جمعہ، 24 جنوری، 2014

دہلی سے گورکھپور کا سفرنامہ


محمد علم اللہ اصلاحی
مختلف جگہوں کی سیر کا شوق یوں تو مجھے بہت ہے ،مگر مصروف زندگی میں اس کا موقع کم ہی مل پاتا ہے اور اگر مل جائے تو اسے غنیمت جانتے ہوئے سیرو ا فی الارض کے حکم کے تحت نکل کھڑا ہوتا ہوں۔۳۰ نومبر۲۰۱۳ء سے۲ دسمبر ۲۰۱ئتک گورکھپور کا یہ سفر بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا اور یہ بہانہ تھا دوست کی شادی کا۔مجنوں گورکھپوری ،فراق گورکھپوری اور ایسے کئی نام ذہن میں پہلے سے ہی محفوظ تھے اس لئے اس شہر کو قریب سے دیکھنے کی اور بھی خواہش تھی۔  اور اس بار جو یہ موقع ملا تو میں نے اس کو ایک نعمت تصور کیا اورٹرین کے ذریعہ اس شہر کے لئے روانہ ہو گیا جس کا نام بچپن سے سنتا آیا تھا۔ٹرین میں بیٹھتے ہی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ زیادہ تر مسافر عام سے دیہاتی ہیں۔ جن کی سادہ سی دیہات کی زندگی ہے جن کے پاس کسی قسم کی لگی لپٹی نہیں ہے۔سادگی ان کے چہرے اور رہن سہن سے صاف عیاں تھی۔بوگی میں کئی ایسے افراد ملے جنہوں نے انتہائی خوش دلی کا مظاہرہ کیا اور مسکرا کر استقبال کیا۔

میں جس بوگی میں بیٹھا تھا اس میں ایک پنڈت جی بھی تھے جو چہرے مہرے سے ہی قابل معلوم ہوتے تھے ، جب میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے لئے گیا تو دیکھا کہ وہ صاحب کیکئی اور راجہ دسرتھ کی بابت کچھ بتا رہے تھے۔میں عموماً اس قسم کی باتوں کو فضول ہی تصور کرتا ہوں اورسننا پسند نہیں کرتا اور اسی وجہ سے سفر میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب ساتھ ضرور رکھتا ہوں ،لیکن ان پنڈت جی کی باتیںاس قدر دلچسپ تیںت کہ ‘محمد زمان آزردہ ‘کی ترتیب دی گئی کتاب ’کشمیری افسانے‘ جسے میں ابھی تھوڑی دیر پہلے تک انتہائی دلچسپی سے پڑھ رہا تھا،  اب اس میںبھی وہ مزا نہیں آ رہا تھا اور ذہن بار بار پنڈت کی طرف ہی جا رہا تھا۔پنڈت بھی کچھ موڈ میں تھے کہنے لگے، ’’ بیٹا ! ای کتبیا اوتبیا بند کرا اور سن ہمری بتیاں اتنی گیان کی بتیاںکیہؤ نا ہی بتائی ‘‘۔ اور پھر پنڈت جی نہ جانے کیا کیا بتاتے رہے گوتم بدھ ،آتما ،پنیہ ،گنگا ہر موضوع پر ایک لمبی داستان تھی۔ ان کی باتیں سننے کے بعد مجھے بھی اپنی بات کہنے کا موقع ملا اور میں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ ہمارا کام تو محض پہنچا دینا ہے اسلام اور اس کی حقانیت پر بھر پور انداز میں اپنی بات رکھنے کی کوشش کی ،قرآنی آیات ،احادیث ،تاریخی واقعات اور منطقی استدلال۔ ان سب کے نزول کی الہامی کیفیت تھی۔ واقعی یہ خدا کا کرم تھا کہ میں اپنی بات احسن طریقہ سے ان کے سامنے رکھ سکا۔

پنڈت جی کے علاوہ دہلی سے ٹریننگ حاصل کر کے واپس لوٹ رہے اترپردیش کے اساتذہ کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد تھی ،مسلمانوں کے تعلق سے انھوں نے اپنے بہت سے شبہات کا اظہار کیا اور بہت سے سوالات بھی کئے،  مجھے یہ نہیں پتہ کہ میں ان کو جواب دینے میں کس قدر کامیاب رہا۔ لیکن پنڈت جی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد صاحب دنیا کے سب سے بہترین پروش تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر بھرپور انداز میں تقریر کی۔  پنڈت جی واقعی پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے اور میں سوچ رہا تھا کاش یہ بندہ اسلام قبول کر لے تو اس کو فلاح دارین مل جائے۔

رات ہو چکی تھی اور لوگوں کو نیند بھی آنے لگی تھی۔ اس لئے محفل برخاست ہوئی اور سب اپنی اپنی برتھ پر سونے چلے گئے۔نیند بہت اچھی آئی۔ یوں بھی مجھے سفر میں تین چیزیں بہت پسند ہیں سونا ،کتاب کا مطالعہ کرنا یا پھر کائنات کا مشاہدہ ، رات میں کیا مشاہدہ کرتا یا کیا پڑھتا ،سو نہ چاہتے ہوئے بھی لائٹ آف کرنی پڑی۔صبح اٹھے تو دوبارہ محفل بپا ہوئی اور پنڈت جی نے پھر اپنی تقریر شروع کی۔ اب کے یہ تقریر ہندوستانی تہذیب اور اقدار پر تھی ،کبھی وہ نوجوانوں کو مخاطب کر کے ڈانٹنا شروع کر دیتے تو کبھی روئے سخن والدین اور بڑوں کی کمیوں اور کوتاہیوں کی طرف ہو جاتا ، پوری تقریر سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی اس لئے مجھے بے حد پسند آئی۔ٹرین تین گھنٹہ لیٹ تھی لیکن اس درمیان اس تاخیر کا احساس ہی نہ ہوا۔

صبح تقریباً دس بجے ہم گورکھپور اسٹیشن پہنچے۔ہمیں ریسیو کرنے کے لئے حافظ فیض کے بھائی سیف اور ان کے ایک دوست کار لے کر پہنچ چکے تھے۔فوراً کار میں بیٹھے اور ہوٹل پہنچ گئے جہاں ہمارے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔پہنچتے ہی فوراً کھانے پینے کا انتظام ہوا ، نماز جمعہ تویوں ہی چھوٹ چکی تھی سو ظہر کی نماز پڑھی ، حافظ فیض کے بھائی سیف نے بتایا کہ عصر کی نماز کے بعد بھائی کا نکاح مسجد میں ہونا ہے ، سو ہمیں عصر کی نماز وہیں پڑھنی ہے۔عصر کی نماز سے ذرا پہلے ہم تمام احباب مسجد پہنچ گئے۔نماز کے بعد امام صاحب نے نکاح اور اس کی فضیلت پر مختصراً تقریر کی اور بالکل سادہ طریقہ سے نکاح پڑھا یا۔،نہ کوئی بارات نہ ڈھول نہ تاشا۔ مجھے یہ انداز بہت عمدہ لگا۔لوگوں نے دعائیں دیں اور پھر واپس اپنی اپنی منزل کو لوٹ آئے۔عشاء کی نماز کے بعد دوچار لوگوں کے ساتھ حافظ فیض میاں جو دولہا تھے، گئے اور کھانے کے بعد وداعی ہو گئی ، لوگوں نے نوجوان طبقہ میں سنت کے طریقہ سے دلچسپی اور جہیز جیسی لعنت سے انکار کی بڑی ستایش کی۔ہم لوگ ہوٹل آئے تو دیر تک گپ شپ رہا۔ اس گپ شپ میں مختلف موضوعات زیر بحث آئے جن میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت ،امریکہ ،عرب حکمرانوں کی بے حسی کا غلبہ رہا۔ تقریباً تین بجے سب اپنے اپنے بستروں پر سونے کے لئے گئے۔

یہاں جامعہ کے کئی ایسے احباب سے بھی ملاقات ہوئی جن سے اس سے قبل کبھی شناسائی نہیں تھی۔ان سب سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور آج کل کے نوجوانوں میں تعلیم ،اپنے کیریر سمیت قوم کے تئیں فکر ، ملک و ملت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ یہ سب ان کی زبان سے سن کر بے انتہا خوشی ہوئی،صبح ناشتہ کے بعد ایک مرتبہ پھر پر از رونق محفل سجی ، احباب نے ہم عمر ہونے کے ناطے مجھ سے بے تکلفی سے بے شمار سوالات کیے (جن میں جنسی موضوع کچھ زیادہ ہی تھا) اور اس سے متعلق مجھ سے اسلام کا نظریہ جاننا چاہا جن کا میں نے اپنی حد تک تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی۔اگر کہیں غلطی ہوئی ہوگی تو خدا تعالی سے معافی کا خواستگار ہوں۔اس دوران مجھے اس بات کا شدت سے احساس بھی ہوا کہ اگر ہمارے علما کو اسلام کی سر بلندی کی خاطر کام کرنا ہے تو ان کو اپنے دعوت کے روایتی طریقہ سے ہٹ کر مقتضیات زمانہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔آج کی نسل ہر بات کو آنکھ موند کر مان لے ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ وہ ہر چیز کو دلائل کی روشنی میں پرکھنے اور سمجھنے کے خواہش مند ہیں۔ ایسے میں ان کی تشفی کے لئے ہمیں ان کیفکری منہج اور ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو پرکھ کر ہی جواب دینا ہوگا۔ان نوجوانوں کے ذریعہ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ مولانا الیاس جمیلی ،جاوید احمد غامدی ،ڈاکٹر اسرار احمد اور ذاکر نایک جیسے شخصیات کے لیکچروں کو وہ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان کے لیے ان کی باتیں سمجھ میں آنے والی بھی ہوتی ہیں۔کچھ نوجوانوں سے بات چیت میں یہ چیز بھی سامنے آئی کہ تبلیغی جماعت نے ایک بڑے حلقہ کو متاثر کیا ہے لیکن علم سے خالی حکایتیں ان کے ذہن نشین ہو گئی ہیں ، اس پرمستزاد یہ کہ وہ ان کی صداقت کا یقین بھی رکھتے ہیں اور یہ کیفیت کسی حقیقت اور علمی استدلال کے قبولیت میں مانع ہے۔

ہمارے اس حلقہ احباب میں سماجی کارکن ،وکیل ،ریسرچ اسکالراور علم و ادب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تھے۔جن کی علمی و ادبی اور طنز و مزاح کی باتیں سن کر کافی محظوظ ہوئے۔بات چیت اور بحث و مباحثہ کے بعد رات کو ہم لوگ گھومنے نکل جاتے اسٹیشن کے قریب کھوکھے میں چائے پیتے ،سگریٹ والے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ،کچھ دیر خوش گپیاں کرتے اور پھر بائک اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا مزہ لیتے ہوئے واپس آ جاتے۔اس کیف وسرور سے بھر پور فضا میں بھی میں نے ایک چیز شدت سے محسوس کی، وہ نوجوانوں کے اندر خوف کی کیفیت تھی۔گذشتہ دنوں لگاتار پورے ملک سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے تعلق سے یہ نوجوان بھی کافی مضطرب تھے اور حکومت و ایجنسیوں کے ناروا و بے انصافی پر مبنی رویہ سے نالاں بھی۔شاید اسی سبب کہیں بھی جاتے ہوئے اکثر ایک دوسرے کو شناختی کارڈ ساتھ رکھنے اور جہاں بھی ہوں فون کرتے رہنے کی تاکید کی جاتی۔گاڑی چلانے کے دوران بھی احباب یہ کہتے کہ زیادہ تیز گاڑی نہ چلائی جائے۔سیر و تفریح کے دوران پورے علاقہ میں آوارہ گایوں کی بہتات نظر آئی ، مسلم علاقوں میں بھی کثرت سے یہ گائیں عام سڑکوں پر بھی ایسے ہی گھومتی نظر آئیں۔ لوگوں نے بتایا کہ اگر انجانے سے بھی کسی گائے کو ذرہ برابر خراش آ گئی تو نوبت فساد تک پہنچ جاتی ہے۔مسلم نوجوانوں کی اس قدر حساس طبیعت مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اپنے ہی ملک میں کس قدر خوف زدہ ہیں وہ مسلم نوجوان جو کل کو ملک کا مستقبل ہوں گے؟مگر افسوس کہ اس قدر حساس ذہنیت اور خوف و دہشت میں زندگی گذارنے کے باوجود بھی انھیں ہی مزید ہراساں کیا جاتا ہے اور وہ جب پڑھ لکھ کر کچھ کرنے کے لایق ہوتے ہیں تو جھوٹے مقدمات میں انھیں پھنسا کر ان کی زندگیاں تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہم جس دن گورکھپور پہنچے اس دن یوگی ناتھ آدتیہ ( گورکھناتھ مندر کے مہنت اور ممبر پارلیمنٹ ) پورے علاقہ میں بحث کا موضوع بنے ہوئے تھے۔اخبارات میں خاص کر ہندی اخباروں میں اشتعال انگیز سرخیاں لگائی گئی تھیں۔شاید اسی وجہ سے مسلم علاقوں میں خوف و ہراس کی کیفیت تھی۔بات یہ تھی کہ گورکھپور کے پنڈرا کشی نگر میں یوگی ناتھ کا پروگرام چل رہا تھا اور مبینہ خبروں کے مطابق جس کی ابھی تک تحقیق نہیں ہو سکی ہے ایک مسلم نوجوان نے اسلام زندہ باد کا نعرہ لگا دیا تھا۔یہ نہیں پتہ کہ نعرہ واقعی کسی مسلمان نے لگایا تھا یا خود مسلمانوں کو مارنے یا ان کے خلاف سازش رچنے کے لئے یہ ہتھکنڈہ اپنایا گیا تھا۔ تفصیل کے لئے ۲۸ نومبر کے ہندی روزنامہ دینک جاگرن کی خبر ملاحظہ فرمائیں :"لکھنو۔گورکھپور کے پڈرونا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے گورکھپور کے ممبر پارلیمنٹ اور گورکھ ناتھ پاٹھ کے جانشین یوگی ادتیہ ناتھ کے جلسے میں ایک نوجوان نے اسٹیج پر چڑھ کر لگایا اسلام زندہ باد کا نعرہ۔ بھیڑ نے ہنگامہ کیا۔ فورم پر موجود لوگوں نے نوجوان کو پکڑ کر پیٹا۔پولیس نے بڑی مشکل سے نوجوان کو بھیڑ کے چنگل سے نکال کر حراست میں لیا۔ واقعہ کے بعد ہندو نوجوانوں نے پولیس پر یوگی آدتیہ ناتھ کی حفاظت میں لاپرواہی برتنے کا الزام لگایا "۔

حالاں کہ اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے اسی گھرانے کی اردو میڈیا انقلاب کی خبر دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی بات نظر آتی ہے ملاحظہ فرمائیں ۲۹ نومبر روزنامہ انقلاب کی یہ خبر "کشی نگر ضلع ہنڈ کوارٹر پر ڈی ایم دفتر کے احاطہ میں انسلائٹس کے بہانے پورے کشی نگر کے ہر کونہ سے ہندو شدت پسند کے اکٹھا ہونے والے اراکین کے اسٹیج پر اسلام زندہ باد کا نعرہ لگا کر ایک بیس سالہ نوجوان نے ضلع انتظامیہ کو حیرت میں ڈال دیا۔پولس نے نوجوان کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔پولس نے ہلکا لاٹھی چارج کیا لیکن کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔پولس بیان دینے سے کترا رہی ہے۔نوجوان کا نام نصیر الدین بتایا جا رہا ہے جو پڈرونہ کے چھاونی علاقہ کا رہنے والا ہے۔ ،تفصیلات کے مطابق ۲روز قبل سے پورے ضلع کے اندر چار پہیہ گاڑی سے یوگی ناتھ کے آنے کی خبر پھیلائی جا رہی تھی۔جمعرات کو طے شدہ پروگرام کے مطابق ہندو یوا واہنی اور وشو ہندو مہا سنگھ کے اراکین قصبہ پڈرونہ کے سبھاش چوک چوراہا پر اکٹھا ہوئے۔یہاں سے نکلنے والا جلوس تقریبا ۲ بجے ضلع ہیڈ کوارٹر ڈی ایم رگزیان سیمفل کے دفتر کے سامنے پہنچ کر مجمع میں تبدیل ہو گیا۔

مقررین نے مظفر نگر فساد کو دہرانے کی دھمکی دینے کے ساتھ ہی موجودہ سماجوادی حکومت کے خلاف منہ بھر زہر اگلا۔اشتعال انگیزی کی ساری حدیں اس وقت پار ہو گئیں جب ایک مقرر نے کہا کہ ان بابر کی ناجائز اولادوں کوسبق سکھانا ہے۔تیھ  ایک ۲۰ سالہ نوجوان اسٹیج پر چڑھ کر اسلام زندہ بادکے نعرے لگانے لگا۔اس کے نعرہ بلند کرتے ہی وشو ہندو مہاسنگھ کے ضلع جنرل سکریٹری نے لپک کر اس کا کالر پکڑ کر اس کی پٹائی شروع کر دی۔تقریباً دس منٹ تک اسٹیج پر آدیہ ناتھ کے غنڈے اس نوجوان کو مارتے رہے اور پولس خاموش تماشائی بنی رہی۔ضلع کے ایک تیز طرار سی او سے نہیں دیکھا گیا تو اس نے اپنے ماتحت کو اسٹیج سے نیچے بھیج لڑکے کو نیچے اتروایا۔نیچے اتارتے ہی نوجوان کو بھیڑ نے مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔تقریباً دس منٹ کے بعد پولس نے ہلکا لاٹھی چارج کر کے نوجوان کو اپنے قبضہ میں کر کے احاطہ سے باہر لے جا کر اپنی گاڑی میں بٹھایا۔ضلع کی خفیہ پولس اس وقت پوری طرح ناکام ثابت ہوئی جب جلوس سبھاش چوک سے تین حصوں میں تقسیم ہو کر چلا۔سارے افسران پہلے جلوس کی حفاظت میں لگے ہوئے۔دوسرا اور تیسرا شتر بے مہار کی طرح تھا۔پہلا جلوس نعرہ لگا رہا تھا یوگی نے ٹھانا ہے انسلائٹس کو مٹانا ہے۔دوسرا اور تیسرا جلوس نعرے لگا رہا تھایوپی اب گجرات بنے گا ،کشی نگر سے شروعات ہوگی۔اس سلسلہ میں ایس پی کشی نگر للت کمار سے جب دریافت کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ نیچے کے افسران سے بات کرو۔ایڈیشنل ایس پی نے کہا کہ بہت مصروف ہوں ،تھوڑی دیر بعد کال کریں۔سی اوپڈ رونہ جے پی سنگھ کا کہنا تھا کہ آپ خاموشی بنائے رکھیں۔"

یہ تفصیلات کسی اخبار نے نہیں دی البتہ ہاں دینک جاگرن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سبھوں نے بالکل ایک طرفہ ہی خبر بنائی۔واقعہ کے تین دن بعد فالو اپ کرتے ہوئے روزنامہ امر اجالا نے کیسے اس کو ایشو بنایا دیکھیں : سرخی :یوگی کو زیڈ پلس سیکورٹی دینے کا مطالبہ تفصیلات کچھ اس طرح تھیں" پڑرونا میں یوگی آدتیہ ناتھ کے پلیٹ فارم سے اسلام زندہ باد کا نعرہ لگائے جانے کے معاملے کو لے کر جمعہ کو بی جے پی کا وفد آئی جی زون سے ملا۔ پارٹی کے علاقائی نائب صدر اوپیندر دت شکل ، شہر صدر ڈاکٹر دھرمیندر سنگھ اور ضلع صدر جناردن تیواری کی قیادت میں پہنچے وفد نے اسے گہری سازش کا حصہ اور انتظامی غلطی کا نتیجہ بتایا۔ساتھ ہی یوگی کو زیڈ پلس سیکورٹی کے لئے حکومت کو اقدام جلد اٹھائے جانے کی مانگ کی۔گورکھناتھ پوروانچل وکاس منچ کے ریاستی صدر آر پی نارائن یادو اور دیگر بھی ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ ( انتظامیہ ) گورو ورما سے ملے اور گورنر کو پانچ نکاتی مطالبات کا میمورنڈم سونپا۔ میمو کے ذریعے انہوں نے نعرہ لگانے والے نوجوان پر سخت کارروائی ، سیکورٹی میں کوتاہی کے ملزم انتظامی افسروں کے خلاف کارروائی ، زیڈ پلس سیکورٹی دیے جانے اور پورے معاملے کی سی بی آئی جانچ کی مانگ کی۔ بی جے پی کھیل کود سیل کے ریاستی شریک کنوینر دیویندر پال اور آر پی نارائن ترپاٹھی نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کارروائی کا مطالبہ کیا۔

میں سوچ رہا تھا یہی اخبارات مسلمانوں کے ساتھ کچھ ظلم ہو جائے تو ایسے منہ چھپا کے غائب ہو جاتے ہیں جیسے یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔اس سلسلہ میں آگے کیا ہوا نوجوان کون تھا ؟ کس نے اسے بھیجا تھا ؟ اس کا کیا مقصد تھا ؟ کسی بھی قسم کی مزید تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔اور مبصرین یہی قیاس کر رہے ہیں کہ یہ زعفرانی چولے کی اپنی ہی سازش تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔قارئین کو بتا دیں کہ اس سے قبل اعظم گڈھ سمیت بنارس اور خود گورکھپور میں اس شخص (یوگی ناتھ آدتیہ)پر فسادات کرانے کا الزام لگ چکا ہے۔بقول فراق گورکھپوری
دیے ہی جاتی ہے ترغیب جرمِ آدم کو
غضب ہے سوز دلِ اہرمن کی آنچ نہ پوچھ

یہ شہر اس سے قبل ایسا کبھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی یہاں ایسی کوئی خبر سننے میں نہیں آئی تھی۔ لیکن ادھر گذشتہ کئی سالوں سے یہاں کے حالات انتہائی حساس بنا دیے گئے ہیں اور دونوں فرقوں کی حالت تشویش ناک بنی ہوئی ہے۔حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کا معروف مندر، جس کے فی الحال یوگی ناتھ ذمہ دار ہیں، کا قیام ہی بھائی چارہ اور امن و امان کے لئے ہوا تھا۔یہاں گاندھی جی کا آشرم بھی ہے جسے امن کے نقیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔۲۰۰۷ئمیں یہاں دھماکہ کے بعد حالات اور بھی سنگین ہو گئے ہیں ،میرے ذہن میں یہ ساری چیزیں گردش کر رہی تھیںاور ساتھ ہی اسی شہر کے شاعر رگھوپتی سہائے  (فراق) کا یہ شعر یاد آرہا تھا۔
فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں یہ آنکھ بھر آئی
(فراق)

سچ مچ میری آنکھیں بھر آئی تھیں ان حالات کو دیکھ اور سن کر ،ہندوستان میں ہندو و مسلمان کمیونٹی کبھی ایک دوسرے سے الگ نہیں رہے۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ درد اور ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ، اور ہر تہوار اور ہر جلسے میں شامل رہے ہیں۔ جہاں عید ملن کے موقع پر ہندو سب سے پہلے اپنے بھائی مسلمان کی چوکھٹ پر عید ملنے پہنچ جاتے،  وہیں دیوالی کی مٹھائی کھانے میں مسلمان بھی ہندو بھائی سے پیچھے نہیں رہتے۔جہاں ہندو بہن رانی پدماوتی کے دفاع کے لئے مغل بادشاہ ہمایوں بھائی بن کر پہنچ جاتا تھا۔جہاں ہندو خاندانوں کے کتنے ہی بچے مسلمان دائیوں کے تحفظ میں پلتے تھے۔ جہاں ہندو بیوہ بوڑھی خاتون کا کوئی کرنے والا نہ ہونے پر مسلمان بیٹا بن کر اپنے خاندان کیساتھ خدمت کرتا تھا۔ جہاں مسلم بھائی کے بیمار ہونے پر اس کے ساتھ ہسپتال میں ہندو شریک ہو کر اس کے خاندان کو صبر اور دلاسا دیتے تھے۔مگر اب ایک دوسرے کے تئیں قربانی کے انداز تک محبت میں ڈوباہندو مسلم معاشرہ والا یہ ملک چند جنونویں کی وجہ سے خوف کی آماجگاہ بن رہا ہے۔یہی وہ شہر تھا جہاں ہندو مسلم دونوں  ایک ساتھ انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار تھے۔مگراب کبیر داس کے اس شہر میں لوگوں میںعدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا اور عدم اعتماد کی فضا بن رہی ہے ۔
ادھر تو شہرِ گریہ ہے، فصیل کے اْدھر مگر
وہ ہونٹ مسکرانے والے کس طرف چلے گئے
ہر اک طرف پکار دیکھا کوئی بھی نہیں یہاں
وہ بستیاں بسانے والے کس طرف چلے گئے
(اعجاز عبید)

گورکھپور کے بارے میں میں نے جیسا سنا تھا ویسا بالکل بھی نظر نہیں آیا ،اس وجہ سے کافی مایوسی ہوئی۔تاہم اس شہر کی جو خصوصیات ہیں وہ دیکھنے میں آئیں مثلاً یہاں کے لوگوں میں اپنے کلچر کے تحفظ کا بیدار احساس۔اس کے نمونے ٹرین سے لیکر یہاں تک ہر جگہ دکھائی دیے جو بہرحال ستایش کے قابل ہے۔روایت اور کلچر کا سنگم ہر دن اس شہر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کا گذر گورکھپور شہرسے ہو تو زندگی اور رفتار کا امتزاج یہاں آپ اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ خوبصورت اور متاثر کن روایات پر عمل کرنے میں یہاں کے ساکنوں کو یقیناً امتیاز حاصل ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد یہاں کی کامیاب ثقافت کے ساتھدل کش مناظر کے مشاہدہ سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گورکھپور ی خواتین کی بنائی ، کڑھائی ، لکڑیوں پر نقاشی ، دروازوں پر ان کے کرافٹ اور دیواروں میں پتائی ، عمارتوں کے باہر چھجوں پر چھینی ہتھوڑے کا باریک کام دلوں کو کھینچتا ہے۔ گورکھپور میں ثقافت کے ساتھ ساتھ یہاں کی عام زندگی بڑی پرسکون اور محنت کش ہے۔ دیوی دیوتاؤں کی تصاویر ، پتھر پر بنے باریک کام دیکھتے ہی بنتے ہیں۔ بلاکس کے ذریعہ بنائے گئے ہر گھر کو سجانا یہاں کی ایک مذہبی ثقافت ہے۔جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔شاید اسی وجہ سے ریاض خیر آبادی نے کہا ہوگا۔
وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں کھوئی ہے
بڑی حسرت سے لب پر ذکر گورکھپور آتا ہے

