تحریر : دوندر شرما
ترجمہ : محمد علم اللہ اصلاحی
ڈرامہ
بابر کی محبت
کردار
بابر : مغل سلطنت کا بانی ، ہمایوں کا باپ
ماہم : بابر کی بیوی ، ہمایوں کی ماں
ہمایوں : بابر کا بیٹا
مرتضی : طبیب۔
ابوالبقاء : ایک تجربہ کار عالم
آقا ، غلام - لونڈی وغیرہ۔
پہلا منظر
[مقام - آگرہ کا چارباغ۔چاروں طرف مختلف قسم کے پھولوں کے پودے اور بیلیں لگی ہوئی ہیں۔باغ کے درمیان میں بابر کا انتہائی خوبصورت وسیع محل۔ اسی محل کے ایک کمرے میں بابر کا بیٹا ہمایوں بیمار پڑا ہے۔ بیماری آہستہ آہستہ بگڑتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہمایوں کی زندگی کی امید بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ بابر اس وقت آگرہ سے باہر دھول پور میں ہے۔ہمایوں کی بیماری کی خبر ملتے ہی وہ آگرہ کا قصد کرتا ہے۔
دوپہر کا وقت ہے۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا ہے اور ماحول سے اداسی ٹپک رہی ہے۔ باغ میں داخل ہوتے ہی وہاں کے سناٹے سے بابر شدید تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے آتے ہی محل میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ وہ بغیر رکے سیدھا اس کمرے میں پہنچ جاتا ہے جہاں ہمایوں محو استراحت ہے۔ ماہم بیگم اور ہمایوں کی ماں اس کے پلنگ کے سرہانے یا پائنتی کی طرف بیٹھی ہے اور تفکر کی پرچھائیں اس کے چہرے سے ہویدا ہے۔ بابر کو دیکھتے ہی وہ چپ چاپ سر جھکا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ بابر ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ہے اور پھر ہمایوں کے بستر کے قریب جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اسے ایک ٹک دیکھتا رہتا ہے۔]۔
بابر: [ہمایوں کے سر پر آہستہ سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دھیمی آواز میں ] بیٹے ! بیٹے ! [ ہمایوں آنکھیں بند کئے بے سْدھ پڑا ہے ، کوئی جواب نہیں دیتا۔ (جواب نہ ملنے پر بغور بیٹے کو دیکھتے ہوئے )بابر اس کی طرف ذرادھیان سے دیکھ کر ماہم کو بغل کے کمرے میں چلنے کااشارہ کرتا ہے۔ ماہم اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ ] [ ماہم سے ] ایسی حالت کب سے ہے ؟
ماہم: مایوسی بھرے لہجے میں ] سات دنوں سے۔
بابر:طبیب صاحب کیا کہتے ہیں ؟
ماہم:کچھ صاف کہتے نہیں ، لیکن جیسے اندر سے وہ بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔
بابر:ابھی وہ کہاں ہیں ؟
ماہم:تھوڑی ہی دیر ہوئی ، دوا دے کر کھانا کھانے گئے ہیں۔ صبح سے یہیں تھے۔ میں سمجھتی ہوں انہیں مرض کی تشخیص میں دقت پیش آرہی ہے۔
بابر:[انتہائی مایوسی کے عالم میں ] اچھا ! ہم آتے ہیں۔
[بابر باہر جانے لگتا ہے۔ ماہم گھٹنے ٹیک کر اس کے پائوں پکڑ لیتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
ماہم:[دھیمے لہجہ میں ] عالم پناہ! میرے سرتاج ! آپ کے کئی لڑکے ہیں ، لیکن میرا۔۔۔ میرا یہ ایک ہمایوں ہی ہے۔ چار اولادوں میں ایک یہی رہ گیا ہے۔ میں اپنی انہی بدنصیب آنکھوں سے ایک کے بعد دوسرے کو موت کے منھ میں جاتے دیکھتی رہی ہوں اور کلیجے پر پتھر رکھ کر سب برداشت کرتی رہیہوں ، لیکن آج۔۔۔ اب نہیں۔۔۔ یہ آخری اولاد۔۔۔ یہ کلیجے کا ٹکڑا۔۔۔ ! نہیں۔۔۔ نہیں ، ماں کا دل اس سے مزید تنگ۔۔۔ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ! میں اپنی ان بدنصیب آنکھوں کو پھوڑ لوں گی ، لیکن ہمایوں کی موت نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ نہیں دیکھ سکتی ! [ سسکنے لگتی ہے۔]
بابر:[محبت سے اٹھا کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ] ماہم ! ملکہ ! گھبراؤمت !
ماہم[روتے ہوئے ]سرتاج! میں نہ گھبراؤں تو اور کون گھبرائے گا ؟ کاش ! ایک عورت - ایک ماں - کا دل ملا ہوتا ! مجھے یہ دولت - دولت کچھ نہیں چاہئے لیکن میرا بیٹا۔۔۔ (دونوں ہاتھ اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے) یا خدا ! میرا یہ بیٹا مجھ سے نہ چھین ! ایک ماں کا دل توڑ کر - اس دنیا کو اجاڑکر - تجھے کیا ملے گا ؟(دوبارہ بابر کے قدموں میں جھکتے ہوئے) میرے سرتاج ! میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں۔ جیسے - بھی ہو میرے بیٹے کو بچائیے۔ آپ کوبادشاہت پیاری ہے ، لیکن مجھے۔۔۔ مجھے میرا بیٹا پیارا ہے۔ میرے سرتاج !
بابر:[نرم لہجہ میں ، گہرے درد کے ساتھ ] ماہم ! تمہارا کہنا درست ہے۔ بادشاہت پیاری ضرور ہے ، اگر وہ پیاری نہیں رہتی تو ہم مادر وطن فرغانہ کو چھوڑ کر پہاڑوں ، دریاؤں ، جنگلوں اور ریگستانوں کی خاک نہیں چھانتے پھرتے ؛ مہینے کی آدھی سے زیادہ راتیں ، کھلے آسمان کے نیچے ، گھوڑے کی پیٹھ پر ، جاگتے ہوئے نہیں گزارتے۔ لیکن نہیں ، اولاد اس بادشاہت سے بھی کہیں زیادہ پیاری چیز ہے۔ بادشاہ بھی انسان ہوتا ہے۔ ہمیں اولادوںکی کمی نہیں ہے لیکن ہمایوں۔۔۔ ! [ لمبی سانس لیتا ہے ] ہمایوں ہماری آنکھوں کی روشنی ، دل کی امید اور زندگی کا سہارا ہے۔ ملکہ! مایوس نہ ہو ! ہمایوں کے لئے ہم ایک بار موت سے بھی لڑیں گے۔ طبیب کو بلواؤ۔ ہم ایک بار خود ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
[دونوں ہمایوں کے کمرے میں آتے ہیں۔ وہ اسی طرح بے سْدھ پڑا ہے۔ بابر اس کے بغل میں بیٹھ جاتا ہے۔ ماہم باندی کو حکیم کو بلوانے کے لئے اشارہ کرتی ہے۔ جب تک وہ باہر نکلتی ہے تب تک دربان حکیم کے آنے کی اطلاع کرتا ہے۔]
دربان:[درباری طریقے سے سلام کر ] جہاں پناہ کی خدمت میں حکیم صاحب حاضر ہیں۔
بابر:آنے دو۔ [ دربان باہر جاتا ہے۔]
[لمحے بھر بعد حکیم داخل ہوتاہے۔ حکیم آکر درباری طریقے سے جھک کر سلام کرتا ہے۔ بابر آہستہ سے سر ہلا دیتا ہے۔]
بابر:آئیے ، تشریف رکھئے۔ [ حکیم ایک تپائی پر بیٹھ جاتا ہے۔]
حکیم:[کچھ حیرت سے ] عالم پناہ ! شاید ابھی قدم رنجہ فرمایا ہے؟
بابر:جی ہاں ، ہم کچھ دیر قبل ہی پہنچے ہیں۔ آپ آ گئے ، اچھا ہوا۔ ابھی آپ کو بلوانے ہی والے تھے؟
حکیم:تابعدار چند ہی لمحے پہلے یہاں سے گیا ہے اور خود ہی دوڑا چلا آ رہا ہے۔ اسی دوران عالم پناہ کو یاد کرنے کی تکلیف گوارا کرنا پڑی ، اس لئے بندہ معافی چاہتا ہے۔
بابر:حکیم صاحب!
حکیم:عالم پناہ !
بابر:شاہزادے کی بیماری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟
حکیم:[غمگین آواز میں ] عالم پناہ ! بخار بہت تیز ہے۔ جس کی وجہ سے طویل بے ہوشی ہے۔ ساتھ ہی اور بھی مشکلات ہیں۔ اپنی لیاقت کے مطابق جو کچھ بھی ممکن ہے ، خادم کر رہا ہے لیکن ابھی تک۔۔۔ [ رک جاتا ہے۔]
بابر:حالت میں پہلے سے کوئی فرق نہیں ہے ؟
حکیم:جی نہیں، میں شاہزادے کی بیماری کو اپنا امتحان سمجھ رہا ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ تابعدار کی دوا اب تک کارگر نہیں ہوئی۔ جو مشکل سے مشکل بیماری کوبہ آسانی قابو کرتا رہا ہے ،اب وہ اپنی ناکامی پر شرمسار ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ میرا تو دل رنج سے بیٹھا جا رہا ہے۔
بابر:بیماری کے آثار کیسے ہیں ؟
حکیم:[ذرا رک کر ] عالم پناہ ! تابعدار کیا بتائے ؟ جب دوا کام نہیں کر رہی ہے تو تو خدا کی۔۔۔
بابر:[حکیم کی بات کاٹ کر ] گویا کہ آپ بھی مایوس ہی ہیں۔ ٹھیک ہے ، اس سے زیادہ آپ کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ دوا بیماری کی ہوتی ہے ، موت کی نہیں۔
حکیم:عالم پناہ ! ! ابھی ایسی مایوسی کی بات نہیں ہے۔ خدا کی مہربانی ہوئی تو شاہزادے جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گے۔
بابر:حکیم صاحب ! جب تک کوئی بات بالکل ادھر یا ادھر نہیں ہو جاتی ، تب تک انسان امید چھوڑتا ہی کہاں ہے اور پھر امید پر تو دنیا قائم ہے۔
حکیم:عالم پناہ !
