ہفتہ، 17 دسمبر، 2011

تعلیم کی نجی کاری اور نوجوان


تعلیم کی نجی کاری اور نوجوان
محمد علم اللہ اصلاحی
آج ہماراتعلیمی نظام صاف طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے، ایک جدید تعلیم کا نظام ہے جس کے تحت روزگارپر مشتمل نصاب ہے اور دوسری طرف روایتی تعلیمی نظام ہے جس کے ساتھ روزگار کے بہت کم مواقع  ہیں۔ روزگار کے مواقع حاصل کرانے والی تعلیم کے لیے اقتصادی طور پر خوشحال طبقہ میں دلچسپی دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کے بچے اس تعلیم کو حاصل کرکے ہی بڑے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے دیہی نوجوانوں کے ماں باپ اتنے خوشحال نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کو مہنگی تعلیم فراہم کر سکیں، ہمارے ملک میں تعلیم کے لئے ایسا ماحول تیار ہوتا جا رہا ہے جس میں سبھی کو سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا،ایسے ماحول کے لئے ہماری سرکاری پالیسی ہی ذمہ دار ہے ملک کی آزادی کے وقت لارڈ میکالے کے ذریعہ دئے گئے تعلیمی نظام کو ہی حرف آخر سمجھا کیا گیا جس سے ہمارے ملک کا آج تک صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ آج بھی ہم تعلیم کے لئے دیہی سطح پر بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔کئی گاو ں میں آج بھی بنیادی ںاسکولوں کی کمی ہے، بچے آج بھی کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جانے پر مجبور  ہیں ۔ ایسے ماحول میں کمزور اقتصادی حالت والے خاندان اپنے بچوں کومزےد تعلیم کے لئے شہروں میں بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔آج بھی تقرےباً 60 فیصد بچے پرائمری اسکول سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت نہےں رکھتے۔ 40 فیصد بچے ثانوی درجات کی تعلیم کے بعدسکول چھوڑ دیتے ہیںجب کہ 20 سے 25 فیصد بچے ہائی سکول تک کی تعلیم ہی حاصل کرپاتے ہےں کہ اقتصادی اور معاشرتی مسائل انہےں آگھےرتے ہےں، ایسے حالات میں اعلی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوانوں کی کس قدر نمائندگی ہوگی؟روایتی تعلیم کے مےدان مےں کوئی دیہی نوجوان گریجویٹ تک کی تعلیم حاصل کرلےنے کے باوجود روزگار کے بازار میں اپنے آپ کوکسی مقام پر نہےں پاتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔گزشتہ کئی سالوں کے تجزےہ کے مطابق روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ہمارے دیہی سماج کے صرف 12.0 فیصد نوجوان ہی مینجمنٹ یاپروفیشنل کورس کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں، ان میں سے صرف.0 2 فیصد ہی کوئی بڑا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ہماری حکومت نے جس تیزی سے روزگار سے جڑے تعلیم کی نجی کاری کی ہے اس سے مفلس اورعام طبقہ کو ایسی تعلیم سے محرومی ہی نصےب ہوئی ہے۔اس نجی کاری نے انجینئرنگ ، طب ، مینجمنٹ ، کمپیوٹر اور مختلف روزگار فراہم کرنے والے ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورسوںکے ذریعہ تعلیمی نظام پرغاصبانہ قبضہ کر لیا ہے ،من مانے طریقہ سے داخلہ جاتی عمل اور فیس کا ڈھانچہ کھڑا کر لیا گےا ہے جس کے ذریعہ تعلیمی ادارے محض پیسہ کمانے کا مر کز بن کر رہ گئے ہیں،جہاں خوشحال لوگوں کے بچوں کو داخلہ دے کر موٹی فیس وصولی جاتی ہے تاکہ ان کی اور ان کے ادارے کی صحت بنی رہے، تعلیم کے اصل مقصد سے منحرف یہ ادارے سرکاری ہدایات و احکامات پرکبھی عمل نہیں کرتے ،کیونکہ انہوں نے اپنے اصول قانون اپنی سہولت کے مطابق گڑھ لیے ہیں۔
اس نجی کاری کے ذریعہ غریب اور دیہی نوجوانوں کو اعلی تعلیم سے ہی محروم رکھنے کاکھیل نہیں چل رہا ہے بلکہ انہیں اسکول کی تعلیم سے بھی محروم رکھنے کی سازش چل رہی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑے پبلک اسکولوں کے پاس بھی ان غریبوں کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے،وہ ملکی مفاد میں سوچنے کے لئے مجبور نہیں ہیںوہ صرف انہیں ہی اپنے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں جو ان کے مقرر کردہ فیس کوبلاتامل ادا کر سکیں۔اس ناروا تقسےم کے نتےجہ مےںابتدائی دورسے ہی معیار زندگی پستی کی راہ پر لگ جاتاہے اوربالآخر امیر ،غریب دو متوازی سماج تشکےل پاتے ہےں، ان مےں سے ہر دو کے درمےان اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دوری پےدا ہوتی چلی جاتی ہے، اےک طبقہ احساس کمتری مےں مبتلا ہوکر حسدکاشکار ہوجاتااور دوسراافراط زر اور وسائل کی فراوانی مےں کوتاہ بےں اور غفلت شعار بن جاتاہے۔
تعلیم کی نابرابری سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ،ان کی بے روزگاری ملک کوخطرناک مستقبل کیطرف لےے جارہی ہے۔ دیہی نوجوان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہی شہر کی طرف رخ کر رہے ہیں جس سے ملک کے بنےادی ذریعہ آمدنی زراعت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شہروں میں معیار زندگی میں بھاری فرق کو دیکھتے ہوئے کچھ نوجوان جلد امیر بننے کے چکر میں جرائم کے مرتکب ہوجاتے ہیں، گاو ¿ں میںرہ کر بھی وہ کھیتی میںکامےاب نہیں ہوتے ،کیونکہ ےہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج کل کھیتی گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہے ، اس میں لگائے گئے سرمایہ کی قیمت نکالنا ہی مشکل ہو گیا ہے، ایسے حالات میں تمام راستوںکو بند دیکھ کر دیہی نوجوان کشمکش کا شکارہےں۔ ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھے اور دیہی نوجوانوں کے لئے ایسا لائحہ ¿ عمل مرتب کرے کہ وہ اپنی زندگی کو سماج کے مرکزی نقطہ سے جوڑنے میں کامیاب ہو سکیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ دیہی نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کرے کہ وہ بے چارئہ محض نہ بنیں بلکہ” تعلیم سب کے لئے “”اسکول جائیں ہم“ اور” مڈ ڈے مےل“ جیسی سرکاری کوششوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے تاکہ اس کے خاطر خواہ فوائد ظاہرہوسکیں۔