آبادی کے امتزاج میں ہندو ، کائستھ ، برہمن ، راجپوت ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، مارواڑیشہ جیسے طبقے شامل ہیں۔یہاں پر مجھے بہار کے تمدنی اثرات بھی دکھائی دیے بلکہ بہت حد تک لہجہ بھی ویسا ہی لگا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بہار کی سرحد سے متصل ہونے کے سبب خاصی تعداد میں بہاری یہاں آ رہے ہیں اور کچھ وقت سے بہار کے لوگ بھی آ کر گورکھپور میں بسنے لگے ہیں۔اور ظاہر ہے ایک تہذیب کا حامل کسی دوسری تہذیب میں ضم ہو گا تو اس کے اثرات ظاہر ہی ہوں گے۔یہاں بنگالیوں کی بھیخاصی  تعداد ہے اور اس کے آثار جا بہ جا یہاں دکھائی دیتے ہیں۔شہر میں واقع درگاباڑی بنگالی کمیونٹی کے سینکڑوں لوگوں کی جائے قیام بھی ہے جو کہ یہاں کے لوگوں کے بقول مشرقی اتر پردیش میں ایک عام بات ہے۔یہاں کی زبان میں ہندی اور بھوجپوری شامل ہے اور یہ دونوں زبانیں ہندوستان کے وسیع علاقہ میں مروج ہیں،ہندی زبان تو ہندوستان کی دفتری زبان ہے  (یہ بات گجرات ہائی کورٹ کے فیصلہ میں درج ہے) لیکن جو ہندی گورکھپور میں بولی جاتی ہے اس میں کچھ مقامی اثر بھی ہے۔لیکن زیادہ یہی مستعمل ہے۔میرے ایک رفیق نے بتایا کہ اس شہر کی دوسری زبان بھوجپوری ہے اس میں اتر پردیش کے علاقہ میں بولی جانے والی خاص طور پر بھوجپوری کی کئی بولیاں شامل ہیں۔ بھوجپوری سنسکرت ، ہندی ، اردو ، اور دیگر زبانوں کی ہند آریائی زبان سے متاثرہے۔

مسلم کلچر ،ثقافت یا تاریخ کے نام پر میرے مشاہدہ میں کچھ خاص نہیں آیا،حالانکہ ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کی تاریخ میں اس شہر کا ذکر بھی ملتا ہے، تاریخی شواہد کے مطابق ۱۲ ویں صدی میں ، گورکھپور علاقہکو شمالی بھارت کے مسلم حکمران محمد غوری نے فتح کیا تھا، بعد میں یہ علاقہ کچھ صدیوں کے لئے قطب الدین ایبک اور بہادر شاہ جیسے مسلم حکمرانوں کے زیر حکومت رہا تھا،دریافت کرنے پر حافظ فیض کے والد ایڈوکیٹ نجم الہدیٰ نے بتایا کہ مسلمانوں کی حالت بہت قابل رشک نہیں ہے،البتہ انھوں نے بخشی پور میں واقع میاں صاحب اسلامیہ انٹر کالج کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کی خدمات عظیم ہیں۔ان کے بقول یہ یہاں کا قدیم تعلیمی ادارہ ہے جسے واجد حسین خان صاحب نے ۱۹۰۸ء میں قائم کیا تھا۔ یہ کالج نہ صرف گورکھپور شہر بلکہ اس خطہ کاواحد تعلیمی مرکز تھا جس کے خدمات عظیم الشان تھے،مگر امتداد زمانہ سے یہ ادارہ بھی اب انتشار کا شکار ہے۔ یہ جان کر بڑی تکلیف ہوئی کہ مسلمانوں کی اس قدیم درس گاہ کی فعالیت جامعہ عثمانیہ حیدر آباداور مسلمانوں کے دیگر کئی اداروں اور تنظیموں ہی کی طرح ختم ہوتی جارہی ہے۔یہ جان کر اور بھی تکلیف ہوئی کہ محض اس سے چند میل کی دوری پر اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۵۷ء میں گورکھپور یو نیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، لیکن اس قدیم تعلیمی ادارے کے حصے میں کوئی ترقی نہیں آئی۔ یعنی یہ ادارہ بھی اپنوں اور غیروں کی ستم ظریفی کا شکار ہوگیا۔شہر کی معیشت پر اکثریتی طبقہ کا دبدبہ ہے سماجی زندگی اور رہن سہن پر بھی اکثریتی طبقہ کے روایات کا اثر پایا جاتا ہے، جس طرح لکھنؤ کی سماجی زندگی پر مسلم تہذیب کا رنگ نمایاں ہے ٹھیک اسی طرح یہاں عام طور پر ہندو کلچر کاغلبہ ہے۔

دیکھنے کے لئے بھی اس شہر میں کافی کچھ ہے مثلاً  بوددھوں کے گھر ، امام باڑہ ، شاہی جامع مسجد (اردو مارکیٹ میں پرانے شہر کی ایک مشہور مسجد) ۱۸ویں صدی کی درگاہ اور ہندو مذہبی گرنتھوں کا اہم اشاعتی ادارہ گیتا پریس وغیرہ مگر وقت کی قلت کے سبب کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا ،ہاں باہر سے ’’گیتا پریس‘‘کو ایک جھلک دیکھاجس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہہندو مذہب کی مذہبی کتابیں یہیں سے شائع ہوتی ہیں۔ایک اور خصوصیت کی وجہ سے بھی یہ ادارہ کافی معروف ہے یعنی اس میں سفید سنگ مرمر کی دیواروں پر بھگوت گیتا کے مکمل ۱۸ابواب کے شلوک کندہ ہیں۔یہ شہر اس وجہ سے بھی ایک کشش رکھتا ہے کہ معروف صوفی اور کوی کبیرداس ،اردو کے شاعر فراق گورکھپوری ، محمد عمر خان عرف عمر گورکھپوری(داغ دہلوی کے ایک شاگرد) ،ہاکی کھلاڑی ،پریم مایا اور دیواکر رام ، رام آسرے پہلوان اور کامیڈین است سین ،منشی پریم چند ،جاوید احمد (فلم رائٹر اور آزاد صحافی) ،انوراگ کشیپ (فلم ڈائریکٹر کہانی کار)جیسے قد آور شخصیات اسی شہر سے وابستہ رہے ہیں۔

اس قدر گوں نا گوں خصوصیات  والے شہر میں جی تو چاہتاتھا کہ کچھ دن اور قیام کروں اور ذرا اورقریب سے اس شہر کا مشاہدہ کروں،موسم بھی خوب تھا ،سردی کی آمد ،سرمئی صبح اور گلابی شاموں کا نظارہ ، وقت گذاری کے لئے فلم بینی ،گپ شپ اور ہوٹل کی مستی نہ کسی چیز کی فکر اور نہ کسی شے کا غم۔فیض بھی بضد تھے کہ کلاسیں تو نہیں چل رہی ہیں، کچھ دن اور رک جاؤ،مگر دل تو دلی سے لگا ہوا تھا۔حبیب جالب کے بہ قول:
دیارِ داغ و بیخود شہر دہلی چھوڑ کر تجھ کو
نہ تھا معلوم یوں روئے گا دل شام و سحر تجھ کو
میں جالب دہلوی کہلا نہیں سکتا زمانے میں
مگر سمجھا ہے میں نے آج تک اپنا ہی گھر تجھ کو
درست ہی کہا ہے حضرت جالب نے، ایک مرتبہ جس کو دلی راس آ گئی ، اس سیپھرمشکل ہی سے چھوٹتی ہے،دلی کے علاوہ اسے کہیں اورلطف ہی نہیں آتا،یہی وجہ ہے کہ یہاں کی آبادی روز بہ روز بڑھتی ہی جارہی ہے اورآبادی کے اس  تناسب میںزیادہ تعداد بیرون دلی سے آکر یہاں آباد ہوئے لوگوں کی ہے۔حکومت کے لیے بھی اتنی بڑی آبادی کاانتظام وانصرام دقت طلب ہوتا ہے ،ایک مرتبہ جو آ جاتا ہے واپس جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ادھر بار بار آپا کا بھی فون آ رہا تھا کہ دلی کب واپس لوٹ رہے ہو ،بھیا نے الگ پریشان کیا ہوا تھا کہ پڑھائی چھوڑ کر مستیاں کاٹ رہے ہو۔چونکہ امی اور ابو کو اس سفر کی اطلاع نہیں دی تھی اس وجہ سے اور بھی جلد واپس لوٹ جانا ضروری تھا۔چناںچہ ہم بہت سی یادگار خوشیوں کو سمیٹتے ہوئے واپسی کی خاطر اپنے پسندیدہ شہر دلی کے لئے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوئے۔حدیث شریف میں بھی کسی کے یہاں تین دن سے زیادہ قیام کو نا درست ٹھہرایا گیا ہے یہ سوچ کر بھی ہم نے دوست کو زیادہ تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا اور واپس ہولیے۔

لیکن یہ ایک الگ مصیبت تھی کہ ٹرین میں ٹکٹ ملا ہی نہیں۔مجبوری کی صورت میں لکھنؤسے دہلی تک کا ٹکٹ لیا گیا اور گورکھپور سے لکھنو ٔتک کا سفر بس سے طے کرنے کا پروگرام بنا۔گورکھپور سے لکھنؤ کا فاصلہ تقریباً ۲۷۰ کیلو میٹر ہے، میرے لئے یہ خوشی کی بات تھی کہ اسی بہانے لکھنو ٔبھی دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ چار گھنٹے کا راستہ ہے، بس سے لمبا سفر مشکل تو ہوتا ہے لیکن لطف کی خاطر ہم نے ہامی بھر لی اور یہ سوچتے ہوئے کہ ۶؍ بجے شام کو ٹرین بھی ہے، ذرا جلدی نکلیں گے اور بقیہ وقت لکھنؤ کی سیر و تفریح میں گذاریں گے۔مگر بھلا ہو ہماری ہندوستانی بسوں کی حالت زار اور سڑکوں کی خستہ حالی کا، مجال ہے اپنے ڈھرے سے کبھی اتر جائیں! ڈرائیور بے چارہ کرے بھی تو کیا کرے۔پطرس بخاری کی زبان میں لچر پچر کے شورسے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ہو اور سڑک بھی اس میں اپنا ہاتھ بٹا رہی ہواور مرزا صاحب کی سائیکل کی طرح اسٹارٹ ہوتے ہی ٹر ٹر ،کھٹ کھٹ ،چوں چوں ،دھڑ دھڑ کی چیخ و پکار مچائی ہوئی ہو تو احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ گاڑی آہستہ چلائی جائے ،سو ڈرائیور صاحب اس کا خاص اہتمام کر رہے تھے اور اسی اہتمام کا نتیجہ تھا کہ ہم چارگھنٹے کا سفر سات گھنٹوں میں طے کر سکے۔

گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بدن کی کیا حالت ہوئی اس کا تو پوچھناہی نہیں ،جوڑ جوڑ میں درد، اوپر سے زوروں کی بھوک، کسی نے درست ہی کہا ہے بس" وہ سواری ہے جس میں بیٹھ کر انسان" بے بس" ہو جاتا ہے۔بس کا سفر ایک امتحان جیسا ہی تھا۔اور شاید ہم اس امتحان میں کسی طرح پا س ہو گئے تھے یعنی لکھنؤ پہنچ گئے تھے ،مگر اتنی تاخیر سے لکھنؤ پہنچ کر کیا خاک گھومتے وہاں!!  وقت بھی نہیں بچا تھا اور ہمت بھی جواب دے چکی تھی،اس لئے رکشہ لیا اور سیدھے اسٹیشن پہنچے۔ دیکھا ٹرین لگی ہوئی تھی ،جلدی جلدی سامان رکھا اور برتھ پردراز ہو گئے،نیند تو اس وقت کھلی جب رفیق سفر انعام الرحمان نے رات کے کھانے کے لئے جگایا ،موصوف انتہائی نیک دل اور شریف انسان ہیں، ان کی وجہ سے سفر میں بڑی آسانی ہوئی،کھانا کھا کر پھر سو گئے اورجب آنکھ کھلی تو ہم تھے اور ہماری دلی۔