ماہم:[گھبراہٹ بھری آواز میں ] حکیم صاحب ! میرے بچے کو کسی طرح اچھا کردیں۔ ہم آپ کو منہ مانگا انعام دیں گے اور زندگی بھر احسان مانیں گے۔
حکیم:ملکہ کا دیا ہوا ہی تو تابعدار کھاتا ہے۔ شاہزادے کی صحت اور ملکہ کی خوشی سے بڑھ کر بھی کوئی انعام ہو سکتا ہے ؟ملکہ اطمینان رکھیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ شاہزادے ضرور رو بہ صحت ہوں گے۔ ماں کا دل بچے کی معمولی بیماری سے بھی گھبرا جاتا ہے ، یہ تو خیر۔۔۔ ۔ میں ملکہ کو پھر یقین دلاتا ہوں کہ شاہزادے ضرور اچھے ہوں گے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔
ماہم:حکیم صاحب ! میں چاہتی تو ہوں کہ نہ گھبراوں ، پر دل جو نہیں مانتا۔ [ ہمایوں کے چہرے کی طرف دیکھ کر ] ہمیشہ گلاب سا کھلا رہنے والا یہ چہرہ کیسا مرجھا گیا ہے ، کتنا سوکھ گیا ہے ؟ بخار سے بدن توا ہو رہا ہے ، ہونٹ سیاہ پڑ گئے ہیں ، آنکھیں ہمیشہ بند ، دوا کام نہیں کرتی۔ ایسی حالت ، یہ بیہوشی دیکھ کر بھی کیسے نہ گھبراوں ؟ میرا تو کلیجہ دھک دھک کر رہا ہے ، رواں رواں رو رہا ہے۔
حکیم:[افسردگی کے لہجہ میں ] کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھتا ؟ملکہ کا دل ماں کا دل ہے اور ماں کی محبت تو دنیا میں بے مثال ہے ، ایک دم بے مثال۔ شاہزادے کی ایسی حالت سے ملکہ کا کلیجہ کس طرح ٹکڑے ٹکرے نہ ہو گا ، لیکنہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ہماری ساری کوششیں ایک طرف ، مالک کی مرضی ایک طرف۔
بابر:[اٹھ کر آہستہ آہستہ ٹہلنے لگتا ہے ] حکیم صاحب !
حکیم:[اٹھ کر] عالم پناہ !بابر:ملکہ کی دلی حالت کا ٹھیک اندازہ نہ تو آپ لگا سکتے ہیں اور نہ ہم ، کیونکہ ہم مرد ہیں۔ملکہ کی بات تو چھوڑیے، ہماری جن آنکھوں نے بچپن سے آج تک ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو تڑپ تڑپ کر دم توڑتے دیکھا ہے اور کبھی نہیں پسیجی ہیں ، وہ ہی آج ایک ، صرف ایک انسان کی موت کے اندیشے سے بھر آتی ہیں۔ یہ ہے اولاد کی محبت !
حکیم:عالم پناہ کی خدمت میں ہی تا بعدار کی داڑھی سفید ہو گئی۔مر تضیٰ عالم پناہ کے دل کے دونوں پہلوؤں سے اچھی طرح واقف ہے جو سختی اورنرمی دونوں میں بے مثل ہے۔ ایک طرف جس ہاتھ میں تلوار آنے پر جنگ کے میدان میں دشمنوں پر بجلیا ں گرتی ہیں ، وہی ہاتھ جب قلم پکڑتا ہے تو اس سے شاعری کی وہ پھلجھڑیا ں چھوٹتیہیں جن سے دل کا کونا کونا جگمگا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عالم پناہ کی تلوار اور قلم دونوں کی بے مثال خوبی جب تک یہ دنیا قائم ہے ، اس وقت تک قائم رہے گی !
بابر:[ٹہلتے ہوئے بے چینی میں ] حکیم صاحب ! ہم نے ہوش سنبھالا نہیں کہ جنگ کے جوئے میں ہار اور جیت کے پانسے پھینکنا شروع کردیا۔ ہماری زندگی کی پوری کہانی ہار اور جیت سے عبارت ہے اور وہ ان ہی دو لفظوں میں کہی جا سکتی ہے ، لیکن نہ تو ہمیں کبھی شکست سے سخت مایوسی ہوئی اور نہ جیت سے غرور ! ہم نے سمرقند جیتا ، کابل جیتا ، قندھار جیتا اور آخر میں ہندوستان کو فتح کر کے ایک بڑی سلطنت بھی قائم کی۔ لیکن سچ کہتے ہیں ، دولت کے لالچ سے نہیں بلکہ نام کے لئے ، اپنازور بازو آزمانے کے لئے۔ ہم اس لئے لڑتے ہیں کہ لڑنے میں زندگی کا لطف آتا ہے۔ سر کو ہتھیلی پر لے کر موت سے کھیلنے میں کیا مزہ ہے، اسے ہم جانتے ہیں۔
حکیم:عالم پنا ہ جو فرما رہے ہیں اسے تابعدار زمانے سے جانتا ہے اور سمرقند سے لے کر پانی پت تک کے میدان اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
بابر:ہم وہی کہہ رہے تھے۔ پانی پت کی جنگ کے بعد لاکھوں کیا کروڑوں کی دولت ہاتھ آئی۔ لیکن ہم نے درہم بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ ہم نے اشرفیوں کو ٹھیکریوں کی طرح لٹایا۔ رشتے ناطوں کی بات چھوڑیئے ، جن سے معمولی جان پہچان بھی تھی ، انہیں بھی ہم نے سوغات بھیجی۔فرغانہ،خراسان ، فارس تک کے دوستوں کو بھی ہم نہ بھولے۔ ہرات، مکہ اور مدینہ کے بھی فقیروں کے سامنے ہم نے مال ودولت اور اشرفیاں انڈیل دیں اور کابل کے ہر آدمی ، مرد عورت، بوڑھے اور جوان ، امیر غریب کو بھی اس فتح کا تحفہ ملا۔ ہمارا وہ طریقہ دیکھ کر لوگوں نے ہمیں قلندر کہنا شروع کیا ! کتنا میٹھا تھا وہ نام !
