عوام کا خون چوس رہی ہے حکومت
محمد علم اللہ اصلاحی
دہلی کے عوام پر بجلی باربار گر رہی ہے۔گزشتہ نو سالوں سے بجلی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ بجلی کمپنیاں تو اس معاملہ میں آگے ہیں ہی، دہلی الیکٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن (ڈی ای آر سی) اور حکومت کا رویہ بھی بیزار کن ہے۔ پراویٹائزیشن کے بعد دارالحکومت میں بجلی کی کوالٹی میں تو ضرور بہتر ی آئی ہے لیکن عام لوگوں کو اس کے لئے جو قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اس کی کوئی حد ہی نظر نہیں آ رہی۔ حال ہی میں جس طرح فیول چارجیزکے نام پر عوام کے اوپر 4 سے 7 فیصد تک مزیدبوجھ ڈالا گیا ہے، اس سے یہ سوچا جانا لازمی ہے کہ آخر دہلی نے کیا کھویا، کیا پایا۔ جتنی امیدوں کے ساتھ دارالحکومت میں بجلی کی نجکاری ہوئی تھی، وہ ساری امیدیں اب شبہات کا روپ لے چکی ہیں۔شک کے گھیرے بڑھتے ہی جا رہے ہیں،یہ حالت تو تب ہے جب ہم مانتے ہیں کہ یہ ٹرانسپیرنسی کا دور ہے لیکن بجلی کی نجکاری کے ساتھ ہی شک کے جو بادل چھانے شروع ہوئے، وہ اب بہت گھنے ہو چکے ہیں۔ پرائیویٹ بجلی کمپنیاں اب تک آرٹی آئی کی زد سے بھی باہر ہیں وہ اپنی من مانی کر رہی ہیں اور حکومت بھی اس کو روکنے میں ناکام ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں بنیادی مسئلہ شاید ہی کبھی اخباروں کی سرخیان بن پاتے ہوں۔ لیکن گزشتہ کئی دنوں سے قومی دارالحکومت اور این سی آر کے اخبار بجلی و پانی کے بحران کو اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔ارباب اقتدار کوغریب عوام کی پریشانی اور صبر کی کہانی بتا رہے ہیں،اس سے لوگوں کی نہ صرف بے بسی کا پتہ چل رہا ہے بلکہ یہ بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ حکومت کتنے پانی میں ہے اور اس کے دعوے کس حد تک درست ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ عوام کے غصہ اور بے چارگی کا ہی نتیجہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ وپاور کٹ سے پریشان لوگ بجلی دفاتر پر دھاوا تک بول رہے ہیں۔ایسا انتہائی صورتوں میں ہوتا ہے ۔دہلی میں واقعی حالات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔خوردہ بازار میں ناریل اور بانس کے پنکھوں کی کھپت اچانک بڑھ گئی ہے۔ اپنے اپنے کمروں سے باہر بے بس گھوم کر معزز خاندانوں کی راتیں کٹ رہی ہیں۔ اپارٹمیٹس کے دربان اور فلیٹ کے مالکان کی حیثیت ایک سی ہو گئی ہے۔ وہ اندھیرے میں ہی چور آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی اپنی نظریں جھکا لیتے ہیں۔گرمی اور پسینے میں جاگتے ہوئے مریضوں کی کراہ اور بچوں کی چیخوں کی آواز حکومت یا بجلی کمپنیوں کو سنائی نہیں دیتی ۔
دہلی کو ہر سطح پر عالمی لیبل کا شہر بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ محض دعوے تک ہی محدود ہوتے ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔عوام کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے مجھے یاد پڑتا ہے 15 اگست 2003 کا وہ واقعہ جو کبھی ایسے ہی اخباروں میں پڑھی تھی ۔ مشرقی امریکہ اور اس کی حد سے لگے کینیڈا کے شہروں میں اچانک بجلی گل ہو گئی تو لگا کہ وقت جیسے رک گیا ہے۔ نیو یارک میں سڑکیں جام ہو گئیں۔تینوں ہوائی اڈوں پر اندھیراچھا گیا۔ کچھ لوگ مین روڈ سے پیدل چل کر اور کچھ لوگوں نے کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی منزل کو تک پہونچنے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگ زیر زمین ریلوں میں پھنس گئے۔ بڑی بڑی عمارتوں میں لوگ لفٹ میں محبوس ہو گئے گئے۔ سب کچھ اتنا خوفناک ہو گیا کہ اس وقت کے صدر جارج بش کو ٹیلی ویژن کے سامنے صفائی دینی پڑی کہ اس پاور کٹ کے پیچھے کسی دہشت گرد کی کارروائی نہیں ہے۔اور پھر اس کے بعد سے انھوں نے اس کے لئے وہ اقدامات کئے کہ آج تک بجلی کو لیکر کوئی خبر سننے میں نہیں آئی ۔یہ ان کی پیشگی دور اندیشی اور عوام کے درد کو سمجھنے کا نتیجہ تھا ۔مگر دہلی میں ایسا ہونا تو روزانہ کا معمول ہو گیا ہے اور اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔
دہلی میں بجلی کی شرح میں مسلسل اضافہ اور لوڈ شیڈنگ و کٹنگ پاور پرہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں۔لیکن کبھی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا۔ اب ایک بار پھرڈی ای آر سی یعنی دہلی بجلی ریگولیٹری کمیشن نے بجلی کی قیمتوں میں پانچ فیصد تک اضافہ کا اعلان کیا ہے تو عوام کے غصہ اور رد عمل کو بھی نادرست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یہ الگ بات ہے کہ تازہ اضافہ سے بجلی کی شرح میں کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا۔ڈی ای آر سی کی طرف سے قیمتیں بڑھائے جانے کے اعلان کے بعد حکومت نے ایندھن چارج کے طور پر لی جانے والی رقم نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔نتجتابیس تیس یا پچاس پیسے کے اضافہ کے علاوہ دو سو ایک سے چار سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے کی صورت میں یہ شرح تھوڑی سستی بھی ہو جائے گی یہ ٹھیک ہے۔ ابھی تک صرف دو سو یونٹ تک فی ماہ کی کھپت پر ایک روپے فی یونٹ کی سبسڈی دی جاتی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرح میں تازہ اضافہ کی دلیل کیا ہے؟ حکومت کو اپنی طرف سے سبسڈی دینے کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟یہ سوالات بہر حال حکومت سے پوچھے جانے کے لائق ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ دہلی کے لوگ دو سے تین گنا مہنگی شرح پر بجلی خرید رہے ہیں اور کمپنیاں مسلسل کافی منافع بٹور رہی ہیں۔ اگر خسارے کی دلیل صحیح ہے تو حکومت کو بجلی کی ترسیلی کمپنیوں سے صحیح تفصیلات پیش کرنے کو کہنا چاہئے تھا۔ ساتھ ہی کیگ سے ان کے حساب کتاب کی جانچ کرائی جانی تھی۔ لیکن بار بار مطالبہ اٹھنے کے باوجود شیلا دکشت حکومت اس کے لئے کبھی راضی نہیں ہوئی۔ الٹے وہ انہیں سینکڑوں کروڑ روپے کے مددسے پیکیج مہیا کرانا ضروری سمجھتی رہیں۔اب اس کے پیچھے کیا مفاد وابستہ ہے یہ وہی واضح کر سکتی ہیں تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات کو ذہن میں رکھ کر جو سبسڈی دی جائے گی، اس کی بھرپائی آخر کار دوسرے اشیاء میں لوگوں سے وصول کئے گئے ٹیکس سے ہی ہوگی یہ راحت ہے یا سرکاری خزانے سے کمپنیوں پر مہربانی کی ترکیب؟
پرائیویٹ کمپنیوں نے اس سال بھی 6600 کروڑ کا خسارہ بتا کرریٹس بڑھانے کی دلیل دیا تھا۔ جب 2002 میں نجکاری ہوئی تھی، اس وقت 1200 کروڑ کا سالانہ خسارہ تھا۔ دس سال میں خسارہ پانچ گنا سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ نجکاری سے پہلے نقصان کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ 60 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ اب ٹی اینڈ ڈی لسیج 20 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک فیصد چوری رکے تو 100 کروڑ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ 40 فیصد چوری رکی تو ہر ماہ 4000 کروڑ کی اضافی آمدنی ہو گئی۔ گزشتہ دس سال میں اگر ان کمپنیوں کو دس گنا مہنگی بجلی بھی خریدنی پڑ رہی ہو تو اس خسارے کی تلافی تو صرف بجلی چوری رکنے کی آمدنی سے ہی ہو جاتی ہے۔ عوام جانتی ہے کہ پچھلے دس سال میں بجلی کا بل بھی 8 سے 10 گنا بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے خسارے کی تلافی کرنے کے لئے بھی ان کمپنیوں کو 5000 کروڑ سے زیادہ کی مدد کی ہے۔دہلی برقی بورڈ کی ساری جائیداد کوڑیوں کے دام دینے کا معاملہ تو الگ ہے ہی۔ ان سب کے باوجود اگر پرائیویٹ کمپنیاں 6600 کروڑ سالانہ کا نقصان کرتی ہیں تو ہر آدمی کا شک بڑھے گا ہی۔
یہ شک اس لئے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتیں۔سی آئی سی نے ان کمپنیوں کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے کا حکم دیا تو عدالت سے اسے رکوا دیا گیاآج تک رریگولیٹری بیلنس شیٹ باہر نہیں آئی۔حکومت اور ڈی ای آر سی کے کردار ان شبہات کو اور بڑھاتی رہی ہے۔بجلی کے ریٹ بڑھنے سے پہلے ہی حکومت کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا تھا کہ ریٹ بڑھ سکتے ہیں،بڑھ بھی گئے۔ ریٹ بڑھنے کے بعد حکومت پلو جھاڑ لیتی ہے کہ ڈی ای آر سی تو خود مختار تنظیم ہے۔ مگر جب ڈی ای آر سی کبھی ریٹ کم کرنے کا حکم تیار کرتا ہے تو حکومت اسے یہ حکم جاری کرنے سے روک دیتی ہے۔ظاہر ہے، یہ پہلے کی کئی اضافہ سے پیدا ہو رہے عوامی ناراضگی کو تھوڑا کم کرنے، متوسطہ طبقہ کو لبھانے اور اگلے اسمبلی انتخابات میں حزب اختلاف کے اسے ایشو بنانے کے پیش نظر حکومت نے یہ طریقہ کاایجاد کیا ہے۔
عدالت میں حکومت کی یہ دھاندلی غیر قانونی تو ثابت ہوتی ہے لیکن ریٹ کم نہیں ہوتے۔ بجلی ریٹس کے معاملے میں حکومت کی حالت ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی پیٹرول کی قیمتوں پر مرکزی حکومت کی ہے ۔چلمن کے پیچھے بیٹھ کر اشارے جاری ہیں اور یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔ڈی ای آر سی کے صرف ایک صدر ہی یہ ثابت کر پائے کہ یہ ادارہ عوام کے مفادات کے لئے بنائی گئی ہے۔ برجیدر سنگھ نے بجلی کمپنیوں کے خسارے کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ منافع میں چل رہی ہیں لیکن ان کی ایک نہیں چلی شک کے بادل اس بار اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ڈی ای آر سی نے ریٹس بڑھانے کا مکمل حکم ہی جاری نہیں کیا، جس کی وجہ بھی بتائے جائیں۔بس، نئے ریٹس کا فرمان جاری ہو گیا حکومت نے گزشتہ سال سی اے جی تحقیقات کا وعدہ تو کیا تھا لیکن پورا نہیں۔ عوام نجکاری کے فوائد حاصل کرنے کی بجائے پرائیویٹ اجارہ داری کی شکار ہو رہی ہے۔ بجلی جیسی ضروری خدمات کے ریٹ ایسے بڑھ رہے ہیں جیسے وہ عیش و آرام کی چیز ہو۔اس پر کوئی جوابدہی بھی طے نہیں ہے اس شہر میں ہر شخص سے پوچھ رہا ہے کہ آخر ریٹکیوں و بڑھ رہے ہیں۔یہ کمپنیاں منافع کمانے کے لئے آئی ہیں، یہ تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن عوام کو بھی یہ جاننے کا حق ملنا چاہیے کہ آخر اس فائدہ کی کتنی حد ہوگی۔
2003 میں جب بجلی کا پراویٹائزیشن ہوا تھا، اس وقت عوام سے لبھاونے وعدے کئے گئے تھے۔کہا گیا تھا کہ اگر بجلی کی چوری رک گئی تو بجلی کے ریٹ بڑھنے کی بجائے کم ہونے لگیں گے۔ بجلی چوری 60 فیصد سے 15۔20 فیصد تک آ چکی ہے جبکہ بجلی کے ریٹ کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ اس سیاجارہ داری ختم ہوگی اور 2009 سے دہلی میں کئی بجلی کمپنیاں دستیاب ہونگی۔ فون کی طرح جو کمپنی معقول خدمت دے، اسی سے بجلی کا کنکشن لے لو۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، عوام تیز میٹروں کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے نیٹ ورک میں الجھتے چلے جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کے کام کاج کی مسلسل جائزہ لیا جائے گا لیکن آج تک جائزہ کے نام پر وزیر اعلی کی گھڑکیوں کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا کمپنیوں پر پنالٹی لگائی جا سکتی ہے لیکن آج تک ایسا سوچا بھی نہیں گیا۔ ابھی گذشتہ سال ستمبر سے 22 فیصد ریٹ بڑھائے گئے تھے اور اب فیول چارجز کے نام پر پھر سے عوام سے وصولی کی جائے گی۔ہو سکتا ہے کہ ایم سی ڈی انتخابات میں شکست کے جھٹکے اور اگلے سال اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے دو سال تک بجلی کے ریٹ نہ بھی بڑھیں لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی یہاں یہ سوال فطری ہے کہ آخر کمپنیاں خسارے کا سودا کیوں کریں۔ کمپنیاں سرکاری محکمہ نہیں بن سکتیں کہ سالوں سال نقصان بھی اٹھاتی رہیں اور سروس بھی دیتی رہیں۔
بات سچ ہے لیکن یہاں سب سے بڑا شک تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ کمپنیاں خسارے میں ہیں؟ کمپنیوں کی جانچ بلکہ انکوائری ہونی چاہئے۔دہلی کابینہ نے تجویز پاس کی ہے کہ کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی 2003 سے ہی سی اے جی جانچ ہونی چاہئے لیکن تحقیقات نہیں ہوئی۔بجلی کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی بنیاد پر ریٹ بڑھانے کی ذمہ داری جس کے ہاتھوں میں دی گئی ہے، اس نے ہی سارے معاملے کو تعطل میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ڈی ای آر سی کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں منافع کما رہی ہیں اور بجلی کے ریٹ بڑھانے کی بجائے گھٹانے چاہئے لیکن جیسے ہی وہ صدر اپنی مدت مکمل کرکے جاتے ہیں، نئے صدر کو گھاٹا ہی گھاٹا دکھائی دیتا ہے۔ریٹ بڑھنے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور اکاؤنٹس کی جانچ سی اے جی بھی بائلنس میں ہے۔
گزشتہ دنوں کئی انکشافات ہو چکے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں کس طرح من مانے طریقے سے طے کی جاتی رہی ہیں۔ خاص طور پر عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے اس بارے میں بہت سے حقائق پیش کرتے ہوئے حکومت پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات لگائے ہیں۔ لیکن اس طرح کے الزامات کے بعد حکومت نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کرلی ہے اور لوگوں پر ایک اور اضافہ مسلط کئے جانے پر چپی سادھے ہوئے ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے ماہر اقتصادیات ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی بھی خاندان کی آمدنی کے مطابق ہی دوسرے اخراجات کے ساتھ ساتھ بجلی کی کھپت بھی کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن تقریبا پانچ ماہ پہلے وزیر اعلی شیلا دیکشت نے دہلی کو مہنگی بجلی سے بچنے کے لئے بجلی کی کھپت میں کمی کرنے کی صلاح دے ڈالی تھی۔ لیکن کمپنیوں کو کوئی ہدایت دینے کی ضرورت انہوں نے کبھی نہیں سمجھی۔ جہاں جائز شکایات پر حکومت کا یہ رویہ ہو، وہاں امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
خسارے کی تلافی کے لئے حکومت نے پہلے 3500 کروڑ روپے دیے، بجلی چوری بھی رک گئی، ریونیو بھی بڑھ گیا، حکومت نے حال ہی میں 500 کروڑ کا بیلاٹ پیکج بھی دے دیا۔ پھر بھی کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ حکومت اور ڈی ای آر سی دونوں ہی عوام کے حق میں کھڑے ہونے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کہنے کو ڈی ای آر سی خود مختار ادارہ ہے لیکن اس کے صدر اور رکن حکومت منتخب کرتی ہے تو وہ بھی حکومت کے سامنے جوابدہ نظر آتے ہیں، عوام کے نہیں۔ تو کیا ایسیپراٹائزیشن سے توبہ ہونا ضروری ہے؟ حکومت نے اپنے کام پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپے ہیں اور پرائیویٹ کمپنیاں فائدہ کمائیں گی ہی لیکن ایسی خیال بن گئی ہے کہ بجلی کے معاملے میں عوام کا حق نہیں سنا جا رہا۔پرائیوٹائزیشن سے مواصلات انقلاب تو ہوئی ہے لیکن دہلی کے عوام بجلی انقلاب نہیں دیکھ پا رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں بنیادی مسئلہ شاید ہی کبھی اخباروں کی سرخیان بن پاتے ہوں۔ لیکن گزشتہ کئی دنوں سے قومی دارالحکومت اور این سی آر کے اخبار بجلی و پانی کے بحران کو اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔ارباب اقتدار کوغریب عوام کی پریشانی اور صبر کی کہانی بتا رہے ہیں،اس سے لوگوں کی نہ صرف بے بسی کا پتہ چل رہا ہے بلکہ یہ بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ حکومت کتنے پانی میں ہے اور اس کے دعوے کس حد تک درست ہیں ۔اس سلسلہ میں یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ عوام کے غصہ اور بے چارگی کا ہی نتیجہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ وپاور کٹ سے پریشان لوگ بجلی دفاتر پر دھاوا تک بول رہے ہیں۔ایسا انتہائی صورتوں میں ہوتا ہے ۔دہلی میں واقعی حالات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔خوردہ بازار میں ناریل اور بانس کے پنکھوں کی کھپت اچانک بڑھ گئی ہے۔ اپنے اپنے کمروں سے باہر بے بس گھوم کر معزز خاندانوں کی راتیں کٹ رہی ہیں۔ اپارٹمیٹس کے دربان اور فلیٹ کے مالکان کی حیثیت ایک سی ہو گئی ہے۔ وہ اندھیرے میں ہی چور آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی اپنی نظریں جھکا لیتے ہیں۔گرمی اور پسینے میں جاگتے ہوئے مریضوں کی کراہ اور بچوں کی چیخوں کی آواز حکومت یا بجلی کمپنیوں کو سنائی نہیں دیتی ۔
دہلی کو ہر سطح پر عالمی لیبل کا شہر بنانے کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ محض دعوے تک ہی محدود ہوتے ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔عوام کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے مجھے یاد پڑتا ہے 15 اگست 2003 کا وہ واقعہ جو کبھی ایسے ہی اخباروں میں پڑھی تھی ۔ مشرقی امریکہ اور اس کی حد سے لگے کینیڈا کے شہروں میں اچانک بجلی گل ہو گئی تو لگا کہ وقت جیسے رک گیا ہے۔ نیو یارک میں سڑکیں جام ہو گئیں۔تینوں ہوائی اڈوں پر اندھیراچھا گیا۔ کچھ لوگ مین روڈ سے پیدل چل کر اور کچھ لوگوں نے کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی منزل کو تک پہونچنے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگ زیر زمین ریلوں میں پھنس گئے۔ بڑی بڑی عمارتوں میں لوگ لفٹ میں محبوس ہو گئے گئے۔ سب کچھ اتنا خوفناک ہو گیا کہ اس وقت کے صدر جارج بش کو ٹیلی ویژن کے سامنے صفائی دینی پڑی کہ اس پاور کٹ کے پیچھے کسی دہشت گرد کی کارروائی نہیں ہے۔اور پھر اس کے بعد سے انھوں نے اس کے لئے وہ اقدامات کئے کہ آج تک بجلی کو لیکر کوئی خبر سننے میں نہیں آئی ۔یہ ان کی پیشگی دور اندیشی اور عوام کے درد کو سمجھنے کا نتیجہ تھا ۔مگر دہلی میں ایسا ہونا تو روزانہ کا معمول ہو گیا ہے اور اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔
دہلی میں بجلی کی شرح میں مسلسل اضافہ اور لوڈ شیڈنگ و کٹنگ پاور پرہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں۔لیکن کبھی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آیا۔ اب ایک بار پھرڈی ای آر سی یعنی دہلی بجلی ریگولیٹری کمیشن نے بجلی کی قیمتوں میں پانچ فیصد تک اضافہ کا اعلان کیا ہے تو عوام کے غصہ اور رد عمل کو بھی نادرست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یہ الگ بات ہے کہ تازہ اضافہ سے بجلی کی شرح میں کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا۔ڈی ای آر سی کی طرف سے قیمتیں بڑھائے جانے کے اعلان کے بعد حکومت نے ایندھن چارج کے طور پر لی جانے والی رقم نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔نتجتابیس تیس یا پچاس پیسے کے اضافہ کے علاوہ دو سو ایک سے چار سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے کی صورت میں یہ شرح تھوڑی سستی بھی ہو جائے گی یہ ٹھیک ہے۔ ابھی تک صرف دو سو یونٹ تک فی ماہ کی کھپت پر ایک روپے فی یونٹ کی سبسڈی دی جاتی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرح میں تازہ اضافہ کی دلیل کیا ہے؟ حکومت کو اپنی طرف سے سبسڈی دینے کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟یہ سوالات بہر حال حکومت سے پوچھے جانے کے لائق ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ دہلی کے لوگ دو سے تین گنا مہنگی شرح پر بجلی خرید رہے ہیں اور کمپنیاں مسلسل کافی منافع بٹور رہی ہیں۔ اگر خسارے کی دلیل صحیح ہے تو حکومت کو بجلی کی ترسیلی کمپنیوں سے صحیح تفصیلات پیش کرنے کو کہنا چاہئے تھا۔ ساتھ ہی کیگ سے ان کے حساب کتاب کی جانچ کرائی جانی تھی۔ لیکن بار بار مطالبہ اٹھنے کے باوجود شیلا دکشت حکومت اس کے لئے کبھی راضی نہیں ہوئی۔ الٹے وہ انہیں سینکڑوں کروڑ روپے کے مددسے پیکیج مہیا کرانا ضروری سمجھتی رہیں۔اب اس کے پیچھے کیا مفاد وابستہ ہے یہ وہی واضح کر سکتی ہیں تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات کو ذہن میں رکھ کر جو سبسڈی دی جائے گی، اس کی بھرپائی آخر کار دوسرے اشیاء میں لوگوں سے وصول کئے گئے ٹیکس سے ہی ہوگی یہ راحت ہے یا سرکاری خزانے سے کمپنیوں پر مہربانی کی ترکیب؟
پرائیویٹ کمپنیوں نے اس سال بھی 6600 کروڑ کا خسارہ بتا کرریٹس بڑھانے کی دلیل دیا تھا۔ جب 2002 میں نجکاری ہوئی تھی، اس وقت 1200 کروڑ کا سالانہ خسارہ تھا۔ دس سال میں خسارہ پانچ گنا سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ نجکاری سے پہلے نقصان کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ 60 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ اب ٹی اینڈ ڈی لسیج 20 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک فیصد چوری رکے تو 100 کروڑ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ 40 فیصد چوری رکی تو ہر ماہ 4000 کروڑ کی اضافی آمدنی ہو گئی۔ گزشتہ دس سال میں اگر ان کمپنیوں کو دس گنا مہنگی بجلی بھی خریدنی پڑ رہی ہو تو اس خسارے کی تلافی تو صرف بجلی چوری رکنے کی آمدنی سے ہی ہو جاتی ہے۔ عوام جانتی ہے کہ پچھلے دس سال میں بجلی کا بل بھی 8 سے 10 گنا بڑھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے خسارے کی تلافی کرنے کے لئے بھی ان کمپنیوں کو 5000 کروڑ سے زیادہ کی مدد کی ہے۔دہلی برقی بورڈ کی ساری جائیداد کوڑیوں کے دام دینے کا معاملہ تو الگ ہے ہی۔ ان سب کے باوجود اگر پرائیویٹ کمپنیاں 6600 کروڑ سالانہ کا نقصان کرتی ہیں تو ہر آدمی کا شک بڑھے گا ہی۔
