میں کیوں لکھتا ہوں ؟
محمد علم اللہ
جامعہ ملیہ، دہلی
تقریبا ایک سال پہلے کی بات ہے۔ معروف پاکستانی ادیب نعیم بیگ صاحب نے اردو پروگریسیو رائٹنگ فیس بک پیج پرتمام لکھنے والوں سے ایک سوال کیا تھا، کہ وہ کیوں لکھتے ہیں؟
ایک بڑے لکھاری یا ادیب کے پاس تو اس سوال کا جواب دینے کے لیے بہت کچھ مواد ہوتا ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہوتا ہے اور تجربات بھی اور انھوں نے دنیا دیکھی ہوتی ہے، ایسے جہاں دیدہ افراد اس سوال کے جواب میں اگر کچھ لکھیں تو وہ یقینا ایک کارآمد چیز ہوتی ہے۔ نوآموز قلم کاروں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے اور ان کی تحریروں کے آئنے میں خود کو جانچنے پرکھنے کا موقع بھی ہاتھ آتا ہے۔
اس لیے مجھے بجا طور پر یہ احساس ہوا کہ اگر ان کی طرح میں بھی کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں تو یہ یقینا ’چھوٹا منہ بڑی بات والی‘ کسی قسم کی کوئی چیز ہوجائے گی اور میں اس کے لیے خود کو کسی بھی قیمت پر راضی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن نعیم بیگ صاحب نے کئی مرتبہ مجھے تاکید کی، کہ اس سوال کے ضمن میں، میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔
اب میں اسے ان کی خورد نوازی سمجھوں یا اپنے لیے بے بہا محبت یا پھر سعادت کی بات تصور کروں، اب میں اسے جو کچھ بھی خیال کروں، پر اپنے تئیں یہ ضرور خیال کرتا ہوں کہ میرے لیے بزرگوں کی بات ٹالنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ اور بس اسی نکتے کے سہارے میں ایک دن اپنی تمام تر مصروفیات اور عذر ہائے لنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے متفرد خیالات کو مجتمع کرنے بیٹھ گیا اور لشتم پشتم کسی نہ کسی طرح اپنے لکھنے کے اسباب و وجوہات انھیں لکھ کر بھیج دیں۔
پھر یوں ہوا کہ بات آئی گئی ہوگئی، نہ انھوں نے کچھ توجہ کی اور نہ میں نے کچھ استفسار کیا، مگر اس فیس بُک کا ہم کیا کریں جو ہمارے رطب و یابس کو بار بار ہمارے سامنے لاتا رہتا ہے یا پھر یوں کَہ لیجیے، کِہ منکر نکیر کی طرح آپ کو آپ کا نامہ اعمال جو آپ نے خود لکھ رکھا ہے دکھاتا رہتا ہے۔ لہذا آج بھی اس نے ایک سال قبل لکھی گئی میری بے ربط تحریر کو میرے سامنے کردیا اور آج جب میں نے اس بے ربط تحریر کو سرسری نظر سے دیکھا تو مجھے خیال گزرا کہ کیوں نہ اسے تھوڑے بہت حذف و اضافے کے ساتھ اشاعت کے قابل بنادیا جائے۔
سو قارئین میں کیوں لکھتا ہوں، اس کی کہانی بھی آپ سن لیجیے۔ کہانیاں تو آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں، آج لکھنے کے پیچھے کی کہانی یا کہانیوں کے پیچھے کی کہانی بھی پڑھ لیجیے۔ میں کیوں لکھتا ہوں؟ اس سوال کا جواب یقینا خاصہ مشکل ہے۔ کیوں کہ میں خود بھی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر میں لکھتا ہی کیوں ہوں؟
سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود کو جواب نہیں دے پاتا اور اسی سے اس سوال کی مشکلات کا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، کہ جس سوال کا جواب آدمی خود ہی کو نہ دے پائے کسی اور کو کس طرح بیان کر سکتا ہے یا کس حد تک درست جواب دے سکتا ہے۔
شاید بات کو یوں شروع کرنا درست ہوسکے کہ لکھنے کا عمل ایک ملکہ ہے یا ہنر ہے اوریہ سب کو عطا نہیں ہوتا بلکہ جس کو عطا ہوتا ہے اس کی بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ جیسے اس کو بھی اس ہنر پر پوری قدرت یا اختیار نہیں ہوتا۔ ہر لکھنے والے کو لکھنے پر قدرت تو گرچہ ہمہ وقت رہتی ہے مگر اس کے اسباب، محرکات اور داعیات اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے۔ اسی لیے ایسا ہوتا ہے کہ وہ لکھتا ہے تو بہت لکھتا اور نہیں لکھ پاتا تو جانتے بوجھتے بھی کچھ نہیں لکھ پاتا۔
کبھی تو خیا لات، احساسات اور جذبات کا بہاؤ اس قدر ہوتا ہے کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے؛ ایک دم بے کل۔ اس وقت کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا، بس قرطاس چاہیے اور قلم۔ کبھی تو ہفتوں بلکہ مہینوں گزر جاتے ہیں، ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ پاتے۔ جی ہاں! کبھی کبھار تو ایک سطر بھی نہیں اور ایسی ہر لحظہ متغیر کیفیت میرے ساتھ بہت رہتی ہے۔ جسے میں محسوس تو کرتا ہوں مگر بیان نہیں کر پاتا۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ لکھنے کے فن پر قدرت تو ہوتی ہے مگر اظہار پر یا بیان پر قدرت نہیں ہوتی۔ یہ ایام میر ے لیے انتہائی اذیت ناک ہوتے ہیں۔ شاید ہر لکھنے والے کے لیے ہوتے ہوں!
اللہ نے طبیعت بھی کچھ ایسی بنائی ہے کہ معمولی شورو شغب حتی کہ گپ شپ کی آواز بھی زہر معلوم ہوتی ہے، کبھی پنکھے کے چلنے سے بھی پریشان ہو جاتا ہوں، لیکن اس کے برعکس کبھی شدید گرمی ہے، پنکھا بھی نہیں چل رہا مگر لکھنے، پڑھنے میں مصروف ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس ماحول پر سکون چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ ناشتا کیا اور نا کھانا کھایا بس بیٹھے لکھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ تھک گئے تو سو گئے، جب احساس ہوا تو کھا لیا۔ سرھانے قلم اور پنسل رکھے ہوئے ہیں کہ جانے کب کوئی خیال آ جائے، کئی مرتبہ پوری غزل، نظم، افسانہ اور مضمون مکمل خواب میں آیا اور جب بیدار ہوئے تو لکھ لیا۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ اس کو لوگوں نے کتنا پسند کیا، کتنا سراہا مگر ایسا ہوا۔ خیالات کی آمد کا کوئی ٹھکانا نہیں، کبھی نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ خیال آ گیا، کبھی احباب سے بات کر رہے ہیں کہ اچانک کچھ نکتہ ابھرا اور جی لکھنے کے لیے مچلنے لگا، کبھی راہ چلتے، کبھی بس یونھی بیٹھے بیٹھے، کبھی بلا مقصد ایسے ہی لکھنا شروع کر دیا۔
میرے اکثر احباب میرے اس انداز کو جان بوجھ کر ان سے تجاہل برتنے والا عمل گردانتے ہیں اور ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن میں انھیں کیسے یقین دلاؤں کہ وہ میرے لیے کتنے محترم ہیں اور میں انھیں کتنا چاہتا ہوں۔ میرے احباب ہی تو میرا سرمایہ ہیں، لیکن کبھی کبھی مجھے سامنے کی دنیا نظر ہی نہیں آتی، میں کہیں اور ہوتا ہوں اور ایسے میں کسی دوست کو دھیان نہ دے سکوں تو میرا کیا قصور ہے!
میں اپنی اس مجبوری کی وجہ سے اپنے کئی معزز احباب کو کھوچکا ہوں، جس کا مجھے غم ہے لیکن جو احباب میرے بارے میں جانتے ہیں، وہ میرے ناز نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اور میری بہت ساری چیزوں کا خیال رکھتے ہیں جو میرے لیے یقینا افتخار کا باعث ہے۔ میں اس قدر ٹوٹ کر چاہنے والے احباب کا زندگی بھر قرض دار رہوں گا۔ کبھی کبھی میں زندگی سے دل برداشتہ ہوتا ہوں تو ایسے ہی احباب کی محبتیں مجھے جینے کا سامان فراہم کرتی ہیں، جو میرے دکھ درد، خوشی اور غم میں ہمیشہ شریک رہتے ہیں۔
جہاں تک لکھنے کے محرکات یا اسباب کی بات ہے تو ایک حساس انسان کے لیے دکھ، درد، کسک، بے بسی، ظلم، نا انصافی اور استحصال سے بڑھ کر اور کیا چیزیں ہوں گی جو اسے کچھ کرنے پر مجبور کریں۔ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتا اسی لیے لکھتا ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اپنے اس شوق کی خاطر مار بھی کھائی ہے اور نقصان بھی اٹھایا ہے۔ میں خود کتنی ہی مرتبہ قسم کھاتا ہوں کہ اب نہیں لکھوں گا بھلا اس سے مجھے کیا فائدہ ہو رہا ہے لیکن دل نہیں مانتا اور کچھ دنوں کے بعد مجھے پھر سے اپنی قسم توڑنا پڑتی ہے۔
میں دنیا میں پھیلے دکھ، درد اور بے چینی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہوں، اپنی بساط بھر ان کے لئے کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں، لیکن ساری چیزیں سب کے بس میں نہیں ہوتیں، اگر میں ظلم کرنے والوں کے خلاف، کسی کا حق غصب کرنے والوں کے خلاف، کسی کو دکھ اور تکلیف دینے والوں کے خلاف تلوار لے کر نکل جاؤں تو میں اسے قتل نہیں کر سکوں گا، بلکہ تلوار لے کر نکلنا مجھ سے ہوگا ہی نہیں، تو پھر میں کیا کروں؟ کیا میں اپنا سر پیٹ لوں؟ خود کو ہلاک کر لوں؟ یا پھر پوری دنیا کو آگ لگا دوں؟ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ شاید یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے، تو پھر میں ان کے خلاف قلم سے مورچہ سنبھال لیتا ہوں۔ اس ظلم کے خلاف اپنی تحریروں سے علم بغاوت بلند کرتا ہوں۔ جھوٹ اور غلط کا احساس دلا کر لوگوں کو کچوکے لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں اور بہت آسانی سے کرسکتا ہوں۔ تو جو میں کرسکتا ہوں وہی تو کروں گا اور مجھے وہی کرنا بھی چاہیے۔
بلاشبہ کبھی کبھی پیشہ ورانہ ضرورتیں بھی لکھنے پر مجبور کرتی ہیں، چوں کہ ہمارا پیشہ بھی حرف و قلم سے جڑا ہے تو ہمارے لکھنے کے سبب میں یہ لکھنا بھی لازم ٹھیرا کہ ہمارے لکھنے کا ایک محرک پیشہ بھی ہے یا پیسا بھی ہے۔ تاہم یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پیشہ ور تحریریں لکھنے میں مزا نہیں آتا اور کبھی کبھی تو ہمارا ضمیر بھی ہمیں ملامت کررہا ہوتا ہے کہ یہ کیا لکھ رہے ہو اور کیوں لکھ رہے ہو؟ ایسے موقع پر بہت خوف آتا ہے اور اس معنی میں بھی آتا ہے کہ کل خدا کے حضور کیا جواب دوں گا! لیکن پھر بھی اگر قلم کار کے پاس تازہ افکار ہیں اور وہ بصیرت رکھتا ہے تو ایسے موقع پر بھی وہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا دامن بچا لے جاتا ہے۔
’ای ٹی وی نیوز نیٹ ورک‘ میں ایسا بہت ہوا، اور میں واحد اِڈیٹر تھا جس کی لڑائی ہمیشہ حق کے لیے ہوتی تھی۔ حالاں کہ وہاں بھی میرے بہت سارے ایسے خیرخواہ تھے جو مجھے ڈانٹتے تھے، کہ تمھارا یہ رویہ تمھیں نوکری سے بے دخل کر سکتا ہے لیکن میں جتنے دن بھی وہاں رہا اپنے اصولوں پر قائم رہا اور جس دن مجھے لگا کہ اب میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے کہ میرا یہ ماننا ہے رزق کا مالک اللہ ہے اور اگر آپ حق پر ہیں تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔
میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں پیسے کے بل پر اسٹوری کو انتہائی مثبت اور کہانی کو بہت منفی ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ نیوز چینل میں کام کے وقت زیادہ تر اسکرپٹ میں ہی دیکھتا تھا۔ اس وقت بابا رام دیو کا اشتہار تقریبا سارے چینلوں کو مل رہا تھا، سوائے اس چینل کے جہاں ہم کام کر رہے تھے۔ چینل کے ذمہ داران نے بہت کوشش کی کہ بابا رام دیو کا اشتہار ان کے چینل کو بھی ملے، مگر انھوں نے منع کردیا۔ اب چینل نے ایک دوسرا حربہ اختیار کیا، کہ بابا رام دیو اور پتنجلی مصنوعات کے خلاف اسٹوری چلانا شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ اسٹوری مکمل طور پر ڈیسک پر تیار کی جارہی تھی اور پوری کی پوری جھوٹ یا دروغ گوئی پر مبنی تھی۔ انتظامیہ نے مجھ سے بہت چاہا کہ یہ سلاٹ میں کروں لیکن میں نے صاف منع کردیا۔ بعد میں بابا رام دیو کو جھکنا پڑا اور انھوں نے اس چینل کو بھی اشتہار دینا شروع کر دیا۔ پھر چینل کا رخ ایک دم بدل گیا۔
اس طرح دہلی کے ایک اردو اخبار کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ہمدرد دواخانہ والوں نے اردو کے کئی بڑے اخبارات کو اشتہار دیا۔ ہم جہاں کام کرتے تھے اس اخبار کو اشتہار نہیں ملا، اب اِڈیٹر نے مجھے حکم صادر کر دیا کہ میں ”ہمدرد“ کے خلاف منفی خبریں لکھوں۔ اس وقت بھی میں نے معذرت کرلی، جب کہ اسی اخبار کے ایک صحافی نے ایسی ایسی فرضی خبریں بنائیں کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگا۔ اسی صحافی نے دیوبند کے کسی حکیم یا ڈاکٹر کے حوالے سے (مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے سچ مچ میں ان سے بات کی تھی یا خود سے ہی بہت ساری باتیں گڑھ لیں تھیں) خبر بنائی کہ ”ہمدرد“ کے معروف شربت ”روح افزا“ کے استعمال سے آنکھ کی بینائی جاسکتی ہے۔ اس صحافی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سلسلے وار اس پر اتنا لکھا کہ ”ہمدرد“ والوں کو اشتہار دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اس طرح کی مہموں میں کبھی شریک نہیں رہا۔ سر تا سر مادی نقطۂ نظر سے میں کہ سکتا ہوں کہ میں نے نہ لکھنے کی وجہ سے بھی خاصہ نقصان اٹھایا ہے، حالاں کہ یہ فی الحقیقت نقصان نہیں ہے۔
ایک طرف ایسا ہے کہ بہت سے لوگوں کو میری تحریروں میں ان کا دکھ درد نظر آتا ہے، جیسے میرا قلم ان کی ترجمانی کررہا ہے اور دوسری طرف ایسا بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو مجھ سے خفت بھی ہوجاتی ہے۔ چوں کہ ہمارے معاشرے میں منافقین کی کمی نہیں ہے۔ وہ عام زندگی میں کچھ اور دکھائی دیتے ہیں اور ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، زمینی سطح پر ایسے بہت سے لوگوں کی جھوٹی سچی کہانیاں مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی بھی ہیں، کچھ چیزوں کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اورکچھ کو قلم و قرطاس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جس کی کہانی لکھی جائے گی اگراس کی حقیقت بیان کردی گئی تو وہ نارض ہو جائے گا اور کہے گا کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں اور الٹا لکھنے والے کو مارنے کی دھمکی دیتے ہیں یا پھر لالچ دیکر اس کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سب دیکھتے ہیں کہ ایسے افراد کی تعداد ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔
ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہم سے بہت بعد میں اپنے کیریر کا آغاز کیا، آج ان کے پاس اپنا مکان ہے، ان کی اپنی گاڑیاں ہیں اور خطیر رقم کا بینک بیلنس ہے۔ جب کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی لکھنے لکھانے میں لگادی، لیکن مادی لحاظ سے وہ کیریر کی ابتدا کے وقت جہاں تھے سالہا سال بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں نے علمی سطح پر اپنی پہچان ضرور بنائی ہے مگر علم کو کون پوچھتا ہے، ہندستانی تو گھوڑے گاڑیاں ہی دیکھتے ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ جلد یا بدیر لوگوں کو ان کے بارے میں علم ہو ہی جاتا ہے بلکہ ان کے انداز و اطوار سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ بکے ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے متاع علم و قلم کا سودا کیا ہوا ہے۔ لہذا زندگی کے اگلے مرحلے میں ایسے افراد کو وہ محبت نہیں مل سکتی یا نہیں ملتی جو ایک حق گو صحافی یا لکھاری کو ملتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک لکھاری کی یہی کامیابی ہے۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں