منگل، 30 اپریل، 2013

1984 سکھ مخالف فسادات،ٹائٹلراور متثاثرین کیا انصاف ملے گا؟


محمد علم اللہ اصلاحی 
بابری مسجد انہدام اور گجرات قتل عام سے پہلے آزاد مارکیٹ کی معیشت کی راہ طے کرنے میں ہندو سامراج نے جو دو بڑے پڑاؤ طے کیے، ان میں سے پہلا بھوپال گیس سانحہ ہے تو دوسرا سکھوں کا قتل عام، جسے امریکہ نے نسل کشی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ہو سکتا ہے کہ منموہن کے بدلے راہل کووزیر اعظم بنائے جانے کی بات شروع ہوتے ہی جیسے واشنگٹن نے ویزا کے لئے نریندر مودی کا خیر مقدم کر دیا، اسی طرح وہ گجرات میں قتل عام کی تاریخ کو بھی مسترد کر دیں۔ جمہوریہ ہندمیں گھوٹالوں میں تو کبھی کسی کو سزا ہونے کی اطلاع نہیں ہے، لیکن انسانیت کے خلاف واقع ان چاروں واقعات میں قصورواروں کو سزا نہ ہونا اور ملزمان کے اقتدار سربراہی تک پہنچ جانے کی داستان ،بہر حال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر نظام کی تاریخ میں بدنما داغ سے کم نہیں ہے۔سی بی آئی نے اپنی رپورٹ میں سابق مرکزی سیکرٹری جگدیش ٹائٹلر کو 84 کے فسادات میں کلین چٹ دی تھی۔ لیکن دہلی کی کڑ کڑ ڈوماما کورٹ نے ٹائٹلر کے توقع کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے سی بی آئی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔عدالت نے ان کے خلاف پھر سے جانچ کے احکامات دیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سکھ فسادات کے معاملے میں جگدیش ٹائٹلر کی فائل دوبارہ کھلنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

سکھ قتل عام کے معاملے میں سب سے دلچسپ پہلویہ ہے کہ سکھوں کی نمائندگی کرنے والا اکالی دل اب اس یونین کے خاندان کے ساتھ ہے، جو سکھوں کے قتل عام کے وقت کانگریس کے ساتھ بغیر شرط قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی ۔ اسی درمیان بابری مسجد انہدام معاملے میں اڈوانی کے خلاف اپیل میں کوتاہی کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت کی کھنچائی ضرور کی ہے۔تاہم رام مندر تحریک کے ترکیب کے ساتھ اڈوانی نے بھی گجرات قتل عام کے معاملے میں ملزم نریندر مودی کے مقابلے شدت پسند ہندوتو کا پانسا پھینک کر وزیر اعظم بننے کا دعوی پیش کر دیاہے۔ اب وشو ہندو پریشد کی قیادت میں ہندو قوم کے لئے سنگھ پریوار پھر رام مندر تحریک شروع کر رہی ہے۔ اسی درمیان شرومنی اکالی دل نے دہلی کی ایک عدالت کی طرف سے کانگریس کے رہنما جگدیش ٹائٹلر کے خلاف 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے متعلق معاملے کو پھر سے کھولے جانے کو لے کر دئے گئے حکم کا خیر مقدم کیا ہے۔ جیسا کہ پنجاب کے نائب وزیر اعلی اور اکالی دل کے صدر سکھدیپ سنگھ بادل کہتے ہیں،’’ یہ فیصلہ ہزاروں فساد متاثرہ خاندانوں کے 30 سال کے طویل جدوجہد میں پہلی چھوٹی فتح ہے۔کیسی جیت، کس کی جیت؟ ٹائٹلر کے خلاف 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے منسلک معاملہ تو کھلا!مگر انصاف بھی ملے گا؟ باقی معاملات میں چاہے جو ہوا ہو، سکھوں کو انصاف نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ سکھ سیاست اور قیادت کازعفرانی کرن ہے‘‘۔سکھ بیربادل نے الزام لگایا کہ ’’کانگریس فسادات کے بعد سے ہی دہلی پولس، سی بی آئی اور متاثرہ خاندانوں کو دباؤ بنا کر انصاف کے تمام راستوں کو مسدودکرنے کے لئے کام کر رہی ہے‘‘۔

بہر حال، دہلی میں ہوئے 1984 کے سکھ فسادات کے معاملے میں کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ عدالت نے ان کے معاملے میں سی بی آئی کی طرف سے داخل کی گئی کلوزر پورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ان معاملات کی دوبارہ جانچ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ خبروں کے مطابق اضافی سیشن جج انو رادھا شکلا بھاردواج نے ایک مجسٹریٹ عدالت کے اس حکم کو منسوخ کر دیا، جس میں ٹائٹلر کوکلین چٹ دینے والی سی بی آئی کی کلوزرپورٹ کو قبول کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 2 اپریل 2009 کو سی بی آئی نے یہ کہتے ہوئے فساد کیس میں ٹائٹلر کو کلین چٹ دے دی تھی کہ ان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں۔ ٹائٹلر 1 نومبر 1984 اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پھیلے فسادات میں تین لوگوں کی موت میں ملزم ہیں۔ شمالی دہلی میں واقع پل بنگش گرودوارہ کے پاس بادل سنگھ، ٹھاکر سنگھ، اور گرچر سنگھ کے قتل کے معاملے پر سی بی آئی کی کلوز رپورٹ کو دسمبر2007 میں عدالت نے قبول نہیں کیا تھا ،جس کے بعد معاملے کی دوبارہ جانچ کی گئی تھی۔ سب سے پہلے 2005 میں ناناوتی کمیشن نے اپنے تفتیش میں جگدیش ٹائٹلر کا نام لیاتھا۔ اس کے بعد سی بی آئی نے ٹائٹلر کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جس کے سبب ٹائٹلر کو مرکزی وزیر کے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ٹائٹلر پر الزام ہے کہ سکھوں کے قتل کے وقت وہ وہاں موجود تھے۔ اس سے پہلے 29 ستمبر 2007 کو کورٹ میں پہلی کلوزر رپورٹ دی تھی۔

رپورٹ میں سی بی آئی نے کہا تھا کہ اس معاملے کا اہم گواہ جسبیر سنگھ لاپتہ ہے اور وہ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن معروف ٹیلی ویژن چینل IBN7 نے جس بیر سنگھ کو کیلی فورنیا سے ڈھونڈ نکالا تھا۔جس بیر سنگھ کا کہنا تھا کہ سی بی آئی نے کبھی اس سے پوچھ گچھ ہی نہیں کی۔ اس کے بعد کورٹ نے سی بی آئی کی کلوز رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی دوبارہ جانچ کرنے کا حکم دیا تھا۔کورٹ کے حکم کے بعد سی بی آئی نے کل 6 گواہوں کے بیان درج کئے اس میں جسبیر سنگھ بھی شامل تھے۔ سی بی آئی نے کیلی فورنیا جا کر جسبیر سنگھ کا بیان درج کیا تھا۔ لیکن پھر بھی سی بی آئی نے اس کو قابل اعتماد گواہ نہیں مانا۔ سی بی آئی نے اپریل 2009 میں ایک بار پھر سے معاملے میں کلوزرپورٹ داخل کی۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق 1 نومبر 1984کو پل بنگش میں ہوئے فسادات کے دوران ٹائٹلر موقع پر موجود نہیں تھے۔سی بی آئی نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ ٹائٹلر اس وقت آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی رہائش گاہ تری مورتی بھون میں تھے۔

معلوم ہو کہ 23سال پہلے ہوئے اس قتل عام کے گوا ہ جسبیر سنگھ کی سی بی آئی کو طویل عرصے سے تلاش تھی۔ غور طلب ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد 1984 میں بھڑکے سکھ مخالف فسادات میں تقریبا 3000 سکھ فسادیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔گزشتہ دنوں دہلی کے کڑ کڑڈوما کورٹ نے سکھ مخالف فسادات سے متعلق پل بنگش کیس معاملہ میں یہ حکم دیااور واضح لفظوں میں کہا کہ سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر جگدیش ٹائٹلر اس معاملے میں ملزم ہیں۔سی بی آئی نے عدالت میں اس کیس کو بند کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اپنی کلوزرپورٹ پیش کر دی تھی۔ مگر، عدالت نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے سی بی آئی کو حکم دیا کہ اس معاملے کو دوبارہ کھولا جائے اور پھر سے جانچ کرکے ٹائٹلر پر مقدمہ چلایا جائے۔

غور طلب ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں فسادات بھڑک گئے تھے اور ان فسادات کے دوران کانگریس کے کچھ لیڈروں پر فسادات کو بھڑکانے کا الزام لگا تھا۔ ٹی وی چینل آئی بی این 7نے اس کیس کے ایک اہم گواہ جسبیر سنگھ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔جسے سی بی آئی نے اپنی کلوزر رپورٹ میں قابل اعتماد گواہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔قابل ذکر یہ بھی ہے کہ جسبیر پر دہلی میں 1997 میں فسادات کے ایک گواہ پر حملے اور ایک گواہ کو 25 لاکھ کی رشوت کی پیشکش کا بھی الزام ہے۔اس معاملہ پر جسبیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹائٹلر کو دہلی کے پل بنگش علاقے میں فسادیوں کو بھڑکاتے ہوئے دیکھا تھا۔آئی بی این 7 نے جسبیر کو جب کیلی فورنیاسے تلاش نکالا تھا۔اس وقت جس بیر نے یہ کہا تھا کہ’’ اگر سی بی آئی انہیں اور ان کے خاندان کو تحفظ دے تو وہ ہندوستان لوٹ کر گواہی دے سکتے ہیں ‘‘۔جس بیر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’میں نے کنگس وے کیمپ میں اسپتال کے باہر ٹائٹلر کو بھیڑ کو اکساتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ تمہاری وجہ سے میں شرمسار ہوں۔ نارتھ میں سجن کمار کے علاقے میں دیکھو یا ایسٹ میں ایچ کے ایل بھگت کی آس پاس ہر جگہ سکھوں کی کالونیوں کی کالونیاں منہدم کر دی گئی ہیں۔ لیکن میرے علاقے میں ابھی تک صرف کچھ کو ہی مارا گیا ہے‘‘۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ماہ فروری میں کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کو نشانے پر لیتے ہوئے فساد متاثرین نے سی بی آئی پر تفتیش کو غلط طریقے سے آگے بڑھانے کا الزام لگایاتھا۔ فساد متاثرین نے سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے خلاف ہوئے فسادات میں تین افراد کے قتل کیس میں آگے کی جانچ کی مانگ کی تھی جس ٹائٹلر کا الزام ثابت ہو سکے۔ ایڈیشنل سیشن جج انو رادھا شکلا بھاردواج کو متاثرین نے بتایا کہ’’ سی بی آئی کو بالی وڈاسٹار امیتابھ بچن اور دہلی پولیس کے سابق افسر سے بھی بطور گواہ بازپرس کرنی چاہئے کیونکہ دونوں ہی ایک سی ڈی میں ٹائٹلر کے ساتھ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے جسدخاکی کے پاس کھڑے دکھائی دے رہے ہیں‘‘۔ذرائع کے مطابق تری مورتی بھون میں یہ سی ڈی ایک ایجنسی نے ریکارڈ کی تھی۔ فساد متاثرہ لکھوندر کور کی جانب سے دائر کردہ مخالفت کی درخواست کے بعد کورٹ میں اس معاملے پر آخری جرح ہو رہی ہے۔اسی میں کور کے شوہر بادل سنگھ کی فسادات میں موت ہوئی تھی۔ کور نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ اور ٹائٹلر کو کلین چٹ دئے جانے پر سوالیہ نشان قائم کئے ہیں ۔

کلوزررپورٹ کو صحیح قرار دیتے ہوئے سی بی آئی نے اسی سی ڈی پر یقین ظاہر کیا تھا جسے ملزم ٹائٹلر نے ہی فراہم کیا تھا۔ ٹائٹلر اس سی ڈی کو یہ ثابت کرنے کے لئے لے کر آئے تھے کہ وہ فسادات کے وقت اندرا گاندھی کے جسدخاکی کے پاس ہی تھے۔حالانکہ سی ڈی میں نہ ہی وقت اور نہ ہی تاریخ کا کوئی ذکر ہے۔مبینہ سی ڈی میں آر کے دھون (اندرا گاندھی کے سابق سکریٹری)، گوتم کول (تب کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس) اور امیتابھ بچن ٹائٹلر کے ساتھ ایک جگہ پر ہی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ متاثرین کے وکیل سینئر ایڈووکیٹ ایچ ایس پھلکا نے سی ڈی کے کی توثیق کے لئے ان ہی تینوں سے بطور گواہ پوچھ تاچھ کرنے کو کہاہے۔ متاثرین کے وکیل نے مطالبہ کیاہے کہ سی بی آئی نے ان تینوں ہی سے کسی بھی طرح کی پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔

جسبیر سنگھ 84 کے فسادات میں اہم گواہ ہیں۔ آئی بی این 2007 میں ان تک پہنچا تھا۔سالوں سے 5 مختلف قسم کی تحقیقات، کمیشن اور دباؤ جھیل رہے جسبیر نے آئی بی این 7 سے بات چیت میں اپنا دم خم برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک اپنے بیان پر قائم ہیں۔ سی بی آئی فائلوں میں یہ شخص 1984 میں پل بنگش میں ہوئے سکھوں کے قتل عام کا چشم دید گواہ ہے۔جسبیر نے بتایا کہ کانگریس رہنما جگدیش ٹائٹلر کے کردار کے بارے میں اس نے کئی بار بولا ہے۔ لیکن سی بی آئی سننا ہی نہیں چاہتی ج بیر نے بتایا کہ سی بی آئی تو اسے لاپتہ قرار دے چکی ہے۔ یہی نہیں سی بی آئی نے ٹائٹلر کو کلین چٹ دے کر اپنی جانچ رپورٹ کی فائل ہی بند کر دی تھی لیکن 2007 میں آئی بی این 7 نے ج بیر سنگھ کو ان کے کیلیفورنیا کے گھر سے ڈھونڈ نکالا تھا۔جسبیرنے الزام عائد کیاہے کہ بیان نہ دینے کے لئے ان کے گھر والوں کو کئی بار دھمکیاں بھی دی گئی۔ جان پر خطرے کی وجہ سے وہ اپنے خاندان سے دور کیلی فورنیا میں رہ رہے ہیں۔ٹیلی ویژن آئی بی این سیون کے مطابق جس بیر کا یہ کہنا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا بیان دوبارہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن سی بی آئی کبھی جسبیر تک پہنچی ہی نہیں۔ فساد متاثرہ انصاف کا انتظار کرتے رہے۔ اب عدالت سے سی بی آئی کو 
جھٹکا ملا ہے۔ جس سے فساد متاثرین میں انصاف کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ 

اس پورے معاملہ کو لیکر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ظلم بہر حال ظلم ہے۔عدالتوں،ایجنسیوں اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے اداروں کو شفافیت سے کام لینا چاہئے ۔تاکہ جمہوریت کی بالا دستی برقرار رہ سکے ۔ہر ملک میں اقلیتوں کو ان کے حقوق دئے گئے ہیں لیکن جتنا اقلیتوں کے اوپر ظلم و ستم اور ان کے ساتھ استحصال کا رویہ ہمارے ملک ہندوستان میں اپنایا جاتا ہے کسی اور جگہ نہیں ۔اس معاملہ میں عدالت کا رویہ قابل ستائش ہے ۔لیکن عدالت اسی وقت مبارکباد کی مستحق ہوگی جب صحیح معنوں میں متاثرین کو انصاف مل سکے ۔ طبقہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، حکمرانوں کو ان کے احساسات کا لحاظ کرنا چاہیئے۔ سکھوں نے اس طرح ملک کی سب سے بڑی مسلم اقلیت گجرات کے متاثرین کے لئے بھی راستہ دکھایا ہے کہ معاملہ خواہ کتنا ہی پرانا ،نازک اور حساس کیوں نہ ہو، انصاف کے لئے قانونی طریقہ سے جد و جہد جاری رکھنی چاہیئے۔ آج نہیں تو کل انصاف ضرور ملے گا کہ :
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں 
ناؤ کاغذ کی صدا چلتی نہیں