پیر، 2 اکتوبر، 2017

ٹام جس دیس سدھارے ۔۔۔ وہاں ظفر، غالب اور آزاد سے ضرور ملنا !

محمد علم اللہ 
یہ کم بخت کینسر ایسا مرض ہے، جو اکثر جان لے کر پیچھا چھوڑتا ہے۔ اب اس نے تھیٹر اور فلم کی دنیا کے لیجنڈ اور مایہ ناز اداکار ٹام آلٹر کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔ 
ٹام آلٹر کی وفات کی اطلاع ملی تو تھوڑی دیر کے لیے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اول اول جب یہ خبر دیکھی تو لگا کہ یہ افواہ ہوگی، جو بس ایسے ہی اڑا دی گئی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کل ہی تو ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اتنی جلدی وہ کیسے جا سکتے ہیں؟ تصدیق کے لیے انٹرنیٹ کھولا تو دیکھا کہ نو منٹ قبل ٹائمس آف انڈیا نے یہ خبر دی ہے کہ سچ مچ میں اب ٹام آلٹر نہیں رہے۔ خبر پڑھتے ہی بس دل سے یہی نکلا "خدایا ! ٹام کی روح کو شانتی دے!!!
ٹام سے میری کوئی ایسی گہری شناسائی نہیں تھی کہ میں ان کے بارے میں کچھ لکھتا ،لیکن ان کے انتقال کی خبر کے بعد ان کے ذریعے ادا کئے گئے ڈرامے اور مکالمات بہت یاد آئے اور انگلیاں خود بخود ہی کی بورڈ پر گویا محوِ رقص ہو گئیں ۔
مجھے دو تین پروگراموں میں ٹام آلٹر کے ڈرامے دیکھنے اور ایک آدھ مرتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ان سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ تب سے ٹام سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی۔ وہ میرے پسندیدہ اداکاروں میں سے ایک تھے اور دہلی میں جب کہیں ان کا پروگرام ہوتا، میں اس میں شرکت کی کوشش ضرور کرتا۔ ان کے پروگرام کو جتنی مرتبہ بھی دیکھتا طبیعت کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور بے چین طبیعت کی تسکین کے لیے اکثر یوٹیوب پر ٹام کے دیگر کلپس کا سہارا لیتا۔
ٹام آلٹر سے میری یہ محبت شاید فن کی روح تک اتر جانے والے ان کے انفرادی جذبے کے علاوہ ان کی اردو دوستی کی وجہ سے بھی تھی۔ میرے لئے آج بھی اس منظر کو بھولنا بہت مشکل ہے، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کھچا کھچ بھرے انصاری آڈیٹوریم میں دو اداکار مولانا ابوالکلام آزاد اور ہمایوں کبیر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ بےاندازہ سکوت اور مدھم روشنی میں ڈراما جاری تھا۔
مولانا آزاد کے بہروپ میں شیروانی زیب تن کیے، لاٹھی ٹیکتے، نحیف مگر با رعب انداز میں ٹام آلٹر اسٹیج پر نمودار ہوئے تھے۔ اور اسی وقت سارا آڈیٹوریم تالیوں کی گونج کے ساتھ جاگ اٹھا تھا۔ دوسری طرف ایک ہیولا ہمایوں کبیر کے کردار میں محرر کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ مولانا آزاد کی زبان کھلی ہے اور پورا ماحول مہر بہ لب ہو گیا۔ مولانا آزاد اپنے مخصوص انداز میں "انڈیا ونز فریڈم" کا املا لکھوا رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے اردوئے مبین میں کسی الہامی کتاب کا نزول ہو رہا ہو۔
جامعہ کے وہ شرارتی لڑکے جو کسی کو اسٹیج پر زیادہ وقت ٹکنے نہ دیتے اور جن کی ہوٹنگ اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دیتی ہے ، حیرت انگیز طور پر ہمہ تن گوش ہو کے قائد ملت کے ایک ایک لفظ کو اپنے سینوں میں جذب کر رہے تھے۔ مولانا آزاد کے بہروپ میں ٹام آلٹر کی زبان سے کبھی بجلی کڑکتی دکھائی دیتی، کبھی ماحول پر غم کے بادل چھا جاتے، کہیں دلوں کو ان کی مسکراہٹ گدگداتی ، تو کبھی اچانک ساری فضا قہقہوں سے لالہ زار ہو جاتی۔ کہیں اپنوں کی نارسائیوں کا قصہ شروع ہوتا، تو کبھی غیروں کی دھوکے بازی اور دغا بازی کی المناک داستان سن کے آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔
علم و ادب کی شکل میں انوار رحمت برستی تو کبھی فصاحت و بلاغت کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔ تاریخ کے جھروکے وا ہوتے، تو کہیں چوٹ، درد، کسک کی صرصر عصیاں جیسا معلوم ہوتا۔ اس لمحے ایسا لگ رہا تھا، جیسے سچ مچ ٹام آلٹر کی صورت میں مولانا ابوالکلام آزاد فلک سے زمین پر اتر آئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ مولانا آزاد کو گزرے برسوں بیت گئے، اب ٹام آلٹر بھی آنجہانی ہوئے۔
ٹام آلٹر! آپ کے ذریعے ادا کئے گئے غالب کے اس کردار کو کیسے فراموش کیا جائے جب اٹھارہ سو ستاون کے غدر کا خوں آشام ماحول ہو اور آپ اس بے کسی ، بے بسی ، روتی بلکتی ، بین کرتی جنگ کی داستان سنا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اٹھارہ سو ستاون کی تاریخ نہیں پڑھی تھی ، انھیں آپ نے اپنی اداکاری کے ذریعہ اس عہد کی داستان گوش گذار کرائی، وہ بھی مرزا غالب کی زبان میں ۔ جب آپ مرزا غالب کا کردار ادا کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے واقعی درد، کرب ، کسک اور زمانے بھر کا دکھ لیے ہوئے مرزا اسد اللہ اس زمین پر اتر آئے ہوں ۔
ہم نے تو غالب کو محض کتابوں میں پڑھا تھا ، بزرگوں اور اساتذہ سے ان کے قصے سنے تھے ، ان قصوں میں زیادہ تر ان کی شراب نوشی ، عشق و عاشقی اور شعر گوئی کی باتیں بیان ہوتی تھیں لیکن جب غالب کے روپ میں اسٹیج پر ٹام آتے تو محسوس ہوتا جیسے دلی کی پوری تہذیب غالب کے ساتھ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ واپس لوٹ آئی ہے ۔ یہ ٹام کا اپنا انداز تھا ، ان کا اپنا اسٹائل تھا، وہ روح تک پہنچ جاتے تھے ۔ دلوں کو چھو لیتے تھے ۔
ٹام آلٹر کے ذریعے نباہے گئے مغل سلطنت کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے روپ کو کون فراموش کر سکتا ہے؟ جب انگریز ایک بوڑھے بادشاہ کو سزا دینے کی خاطر رنگون جیسی بے کیف جگہ قید کر کے رکھ چھوڑتے ہیں، ان کے دونوں بیٹوں کے سر کاٹ کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، پورے ہندوستان کو اس معزول بادشاہ کے سامنے یوں لوٹا اور تباہ کیا جاتا ہے جیسے کسی بچے کے سامنے اس کی ماں کی آبرو تار تار کی جاتی ہو، تب بادشاہ ایسے دشمنوں کی تکا بوٹی کر دینا چاہتا ہو مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے۔
اور صدیوں بعد جب ہندوستان کی بساط بدل چکی ہے، ہندوستان تین ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے، اتنے برسوں میں نجانے کتنی جانوں کا اتلاف ہو چکا ہے، ایسے ماحول میں ماضی کی داستان سننے کے لیے ایک لڑکا پھٹی پرانی جینز پہنے بہادر شاہ ظفر کے پاس پہنچتا ہے۔ اور ٹام آلٹر بہادر شاہ ظفر کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ہندوستان کی کہانی اسے سناتے ہیں، جس میں شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔ لیکن عیار اذہان کو یہ رویہ اچھا نہیں لگتا اور وہ توڑ پھوڑ کے ذریعے اس پورے تہذیبی نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر، بدلے حالات، نوجوان کے تلفظ اور تذکیر و تانیث سے ناآشنا ہندی زبان سن کر ششدر رہ جاتے ہیں، لیکن اس کی دل چسپی دیکھ کر کہانی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ صدیاں الٹی جاتی ہیں۔ تہذیبوں، روایتوں اور حقیقتوں کا تصادم ہوتا ہے، اکیسویں صدی میں لوگ وہ زبان سن رہے ہوتے ہیں جو قلعہ معلی میں بولی جاتی تھی، لیکن یہ قلعہ معلی زیادہ دیر نہیں سجتا، چراغ گل کر دیے جاتے ہیں، بہادر شاہ ظفر کہانی سناتے سناتے ابدی نیند سو جاتے ہیں، لڑکا بہت جگاتا ہے مگر وہ نہیں جاگتے اور پردہ گر جاتا ہے۔
ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمیں اپنے پرکھوں کی یاد دلانے والا آپ جیسا زندہ اداکار جو ہماری تاریخ سے خود ہم کو رُوشناس کرا رہا تھا، کہانی کہتے کہتے یوں سو جائے گا اور پردہ گر جائے گا۔
حق ہے کہ وہ پردے کے اس پار سے اب کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ سچ کہا ہے کسی کہنے والے نے کہ جانے والے تو چلے جاتے ہیں، صرف ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ سو اب صرف آپ کی یادیں ہی باقی ہیں۔
ٹام آلٹر! ہماری تہذیب اور تاریخ کی باقیات کی شکل میں آپ دیر تلک یاد رکھے جائیں گے۔ آپ کی فصیح لسان، شستہ لہجہ اور دل کش اندازِ بیاں۔ آپ کے چاہنے والے جو آپ کے فن کے رسیا ہیں، انھیں لگتا ہے کہ نیلی آنکھوں والا ٹام آلٹر مرا نہیں، ہنوز اداکاری میں مصروف بہ کار ہے۔ کاش ایسا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔
نہیں! اب ٹام نہیں آئیں گے، داستایں سنانے والی ان کی متحرک نیلی آنکھیں اب ساکت ہو گئی ہیں، اور یہی سچ ہے۔
مگر ذرا سننا! آپ جس دیس گئے ہیں وہاں غالب ، ظفر اور آزاد سے ضرور ملنا۔ اور غالب سے کہنا کہ جس دیس کی اٹھارہ سو ستاون میں ہوئی جنگ کی آپ نے داستان لکھی تھی اب وہاں روزانہ اٹھارہ سو ستاون کی غدر دہرائی جاتی ہے ۔ چچا غالب کو بتا دیجیے کہ دلی سے لاہور ، کلکتہ اور ڈھاکہ تک جس دیس میں خطوط لکھ لکھ کر یاری گانٹھا کرتے تھے اب وہ تین حصوں میں بٹ چکا ہے اور تینوں جانب بہت اونچی دیوارِ چین کی طرح باڑھ لگا دی گئی ہے۔ تینوں جگہ روزانہ جنگ ہوتی ہے۔
مگر بدقسمتی سے اب کوئی تاریخ نہیں لکھتا کیونکہ بصیرت رکھنے والے قلم کار ہی نہیں ہیں۔ آپ جسے ابلاغ کہتے تھے اب ابلاغ کے ذرائع کی فراوانی ہو گئی ہے ، مگر وہ سب چند گھرانوں کے بکے ہوئے مخصوص کھلونے ہیں۔اب آپ کے زمانے کی طرح وہاں قلم، دوات اور روشنائی کا چلن نہیں ہے۔ اب لوگ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ، ٹیب اور موبائل میں لکھتے ہیں، جس میں قلم ، دوات اور پنسل کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔فارسی اب صرف ایران تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ، آپ کا فارسی کلام تو دور کی بات، اردو کو ہی سمجھنے والے بہت محدود رہ گئے ہیں۔ اب وہاں آپ کی طرح نہ تو کوئی خطوط لکھتا ہے اور نہ ہی بغاوت اور حالات کی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ اگر کوئی جانباز کچھ کوشش بھی کرتا ہے تو اس کی انگلیاں کاٹ لی جاتی ہیں، سر قلم کر دیا جاتا ہے۔
آزاد سے بھی آپ ملیے گا اور انہیں ضرور بتا دیجیے کہ ان کا اب نام و نشان تک وہاں باقی نہیں ہے بلکہ جو کچھ بچا ہے اسے بھی مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جس فاشزم اور ملک دشمن عناصر سے وہ زندگی بھر لڑتے رہے تھے اب انہی قوتوں نے وہاں ڈیرا جما لیا ہے جو روزانہ ملک کے جسم و جاں کی توہین بالجبر کر رہے ہیں ۔ ان کو ضرور بتانا کہ جس اردو کی وہ زندگی بھر دہائی دیتے رہے اور جس زبان میں انہوں نے آزادی کا صور پھونکا تھا اسے دیش نکالا جا چکا ہے ۔ ان کے جانے کے بعد جامع مسجد دہلی کے بغل میں ان کا مقبرہ بنایا گیا تھا ، جہاں اردو میں ان کا نام بھی غلط لکھا گیا، شاید اسی وجہ سے ہندوستان کے بچارے کتوں کو بھی نہیں پتہ کہ وہ جہاں لڑتے ، جھگڑتے اور غراتے ہیں وہاں دراصل سویا ہوا کون ہے؟ وہ تو مقبرے میں گھس کر بول و بزار بھی کر جاتے ہیں لیکن انھیں کوئی نہیں بھگاتا۔
اور ہاں ٹام ! آپ کو اللہ کا واسطہ، بہادر شاہ ظفر کو کچھ بھی مت بتانا ورنہ وہ دکھیارا انسان ایک مرتبہ پھر جیتے جی مر جائے گا۔ اب تک وہ اپنے دکھ کی داستان کو شاید بھول چکے ہوں گے، لہذا آپ خدارا ادھر سے گذرنا بھی مت کہ ان کی نظر کہیں آپ پر نہ پڑ جائے ۔
اور اگر ان سے ملاقات کے لئے آپ کا دل اتنا ہی بےچین ہو جائے تو ازراہ کرم کنی کاٹنے کی کوشش کیجیے گا ، مگر مجھے پتہ ہے آپ سے ایسا ہوگا نہیں اور آپ ان سے بہرصورت مل بیٹھیں گے ۔ ٹھیک ہے مل لیجیے گا مگر للہ شکوہ شکایت مت کیجیے ، ہندوستان کے موجودہ حالات کے بارے انہیں کچھ مت بتائیے گا۔ اگر وہ کرید کرید کر کچھ پوچھیں بھی تو انہیں صرف ویسی ہی اچھی اچھی باتیں بتائیں جیسے ہمارے عزت مآب وزیراعظم صاحب اپنے عوام کو بتاتے ہیں۔
انھیں بتائیے کہ وہاں بہت خوشحالی ہے ، ان کے جانے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان چھوڑ دیا، پھر ان میں سے تین بھائیوں نے اپنے اپنے خوبصورت محل تعمیر کرا ئے ، تینوں کے بہت اچھے آپسی تعلقات ہیں، وہ بہت ہنسی خوشی رہتے ہیں ، تینوں جگہ خوب خوب ترقی ہوئی ہے ، ہر جگہ امن اور سکون کا ماحول ہے۔ اب انگریزوں کے زمانے جیسا انارکی اور بد امنی کا ماحول نہیں ہے ۔ اب آپ کے زمانے کی طرح ٹم ٹم اور بگھی نہیں چلتی ، کہار ڈولی نہیں ڈھوتے ،گھوڑے اور ہاتھیوں کو زحمت نہیں دی جاتی اب ہر جگہ سکون ہی سکون ہے ، اب تینوں جگہ ہوائی جہاز ، بلٹ ٹرین اور میٹرو دوڑ رہی ہیں ۔
اور ہاں انھیں یہ بھی بتا دیجیے کہ ابھی کچھ دن قبل ہمارے عزت مآب وزیر اعظم صاحب نے رنگون کا دورہ کیا تھا ، جہاں آپ کا مزار ہے، وہاں انھوں نے مزار پر پھول چڑھائے اور آپ کو بہت یاد کیا۔ وہاں آپ کو سب بہت یاد کرتے ہیں۔
***
alamislahi[@]gmail.com
موبائل : 09911701772
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025

۔۔۔مزید