جمعرات، 28 فروری، 2013

صرف قرض نہیں مفاد عامہ میں کام کرنے کی ضرورت


محمد علم اللہ اصلاحی 

ہندوستان میں آئے دن کوئی نا کوئی نیا قانون اور منصوبہ بنتا ہے ۔نئے فیصلہ صادر ہوتے ،کمیٹیاں بنتیں اور اس کو لیکر بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں اور ان سب کے مقصد کے طور پر کہا جا تا ہے کہ اس سے جمہوریت مزید صحت مند،توانا اور مضبوط ہوگا ۔لیکن جب واقعتااور صحیح معنوں میں صدق دلی سے ان فیصلوں ،منصوبوں اور قوانین پر عمل آوری اور صدق دلی سے نفاذکی بات کی جاتی ہے تو سارے کے سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں ،کوئی قانون کام نہیں آتا بلکہ الٹے اس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور تمام قسم کی یقین دہانیوں کے باوجود وہ قانون اور وہ منصوبہ محض کاغذ کے فائلوں تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اورپھرچھا جاتی ہے وہی خاموشی،سناٹا اور سکوت تاآنکہ الیکشن کا موقع دوبارہ نہ آ جائے ۔اس کے قریب آتے ہی ایک مرتبہ پھر ایسے منصوبوں کی باز گشت سنائی دی جانے لگتی ہے اور عوام کو سبز باغ دکھانے کا عمل دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ۔اور اس عوام میں سب سے بھولی بھالی اور ان کے اس دام میں آ جانے والے سب سے زیادہ اقلیت ہی ہوتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ ایسا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔

ابھی حال ہی میں حکومت نے ایک ایسے ہی فیصلہ کو حقیقی روپ دینے کی بات کہی ہے ۔اور یہ فیصلہ ہے انھیں دی جانے والی قرض میں اضافہ یعنی اس سے متعلقہ افراد کو اب سے پہلے 5لاکھ روپئے لون دیا جاتا تھا لیکن اب اس رقم کو بڑھا کر 10لاکھ روپئے تک کر دیا گیا ہے ،اسکی شرح سود بھی دیگر بینکوں یا کمپنیوں کی طرح نہ ہوکر محض 2فیصد شرح سودکے بطور رکھی گئی ہے ۔خبر کے مطابق یہ فیصلہ وزارت برائے اقلیتی امور کی ایک داخلہ میٹنگ میں لیا گیا ہے ۔اس سے قبل اقلیتی حلقہ سے وابستہ چھوٹے تاجروں اور صنعت کاروں کو قومی اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن (این ایم ڈی ایف سی)کی جانب سے انتہائی کم شرح پر لون دیا جاتا تھا ۔جس کے تحت قر ض دینے کی حد پانچ لاکھ روپئے تک تھی مگر اب اسے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔وزارت کے اس فیصلہ سے چھوٹے تاجروں کو کم شرح پر دینے کی حد 10لاکھ کر دی گئی ہے ۔

این ایم ڈی ایف سی کے مطابق اب تک اقلیتی تاجروں کو 4فیصد سالانہ شرح سود پر پانچ لاکھ روپئے تک کا قرض دیا جاتا تھا جبکہ دیگر سرکاری قرضوں میں شرح سود 8سے لیکر 10فیصد تک ہوتا ہے ۔وزارت کے بقول اس لون کا مقصد اقلیتی حلقہ سے وابستہ تاجروں کو فائدہ پہنچانا ہے تاکہ وہ خود کفیل ہوں اور اپنی مدد آپ کرنے کے اہل ہو سکیں ۔وزارت کے ذرائع کے مطابق قرض کی حد بڑھانے کے ساتھ اعلی تعلیم کے حصول کے خواہشمند مسلم نوجوانوں کو 2فیصد شرح سود پر 20لاکھ روپئے تک کا تعلیمی لون دینے کی راہ کو ہموار کیا گیا ہے ۔بقول وزارت اس سے اعلی تعلیم کے حصول کے خواہشمند نوجوانوں کو سہولت ملے گی اور جن کے پاس اپنے تعلیمی سلسلہ کو بڑھانے کے لئے مالی ذرائع نہیں ہوتے انھیں اس کے ذریعہ اپنے خوابوں کی تکمیل میں مدد مل سکے گی ۔

اس سلسلہ میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی امورکے رحمان خان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس کے بعد ہمارا اگلا منصوبہ اقلیتوں کو مالی امداد کے علاوہ روزگار سے وابستہ ترقی کے بارے میں بھی سوچنا ہے ۔ان کے بقول ریاستی سطح پر بھی بینکوں میں پیش آنے والی مشکلات سے نجات دلانے کے لئے وزارت کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے ۔اور بینکوں کے نام بھی سر کلر جاری کیا جائے گا کہ قرض دینے کے عمل میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے عصبیت سے کام نہ لیں ۔ان کے مطابق اس تعلق سے ایم ایم اے نے وزارت مالیات کو ایک پروجیکٹ بھیجا بھی ہے جس میں اقلیتوں کی اقتصادی ترقی کی بابت خاص پروگرام کو نشان زد کیا گیا ہے ۔تاکہ انھیں مالیاتی پروڈکشن اور قرضوں کے لئے سود سے آزاد سہولیات دستیاب ہو سکیں ۔کے رحمان خان کے مطابق ان کی وزارت نے اقلیتوں کی تعلیم سے جڑے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل سے اقلیتی وزارت کو منتقل کرنے کی درخواست بھی ہائی کمان کو پہنچا دی دی ہے ۔خبروں کے مطابق ایم ایم اے کے نئے اپ ڈیٹ میں ابتدائی سطح پر اس پر رضا مندی بھی مل رہی ہے۔جس سے امید کیا جا رہا ہے کہ تعلیم سے وابستہ امور کو وزارت برائے اقلیتی امور کو سونپ دیا جائے ۔
دریں اثنا لوک سبھا انتخابات سے ٹھیک اس سال پہلے جب کہ ایم ایم اے کی جانب سے اقلیتوں خاص کر مسلم تاجروں کے لئے قرض کی حد بڑھا دی گئی ہے ۔مانا جا رہا ہے کہ اس سے یو پی اے اقلیتوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہ رہی ہے ۔یہ خوش نودی انھیں ملتی ہے یا نہیں یہ تو ایک الگ بات ہے لیکن این ایم ایف ڈی سی کی حالیہ کارکردگیوں پر مسلم دانشور تجزیہ نگاروں کی جانب سے کئی سنگین سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں ۔اس بابت گفتگو کرتے ہوئے یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد کہتے ہیں کہ یہ الیکشن 2014کی تیاری کے لئے مسلمانوں کو محض خوش کرنے کا ایک عمل بھرہے ان کے بقول اس سے قبل بھی اس قسم کے بیانات آتے رہے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔تاہم ان تمام کے باوجود ڈاکٹر سید احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوش آئند قدم ہے ،مسلمانوں کو اس کااستقبال کرنا چاہئے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ اسی طرح ایک اور دانشور ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ اب تک کا ریکارڈ تشفی بخش نہیں رہا ہے اسی لئے اسے بھی ہم ایک فراڈ ہی تصور کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے مسلمان اس سے اس لئے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے کہ اسلام میں سود حرام ہے ۔ان کے بقول بہت سے مسلمان اسی سبب اس طرح کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں تکلف محسوس کرتے ہیں ۔اگر حکومت اتنی ہی مسلمانوں کی خیر خواہ ہے تو وہ بغیر سود کے رقم مہیا کرائے یا پھر فائل چارچیز کے نام پر پیسے لے نا کہ سود کی شکل میں ۔

کئی دانشوروں نے این ایم اف ڈی سی کے سسٹم اور قرض دینے کے شرائط پر بھی تنقید کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں شرائط کے سبب مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے ۔اور دیگر اقلیتیں تو ممکن ہے اس سے فائدہ اٹھا لیتے ہوں لیکن مسلمان فائدہ نہیں اٹھا پاتے ۔کئی داشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت خود تو یہ رقم فراہم کرتی نہیں بلکہ بینکوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ انھیں قرض مہیا کرائے اور عموما دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بینک کے افسران و ذمہ داران مسلمانوں کو قرض دینے یا اس قسم کی کسی بھی سہولت انھیں فراہم کرنے میںآنا کانی کرتے اورمسلمانوں کے ساتھ عصبیت کا رویہ اپناتے ہیں ۔اس قسم کے کئی مقدمات اخبارات کے ذریعہ بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں ۔کئی جگہوں پر بینک افسران کے ذریعہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے اور قرض لینے کے نام پر مذاق بھی اڑائے جانے کی اطلاعات ہیں ۔حالانکہ متعدد مسلم تنظیموں نے اس جانب حکومت کے اعلی ذمہ داران کو توجہ بھی دلانے کی کوشش کی ہے جن میں بقول سید قاسم رسول الیاس جماعت اسلامی ہند بھی شامل ہے لیکن حکومتی سطح پر اس معاملہ کو لیکراس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔اس سے اقلیتوں کے مسائل گھٹنے کے بجائے بڑھتے ہی رہے ۔ایسے میں وزارت کو محض قرض کی حد بھر بڑھا دینے سے معاملہ کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ اس قرض کو مفاد عامہ کے لئے مفید اور کار آمد بنانے کے لئے بھی حکومت کو اقدامات کر نے ہونگے ۔

اور جیسا کہ بعض دانشوروں نے کہا ہے سود کی وجہ سے بہتیرے مسلمان ایسے سہولیات سے فائدہ اٹھا پانے سے قاصر ہیں تو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کا کیا متبادل ہو سکتا ہے ۔اسے اور بھی آسان اور سہل کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔اس قسم کی کسی بھی سہولت کی اطلاعات چند گنے چنے اخبارات میں دئے جاتے ہیں ۔اس کی وجہ سے بھی عام طبقہ کی رسائی ایسی سہولیات تک نہیں ہو پاتی تو حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا ہوگا ۔جو اخبارات مسلمان علاقوں میں پڑھے جاتے ہیں ان اخبارات میں اشتہارات دینے ہونگے ۔سمپوزیم اور سیمنار منعقد کرانے ہونگے ،مسلم دانشوران اور سماجی کارکنان کے درمیان کاونسلنگ کرنی ہوگی اور انھیں بتا نا ہوگا کہ وہ عام لوگوں کو بیدار کریں کہ وہ حکومتی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ۔بیداری کے لئے مہم چھیڑنی پڑے گی ۔سسٹم کو مزید منظم اور سیاسی دباؤ سے پرے ہٹ کر ایک مضبوط تقاضہ اور ضرورت کے تحت کام کو آگے بڑھانا ہو گا اگر ایسا ہوتا ہے تبھی حکومت کی کوئی بھی اسکیم کامیاب ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہی ڈھاک کے تین پات والی بات ہوگی اور اس کا کوئی بھی حل نہیں نکل سکے گا ۔ 

۔۔۔مزید

مولانا آزاد ایجوکیشن فاونڈیشن کارکردگی اور بجٹ



محمد علم اللہ اصلاحی 
کسی بھی جمہوری ملک میں آئین و قانون کی رکھوالی کرتے ہوئے اقلیتوں کو واجب حصہ داری فراہم کرانا سب سے بڑا چیلنج ہوا کرتا ہی۔وطن عزیز کی مٹی بھی اس لحاظ سے خاصی سنگلاخ واقع ہوتی رہی ہے کہ یہاں آئینی و قانونی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے اقلیتوں کی فلاح  و ترقی کو کماحقہ یقینی بنانے کی غرض سے کئی اداروں کی تشکیل تو کی گئی مگر حق تو یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ایسے کئی ذمہ دار اور فعال اداروں کی موجودگی اور سریع الحرکتی کے باوجود سچر کمیٹی کے لفظوں میں’’دلتوں سے بدتر‘‘زندگی گزارنے پر مجبور ہی۔ہرچند کہ ہماری حکومت اقلیتوں کی فلاح  و ترقی کیلئے پابندعہد ہے اور اس طرح کے کئی اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن سے نہ صرف ان کی زبان، مذہب اور ثقافت کی حفاظت ہو سکے بلکہ ان کی ہمہ جہت ترقی  اور اقتصادی اورسماجی  خوشحالی بھی آسکے۔اور اس سلسلہ میں اقلیتوں کو اصل و قومی دھارے میں لانے کیلئے خصوصی کوششیں ہوتی رہی ہیں،یہ اور بات ہے کہ اس مقصد میں حکومت کو ہنوز واضح کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ 1992 کے قوانین کے مطابق پانچ مذہبی فرقوں مسلمان، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسی کو اقلیتی کمیونٹی کے زمرے میں رکھا گیااور کہا گیا کہ اقلیتوں میں مسلمان اور خاص طور پر مسلم خواتین پر زیادہ توجہ دی جائے گی کیونکہ دیگر فرقوں کے مقابلے وہ سماجی، تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔

اسی مقصد کی تکمیل کے لئے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن (AEF) کا قیام 1989 میں رضا کارانہ طور پرعمل میں آیاجو درحقیقت ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش سوسائٹی کی حیثیت سے اقلیتوں کے تعلیمی معیار کو فروغ دینے کی خاطر سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈکیا گیا تھا ۔ اس ادارہ کے اہم مقاصد میں خاص طور سے تعلیمی اعتبار سے پسماندہ، اقلیتوں اور عام طور پر کمزور طبقوں کے فائدے کے لئے تعلیمی اسکیمیں وضع کرنا اور ان کے نفاذکویقینی بنا نا تھا جس میں خاص طور سے طالبات کو جدید تعلیم فراہم کرنے کے لئے رہائشی اسکول اور تعاون سے لیکر دیگر تحفظات کی بات بھی شامل تھی۔
لیکن جب اس پس منظر میں حالات کا جائزہ جائزہ لیا جاتا ہے تو مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے اور اس کے ذریعہ بہت زیادہ تبدیلی واقع ہو گئی ہو ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہم یہاں پر یہ نہیں کہہ رہے کہ اقلیتی طبقہ کو سرے سے اس سے کوئی فائدہ ہی نہیں پہنچا، ہو سکتا ہے کہ اس سے کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو لیکن اکثریت کو اس طرح کے مراعات یا فنڈز کا پتہ نہیں چلتا۔ اس حقیقت کو سچر کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں بیان کیاہے۔ اس بابت اگر مرکزی حکومت اقلیتوں کی ہمہ جہت ترقی اور بہبود کے تئیں واقعی سنجیدہ اور مخلص ہوتی تو اس میں تبدیلی لائی جاتی اور اصلاحات کیلئے مزید بجٹ کا اضافہ کرتی۔

گزشتہ دنوں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی طرف سے ملک بھر میں اقلیتی برادریوں کیلئے پانچ یونیورسٹی کھولے جانے اور اقلیتی غلبہ والے اضلاع میں حکومت کی طرف سے مرکزی اسکول ماڈل ادارے بنانے کے تجویز پرمرکزی اقلیتی امور کے وزیر کے رحمان خان نے لوک سبھا میں بتایاتھا کہ اس سلسلے میں مقامات کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور تین یونیورسٹیوں کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ لیا جا چکا ہی۔ جن میں بنگلور میں ٹیپو سلطان یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اجمیر میں خواجہ غریب نواز پروفیشنل، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اور بہار کے کشن گنج میں رفیع احمدقدوائی یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز شامل ہیں۔یہ فیصلہ محض فیصلہ تک ہی محدود رہے گا یا عملی طور پر بھی اس کیلئے کچھ اقدامات کئے جائیں گے ،اس پر تو ہم گفتگو نہیں کرنا چاہتے لیکن اس کے علاوہ بھی فاؤنڈیشن کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں سن کر کافی تکلیف ہوتی ہے ۔ طلباء کو فارم پر کئے جانے کے باوجود اسکالر شپ نہ ملنا ،دور گائوں اور دیہات سے آنے والی درخواستوں کا غائب ہو جانا ،سالوں گذر جانے کے باوجود بھی ریسرچ اسکالروں کو فیلو شپ نہ دیا جانا،اس قسم کی خبریں تو مستقل سننے کو ملتی ہیں۔

یہ شاید حکومت کا پہلا ادارہ ہوگا جو کہ گزشتہ چار سالوں سے بغیر کسی مستقل سکریٹری کے بیساکھی کے بل پر چل رہا ہے ۔ اسٹاف کی کمی کی خبریں تو آتی ہی رہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق اس کے پاس با قائدہ اپنا آفس بھی نہیں ہے جس میں یہ اپنے کام کو احسن طریقہ سے نبھا سکے اور ایک انفراسٹکچر قائم کر سکے ۔حالانکہ جس وقت اس کا قیام عمل میں آیا تھا اس کے اغراض و مقاصد میں کل چودہ نکات تھے ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اب تک صرف دو نکات کو نافذ العمل بنایا جا سکا ہے،وہ دو نکات ہیں گرانٹ ان ایڈ (اس میں اقلیتوں کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکولوں کے انفراسٹکچر کی توسیع ،ہاسٹل اور عمارات وغیرہ کا قیام بھی شامل ہی)جبکہ دوسرا نکتہ ہے لڑکیوں کیلئے اسکالر شپ اسکیم ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فاونڈیشن نے ان دونوں نکات پر عمل آوری میں ممکنہ حد تک ایمانداری سے کام لیا ہی۔یہ الگ بات ہے کہ اس سلسلہ میں بھی شاکایات موصول ہوتی رہی ہے ۔لیکن بقیہ 12مقاصد کی جانب کوئی پیش قدمی کیوں نہیں ہوئی ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے حکومت خود کو بچا نہیں سکتی ۔اس بابت فاؤنڈیشن کے ذرائع سے بات کی جاتی ہے تو وہ مالی وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں ۔اور ہمیشہ ان کا یہی ٹکا سا جواب ہوتا  ہے کہ ’’ہم کیا کریں ہمارے پاس تو بجٹ ہی کم ہے ‘‘۔

آخر اس قسم کی باتیں کیوں سننے میں آتی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت اقلیتوں کا معیارزندگی اونچا کرنے کی بات کرتی ہے دوسری جانب عملی طور پر جب بات کرنے کی آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہے یا ایسی سرد مہری کا رویہ اپناتی ہے کہ الامان و الحفیظ ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ 1993-94میں حکومت نے کارپس فنڈ کی شکل میں 5کروڑ روپئے کا گرانٹ دیا تھا جو کہ 2003تک پہنچتے پہنچتے 750کروڑ تک ہوا اس کے بعد سے اب تک اس میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ۔جب کہ مہنگائی ڈائن اسی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔ لیکن اس میں واقعی اضافہ ہوگا بھی یا نہیں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ ذرائع نے حالانکہ بتایا ہے کہ آنے والے بجٹ کیلئے فاونڈیشن کی جانب سے 750کروڑ کو ڈبل یعنی 1500کروڑکرنے کا پرپوزل بھیج دیا گیا ہے ۔ معلوم ہو کہ فاونڈیشن کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی اسکیموں کا نفاذ اپنے کارپس فنڈ سے حاصل ہونے والے سود سے کرتا ہے جو کہ اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حکومت اس بامقصد ادارے کو فعال اور زیادہ اثر دار بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے بجٹ میں کٹوتی کرکے اس کے پر کو ہی کاٹنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ گھسٹ گھسٹ کر بھی نہ چل سکے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مزید اسکے اختیارات اور اہدافات میں اضافہ کیا جاتا ،نوکرشاہی کے من مانے رویہ جو فنڈز اوراسکیموں کے استعمال کو صحیح طریقہ نہیں ہو نے دیتے کی سرزنش کی جاتی ،فنڈ کے حصولیابی کو ممکن اور سہل الحصول بنایا جاتا ۔ اسے ایک نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرنے والا ایک خود مختار ادارہ بنایا جاتا ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اقلیتوں کی ترقی کیلئے اسے مزید فعال اور متحرک بنائے جانے کے اقدامات کئے جاتے ۔ اسے زیادہ سے زیادہ فنڈ دیکر اقلیتوں کے تعلیمی اور سماجی معیار کو بلند کر نے کے بندوبست کئے جاتے ۔ اس قدر حساس کام کرنے والے ادارے کے اندر کسی قسم کا کوئی کرپشن یا سیاسی دباو نہ ہو اس پر دھیان دیا جاتا ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ جس کی وجہ سے بظاہر ایک نیک 
اور اچھے کام کیلئے بنائے گئے ادارہ کا مقصد ہی فوت ہو کر رہ گیا ۔

اب بھی وقت رہتے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیت کم از کم احساس کمتری سے باہر نکلیں اور دیگر کمیونٹی کی طرح ان کا بھی معیار اور اسٹیٹس بلند ہو۔ اگر حکومت نے اس جانب توجہ دی تو واقعی یہ ایک بڑا کام تو ہوگا ہی ساتھ ہی یہ جمہوریت کے لئے بھی مفید اور کاآمد ہو گا ۔اور ہندوستان جس کا خواب ایک مضبوط اور طاقتور ملک کے طور پر ابھرنے کا عزم ہے وہ بھی پورا ہوگا ۔


۔۔۔مزید

جمعہ، 15 فروری، 2013

سالگرہ پر شکریہ اور دعا کی درخواست


سالگرہ پر شکریہ اور دعا کی درخواست 
 محمد علم اللہ اصلاحی
کہتے ہیں وقت گذرتے پتہ نہیں چلتا ۔یہ تو برف کے مانند پگھل جاتاہے ۔اور ایک دن مکمل پگھل کر اپنا وجود کھو دے گا ۔ میں نے بھی ایسے ہی آج اپنی زندگی کے چوبیس بہاریں کھو دیں ۔پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں حسرت و مایوسی اور اپنی ناکامی پر رونا آتا ہے آگے دیکھتا ہوں تو منزل دور بہت دور نظر آتی ہے ۔بس خدا ہی سے مدد کا طالب ہوں۔

اس موقع پر میں دور و نزدیک کے ان تمام دوستوں اور محبین کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔جنھوں نے مجھے اپنے دلپذیر چاہتوں کاپیغام ارسال کیا ۔دعائیں دیں اور اپنی نیک تمناں اور خواہشوں کا اظہار کیا ۔خواہ وہ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہو،میل کے ذریعہ یا پھر فون و زبانی۔

بلاشبہ فطرت کے ڈھیر سارے تحفوں میں سے خوبصورت تحفہ مخلص اور قدر دان دوست بھی ہوتے ہیں جو منزل تک پہنچنے میں رہبری کرتے اورترقی کی جانب بڑھنے میں ہمیشہ رہنمائی اور مدد کرتے ہیں، انکا ساتھ کبھی بھی تھکاٹ کا احساس ہونے نہیں دیتا۔ مجھے لکھتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ مجھے آپ جیسے بے شمار دوست اور محبین ملے ہیں جو دکھ سکھ، خوشیاں تقسیم کرتے ہوئے فاصلے سمیٹ رہے ہیں۔

ایک مرتبہ تمام کا پھر شکریہ
!!اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو




۔۔۔مزید

بدھ، 13 فروری، 2013

منفعت کی خاطرمصلحت آمیز فیصلہ


منفعت کی خاطرمصلحت آمیز فیصلہ
محمد علم اللہ اصلاحی
حج کواسلام کا پانچواں نبیادی ستون کہاگیا ہے اورصاحب ایمان کیلئے استطاعت رکھنے کی صورت میںکم از کم زندگی میں ایک بارادائیگی کو فر ض قرار دیا گیا ہے، جبکہ ایک سے زائدحج کی مسلمہ فضیلتوںسے انکار کی بھی گنجائش نہیں۔شاید اسی سبب ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار ضرور حج کرنے کےلئے مکہ مدینہ جائے۔اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں حکومت ہند نے مسلمانوں کو دی جانے والی حج سبسڈی کوایک عازم کے لئے پانچ سال میں ایک بار کے بجائے زندگی میں صرف ایک بار دینے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ عدالت میں پیش کئے گئے ایک بیان حلفی میں حکومت نے بتایا کہ انہوں نے حج کے حوالے سے نئی پالیسی ترتیب دی ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان عازمین کو حج پر جانے کا موقع ملے جو پہلے کبھی حج پر نہیں گئے ہوں۔ مرکزی حکومت نے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ”سبسڈی پر پانچ سال کے بجائے زندگی بھرمیں صرف ایک بار حج پر جانے کی اجازت دینے سے متعلق فیصلہ ایک بڑا فیصلہ ہے، اس سے ایک حاجی کو زندگی میں صرف ایک بار سبسڈی کا فائدہ ملنے کے علاوہ ان لوگوں کو حج کرنے کا موقع ملے گا جو پہلی بار حج پر جانا چاہتے ہوں۔

واضح ہو کہ حکومت ہند کی جانب سے ہر سال حج کمیٹی کے ذریعہ فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کے خواہشمندعازمین کو فضائی کرائے میں سبسڈی دی جاتی رہی ہے ۔حکومت خودسبسڈی پر آنے والا صرفہ حکومت ایئر انڈیا کو ادا کرتی ہے۔حال میںہی مرکزی حکومت کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس التمش کبیر اور جسٹس رجنا پرکاش دیسائی کی بنچ نے یہ حکم دیاتھا کہ حکومت کی طرف سے جو سبسڈی دی جا رہی ہے اس کا فائدہ اٹھا کر بہت سے لوگ ایک بار سے زیادہ حج کے لیے چلے جاتے ہیں ، جس کا براہ راست اثر ان مسلمانوں پر پڑتا ہے جو ایک بھی باربھی حج کرنے نہیں جا سکے ہیں۔ اس لئے آئندہ دس برسوں کے اندر یہ سبسڈی ختم کی جانی چاہئے اور ایسے مسافروں کو ترجیح دی جانی چاہئے جو پہلی بار حج کرنے جا رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں سپریم کورٹ کا یہ بھی حکم تھا کہ سرکاری خرچ پر حج کے لیے جانے والے کابینہ کے ارکان کی تعداد میں بھی کمی کی جائے۔

دیگر معاملات کی طرح اس معاملہ کو لیکر بھی ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے درمیان بحث و مباحثہ اور حمایت و مخالفت کا دور شروع ہو گیا ہے ۔اس سلسلہ میں دہلی میں ایک فیڈریشن کا بھی وجود عمل میں آگیا ہے جس نے حکومت کے اس فیصلہ پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پلیٹ فارم بنا کر تحریک چلانے کی بات کہی ہے ۔اس فیڈریشن کا نام ”فیڈریشن آف این جی اوز آف دہلی فار حج “رکھا گیا ہے ۔اس فیڈریشن نے اپنے مطالبہ کو لیکر جہاں حکومتی اہلکاروں کو مکتوب ارسال کیا ہے وہیں حج کمیٹی آف انڈیا ،مسلم پرسنل لاءبورڈ،اقلیتی کمیشن اوردہلی حج کمیٹی کو بھی حکومت کے رویہ میں تبدیلی لانے کے لئے توجہ دلانے کی بات کہی ہے ۔فیڈریشن کو حمایت دینے والوںمیں بطور خاص دہلی حج کمیٹی کے ڈاکٹر پرویز میاں ہیں جنھوں نے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ این جی اوز کے مطالبات درست اور جائز ہیں اور مجھے اس سے پوری طرح اتفاق ہے ،وہیں بعض تنظیموں کی جانب سے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔

جبکہ بعض تنظیموں کی جانب سے اس قسم کی بھی باتیں آئی ہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ پوری طرح غیر جانب دار رہ کر، مسلمانوں کے مفاد میں کیا ہے ۔ان کے بقول یہ ان لوگوں کے لئے زیادہ سود مند ثابت ہوگا جو کبھی حج کرنے کے لئے نہیں گئے۔کئی تنظیموں نے کہا ہے کہ دین اسلام میں ہر مسلمان کو ایک بار حج پر جانے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن حکومت کی جانب سے ہونے والی لاپرواہی اور نظر انداز کی جانے والی پالیسی کی وجہ سے بہت سے لوگ پیسہ ہونے کے باوجود سرکاری سبسڈی کا فائدہ اٹھا کر کئی بار حج کرنے چلے جاتے ہیں جبکہ حقیقی مستحقین حکومت کی سبسڈی کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ان کے بقول یہ سیاسی سرگرمیوںکا حصہ ہے جس سے مسلمان اچھی طرح سے واقف ہیں اس لئے اس حکم پر بھی سیاسی چادر چڑھانے کی پوری پوری کوشش کی جانے کی امید ہے،مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے ۔

اس معاملہ کو لے کر مسلم پرسنل لاءبورڈ،جماعت اسلامی اور جمعیة العلماءسمیت دیگرمقتدر ملی تنظیموں کا کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ان تنظیموں نے برابر کہا ہے کہ حج کے سفر کے لئے کوئی سبسڈی ہونی ہی نہیں چاہئے۔ان کے بقول حج ایک مذہبی سفر ہے اور اسے ملک بھر کے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ملی سبسڈی کی بنیاد پر مکمل نہیں مانا جا سکتا۔ سفرحج پر ویسے ہی لوگ جا سکتے ہیں، جو اقتصادی اور جسمانی طور پر فعال ہوں۔ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک حج سفر کرنا بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کئی اور باتیں بھی استعمال ہوئی ہیں، جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت نے یوںتو عدالت کی تنبیہ کے بعد اب نوٹس لیا ہے، لیکن اس ملک کے بہت سے دانشور بہت پہلے سے ہی کوشش کر رہے تھے کہ اس کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے۔کیونکہ یہ حج سفر پر سبسڈی مٹھی بھر لوگوں کو خوش کر کے، کروڑوں کے ووٹ بینک کو اپنا بنانے کا ہتھکنڈہ بھر ہے ۔آج بہت سی چیزوں پر ہماری حکومت سبسڈی دیتی ہے ۔مثال کے لئے رسوئی گیس کو لے لیجیے۔ بغیر سبسڈی کے یہ تقریبا 1000 کا سلنڈر پڑتا ہے۔ سبسڈی کے ساتھ آج یہ تقریبا 425 کا ہے۔ یہ شرح 3600 ماہانہ والے ایک عام مزدور کےلئے ہی نہیں ہے، بلکہ50ہزار سے زائد ماہانہ پانے والے کسی بھی اعلی درجے کے افسر یا ملازم یا دیگر پیشہ ورافراد کےلئے بھی ہے۔ یہی حال پٹرول اور ڈیزل کے معاملے میں بھی ہے ایک مڈل کلاس دو پہیہ گاڑی ہولڈر کو بھی پٹرول تقریبا 70 روپے لیٹر ملتا ہے اور وہی شرح لکھپتی اورکروڑپتی دو پہیہ، چار پہیہ گاڑی ہولڈرز کے لئے بھی ہے۔ اسی طرح کی سبسڈی دیکر حکومت مسلمانوں کو برابر احسان جتاتی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات تک کے لئے بے درغ پیسے خرچ کر رہی ہے ۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ماصل معاملہ کیا ہے ۔

مسلمانوںکاایک بڑا طبقہ بہت پہلے سے یہ بات کہتارہاہے کہ حج سبسڈی سے حاجیوں کو نہیں بلکہ جہاز کمپنیوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور جہاز کمپنیاں کی آڑ میں نہ جانے کتنامنافع حاصل کررہی ہےں، اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔کسی جہاز کمپنی کو ایک ساتھ سوا لاکھ کسٹمر ملنا بہت بڑی بات ہے۔ حکومت سبسڈی نہیں دے گی تو جس کمپنی کو مسافر کی ضرورت ہے، وہ خود ہی کرایہ کم کرے گی۔حج سبسڈی کوسیاسی کھیل بتانے والوںکاخیال ہے کہ ایک طرف اگر ووٹ بینک کی لالچ ہے تو دوسری طرف خود غرضیاں ہیں۔انجام کارحجاج کرام عرصہ  دراز سے سبسڈی کے نام پر بے وقوف بنائے جاتے رہے ہیں۔حج کی ادائیگی کے دوران نہ صرف یہ کہ سبسڈی کے نام پر ہی عازمین کوٹھگاجاتا رہاہے بلکہ جانکاروںکا خیال ہے کہ عازمین 
کے قیام سے لے کر جملہ امور میں بھی عجیب و غریب قسم کی بے ضابطگی کا عمل دخل ہے۔


یہ تذکرہ بے محل نہیں کہ ماضی میں حرم شریف کے نزدیک حاجیوں کے قیام کی سہولت مہیاکرانے کی بجائے حرم پاک سے خاصا دورٹھہرنے کا بندوبست کیاگیا جبکہ عازمین کو اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ انہیں خصوصی مراعات فراہم کرائی جائے گی۔جانکاروںکاعام خیال یہ بھی ہے کہ سفرحج کے دوران عازمین کی پریشانیوںمیں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غیر ایماندار قسم کے سرکاری اہلکار اگر ایک طرف ذاتی منفعت کی خاطرمصلحت آمیز فیصلے لیاکرتے ہیں وہیں دوسری جانب سرکاری سطح پر بھی پالیسیوںک انفاذووٹ بینک کو ذہن میں رکھ کر ہی کیاجاتارہا ہے۔ حال میں آرٹی آئی کے ذریعہ حاصل معلومات سے یہ نتیجہ بھی اخذکیاجاچکاہے کہ حج خیر سگالی وفد کو بھی مخصوص طبقہ کو خوش کرنےکیلئے آلئہ کار کی حیثیت سے استعمال کرنے کی کوشش ہو چکی ہے۔ایسے میں عدالت عظمیٰ کی خصوصی دلچسپی بے سبب بھی نہیں۔امید کی جارہی ہے کہ حج کی ادائیگی کے عوامل میں پائی جانے والی والی بے ضابطگیاں جلددور ہوںگی بشرطیکہ حج کو ڈیل بنانے والوں کے خلاف لوگ عدلیہ سے رجوع کریں اوروہاں اپنے موقف کو درست طریقے سے رکھیں۔

۔۔۔مزید

جمعہ، 8 فروری، 2013

عالمی کتاب میلہ اور پاکستانی اسٹالس


عالمی کتاب میلہ اور پاکستانی اسٹالس

 محمد علم اللہ اصلاحی

آج دہلی میں منعقدہ عالمی کتاب میلہ میں جانے کااتفاق ہوا۔میں بطور خاص پاکستانی بکس اسٹالس میں بہت امیدوں کے ساتھ گیا کہ کچھ کتابیں خرید سکوں لیکن بہت مایوسی ہوئی۔ اکثر اسٹالوں میں وہی جنت کی کنجی،بہشتی زیور،پنج سورہ،پاکستانی سولہ سورہ ،وہابی ازم ایک فتنہ،بریلویوں کا پوسٹ مارٹم وغیرہ جیسی کتابیں ملی۔اسے دیکھ کر کافی حیرت ہوئی اور افسوس بھی ۔کچھ کتابیں نئے موضوعات پر تھیں بھی تو اسکی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ خریدنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔پھر بھی میں نے قدرت اللہ شہاب صاحب کی شہاب نامہ اورسید عبد اللہ کی اداس نسلیں خریدی ۔ منثورات والوں نے بھی وہی کتابیں اپنے اسٹال میں لگائی تھیں جو مرکزی مکتبہ بہت پہلے سے چھاپتا اور بیچتا رہا ہے۔کئی کتابوں کے اسٹالس ایسے بھی نظر آئے جو بالکل خالی پڑے تھے تاہم اس پر پاکستانی بک اسٹالوں کے نام درج تھے ۔ پاکستانی انا ہزارے یعنی طاہرالقادری کی تصویر بھی ایک بک اسٹال میں نمایاں انداز میں آویزاں نظر آئی۔معلوم ہوا کہ موصوف کے ادارہ سے شائع ہونے والی کتابوںکا یہ اسٹال تھا جہاں بے چارے کتب فروش جھک مارتے نظر آئے(شایدمکھی ومچھر کی کمی کابھی یہاں انہیں بہت زیادہ احساس ہورہا ہوگاکہ لوگ خالی اوقات میںمچھرمار کر اور مکھیاں بھگا کراپنے اوقات صرف کرلیاکرتے ہیں)۔پتہ نہیں یہ اسٹال ہندوستانیوں کو کیوںمتوجہ نہیں کرسکا،حالانکہ ان کے عقائد کے ماننے والوںکی ایک کثیر تعدادیہاں بھی موجود ہے۔شاید پچھلے زمانہ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے طاہرالقادری کی ملاقات اور مصافحہ و معانقہ کا یہ اثررہاہوگا یاپھراسلام آباد کو تحریر اسکوائر میں بدل ڈالنے کا خواب سجانے والے روحانی مبلغ کی اپنے مشن 
میں ناکامی کا شاخسانہ کہ اس اسٹال پر”ہو کا عالم“دیکھنے کو ملا۔

بزم قلم والوں نے جگہ نہیں دیا ۔  بزم قلم میں شائع اس تاثر پر اشرف کمال صاحب کے ایک اعتراض کا جواب ،جسے : نوٹ
 اشرف کمال صاحب
تسلیمات

آپ کا جواب دیکھا محترم سچ بتاں آپ کے یہاں ایسا ہوتا ہوگا، ہمارے یہاں تو ایسا کوئی بھی رواج نہیں ہے ۔یہ واقعی کتاب میلہ ہے یا نہیں ،دیکھنا یا جاننا چاہتے ہیں تو خود یا کسی ایلچی کو بھیج کر حقیقت حال معلوم کر لیجئے ۔ہمارے یہاں کتاب میلوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔یہ آپ کے یہاں کی طرح کسی کمپنی کی مشہوری کے لیے فٹ پاتھ پہ سجا عالمی کتاب میلانہیں بلکہ ستر کی دہائی سے لگاتار جاری23واںعالمی کتاب میلہ ہے۔ یوں تو ہندوستان میں ہر سال کتاب میلے لگتے ہیں لیکن یہ وہ عالمی میلہ ہوتا ہے جس کاانعقادہر دوسرے سال. 38300 مربع میٹر پر مشتمل دہلی کے پرگتی میدان میںمنعقدکیا جاتا ہے۔ آپ کے علم کے لئے عرض کر دوں کہ دہلی کایہ عالمی کتاب میلہ فرینک فرٹ کتاب میلہ اور لندن بک فیئر کے بعد سب سے زیادہ معززاور معتبر مانا جاتا ہے۔یہ ہم نہیں کہ رہے بلکہ دوسروں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔مجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کتاب میلہ کی شہرت کی وجہ ہندوستان کے اشاعتی گھرانوں کا تخلیقی و تحریری معیار ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں شائقین علم و ادب اورکتابوں کا بڑھتا بازاربھی ہے۔آپ سی این این ،رائٹر ،بی بی سی لندن اور الجزیرہ وغیرہ کی رپورٹیں ہی دیکھ یا پڑھ لیتے تو یہ تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ ہندوستان دنیا میں کتابوں کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔شاید اسی سبب پوری دنیا کے ناشروں کی نظرہندوستان کے بازار پر قبضہ کرنے یا پھر وہاں سے منافع کمانے پر لگی ہے۔یہ منظر صرف انگریزی کو لے کر ہی نہیں ہے،اردو،ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں کا مارکیٹ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے اور آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ بے سبب ہی نہیں فرینک فرٹ بک فیئرنے ہندوستان کو دو مرتبہ سب سے عمدہ کتابیں چھاپنے کا ایوارڈدے دیا ہے۔اگر میں آپ سے کہوں گا کہ اس وقت ہمارے ملک میں تقریبا بارہ ہزار پبلشر ہیں اور ہر سال تمام زبانوں کو ملا کر تقریبا ایک لاکھ نئی کتابیں چھپ رہی ہیں تو آپ تو مانیں گے نہیں۔ اس لئے اب زیادہ کیا بتاں۔ویسے اس ذیل میںآپ اپنے ملک کے ہی دانشوروں اور اہل علم سے حقیقت جان لیتے،اور پھر کوئی رائے قائم کرتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔اپنے منہ میاںمٹھوبنناور تخلیقی معیار میں پاکستان کوخود سے منفردشناخت کامالک تصور کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ ذی علم ہستیاں آپ کے مفروضے کو درست نہ قرار دے دیں۔ہندوستان میں بطور خاص اردوکتابوں کی اشاعت کے طویل سلسلوں اور صحافتی سرگرمیوںپر آپ کے ملک سے تعلق رکھتے والے ممتاز دانشور محمود شام کی گہری نظر ہے۔ڈینگیں ہانکنے سے قبل ذرا ان کے خیالات جان لیجئے۔موقع نہ ہو کم از کم ان کے یہ دو مضامین ضرور پڑھ لیں،جس کا لنک میں ذیل میں پیش کررہاہوں تاکہ بے عقلی والی باتیں دوبارہ آپ نہ لکھیںاور مجھے تلخ تبصرے کی ضرورت درپیش نہ ہو۔



 ولسلام 
علم اللہ 


۔۔۔مزید

ہفتہ، 2 فروری، 2013

دہلی میں مسجد نور کے بعد اب غوثیہ مسجد کی شہادت

دہلی میں مسجد نور کے بعد ۔۔۔
غوثیہ مسجد کی شہادت 


محمد علم اللہ اصلاحی

ہندوستان کو دنیا کا سب سے بڑا سیکولر اور جمہوری ملک کہا جاتا ہے۔ سیکولر ریاست کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ایسی ریاست جس میںمذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق کی کہیںکوئی گنجائش بھی نہ ہو اور ارباب اقتدار کے ذریعہ عملاًکسی بھی مذہب کو نہ تو سرپرستی حاصل ہو اور نہ ہی سرکار اپنے فیصلوں کے اثرو نفوذمیں مذہبی سروکاررکھے۔ ایسی ریاست نہ کسی مذہب کے حق میں اور نہ ہی مخالفت میں قدم اٹھاتی ہو۔لیکن صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے توہمارے یہاں بہت سارے معاملوں میں سیکولرزم محض کاغذوںتک محدود ہے، حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ شاید اسی سبب سے ایک خاص فرقہ کی املاک کو تباہ و برباد کرنا،ان کی مساجد و مقابر کوزمیں بوس کردینا ،ان کی مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنا ،حکومتی سرپرستی میں فسادات کروانا ، ان کے بچوں کو زندہ جلا دینا ،ان کی خواتین کے ساتھ سر عام بد تمیزی اور عصمت کو تار تار کرنا ،ان کے بے قصور نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دینااور ہر طرح سے انھیں ہراساں و پریشاںکر ان کی زندگی کا قافیہ تنگ کردینا معمول کا حصہ بن گیا ہے۔حکومتیں اس طرح کا گھٹیا کام کرتے ہوئے ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتیں، اس طرح کا کام کرتے ہوئے انھیں نہ تو عدالتوں کا ڈر ہوتا ہے اور نا ہی انسانیت کا غم ۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد تابڑ توڑ فسادات سے ابھی یہ قوم ابھر بھی نہیں پائی تھی کہ ایک مرتبہ پھر اس قسم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ابھی حال ہی میں دھولیہ میں اسی قسم کے ایک فساد کے بعد جس میں 5مسلمان پولس کے ذریعہ یک طرفہ کا روائی میں بھون دئے گئے ۔وہیں تمام قوائد و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے راجدھانی دہلی میں ایک اور مسجد شہید کر دی گئی ۔سخت سردی میں غیر قانونی کالونیوں کے نام پرانہدامی کاروائی کے سبب تین لوگوں کی جانیں تلف ہو چکی ہیں لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں ہے ۔حیرت یہ بھی ہے کہ ایسے موقع پربھی مسلمان ،ان کے ذمہ داران اور ان کی تنظیمیں اتحاد کا ثبوت دینے کے بجائے ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں ۔ میڈیا نے بھی حسب معمول اس خبر کو اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا اور ڈی ڈی اے کے ذریعے بغیر کسی اطلاع کے5 دسمبر2012کو غوثیہ کالونی (خسرا نمبر 217مہرولی) میں انہدامی کارروائی کی ابتدا کے بعد 12دسمبر 2012کو 400سال پرانی مسجد ،سیکڑوں قبریں اور درگاہوں کو بھی مسمار کردیا گیا

آج تک کالونی والے کھلے آسمان کے نیچے اس کڑکڑاتی سردی میں جینے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ ایک مہینہ میں سردی کی وجہ سے تین لوگوں کی موت ہو چکی ہے اور کئی لوگ زیر علاج ہیں۔جو مسجد منہدم کی گئی ہے حقیقت میں وہ آثارِ قدیمہ سے متعلق ہے لیکن اپنی روایت کے مطابق ڈی ڈی اے معاملہ کی لیپا پوتی میں لگ گیا ہے اور اب تو اس قسم کی بھی باتیں کی جانے لگی ہیں کہ ہم نے آثارِقدیمہ والی مسجد منہدم نہیں کی ہے بلکہ غلطی سے صرف ایک طرف کی دیوار ٹوٹ گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈی ڈی اے نے چھت سمیت پوری مسجد شہید کر دی ہے ،صرف ایک دیوار باقی ہے۔ سردی میں جہاں دہلی سرکاربے گھر لوگوں کو سر چھپانے کے لئے انتظام کر رہی ہے ،وہیں دوسری طرف اسی سرکارنے برسوں سے گھر بناکر رہ رہے لوگوں کے سر سے چھت چھین لیاہے۔پولس والے ڈنڈے کی زور پر ان کے لحاف اور بستر تک چھین لے جاتے ہیں ۔

خبروں کے مطابق ستمبر میں ڈی ڈی اے نے اس زمین کو خالی کرانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد وقف بورڈ کی طرف سے اس کومکتوب ارسال کیا گیا تھا کہ یہ قدیم قبرستان ہے۔ اس لئے اسے ایسے ہی رہنے دیا جائے۔ اس پر توجہ دیئے بغیر ڈی ڈی اے نہ صرف اندھا دھندانہدامی کاروائی نجام دیتے ہوئے تمام جھگیوں اور جوبھی رہائشی شکل کے مکانات تھے ،سب کو تباہ کر دیا بلکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے بے شمار قبور کی توہین کی اور انہیں منہدم کر دیا۔ قبریں اندر سے اکھاڑ کر ان کے نشان بھی زمیں بوس کر دئے۔ انھوں نے اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اس علاقہ کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ ان میں ان بزرگان عظام کی قبریں بھی ہیں جنھوں نے مذہب و ملت سے پرے ہندو مسلم کے درمیان بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیاتھا ۔لیکن افسوس یہاں ساری چیزوں کو ملیا میٹ کر دیا گیااور مسجد و قبرستان سمیت بہار شریف میں مدفون بزرگ حضرت یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر اور مرشدحضرت نجیب الدین فردوسی کی سات سو سال پرانی قبرپر بھی بلڈوزر چلا دیا جس کا ذکروقف بورڈ کے 1980 کے گزٹ میں بھی موجودہے۔


ڈی ڈی اے کی نگاہ تو اس زمین پر پہلے سے ہی تھی۔ اس کا یہ کہنا کہ ہم نے یہ زمین پہلے ہی اکوائر کر لی تھی اور اب تو ہم صرف غیر قانونی قبضہ ہٹا رہے ہیں اس حد تک درست ہے جب اس پر متبرک مزار، درگاہیں، قدیم قبریں اور مسجدنہ ہوں۔ بتایا جاتا ہے کہ 1957 میں ہی یہ زمین حکومت نے ایکوائر کر ڈی ڈی اے کودے دی تھی۔ وقف بورڈ نے کئی مرتبہ حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانی چاہی لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ یا حل نہیں نکل سکا۔ ایک مقدمہ درگاہ کے متولی کی طرف سے ہوا کہ قبرستان ان کی تولیت میں ہے لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیااور کہا کہ وہاں موجود قبروں کو چھوڑ کر باقی زمین ڈی ڈی اے کی ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ڈی ڈی اے نے اپنی کارروائی میں قبروں اور وہاں موجود غوثیہ مسجدتک کو نہیں چھوڑا۔یہ مسجد ایک قناتی شکل میں تھی جسے گزشتہ تیس چالیس سالوں میں مسلمانوں نے باقاعدہ مسجد بنا کر اس کا نام مسجدغوثیہ رکھ دیا تھا اور وقف بورڈ نے باقاعدہ اسکے لئے تنخواہ دار امام بھی مقررکیا ہوا تھا ۔


یہاں بات بات صرف مسجد اورقبروں کو شہید کر دینے تک محدود نہیں ہیبلکہ ڈی ڈی اے نے ایک ہزار خاندانوں کو سردی کے سخت موسم میں بے گھر کر دیا۔ یہ ڈی ڈی اے سے کی جانے والی سب سے بے رحم کارروائی تھی جسے غیر ضروری عمل قرارددیکر ان کی باز آبادکاری کے اقدامات کئے جانے چاہئے تھے۔مگر تا ہنوز ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ ایک طرف توکانگریس کہتی ہے کہ ہم لاکھوں غریب لوگوں کے لئے گھر بنا رہے ہیں یا جو لوگ سردی میں سڑک پر سو رہے ہیں، ان کیلئے رین بسیرا بنا رہے ہیں دوسری طرف جن لوگوں کے سرجھگیاں چھپائے تھیں ان کے سر سے چھت چھین لی اور سردی کے اس موسم میں لوگوں کو آسمان کے نیچے ڈال دیا۔لیفٹیننٹ گورنرکی جانب سے ایک مذہبی کمیٹی قائم ہے جس کے سامنے اس طرح کے تمام معاملات رکھے جاتے ہیں۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس معاملہ میں اس کمیٹی سے رابطہ تک کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ دہلی وقف بورڈ کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاناچاہئے وہ غلطی پر ہیں۔ زمین ایکوائر کے 53 سال بعداب فیصلہ ڈی ڈی اے کے حق میں ہونے کے زیادہ امکان ہیں ۔ پہلے جو متولی عدالت گئے انہیں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مسلمانوں کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ایک طرف تو ڈی ڈی اے دھیرے دھیرے ان کی زمین کو ہضم کرنے میں لگا ہے وہیں جب خود مسلمانوں سے کچھ بد روزگارو بد قماش افراد ان کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں تو کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ جب یہ زمین ایکوائر کی جا رہی تھی اور نہ ہی گزشتہ 53 سال میں زمین کو ڈی ڈی اے سے واپس لینے کی کوشش یا اقدامات کئے گئے ۔دھیرے دھیرے خسرہ نمبر 217 کے عظیم قبرستان پر مسلمانوں میں سے کئی لوگوں نے جھگیاں بنا لیں۔ خبروں کے مطابق دلی میں سر چھپانے کے لئے جگہ تلاش کرنے والے غریبوں کو جھگیاں حال کے دنوں تک ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے میں دی جاتی رہیں اس وقت بھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔


اس ملک میں نہ جانے کتنی ایسی وقف املاک ہیں جن پر ناجائز سرکاری اور غیر سرکاری قبضہ ہے۔مذکورہ’مسجد‘ وقف کی زمین پر تھی‘ وقف ذمے داران کو اب تک یعنی گذشتہ 35 برسوں میں ساری دقتیں اور الجھنیں حل کر لینی چاہئے تھیں۔ بھلا اس طرح کے لاپرواہ وقف ذمے داران کو کب تک مسلمان برداشت کرتے رہیں گے۔مسجد کی شہادت سے رنجیدہ مسلمانوں کے زخموں پر اب نمک پاشی بھی شروع کردی گئی ہے۔مسجد کی شہادت کا جوا ز تلاش کیا جارہا ہے۔ ایک گروپ کا یہ کہنا ہے کہ ہندوانتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی سے اٹھے شوروغل کو دبانے کے لئے اورانتہا پسند ہندؤں کی توجہ ہٹانے کے لئے کانگریس نے مسلمانوں کی مسجد شہید کرائی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہنگائی کے جِن اور اپنی بدعنوانیوں پر سے توجہ ہٹانے کی یہ کوشش ہے۔مسلمانوں کا سوال ہے کہ توجہ ‘ہٹانے کیلئے کیا مسلمانوں کی مسجد ہی شہادت کے لئے ملی تھی۔


یہاں ایک حقیقت کی طرف مزید توجہ ضروری ہے۔تعصب۔سرکاری اہلکاران اور پولیس کا مسلمانوں کے تئیں تعصب اب ایک دم بے نقاب ہوگیا ہے۔ پہلے یہ بم دھماکوں میں بے نقاب ہوا اور اب دہلی میں مسجد کی شہادت نے اسے بے نقاب کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حکومتوں اور سیاستدانوں کو پڑی نہیں ہے کہ سرکاری اہلکاران اور پولیس والوں کے ذہنوں کوخبث اور تعصب سے پاک کیا جائے اور پڑی بھی کیوں ہوگی ان کے ذہن جو خود تعصب کے زہر سے مسموم ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں اور جماعتیں مل کر انتخابات کی تیاری میں مصروف کانگریس کواپنی طاقت اور حیثیت دکھا دیں تاکہ وزیر اعلی اور دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو فکر بدلنے پر مجبورکیا جا سکے اور ڈی ڈی اے سے کہا جائے کہ پبلک انٹرسٹ میں مہرولی میں خسرہ نمبر 217 کی زمین واپس اس کے اصل مالکان کو بھیجی جا رہی ہے۔ ایسانہ کر اس مسئلہ کو مسلکی رنگ دینامسجد کی آڑ میں اپنی روٹیاں سینکنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔حکمت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان متفقہ طور پر حکومت کوبتائیں کہ مسجد، درگاہ اورقبور کی شہادت برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومت نے 53 سال پہلے خسرہ نمبر 217 کی زمین لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت ہی عوامی انٹرسٹ میں زمین لوٹا سکتی ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہو گا جب ہم متحد ہوں۔

۔۔۔مزید