنی طاقت کے عدم اعتمادکا نہیں ہے وہ در اصل طاقت کی کمی اور اپنے کمزور ہونے کا ڈر ہے ۔کیا ہندوستان کو بھی پاکستان کو لے کر ایسا ڈر ہے؟سب لوگوں میں ہو یا نہ ہو ان لوگوں میں تو ہے ہی جو ہواہوا جیسا شور مچاکر کہتے ہیں کہ ہندو نہیں جاگے تو پاکستان ہندوستان کو نگل جائے گا ۔ایک دوسرے مقام پر یہ ڈر مسلمانوں کی تعداد کو لے کر بھڑکایا جاتا ہے کہ ان میں چار شادیاں نہ روکی گئیں تو دس بیس سال میں اتنے مسلمان ہو جائیں گے کہ ہندو اپنے ہی ملک میں اقلیت ہو جائیں گے چار الگ عورتیں چار الگ آدمیوں سے شادی کریں گی تو زیادہ بچے ہونگے یا ایک آدمی چار بیویاں رکھے گا تو زیادہ بچے ہونگے ۔لیکن جس ملک میں بیاسی فیصد ہندو ہوں اور بارہ چودہ فیصد مسلمان وہاں کیا ہندو کبھی اقلیت ہو سکتے ہیں ؟ لیکن آپ پائیں گے کہ ایسی باتیں پھیلائی جاتی ہیں اور کچھ لوگ ہیں جو ان پر یقین کر لیتے ہیں ۔)مزیدتفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں کتاب کا صفحہ (204‘۔
اس سوال کا جواب ’’رام پنیانی ‘‘نے بھی اپنی کتاب’’ سمپردائک راجنیتی: تتھئے ایوم متھک ‘‘میں لکھا ہے ۔وہ کہتے ہیں ’’کرکٹ راشٹرواد بڑامشکل اور لاینحل عنصر ہے ۔جنوبی افریقہ،امریکہ ،انگلینڈ اور دوسرے دیشوں میں جاکر آباد ہوئے اور وہاں کی شہریت لینے والے ہندوستانی وہاں ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کی جیت پر جشن مناتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے 50سالوں میں مشکل سے ہی کوئی مسلمان پاکستان کے لئے جاسوسی کرتا ہوا پکڑا گیا ہو ۔ابھی حال ہی میں مالوانی بمبئی میں شیو سینکوں نے کچھ مسلمانوں کو پیٹا ۔یہ لوگ کرکٹ میں پاکستان پر بھارت کی جیت کا جشن منا نا چاہ رہے تھے ۔انگلینڈ،افریقہ اور جنوبی افریقہ میں ایسے ہندوستانی ہیں جو وہاں کے باشندے ہیں لیکن اپنے دیشوں میں بھارت کی جیت کا جشن مناتے ہیں ۔کسی ایک کھیل ٹیم سے تعلق اور دل چسپی اپنی پہچان ،دیش بھکتی یاوطن سے غداری کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی ۔ہمیں پوری کمیونٹی کے وسیع رویہ اور سماجی ،معاشی زندگی میں اسکی حصہ داری کو دیکھنا چاہئے اور معاشرے کے تشدد پسند افراد کی طاقت کی بنیاد پر ان کے خلاف فیصلہ سنانے کے بجائے محروم اقلیتوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ‘(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں صفحہ 94۔
ٹیلی ویژن پر کھیل کے دوران اور کھیل کے بعد جب ماہرین تفصیل سے کھیل کے فنی رموز اور اس کے محاسن ونقائص پر اپنی رائیں پیش کرتے ہیں اور کبھی ہندوستان اورکبھی پاکستان کی ٹیم اور ان کے کھلاڑیوں کی تعریف تو کبھی ان پر تنقید کرتے ہیں ، اس وقت بھی ایسے سوالات پیدا کرنے والوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھنا چاہیے کہ یہ لوگ کب محب وطن ہوتے ہیں اور دوسرے ہی لمحہ کب وہ ملک سے غداری کے مرتکب ٹھہر جاتے ہیں، اس طرح کے سطحی رجحانات اگر چہ دیر پا تاثیر نہیں رکھتے لیکن وقتی طورپر ان کے ذریعہ جو فتنہ برپا ہوتا ہے اس کے نتائج بہت دور رس اور بھیانک ہوتے ہیں، اس لیے دانش مندوں کو ان سے پرہیز اور گریز کرنا چاہیے۔


          





          

5 تبصرہ جات:

محمد ریاض شاہد نے لکھا ہے کہ

بہت خوب ، یہ ایک بڑے گروہ کی نفسیاتی کمزوری کا اظہار ہے اور کچھ نہیں

Mohammad نے لکھا ہے کہ

کون سے گروہ اس کی بھی نشاندہی کر دیتے تو اچھا رہتا ۔
آپ کی شاباشی کا مشکور ہوں ۔
والسلام
علم

علی نے لکھا ہے کہ

اس موضوع پر سائنسی تحقیق ہو چکی ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے ایشیائی جو وہاں کے شہری ہیں اپنے پہلے ملک کو ہی سپورٹ کرتے ہیں اور اس میں سیاست اور مذہب سے بالاتر ہو کر یہی نتیجہ نکلا ہے کہ یہ لوگ آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے لیکن ہم برصغیر کے لوگوں کو نجانے کیوں تعصبات میں الجھنا پسند ہے

noor نے لکھا ہے کہ

ایک زبردست تحریر ہے ۔ ۔

مسئلہ تب آتا ہے جب برادرانِ وطن مسلمانانِ بند کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ۔

منصور مکرم نے لکھا ہے کہ

علم اللہ بھائی اچھا لکھا ہے۔
واقعی یہ ایک نفسیاتی بیماری ہی کہلائی جا سکتی ہے۔ہمارے پاکستان میں بھی افغانی کبھی کبھی انڈیا یا دوسرے ملک کو پورٹ کرتے ہین پاکستان کے خلاف،لیکن کبھی انکو کچھ نہیں کہا گیا۔

حقیقت یہی ہے کہ کیل کھیل ہوتا ہے ۔

آپ نے تحریر لکھ کر اچھا کیا۔اس سے ایک تو مسلمانوں کو جواب دینے کی ہمت بڑھے گی، اور دوسری طرف کچھ شعور بھی بیدار ہوگا۔

نیز جن مسلمانوں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے ،انکو بھی ایک لایحہ عمل مل گیا۔