حکیم:عالم پناہ کی د ریادلی کا وہ نظارہ آج بھی تابعدار کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ کس بادشاہ نے سونے چاندی ، ہیرے جواہرات کو اس بے نیازی کی نظر سے دیکھا ہو گا ؟ آج بھی ، کیا دوست، کیا دشمن ، ہر شخص ، عالم پناہ کی اس سخاوت کو یاد کر دنگ رہ جاتا ہے۔
بابر:حکیم صاحب ! آج ہم ایک بارپھر قلندر ہونے کو تیار ہیں اور آج نام کے لئے نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے۔ اپنے اس لخت جگر کی جان بچانے کے لئے ہم اپنی تمام سلطنت لٹانے کو تیار ہیں۔ ہم پھر وہی خانہ بدوشی کی زندگی گذاریں گے یا اپنی تلوار کا زور آزمائیں گے۔ لیکن جیسے بھی ہو ، ہمایوں کو اچھا کرنا ہوگا۔
حکیم:عالم پناہ کی خواہش پوری ہوگی۔
بابر:پوری ہوگی۔۔۔ ! [ رک کر کچھ سوچتا ہوا ] ہزاروں آدمیوں کی جان لینے کی طاقت ہم میں تھی لیکن آج ایک آدمی کی جان بچانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ کیسی لاچاری ہے ؟ [ تھوڑے غمگین انداز میں ] کسی انسان کو وہ چیز لینے کا کیا حق ہے جسے وہ دے نہیں سکتا۔ بادشاہت ! بادشاہت ! یہی بادشاہت ہے جس کے لئے بچپن سے لے کر آج تک ہم ایک دن بھی چین کی نیند نہیں سو سکے۔ اور اس کا نتیجہ ! لمبی سانس لے کر ] ساری دولت ، ساری سلطنت سامنے پڑی ہے اور بادشاہ کا بیٹا دم توڑ رہا ہے۔ کوئی طریقہ ، کوئی حکمت کارگر نہیں ہو پاتی۔ یہی ایک جگہ ہے ، جہاں بادشاہ اور فقیر میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ہم سے وہ کنگال سو گنا اچھا جو چین کی نیند تو سوتا ہے ، بے فکری سے زندگی گذارتا ہے۔
حکیم:عالم پناہ ! انسان کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو وہ اللہ سے چھوٹا ہی رہے گا ، اس مالک کے سامنے اس ناچیزکی ہستی ہی کیا ہے ؟ لیکن اس لئے بادشاہت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ! شہنشاہ ہند نے جو کیا ہے وہ تاریخ عالم کا ایک روشن باب ہے۔ اتنے کم دنوں میں راجپوتوں سے لوہا لے کر اتنی بڑی سلطنت قائم کرنا کچھمعمولی کام نہیں تھا۔ یہ عالم پناہ ہی کے بس کی بات تھی۔
[بابر ہمایوں کے پلنگ کے پاس رکتا ہے۔ ہمایوں کی آنکھیں پہلے ہی جیسی بند ہیں۔ بابر آہستہ آہستہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور انتہائی بے تابی کی نظروں سے اسے دیکھتا ہے۔ پھر کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے۔]
بابر:حکیم صاحب ! وہ ماضی کی باتیں ہیں۔ آج ہمایوں کی زندگی کا سوال ہے۔
حکیم:عالم پناہ ! دوا دینے کا وقت ہو گیا ہے۔ اجازت ہو تو۔۔۔ ۔
بابر:[پرسکون انداز میں ] دیجئے ، ضرور دیجئے۔ لیکن بے ہوشی کی حالت میں دوا اس کے حلق سے نیچے کیسے اترے گی ؟
حکیم:زبان پر رکھ دینے سے وہ آپ ہی دھیرے دھیرے حلق کے نیچے اتر جائے گی۔
[حکیم شیشی سے دوا نکالتا ہے ، ایک دو چیزوں کے ساتھ ہاون دستہ میں ملاتا ہے۔ پھر ہمایوں کا منہ کھول کر اس کی زبان پر دوا رکھ دیتا ہے۔ ہاتھ ہٹانے پر ہمایوں کا منہ بند ہو جاتا ہے۔]
دربان:[جھک کر ادب سے ] جناب ابو بقاء صاحب تشریف لائے ہیں۔
بابر:مولاناابوالبقائ؟ اچھاملکہ ، تم تھوڑی دیر کیلئے بغل کے کمرے میں جا کر آرام کرو ، جب تک ہم مولانا سے مل لیں [ ماہم آہستہ سے چلی جاتی ہے۔ ] [ دربان سے ] انہیں اندر آنے دو۔[دربان باہر جاتا ہے اور اس کے ساتھابوالبقاء داخل ہوتے ہیں۔ابوالبقاء کے چہرے پر سنجیدگی، رنگ گورا ، داڑھی سفید اور رفتار میں متانت ہے]۔ وہ آ کر درباری طریقے سے سلام کرتا ہے۔ بابر ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیتا ہے۔
بابر:[ایک آرام دہ کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ] آئیے ، تشریف رکھئے۔ اس وقت کس طرح تکلیف کی ؟ابو البقاء :[بیٹھتا ہوا ] شاہزادے کی حالت جاننے کے لئے حاضر ہوا۔
بابر[خشک ہنسی ہنس کر ٹوٹی آواز میں ] شاہزادے کی حالت ؟ ہماری حکمت اور طاقت کا امتحان ہو چکا۔ اب خدا مالک ہے۔
ابوالبقاء :[مضطرب انداز میں ] اپنی طویل زندگی میں آج پہلی بار میں شہنشاہ ہند کے چہرے پر مایوسی دیکھ رہا ہوں اور آواز میں بھاری پن۔ کٹھن ترین حالات اور مشکل سے مشکل وقت میں جس کے چہرے پر شکن نہیں پڑی ، جو غموں میں بھی ہمیشہ مسکراتا رہا اس کی ایسی حالت دیکھ کر تعجب ہو رہا ہے۔
بابر:آپ جیسے عالم کا تعجب کرنا واجب ہے۔ ہمیں اپنے اوپر خود تعجب ہے پھر بھی ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ آج ہم زندگی کی وہ کمزوری محسوس کر رہے ہیں جو بالکل نئی ہے۔ شاید یہ عمر کا تقاضہ ہے۔ سنتے تھے کہ گرتی عمر میں اولاد کی محبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آج ہم اس کی سچائی کے قائل ہو گئے ہیں۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ ! اولاد کی محبت انسان کے دل کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا اصلی اور حقیقی پہلو ہے . دنیا اسی شفقت پر ٹکی ہے ! پھر بھی ، گھبرانے سے کیا ہوگا ؟ اور کیا واقعی شاہزادے کی زندگی سے مایوس ہونے کا موقع آ گیا ہے ؟(حکیم کی طرف مڑتے ہوئے) مرتضیٰ ! تم کیا سوچتے ہو ؟
حکیم:بڑے بھائی ! میں کیا سوچ سکتا ہوں؟ میرا سوچنا اور نہ سوچنا تودوا پر منحصرہے اور دوا کارگر نہیں ہو رہی ہے .
ابوالبقاء :تو تم کیا سمجھتے ہو کہ دنیا کی تمام بیماریوں کی دوا تمہارے ان عرقوں ،سفوفوں اورپڑیوں میں ہی محدود ہے ؟ کبھی اس پر بھی خیال کیا ہے کہ جو ان دواؤں کو طاقت بخشتا ہے ؟ اگر اس کی نظر ہے تو آپ کے عرق اور سفوف آب حیات ہیں ؛ نہیں تو محض مٹی یا گرد ، بس۔ آپ بھلے ہی امید ہار بیٹھے ہوں لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔
حکیم:بڑے بھائی ! مرتضیٰ کی طاقت تو عرقوں اور سفوفوں تک ہی محدود ہے۔
ابوالبقاء :حکم ہو تو جہاں پناہ کی خدمت میں میں ایک نسخہ عرض کروں ؟
بابر:یہ بھی پوچھنے کی بات ہے ؟ خوشی سے فرمائیے۔
ابوالبقاء :میرے استاد ، جن کی بات کے خلاف آج تک میں نے کچھ ہوتے نہیں دیکھا اور جو جہاں پناہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ، کہا کرتے تھے کہ ایسے موقع پر سب سے عزیز چیزخدا تعالی کو پیش کرنے پر اکثر دم توڑتے ہوئے مریض کو بھی بھلا چنگا ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
بابر:[ خوشی سے ] سچ ؟ابوالبقاء :مجھے استاد کی بات کا یقین ہے۔
بابر:اور ہمیں آپ جیسے عالم ، پاک دل اور نیک انسان کی بات کا۔ کسی دوسری چیز کا کیا کہیے کہے ، ہم خود اپنی زندگی خدا کے سامنے حاضر کرتے ہیں۔۔۔
ابوالبقاء :اور حکیم : [ ایک ساتھ گھبرا کر ] عالم پناہ یہ کیا کہہ رہے ہیں !
بابر:[ زور دار آواز میں ] وہی جو کہنا چاہئے۔ کیوں ، اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
ابوالبقاء :تعجب کی بات نہیں ہے ؟ ایک چھوٹی سی بات کے لئے شہنشاہ ہند اپنی زندگی۔۔۔
بابر:[بات کاٹ کر ] مولانا ! آپ شاہزادے کی زندگی کو ایک چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں ؟ جسے آپ شہنشاہ ہندکہتے ہیں اس کے دل کی ایک - ایک دھڑکن ہمایوں کی زندگی کی منت کی آواز ہے۔ آج آپ کے سامنے شہنشاہ ہندنہیں ، ایک انسان معمولی انسان کھڑا ہے ،جس کی زندگی سے اس کے بیٹے کی زندگی کہیں بیش قیمت ہے۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ !
بابر:آپ جو کہہ رہے ہیں اسے ہم سمجھ رہے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ ہمایوں کے مرنے کے بعد ہم زندہ رہ سکیں گے تو آپ دھوکے میں ہیں۔
ابوالبقاء :مگر جہاں پناہ جو کام اپنی جان سے کرنا چاہتے ہیں وہ دوسری چیز سے بھی تو ہو سکتا ہے۔ آگرے کی فتح کے بعد جو ہیرا جہاں پناہ کے ہاتھ میں آیا وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے بیش قیمت ہے۔
بابر:ہماری زندگی سے بھی ؟
ابوالبقاء :جہاں پناہ ! میرے کہنے کا مطلب کچھ دوسرا ہے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیوں نہیں اسے ہی خدا کو پیش کیا جائے ؟
حکیم:تابعدار بھی بڑے بھائی کی بات کی ہر صورت سے تائید کرتا ہے۔
بابر:[ اچانک ہمایوں کے چہرے کی طرف دیکھ کر گھبرائی ہوئی آواز میں ] وہ دیکھئے حکیم صاحب !شاہزادے کے چہرے پر سفیدی چھا رہی ہے۔ آنکھ خوفناک لگ رہی ہے۔ [غصہ میں ] نہیں ، نہیں اب مزید سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے جیتے - جی ہمایوں کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم اسے بچائیں گے ، ضرور بچائیں گے۔ ہیرے اور پتھر سے کام نہیں چلے گا۔ خدا تعالیٰ کی خدمت میں ہم خود اپنی جان حاضر کرتے ہیں۔
[ بابر تیزی سے سنجیدگی مگر افسردگی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہمایوں کے پلنگ کے ارد گرد گھومنے لگتا ہے۔ ]
ابوالبقاء :[ اور حکیم گھبرا کر ] عالم پناہ ! عالم پناہ ! یہ کیا کر رہے ہیں ؟ خدا کے لئے۔۔۔ ۔
بابر:[ سخت لہجے میں ] خاموش !شہنشاہ ہندکا حکم ہے کہ آپ خاموش رہیے۔ ہم جو کر رہے ہیں اس میں خلل نہ ڈالیں۔ [ تین بار پلنگ کے گرد چکر لگا کر ہمایوں کے سرہانے زمین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور منہ کچھ اوپر اٹھائے ہوئے پرسکون سنجیدہ لہجے میں کہتا ہے۔ ] یا خدا ! پروردگار ! تیری مہربانی سے میں نے ایک سے ایک مشکلات پر فتح حاصل کی ہے۔ میں ہر مصیبت کے وقت تجھے پکارتا رہا ہوں اور تو میری مدد کرتا رہا ہے۔ آج ایک بار پھر اس موقع پر تیری اس مہربانی کی بھیک مانگتا ہوں۔ اپنے بیٹے کی جان کے بدلے میں اپنی جان حاضر کرتا ہوں۔ تو مجھے بلا لے ، لیکن اسے اچھا کر دے۔۔
حکیم:[ حیرت اور خوشی سے ] عالم پناہ ! شاہزادے نے آنکھیں کھول دیں۔ آج سات روز کے بعد۔۔۔ ۔
بابر:[ خوشی سے ] ہماری آواز اللہ تعالی تک پہنچ گئی۔۔۔ پہنچ گئی ! اللہ۔۔۔ اکبر۔۔۔ ۔
[ بابر آہستہ - آہستہ اٹھ کر ہمایوں کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ ]
ہمایوں:[ انتہائی سست آواز میں ] پا۔۔۔ نی۔۔۔ ۔
[ حکیم کونے میں رکھی ایک سونے کی صراحی سے پانی ڈال کر ہمایوں کے منہ میں دو چمچہ پانی دیتا ہے۔ ]
بابر:[ ایک - دو بار زور سے سر ہلاتا ہے جیسے کوئی تکلیف ہو۔ ] حکیم صاحب ! ہمارے سر میں زور کا چکر اور درد معلوم ہو رہا ہے۔ ایک عجیب بے چینی معلوم ہو رہی ہے۔
حکیم:[ تشویش بھرے لہجے میں ] عالم پناہ آرام کریں۔ راستے کی تھکن اور دماغی فکر سے چکر معلوم ہو رہا ہے۔ میں ابھی ایک دوا دیتا ہوں ، تھوڑی دیر میں تکلیف جاتی رہے گی۔
بابر:اچھی بات ہے۔
[ حکیم ایک خوراک دوا دیتا ہے۔ بابر ساتھ کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ابوالبقاء اور حکیم حیرت اور تشویس کی ملی جلی کیفیت میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ ]
دوسرامنظر
[ مقام و پس منظر ]
[ بابر کمزور اور سست ایک پلنگ پر پڑا ہے۔ کبھی کبھی درد سے کراہ اٹھتا ہے اس کے چہریسے افسوس کے بجائے خوشی اور طمانیت صاف ظاہر ہو رہی ہے جیسے اس بیماری کی اسے کوئی فکر نہ ہو۔ پلنگ کے ایک جانب ایک تپائی پر حکیم اور دوسری پر ابوالبقاء بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف ماہم اور ہمایوں فکر مند انداز سے چپ چاپ کھڑے ہیں۔ ]
ابوالبقاء :جہاں پناہ کی طبیعت کیسی ہے ؟
بابر:[ سست آواز میں ] طبیعت ؟ اب تو سفر کی تیاری ہے۔ جتنی دیر تک سانس چل رہی ہے ، وہی بہت ہے۔ پسلیوں میں بے حد درد ہے ، سانس نہیں لی جاتی۔ االلہ اللہ کا ورد جاری ہے۔
ابوالبقاء :عالم پناہ ایسا نہ فرمائیں۔
بابر:ہمارے کہنے یا نہ کہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ ٹھیک ہے، مولانا ! آپ کاہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] ہماری زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں آپ نے ہماری مدد کی ہے۔ اس کے لئے ہم آپ کے شکرگذار ہیں۔ اگر آپ کی کوئی خواہش ہو تو اسے مکمل کر ہم کو خوشی ہوگی۔ [ سانس لیتا ہے۔ ]
