رہائشی اسکول ،دارالاقامہ یا ہاسٹل کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں بھی ایسے اقامت گاہوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں رہائشی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلانا امراء و روساء ہی کی شان تھی۔ والدین اپنے بچوں کو وسیع ترمفادات جس ،میں صحت و تندرستی کے علاوہ معیاری تعلیم اور تربیت بھی شامل ہوتی کے حصول کے لیے رہائشی اقامت گاہ یا ہاسٹل بھیجا کرتے تھے۔ کس رہائشی ادارہ میں کس خاندان کے کتنے افراد نے تعلیم حاصل کی ، اسی بنا پر رہائشی اداروں کا معیار بھی طے پاتا اور والدین اپنے بچوں کے لیے بھی اسی طرز پرادارے کا انتخاب کیا کرتے۔ ایک بہترین جدیدتعلیمی و تربیتی ادارہ کا انتخاب اس لیے بھی والدین کے لیے اہم ہوتا کہ اس قسم کے مدارس میں ان کے بچے امراء و روساء کے بچوں کے ساتھ پرورش پاتے جو انکے لیے وقاراور افتخار کی بات ہوتی۔
مگر فی زمانہ رہائشی ادارے یا ہاسٹل صرف ایک روایت اور فیشن بن کر رہ گئے ہیں۔ ماں اور باپ دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ اور اس طرح اپنی مصروفیات کے سبب بچوں کی تربیت پر زیادہ دھیان نہیں دے پاتے ہیں ۔اورایسی صورت میں انھیں ایک ہی آسان راستہ نظر آتا ہے ،وہ ہے ہاسٹل کا ،یعنی بچے کو ہاسٹل بھیج دیا اور اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو گئے ۔لیکن اس بابت اصل مسئلہ کو دیکھا جائے جو والدین نہِیں سمجھ پاتے ، وہ ہے بچوں کے ذہنی، جسمانی و جذباتی نشونما اور ارتقا کا۔ایک بچے کے لئے بہر حال والدین کی محبت و شفقت اور رہنمائی انتہائی اہم ہوتی ہے جس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ۔آج کے رہائشی اسکول یا ادارے والدین اور اولاد کے اس محبت کے رشتہ کو ختم کر رہے ہیں۔وہ والدین جو اپنے بچوں کو رہائشی اداروں میں حصول علم کے لیے بھیجنا پسند کرتے ہیں، ان دلائل سے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱-رہائشی اداروں کی زندگی بچوں میں خود مختاری کے عناصر پیدا کرتی ہے۔ وہ پہلے ہی دن سے وہاں (ہاسٹل میں ) دوسروں پر منحصر نہ رہنا اور اپنی مدد آپ کرنا سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور روزمرہ کی پریشانیوں کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے اہل بنتے ہیں۔
۲-بچوں کی وہاں(ہاسٹل میں ) مختلف لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ اچھی شخصیات سے تعارف ہوتا ہے جس سے انکا پیمانہ علم اور وسیع ہوتا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بالیدگی آتی ہے۔ان کے اندر صبر و شکر کا مادہ پیدا ہوتا ،نیز خود مختار ہونے اور خود کی خدا داد صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے مواقع میسر آتے ہیں ۔
۳۔رہائشی اداروں میں بچے مختلف قسم کے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں جیسے: تیراکی، گھوڑسواری، مجسمہ سازی، شاعری، دوڑ، اسکاش، ٹینس، سکائی ڈائیونگ،ببیڈمنٹن وغیرہ اور بحث ومباحث، و خود اعتمادی کے مقابلوں میں شرکت انھیں چست اور تندرست بنا دیتی ہے۔
۴۔بچوں کی ذہانت کو سراہنے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ رہائشی اداروں کی زندگی انھیں جزباتی طور پر مستحکم و مضبوط بناتی ہے۔
۵۔رہائشی اداروں کی زندگی انسان کا نظریہ بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ والدین اپنا ذاتی تجربہ بھی پیش کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے مال و دولت اوراثر و رسوخ کی نہیں، اس کے ذریعہ انسان کی قدر کرنا سیکھی۔
۶۔خود اعتمادی بھی ایک بہترین نعمت ہے جو رہائشی اداروں میں حاصل ہوتی ہے۔
۷-رہائشی زندگی انسان کے برتاو میں بھی بہت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ جو بچے پہلے ضدّی اور تنک مزاج ہوا کرتے تھے،ہاسٹل سے نکلنے کے بعد روادار اور نرم مزاج ہوجاتے ہیں ۔
تبصرہ :میں لوگوں کے سوچ اور نظریات کی قدر کرتا ہوں لیکن پھر بھی اس بات پر مطمئن نہیں ہوں کہ بچوں کومحض اس لیے رہائشی اداروں میں بھیج دیا جائے کیوں کہ آپکے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں ہے۔ ہر دوسرے دن اخبار کی سرخیوں میں یہی خبریں نظر آتی ہیں کہ سینئرس کی ریگنگ کے ڈر سے بچے ہوسٹل سے فرار، ہوسٹل واپس نہیں جانے کے لیے گھر والوں سے بحث کے بعد طالب علم کی خود کشی کی کوشش، ہوسٹل کے ماحول میں تعلیم پر برابر توجہ نہ دے پانے پر بچے احساس کمتری کا شکار۔(ہاسٹل میں لڑکیوں کے ساتھ فحش حرکت کرنے والا پرنسپل گرفتار،نابالغ طالبہ نے ہاسٹل میں دیا بچے کو جنم،ہاسٹل وارڈن نےمعصوم کے ساتھ کیا جنسی استحصال)پھر بھی کئی لوگ اس حقیقت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہر سکّہ کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اور سکّہ کا دوسرا رخ جو لوگ محسوس کرتے ہیں:
۱-بچہ خاندان ، تہوار وغیرہ سے دور ہوجاتا ہے۔
۲-رہائشی اداروں کی زندگی بچوں کو خاندانی نظام اور ریت رواج نہیں سکھاپاتی۔
۳-بچہ کو رہائشی مدرسے میں بھیجنے سے بچہ اور والدین کے بیچ ایک کھائی سی بن جاتی ہے جس کا پاٹنا بہت مشکل ہوتا ہےکیونکہ ہاسٹل میں رہنے کے سبب والدین کے درمیان زندگی کا جو بہترین وقت گزرنا ہوتا ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے۔
۴-رہائشی ادارے میں رہنے سے بچوں کے پاس ماضی میں پلٹ کر دیکھنے کے لیے کچھ بھی خوبصورت یادیں نہیں رہتیں۔ کیونکہ سارا بچپن تو ہوسٹل میں گذر چکا ہوتا ہے۔
۵۔کچھ بچّے جنھیں رہائشی اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تعطیل میں گھر ہی نہیں جانا چاہتے۔ انہیں گھر میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے مطابق والدین صرف تعطیل کے شروع اور آخر کے دن میں انکا خیال رکھتے ہیں باقی دنوں میں بچے اکیلا پن اور خود کو تنہا تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ والدین اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
۶۔گھر کے محفوظ ماحول سے دور ہوجانے پر ناکامی، غصہ اور دھوکہ کی وارداتیں بچوں کے ذہن ہر گہرے نشانات چھوڑتے ہیں۔ جس کا اثر تا عمر ان کے ذہنوں پر قاائم رہتا ہے۔
۷۔بہت سے والدین کو بلا واسطہ ہونے والے اس عمل کا ذرا بھی گمان نہیں ہوتا کہ وہ بچہ کو رہائشی ادارہ یا ہاسٹل بھیج کر بوڑھے دادا ،دادی کا پیار، شفقت اور محبت سب کچھ ان سے چھین لے رہے ہیں۔
۸۔وہ بچے جو اپنے گھر پر رہ کر اسکول کی تعلیم پاتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ ایک مضبوط جزباتی رشتہ قائم کرتے ہیں وہ رہائشی اداروں میں رہنے والے بچوں میں کبھی بھی مضبوط نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ رہائشی اداروں سے بچے سال میں دو ہی بار گھر آتے ہیں اور وہ بھی محض ۶ تا ۸ ہفتوں کے سے زیادہ کے لیے نہیں۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور سارا وقت صرف انکی خاطر تواضع میں ہی لگا دیتے ہیں۔ بچہ کے ساتھ خاندان کے ایک فرد کی طرح نہیں بلکہ مہمان کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔
حاصلِ گفتگو : یہی ہے کہ ہمیں اپنے کم سن بچوں کو رہائشی اداروں میں بھیجنے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ بالغ ہونے کے بعد ویسے بھی انہیں اعلیٰ تعلیم یا ملازمت کے لیے تو باہر جانا ہی ہوتا ہے۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ انہی سالوں میں جزباتی ربط مضبوط ہوتا ہے اور مستقبل بھی بہت حد تک طے ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات دیہی علاقوں میں رہنے والے والدین اور ایسے والدین جن کا تبادلہ بہت جلد ہوجاتا ہے ان کے لیے اپنے بچوں کو رہائشی اداروں میں بھیجنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا، پھر بھی یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا جانا چاہئے۔ اور اس میں بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ فیصلہ ہمیشہ بچہ کے فلاح و بہبود اور حق میں ہو۔کیونکہ اس کا اثربہر حال مثبت یا منفی بچہ کی تمام تر زندگی پرپڑتاہے۔ایک اور بہت اہم عنصر ہے جو اس چیز کا فیصلہ کر سکتا ہے وہ یہ کہ بچہ کو اس وقت ہی گھر سے باہر بھیجنا چاہئے جب بچہ خود اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو جائے اور اسے اتنی سمجھ آجائے کہ گھر سے دور رہنے سے اسکا کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور کیا نقصان۔
مگر فی زمانہ رہائشی ادارے یا ہاسٹل صرف ایک روایت اور فیشن بن کر رہ گئے ہیں۔ ماں اور باپ دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ اور اس طرح اپنی مصروفیات کے سبب بچوں کی تربیت پر زیادہ دھیان نہیں دے پاتے ہیں ۔اورایسی صورت میں انھیں ایک ہی آسان راستہ نظر آتا ہے ،وہ ہے ہاسٹل کا ،یعنی بچے کو ہاسٹل بھیج دیا اور اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو گئے ۔لیکن اس بابت اصل مسئلہ کو دیکھا جائے جو والدین نہِیں سمجھ پاتے ، وہ ہے بچوں کے ذہنی، جسمانی و جذباتی نشونما اور ارتقا کا۔ایک بچے کے لئے بہر حال والدین کی محبت و شفقت اور رہنمائی انتہائی اہم ہوتی ہے جس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں ۔آج کے رہائشی اسکول یا ادارے والدین اور اولاد کے اس محبت کے رشتہ کو ختم کر رہے ہیں۔وہ والدین جو اپنے بچوں کو رہائشی اداروں میں حصول علم کے لیے بھیجنا پسند کرتے ہیں، ان دلائل سے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱-رہائشی اداروں کی زندگی بچوں میں خود مختاری کے عناصر پیدا کرتی ہے۔ وہ پہلے ہی دن سے وہاں (ہاسٹل میں ) دوسروں پر منحصر نہ رہنا اور اپنی مدد آپ کرنا سیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور روزمرہ کی پریشانیوں کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے اہل بنتے ہیں۔
۲-بچوں کی وہاں(ہاسٹل میں ) مختلف لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ اچھی شخصیات سے تعارف ہوتا ہے جس سے انکا پیمانہ علم اور وسیع ہوتا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بالیدگی آتی ہے۔ان کے اندر صبر و شکر کا مادہ پیدا ہوتا ،نیز خود مختار ہونے اور خود کی خدا داد صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے مواقع میسر آتے ہیں ۔
۳۔رہائشی اداروں میں بچے مختلف قسم کے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں جیسے: تیراکی، گھوڑسواری، مجسمہ سازی، شاعری، دوڑ، اسکاش، ٹینس، سکائی ڈائیونگ،ببیڈمنٹن وغیرہ اور بحث ومباحث، و خود اعتمادی کے مقابلوں میں شرکت انھیں چست اور تندرست بنا دیتی ہے۔
۴۔بچوں کی ذہانت کو سراہنے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ رہائشی اداروں کی زندگی انھیں جزباتی طور پر مستحکم و مضبوط بناتی ہے۔
۵۔رہائشی اداروں کی زندگی انسان کا نظریہ بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ والدین اپنا ذاتی تجربہ بھی پیش کرتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے مال و دولت اوراثر و رسوخ کی نہیں، اس کے ذریعہ انسان کی قدر کرنا سیکھی۔
۶۔خود اعتمادی بھی ایک بہترین نعمت ہے جو رہائشی اداروں میں حاصل ہوتی ہے۔
۷-رہائشی زندگی انسان کے برتاو میں بھی بہت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ جو بچے پہلے ضدّی اور تنک مزاج ہوا کرتے تھے،ہاسٹل سے نکلنے کے بعد روادار اور نرم مزاج ہوجاتے ہیں ۔
تبصرہ :میں لوگوں کے سوچ اور نظریات کی قدر کرتا ہوں لیکن پھر بھی اس بات پر مطمئن نہیں ہوں کہ بچوں کومحض اس لیے رہائشی اداروں میں بھیج دیا جائے کیوں کہ آپکے پاس اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نہیں ہے۔ ہر دوسرے دن اخبار کی سرخیوں میں یہی خبریں نظر آتی ہیں کہ سینئرس کی ریگنگ کے ڈر سے بچے ہوسٹل سے فرار، ہوسٹل واپس نہیں جانے کے لیے گھر والوں سے بحث کے بعد طالب علم کی خود کشی کی کوشش، ہوسٹل کے ماحول میں تعلیم پر برابر توجہ نہ دے پانے پر بچے احساس کمتری کا شکار۔(ہاسٹل میں لڑکیوں کے ساتھ فحش حرکت کرنے والا پرنسپل گرفتار،نابالغ طالبہ نے ہاسٹل میں دیا بچے کو جنم،ہاسٹل وارڈن نےمعصوم کے ساتھ کیا جنسی استحصال)پھر بھی کئی لوگ اس حقیقت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہر سکّہ کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اور سکّہ کا دوسرا رخ جو لوگ محسوس کرتے ہیں:
۱-بچہ خاندان ، تہوار وغیرہ سے دور ہوجاتا ہے۔
۲-رہائشی اداروں کی زندگی بچوں کو خاندانی نظام اور ریت رواج نہیں سکھاپاتی۔
۳-بچہ کو رہائشی مدرسے میں بھیجنے سے بچہ اور والدین کے بیچ ایک کھائی سی بن جاتی ہے جس کا پاٹنا بہت مشکل ہوتا ہےکیونکہ ہاسٹل میں رہنے کے سبب والدین کے درمیان زندگی کا جو بہترین وقت گزرنا ہوتا ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے۔
۴-رہائشی ادارے میں رہنے سے بچوں کے پاس ماضی میں پلٹ کر دیکھنے کے لیے کچھ بھی خوبصورت یادیں نہیں رہتیں۔ کیونکہ سارا بچپن تو ہوسٹل میں گذر چکا ہوتا ہے۔
۵۔کچھ بچّے جنھیں رہائشی اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تعطیل میں گھر ہی نہیں جانا چاہتے۔ انہیں گھر میں اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے مطابق والدین صرف تعطیل کے شروع اور آخر کے دن میں انکا خیال رکھتے ہیں باقی دنوں میں بچے اکیلا پن اور خود کو تنہا تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ والدین اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
۶۔گھر کے محفوظ ماحول سے دور ہوجانے پر ناکامی، غصہ اور دھوکہ کی وارداتیں بچوں کے ذہن ہر گہرے نشانات چھوڑتے ہیں۔ جس کا اثر تا عمر ان کے ذہنوں پر قاائم رہتا ہے۔
۷۔بہت سے والدین کو بلا واسطہ ہونے والے اس عمل کا ذرا بھی گمان نہیں ہوتا کہ وہ بچہ کو رہائشی ادارہ یا ہاسٹل بھیج کر بوڑھے دادا ،دادی کا پیار، شفقت اور محبت سب کچھ ان سے چھین لے رہے ہیں۔
۸۔وہ بچے جو اپنے گھر پر رہ کر اسکول کی تعلیم پاتے ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ ایک مضبوط جزباتی رشتہ قائم کرتے ہیں وہ رہائشی اداروں میں رہنے والے بچوں میں کبھی بھی مضبوط نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ رہائشی اداروں سے بچے سال میں دو ہی بار گھر آتے ہیں اور وہ بھی محض ۶ تا ۸ ہفتوں کے سے زیادہ کے لیے نہیں۔ اس وقت والدین اپنے بچوں کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور سارا وقت صرف انکی خاطر تواضع میں ہی لگا دیتے ہیں۔ بچہ کے ساتھ خاندان کے ایک فرد کی طرح نہیں بلکہ مہمان کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔
حاصلِ گفتگو : یہی ہے کہ ہمیں اپنے کم سن بچوں کو رہائشی اداروں میں بھیجنے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ بالغ ہونے کے بعد ویسے بھی انہیں اعلیٰ تعلیم یا ملازمت کے لیے تو باہر جانا ہی ہوتا ہے۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ انہی سالوں میں جزباتی ربط مضبوط ہوتا ہے اور مستقبل بھی بہت حد تک طے ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات دیہی علاقوں میں رہنے والے والدین اور ایسے والدین جن کا تبادلہ بہت جلد ہوجاتا ہے ان کے لیے اپنے بچوں کو رہائشی اداروں میں بھیجنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا، پھر بھی یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر لیا جانا چاہئے۔ اور اس میں بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ فیصلہ ہمیشہ بچہ کے فلاح و بہبود اور حق میں ہو۔کیونکہ اس کا اثربہر حال مثبت یا منفی بچہ کی تمام تر زندگی پرپڑتاہے۔ایک اور بہت اہم عنصر ہے جو اس چیز کا فیصلہ کر سکتا ہے وہ یہ کہ بچہ کو اس وقت ہی گھر سے باہر بھیجنا چاہئے جب بچہ خود اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو جائے اور اسے اتنی سمجھ آجائے کہ گھر سے دور رہنے سے اسکا کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور کیا نقصان۔
2 تبصرہ جات:
بہت اچھی تحریر ہے ماشاٗاللہ
آپ کی باتوں سے سو فیصد متفق
آپ کی پسند آوری کا بے حد شکریہ ۔
جزاکم اللہ خیر
امید کرتا ہوں آگے بھی اپنی نیک تمناوں سے نوازتے رہیں گے
ایک تبصرہ شائع کریں