منگل، 10 ستمبر، 2013

دہشت گردی کے انتہائی وسائل حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار


محمد علم اللہ اصلاحی
انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ نیا لفظ ہے اور نہ دہشت گردی۔ انسانی معاشرہ کے آغاز سے آج تلک اور مختلف تہذیبوں کی ترقی سے تباہی کے صفحات پر ان کی مہر لگی صاف دکھائی دیتی ہے۔ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے سرگروہان کی اس سلسلہ میں کارگزاری بھی کوئی خیر پہ مبنی نہیں ہے۔رہے وہ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں.... ان کی بات ہی الگ ہے، انہوں نے اپنے اپنے ازم کی تبلیغ اورفکر و فلسفہ کی ترویج کے لئے وقتاً فوقتاً اس لعنت کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے سینکڑوں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔اس بارے میں ابھی تک اس بات کا انکشاف ہی نہیں ہو سکا ہے کہ حقیقت میں یہ حملہ کیا کس نے!!محض اٹکل کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ جا ری ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بابت یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حقیقت کے ادراک کے باوجود بھی انجام کار کوئی مثبت چیز سامنے لائے شاید ہی ہی ممکن ہے ،کیونکہ کہ یہ سارا کا سارااپنے مفاد اور محض اپنے مقصد کی حصولیابی کی خاطر ہوا ہے۔
اور اسمیں کوئی شک نہیں کہ ایسے نام نہاد فتح و کامرانی کی ہوس اور خواہشِ اقتدار نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔اوراسی سبب جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے، بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات ہوگی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے اور اس کے لئے کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں، تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔اوریوں ان کےاپنے خاص مقصد اور ایجنڈہ کو زک پہنچے۔
قانون کی دھجیاں کس نے اڑائیں:
اس سلسلہ میں ماضی قریب جسے پوری انسانی عہد میں سب سے زیادہ پر امن ،تعلیم اور ترقی یافتہ گردان کر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ،سب سے زیادہ تباہی اسی عہد میں ہوئی ہے۔اور اس بابت جو سب سے زیادہ خود کو امن کا نقیب ثابت کرنے اور مسیحائی کا گن گانے کی بات کر رہا ہے نے انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔چنانچہ اس بارے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکہ جیسی سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا ،کیونکہ ان کی خفیہ نظام کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔اسی معاملہ کو لے کر ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل مسلم ہے کہ 2009 میں مبینہ طور پر 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا خوف امریکہ کوزیادہ ستانے لگاہے۔ اس کو سب سے بڑا ڈر عراق جیسے ممالک سے تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ یہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کو ایسے ہتھیار بھی دے سکتا ہے یا پھر خود اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے عراق پر حملہ بھی کیا گیا اور ایسے ہتھیاروں کی تلاش وہاں آج بھی چل رہی ہے، جس میں فی الحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔
ان تباہ کن تمام صورتحال کو دیکھ اور سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہتھیارکیا ہیں ، یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اور لوگ ان سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں ؟یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اس کے باوجود اس کا استعمال دھڑلے سے کیوں ہو رہا ہے ؟اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں مو ¿ثر طور پر کیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوزکو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور ہوا کے رخ کے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس گیس کی خوفناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کئے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قواعد و قوانین کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرزسے بھلا کون ناواقف ہوگا؟
تاریخی حوادث اور اس کے اثرات :
آج کل سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم ہندوستان میں بھوپال گیس حادثہ سے،جہاں یونین کاربائڈ پیسٹی سائیڈز یعنی کرم کش ( کیڑے مار ادویات بنانے والی فیکٹری ) میں حادثہ کی صورت میں 2 دسمبر 1984 کے دن ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کے ذریعہ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے اثرات کو جھیل رہے ہیں۔یعنی پیدائشی طور پر بچوں کا معذور پیدا ہونا یا ایسی بیماریوں کی گرفت میں آ جانا جس کی دوائیں بھی عموما دستیاب نہیں ہیں سے لگا سکتے ہیں۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر 1995 میں ”مسنر و “نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس کا رساو ¿کر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے شاید ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔فی زمانہ ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوارکے ذخیرہ اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لئے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں ،لیکن ان کا نتیجہ بھی سب پر واضح ہے۔
کون کتنا آگے:
 تحقیقات کے مطابق 1985 میں 68،000 اعلی خطرناک ہتھیار تھے ، جن میں سے کچھ یعنی 4،100 فعال ایٹمی ہتھیاراب بھی ہیں اور 2013 ءتک پوری دنیا میں 17،000 کل ایٹمی ہتھیار اب موجود ہیں۔ ان میں امریکہ کے پاس سب سے زیادہ2,150 / 7,700 ہتھیار ہیں جبکہ روس کے پاس 1,800 / 8,500، فرانس کے پاس 290 / 250،برطانیہ کے پاس 160 / 225،چین کے پاس 250، ہندوستان کے پاس 65 اور پاکستان کے پاس 25 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک نے وسیع قتل عام والے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ امریکہ نے 1200 سے زیادہ جوہری ٹیسٹ کیے ہیں تو روس نے تقریبا 1000، برطانیہ نے تقریبا 45، فرانس نے 210، چین نے 50 اور ہندوستان نے تقریبا 10 جوہری تجربے کیے ہیں۔ پاکستان نے بھی تقریبا 10 کے آس پاس جوہری ٹیسٹ کیے ہیں، ایران، عراق، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور لیبیا نے بھی رپورٹ کے مطابق ایٹمی ہتھیار پروگرام چلا رکھے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے تناظر میں بھی کہی جا رہی ہے بلکہ اس نے تو تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔
کتنے خطرناک ہیں یہ :
لیکن انسانیت کے لئے اس کی زہر ناکی اور خطرناکی کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔حالانکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ حیاتیاتی کیمیائی عناصر جاندار کو جیسے ہی مس کرتے یا اس کے جسم میں داخل ہوتے ہیں ،اپنا عمل شروع کر دیتی ہے اور اس کا انجام آخر کار زندگی کاخاتمہ ہی ہوتا ہے۔یہ کس طرح عمل کرتی ہے اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لئے "ایسی ٹل کولین " نامی کیمیکل کا اخراج کرتی ہیں۔ اور چونکہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل پر ہی انحصارہوتا ہے۔اس لئے اگر اعصابی نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایساسینہ اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ایسی ٹل کولین کو اعصابی نظام کے خلیات سے دور کرنے کے لئے کولینسٹریز نامی اینزائم کی ضرورت پڑتی ہے۔جبکہ سیرین اور وی ایکس ' جیسی زہریلی گیسیں مندرجہ بالا اینزائم سے رد عمل کر کے ایسی ٹل کولین کو ہٹانے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں مبتلا شخص کی موت کچھ ہی لمحات میں دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لئے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریوں کی جڑ میں جراثیم ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس اور اسی طرح کی دیگر ادویات کی تلاش سے پہلے طاعون اورہیضہ جیسی بیماریوں نے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز،کینسراور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے راستہ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری طرف انسان انہیں بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جانداروں کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورتحال نیوکلئیر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے کہیں زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گیری دکھا کراس کی افزائش میں لگی ہوئی ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟ظاہر ہے ایسے حملے کے لئے کسی جدیداسلحہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذرائع کا کام کر رہا ہے۔ یہ اس عمل کا محض ایک مثال بھر ہے۔
تنویمی معمول  :
سائنسدان کھاد پر بھی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلہ سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب یا پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو انجانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ اس قسم کے حملوں کے بعد ہم ایک نادیدہ دشمن کے رحم وکرم پہ ہوں گے ، جس کا نہ چہرہ ہو گا نہ شناخت....ایسے میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں تو کیسے؟ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتہ بھی کر لیں تو بھی کوئی بڑا فائدہ نہ ہو گا۔ یوں کبھی نہ ختم ہونے والا حادثوں کا سلسلہ شروع ہوگا ،اس لئے کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کرنے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بائٹک بھی کام نہیں کر پائیں گے۔ اور اس کی وجہ سے وہ ہوا ، جسے ہم سانس کے ذریعے اندر لے جاتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اوراس وقت تک شاید پورے انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی،حالانکہ یہ حیاتیاتی ہتھیار کے استعمال کا سب سے سستا لیکن بھونڈا طریقہ ہے۔
اب ذرا کچھ ایسی مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جوحقیقی خطرہ ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔اینتھریکس(Anthrax) پھیلانے والے بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بکٹریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیواثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری جلد میں بھی اگر کوئی زخم ہے تو وہاں بھی یہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں اس بیماری کی جان لیوا علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے” سپورز“(Spores)سات سے دس دن کے اندداخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سردرد، قے، سردی، کمزوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لئے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار ....نیزجلد پر نیلے دھبے .....نتیجہ بالآخر موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
کھانے پینے کے ساتھ اینتھریکس کے اسپورز ہماری غذائی نالی میں پہنچ کرمتلی ، خونی قے، خونی اسہال، پیٹ درد وغیرہ کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ 25 سے 60 فیصد لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ جلد پر اس کا اثر چھوٹے چھوٹے دانوں کے طور پر نظر آتا ہے جو جلد ہی پھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے پانی کی طرح پیپ بہتی رہتی ہے۔ ابتدائی علامات کے وقت اس کی تشخیص " سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی " اینٹی بایو ٹک " کے ذریعے سے کیا جا سکتی ہے لیکن بعد میں صرف اس " ببیکٹیریا " کو تباہ کیا جا سکتا ہے.....بیماری کو نہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹریا کے ا سپورز کو پاوڈر کی شکل میں ڈاک کے ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی تھی ،جس سے امریکہ کے لوگ کافی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسمال پاکس جسے ہم چیچک کے نام سے بھی جانتے ہیں، صدیوں سے ایک جان لیوا بیماری کے طور میں بدنام رہی ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں لوگ اپنی جانسے ہاتھ دھو بیٹھے اور آنکھیں تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ لوگ گنوا چکے۔ کتنے ہی چہرے اور جسم پر مستقل خوفناک داغوں کے ساتھ بدصورتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ویری ولا نامی وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے ویکسی نیشن کی مدد سے پوری دنیا کو نجات مل گئی۔ 1975 کے بعد اس بیماری کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے پھر بھی لوگوں کو خوف ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد گروہ یا کوئی سرپھرا فوجی آمر اس وائرس کے کسی رد عمل کے طور پرجارحیت کا استعمال کسی حیاتیاتی ہتھیار کی مدد سے نہ کر دے۔