ابوالبقاء :[ دکھ بھری آواز میں ] جہاں پناہ کی صحت سے بڑھ کر ابوالبقاء کی کوئی اور دوسری خواہش نہیں ہے۔ اللہ میری خواہش پوری کرے۔
بابر:ہم آپ کے دل کی پریشانی اور رنج کوسمجھ رہے ہیں۔ آپ نے اس روز جو کچھ کہا اس کے لئے افسوس ہے۔ لیکن سوچئے تو کہ ہمایوں کی زندگی کے لئے کیا ہم خود وہی طریقہ اختیار نہیں کرتے جو آپ نے بتایا ؟ خدا کی عبادت کے علاوہ اور چارہ ہی کیا تھا۔ [ سانس لے کر ] جی ہاں ، آپ کے کہنے پر ہمیں اس پر اور بھی زیادہ اعتماد ہوا۔ [ کھانستا ہے۔ ]
حکیم:عالم پناہ ابھی آرام کریں۔
بابر:آرام ؟ حکیم صاحب ! ہم نے زندگی میں کبھی آرام کیا ہے ؟ آرام کرتے ہیں بزدل ، کمزور اور وہ جن کاکچھ کرنے کا مقصد نہیں ہوتا۔ آخری وقت میں خاموش رہنے سے اور بھی دم گھٹنے لگے گا۔ اب کتنی دیر زندگی ہے۔ [ کھانستا ہے ] موت سے پہلے ہی اس کا سما ں بندھنے دینا ہمیں گوارا نہیں۔ ہمیں ہنستے بولتے مرنے دیجئے۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ ایسی بدشگونی کی بات نہ کہیں۔
بابر:یہ بات بد شگونی ہو یا نہ ہو ، لیکن ہے سچی۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ ہم پوری خوشی سے جا رہے ہیں۔
ماہم:جہاں پناہ بار بار یہ کیا دہرا رہے ہیں ؟
بابر:ملکہ ! سچائی کا سامنا ہمت سے کرنا چاہئے۔ جو بات آگے ہونے والی ہے اسے پہلے سے جان رکھنا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ سچائی جانتے ہوئے بھی اپنے کو دھوکے میں رکھنے سے بڑھ کر اور کیا بیوقوفی ہوگی ؟ [ہمایوں کی طرف دیکھ کر ] بیٹا ! وقت قریب آ رہا ہے۔ کہیں بھول نہ جائیں۔ میاں ابوالبقاء کو پندرہ گاؤں بلاخراج پشت در پشت کے لئے بخش دو۔ [ کھانستا ہے۔ ]
ابوالبقاء :جہاں پناہ معاف کیجئے۔ تابعدار کو کچھ نہیں چاہئے۔ جہاں پناہ کا دیا ایسے ہی کچھ کم نہیں ہے۔
بابر:[ ان سنی کرکے زور سے ] بیٹا ! ہم اپنے حکم کی فوری تعمیل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکم نامے پر ہمارے دستخط کرا لو۔
ہمایوں:ابا جان کی حکم تعمیل ہوتی ہے۔
[ ہمایوں دوسرے کمرے میں جاتا ہے۔ ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر فورا آتا ہے۔ بابر اس پر دستخط کر دیتا ہے۔ حکم نامہ ابوالبقاء کے ہاتھ میں دیا دیا جاتا ہے۔ ابوالبقاء اداسی سے اٹھ کر سلام کرتا ہے ، پھر بیٹھ جاتا ہے۔ ]
بابر:آج ہمیں ایک ہی بات کا افسوس ہے۔ جس کی ساری عمر جنگ کے میدان میں کٹی اس کی موت بستر پر ہو رہی ہے۔ [ کھانستا ہے ] ہم لڑتے - لڑتے مرنے کے خواہش مند تھے۔ خوش قسمتی سے ایک ایسے ملک میں پہنچ بھی گئے تھے جہاں بہادروں کی کمی نہیں تھی - لیکن وہ ارمان۔۔۔ [ کھانستا ہے۔ ]
حکیم:عالم پناہ کو بولنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ میں پھر عرض کروں گا کہ تھوڑی دیر آرام کیا جائے۔
بابر:آرام کے لئے نہ گھبرائیے حکیم صاحب ! ہم کبھی ختم نہ ہونے والے آرام کی نیند سونے جا رہے ہیں۔ اب آخری وقت میں تمام زندگی کی تصویر ایک - ایک کر آنکھوں کے سامنے گزر رہی ہے۔ [ کھانستا ہے ] ہندوستان بڑا عظیم ملک ہے۔ یہاں کے راجپوتوں کے لئے ہمارے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ نڈر اور بہادر ہیں۔ مرنا یا مارنا کسی کو ان سے سیکھنا چاہئے۔ [ ہچکی آتی ہے۔ ]
حکیم:لیکن جہاں پناہ کے سامنے تو ہمیشہ ہارتے ہی رہے۔
بابر:آپ نہیں جانتے۔ ہار - جیت دوسری چیز ہے اور بہادری دوسری۔ ہار - جیت پر کسی دوسرے کا اختیار ہے ، بہادری پر اپنا۔ ہم بھی تو بار - بار ہارتے ہیں تو کیا ہم اپنے کو بہادر نہ سمجھیں ؟ [ ہچکی آتی ہے ]
حکیم:عالم پناہ ، دوا کا وقت ہو گیا ہے۔
بابر:حکیم صاحب ! اب دوا نہ دیجئے۔ یہ ہچکی ہے یا خدا کا پیغام ہے۔ [ پھر ہچکی آتی ہے ]
ماہم:[ چیختے ہوئے ] یا خدا ، یہ کیسا امتحان ہے ؟ ایک طرف لخت جگر کو زندگی بخشی تو دوسری طرف سرتاج کو اتنی تکلیف دے رہا ہے۔
بابر:ملکہ ! پروردگار کے شکر کے بدلے شکوہ ؟ اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہماری التجا سن لی ، ہماری امید اور ارمانوں کے چمن کو سرسبز رہنے دیا ، ہماری آنکھوں کی مٹتی ہوئی روشنی واپس آگئی۔ تبھی تو ہم آج شاہزادے کو صحت و تندرست دیکھ رہے ہیں۔
ماہم:مگر جہاں پناہ ، آپ کی یہ تکلیف۔۔۔ ؟
بابر:[ کی بات کاٹ کر ] ہماری فکر چھوڑو ، ملکہ ! ہم نے تو خود یہ تکلیف طلب کی ہے۔ ہمیں بے انتہافخر ہے کہ ہمارے مالک نے اپنے ایسے ناچیز بندے کی دعا سن لی اور ملاقات قبول فرما لی۔ [ درد سے کروٹ بدلتا ہے ] بیٹا !