۔۔۔مزید

بدھ، 15 جنوری، 2014

ڈرامہ بابر کی محبت

تحریر : دوندر شرما
ترجمہ : محمد علم اللہ اصلاحی
ڈرامہ
بابر کی محبت
کردار
بابر : مغل سلطنت کا بانی ، ہمایوں کا باپ
ماہم : بابر کی بیوی ، ہمایوں کی ماں
ہمایوں : بابر کا بیٹا
مرتضی : طبیب۔
ابوالبقاء : ایک تجربہ کار عالم
آقا ، غلام - لونڈی وغیرہ۔
پہلا منظر
[مقام - آگرہ کا چارباغ۔چاروں طرف مختلف قسم کے پھولوں کے پودے اور بیلیں لگی ہوئی ہیں۔باغ کے درمیان میں بابر کا انتہائی خوبصورت وسیع محل۔ اسی محل کے ایک کمرے میں بابر کا بیٹا ہمایوں بیمار پڑا ہے۔ بیماری آہستہ آہستہ بگڑتی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہمایوں کی زندگی کی امید بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ بابر اس وقت آگرہ سے باہر دھول پور میں ہے۔ہمایوں کی بیماری کی خبر ملتے ہی وہ آگرہ کا قصد کرتا ہے۔
دوپہر کا وقت ہے۔ چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا ہے اور ماحول سے اداسی ٹپک رہی ہے۔ باغ میں داخل ہوتے ہی وہاں کے سناٹے سے بابر شدید تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کے آتے ہی محل میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ وہ بغیر رکے سیدھا اس کمرے میں پہنچ جاتا ہے جہاں ہمایوں محو استراحت ہے۔ ماہم بیگم اور ہمایوں کی ماں اس کے پلنگ کے سرہانے یا پائنتی کی طرف بیٹھی ہے اور تفکر کی پرچھائیں اس کے چہرے سے ہویدا ہے۔ بابر کو دیکھتے ہی وہ چپ چاپ سر جھکا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ بابر ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ہے اور پھر ہمایوں کے بستر کے قریب جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اسے ایک ٹک دیکھتا رہتا ہے۔]۔
بابر: [ہمایوں کے سر پر آہستہ سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دھیمی آواز میں ] بیٹے ! بیٹے ! [ ہمایوں آنکھیں بند کئے بے سْدھ پڑا ہے ، کوئی جواب نہیں دیتا۔ (جواب نہ ملنے پر بغور بیٹے کو دیکھتے ہوئے )بابر اس کی طرف ذرادھیان سے دیکھ کر ماہم کو بغل کے کمرے میں چلنے کااشارہ کرتا ہے۔ ماہم اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ ] [ ماہم سے ] ایسی حالت کب سے ہے ؟
ماہم: مایوسی بھرے لہجے میں ] سات دنوں سے۔
بابر:طبیب صاحب کیا کہتے ہیں ؟
ماہم:کچھ صاف کہتے نہیں ، لیکن جیسے اندر سے وہ بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔
بابر:ابھی وہ کہاں ہیں ؟
ماہم:تھوڑی ہی دیر ہوئی ، دوا دے کر کھانا کھانے گئے ہیں۔ صبح سے یہیں تھے۔ میں سمجھتی ہوں انہیں مرض کی تشخیص میں دقت پیش آرہی ہے۔
بابر:[انتہائی مایوسی کے عالم میں ] اچھا ! ہم آتے ہیں۔
[بابر باہر جانے لگتا ہے۔ ماہم گھٹنے ٹیک کر اس کے پائوں پکڑ لیتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
ماہم:[دھیمے لہجہ میں ] عالم پناہ! میرے سرتاج ! آپ کے کئی لڑکے ہیں ، لیکن میرا۔۔۔ میرا یہ ایک ہمایوں ہی ہے۔ چار اولادوں میں ایک یہی رہ گیا ہے۔ میں اپنی انہی بدنصیب آنکھوں سے ایک کے بعد دوسرے کو موت کے منھ میں جاتے دیکھتی رہی ہوں اور کلیجے پر پتھر رکھ کر سب برداشت کرتی رہیہوں ، لیکن آج۔۔۔ اب نہیں۔۔۔ یہ آخری اولاد۔۔۔ یہ کلیجے کا ٹکڑا۔۔۔ ! نہیں۔۔۔ نہیں ، ماں کا دل اس سے مزید تنگ۔۔۔ نہیں ہو سکتا۔۔۔ ! میں اپنی ان بدنصیب آنکھوں کو پھوڑ لوں گی ، لیکن ہمایوں کی موت نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ نہیں دیکھ سکتی ! [ سسکنے لگتی ہے۔]
بابر:[محبت سے اٹھا کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ] ماہم ! ملکہ ! گھبراؤمت !
ماہم[روتے ہوئے ]سرتاج! میں نہ گھبراؤں تو اور کون گھبرائے گا ؟ کاش ! ایک عورت - ایک ماں - کا دل ملا ہوتا ! مجھے یہ دولت - دولت کچھ نہیں چاہئے لیکن میرا بیٹا۔۔۔ (دونوں ہاتھ اٹھا کر اوپر دیکھتے ہوئے) یا خدا ! میرا یہ بیٹا مجھ سے نہ چھین ! ایک ماں کا دل توڑ کر - اس دنیا کو اجاڑکر - تجھے کیا ملے گا ؟(دوبارہ بابر کے قدموں میں جھکتے ہوئے) میرے سرتاج ! میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں۔ جیسے - بھی ہو میرے بیٹے کو بچائیے۔ آپ کوبادشاہت پیاری ہے ، لیکن مجھے۔۔۔ مجھے میرا بیٹا پیارا ہے۔ میرے سرتاج !
بابر:[نرم لہجہ میں ، گہرے درد کے ساتھ ] ماہم ! تمہارا کہنا درست ہے۔ بادشاہت پیاری ضرور ہے ، اگر وہ پیاری نہیں رہتی تو ہم مادر وطن فرغانہ کو چھوڑ کر پہاڑوں ، دریاؤں ، جنگلوں اور ریگستانوں کی خاک نہیں چھانتے پھرتے ؛ مہینے کی آدھی سے زیادہ راتیں ، کھلے آسمان کے نیچے ، گھوڑے کی پیٹھ پر ، جاگتے ہوئے نہیں گزارتے۔ لیکن نہیں ، اولاد اس بادشاہت سے بھی کہیں زیادہ پیاری چیز ہے۔ بادشاہ بھی انسان ہوتا ہے۔ ہمیں اولادوںکی کمی نہیں ہے لیکن ہمایوں۔۔۔ ! [ لمبی سانس لیتا ہے ] ہمایوں ہماری آنکھوں کی روشنی ، دل کی امید اور زندگی کا سہارا ہے۔ ملکہ! مایوس نہ ہو ! ہمایوں کے لئے ہم ایک بار موت سے بھی لڑیں گے۔ طبیب کو بلواؤ۔ ہم ایک بار خود ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
[دونوں ہمایوں کے کمرے میں آتے ہیں۔ وہ اسی طرح بے سْدھ پڑا ہے۔ بابر اس کے بغل میں بیٹھ جاتا ہے۔ ماہم باندی کو حکیم کو بلوانے کے لئے اشارہ کرتی ہے۔ جب تک وہ باہر نکلتی ہے تب تک دربان حکیم کے آنے کی اطلاع کرتا ہے۔]
دربان:[درباری طریقے سے سلام کر ] جہاں پناہ کی خدمت میں حکیم صاحب حاضر ہیں۔
بابر:آنے دو۔ [ دربان باہر جاتا ہے۔]
[لمحے بھر بعد حکیم داخل ہوتاہے۔ حکیم آکر درباری طریقے سے جھک کر سلام کرتا ہے۔ بابر آہستہ سے سر ہلا دیتا ہے۔]
بابر:آئیے ، تشریف رکھئے۔ [ حکیم ایک تپائی پر بیٹھ جاتا ہے۔]
حکیم:[کچھ حیرت سے ] عالم پناہ ! شاید ابھی قدم رنجہ فرمایا ہے؟
بابر:جی ہاں ، ہم کچھ دیر قبل ہی پہنچے ہیں۔ آپ آ گئے ، اچھا ہوا۔ ابھی آپ کو بلوانے ہی والے تھے؟
حکیم:تابعدار چند ہی لمحے پہلے یہاں سے گیا ہے اور خود ہی دوڑا چلا آ رہا ہے۔ اسی دوران عالم پناہ کو یاد کرنے کی تکلیف گوارا کرنا پڑی ، اس لئے بندہ معافی چاہتا ہے۔
بابر:حکیم صاحب!
حکیم:عالم پناہ !
بابر:شاہزادے کی بیماری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟
حکیم:[غمگین آواز میں ] عالم پناہ ! بخار بہت تیز ہے۔ جس کی وجہ سے طویل بے ہوشی ہے۔ ساتھ ہی اور بھی مشکلات ہیں۔ اپنی لیاقت کے مطابق جو کچھ بھی ممکن ہے ، خادم کر رہا ہے لیکن ابھی تک۔۔۔ [ رک جاتا ہے۔]
بابر:حالت میں پہلے سے کوئی فرق نہیں ہے ؟
حکیم:جی نہیں، میں شاہزادے کی بیماری کو اپنا امتحان سمجھ رہا ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ تابعدار کی دوا اب تک کارگر نہیں ہوئی۔ جو مشکل سے مشکل بیماری کوبہ آسانی قابو کرتا رہا ہے ،اب وہ اپنی ناکامی پر شرمسار ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ میرا تو دل رنج سے بیٹھا جا رہا ہے۔
بابر:بیماری کے آثار کیسے ہیں ؟
حکیم:[ذرا رک کر ] عالم پناہ ! تابعدار کیا بتائے ؟ جب دوا کام نہیں کر رہی ہے تو تو خدا کی۔۔۔
بابر:[حکیم کی بات کاٹ کر ] گویا کہ آپ بھی مایوس ہی ہیں۔ ٹھیک ہے ، اس سے زیادہ آپ کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ دوا بیماری کی ہوتی ہے ، موت کی نہیں۔
حکیم:عالم پناہ ! ! ابھی ایسی مایوسی کی بات نہیں ہے۔ خدا کی مہربانی ہوئی تو شاہزادے جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گے۔
بابر:حکیم صاحب ! جب تک کوئی بات بالکل ادھر یا ادھر نہیں ہو جاتی ، تب تک انسان امید چھوڑتا ہی کہاں ہے اور پھر امید پر تو دنیا قائم ہے۔
حکیم:عالم پناہ !
ماہم:[گھبراہٹ بھری آواز میں ] حکیم صاحب ! میرے بچے کو کسی طرح اچھا کردیں۔ ہم آپ کو منہ مانگا انعام دیں گے اور زندگی بھر احسان مانیں گے۔
حکیم:ملکہ کا دیا ہوا ہی تو تابعدار کھاتا ہے۔ شاہزادے کی صحت اور ملکہ کی خوشی سے بڑھ کر بھی کوئی انعام ہو سکتا ہے ؟ملکہ اطمینان رکھیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ شاہزادے ضرور رو بہ صحت ہوں گے۔ ماں کا دل بچے کی معمولی بیماری سے بھی گھبرا جاتا ہے ، یہ تو خیر۔۔۔ ۔ میں ملکہ کو پھر یقین دلاتا ہوں کہ شاہزادے ضرور اچھے ہوں گے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔
ماہم:حکیم صاحب ! میں چاہتی تو ہوں کہ نہ گھبراوں ، پر دل جو نہیں مانتا۔ [ ہمایوں کے چہرے کی طرف دیکھ کر ] ہمیشہ گلاب سا کھلا رہنے والا یہ چہرہ کیسا مرجھا گیا ہے ، کتنا سوکھ گیا ہے ؟ بخار سے بدن توا ہو رہا ہے ، ہونٹ سیاہ پڑ گئے ہیں ، آنکھیں ہمیشہ بند ، دوا کام نہیں کرتی۔ ایسی حالت ، یہ بیہوشی دیکھ کر بھی کیسے نہ گھبراوں ؟ میرا تو کلیجہ دھک دھک کر رہا ہے ، رواں رواں رو رہا ہے۔
حکیم:[افسردگی کے لہجہ میں ] کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھتا ؟ملکہ کا دل ماں کا دل ہے اور ماں کی محبت تو دنیا میں بے مثال ہے ، ایک دم بے مثال۔ شاہزادے کی ایسی حالت سے ملکہ کا کلیجہ کس طرح ٹکڑے ٹکرے نہ ہو گا ، لیکنہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ہماری ساری کوششیں ایک طرف ، مالک کی مرضی ایک طرف۔
بابر:[اٹھ کر آہستہ آہستہ ٹہلنے لگتا ہے ] حکیم صاحب !
حکیم:[اٹھ کر] عالم پناہ !بابر:ملکہ کی دلی حالت کا ٹھیک اندازہ نہ تو آپ لگا سکتے ہیں اور نہ ہم ، کیونکہ ہم مرد ہیں۔ملکہ کی بات تو چھوڑیے، ہماری جن آنکھوں نے بچپن سے آج تک ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو تڑپ تڑپ کر دم توڑتے دیکھا ہے اور کبھی نہیں پسیجی ہیں ، وہ ہی آج ایک ، صرف ایک انسان کی موت کے اندیشے سے بھر آتی ہیں۔ یہ ہے اولاد کی محبت !
حکیم:عالم پناہ کی خدمت میں ہی تا بعدار کی داڑھی سفید ہو گئی۔مر تضیٰ عالم پناہ کے دل کے دونوں پہلوؤں سے اچھی طرح واقف ہے جو سختی اورنرمی دونوں میں بے مثل ہے۔ ایک طرف جس ہاتھ میں تلوار آنے پر جنگ کے میدان میں دشمنوں پر بجلیا ں گرتی ہیں ، وہی ہاتھ جب قلم پکڑتا ہے تو اس سے شاعری کی وہ پھلجھڑیا ں چھوٹتیہیں جن سے دل کا کونا کونا جگمگا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عالم پناہ کی تلوار اور قلم دونوں کی بے مثال خوبی جب تک یہ دنیا قائم ہے ، اس وقت تک قائم رہے گی !
بابر:[ٹہلتے ہوئے بے چینی میں ] حکیم صاحب ! ہم نے ہوش سنبھالا نہیں کہ جنگ کے جوئے میں ہار اور جیت کے پانسے پھینکنا شروع کردیا۔ ہماری زندگی کی پوری کہانی ہار اور جیت سے عبارت ہے اور وہ ان ہی دو لفظوں میں کہی جا سکتی ہے ، لیکن نہ تو ہمیں کبھی شکست سے سخت مایوسی ہوئی اور نہ جیت سے غرور ! ہم نے سمرقند جیتا ، کابل جیتا ، قندھار جیتا اور آخر میں ہندوستان کو فتح کر کے ایک بڑی سلطنت بھی قائم کی۔ لیکن سچ کہتے ہیں ، دولت کے لالچ سے نہیں بلکہ نام کے لئے ، اپنازور بازو آزمانے کے لئے۔ ہم اس لئے لڑتے ہیں کہ لڑنے میں زندگی کا لطف آتا ہے۔ سر کو ہتھیلی پر لے کر موت سے کھیلنے میں کیا مزہ ہے، اسے ہم جانتے ہیں۔
حکیم:عالم پنا ہ جو فرما رہے ہیں اسے تابعدار زمانے سے جانتا ہے اور سمرقند سے لے کر پانی پت تک کے میدان اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
بابر:ہم وہی کہہ رہے تھے۔ پانی پت کی جنگ کے بعد لاکھوں کیا کروڑوں کی دولت ہاتھ آئی۔ لیکن ہم نے درہم بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ ہم نے اشرفیوں کو ٹھیکریوں کی طرح لٹایا۔ رشتے ناطوں کی بات چھوڑیئے ، جن سے معمولی جان پہچان بھی تھی ، انہیں بھی ہم نے سوغات بھیجی۔فرغانہ،خراسان ، فارس تک کے دوستوں کو بھی ہم نہ بھولے۔ ہرات، مکہ اور مدینہ کے بھی فقیروں کے سامنے ہم نے مال ودولت اور اشرفیاں انڈیل دیں اور کابل کے ہر آدمی ، مرد عورت، بوڑھے اور جوان ، امیر غریب کو بھی اس فتح کا تحفہ ملا۔ ہمارا وہ طریقہ دیکھ کر لوگوں نے ہمیں قلندر کہنا شروع کیا ! کتنا میٹھا تھا وہ نام !
حکیم:عالم پناہ کی د ریادلی کا وہ نظارہ آج بھی تابعدار کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ کس بادشاہ نے سونے چاندی ، ہیرے جواہرات کو اس بے نیازی کی نظر سے دیکھا ہو گا ؟ آج بھی ، کیا دوست، کیا دشمن ، ہر شخص ، عالم پناہ کی اس سخاوت کو یاد کر دنگ رہ جاتا ہے۔
بابر:حکیم صاحب ! آج ہم ایک بارپھر قلندر ہونے کو تیار ہیں اور آج نام کے لئے نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے۔ اپنے اس لخت جگر کی جان بچانے کے لئے ہم اپنی تمام سلطنت لٹانے کو تیار ہیں۔ ہم پھر وہی خانہ بدوشی کی زندگی گذاریں گے یا اپنی تلوار کا زور آزمائیں گے۔ لیکن جیسے بھی ہو ، ہمایوں کو اچھا کرنا ہوگا۔
حکیم:عالم پناہ کی خواہش پوری ہوگی۔
بابر:پوری ہوگی۔۔۔ ! [ رک کر کچھ سوچتا ہوا ] ہزاروں آدمیوں کی جان لینے کی طاقت ہم میں تھی لیکن آج ایک آدمی کی جان بچانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ کیسی لاچاری ہے ؟ [ تھوڑے غمگین انداز میں ] کسی انسان کو وہ چیز لینے کا کیا حق ہے جسے وہ دے نہیں سکتا۔ بادشاہت ! بادشاہت ! یہی بادشاہت ہے جس کے لئے بچپن سے لے کر آج تک ہم ایک دن بھی چین کی نیند نہیں سو سکے۔ اور اس کا نتیجہ ! لمبی سانس لے کر ] ساری دولت ، ساری سلطنت سامنے پڑی ہے اور بادشاہ کا بیٹا دم توڑ رہا ہے۔ کوئی طریقہ ، کوئی حکمت کارگر نہیں ہو پاتی۔ یہی ایک جگہ ہے ، جہاں بادشاہ اور فقیر میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ہم سے وہ کنگال سو گنا اچھا جو چین کی نیند تو سوتا ہے ، بے فکری سے زندگی گذارتا ہے۔
حکیم:عالم پناہ ! انسان کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو وہ اللہ سے چھوٹا ہی رہے گا ، اس مالک کے سامنے اس ناچیزکی ہستی ہی کیا ہے ؟ لیکن اس لئے بادشاہت کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا ! شہنشاہ ہند نے جو کیا ہے وہ تاریخ عالم کا ایک روشن باب ہے۔ اتنے کم دنوں میں راجپوتوں سے لوہا لے کر اتنی بڑی سلطنت قائم کرنا کچھمعمولی کام نہیں تھا۔ یہ عالم پناہ ہی کے بس کی بات تھی۔
[بابر ہمایوں کے پلنگ کے پاس رکتا ہے۔ ہمایوں کی آنکھیں پہلے ہی جیسی بند ہیں۔ بابر آہستہ آہستہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور انتہائی بے تابی کی نظروں سے اسے دیکھتا ہے۔ پھر کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے۔]
بابر:حکیم صاحب ! وہ ماضی کی باتیں ہیں۔ آج ہمایوں کی زندگی کا سوال ہے۔
حکیم:عالم پناہ ! دوا دینے کا وقت ہو گیا ہے۔ اجازت ہو تو۔۔۔ ۔
بابر:[پرسکون انداز میں ] دیجئے ، ضرور دیجئے۔ لیکن بے ہوشی کی حالت میں دوا اس کے حلق سے نیچے کیسے اترے گی ؟
حکیم:زبان پر رکھ دینے سے وہ آپ ہی دھیرے دھیرے حلق کے نیچے اتر جائے گی۔
[حکیم شیشی سے دوا نکالتا ہے ، ایک دو چیزوں کے ساتھ ہاون دستہ میں ملاتا ہے۔ پھر ہمایوں کا منہ کھول کر اس کی زبان پر دوا رکھ دیتا ہے۔ ہاتھ ہٹانے پر ہمایوں کا منہ بند ہو جاتا ہے۔]
دربان:[جھک کر ادب سے ] جناب ابو بقاء صاحب تشریف لائے ہیں۔
بابر:مولاناابوالبقائ؟ اچھاملکہ ، تم تھوڑی دیر کیلئے بغل کے کمرے میں جا کر آرام کرو ، جب تک ہم مولانا سے مل لیں [ ماہم آہستہ سے چلی جاتی ہے۔ ] [ دربان سے ] انہیں اندر آنے دو۔[دربان باہر جاتا ہے اور اس کے ساتھابوالبقاء داخل ہوتے ہیں۔ابوالبقاء کے چہرے پر سنجیدگی، رنگ گورا ، داڑھی سفید اور رفتار میں متانت ہے]۔ وہ آ کر درباری طریقے سے سلام کرتا ہے۔ بابر ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیتا ہے۔
بابر:[ایک آرام دہ کرسی کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے ] آئیے ، تشریف رکھئے۔ اس وقت کس طرح تکلیف کی ؟ابو البقاء :[بیٹھتا ہوا ] شاہزادے کی حالت جاننے کے لئے حاضر ہوا۔
بابر[خشک ہنسی ہنس کر ٹوٹی آواز میں ] شاہزادے کی حالت ؟ ہماری حکمت اور طاقت کا امتحان ہو چکا۔ اب خدا مالک ہے۔
ابوالبقاء :[مضطرب انداز میں ] اپنی طویل زندگی میں آج پہلی بار میں شہنشاہ ہند کے چہرے پر مایوسی دیکھ رہا ہوں اور آواز میں بھاری پن۔ کٹھن ترین حالات اور مشکل سے مشکل وقت میں جس کے چہرے پر شکن نہیں پڑی ، جو غموں میں بھی ہمیشہ مسکراتا رہا اس کی ایسی حالت دیکھ کر تعجب ہو رہا ہے۔
بابر:آپ جیسے عالم کا تعجب کرنا واجب ہے۔ ہمیں اپنے اوپر خود تعجب ہے پھر بھی ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ آج ہم زندگی کی وہ کمزوری محسوس کر رہے ہیں جو بالکل نئی ہے۔ شاید یہ عمر کا تقاضہ ہے۔ سنتے تھے کہ گرتی عمر میں اولاد کی محبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آج ہم اس کی سچائی کے قائل ہو گئے ہیں۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ ! اولاد کی محبت انسان کے دل کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا اصلی اور حقیقی پہلو ہے . دنیا اسی شفقت پر ٹکی ہے ! پھر بھی ، گھبرانے سے کیا ہوگا ؟ اور کیا واقعی شاہزادے کی زندگی سے مایوس ہونے کا موقع آ گیا ہے ؟(حکیم کی طرف مڑتے ہوئے) مرتضیٰ ! تم کیا سوچتے ہو ؟
حکیم:بڑے بھائی ! میں کیا سوچ سکتا ہوں؟ میرا سوچنا اور نہ سوچنا تودوا پر منحصرہے اور دوا کارگر نہیں ہو رہی ہے .
ابوالبقاء :تو تم کیا سمجھتے ہو کہ دنیا کی تمام بیماریوں کی دوا تمہارے ان عرقوں ،سفوفوں اورپڑیوں میں ہی محدود ہے ؟ کبھی اس پر بھی خیال کیا ہے کہ جو ان دواؤں کو طاقت بخشتا ہے ؟ اگر اس کی نظر ہے تو آپ کے عرق اور سفوف آب حیات ہیں ؛ نہیں تو محض مٹی یا گرد ، بس۔ آپ بھلے ہی امید ہار بیٹھے ہوں لیکن میں مایوس نہیں ہوں۔
حکیم:بڑے بھائی ! مرتضیٰ کی طاقت تو عرقوں اور سفوفوں تک ہی محدود ہے۔
ابوالبقاء :حکم ہو تو جہاں پناہ کی خدمت میں میں ایک نسخہ عرض کروں ؟
بابر:یہ بھی پوچھنے کی بات ہے ؟ خوشی سے فرمائیے۔
ابوالبقاء :میرے استاد ، جن کی بات کے خلاف آج تک میں نے کچھ ہوتے نہیں دیکھا اور جو جہاں پناہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ، کہا کرتے تھے کہ ایسے موقع پر سب سے عزیز چیزخدا تعالی کو پیش کرنے پر اکثر دم توڑتے ہوئے مریض کو بھی بھلا چنگا ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
بابر:[ خوشی سے ] سچ ؟ابوالبقاء :مجھے استاد کی بات کا یقین ہے۔
بابر:اور ہمیں آپ جیسے عالم ، پاک دل اور نیک انسان کی بات کا۔ کسی دوسری چیز کا کیا کہیے کہے ، ہم خود اپنی زندگی خدا کے سامنے حاضر کرتے ہیں۔۔۔
ابوالبقاء :اور حکیم : [ ایک ساتھ گھبرا کر ] عالم پناہ یہ کیا کہہ رہے ہیں !
بابر:[ زور دار آواز میں ] وہی جو کہنا چاہئے۔ کیوں ، اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
ابوالبقاء :تعجب کی بات نہیں ہے ؟ ایک چھوٹی سی بات کے لئے شہنشاہ ہند اپنی زندگی۔۔۔
بابر:[بات کاٹ کر ] مولانا ! آپ شاہزادے کی زندگی کو ایک چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں ؟ جسے آپ شہنشاہ ہندکہتے ہیں اس کے دل کی ایک - ایک دھڑکن ہمایوں کی زندگی کی منت کی آواز ہے۔ آج آپ کے سامنے شہنشاہ ہندنہیں ، ایک انسان معمولی انسان کھڑا ہے ،جس کی زندگی سے اس کے بیٹے کی زندگی کہیں بیش قیمت ہے۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ !
بابر:آپ جو کہہ رہے ہیں اسے ہم سمجھ رہے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ ہمایوں کے مرنے کے بعد ہم زندہ رہ سکیں گے تو آپ دھوکے میں ہیں۔
ابوالبقاء :مگر جہاں پناہ جو کام اپنی جان سے کرنا چاہتے ہیں وہ دوسری چیز سے بھی تو ہو سکتا ہے۔ آگرے کی فتح کے بعد جو ہیرا جہاں پناہ کے ہاتھ میں آیا وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے بیش قیمت ہے۔
بابر:ہماری زندگی سے بھی ؟
ابوالبقاء :جہاں پناہ ! میرے کہنے کا مطلب کچھ دوسرا ہے۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیوں نہیں اسے ہی خدا کو پیش کیا جائے ؟
حکیم:تابعدار بھی بڑے بھائی کی بات کی ہر صورت سے تائید کرتا ہے۔
بابر:[ اچانک ہمایوں کے چہرے کی طرف دیکھ کر گھبرائی ہوئی آواز میں ] وہ دیکھئے حکیم صاحب !شاہزادے کے چہرے پر سفیدی چھا رہی ہے۔ آنکھ خوفناک لگ رہی ہے۔ [غصہ میں ] نہیں ، نہیں اب مزید سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے جیتے - جی ہمایوں کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم اسے بچائیں گے ، ضرور بچائیں گے۔ ہیرے اور پتھر سے کام نہیں چلے گا۔ خدا تعالیٰ کی خدمت میں ہم خود اپنی جان حاضر کرتے ہیں۔
[ بابر تیزی سے سنجیدگی مگر افسردگی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہمایوں کے پلنگ کے ارد گرد گھومنے لگتا ہے۔ ]
ابوالبقاء :[ اور حکیم گھبرا کر ] عالم پناہ ! عالم پناہ ! یہ کیا کر رہے ہیں ؟ خدا کے لئے۔۔۔ ۔
بابر:[ سخت لہجے میں ] خاموش !شہنشاہ ہندکا حکم ہے کہ آپ خاموش رہیے۔ ہم جو کر رہے ہیں اس میں خلل نہ ڈالیں۔ [ تین بار پلنگ کے گرد چکر لگا کر ہمایوں کے سرہانے زمین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتا ہے۔ ہاتھ جوڑ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور منہ کچھ اوپر اٹھائے ہوئے پرسکون سنجیدہ لہجے میں کہتا ہے۔ ] یا خدا ! پروردگار ! تیری مہربانی سے میں نے ایک سے ایک مشکلات پر فتح حاصل کی ہے۔ میں ہر مصیبت کے وقت تجھے پکارتا رہا ہوں اور تو میری مدد کرتا رہا ہے۔ آج ایک بار پھر اس موقع پر تیری اس مہربانی کی بھیک مانگتا ہوں۔ اپنے بیٹے کی جان کے بدلے میں اپنی جان حاضر کرتا ہوں۔ تو مجھے بلا لے ، لیکن اسے اچھا کر دے۔۔
حکیم:[ حیرت اور خوشی سے ] عالم پناہ ! شاہزادے نے آنکھیں کھول دیں۔ آج سات روز کے بعد۔۔۔ ۔
بابر:[ خوشی سے ] ہماری آواز اللہ تعالی تک پہنچ گئی۔۔۔ پہنچ گئی ! اللہ۔۔۔ اکبر۔۔۔ ۔
[ بابر آہستہ - آہستہ اٹھ کر ہمایوں کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ ]
ہمایوں:[ انتہائی سست آواز میں ] پا۔۔۔ نی۔۔۔ ۔
[ حکیم کونے میں رکھی ایک سونے کی صراحی سے پانی ڈال کر ہمایوں کے منہ میں دو چمچہ پانی دیتا ہے۔ ]
بابر:[ ایک - دو بار زور سے سر ہلاتا ہے جیسے کوئی تکلیف ہو۔ ] حکیم صاحب ! ہمارے سر میں زور کا چکر اور درد معلوم ہو رہا ہے۔ ایک عجیب بے چینی معلوم ہو رہی ہے۔
حکیم:[ تشویش بھرے لہجے میں ] عالم پناہ آرام کریں۔ راستے کی تھکن اور دماغی فکر سے چکر معلوم ہو رہا ہے۔ میں ابھی ایک دوا دیتا ہوں ، تھوڑی دیر میں تکلیف جاتی رہے گی۔
بابر:اچھی بات ہے۔
[ حکیم ایک خوراک دوا دیتا ہے۔ بابر ساتھ کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ابوالبقاء اور حکیم حیرت اور تشویس کی ملی جلی کیفیت میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ ]

دوسرامنظر
[ مقام و پس منظر ]
[ بابر کمزور اور سست ایک پلنگ پر پڑا ہے۔ کبھی کبھی درد سے کراہ اٹھتا ہے اس کے چہریسے افسوس کے بجائے خوشی اور طمانیت صاف ظاہر ہو رہی ہے جیسے اس بیماری کی اسے کوئی فکر نہ ہو۔ پلنگ کے ایک جانب ایک تپائی پر حکیم اور دوسری پر ابوالبقاء بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف ماہم اور ہمایوں فکر مند انداز سے چپ چاپ کھڑے ہیں۔ ]
ابوالبقاء :جہاں پناہ کی طبیعت کیسی ہے ؟
بابر:[ سست آواز میں ] طبیعت ؟ اب تو سفر کی تیاری ہے۔ جتنی دیر تک سانس چل رہی ہے ، وہی بہت ہے۔ پسلیوں میں بے حد درد ہے ، سانس نہیں لی جاتی۔ االلہ اللہ کا ورد جاری ہے۔
ابوالبقاء :عالم پناہ ایسا نہ فرمائیں۔
بابر:ہمارے کہنے یا نہ کہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ ٹھیک ہے، مولانا ! آپ کاہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] ہماری زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں آپ نے ہماری مدد کی ہے۔ اس کے لئے ہم آپ کے شکرگذار ہیں۔ اگر آپ کی کوئی خواہش ہو تو اسے مکمل کر ہم کو خوشی ہوگی۔ [ سانس لیتا ہے۔ ]
ابوالبقاء :[ دکھ بھری آواز میں ] جہاں پناہ کی صحت سے بڑھ کر ابوالبقاء کی کوئی اور دوسری خواہش نہیں ہے۔ اللہ میری خواہش پوری کرے۔
بابر:ہم آپ کے دل کی پریشانی اور رنج کوسمجھ رہے ہیں۔ آپ نے اس روز جو کچھ کہا اس کے لئے افسوس ہے۔ لیکن سوچئے تو کہ ہمایوں کی زندگی کے لئے کیا ہم خود وہی طریقہ اختیار نہیں کرتے جو آپ نے بتایا ؟ خدا کی عبادت کے علاوہ اور چارہ ہی کیا تھا۔ [ سانس لے کر ] جی ہاں ، آپ کے کہنے پر ہمیں اس پر اور بھی زیادہ اعتماد ہوا۔ [ کھانستا ہے۔ ]
حکیم:عالم پناہ ابھی آرام کریں۔
بابر:آرام ؟ حکیم صاحب ! ہم نے زندگی میں کبھی آرام کیا ہے ؟ آرام کرتے ہیں بزدل ، کمزور اور وہ جن کاکچھ کرنے کا مقصد نہیں ہوتا۔ آخری وقت میں خاموش رہنے سے اور بھی دم گھٹنے لگے گا۔ اب کتنی دیر زندگی ہے۔ [ کھانستا ہے ] موت سے پہلے ہی اس کا سما ں بندھنے دینا ہمیں گوارا نہیں۔ ہمیں ہنستے بولتے مرنے دیجئے۔
ابوالبقاء :جہاں پناہ ایسی بدشگونی کی بات نہ کہیں۔
بابر:یہ بات بد شگونی ہو یا نہ ہو ، لیکن ہے سچی۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ ہم پوری خوشی سے جا رہے ہیں۔
ماہم:جہاں پناہ بار بار یہ کیا دہرا رہے ہیں ؟
بابر:ملکہ ! سچائی کا سامنا ہمت سے کرنا چاہئے۔ جو بات آگے ہونے والی ہے اسے پہلے سے جان رکھنا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ سچائی جانتے ہوئے بھی اپنے کو دھوکے میں رکھنے سے بڑھ کر اور کیا بیوقوفی ہوگی ؟ [ہمایوں کی طرف دیکھ کر ] بیٹا ! وقت قریب آ رہا ہے۔ کہیں بھول نہ جائیں۔ میاں ابوالبقاء کو پندرہ گاؤں بلاخراج پشت در پشت کے لئے بخش دو۔ [ کھانستا ہے۔ ]
ابوالبقاء :جہاں پناہ معاف کیجئے۔ تابعدار کو کچھ نہیں چاہئے۔ جہاں پناہ کا دیا ایسے ہی کچھ کم نہیں ہے۔
بابر:[ ان سنی کرکے زور سے ] بیٹا ! ہم اپنے حکم کی فوری تعمیل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکم نامے پر ہمارے دستخط کرا لو۔
ہمایوں:ابا جان کی حکم تعمیل ہوتی ہے۔
[ ہمایوں دوسرے کمرے میں جاتا ہے۔ ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر فورا آتا ہے۔ بابر اس پر دستخط کر دیتا ہے۔ حکم نامہ ابوالبقاء کے ہاتھ میں دیا دیا جاتا ہے۔ ابوالبقاء اداسی سے اٹھ کر سلام کرتا ہے ، پھر بیٹھ جاتا ہے۔ ]
بابر:آج ہمیں ایک ہی بات کا افسوس ہے۔ جس کی ساری عمر جنگ کے میدان میں کٹی اس کی موت بستر پر ہو رہی ہے۔ [ کھانستا ہے ] ہم لڑتے - لڑتے مرنے کے خواہش مند تھے۔ خوش قسمتی سے ایک ایسے ملک میں پہنچ بھی گئے تھے جہاں بہادروں کی کمی نہیں تھی - لیکن وہ ارمان۔۔۔ [ کھانستا ہے۔ ]
حکیم:عالم پناہ کو بولنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ میں پھر عرض کروں گا کہ تھوڑی دیر آرام کیا جائے۔
بابر:آرام کے لئے نہ گھبرائیے حکیم صاحب ! ہم کبھی ختم نہ ہونے والے آرام کی نیند سونے جا رہے ہیں۔ اب آخری وقت میں تمام زندگی کی تصویر ایک - ایک کر آنکھوں کے سامنے گزر رہی ہے۔ [ کھانستا ہے ] ہندوستان بڑا عظیم ملک ہے۔ یہاں کے راجپوتوں کے لئے ہمارے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ نڈر اور بہادر ہیں۔ مرنا یا مارنا کسی کو ان سے سیکھنا چاہئے۔ [ ہچکی آتی ہے۔ ]
حکیم:لیکن جہاں پناہ کے سامنے تو ہمیشہ ہارتے ہی رہے۔
بابر:آپ نہیں جانتے۔ ہار - جیت دوسری چیز ہے اور بہادری دوسری۔ ہار - جیت پر کسی دوسرے کا اختیار ہے ، بہادری پر اپنا۔ ہم بھی تو بار - بار ہارتے ہیں تو کیا ہم اپنے کو بہادر نہ سمجھیں ؟ [ ہچکی آتی ہے ]
حکیم:عالم پناہ ، دوا کا وقت ہو گیا ہے۔
بابر:حکیم صاحب ! اب دوا نہ دیجئے۔ یہ ہچکی ہے یا خدا کا پیغام ہے۔ [ پھر ہچکی آتی ہے ]
ماہم:[ چیختے ہوئے ] یا خدا ، یہ کیسا امتحان ہے ؟ ایک طرف لخت جگر کو زندگی بخشی تو دوسری طرف سرتاج کو اتنی تکلیف دے رہا ہے۔
بابر:ملکہ ! پروردگار کے شکر کے بدلے شکوہ ؟ اللہ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہماری التجا سن لی ، ہماری امید اور ارمانوں کے چمن کو سرسبز رہنے دیا ، ہماری آنکھوں کی مٹتی ہوئی روشنی واپس آگئی۔ تبھی تو ہم آج شاہزادے کو صحت و تندرست دیکھ رہے ہیں۔
ماہم:مگر جہاں پناہ ، آپ کی یہ تکلیف۔۔۔ ؟
بابر:[ کی بات کاٹ کر ] ہماری فکر چھوڑو ، ملکہ ! ہم نے تو خود یہ تکلیف طلب کی ہے۔ ہمیں بے انتہافخر ہے کہ ہمارے مالک نے اپنے ایسے ناچیز بندے کی دعا سن لی اور ملاقات قبول فرما لی۔ [ درد سے کروٹ بدلتا ہے ] بیٹا !
ہمایوں:اباجان !بابر:اور قریب آ جاؤ بیٹا ! جاتے - جاتے اپنے لخت جگر کو جی بھر کر دیکھ تو لوں۔
ہمایوں:[ آنکھوں میں آنسو بھر کر ] ابا !
بابر:گھبراؤ مت بیٹا ! بہادر اور دلیر فر زند کو یوں مچلنا زیب نہیں دیتا۔ ہمیں تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ؛ ہمیں ہندوستان کے ہونے والے بادشاہ سے کچھ عرض کرنا ہے۔
ماہم:[ روتی ہوئی ] میرے سرتاج !
بابر:صبر اور ہمت سے کام لو ، ملکہ! جو ساری زندگی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا ہو اس کی شریک حیات کو موت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ ہمیں چین سے جانے دو۔ [ کھانستا ہے ] بیٹا !
ہمایوں:اباجان ! حکیم صاحب کی رائے میں آپ کے لئے مزید گفتگو کرنا آپ کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہے۔
بابر:صحت ! بیچارے حکیم صاحب ! بیٹا ! ہم نے ہندوستان کو فتح کیا ، حکومت کی بنیاد بھی ڈالی مگر سلطنت کی اونچی عمارت تیار کرنے سے پہلے ہی ہمیں جانا پڑ رہا ہے۔ اب اس عمارت کو مکمل کرنا اور قائم رکھنا آپ کا کام ہے۔ [ ہچکی آتی ہے۔ ] جنگ کے میدان میں ہماری تلوار کے وار کبھی اوچھے نہیں پڑے اور امن کے زمانے میں ہماری دانش مندی نے کوئی غلط رویہ بھی اختیار نہیں کیا۔ بادشاہت کے لئے دونوں چیزیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ [ درد سے کروٹ بدلتا ہے۔ ] آہ ، سر پھٹا جا رہا ہے۔
ماہم:میرے سرتاج !
بابر:ملکہ! ہم ماں بیٹے کو ایک دوسرے کو سپرد کرتے ہیں۔ [ ماہم سسک - سسک کر رونے لگتی ہے ] بیٹا ، سپہ سالار کو بلائیں۔ [ ایک آدمی باہر جاتا ہے ] اور تم۔ ادھر قریب آؤ۔ [ آواز پہلے سے سست پڑ جاتی ہے ] آج سے اسسلطنت کے تم مالک ہو۔ [ کھانستا ہے ] تم نیک اور آزاد خیال ہو۔ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو محبت کی نظر سے دیکھنا۔ ان سے کوئی غلطی بھی ہو تو معاف کرنا۔ [ ہچکی آتی ہے ] آہ ! سانس لینے میں بڑی تکلیف ہے۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] سپہ سالار آئے ؟
سپہ سالار:تابعدار حاضرہے !
بابر:ہم سفر کر رہے ہیں۔ ہمارے بعد شاہزاداہ ہمایوں ہندوستان کے بادشاہ ہوں گے۔ [ کھانستا ہے ] آپ سب کی انہیں اسی طرح مدد ملنی چاہئے جس طرح ہمیں ملتی رہی ہے۔ آہ ! بیٹا ! پانی ! [ ہمایوں منہ میں پانی دیتا ہے ] بیٹا ، یہاں جتنے ہیں سب کا ہاتھ پکڑو۔ [ ہچکی آتی ہے ] سب کی پرورش کرنا۔ [ زور سے سانس لیتا ہے ] یا خدا ! اور جی ہاں ، ہماری آخری خواہش۔۔۔ [ ہچکی آتی ہے ] ہمیں یہاں نہ دفن کرنا۔ کابل کی مٹی میں دفن کرنا۔ یہ ہمارا آخری حکم۔۔۔ اور۔۔۔ خواہش ہے۔ [ ہچکی ] آپ سب۔۔۔ آباد رہو [ زور کی ہچکی ] الوداع۔ ال۔۔۔ اللہ۔۔۔ اک۔۔ ب۔۔۔ ر۔۔۔ [ ہچکی کے ساتھ خاموش ہو جاتا ہے۔ ]
[پردہ گرتا ہے ]


۔۔۔مزید

بدھ، 1 جنوری، 2014

سیاست شرعیہ میں فقہی اجتہاد

ضیاءالرحمان اصلاحی
شرعی سیاست کے موضوع پر طلبہ میں اجتہادی ذوق ختم ہوچکا ہے، اس میں ان کا بھی کچھ قصور نہیں بلکہ مدت ہائے دراز سے مسلم ممالک میں حکومتیں شریعت کے اتباع سے بہت دور ہوچکی ہیں، جس کے سبب سے طلبہ کی ایک بہت بڑی جماعت کی توجہ محض ان مسائل پر مرکوز ہوکر رہ گئی جن کا تعلق عام زندگی سے ہے،یہی وجہ ہے کہ جب وہ شرعی سیاست پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ محض ان مباحث کی تردید میں ہوتی ہے جو قدیم مآخذ میں اس باب میں مدون کیے گئے ہیں اور زندگی کے بیش تر معاملات میں جو تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں وہ ان پر غور وفکر سے پہلو تہی کر جاتے ہیں۔
حالات حاضرہ کے تناظر میں شرعی سیاست کے موضوع کا انتخاب غالب حکمران کی حکمرانی کے زیر عنوان گفتگو کے لیے موزوں ہے، اگر اس موضوع پر بات کی جاتی ہے تو طلبہ بلا تامل ایسے حکمران کی حکمرانی کو جائز اور درست ٹھہرا دیتے اور اس کی مخالفت ، اس کے خلاف خروج ان کے نزدیک درست نہیں اور وہ اسے شرعی حکمران (ولی امر) کے تمام حقوق کا مستحق گردانتے ، اپنے اس نظریہ کے ثبوت میں قدما کی کتابوں سے دلیلیں بھی لاتے اور حقیقت واقعہ پر غور وفکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں، اس مختصر مقالہ میں میں اس موضوع پرروشنی ڈالوں گا تاکہ اس باب میں حق بات کی وضاحت ہوجائے۔
اول یہ کہ خود کواقتدرا کا خواہش مند بناکر پیش کرنا مناسب نہیں ، کیوں کہ اقتدار کا خواہش مند تعاون سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اقتدار کو اس پر ایک بوجھ بناکرلاد دیتاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبد الرحمن بن سمرہ ؓ سے فرمایا: ’’ اے عبدالرحمن بن سمرہ امارت کے طالب نہ بنو، کیوں کہ اگر یہ تم کو مانگنے سے ملے گی تو تم پر بوجھ بن جائے گی اور اگر بے طلب ملے گی تو تم کو ہمہ جہت تعاون حاصل ہوگا‘‘ بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۶، مسلم : حدیث نمبر ۱۶۵۲)، گویا امارت کا طلب گار اس کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور جسے بے طلب اور بے خواہش مل جائے تو مستحق اعانت ہو جاتا ہے، پھر امارت پر قابض شخص تو اعانت کے سلسلہ میں طالب امارت سے بدرجہا محروم ہے، کیوں کہ وہ امارت کو طاقت سے حاصل کرتا ہے اور اس کے لیے جنگ کرتا ہے،اسی وجہ سے جنگ وجدل اور سازش سے امارت حاصل کرنے والا اعانت سے محروم ہوتا ہے اور جب وہ اعانت الٰہی سے محروم ہوگیا وہ پھر وہ تنہا پڑ جاتا ہے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غلبہ اقتدار پر قابض ہونے کا شرعی طریقہ نہیں ہے، یہ محض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت نہیں تھی بلکہ ایک واجب العمل شرعی حکم ہے ان لوگوں کے لیے بھی جو اپنے مفاد کے لیے امارت نہیں چاہتے اور ان لوگوں کے لیے بھی جن کو امارت سونپنے کا اختیار حاصل ہے لیکن انہیں یہ اختیارنہیں کہ وہ اسے ایسے شخص کو سونپ دیں جو اس کا مطالبہ کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ایسا ہی کیا ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں اورمیرے دو عم زاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں میں سے ایک نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ نے آپ کو جو ولایت عطا کی ہے اس میں کچھ حصہ ہمیں بھی دے دیں اور دوسرے شخص نے بھی ایسی ہی بات کہی، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی قسم ہم یہ کام کسی ایسے شخص کو نہیں سونپ سکتے جو اس کا طلب گار ہو یا اس کی خواہش رکھتا ہو‘‘ ( صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۷۳۳)،چناں چہ کسی کے لیے اس طرح کا مطالبہ جائز نہیںاور اگر کوئی ایسا مطالبہ کرے تو صاحب اختیار کے لیے اس کا مطالبہ پورا کرنا درست نہیں، امارت پر غالب ہونا اور اس کے حصول کے لیے جنگ کرنا تو اور بھی سنگین جرم ہے۔
امارت تک پہنچے اور منصب ولایت پر متمکن ہونے کے کچھ طریقے ہیں جو شرعی نصوص سے ثابت ہیںاور اس باب میں ان کی سنت بھی مشعل راہ ہے جن کے اتباع کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: ’’تم پر میری سنت اور خلفائے مہدیین راشدین کی سنت کا اتباع لازم ہے، اسے اختیار کرو اور مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘ الحدیث (سنن ابودائود حدیث نمبر۴۶۰۷،اسے البانی سے صحیح کہا ہے اور امام احمد،ترمذی،ابن ماجہ اور دیگر محدثین نے اسے روایت کیا ہے) ، ان کی سنت میں سے امارت پر غلبہ کی کوئی سنت نہیں ہے بلکہ اقتدارتک پہنچنے کے ان تمام طریقوں میں جو ثابت ہے وہ یہ کہ امت اس منصب کے اہل شخص کا انتخاب کرے،ان تمام طریقوںمیں جو ظاہری اختلاف ہے وہ محض انتخاب کی صورتوں اور طریقوں میں ہے۔
۱- امیر امت کے کسی شخص کے حق میں امارت کی وصیت کر دے جو کہ امت ہی کے انتخاب کا ایک طریقہ ہے، کیوں کہ یہ ایسے شخص کا انتخاب ہے جیسے امت نے منصب امارت کے لیے منتخب کیا ہے (امام سابق) اوریہ وصیت ایسے شخص کے حق میں ہونی چاہیے جو منصب کے لازمی اوصاف سے متصف اور اس کے شرطوں کے مطابق ہو، مصلحت کوشی اور اقربا پروری کوراہ نہیں دی جانی چاہیے اور انتخاب کایہ عمل بھی ارباب حل وعقد کے مشورہ سے کیا جائے گا۔
۲-امیر کا انتخاب ایسے ارباب حل وعقد کی جانب سے ہو جو عوام الناس کے نمایندہ ہوں اورایسے لوگ جنہیں اپنے علاقہ میں قبول عام حاصل ہواور یہ بھی امت کے انتخاب کا ایک طریقہ ہے، کیوں کہ ارباب حل وعقد رائے عامہ کو پیش کرنے والے اور ان کے اختیار وانتخاب کے سلسلہ میں ان کے نمایند ہوتے ہیں۔
۳- اسی طرح امت کے صالح اصحاب رائے کاایسے شخص کو منتخب کرنا جس میں منصب امارت کے مطلوبہ صفات پائے جاتے ہوںخواہ اس انتخاب کی جو بھی صورت ہو انتخاب کا شرعی طریقہ تسلیم کیا گیا ہے۔
امارت غصب کرنا ، اسے چھین لینا اوربہ زور غلبہ اس کا حصول نادرست ہے،اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَیہُمْ‘‘ (شوریٰ: ۳۸)اس آیت کریمہ میں اَمْرُہُمْ کا اطلاق امت کے منصب امارت اور ولایت پر ہی ہوتا ہے، کیوں یہ جمہورامت کے مصالح کی نگہ بان ہوتی ہے، اس کی دلیل خلیفۂ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہے کہ ’’جس نے کسی شخص سے مسلمانوں کے اتفاق رائے کے برخلاف بیعت کی تو بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے دونوں کی بیعتیں غیر معتبر ہوں گی اور ان کا یہ عمل ان کے قتل کا موجب ہوگا‘‘ (بخاری حدیث نمبر ۶۸۳۰)۔ اوریہ خلیفۂ راشد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیںکہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مسلمانوں کے خلیفہ منتخب ہوئے تو منبر پر تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے لوگو! -اس بڑی جماعت اور اس کی اجازت کے باوجود- یہ(خلیفہ کے انتخاب کا) معاملہ تمہارا ہے ، اس منصب پر وہی متمکن ہوسکتا ہے جسے تم انتخاب کرو، کل ہم ایک معاملہ میں اختلاف رائے کرچکے ہیں، اگرتم چاہوتوتمہارے لیے میں اس منصب پر بیٹھوں گا، بصورت دیگر میں کسی پر اختیار نہیں رکھتا، تو لوگوں نے کہا: ہم نے جس بات پر آپ سے اختلاف کیا تھا آج بھی اسی پر قائم ہیں۔ (تاریخ ابن جریر طبری جلد ۴، صفحہ ۴۳۵) اس سے واضح ہوتا ہے کہ خلافت کا عہدہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اوریہ اسی شخص کو مل سکتا ہے جسے وہ انتخاب کریں، اس منصب پر خود بہ خود جابیٹھنا اور اس کے حصول کے لیے قتل وخوں ریزی کرنا لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک شخص کی یہ بات ’’عمر فوت ہوئے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا‘‘ پہنچی تو انہوں نے کہا : ’’میں رات کو انشاء اللہ لوگوں کے پاس جاتاہوں اور ایسے لوگوں کو خبردار کرتاہوں جو لوگوں کے حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (بخاری حدیث نمبر ۶۸۳۰) چناں چہ آپ نے ایک شخص یا تھوڑے لوگوں کے اتفاق کو ولی امر کے انتخاب کے سلسلہ میں امت کی رائے عامہ کی نمایندگی کے لیے ناکافی قرار دیا کیوں کہ یہ طریقہ امت کی حق تلفی ہے جس سے احتیاط برتنے کا حکم دیا، تو پھر جو شخص اس کے حصول کے جنگ کرے اور لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے اپنی قوت اور وسائل کا بے دریغ استعمال کرے اور لوگوںسے جبراً اپنی اطاعت کرالے تو اس کی ولایت اور خلافت کس طرح جائز ہوسکتی ہے؟
اقتدار پر غلبہ ولایت کے حصول کا شرعی طریقہ نہیں ہے،بلکہ یہ امت کے ارادہ واختیار کی پامالی اور امت کے حقوق غصب کرنا ہے اور اس طریقہ کو شرعی طریقہ تسلیم کرنے کا نتیجہ مسلم معاشرہ میں انتشار اور بدامنی کی شکل میں ظاہر ہوگااور ہر وہ شخص جس کو ذرا بھی اختیار اور طاقت میسر ہے وہ ایسے اقدام کی جسارت کرے گا۔
جہاں تک غالب حکمران کے اقتدار پر غلبہ اور لوگوں کے سر تسلیم خم کر لینے کے بعد اس کی حکمرانی کو قبول کرنے کا معاملہ ہے تو یہ محض ایک ضرورت کے تحت ہے، جس طرح مردار کھانا صرف ضرورت کے تحت جائز ہے ، چناں چہ اگر کوئی چیز ضرورتاً مباح ہوتی ہے تو ضرورت کی تکمیل کے بعداس کی اباحیت بھی ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح غالب حکمران کی ولایت کا معاملہ ہے جسے علی الاطلاق تسلیم کرلینا ہرگز درست نہیں بلکہ اس کے بھی کچھ شروط اور ضوابط ہیں۔
غالب حکمراں: وہ ہے جو منصب امارت کے خالی ہونے یا ولی امر کے فوت ہوجانے یا اس جیسی اور صورت حال میں منصب پر قابض ہوجائے یا سلطان وقت کے خلاف خروج کر کے منصب پر قبضہ پالے۔
۱- جوشخص منصب امارت کے خالی ہونے کے سبب یا امام (امیر) کی جگہ خالی ہونے کی وجہ اس پر قابض ہوجائے اور وہ اس منصب کا اہل نہ ہو یا اس کے شرطوں پر پورا نہ اترتا ہو اور اس کے منصب پر فائز رہنے کی اشد ضرورت بھی نہ ہو یا صرف اس کی اپنی اہلیت ہی نہیں بلکہ امامت کے منصب پر فائز ہونے میں دوسرے لوگوں کا تعاون بھی ہے تو امت کے نمایندہ ارباب حل وعقد سے رجوع اور ان سے مشورہ کے بغیر اس کا اقتدار پر قابض ہونااس بات کی دلیل ہے کہ وہ فساد فی الارض کے ذریعہ حصول اقتدار کا متمنی ہے۔ امام الحرمین جوینی کہتے ہیں:’’جو شخص اس سلسلہ میں بیعت اور اس کی ضرورت کے بغیر اپنے آپ کو پیش کرے تویہ عمل اس کی جسارت ، حصول اقتدار کے لیے حد سے تجاوزاور اپنی سربلندی کی تمنا کہا جائے گااور یہ فساد فی الارض کے ذریعہ زمین میں غلبہ حاصل کرناہے، اور کسی فاسق کو امامت کا عہدہ دینا جائز نہیں، اگر اس کا غلبہ ضرورت کے تحت تھا پھر وہ ضرورت باقی نہ رہی پھر بھی وہ اپنے حربوں سے ارباب حل وعقد کو اپنی بیعت پر مجبور کر کے اقتدار پر قابض رہا تو یہ بھی لوگوں کو ہراساں کرنا اور ان پر جبر کرناہے، ایسی صورت میں ارباب حل وعقد کا ایسے شخص کی بیعت کرلینا اضطرار کے حکم میں آتا ہے اور حکمراں کا یہ طرز عمل ظلم اورخلاف دیانت ہے، جب اس طرح کی صورت حال ہو تو اس کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے‘‘ (غیاث الامم فی التیاث الظلم: ۳۲۶-۳۲۷)۔
وہ حالت جن میں منصب کے خالی ہونے کی صورت میں اس پر قابض شخص کا متمکن رہنا جائز ہے وہ یہ ہے کہ وہی یکہ وتنہا اس منصب کا اہل ہو اور کوئی دوسرا اس کی اہلیت میںاس کا معاون نہ ہو، یامنصب کے اور بھی اہل لوگ تھے لیکن حالات ایسے ہوگئے تھے جن میں تاخیر مناسب نہیں تھی اور یہی اس کے غلبہ کا سبب ہوایا یوں ہوا کہ جن کو امیر کے انتخاب کا اختیار تھا انہوں نے منصب امارت کے اہل شخص کے انتخاب میں سستی برتی، نتیجہ کے طور پر منصب زیادہ دنوں تک خالی رہا ، بدحالی کا دور دورہ ہوگیا،مملکت کے حصے بخرے ہونے لگے اور انارکی کے آثار ظاہر ہوگئے تو ایسے حالات میں ایک شخص امامت کا دعوے دار بن کر اٹھ کھڑا ہوا، بکھرتے ہوئے شیرازہ کو سمیٹنے کی جدو جہد کی، فتنہ وفساد کے اسباب کی روک تھام کی،اگر ایسا شخص تمام تر وسائل کے ساتھ سامنے آجائے تو اس کا یہ غلبہ فسق، سرکشی اور خوں ریزی میں شمار نہیں کیا جائے گا، اگر ایسا ہو جائے اور ایسے شخص کوہٹانے اور کسی دوسرے شخص کو اقتدار سونپنے سے فتنہ بھڑک اٹھنے کا احتمال ہو اور ناخوش گوار حالات پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو حق یہ ہے کہ اس کی موافقت کی جائے اور اس کی اطاعت قبول کر لی جائے اور اس کے حق میں اتفاقی رائے دے دی جائے‘‘ (غیاث الامم ۳۲۵) یا یہ ہو کہ اہلیت رکھنے والے اور ارباب شوکت اس کی اطاعت اور پیروی کی بیعت کرلیں پھر اس کی برطرفی اگر فتنہ و خوں ریزی کا موجب ہوتی ہے تو اس کی مخالفت دو وجہوں سے نہیں کی جائے گی:
ا- وہی اس منصب پر فائز رہنے کااہل ہے، یعنی ولی امر کی تعیین سے جو مقصد پورا ہونا چاہیے وہ اس کے غلبہ سے بھی پورا ہورہا ہے۔
ب-اس کی مخالفت اور اس سے ٹکرائو فتنہ وفساد اور خوں ریزی کی وجہ بنے گااور اسے اس پر مجبور کرنا لوگوں پر ناقابل برداشت آزمائشیں لے آئے گا اور اس کی بحالی کی صورت میں نظم ونسق بحال رہے گااور اہل اسلام خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں گے تو ایسے شخص کا مقرر رہنا واجب ہے‘‘ (غیاث الامم۳۲۷)۔
۴-غلبہ کی دوسری صورت سلطان عادل اور شرعی ولی امر کے خلاف خروج ہے: سلطان عادل کے خلاف خروج کرنے والا تو فاسق، ظالم ، اپنے حدود سے تجاوز کرنے والا ہے جس کا مقابلہ کرنا اس کو روکنا بلکہ اس کے ظلم وعدوان کے خلاف اس سے جنگ کرنا واجب ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس کوئی اس حال میں آئے کہ تمہارا کسی ایک شخص پر اتفاق ہو پھر وہ تمہارے اتحاد کو توڑنا چاہے اور تمہاری جماعت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کردو‘‘ ایک اور روایت میں ہے : ’’اس کا سر تلوار سے کاٹ دو خواہ وہ کوئی بھی ہو‘‘، یہی شریعت کا موقف ہے اور جب کوئی شخص اپنی طاقت اور حربہ کو استعمال میں لا کر منصب امارت پر غلبہ حاصل کر لے اور اقتدار پر قابض ہوجائے تو مسلمانوں کو شریعت کے اسی حکم کی تعمیل ضروری ہے، کیوں کہ سلطان عادل کے امت کے ذمہ بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن میں اس کی مدد اور اس کے ساتھ مل کر اس کے خلاف خروج کرنے والے سے مقابلہ کرنا بھی ہے۔
پھر اگر کوشخص ولی امر کے خلاف خروج کرتا ہے تو ہر کسی پر اس کا مقابلہ کرنا اور اس کو روکنا واجب ہوجاتاہے، اگر خروج کرنے والا کسی جماعت کا سربراہ ہے تو اس کے جماعت کے لوگوں سے اس کی اطاعت ساقط ہوجائے گی اور اس کے اس فسق کے سبب سے سمع وطاعت کا عہد ختم ہوجائے گا، ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے : ’’جب امام عادل کے خلاف کوئی شخص خروج کرے تو اس کو دفع کرنا واجب ہے عمر بن عبد العزیز کی طرح‘‘ (احکام القرآن لابن العربی ۴؍۱۵۳-۱۵۴)
اگراپنے ولی امر کے خلاف خروج کرنے والا اس کے افواج پر غلبہ پالیتا اور ان کو اس طرح قابومیں کرلیتا ہے کہ وہ اس کے مقابلہ اور اس پر حاوی ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے اور عوام نے بھی اس کی اطاعت اور اپنے اوپر اس کی حکمرانی قبول کرلی ہے تو ایسے حالات میں امت کے تحفظ کے پیش نظر اہل علم کی رائے یہ ہے اس کی ولایت تسلیم کرلی جائے، لیکن یہ نظریہ جمہور امت کے مصالح پر مبنی اور درج ذیل شرطوں سے مشروط ہے:
۱- غلبہ حاصل کرنے والا امام اور اس کے افواج پر اس قدر سطوت پالے کہ ان میں اس سے دفاع اور اس کے خلاف محاذ آرائی کی استطاعت نہ ہو۔
۲- اس کی حکومت کو ایسا استحکام مل جائے کہ لوگ اس پر اتفاق رائے کرلیں ، طوعاً وکرہاً اس سے بیعت کرلیں اور اس کو امام کے لقب سے ملقب کردیں جس طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالملک بن مروان سے بیعت کی ، روایت میں ہے کہ:’’جب لوگ عبد الملک پر متفق ہوگئے‘‘ چناں چہ اس کی بیعت محض اس کی قوت اور مملکت کے بیش تر حصوں پر اس کے تسلط کی بنیاد پر نہیں کی گئی بلکہ جب عامۃ الناس کا اس پر اتفاق ہوگیا تب اس نے بیعت لی، ابن قدامہ غلبہ کی تشریح میں کہتے ہیں: ’’وہ بزور شمشیر لوگوں پر غالب آیا حتیٰ کہ لوگوں نے اس کا اقرار کرلیا اور اس کی اطاعت اور اتباع کے لیے راضی ہوگئے‘‘۔
۳-غالب حکمراں مسلم ہو،شریعت الٰہی کی فیصلہ کن حیثیت کا اقراری ہو، اس کے نفاذ کے حتی المقدور سعی بھی کرتا ہو، کسی حاکم کو شرعی حاکم محض اس لیے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے مسلمانوں کے نام جیسا نام اختیار کیا ہے، یہ نام اسے اپنے عمل اور اپنے انتخاب کے نتیجہ میں نہیں ملا ہے بلکہ اس کے والدین کا انتخاب کردہ ہے اور خود اس کی زبان سے شریعت کی حاکمیت کے اقرار کاکوئی جملہ کبھی ادانہیں ہوابلکہ اسلامی شعار سے اس کا عناداور لادینوں اورنصرانیوں کو مقتدر بنانے ہی کے مساعی ظہور میں آئے ہیںاور وہ اس دستور کے مواد کو جو برائے نام ہی سہی لیکن اسلامی شعار کا محافظ ہے بدلنے کی کوششیں کرتاہے، اللہ کے گھروںکو مقفل کرتا، مساجد پر پابندیاں عائد کرتا ، ناحق خوں ریزی کرتا، اسلامی چینلوں کو بند کرتا اور اسلام پسندوں کو گرفتار کر کے انہیں قید کرتا ہے تو ایسے شخص کو منصب پر متمکن رکھنے کے اتفاق کرنا کسی بھی مصلحت کے پیش نظر جائز نہیں، پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ غالب حکمراں کے غلبہ کو اسی لیے تسلیم کیا جاتاہے کہ اس کی وجہ سے ملک کو استحکام نصیب ہوتا، جانوں کو تحفظ ملتااور ان مصلحتوں کو نفاذ کی راہ ملتی ہے جو صرف ایک ولی امر کے زیر سایہ ہی ممکن ہے اور دین کی بربادی کے عوض کسی بھی مصلحت کو راہ نہیں دی جاسکتی۔
۴- غالب حکمراں کو استحکام مل جائے اس طور پر کہ لوگ اسے قبول کرلیں اور اس کے باب میں خموشی اختیار کریںاور اس سے مخالفت نہ کریں، ہاں اگر استحکام نہ ملے اور لوگ مسلسل اس کی مخالفت کر رہے ہوں اور اس کے ملک ایک وسیع علاقہ کے مسلمان اور عالمی پیمانہ پر اکثر حکومتیں اس کی تولیت کا اعتراف نہ کریںتو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کو استحکام نہیں مل سکا ہے، امام احمد نے عبدوس بن مالک العطار کی روایت میں کہا ہے : ’’جو شخص لوگوں پر اپنی تلوار کے زور سے غالب آجائے یہاں تک کے خلیفہ بن بیٹھے اور امیر المومنین کہا جانے لگے تو ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے جائز نہیں کہ وہ اسے امام تسلیم کیے بغیر ایک رات بھی بسر کرے، خواہ وہ بد ہو خواہ نیک‘‘ ۔ ابن بطال کہتے ہیں: ’’ اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ امام غالب جب تک جمعہ اور جہاد کو قائم کرتا رہے اس کی اطاعت لازم ہے اور اس کی اطاعت اس کے خلاف خروج اور بغاوت سے بہتر ہے کیوں کہ اس میں جانوں کا تحفظ اور شرانگیزی سے پناہ ہے‘‘۔ (شرح ابن بطال علی صحیح البخاری ۱۰؍۸)
ابن قدامہ کہتے ہیں: ’’اگر کوئی شخص امام کے خلاف خروج کرے پھر وہ اس پر تسلط پالے اور لوگوں کو بزور شمشیر قابومیں کرلے اور لوگ اس کااقرار کر کے اس کے اتباع اور اطاعت پر راضی ہوجائیں تو اس سے جنگ کرنا اور اس کے خلاف خروج حرام ہے، کیوں کہ عبد الملک بن مروان نے عبداللہ بن زبیرؓ کے خلاف خروج کیا اور ان کو شہید کر کے ملک اور رعایا پر تسلط پالیا یہاں تک کہ لوگوں نے طوعاً وکرہا اس کی بیعت کرلی تو وہ امام بن گیا اب اس کے خلاف خروج حرام ہوگیا، یہ اس وجہ سے بھی کہ خروج کی صورت میں مسلمانوں کا اتحاد ختم ہوگا اور ان کے جان اور مال کی بربادی لازم آئے گی‘‘ (المغنی ۹؍۵)تووہ اسی طرح کا شخص ہوگا جس کی حکمرانی اور غلبہ کے استقرار کو تسلیم کیا جائے گااور عامۃ الناس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس کی ولایت کا اقرار کریں، اس کے اتباع اور اطاعت کو لازم جانیں اور عرف عام کے مطابق اس کو امیر المؤمنین ، رئیس یا ملک کہہ کر پکاریں، لیکن اگر کوئی شخص شرعی ولی امر کے خلاف خروج کرے اور اس امیر کے افواج مسلسل اس سے برسرپیکار ہوں اور اس کو تسلیم نہ کرتے ہوںتو ایسی حالت میں اس کے غلبہ کو تسلیم نہیں کیا جائے گااور امام غالب کا نام نہیں دیا جائے گابلکہ اس پر امام کے خلاف خروج کرنے والے کا الزام ہوگا ،اس سے جنگ ناگزیرہوگی اور ضرورت کے تحت اس کو قتل کرنا بھی ، فقہا نے امام غالب کے ظلم وجبر کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت کافیصلہ نہیں کیا بلکہ اسلام کے مصالح کی رعایت سے اسے مشروط کیا ہے جیسے جمعہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا قیام اور عامۃ المسلمین کے مصالح کی رعایت جس میں ان کے جان او رمال کا تحفظ ہے، امام غالب کی اطاعت اور اس کی نصرت کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ شرعی ولی امر کے پیروکاروں سے جنگ کی جائے، ابن بطال کہتے ہیں:’’جب خروج کرنے والے ظلم پر اتر آئیں تو ان کے ساتھ مل کر جنگ کرنا جائز نہیں‘‘(شرح ابن بطال علی صحیح البخاری ۵؍۱۲۶) اورنہ لوگوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ایسے شخص کی نصرت میں اپنا خون بہائیں۔

(یہ مضمون الشیخ شاکر الشریف کے عربی مقالہ کا ترجمہ ہے جو جریدہ ’’الأمہ ۴ صفر ۱۴۳۵ھ مطابق ۸ دسمبر ۲۰۱۳ء میں شایع ہوا ہے)

۔۔۔مزید