تعلیم کی نجکاری اور نوجوان
تعلیم کی نابرابری سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ،ان کی بے روزگاری ملک کوخطرناک مستقبل کی طرف لیے جارہی ہے۔
محمد علم اللہ اصلاحی
آج ہماراتعلیمی نظام صاف طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے، ایک
جدید تعلیم کا نظام ہے جس کے تحت روزگارپر مشتمل نصاب ہے اور دوسری طرف روایتی
تعلیمی نظام ہے جس کے ساتھ روزگار کے بہت کم مواقع جڑے ہوئے ہیں۔ روزگار کے مواقع
حاصل کرانے والی تعلیم کے لیے اقتصادی طور پر خوشحال طبقہ میں دلچسپی دکھائی دیتی
ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کے بچے اس تعلیم کو حاصل کرکے ہی بڑے روزگار حاصل کر
سکتے ہیں۔ہمارے دیہی نوجوانوں کے ماں باپ اتنے خوشحال نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کو
مہنگی تعلیم فراہم کر سکیں، ہمارے ملک میں تعلیم کے لئے ایسا ماحول تیار ہوتا جا
رہا ہے جس میں سبھی کو سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا،ایسے ماحول کے لئے ہماری سرکاری
پالیسی ہی ذمہ دار ہے۔
ملک کی آزادی کے وقت لارڈ میکالے کے ذریعہ دئے گئے تعلیمی نظام کو ہی
حرف آخر سمجھا کیا گیا جس سے ہمارے ملک کا آج تک صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ آج بھی ہم
تعلیم کے لئے دیہی سطح پر بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔کئی گاؤں میں آج بھی
بنیادی اسکولوں کی کمی ہے، بچے آج بھی کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جانے پر مجبور
ہیں۔ ایسے ماحول میں کمزور اقتصادی حالت والے خاندان اپنے بچوں کومزید تعلیم کے
لئے شہروں میں بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔آج بھی تقریباً 60 فیصد بچے پرائمری
اسکول سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت نہےں رکھتے۔ 40 فیصد بچے ثانوی درجات کی
تعلیم کے بعدسکول چھوڑ دیتے ہیںجب کہ 20 سے 25 فیصد بچے ہائی سکول تک کی تعلیم ہی
حاصل کرپاتے ہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مسائل انہیں آگھیرتے ہیں، ایسے حالات میں
اعلٰی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوانوں کی کس قدر نمائندگی ہوگی؟روایتی تعلیم کے
میدان میں کوئی دیہی نوجوان گریجویٹ تک کی تعلیم حاصل کرلےنے کے باوجود روزگار کے
بازار میں اپنے آپ کوکسی مقام پر نہیں پاتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کی صورتحال
بہت ہی خراب ہے۔گزشتہ کئی سالوں کے تجزیہ کے مطابق روزگار کے مواقع نہ ہونے کے
برابر ہیں۔
ہمارے دیہی سماج کے صرف 12.0 فیصد نوجوان ہی مینجمنٹ یاپروفیشنل کورس
کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں، ان میں سے صرف.0 2 فیصد ہی کوئی بڑا روزگار حاصل
کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ہماری حکومت نے جس تیزی سے روزگار سے جڑے تعلیم کی نجی
کاری کی ہے اس سے مفلس اورعام طبقہ کو ایسی تعلیم سے محرومی ہی نصےب ہوئی ہے۔اس
نجی کاری نے انجینئرنگ ، طب ، مینجمنٹ ، کمپیوٹر اور مختلف روزگار فراہم کرنے والے
ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورسوں کے ذریعہ تعلیمی نظام پرغاصبانہ قبضہ کر لیا ہے ،من
مانے طریقہ سے داخلہ جاتی عمل اور فیس کا ڈھانچہ کھڑا کر لیا گےا ہے جس کے ذریعہ
تعلیمی ادارے محض پیسہ کمانے کا مر کز بن کر رہ گئے ہیں،جہاں خوشحال لوگوں کے بچوں
کو داخلہ دے کر موٹی فیس وصولی جاتی ہے تاکہ ان کی اور ان کے ادارے کی صحت بنی
رہے، تعلیم کے اصل مقصد سے منحرف یہ ادارے سرکاری ہدایات و احکامات پرکبھی عمل
نہیں کرتے ،کیونکہ انہوں نے اپنے اصول قانون اپنی سہولت کے مطابق گڑھ لیے ہیں۔
اس نجی کاری کے ذریعہ غریب اور دیہی نوجوانوں کو اعلی تعلیم سے ہی
محروم رکھنے کاکھیل نہیں چل رہا ہے بلکہ انہیں اسکول کی تعلیم سے بھی محروم رکھنے
کی سازش چل رہی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑے پبلک اسکولوں کے پاس بھی ان
غریبوں کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے،وہ ملکی مفاد
میں سوچنے کے لئے مجبور نہیں ہیںوہ صرف انہیں ہی اپنے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں
جو ان کے مقرر کردہ فیس کوبلاتامل ادا کر سکیں۔اس ناروا تقسیم کے نتیجہ میں
ابتدائی دورسے ہی معیار زندگی پستی کی راہ پر لگ جاتاہے اوربالآخر امیر ،غریب دو
متوازی سماج تشکیل پاتے ہیں، ان میں سے ہر دو کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے تحفظ
کی خاطر دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، ایک طبقہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر
حسدکاشکار ہوجاتااور دوسراافراط زر اور وسائل کی فراوانی میں کوتاہ بیں اور غفلت
شعار بن جاتاہے۔
تعلیم کی نابرابری سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں
،ان کی بے روزگاری ملک کوخطرناک مستقبل کیطرف لیے جارہی ہے۔ دیہی نوجوان چھوٹے
موٹے کاموں کے لیے ہی شہر کی طرف رخ کر رہے ہیں جس سے ملک کے بنےادی ذریعہ آمدنی
زراعت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شہروں میں معیار زندگی میں بھاری فرق کو دیکھتے
ہوئے کچھ نوجوان جلد امیر بننے کے چکر میں جرائم کے مرتکب ہوجاتے ہیں، گاؤں میںرہ
کر بھی وہ کھیتی میں کامےاب نہیں ہوتے ،کیونکہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج کل کھیتی
گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہے ، اس میں لگائے گئے سرمایہ کی قیمت نکالنا ہی مشکل
ہو گیا ہے، ایسے حالات میں تمام راستوں کو بند دیکھ کر دیہی نوجوان کشمکش کا
شکارہیں۔ ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھے اور دیہی نوجوانوں کے لئے
ایسا لائحہ عمل مرتب کرے کہ وہ اپنی زندگی کو سماج کے مرکزی نقطہ سے جوڑنے میں
کامیاب ہو سکیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ دیہی نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کرے کہ وہ
بے چارئہ محض نہ بنیں بلکہ” تعلیم سب کے لئے “”اسکول جائیں ہم“ اور” مڈ ڈے میل“
جیسی سرکاری کوششوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے تاکہ اس کے خاطر خواہ فوائد ظاہر
ہوسکیں۔
alamislahi@gmail.com
Md.Alamullah
Islahi
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں