کتاب :
وہ دن (افسانوی مجموعہ)
مصنف :
غیاث الرحمان
ناشر :
عرشیہ پبلی کیشنز ،دہلی 95
قیمت :
130
مبصر :
محمد علم اللہ اصلاحی
ارد و دنیا کے فکشن میں ڈاکٹر غیاث الرحمان
کا نام نیا نہیں ہے ۔ناول نگار ،افسانہ نگار ،اسکرپٹ رائٹر اور ایک اچھے استاذ کی حیثیت
سے ادب اور میڈیا کے میدان میں انھوں نے ج شناخت بنائی ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصہ میں
آتا ہے ۔ ان کی کئی کتابوں کو مختلف اکادمیوں اور اداروں کی جانب سے ایوارڈ اور انعامات
سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ براڈ کاسٹنگ ،ریڈیو اور درس و تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے
انھوں نے نہ صرف ادب کی خدمت کی ہے بلکہ اس سے دلچسپی رکھنے والے افراد کی ایک کھیپ
بھی تیار کی ہے ،اور خاموشی سے ان کی تربیت میں جٹے رہے ہیں ۔جومیڈیا سمیت علم و ادب
کے مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے انھیں اپنی
کتابوں کو ترتیب دینے یا شائع کرانے کا خیال نہیں آیا ۔لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ احباب
اور اپنے شاگردوں کے اصرار پر انھوں نے حال ہی میں اپنی کئی کتابوں کو شائع کرایا ہے
جسے اہل علم کافی سراہ رہے ہیں ۔زیر نظر افسانوی مجموعہ ”وہ دن“انھیں میں سے ایک ہے
۔جسے عرشیہ پبلیکیشن نے انتہائی اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔
”وہ دن “میں کل گیارہ افسانے ہیں ۔کتاب کا
نام مجموعہ میں ہی شامل ایک افسانہ کے نام پر رکھا گیا ہے ۔جسے کتاب کی روح بھی کہا
جا سکتا ہے ۔ یہ کہانی بھی مجموعہ میں شامل دیگر کہانیوں کی طرح اپنے اندر معصومیت
اور حقیقت کا مرقع ہے ۔ یہ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے جس کے والد کا انتقال ہو گیاہے
۔اور غربت نے اس کی تعلیم بھی منقطع کر دی ہے ۔اس کہانی میں اسکول ماسٹر ،غربت اور
پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسکول سے نام کاٹ دئے جانے اور ماں کے ساتھ گھاس بیچ کر روزی
روٹی کی تلاش میں سرگرداں بچے کی مظلومیت کو آشکارا کیا گیا ہے ۔جو انتہائی حساس طبیعت
کا مالک ہے اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ناہمواریوں کو شدت سے محسوس کرتا
ہے ۔ایک عورت سے جو جھاڑی میں کراہ رہے خارش زدہ کتے کو پانی پلانے کی خاطر کنویں سے
پانی نکالنے میں مدد کرتی ہے سےبات چیت کے دوران اس کے پیٹھ پر ماں کی طرح کا باپ کے
مارنے کی وجہ سے نشان دیکھ کر سوال اور عورت کے جواب کے بعد ”کہ کیاسب ہی آدمی اپنی
عورت کو مارتے ہیں “(صفحہ48 )بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ۔ کہ ہمارا معاشرہ عوت
جسے اللہ نے مظلومیت اور محبت کی دیوی بنایا ہے کو اس کو اس کا حق دینے کے بجائے مارا
اور پیٹا جاتا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے عصمت چغتائی نے مصنف کے بارے میں کہا ہے ”اس کے
افسانوں میں بچہ اپنی پوری معصومیت کے ساتھ نظر آتا ہے اور ”عورت“ماں اور بہن کے حقیقی
جذبات کے ساتھ دکھائی دیتی ہے “(صفحہ119 )۔
اس کتاب میں بزرگوں کی ہمت افزائی کے عنوان
سے کئی ممتاز اور بڑے افسانہ نگاروں کے تاثرات بھی شامل کئے گئے ہیں جس میں عصمت چغتائی
اور قراة العین حیدر کے علاوہ اقبال متین ،حیات اللہ انصاری ،غیاث احمد گدی اور سلام
بن رزاق جیسے مایہ ناز ادیبوں اور افسانہ نگاروں کے نام شامل ہیں ۔کہنے کو تو یہ ایک
چھوٹا سا افسانوی مجموعہ ہے لیکن اس کی ہر کہانی اپنے آپ میں ایک مکمل داستان ہے جس
میں ماضی ،حال اور مستقبل کا پورا منظر نامہ بکھرا ہوا اور کھلے ہوئے آئینہ کی طرح
صاف نظر آتا ہے ۔خوا ہ وہ ”آنچل “ہو ،”پیاسی کونپیل “،”اس پار“،”وہ دن “،”کبریٹ “،”کنارہ
“،”ماریا “،”شبنم “،”منا“،پناہ گاہ “یا پھر” سوداگر“ہر ایک میں مظلومیت ،شفقت ،محبت
،مسرت ،معصومیت ،انیسیت،غربت ، فرقت ،محبت ،چاہت اور حقیت پوری آب و تاب کے ساتھ نظر
آتی ہے ،اور جس میں معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے اس کی ناہمواری ، تبدیلی ، ناچاقی ،
بے حسی ،آوارگی ،استحصال اور ٹوٹتے بکھرتے رشتوں جیسے مسائل کو خوبصورتی سے دکھاتے
ہوئے قاری کو سوچنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔اور ہر کہانی قاری
کو جھنجھوڑتی اور کچوکے لگا کر نہ صرف بیدار کرتی ہے بلکہ اسے سوچ و فکر کی گہرائیوں
میں داخل کر کے اس کا حل بھی ڈھونڈنے کے لئے مجبور کر دیتی ہے ۔
مثلا کہانی ”آنچل “ میںایک معصوم بچپن کی
یاد اور شفقت پدری اور مادری سے محروم بچے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے ۔اس میں ایک
معصوم بچے کے کردار کو ہی واضح نہیں کیا گیا ہے بلکہ ایک متوسطہ مسلم خاندان کے مسائل
اور قصباتی زندگی کی خوبصورت عکاسی بھی ہے ۔تو ”پیاسی کونپل “ میں بچہ ،گڑیا ،اسکول
،ممی اور ڈیڈی کے نفسیات کا مطالعہ کرتے ہوئے معاشر ے کی بے حسی اور بے فکرے والدین
کے رویہ پر چوٹ کی گئی ہے ۔”اُس پار “ میں نوجوانی کی محبت ،اس کے لئے بے جا اکسائٹیڈ
اور بوڑھے کاکا اور نوجوان گنگا کے درمیان جس نے ابھی تجربات اور معاشرے کے اتار چڑھاو
اور ان کی فریبیوں کو نہیں دیکھا ہے کہ درمیان ہونے والی گفتگو کو ایک خوبصورت کہانی
کا روپ دیا ہے ۔تو” کبریت“ میں فرقت اور مصیبت کی ماری دو ایسے پرندوں کی داستان حیات
بیان کی گئی ہے جن کی کافی مشقتوں کے بعد دو بچے ہوتے ہیں ۔بھوک سے تڑپتے بچو ں کے
لئے ماں دانہ لانے جاتی ہے واپسی پر اسے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دونوں بچوں کو سانپ کھا
گیا ہے ۔ پریشان حال اپنی دکھڑا سنانے کے لئے وہ چڑا کو ڈھونڈنے نکلتی ہے تو کیا دیکھتی
ہے کہ وہ بھی ایک پنجرے میں بند ہے اور ایک بچہ اس کا گلا دبا کر مار رہا ہے ۔مردہ
پرندہ کھڑکی سے باہر پھیک دیا جاتا ہے وہ اس کا ماتم منانے اور رونے کے لئے جاتی ہے
اس کے پاس تو ظالم انسان اسے بھی غلیل کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔اس
میں بھی انسانی دکھ اور پرندے کے دکھ کو جیل اور پنجرے کے ذریعہ خوبصورت موازنہ کرنے
کی کوشش کی گئی ہے ۔افسانہ ”کنارہ“میں ٹوٹ کر چاہنے والی ایسی بیوی کی داستان بیان
کی گئی ہے جو اپنے پتی کی خاطر ،دو بچوں کو قربان کر دینے کے بعد اپنی جان بھی تابتی
ماتا کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے ۔ وہیں ”ماریا “پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی الہامی
کتاب یا کہانی پڑھ رہے ہیں اور اس کا ایک ایک لفظ ہمارے سینے کے اندر چبھتا چلا جا
رہا ہے ۔تو پناہ گاہ چاہت اور محبت کی ایک ایسی داستان ہے جسے انسان حاصل کرنے کے لئے
بے تاب ہو جاتا ہے ،ہر طرح کی تگ و دو اور کوشش کرتا ہے ،لیکن اس کی ساری کوششیں اور
تمنائیں بے کار جاتی ہیں تو وہ تب وہ خود کو تسلی دینے کے لئے کہتا ہے ”یہ ضروری تو
نہیں کہ آدمی جو چیز چاہے وہ اس کو مل بھی جائے “۔کہانی” شبنم ایک ایسے چُل بلی اور
چنچل دو شیزہ کی کہانی جو بوڑھی نہیں ہونا چاہتی لیکن بوڑھی ہو کر اس دنیا سے سدھارتی
ہے ،عمر کے ایک بڑے حصے کو پار کرنے والی بوڑھی عورت نہیں بلکہ زیادہ بچہ پیدا کرنے
اور حالات کی ماری مریض ہو کر بوڑھی ہونے والی مریضہ کی کہانی “توافسانہ”پناہ گاہ“
میں بے لباس انسان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آخرت کے تصور کو خوبصورتی سے بیان کرنے
کی کوشش کی گئی ہے ۔اس کہانی کو پڑھتے ہوئے قران کی کئی آیتیں آنکھوں کے ارد گرد گھومنے
لگتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ہماری اپنی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔کہانی
”سوداگر “ میں کئی باتیں سمٹ آتی ہیں یہ ایک بہترین تمثیلی کہانی چالاک ،عیار اور مفاد
پرست انسان کی ہی کہانی نہیں کہتی بلکہ معاشرہ ،قوم اور ملک کے حالات کو بھی بیان کرتی
ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو کیسے اپنے دام میں لاتی ہے یا اسے زیر کرنے کے لئے کیسے
کیسے حربہ اپناتی ہے وغیرہ
الغرض ہر کہانی جیسا کہ میں نے اوپر بیان
کیا ایک داستان ہے ،جس کے ذریعہ سے معاشرے کے سماجی اور نفسیاتی حالات کا اندازہ ہونے
کے علا وہ ،تخلیق کار کی کامیابی ،کوشش اور محنت کو بھی درشاتا ہے ۔ان کہانیوں کو پڑھتے
ہوئے قاری کی طبیعت بور اور بوجھل نہیں ہوتی بلکہ اخیر تک اپنے سحر میں گرفتار رکھتی
ہے ۔ اور ظاہر ہے یہ کیفیت قاری ک اندر پیدا ہو جائے تو ہی ایک تخلیق کار کو کامیاب
تخلیق کار کہا جا سکتا ہے جو اپنے قاری کو الفاظ کی بھل بھلیوں میں نہیں بھٹکاتا ،اور
قاری اس سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر تبدیلی کی تحریک بھی پیدا ہوتی
ہے اور وہ دیر تلک یہ سوچتا رہتا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں ایسا بھی ہوتا ہے ۔ یعنی
ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان اچھے اور بہتر کہانی کی جو خصوصیات
بھی ہو سکتی ہیں وہ ان کی کہانیوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔چاہے وہ زبان و بیان کا
معاملہ ہو ، تیکنک ،منظر،پلاٹ اور کردار نگاری کا یا پھر سلاست ،روانی یا الفاظ کے
انتخاب کا ہر ایک میں چابک دستی اور ایک ماہر استاذ کا ہنر جلوہ گر نطر آتا ہے ۔چھوٹی
چھوٹی چیزوں کو بھی جسے آپ جزیات نگاری بھی کہہ سکتے ہیں بہترین انداز میں بیان کرنے
کی کوشش کی گئی ہے جس پر عام لوگوں کی نگاہ نہیں پڑتی یا پڑتی بھی ہے تو وہ نظر انداز
کر جاتے ہیں ۔افسانہ پڑھتے ہوئے یہ چیزیں قاری کو چونکاتی اور اس کے اندر تجسس بھی
پیدا کرتی ہیں ۔
محاورے ، استعارہ ،کنایہ ،تراکیب اور تماثیل
کا استعمال بھی افسانوں میں خوب ہوا ہے ۔مثلا پہلے افسانہ آنچل میں آنسو کی تشبیہ نالے
سے کس خوبصورتی سے دیا ہے ملاحظہ فرمائیں :”گالوں پر دو باریک باریک دھاریں اب بھی
بہہ رہی تھیں ،جسے بارش بند ہو جانے کے بعد بھی پرنالے سے پانی بہت دیر تک بہتا رہتا
ہے “(صفحہ1)۔منظر نگاری اور پیکر تراشی کی ایک مثال دیکھیںافسانہ ”اس پار“ سے: ” پھر
اسکی (بھینس کا نوزائدہ بچہ )پر ہاتھ پھیر کر بیٹھتی ہوئی اس کا سر بالٹی میں جھکاتی
ہے اور دوسرا ہاتھ بالٹی میں ڈبو کر انگلیاں بچے کے منہ میں دے دیتی ہے اور بچہ ماں
کی تھن سمجھ کر کھٹی کھٹی چاچھ پینے لگتا ہے ۔اور لڑکی کی رگوں میں لذت کی ایک لہر
دوڑ جاتی ہے (صفحہ27س)۔افسانہ وہ دن میں ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں اُگے ہوئے کالے موٹے
بال کی مثال کس چیز سے دیتے ہیں دیکھئے :”بالکل ریچھ کے جیسے ہتھیلی کی پشت پر گلتا
ہوا پھوڑا(صفحہ37)۔یا کہانی منا میں پستانوں کے لئے مستعمل مثال :”سامنے کی دو اٹھی
ہوئی پہاڑیاں جیسے دو شیزہ کے سینے کا ابھار“(صفحہ90 )۔اس طرح کی سیکڑوں نادر اور زبان
و ادب کی چاشنی لئے ہوئے خوبصورت اسلوب ،اختصار ،ایجاز اور دلوں میں نقش کر جانے والے
جملے پوری کتاب میں بکھرے پڑے ہیں ۔
مصنف کی تعلیم و تربیت علی گڈھ کے فضا میں ہوئی
ہے تو اس کا بھی عکس کئی جگہ کہانیوں میں نظر آتا ہے ۔ بحیثیت مجموعی اس کتاب کے
بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں جب کہ اچھے اور پائدار لکھنے والے قلم
کا روں کا بحران ہے علم و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے یہ کتاب ایک قیمتی
تحفہ ہے ۔ کاغذ عمدہ ، قیمت مناسب اور ٹائٹل خوبصورتت ہے ۔ لیکن اتنی اچھی کتاب
ہونے کے باوجود پروف ریڈنگ کی کمی کئی جگہ محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن یہ اتنی زیادہ بھی
نہیں ہے کہ یہ زبان یا اسلوب کی سلاست اور روانی کو مجروح کرتی ہو تاہم کتاب ایک معتبر شخصیت کے قلم سے لکھی گئی ہے توہم
اس کی بھی توقع کرتے ہیں کہ پروف کی اغلاط بھی نہ ہوں ۔ تاکہ طلباء اور خصوصا نئے
لکھاریوں جس کے لئے اس میں بہت کچھ ہے
جانے انجانے میں ایسی غلطیوں کو بھی درست تصور نہ کر بیٹھیں ۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں