بدھ، 3 جنوری، 2018

دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے

دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے
 محمد علم اللہ 
کبھی کبھی کچھ ایسی تحریریں یا کتابیں میسر آجاتی ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد بے اختیار مصنف یا مترجم کا ہاتھ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایسی ہی ایک کتاب میرے ہاتھ لگی، جسے میں بجا طور پر ایک بہترین، معلوماتی، تحقیقی، علمی اور ادبی کتاب کہہ سکتا ہوں۔ ”وٹ از مدرسہ“ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کچھ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے؛ پتا چلتا ہے کہ ایک عام انسان خاص کیسے بنتا ہے۔ یہ کتاب نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، امریکا کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی تحریر ہے۔

اس کا دل نشیں، رواں اور پرتاثیر اردو ترجمہ فاضل دیوبند اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وارث مظہری نے کیا ہے۔ ترجمہ شدہ کتاب کا نام ”دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے“ ہے۔ یہ لگ بھگ 339 صفحات پر مشتمل کتاب ہے، جسے نعیمیہ اسلامک اسٹور دیوبند نے شایع کیا۔

کتاب کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ مصنف کے بارے میں بات کرلی جائے۔ ابراہیم موسیٰ ایک استاد، ماہر اسلامیات اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے، اور ان کے آبا واجداد ہندوستان کے ریاست گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ ابراہیم جنوبی افریقہ کے اسکول میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اس درمیان انھیں دینی علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس جذبے کی وجہ ان کے ایک مسیحی ساتھی کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شدت اور دروغ گوئی پر مبنی ایک کتاب ہوئی۔ اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے غلط بیانی سے کام لیا گیا تھا۔

کتاب میں تحریر اور مسیحی لڑکوں کے ذریعے بیان کی گئی باتیں ان باتوں سے میل نہیں کھاتی تھیں، جو ان کی امی نے انھیں بچپن میں بتایا تھا۔ اس تجسس نے ابراہیم موسیٰ کے اندر سچ بات جاننے کی جستجو پیدا کر دی، حالاں کہ ابھی ان کی عمر محض سولہ برس تھی۔ تلاش حق کے لیے انھوں نے اپنے گھر کے قریب کیپ ٹاون کی ایک لائبریری کا رخ کیا، لیکن وہاں بھی ان کی طبیعت کو سیری حاصل نہ ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے باضابطہ طور پر دین کا علم حاصل کرنے اور براہ راست قران و حدیث کی تفہیم کا تہیہ کرلیا۔ یہ تلاش انھیں ہندوستان کے مختلف مدارس سے گزارتے ہوئے، کانپور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لندن اور پھر نوٹرے ڈیم یونیورسٹی لے گیا ۔ جہاں وہ علم کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کی یہ داستان ان کی اور ان کے گھر والوں کی انجینئر بننے کی خواہش کے برعکس، دینی علوم کی اور پلٹ آنے کی، ان کی اپنی خواہش اور دھن سے شروع ہوتی ہے۔ مصنف کا یہ فیصلہ ان کے اہل خانہ پر بجلی بن کر گرا؛ خصوصا ان کے والد اس بات کے لیے راضی نہ ہوئے، کہ انھیں مدرسہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ والد کو اس بات کا اندیشہ دامن گیر رہا، کہ ان کا بیٹا مدرسے جانے کی صورت میں یہ ایک مسکین مولوی بن کر رہ جائے گا۔ لیکن ابراہیم موسیٰ اپنی امی اور خالاوں کی مدد سے اپنے والد کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

ان کی یہ داستان یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلے وہ تین ماہ کے لیے تبلیغی جماعت کے لیے نکلے، پھر حالات زمانہ کی ٹھوکریں کھاتے داخلے کے لیے مدرسہ سبیل الرشاد بنگلور کا رُخ کیا۔ اس کے بعد مدرسہ سبیل الرشاد بنگلور سے ہوتے ہوئے دارالعلوم ماٹلی والا، بھورچ، اور دیگر کئی چھوٹے بڑے مدارس کی خاک چھانی۔ دار العلوم دیوبند اور بعدہ ندوۃالعلما جیسے معروف دینی اداروں کا نہ صرف قصد کیا بلکہ وہاں کے جلیل القدر علما اور اساتذہ سے کسب فیض حاصل کیا۔

”وٹ از مدرسہ“ نامی یہ کتاب جنوبی افریقہ کے ایک حق کے متلاشی اور علم کے کوزہ گر کی داستان حیات ہے۔ اس میں انھوں نے انتہائی دل کش انداز میں ان اداروں اور مدارس میں بتائے ماہ و سال اور شب و روز کی کہانی بیان کی ہے۔ مصنف کی داستان اس قدر دل چسپ اور پر تاثیر ہے، کہ پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پڑھنے والا جیسے کسی چلتی پھرتی اور متحرک کائنات کا مشاہدہ کررہا ہو۔ متعدد جگہ یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان علاقوں، گلیوں، کوچوں، درجوں، مسجدوں اور اس روحانی و ایمانی فضا کو بالکل اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پوری کتاب میں یہ بیانیہ نہیں ہے، اس لیے اسے ایک مکمل خود نوشت یا سوانح عمری نہیں کہہ سکتے۔