ہمایوں:اباجان !بابر:اور قریب آ جاؤ بیٹا ! جاتے - جاتے اپنے لخت جگر کو جی بھر کر دیکھ تو لوں۔
ہمایوں:[ آنکھوں میں آنسو بھر کر ] ابا !
بابر:گھبراؤ مت بیٹا ! بہادر اور دلیر فر زند کو یوں مچلنا زیب نہیں دیتا۔ ہمیں تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ؛ ہمیں ہندوستان کے ہونے والے بادشاہ سے کچھ عرض کرنا ہے۔
ماہم:[ روتی ہوئی ] میرے سرتاج !
بابر:صبر اور ہمت سے کام لو ، ملکہ! جو ساری زندگی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا ہو اس کی شریک حیات کو موت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ ہمیں چین سے جانے دو۔ [ کھانستا ہے ] بیٹا !
ہمایوں:اباجان ! حکیم صاحب کی رائے میں آپ کے لئے مزید گفتگو کرنا آپ کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔
بابر:صحت ! بیچارے حکیم صاحب ! بیٹا ! ہم نے ہندوستان کو فتح کیا ، حکومت کی بنیاد بھی ڈالی مگر سلطنت کی اونچی عمارت تیار کرنے سے پہلے ہی ہمیں جانا پڑ رہا ہے۔ اب اس عمارت کو مکمل کرنا اور قائم رکھنا آپ کا کام ہے۔ [ ہچکی آتی ہے۔ ] جنگ کے میدان میں ہماری تلوار کے وار کبھی اوچھے نہیں پڑے اور امن کے زمانے میں ہماری دانش مندی نے کوئی غلط رویہ بھی اختیار نہیں کیا۔ بادشاہت کے لئے دونوں چیزیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ [ درد سے کروٹ بدلتا ہے۔ ] آہ ، سر پھٹا جا رہا ہے۔
ماہم:میرے سرتاج !
بابر:ملکہ! ہم ماں بیٹے کو ایک دوسرے کو سپرد کرتے ہیں۔ [ ماہم سسک - سسک کر رونے لگتی ہے ] بیٹا ، سپہ سالار کو بلائیں۔ [ ایک آدمی باہر جاتا ہے ] اور تم۔ ادھر قریب آؤ۔ [ آواز پہلے سے سست پڑ جاتی ہے ] آج سے اسسلطنت کے تم مالک ہو۔ [ کھانستا ہے ] تم نیک اور آزاد خیال ہو۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو محبت کی نظر سے دیکھنا۔ ان سے کوئی غلطی بھی ہو تو معاف کرنا۔ [ ہچکی آتی ہے ] آہ ! سانس لینے میں بڑی تکلیف ہے۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] سپہ سالار آئے ؟
سپہ سالار:تابعدار حاضرہے !
بابر:ہم سفر کر رہے ہیں۔ ہمارے بعد شاہزاداہ ہمایوں ہندوستان کے بادشاہ ہوں گے۔ [ کھانستا ہے ] آپ سب کی انہیں اسی طرح مدد ملنی چاہئے جس طرح ہمیں ملتی رہی ہے۔ آہ ! بیٹا ! پانی ! [ ہمایوں منہ میں پانی دیتا ہے ] بیٹا ، یہاں جتنے ہیں سب کا ہاتھ پکڑو۔ [ ہچکی آتی ہے ] سب کی پرورش کرنا۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] یا خدا ! اور جی ہاں ، ہماری آخری خواہش۔۔۔ [ ہچکی آتی ہے ] ہمیں یہاں نہ دفن کرنا۔ کابل کی مٹی میں دفن کرنا۔ یہ ہمارا آخری حکم۔۔۔ اور۔۔۔ خواہش ہے۔ [ ہچکی ] آپ سب۔۔۔ آباد رہو [ زور کی ہچکی ] الوداع۔ ال۔۔۔ اللہ۔۔۔ اک۔۔ ب۔۔۔ ر۔۔۔ [ ہچکی کے ساتھ خاموش ہو جاتا ہے۔ ]
[پردہ گرتا ہے ]
ختم شدہ:
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں