محمد علم اللہ اصلاحی
مسلم مسائل سے متعلق ایک دستاویز کی تیاری کے سلسلے میں معروف انگریزی مجلہ’’مسلم انڈیا‘‘کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ،جو سید شہاب الدین کی ادارت میں 1983 سے نکلنا شروع ہوا اور 2009میں بند ہو گیا ۔اس رسالہ کو دیکھنے اور خصوصاً اس کے اداریوں کو پڑھنے کے بعد ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔حالانکہ ان کے بارے میں بہت پہلے سے سنتا رہا تھا لیکن ان کی علمیت اور قابلیت کا قائل میں ان کی تحریروں کو پڑھ کر ہوا۔ چنانچہ جب میں نے ان سے ملنے کا ارادہ بنایا تو پتہ چلا کہ وہ ایمز میں ایڈمٹ ہیں اور ان کی صحت انتہائی نازک ہے ۔ اس خبر کو سن کر دل میں ایک دھکا سا لگا تھا کہ شاید امت مسلمہ ہند ایک اور عظیم قائد سے محروم ہو جائے گی ۔مگر پھر جلد ہی یہ مژدہ جاں فزا بھی ملا کہ وہ ہاسپٹل سے واپس آگئے ہیں اور مشاورت کے آفس میں باضابطہ آنے بھی لگے ہیں ۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب نے بتا یا کہ ا گرچہ پہلے جیسے حالات نہیں ہیں لیکن کام کا شوق اور خالی نہ بیٹھنا ان کی فطرت ثانیہ ہے ۔
ہاسپٹل سے واپسی کے بعد ان سے ملنے کا میں نے پھر ارادہ کیا اور اس غرض سے کئی مرتبہ مشاورت کے دفتر گیا لیکن ان کے انہماک اور کام میں یکسوئی کو دیکھ کر ہمت نہ ہوئی کہ میری ایک ادنیٰ سی خواہش کے تکمیل کے لئے ان کے کام میں حرج ہو اور وہ بلا وجہ ڈسٹرب ہوں ۔مگر پھر ایک بہانہ ہاتھ آیا ۔ہفت روزہ’’عالمی سہارا‘‘ نے مجھے ایک اسٹوری لکھنے کے لئے کہا تھا ،جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے راستے کی نشان دہی کرنے والے بورڈوں اور ہورڈنگز سے پی ڈبلیو ڈی نے لفظ’’اسلامیہ‘‘ کو حذف کر دیا ہے ۔ اور سید شہاب الدین نے اس سلسلہ میں دہلی کے وزیر اعلیٰ سمیت دیگر اعلی ذمہ داران کو متوجہ کراتے ہوئے اس میں اصلاح کی خاطر خطوط ارسال کئے تھے ۔ مسلم مسائل سے متعلق لکھنا ،مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑنا اور انہیں انصاف دلانے کی خاطر تگ و دو کرنا ان کی خدمات کے سلسلہ میں ہے جس کا اندازہ ’’مسلم انڈیا‘‘ اور’’مشاورت بلیٹن‘‘کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جس چیز کو اردو اخبارات نے اب موضوع بحث بنایا تھا اس بارے میں برسوں پہلے منتظمین کو سید شہاب الدین نے خطوط لکھے تھے ۔
ان کا بیان ایک انگریزی اخبار میں بہت پہلے میں نے دیکھا تھا اور جب’’عالمی سہارا ‘‘نے اس پر اسٹوری لکھنے کے لئے کہا تو براہ راست ان سے ملاقات کرنے اور اس موضوع پر ان کی رائے جاننے کا اشتیاق ہوا اور ایک صبح میرے قدم مشاورت کے دفترکی جانب بڑھ گئے ۔ملی گزٹ سے مشاورت کا دفتر محض چند فرلانگ پر ہے،مشاورت کے دفتر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں ایک بزرگ ایک نیم تاریک کمرے میں بیٹھے ہیں ۔ٹیبل لیمپ جل رہا ہے اور وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہیں ۔اس قدر پیرانہ سالی میں بھی بابوؤں والا ٹھاٹ نہیں گیا ہے ۔مشاورت کے آفس سکریٹری عبد الوحید صاحب نے میرا نام اور ملاقات کا مقصد لکھ کرانہیں دیا ۔ ایک نظر دیکھنے کے بعد انھوں نے کہا بھیج دو ۔کمرے میں تاریکی اور خاموشی دونوں مل کر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہے تھے ۔
ابھی میں سوچ رہا تھا کہ بات کی ابتدا کیسے کروں کہ آواز آئی ’’جی !تشریف رکھیے !‘‘آواز میں ارتعاش اور کڑک تھی ۔میں سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا ۔حکم ہوا: ۔’’فرمائیے کس غرض سے آنا ہوا ہے ؟ ‘‘میں نے دیکھا کہ ان کے کانوں میں آلہ سماعت لگا ہوا ہے،میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ،مگر ان کے اشاروں سے لگا کہ وہ میری بات یا تو سن نہیں سکے یا سمجھ نہیں سکے، اب میں نے پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بلند ٓواز سے بولنا شروع کر دیا ،لیکن پھر بھی وہ نہ سمجھ سکے ۔میں تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا،انہوں نے اپنے آلہ سماعت کا لیول ٹھیک کیا اور کہا ،’’چیخئے مت دھیرے دھیرے بولئے‘‘، میں نے دھیرے دھرے بولنا شروع کیا ،لیکن پھر بھی وہ میری بات نہ سمجھ سکے ،اب کی میں نے ایک کاغذ پر اپنا مدعا لکھ کر بڑھا دیا اور فورا ہی ایک دوسرے کاغذ میں اپنا سوال،انہوں نے سوال پڑھتے ہی جواب دینا شروع کر دیا اور بات ختم ہوتے ہی یکے بعد دیگرے میں انہیں سوالات لکھ لکھ کر دیتا رہا اور وہ ان سوالوں کے جواب دیتے رہے ،جواب کے درمیان کبھی کبھی وہ زور زور ہنسنے لگتے تو کبھی افسوس کا اظہار کرتے،جواب کیا تھا علم ،تاریخ ،زبان ،سیاست،قیادت ،ثقافت کا مرقع تھا،میرااشہبِ قلم بہت تیزی سے صفحہ قرطاس پر دوڑ رہا تھا اور وہ اسی تیزی سے گفتگو کیے چلے جا رہے تھے، گفتگو بھی انتہائی دلچسپ اور شاندار تھی اور ایسے میں میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سی بات چھوڑ دوں اور کو ن سی لکھوں،جی چاہ رہا تھا وہ گفتگو کرتے رہیں اور میں سنتا رہوں ،لیکن اس کا وقت نہیں تھا ۔
آپ کو بھی تجسس ہوگا کہ آخر کیا کیا باتیں ہوئیں ،یادداشت کی بنیاد پر سب کچھ لکھنا بہت مشکل ہے ، اس لئے کہ بات کرتے وقت جس مقصد سے میں گیا تھا وہی چیزیں پیش نظر تھیں یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے لفظ’’ اسلامیہ‘‘ کے خاتمہ کا موضوع، لیکن چونکہ اس سے متعلق باتیں عالمی سہارا کے 18 ستمبر2014 کے شمارے میں آ گئی ہیں اور دلچسپی رکھنے والے اس سے رجوع کر سکتے ہیں، اس لئے اس کا تذکرہ کرنا یہاں مناسب نہیں،اس کے علاوہ میں نے ان سے اور کیا سوالات کئے وہ تو یاد نہیں ہیں لیکن ڈائری میں جو نکات درج کئے تھے ان کی روشنی میں کئی اہم باتوں کا تذکرہ یہاں پر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا،جب ہماری بات مکمل ہو گئی تو میں نے ایک کاغذ لکھ کر بڑھا دیا کہ ‘‘آپ کی خدمات بہت ہیں اور آپ ہماری نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ، کاش آپ میری بات سْن سکتے تو میں آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرتا‘‘ تو مسکرائے اور کہنے لگے : ارے نہیں بھائی ! ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کرتا ہے ،میری خواہش تو بہت کچھ کرنے کی تھی ، آپ کو کیا کیا بتاوں ،اب صحت ساتھ نہیں دیتی۔ اب تو بس اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ اگر تجھے لگتا ہے کہ میں کچھ کر سکتا ہوں تو کم از کم مجھے اتنی مہلت دے کہ میں اپنے بکھرے ہوئے کام کو سمیٹ سکوں‘‘۔
میں نے ان سے کہا ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ کی شخصیت سے متعلق ایک کتاب لکھوں،ابھی کچھ مصروفیات ہیں ان سے نمٹ لوں تو بہت جلد آپ کی خدمت میں حاضری دوں گا، تو ان کی آنکھوں میں جیسے چمک سی آ گئی ۔ہنستے ہوئے کہنے لگے : ’’ارے بھئی! یہ تو بس ڈاکٹر صاحب کی محبت ہے کہ انھوں نے مجھ ہیچ مداں کے بارے میں یہ سوچا ۔’’میں نے جلدی سے ایک کاغذلکھ کر بڑھایا ’’نہیں ! میں نے خودبھی ’’مسلم انڈیا‘‘کی فائلیں پڑھی ہیں ،آپ نے جو لکھ دیا ہے وہ خود ایک تاریخ ہے ‘‘،کہنے لگے :’’’آپ نے کتاب لکھنے کی بات کہی تو کیا بتاؤں بہت سی یادیں ہیں کن کن چیزوں کا تذکرہ کروں ۔ کوئی اچھا اسٹینو گرافر مل جائے تو اسے لکھوا دوں ’’۔پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’آہا!وہ کیا زمانہ تھا اور کیسے کیسے لوگ تھے اس زمانے میں ! دیکھئے آپ نے تذکرہ کیا تو یاد آیا،آپ کو بتاتا ہوں: ’’میں نے سول سر وسیز کے لئے امتحان دیا میرا نام آ گیا لیکن مجھے جوائننگ لیٹر نہیں ملا ،میرے ماموں نے مجھ سے کہا ارے بھئی شہاب الدین! تمہارے تمام ساتھیوں کاتو لیٹر آ گیا، تمہیں اب تک کیوں نہیں ملا ؟ تو میں سیدھے ڈی ایم آفس گیا اور ان سے ڈائرکٹ کہا: آپ نے میرے خلاف کیا لکھا وہ مجھے جانتے تھے، مسکرا کر کہنے لگے جو کچھ میں نے لکھا ہے اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا میں نے کہا کیا لکھا ہے ؟ تو انھوں نے دراز میں سے اس خط کی کاپی نکالی اور دکھاتے ہوئے کہا دیکھو میں نے اس میں لکھا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں یہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھا ۔اس کے بعد دو سال سے پٹنہ یونیورسٹی میں استاذ ہے اور اس درمیان میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے جو قابل اعتراض ہو ‘‘ ۔
(ہنستے ہوئے !) ’’اصل میں مجھے ڈر اس بات کا تھا کہ جب میرے کالج میں پنڈت نہرو پٹنہ آئے تھے تو میں نے ان کے خلاف لڑکوں کو موبلائز کیا تھا اور انھیں کالا جھنڈا دکھایا تھا ۔میرے ذہن میں یہی بات تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اسی وجہ سے میری جوائننگ روک دی گئی ہے۔ بات یہی تھی۔ اس کا علم مجھے بعد میں ہوا اورانہیں ڈی آئی جی صاحب نے مجھے یہ بات بتائی کہ میری فائل پنڈت نہرو کے پاس گئی ۔اور میری فائل میں انھوں نے جو لکھا وہ قابل قدر بات ہے ،اس سے بڑے لوگوں کے بڑکپن کا اندازہ ہوتا ہے ۔پنڈت نہرو نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا وہ ایسے ہی ہے جیسے لوگ حافظ کے اشعار کو نقل کرتے ہیں‘‘ ۔صوفے کے پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے انہوں نے فخریہ انداز میں کہا’’’میں پنڈت جی کی بات آپ کو سناتا ہوں ’’( اپنا گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا )’’انگریزی سمجھتے ہیں ناں ؟ ’’میں نے کہا: جی ! ۔اچھا تو پنڈت جی نے کہا :
I know I have met Shahabuddin. his participation in the part of disturbances was not for politically motivated; it was an expression of his youthfulness.
یعنی’’ جوانی کے جوش میں کام کیا، انھوں نے اس کے پیچھے کوئی سیاست نہیں تھی‘‘ ۔اب میں اس آدمی کے بارے میں کیا کہوں؟ ، میں نے تو اسے کالا جھنڈا دکھایا تھا اور میرے بارے میں وہ یہ تبصرہ کر رہا ہے ، ان سے میری زبانی کشتی بھی ہوئی۔ کالج کے زمانے میں نے ان سے بتایا کہ بی این کالج کی دیوار پر 74گولی کے نشان ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ آپ چل کر دیکھیں ۔تو پنڈت جی کہنے لگے ’’ دیکھے بھائی !دیکھ کے کیا کریں گے‘‘ارے بڑے افسوس کی بات ہے اسی لئے تو ہم یہاں آئے ہیں پٹنہ‘ ،پھر کہنے لگے : ’ارے بھئی! گولی چلنا بڑی بری بات ہے وہ جب چلتی ہے تو کسی کو بھی لگ سکتی ہے ‘ ‘۔اسی رات کو جب پنڈت نہرو تقریر کے لئے آئے تو خوب ہنگامہ ہوا ، ہم نے تو کچھ نہیں کہا لیکن پنڈت جی خود ہی کہنے لگے :’’بچے آئے تھے ملنے کے لئے ، ہم نے ان سے کہہ دیا ہے جو کاروائی ہونی ہے کریں گے ‘‘،کچھ لوگوں نے ادھر سے شور مچایا کہ واپس جاؤ !واپس جاؤ !تو تنک مزاج تو تھے ہی بگڑ گئے،کہنے لگے (پنڈت نہرو کے ہی انداز میں اچک کر اور سینہ تان کر)’ابھی میں نے آپ کو سمجھایا۔ جو کچھ کہا آپ نے سن لیا ہے، میں نے بات کر لی ہے ، جو ممکن ہے وہ کروں گا، اب میں آپ سے کچھ دیش کی ترقی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔ہاں تو میں یہ کہوں گا ہاں تو میں نے یہ بھی کہا بچوں سے کہ اگر پولس کی غلطی پائی گئی تو ان کو سزا دی جائے گی ۔۔۔‘‘ تو میاں خوب تالیاں بجیں وہاں لان کے میدان میں ۔(پھر اچانک نہرو کے ہی اسٹائل میں چیخ کر)’تالیاں کیوں نہیں بجاتے ہیں ،بجائیے تالیاں ‘۔(ہنستے ہوئے ) کیا آدمی تھا :
پھر تھوڑی دیر توقف کیا اور آگے بات کی۔’’ایک ڈیڑھ سال کے بعد موقع ملا مجھ کو پنڈت جی کے گھر کھانے پر بلایا گیا ۔کھانے کے بعد کافی پینے کے لئے وہ کمرے سے باہر نکلے، میں بھی تھا ان میں سے ایک ، تو میرے کندھے پر ہاتھ ڈالا میں نے کہا اے پنڈت جی :تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا :\'\'You are that mischievous boy from Bihar\"
’’تم وہ شرارتی لڑکے ہو بہار والے ۔پیار سے کہا انھوں نے ۔عجیب و غریب انسان تھا وہ ۔۔۔‘‘
ابھی ہماری بات جاری ہی تھی کہ ایک شخص دوا لے کر ان کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بات اس سے ہونے لگتی ہے ۔’’اچھا تو یہ دوا ہے ‘‘۔پھر دوا کو ہاتھ میں لیتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگے : ’’اب یہی میری زندگی ہے جس کے سہارے ٹکا ہوں ۔ بہت کام کر لیا ، جو کچھ کرنا تھا سب کر لیا ۔اب تو بس نماز میں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اللہ اگر میری زندگی تو! رکھنا چاہتا ہے تو مجھ کو طاقت دے کہ میں جو میرا جو بکھرا ہوا کام ہے اس کو پورا کر سکوں ۔ (پھر پر امید لہجہ میں)’’: دیکھئے اگر اللہ نے صحت دی تو اداریہ کو جمع کر کے کتابی شکل میں لاؤں گا ۔اس کے لئے کام شروع بھی کر دیا ہے ۔اب دیکھئے کب تک مکمل ہوتی ہے ۔‘‘
پھر اچانک جیسے انھیں کچھ یاد آ جاتا ہے ۔’’جائیے اب مجھے کام بھی کرنا ہے، لیکن ہاں اتنی گذارش ہے اب جب کبھی آئیں تو ریکارڈر ضرورساتھ لائیں ‘‘۔میں ایک چھوٹی سی شکریہ کی چٹ لکھ کر ان کی جانب بڑھا دیتا ہوں وہ ’’ویلکم‘‘کہتے ہوئے مسکرا دیتے ہیں اور میں یہ سوچتے ہوئے واپس آگیا کہ اس ضعیف العمر ی میں بھی کام کا احساس ہے ۔کس کے لئے کام ؟ اپنے لئے نہیں بلکہ قوم کے لیے، اے کاش اگر ایسا ہی احساس ہمارے سب قائدین کو ہو جاتا تو آج ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی ۔
alamislahi@gmail.com
۔۔۔مزید