اسی طرح” ہیموریجک “(Hemorrhagic)بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے 1975 میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔اس کی انفیکشن کے اثرات 2 سے 21 دنوں کے اندر نظر آتےہیں۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں. بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددورے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کمزوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں توبہت سے مر بھی جاتے ہیں .....اور ایسے لاکھوں کیس موجود ہیں۔
”باٹیولن بیکٹیریا “(Botyulin bacteria)کے ذریعہ سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں’ لقوہ ‘ اور فالج پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں منہ کھر بیماری پھیلانے والا ببیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گرد سرگرمیوں، ہتھیاروں کے لئے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے،جب کہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت،کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انفراسٹرکچر، رہن سہن اور رہائش، کھیت کھلیان، پل، ہسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہیں۔ قابلِ کاشت زمین زہریلی ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں بیریر لگا دیے جاتے ہیں اور لوگوں کی ان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
حیاتیاتی و کیمائی ہتھیار کا فرق:
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار بنیادی طور پر دو مختلف نوعیت کے ہتھیار ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیاروں میں ہمیشہ کسی جاندار فنگس، بیکٹیریا یا جاندار نما اجسام جیسے وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے دشمن کو ہلاک یا مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کو چلانے کے بعد سے لے کر اس کے کارگر ثابت ہونے تک عموماً کچھ گھنٹوں سے کچھ دن لگتے ہیں یعنی ہتھیار کے چلائے جانے اور دشمن کی ہلاکت کے درمیان کچھ وقت حائل ہوتا ہے کیونکہ ان اجسام کو پلنے، بڑھنے اور پھر کام دکھانے میں وقت لگتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حیاتیاتی ہتھیار کا مقصد دشمن کو ہلاک کرنے سے زیادہ مفلوج کرنا ہوتا ہے تاکہ دشمن پر زیادہ سے زیادہ دھاک بٹھائی جا سکے۔ موجودہ دور میں یہ ہتھیار براہ راست انسان کو نقصان پہنچانے، فصلوں کی تباہی، زمین کی تباہی یا پھر مال مویشی کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا اپنا اپنا طریقِ مبارزت ہوتا ہے جو اس میں استعمال ہونے والے ذریعے پر منحصر کرتا ہے۔
کیمیائی ہتھیار کا عمومی مقصد دشمن کی ہلاکت ہوتا ہے۔ کیمیائی ہتھیار اسی غرض سے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی مدد سے فی الفور دشمن کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیمیائی ہتھیار کی عام اور قدیم ترین قسم دشمن کے علاقے میں گھس کر یا اپنے علاقے کو چھوڑتے وقت پانی کے ذخائر کو زہر آلود کر دینا ہوتا تھا جس کی مدد سے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کی مثالوں میں ویت نام میں ایجنٹ اورینج اور افغانستان میں روس کی جانب سے زہر وغیرہ کو پانی میں ملانا شامل ہیں۔
تاہم یہ ہتھیار جنہیں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہا جاتا ہے، اب ایک طرح سے ماضی کا قصہ ہیں۔ نئے دور کی جنگ اب اس سے کہیں زیادہ جدید ہو چکی ہے۔ اب موسمیاتی طرز کو کنٹرول کرنے، بارش برسانے یا کسی علاقے سے بارش کو یکسر ختم کر دینے، زلزلے اور دیگر "قدرتی" تباہی جیسے طوفان برپا کرنےجیسے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔اور ظاہر ہے اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب تو یہ یہی ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا، عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔اس لئے دہشت گردی کے انتہائی وسائل کے خاتمہ اور انسانیت کی تحفظ کی خاطر سب کو صدق دلی سے ایماندارانہ کردار ادا کرناہوگا اورا س عفریت سے پوری دنیا کے ممالک کو مل کر نپٹنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول اورآب و ہوا دے سکیں گے۔
ماحصل
ان سب کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا ،حالانکہ اب اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کا سوال ہے، اصل میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ کارموجود نہیں ہے۔ جنگ کے علاقے میں فوجی جوان تو گیس ماسک اور جلد کو پوری طرح صاف رکھنے والے سوٹ پہن کر اپنا دفاع کسی حد تک کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا ملبوسات کے علاوہ مختلف قسم کے ویکسین اور مختلف قسم کی بایوٹکس کی بھاری خوراک حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بھی بچاو ¿میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن کسی ملک کے عوام، خاص طور پہ غریب اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کے باسی اپنا دفاع کس طرح کر پائیں گے ؟ کیا وہ ریاستیں اپنے عوام کی حفاظت کے مندرجہ بالا اقدامات کا خرچ برداشت کر سکیں گی؟ چلیے، ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ممکن ہے تو کیا مندرجہ بالا اقدامات کافی ہوں گے؟ اس پر بھی سوچنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
alamislahi@gmail.com