یہ شک اس لئے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتیں۔سی آئی سی نے ان کمپنیوں کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے کا حکم دیا تو عدالت سے اسے رکوا دیا گیاآج تک رریگولیٹری بیلنس شیٹ باہر نہیں آئی۔حکومت اور ڈی ای آر سی کے کردار ان شبہات کو اور بڑھاتی رہی ہے۔بجلی کے ریٹ بڑھنے سے پہلے ہی حکومت کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا تھا کہ ریٹ بڑھ سکتے ہیں،بڑھ بھی گئے۔ ریٹ بڑھنے کے بعد حکومت پلو جھاڑ لیتی ہے کہ ڈی ای آر سی تو خود مختار تنظیم ہے۔ مگر جب ڈی ای آر سی کبھی ریٹ کم کرنے کا حکم تیار کرتا ہے تو حکومت اسے یہ حکم جاری کرنے سے روک دیتی ہے۔ظاہر ہے، یہ پہلے کی کئی اضافہ سے پیدا ہو رہے عوامی ناراضگی کو تھوڑا کم کرنے، متوسطہ طبقہ کو لبھانے اور اگلے اسمبلی انتخابات میں حزب اختلاف کے اسے ایشو بنانے کے پیش نظر حکومت نے یہ طریقہ کاایجاد کیا ہے۔
عدالت میں حکومت کی یہ دھاندلی غیر قانونی تو ثابت ہوتی ہے لیکن ریٹ کم نہیں ہوتے۔ بجلی ریٹس کے معاملے میں حکومت کی حالت ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی پیٹرول کی قیمتوں پر مرکزی حکومت کی ہے ۔چلمن کے پیچھے بیٹھ کر اشارے جاری ہیں اور یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔ڈی ای آر سی کے صرف ایک صدر ہی یہ ثابت کر پائے کہ یہ ادارہ عوام کے مفادات کے لئے بنائی گئی ہے۔ برجیدر سنگھ نے بجلی کمپنیوں کے خسارے کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ منافع میں چل رہی ہیں لیکن ان کی ایک نہیں چلی شک کے بادل اس بار اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ڈی ای آر سی نے ریٹس بڑھانے کا مکمل حکم ہی جاری نہیں کیا، جس کی وجہ بھی بتائے جائیں۔بس، نئے ریٹس کا فرمان جاری ہو گیا حکومت نے گزشتہ سال سی اے جی تحقیقات کا وعدہ تو کیا تھا لیکن پورا نہیں۔ عوام نجکاری کے فوائد حاصل کرنے کی بجائے پرائیویٹ اجارہ داری کی شکار ہو رہی ہے۔ بجلی جیسی ضروری خدمات کے ریٹ ایسے بڑھ رہے ہیں جیسے وہ عیش و آرام کی چیز ہو۔اس پر کوئی جوابدہی بھی طے نہیں ہے اس شہر میں ہر شخص سے پوچھ رہا ہے کہ آخر ریٹکیوں و بڑھ رہے ہیں۔یہ کمپنیاں منافع کمانے کے لئے آئی ہیں، یہ تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن عوام کو بھی یہ جاننے کا حق ملنا چاہیے کہ آخر اس فائدہ کی کتنی حد ہوگی۔
2003 میں جب بجلی کا پراویٹائزیشن ہوا تھا، اس وقت عوام سے لبھاونے وعدے کئے گئے تھے۔کہا گیا تھا کہ اگر بجلی کی چوری رک گئی تو بجلی کے ریٹ بڑھنے کی بجائے کم ہونے لگیں گے۔ بجلی چوری 60 فیصد سے 15۔20 فیصد تک آ چکی ہے جبکہ بجلی کے ریٹ کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ اس سیاجارہ داری ختم ہوگی اور 2009 سے دہلی میں کئی بجلی کمپنیاں دستیاب ہونگی۔ فون کی طرح جو کمپنی معقول خدمت دے، اسی سے بجلی کا کنکشن لے لو۔ ایسا کچھ نہیں ہوا، عوام تیز میٹروں کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے نیٹ ورک میں الجھتے چلے جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کے کام کاج کی مسلسل جائزہ لیا جائے گا لیکن آج تک جائزہ کے نام پر وزیر اعلی کی گھڑکیوں کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا کمپنیوں پر پنالٹی لگائی جا سکتی ہے لیکن آج تک ایسا سوچا بھی نہیں گیا۔ ابھی گذشتہ سال ستمبر سے 22 فیصد ریٹ بڑھائے گئے تھے اور اب فیول چارجز کے نام پر پھر سے عوام سے وصولی کی جائے گی۔ہو سکتا ہے کہ ایم سی ڈی انتخابات میں شکست کے جھٹکے اور اگلے سال اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے دو سال تک بجلی کے ریٹ نہ بھی بڑھیں لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی یہاں یہ سوال فطری ہے کہ آخر کمپنیاں خسارے کا سودا کیوں کریں۔ کمپنیاں سرکاری محکمہ نہیں بن سکتیں کہ سالوں سال نقصان بھی اٹھاتی رہیں اور سروس بھی دیتی رہیں۔
بات سچ ہے لیکن یہاں سب سے بڑا شک تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ کمپنیاں خسارے میں ہیں؟ کمپنیوں کی جانچ بلکہ انکوائری ہونی چاہئے۔دہلی کابینہ نے تجویز پاس کی ہے کہ کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی 2003 سے ہی سی اے جی جانچ ہونی چاہئے لیکن تحقیقات نہیں ہوئی۔بجلی کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی بنیاد پر ریٹ بڑھانے کی ذمہ داری جس کے ہاتھوں میں دی گئی ہے، اس نے ہی سارے معاملے کو تعطل میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ڈی ای آر سی کے سابق صدر کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں منافع کما رہی ہیں اور بجلی کے ریٹ بڑھانے کی بجائے گھٹانے چاہئے لیکن جیسے ہی وہ صدر اپنی مدت مکمل کرکے جاتے ہیں، نئے صدر کو گھاٹا ہی گھاٹا دکھائی دیتا ہے۔ریٹ بڑھنے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور اکاؤنٹس کی جانچ سی اے جی بھی بائلنس میں ہے۔
گزشتہ دنوں کئی انکشافات ہو چکے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں کس طرح من مانے طریقے سے طے کی جاتی رہی ہیں۔ خاص طور پر عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے اس بارے میں بہت سے حقائق پیش کرتے ہوئے حکومت پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات لگائے ہیں۔ لیکن اس طرح کے الزامات کے بعد حکومت نے ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کرلی ہے اور لوگوں پر ایک اور اضافہ مسلط کئے جانے پر چپی سادھے ہوئے ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے ماہر اقتصادیات ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی بھی خاندان کی آمدنی کے مطابق ہی دوسرے اخراجات کے ساتھ ساتھ بجلی کی کھپت بھی کنٹرول کرتا ہے۔ لیکن تقریبا پانچ ماہ پہلے وزیر اعلی شیلا دیکشت نے دہلی کو مہنگی بجلی سے بچنے کے لئے بجلی کی کھپت میں کمی کرنے کی صلاح دے ڈالی تھی۔ لیکن کمپنیوں کو کوئی ہدایت دینے کی ضرورت انہوں نے کبھی نہیں سمجھی۔ جہاں جائز شکایات پر حکومت کا یہ رویہ ہو، وہاں امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
خسارے کی تلافی کے لئے حکومت نے پہلے 3500 کروڑ روپے دیے، بجلی چوری بھی رک گئی، ریونیو بھی بڑھ گیا، حکومت نے حال ہی میں 500 کروڑ کا بیلاٹ پیکج بھی دے دیا۔ پھر بھی کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ حکومت اور ڈی ای آر سی دونوں ہی عوام کے حق میں کھڑے ہونے کی بجائے پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کہنے کو ڈی ای آر سی خود مختار ادارہ ہے لیکن اس کے صدر اور رکن حکومت منتخب کرتی ہے تو وہ بھی حکومت کے سامنے جوابدہ نظر آتے ہیں، عوام کے نہیں۔ تو کیا ایسیپراٹائزیشن سے توبہ ہونا ضروری ہے؟ حکومت نے اپنے کام پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپے ہیں اور پرائیویٹ کمپنیاں فائدہ کمائیں گی ہی لیکن ایسی خیال بن گئی ہے کہ بجلی کے معاملے میں عوام کا حق نہیں سنا جا رہا۔پرائیوٹائزیشن سے مواصلات انقلاب تو ہوئی ہے لیکن دہلی کے عوام بجلی انقلاب نہیں دیکھ پا رہی ہے۔
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں