پیر، 18 دسمبر، 2017

لکھنے والے کی کامیابی کیا ہے؟


میں کیوں لکھتا ہوں ؟
 محمد علم اللہ 
جامعہ ملیہ، دہلی
تقریبا ایک سال پہلے کی بات ہے۔ معروف پاکستانی ادیب نعیم بیگ صاحب نے اردو پروگریسیو رائٹنگ فیس بک پیج پرتمام لکھنے والوں سے ایک سوال کیا تھا، کہ وہ کیوں لکھتے ہیں؟
ایک بڑے لکھاری یا ادیب کے پاس تو اس سوال کا جواب دینے کے لیے بہت کچھ مواد ہوتا ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہوتا ہے اور تجربات بھی اور انھوں نے دنیا دیکھی ہوتی ہے، ایسے جہاں دیدہ افراد اس سوال کے جواب میں اگر کچھ لکھیں تو وہ یقینا ایک کارآمد چیز ہوتی ہے۔ نوآموز قلم کاروں کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے اور ان کی تحریروں کے آئنے میں خود کو جانچنے پرکھنے کا موقع بھی ہاتھ آتا ہے۔
اس لیے مجھے بجا طور پر یہ احساس ہوا کہ اگر ان کی طرح میں بھی کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں تو یہ یقینا ’چھوٹا منہ بڑی بات والی‘ کسی قسم کی کوئی چیز ہوجائے گی اور میں اس کے لیے خود کو کسی بھی قیمت پر راضی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن نعیم بیگ صاحب نے کئی مرتبہ مجھے تاکید کی، کہ اس سوال کے ضمن میں، میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔
اب میں اسے ان کی خورد نوازی سمجھوں یا اپنے لیے بے بہا محبت یا پھر سعادت کی بات تصور کروں، اب میں اسے جو کچھ بھی خیال کروں، پر اپنے تئیں یہ ضرور خیال کرتا ہوں کہ میرے لیے بزرگوں کی بات ٹالنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ اور بس اسی نکتے کے سہارے میں ایک دن اپنی تمام تر مصروفیات اور عذر ہائے لنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے متفرد خیالات کو مجتمع کرنے بیٹھ گیا اور لشتم پشتم کسی نہ کسی طرح اپنے لکھنے کے اسباب و وجوہات انھیں لکھ کر بھیج دیں۔
پھر یوں ہوا کہ بات آئی گئی ہوگئی، نہ انھوں نے کچھ توجہ کی اور نہ میں نے کچھ استفسار کیا، مگر اس فیس بُک کا ہم کیا کریں جو ہمارے رطب و یابس کو بار بار ہمارے سامنے لاتا رہتا ہے یا پھر یوں کَہ لیجیے، کِہ منکر نکیر کی طرح آپ کو آپ کا نامہ اعمال جو آپ نے خود لکھ رکھا ہے دکھاتا رہتا ہے۔ لہذا آج بھی اس نے ایک سال قبل لکھی گئی میری بے ربط تحریر کو میرے سامنے کردیا اور آج جب میں نے اس بے ربط تحریر کو سرسری نظر سے دیکھا تو مجھے خیال گزرا کہ کیوں نہ اسے تھوڑے بہت حذف و اضافے کے ساتھ اشاعت کے قابل بنادیا جائے۔
سو قارئین میں کیوں لکھتا ہوں، اس کی کہانی بھی آپ سن لیجیے۔ کہانیاں تو آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں، آج لکھنے کے پیچھے کی کہانی یا کہانیوں کے پیچھے کی کہانی بھی پڑھ لیجیے۔ میں کیوں لکھتا ہوں؟ اس سوال کا جواب یقینا خاصہ مشکل ہے۔ کیوں کہ میں خود بھی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر میں لکھتا ہی کیوں ہوں؟
سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود کو جواب نہیں دے پاتا اور اسی سے اس سوال کی مشکلات کا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، کہ جس سوال کا جواب آدمی خود ہی کو نہ دے پائے کسی اور کو کس طرح بیان کر سکتا ہے یا کس حد تک درست جواب دے سکتا ہے۔
شاید بات کو یوں شروع کرنا درست ہوسکے کہ لکھنے کا عمل ایک ملکہ ہے یا ہنر ہے اوریہ سب کو عطا نہیں ہوتا بلکہ جس کو عطا ہوتا ہے اس کی بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ جیسے اس کو بھی اس ہنر پر پوری قدرت یا اختیار نہیں ہوتا۔ ہر لکھنے والے کو لکھنے پر قدرت تو گرچہ ہمہ وقت رہتی ہے مگر اس کے اسباب، محرکات اور داعیات اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے۔ اسی لیے ایسا ہوتا ہے کہ وہ لکھتا ہے تو بہت لکھتا اور نہیں لکھ پاتا تو جانتے بوجھتے بھی کچھ نہیں لکھ پاتا۔
کبھی تو خیا لات، احساسات اور جذبات کا بہاؤ اس قدر ہوتا ہے کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے؛ ایک دم بے کل۔ اس وقت کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا، بس قرطاس چاہیے اور قلم۔ کبھی تو ہفتوں بلکہ مہینوں گزر جاتے ہیں، ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ پاتے۔ جی ہاں! کبھی کبھار تو ایک سطر بھی نہیں اور ایسی ہر لحظہ متغیر کیفیت میرے ساتھ بہت رہتی ہے۔ جسے میں محسوس تو کرتا ہوں مگر بیان نہیں کر پاتا۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ لکھنے کے فن پر قدرت تو ہوتی ہے مگر اظہار پر یا بیان پر قدرت نہیں ہوتی۔ یہ ایام میر ے لیے انتہائی اذیت ناک ہوتے ہیں۔ شاید ہر لکھنے والے کے لیے ہوتے ہوں!
اللہ نے طبیعت بھی کچھ ایسی بنائی ہے کہ معمولی شورو شغب حتی کہ گپ شپ کی آواز بھی زہر معلوم ہوتی ہے، کبھی پنکھے کے چلنے سے بھی پریشان ہو جاتا ہوں، لیکن اس کے برعکس کبھی شدید گرمی ہے، پنکھا بھی نہیں چل رہا مگر لکھنے، پڑھنے میں مصروف ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس ماحول پر سکون چاہیے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نہ ناشتا کیا اور نا کھانا کھایا بس بیٹھے لکھ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ تھک گئے تو سو گئے، جب احساس ہوا تو کھا لیا۔ سرھانے قلم اور پنسل رکھے ہوئے ہیں کہ جانے کب کوئی خیال آ جائے، کئی مرتبہ پوری غزل، نظم، افسانہ اور مضمون مکمل خواب میں آیا اور جب بیدار ہوئے تو لکھ لیا۔ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ اس کو لوگوں نے کتنا پسند کیا، کتنا سراہا مگر ایسا ہوا۔ خیالات کی آمد کا کوئی ٹھکانا نہیں، کبھی نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ خیال آ گیا، کبھی احباب سے بات کر رہے ہیں کہ اچانک کچھ نکتہ ابھرا اور جی لکھنے کے لیے مچلنے لگا، کبھی راہ چلتے، کبھی بس یونھی بیٹھے بیٹھے، کبھی بلا مقصد ایسے ہی لکھنا شروع کر دیا۔
میرے اکثر احباب میرے اس انداز کو جان بوجھ کر ان سے تجاہل برتنے والا عمل گردانتے ہیں اور ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن میں انھیں کیسے یقین دلاؤں کہ وہ میرے لیے کتنے محترم ہیں اور میں انھیں کتنا چاہتا ہوں۔ میرے احباب ہی تو میرا سرمایہ ہیں، لیکن کبھی کبھی مجھے سامنے کی دنیا نظر ہی نہیں آتی، میں کہیں اور ہوتا ہوں اور ایسے میں کسی دوست کو دھیان نہ دے سکوں تو میرا کیا قصور ہے!
میں اپنی اس مجبوری کی وجہ سے اپنے کئی معزز احباب کو کھوچکا ہوں، جس کا مجھے غم ہے لیکن جو احباب میرے بارے میں جانتے ہیں، وہ میرے ناز نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اور میری بہت ساری چیزوں کا خیال رکھتے ہیں جو میرے لیے یقینا افتخار کا باعث ہے۔ میں اس قدر ٹوٹ کر چاہنے والے احباب کا زندگی بھر قرض دار رہوں گا۔ کبھی کبھی میں زندگی سے دل برداشتہ ہوتا ہوں تو ایسے ہی احباب کی محبتیں مجھے جینے کا سامان فراہم کرتی ہیں، جو میرے دکھ درد، خوشی اور غم میں ہمیشہ شریک رہتے ہیں۔
جہاں تک لکھنے کے محرکات یا اسباب کی بات ہے تو ایک حساس انسان کے لیے دکھ، درد، کسک، بے بسی، ظلم، نا انصافی اور استحصال سے بڑھ کر اور کیا چیزیں ہوں گی جو اسے کچھ کرنے پر مجبور کریں۔ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتا اسی لیے لکھتا ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اپنے اس شوق کی خاطر مار بھی کھائی ہے اور نقصان بھی اٹھایا ہے۔ میں خود کتنی ہی مرتبہ قسم کھاتا ہوں کہ اب نہیں لکھوں گا بھلا اس سے مجھے کیا فائدہ ہو رہا ہے لیکن دل نہیں مانتا اور کچھ دنوں کے بعد مجھے پھر سے اپنی قسم توڑنا پڑتی ہے۔
میں دنیا میں پھیلے دکھ، درد اور بے چینی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہوں، اپنی بساط بھر ان کے لئے کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں، لیکن ساری چیزیں سب کے بس میں نہیں ہوتیں، اگر میں ظلم کرنے والوں کے خلاف، کسی کا حق غصب کرنے والوں کے خلاف، کسی کو دکھ اور تکلیف دینے والوں کے خلاف تلوار لے کر نکل جاؤں تو میں اسے قتل نہیں کر سکوں گا، بلکہ تلوار لے کر نکلنا مجھ سے ہوگا ہی نہیں، تو پھر میں کیا کروں؟ کیا میں اپنا سر پیٹ لوں؟ خود کو ہلاک کر لوں؟ یا پھر پوری دنیا کو آگ لگا دوں؟ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ شاید یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے، تو پھر میں ان کے خلاف قلم سے مورچہ سنبھال لیتا ہوں۔ اس ظلم کے خلاف اپنی تحریروں سے علم بغاوت بلند کرتا ہوں۔ جھوٹ اور غلط کا احساس دلا کر لوگوں کو کچوکے لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کے احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ میں یہ کر سکتا ہوں اور بہت آسانی سے کرسکتا ہوں۔ تو جو میں کرسکتا ہوں وہی تو کروں گا اور مجھے وہی کرنا بھی چاہیے۔
بلاشبہ کبھی کبھی پیشہ ورانہ ضرورتیں بھی لکھنے پر مجبور کرتی ہیں، چوں کہ ہمارا پیشہ بھی حرف و قلم سے جڑا ہے تو ہمارے لکھنے کے سبب میں یہ لکھنا بھی لازم ٹھیرا کہ ہمارے لکھنے کا ایک محرک پیشہ بھی ہے یا پیسا بھی ہے۔ تاہم یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پیشہ ور تحریریں لکھنے میں مزا نہیں آتا اور کبھی کبھی تو ہمارا ضمیر بھی ہمیں ملامت کررہا ہوتا ہے کہ یہ کیا لکھ رہے ہو اور کیوں لکھ رہے ہو؟ ایسے موقع پر بہت خوف آتا ہے اور اس معنی میں بھی آتا ہے کہ کل خدا کے حضور کیا جواب دوں گا! لیکن پھر بھی اگر قلم کار کے پاس تازہ افکار ہیں اور وہ بصیرت رکھتا ہے تو ایسے موقع پر بھی وہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا دامن بچا لے جاتا ہے۔
’ای ٹی وی نیوز نیٹ ورک‘ میں ایسا بہت ہوا، اور میں واحد اِڈیٹر تھا جس کی لڑائی ہمیشہ حق کے لیے ہوتی تھی۔ حالاں کہ وہاں بھی میرے بہت سارے ایسے خیرخواہ تھے جو مجھے ڈانٹتے تھے، کہ تمھارا یہ رویہ تمھیں نوکری سے بے دخل کر سکتا ہے لیکن میں جتنے دن بھی وہاں رہا اپنے اصولوں پر قائم رہا اور جس دن مجھے لگا کہ اب میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے کہ میرا یہ ماننا ہے رزق کا مالک اللہ ہے اور اگر آپ حق پر ہیں تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑسکتا۔
میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں پیسے کے بل پر اسٹوری کو انتہائی مثبت اور کہانی کو بہت منفی ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ نیوز چینل میں کام کے وقت زیادہ تر اسکرپٹ میں ہی دیکھتا تھا۔ اس وقت بابا رام دیو کا اشتہار تقریبا سارے چینلوں کو مل رہا تھا، سوائے اس چینل کے جہاں ہم کام کر رہے تھے۔ چینل کے ذمہ داران نے بہت کوشش کی کہ بابا رام دیو کا اشتہار ان کے چینل کو بھی ملے، مگر انھوں نے منع کردیا۔ اب چینل نے ایک دوسرا حربہ اختیار کیا، کہ بابا رام دیو اور پتنجلی مصنوعات کے خلاف اسٹوری چلانا شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ اسٹوری مکمل طور پر ڈیسک پر تیار کی جارہی تھی اور پوری کی پوری جھوٹ یا دروغ گوئی پر مبنی تھی۔ انتظامیہ نے مجھ سے بہت چاہا کہ یہ سلاٹ میں کروں لیکن میں نے صاف منع کردیا۔ بعد میں بابا رام دیو کو جھکنا پڑا اور انھوں نے اس چینل کو بھی اشتہار دینا شروع کر دیا۔ پھر چینل کا رخ ایک دم بدل گیا۔
اس طرح دہلی کے ایک اردو اخبار کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ہمدرد دواخانہ والوں نے اردو کے کئی بڑے اخبارات کو اشتہار دیا۔ ہم جہاں کام کرتے تھے اس اخبار کو اشتہار نہیں ملا، اب اِڈیٹر نے مجھے حکم صادر کر دیا کہ میں ”ہمدرد“ کے خلاف منفی خبریں لکھوں۔ اس وقت بھی میں نے معذرت کرلی، جب کہ اسی اخبار کے ایک صحافی نے ایسی ایسی فرضی خبریں بنائیں کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگا۔ اسی صحافی نے دیوبند کے کسی حکیم یا ڈاکٹر کے حوالے سے (مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے سچ مچ میں ان سے بات کی تھی یا خود سے ہی بہت ساری باتیں گڑھ لیں تھیں) خبر بنائی کہ ”ہمدرد“ کے معروف شربت ”روح افزا“ کے استعمال سے آنکھ کی بینائی جاسکتی ہے۔ اس صحافی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سلسلے وار اس پر اتنا لکھا کہ ”ہمدرد“ والوں کو اشتہار دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اس طرح کی مہموں میں کبھی شریک نہیں رہا۔ سر تا سر مادی نقطۂ نظر سے میں کہ سکتا ہوں کہ میں نے نہ لکھنے کی وجہ سے بھی خاصہ نقصان اٹھایا ہے، حالاں کہ یہ فی الحقیقت نقصان نہیں ہے۔
ایک طرف ایسا ہے کہ بہت سے لوگوں کو میری تحریروں میں ان کا دکھ درد نظر آتا ہے، جیسے میرا قلم ان کی ترجمانی کررہا ہے اور دوسری طرف ایسا بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو مجھ سے خفت بھی ہوجاتی ہے۔ چوں کہ ہمارے معاشرے میں منافقین کی کمی نہیں ہے۔ وہ عام زندگی میں کچھ اور دکھائی دیتے ہیں اور ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، زمینی سطح پر ایسے بہت سے لوگوں کی جھوٹی سچی کہانیاں مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی بھی ہیں، کچھ چیزوں کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں اورکچھ کو قلم و قرطاس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جس کی کہانی لکھی جائے گی اگراس کی حقیقت بیان کردی گئی تو وہ نارض ہو جائے گا اور کہے گا کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلیں اور الٹا لکھنے والے کو مارنے کی دھمکی دیتے ہیں یا پھر لالچ دیکر اس کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سب دیکھتے ہیں کہ ایسے افراد کی تعداد ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔
ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہم سے بہت بعد میں اپنے کیریر کا آغاز کیا، آج ان کے پاس اپنا مکان ہے، ان کی اپنی گاڑیاں ہیں اور خطیر رقم کا بینک بیلنس ہے۔ جب کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی لکھنے لکھانے میں لگادی، لیکن مادی لحاظ سے وہ کیریر کی ابتدا کے وقت جہاں تھے سالہا سال بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں نے علمی سطح پر اپنی پہچان ضرور بنائی ہے مگر علم کو کون پوچھتا ہے، ہندستانی تو گھوڑے گاڑیاں ہی دیکھتے ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ جلد یا بدیر لوگوں کو ان کے بارے میں علم ہو ہی جاتا ہے بلکہ ان کے انداز و اطوار سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ بکے ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے متاع علم و قلم کا سودا کیا ہوا ہے۔ لہذا زندگی کے اگلے مرحلے میں ایسے افراد کو وہ محبت نہیں مل سکتی یا نہیں ملتی جو ایک حق گو صحافی یا لکھاری کو ملتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک لکھاری کی یہی کامیابی ہے۔


۔۔۔مزید

پیر، 2 اکتوبر، 2017

ٹام جس دیس سدھارے ۔۔۔ وہاں ظفر، غالب اور آزاد سے ضرور ملنا !

محمد علم اللہ 
یہ کم بخت کینسر ایسا مرض ہے، جو اکثر جان لے کر پیچھا چھوڑتا ہے۔ اب اس نے تھیٹر اور فلم کی دنیا کے لیجنڈ اور مایہ ناز اداکار ٹام آلٹر کو ابدی نیند سلا دیا ہے۔ 
ٹام آلٹر کی وفات کی اطلاع ملی تو تھوڑی دیر کے لیے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اول اول جب یہ خبر دیکھی تو لگا کہ یہ افواہ ہوگی، جو بس ایسے ہی اڑا دی گئی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کل ہی تو ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اتنی جلدی وہ کیسے جا سکتے ہیں؟ تصدیق کے لیے انٹرنیٹ کھولا تو دیکھا کہ نو منٹ قبل ٹائمس آف انڈیا نے یہ خبر دی ہے کہ سچ مچ میں اب ٹام آلٹر نہیں رہے۔ خبر پڑھتے ہی بس دل سے یہی نکلا "خدایا ! ٹام کی روح کو شانتی دے!!!
ٹام سے میری کوئی ایسی گہری شناسائی نہیں تھی کہ میں ان کے بارے میں کچھ لکھتا ،لیکن ان کے انتقال کی خبر کے بعد ان کے ذریعے ادا کئے گئے ڈرامے اور مکالمات بہت یاد آئے اور انگلیاں خود بخود ہی کی بورڈ پر گویا محوِ رقص ہو گئیں ۔
مجھے دو تین پروگراموں میں ٹام آلٹر کے ڈرامے دیکھنے اور ایک آدھ مرتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ان سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ تب سے ٹام سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی۔ وہ میرے پسندیدہ اداکاروں میں سے ایک تھے اور دہلی میں جب کہیں ان کا پروگرام ہوتا، میں اس میں شرکت کی کوشش ضرور کرتا۔ ان کے پروگرام کو جتنی مرتبہ بھی دیکھتا طبیعت کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور بے چین طبیعت کی تسکین کے لیے اکثر یوٹیوب پر ٹام کے دیگر کلپس کا سہارا لیتا۔
ٹام آلٹر سے میری یہ محبت شاید فن کی روح تک اتر جانے والے ان کے انفرادی جذبے کے علاوہ ان کی اردو دوستی کی وجہ سے بھی تھی۔ میرے لئے آج بھی اس منظر کو بھولنا بہت مشکل ہے، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کھچا کھچ بھرے انصاری آڈیٹوریم میں دو اداکار مولانا ابوالکلام آزاد اور ہمایوں کبیر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ بےاندازہ سکوت اور مدھم روشنی میں ڈراما جاری تھا۔
مولانا آزاد کے بہروپ میں شیروانی زیب تن کیے، لاٹھی ٹیکتے، نحیف مگر با رعب انداز میں ٹام آلٹر اسٹیج پر نمودار ہوئے تھے۔ اور اسی وقت سارا آڈیٹوریم تالیوں کی گونج کے ساتھ جاگ اٹھا تھا۔ دوسری طرف ایک ہیولا ہمایوں کبیر کے کردار میں محرر کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ مولانا آزاد کی زبان کھلی ہے اور پورا ماحول مہر بہ لب ہو گیا۔ مولانا آزاد اپنے مخصوص انداز میں "انڈیا ونز فریڈم" کا املا لکھوا رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے اردوئے مبین میں کسی الہامی کتاب کا نزول ہو رہا ہو۔
جامعہ کے وہ شرارتی لڑکے جو کسی کو اسٹیج پر زیادہ وقت ٹکنے نہ دیتے اور جن کی ہوٹنگ اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دیتی ہے ، حیرت انگیز طور پر ہمہ تن گوش ہو کے قائد ملت کے ایک ایک لفظ کو اپنے سینوں میں جذب کر رہے تھے۔ مولانا آزاد کے بہروپ میں ٹام آلٹر کی زبان سے کبھی بجلی کڑکتی دکھائی دیتی، کبھی ماحول پر غم کے بادل چھا جاتے، کہیں دلوں کو ان کی مسکراہٹ گدگداتی ، تو کبھی اچانک ساری فضا قہقہوں سے لالہ زار ہو جاتی۔ کہیں اپنوں کی نارسائیوں کا قصہ شروع ہوتا، تو کبھی غیروں کی دھوکے بازی اور دغا بازی کی المناک داستان سن کے آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔
علم و ادب کی شکل میں انوار رحمت برستی تو کبھی فصاحت و بلاغت کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔ تاریخ کے جھروکے وا ہوتے، تو کہیں چوٹ، درد، کسک کی صرصر عصیاں جیسا معلوم ہوتا۔ اس لمحے ایسا لگ رہا تھا، جیسے سچ مچ ٹام آلٹر کی صورت میں مولانا ابوالکلام آزاد فلک سے زمین پر اتر آئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ مولانا آزاد کو گزرے برسوں بیت گئے، اب ٹام آلٹر بھی آنجہانی ہوئے۔
ٹام آلٹر! آپ کے ذریعے ادا کئے گئے غالب کے اس کردار کو کیسے فراموش کیا جائے جب اٹھارہ سو ستاون کے غدر کا خوں آشام ماحول ہو اور آپ اس بے کسی ، بے بسی ، روتی بلکتی ، بین کرتی جنگ کی داستان سنا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اٹھارہ سو ستاون کی تاریخ نہیں پڑھی تھی ، انھیں آپ نے اپنی اداکاری کے ذریعہ اس عہد کی داستان گوش گذار کرائی، وہ بھی مرزا غالب کی زبان میں ۔ جب آپ مرزا غالب کا کردار ادا کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے واقعی درد، کرب ، کسک اور زمانے بھر کا دکھ لیے ہوئے مرزا اسد اللہ اس زمین پر اتر آئے ہوں ۔
ہم نے تو غالب کو محض کتابوں میں پڑھا تھا ، بزرگوں اور اساتذہ سے ان کے قصے سنے تھے ، ان قصوں میں زیادہ تر ان کی شراب نوشی ، عشق و عاشقی اور شعر گوئی کی باتیں بیان ہوتی تھیں لیکن جب غالب کے روپ میں اسٹیج پر ٹام آتے تو محسوس ہوتا جیسے دلی کی پوری تہذیب غالب کے ساتھ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ واپس لوٹ آئی ہے ۔ یہ ٹام کا اپنا انداز تھا ، ان کا اپنا اسٹائل تھا، وہ روح تک پہنچ جاتے تھے ۔ دلوں کو چھو لیتے تھے ۔
ٹام آلٹر کے ذریعے نباہے گئے مغل سلطنت کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے روپ کو کون فراموش کر سکتا ہے؟ جب انگریز ایک بوڑھے بادشاہ کو سزا دینے کی خاطر رنگون جیسی بے کیف جگہ قید کر کے رکھ چھوڑتے ہیں، ان کے دونوں بیٹوں کے سر کاٹ کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، پورے ہندوستان کو اس معزول بادشاہ کے سامنے یوں لوٹا اور تباہ کیا جاتا ہے جیسے کسی بچے کے سامنے اس کی ماں کی آبرو تار تار کی جاتی ہو، تب بادشاہ ایسے دشمنوں کی تکا بوٹی کر دینا چاہتا ہو مگر کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے۔
اور صدیوں بعد جب ہندوستان کی بساط بدل چکی ہے، ہندوستان تین ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے، اتنے برسوں میں نجانے کتنی جانوں کا اتلاف ہو چکا ہے، ایسے ماحول میں ماضی کی داستان سننے کے لیے ایک لڑکا پھٹی پرانی جینز پہنے بہادر شاہ ظفر کے پاس پہنچتا ہے۔ اور ٹام آلٹر بہادر شاہ ظفر کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ہندوستان کی کہانی اسے سناتے ہیں، جس میں شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔ لیکن عیار اذہان کو یہ رویہ اچھا نہیں لگتا اور وہ توڑ پھوڑ کے ذریعے اس پورے تہذیبی نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر، بدلے حالات، نوجوان کے تلفظ اور تذکیر و تانیث سے ناآشنا ہندی زبان سن کر ششدر رہ جاتے ہیں، لیکن اس کی دل چسپی دیکھ کر کہانی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ صدیاں الٹی جاتی ہیں۔ تہذیبوں، روایتوں اور حقیقتوں کا تصادم ہوتا ہے، اکیسویں صدی میں لوگ وہ زبان سن رہے ہوتے ہیں جو قلعہ معلی میں بولی جاتی تھی، لیکن یہ قلعہ معلی زیادہ دیر نہیں سجتا، چراغ گل کر دیے جاتے ہیں، بہادر شاہ ظفر کہانی سناتے سناتے ابدی نیند سو جاتے ہیں، لڑکا بہت جگاتا ہے مگر وہ نہیں جاگتے اور پردہ گر جاتا ہے۔
ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمیں اپنے پرکھوں کی یاد دلانے والا آپ جیسا زندہ اداکار جو ہماری تاریخ سے خود ہم کو رُوشناس کرا رہا تھا، کہانی کہتے کہتے یوں سو جائے گا اور پردہ گر جائے گا۔
حق ہے کہ وہ پردے کے اس پار سے اب کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ سچ کہا ہے کسی کہنے والے نے کہ جانے والے تو چلے جاتے ہیں، صرف ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ سو اب صرف آپ کی یادیں ہی باقی ہیں۔
ٹام آلٹر! ہماری تہذیب اور تاریخ کی باقیات کی شکل میں آپ دیر تلک یاد رکھے جائیں گے۔ آپ کی فصیح لسان، شستہ لہجہ اور دل کش اندازِ بیاں۔ آپ کے چاہنے والے جو آپ کے فن کے رسیا ہیں، انھیں لگتا ہے کہ نیلی آنکھوں والا ٹام آلٹر مرا نہیں، ہنوز اداکاری میں مصروف بہ کار ہے۔ کاش ایسا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔
نہیں! اب ٹام نہیں آئیں گے، داستایں سنانے والی ان کی متحرک نیلی آنکھیں اب ساکت ہو گئی ہیں، اور یہی سچ ہے۔
مگر ذرا سننا! آپ جس دیس گئے ہیں وہاں غالب ، ظفر اور آزاد سے ضرور ملنا۔ اور غالب سے کہنا کہ جس دیس کی اٹھارہ سو ستاون میں ہوئی جنگ کی آپ نے داستان لکھی تھی اب وہاں روزانہ اٹھارہ سو ستاون کی غدر دہرائی جاتی ہے ۔ چچا غالب کو بتا دیجیے کہ دلی سے لاہور ، کلکتہ اور ڈھاکہ تک جس دیس میں خطوط لکھ لکھ کر یاری گانٹھا کرتے تھے اب وہ تین حصوں میں بٹ چکا ہے اور تینوں جانب بہت اونچی دیوارِ چین کی طرح باڑھ لگا دی گئی ہے۔ تینوں جگہ روزانہ جنگ ہوتی ہے۔
مگر بدقسمتی سے اب کوئی تاریخ نہیں لکھتا کیونکہ بصیرت رکھنے والے قلم کار ہی نہیں ہیں۔ آپ جسے ابلاغ کہتے تھے اب ابلاغ کے ذرائع کی فراوانی ہو گئی ہے ، مگر وہ سب چند گھرانوں کے بکے ہوئے مخصوص کھلونے ہیں۔اب آپ کے زمانے کی طرح وہاں قلم، دوات اور روشنائی کا چلن نہیں ہے۔ اب لوگ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ، ٹیب اور موبائل میں لکھتے ہیں، جس میں قلم ، دوات اور پنسل کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔فارسی اب صرف ایران تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ، آپ کا فارسی کلام تو دور کی بات، اردو کو ہی سمجھنے والے بہت محدود رہ گئے ہیں۔ اب وہاں آپ کی طرح نہ تو کوئی خطوط لکھتا ہے اور نہ ہی بغاوت اور حالات کی تاریخ رقم ہوتی ہے۔ اگر کوئی جانباز کچھ کوشش بھی کرتا ہے تو اس کی انگلیاں کاٹ لی جاتی ہیں، سر قلم کر دیا جاتا ہے۔
آزاد سے بھی آپ ملیے گا اور انہیں ضرور بتا دیجیے کہ ان کا اب نام و نشان تک وہاں باقی نہیں ہے بلکہ جو کچھ بچا ہے اسے بھی مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جس فاشزم اور ملک دشمن عناصر سے وہ زندگی بھر لڑتے رہے تھے اب انہی قوتوں نے وہاں ڈیرا جما لیا ہے جو روزانہ ملک کے جسم و جاں کی توہین بالجبر کر رہے ہیں ۔ ان کو ضرور بتانا کہ جس اردو کی وہ زندگی بھر دہائی دیتے رہے اور جس زبان میں انہوں نے آزادی کا صور پھونکا تھا اسے دیش نکالا جا چکا ہے ۔ ان کے جانے کے بعد جامع مسجد دہلی کے بغل میں ان کا مقبرہ بنایا گیا تھا ، جہاں اردو میں ان کا نام بھی غلط لکھا گیا، شاید اسی وجہ سے ہندوستان کے بچارے کتوں کو بھی نہیں پتہ کہ وہ جہاں لڑتے ، جھگڑتے اور غراتے ہیں وہاں دراصل سویا ہوا کون ہے؟ وہ تو مقبرے میں گھس کر بول و بزار بھی کر جاتے ہیں لیکن انھیں کوئی نہیں بھگاتا۔
اور ہاں ٹام ! آپ کو اللہ کا واسطہ، بہادر شاہ ظفر کو کچھ بھی مت بتانا ورنہ وہ دکھیارا انسان ایک مرتبہ پھر جیتے جی مر جائے گا۔ اب تک وہ اپنے دکھ کی داستان کو شاید بھول چکے ہوں گے، لہذا آپ خدارا ادھر سے گذرنا بھی مت کہ ان کی نظر کہیں آپ پر نہ پڑ جائے ۔
اور اگر ان سے ملاقات کے لئے آپ کا دل اتنا ہی بےچین ہو جائے تو ازراہ کرم کنی کاٹنے کی کوشش کیجیے گا ، مگر مجھے پتہ ہے آپ سے ایسا ہوگا نہیں اور آپ ان سے بہرصورت مل بیٹھیں گے ۔ ٹھیک ہے مل لیجیے گا مگر للہ شکوہ شکایت مت کیجیے ، ہندوستان کے موجودہ حالات کے بارے انہیں کچھ مت بتائیے گا۔ اگر وہ کرید کرید کر کچھ پوچھیں بھی تو انہیں صرف ویسی ہی اچھی اچھی باتیں بتائیں جیسے ہمارے عزت مآب وزیراعظم صاحب اپنے عوام کو بتاتے ہیں۔
انھیں بتائیے کہ وہاں بہت خوشحالی ہے ، ان کے جانے کے بعد انگریزوں نے ہندوستان چھوڑ دیا، پھر ان میں سے تین بھائیوں نے اپنے اپنے خوبصورت محل تعمیر کرا ئے ، تینوں کے بہت اچھے آپسی تعلقات ہیں، وہ بہت ہنسی خوشی رہتے ہیں ، تینوں جگہ خوب خوب ترقی ہوئی ہے ، ہر جگہ امن اور سکون کا ماحول ہے۔ اب انگریزوں کے زمانے جیسا انارکی اور بد امنی کا ماحول نہیں ہے ۔ اب آپ کے زمانے کی طرح ٹم ٹم اور بگھی نہیں چلتی ، کہار ڈولی نہیں ڈھوتے ،گھوڑے اور ہاتھیوں کو زحمت نہیں دی جاتی اب ہر جگہ سکون ہی سکون ہے ، اب تینوں جگہ ہوائی جہاز ، بلٹ ٹرین اور میٹرو دوڑ رہی ہیں ۔
اور ہاں انھیں یہ بھی بتا دیجیے کہ ابھی کچھ دن قبل ہمارے عزت مآب وزیر اعظم صاحب نے رنگون کا دورہ کیا تھا ، جہاں آپ کا مزار ہے، وہاں انھوں نے مزار پر پھول چڑھائے اور آپ کو بہت یاد کیا۔ وہاں آپ کو سب بہت یاد کرتے ہیں۔
***
alamislahi[@]gmail.com
موبائل : 09911701772
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025

۔۔۔مزید

پیر، 25 ستمبر، 2017

سرحد پار سے ایک طالب علم اس دیس میں آیا ہے

محمد علم اللہ
کبھی ڈائری لکھی جاتی تھی، گزرے ایام کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی، سائبر ورلڈ نے روزنامچے محفوظ کرنا شروع کیے تو گاہے بگاہے گزرے دنوں کی جھلک سامنے آتی رہتی ہے۔ فیس بک نے یاد دلایا کہ استاد من ظفر عمران سے دوستی کیے ایک سال ہو گیا۔ یہ دوستی کیسے ہوئی اس کے پیچھے ایک داستان ہے۔ ذکر ان دنوں کا ہے، جب میں ای ٹی وی اردو میں کام کرتا تھا اور میری نائٹ ڈیوٹی تھی۔ رات کو کام کم ہوتا ہے تو وقت گذارنا بھی پہاڑ کاٹنے جیسا لگتا ہے۔ وقت گذاری کے لیے کبھی فلمیں، ٹی وی سیریلز وغیرہ دیکھتا یا انٹرنیٹ کی خاک چھانتا۔ ایک دن یو ٹیوب پر ایک فلم دیکھ رہا تھا، کوئی ٹیلی فلم تھی اس وقت نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ اس میں اسکرپٹ رائٹر کا نام ظفر عمران لکھا تھا، فلم مجھے بہت اچھی لگی، اس کے مکالمات، زبان، بیان، کہانی کا اسٹائل سب کچھ اچھا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب میں کوئی اچھی چیز دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو اس کے خالق سے ملنے کو دل بے قرار ہو جاتا ہے۔ کسی فنکار کی کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کی انگلیاں چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔ جامعہ میں بھی اسی وجہ سے مالی، بڑھئی آرٹسٹ سبھی سے دوستی ہو گئی ہے۔ میں حتی الامکان فنکار کو کم از کم ہمت افزائی کے دو کلمات ہی کہہ دوں، اس بات کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مذکورہ فلم کو دیکھنے کے بعد یہ تجسس پیدا ہوا کہ اس شخص سے ملاقات کی جائے۔ آخر یہ کون ہے اور کیسے اتنا اچھا لکھتا ہے۔
چھان بین شروع کی، آنٹی گوگل سے فریاد کی، ڈارلنگ فیس بک کو زحمت دی، تو معلوم ہوا کہ جس شخص کو ہم اپنا عزیز بنائے ہوئے ہیں وہ تو ’دشمن ملک‘ یعنی پاکستان کا ہے، ہم پڑوسی ملک کے بارے میں اپنے طور پر یہ فرض کر لیتے ہیں، کہ وہاں کے سب لوگ برے ہی ہوں گے، اسٹیریو ٹائپ کے طور پر جب سر حد کے اس پار کی بات آتی ہے تو کسی سے ملنا توبہت دور کی بات رہی، مبارکباد دینے پر بھی شک کے دائرے میں نہ آ جائیں اس کا ڈر لگا رہتا ہے۔ پھر ہم بظاہر جس کو فیس بک میں دیکھ رہے ہیں یہ وہی ہے یا کوئی دوسرا ان کے نام سے چلا رہا ہے، اس کی تصدیق کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔
بسیار تلاش کے بعد مجھے کہیں سے ظفر عمران صاحب کی ای میل آئی ڈی حاصل کرنے میں کامیابی ہوگئی، اور میں نے ڈرتے ڈرتے اس آئی ڈی پر فلم کو لے کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کچھ ناقدانہ کمنٹس بھی اس میں ڈال دیے۔ دوسرے دن خوشگوار حیرت کی انتہا نہیں تھی کہ فنکار نے مجھے جواب لکھا تھا اور میری معروضات پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، یقیناً یہ بھی ایک معرکہ ہی تھا، جس پر خوش ہونا میرا حق بنتا تھا۔ میں نے ان کو فورا جواب لکھا اور یوں یہ میل ایک خوبصورت منزل کا رستہ ثابت ہوا۔ یہ آدھی ملاقات ہماری پوری ملاقات بن گئی۔ اس درمیان ہماری کبھی نہ ویڈیو کالنگ ہوئی اور نہ آڈیو لنک لیکن شاید ہی ایسا کوئی دن گزرا ہوگا جب کسی نا کسی موضوع پر ہمارے اور عمران صاحب کے درمیان تبادلہ خیال نہ ہوا ہو۔ اس درمیان ایک مشفق مہربان مربی استاد کی طرح وہ مجھے کسی اچھے مضمون یا فلم کا لنک بھیجتے اور میں اس کو پڑھنے اور دیکھنے میں منہمک ہو جاتا۔
اس درمیان ظفر عمران صاحب نے لکھنے پڑھنے کی جانب جہاں میری رہنمائی کی وہیں اپنی کئی فلموں اور سیریلز کی نشاندہی کی جسے میں نے دیکھا اور اس سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ عموما ً دیکھا یہ گیا ہے کہ فلم انڈسٹری یا اس قسم کے پیشے سے وابستہ افراد خود کو بہت بڑا سمجھتے ہیں، ان میں رعونت بہت ہوتی ہے، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور خاص کر اگر وہ تخلیق کار ہے تو اس کی انا کا پندار بہت جلد ٹوٹتا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ ظفر عمران صاحب کے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ بلکہ ان کی تحریروں میں جس طرح سے خوش مذاقی، خوش مزاجی، خوش سلیقگی، خوش خلقی، خوش نستعلیقی جھلکتی ہے۔ ان کی طبیعت میں بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ نفسیات کا ذرا بھی علم رکھنے والا شخص کسی کی بھی تحریر پڑھ کر اندازہ لگاسکتا ہے، کہ وہ شخص کس قسم کا ہوگا۔ میں یہاں پر ٖظفرعمران کی تحریروں کا نفسیاتی جائزہ لینے نہیں بیٹھا ہوں، لیکن ان کی تحریر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نستعلیق اور نفیس انسان ہیں سلیقہ مندی ان کی طبیعت کا حصہ ہے اور مجھے ان کے یہ اطوار بہت پسند ہیں، میں بھی ایسی خوبیوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر ایسا ہو کہاں پاتا ہے۔
جب ہماری ظفر عمران صاحب سے شناسائی ہوئی تو انھی دنوں ہمارے ای ٹی وی کے کچھ احباب نے ایک مختصر فلم بنانے کا منصوبہ بنایا اور اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی۔ اس سے قبل گرچہ میں’ریتو مہرا‘ اور’اجئے شاہ‘ کے ساتھ ’دوردرشن‘ کے سیریلز میں ’کو رائٹر‘ کے طور پر کام کر چکا تھا، لیکن پھر بھی اسکرپٹ رائٹنگ کو لے کر پس و پیش کی کیفیت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ ایک آئیڈیل اسکرپٹ کیسا ہوتا ہوگا۔ ریتو مہرا کے ساتھ تو خوبی یہ تھی کہ وہ سڑیل سے سڑیل اسکرپٹ کو بھی اپنے جاندار انداز میں شوٹ کر کے کامیاب بنا لیتی تھی، مگر یہاں مسئلہ اپنی اہمیت کو ثابت کرانا تھا۔ میں نے لکھنے سے قبل ظفر عمران صاحب سے مشورہ چاہا اور ان سے کچھ نمونے کے اسکرپٹ مانگے تو انھوں نے ایک دو نہیں درجنوں اسکرپٹ بھیج دیے، ساتھ میں فلموں اور سیر یلز کی بھی نشاندہی کر دی، ان کا یہ رویہ مجھے بہت بھایا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ محض ایک ای میل ہم دونوں کے درمیان اس قدر قربت کا باعث بنے گا، میں نے ظفر عمران صاحب کو ایک چھوٹا سا اسکرپٹ لکھ کر بھیجا، جسے انھوں نے خاصا پسند کیا اور زبان و بیان کی اصلاح کرکے مجھے واپس بھیج دیا، یہ الگ بات ہے کہ اسے شوٹ کرنے کی ابھی تک نوبت نہیں آئی، لیکن ان کی ہمت افزائی اور سراہنے نے مجھے کافی حوصلہ دیا۔ اس محبت میرے اندر بھی ہمت آئی اور اس کے بعد ہم دونوں کی اس فلم، ٹیلی ویژن اور صحافت پر خوب باتیں ہونے لگیں، وہ مجھے دنیا جہان کی فلمیں بتاتے، میں اسے دیکھتا اور ان سے اس پر دیر گئے رات تک گفتگو کرتا۔ یہ گفتگو رات کے بارہ ایک بجے سے شروع ہو کر کبھی کبھی صبح کے چھہ بجے تک جاری رہتی۔ میں ایشیاء کے ایک بڑے ادارے سے دو سالہ باضابطہ فلم اور جرنلزم کا کورس کرنے کے دوران اساتذہ سے جو سوال نہیں کر سکا تھا، وہ سب موصوف سے پوچھتا۔ پھر جس سمے انسان کلاس میں کوئی چیز پڑھ رہا ہوتا ہے، اس وقت یہ ضروری نہیں کہ ساری چیزیں سمجھ میں بھی آجائیں، میری نا سمجھی ہوئی باتوں کا روز ایک پٹارا ہوتا، جسے میں کھولتا جاتا اور ظفر عمران صاحب ایک اچھے اور مخلص استاد کی طرح اس کو حل کرتے جاتے۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ ان سے اس درمیان میں نے بہت کچھ سیکھا، خصوصاً فلم اور تیکنیک کے حوالے سے۔ ان سے جو کچھ بھی باتیں ہوئیں وہ میری زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں۔
اسی دوران انھوں نے مجھے آن لائن ویب پورٹل ”ہم سب“ پر لکھنے کے لئے مجبور کیا۔ میرے جھجھکنے پر بار بار مجھے لکھنے کے لیے اکساتے، کچوکے لگاتے، سمجھاتے بجھاتے۔ اس طرح انھوں نے ”ہم سب“ پر ایک مضمون ’بدلتے ہندوستان میں کتابوں کی واپسی ‘کے عنوان سے لکھوانے میں کامیابی حاصل کر ہی لی، اس مضمون پر انھوں نے اصلاح دی۔ نوک پلک سنواری اور ”ہم سب“ پر وہ شائع ہو گیا۔ ”ہم سب“ پر اس مضمون کا چھپنا تھا کہ اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ہندی اور انگریزی میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔ پہلی مرتبہ میرے کسی مضمون کا ترجمہ بغیر میری کوشش کے شائع ہوا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور پھر مضمون کا معاوضہ نہ ملنے اور اردو میں لکھ کر پذیرائی کی کمی کا جو شکوہ تھا دور ہو گیا۔ پھر وہ برابر مجھ سے مضمون کا تقاضہ کرنے لگے۔
یہی نہیں اچھا مضمون کیسے لکھیں، خیالات کو کیسے قلم بند کریں، پیراگرافنگ کیسے کی جاتی ہے، رموز و اوقاف، لسان و قوائد کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ کیا لکھنا اور کیا نہ لکھنا، ان سب باتوں کی انھوں نے مجھے باریکیاں بتائیں۔ میں فیس بُک پر کچھ پوسٹ کرتا، اس میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ اس کی نشاندہی کرتے اور ان غلطیوں پر قابو پانے کے طریقے بتاتے۔ جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ انھوں نے ”ہم سب“ پر میرے بلاگ کا پیج بنوایا، میرا تعارف لکھا اور قلم کو مزید رواں اور صیقل کرنے کے لیے برابر ابھارتے رہے۔ ان کے ذریعے ”ہم سب“ کی ٹیم میں شامل عدنان خان کاکڑ، وصی بابا اور نام نامی وجاہت مسعود جیسے معتبر صحافی سے متعارف ہونے اور ان کو پڑھنے کا موقع ملا اور تب اپنی اوقات بھی سمجھ میں آئی۔
جب بھی کوئی مضمون شائع ہوتا تو کوئی نا کوئی کچھ نا کچھ مشورہ ضرور دیتا، جس کو میں اپنے اگلے مضمون میں برتنے کی کوشش کرتا۔ میرے استاد ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کہا کرتے ہیں، ”لکھنے سے لکھنا آئے گا، بولنے سے بولنا اور پڑھنے سے پڑھنا، جو کام پسند ہو تو دیکھو کہ لوگ اس کو کیسے برتتے ہیں۔ “ اور معروف کمپنی ایپل کے سی او کا قول ہے ”انسان کو ہمیشہ بھوکا اور بے وقوف بن کے رہنا چاہیے کہ اس سے اسے سیکھنے کو ملتا ہے۔ “ تو میں ہمیشہ اس کی کوشش کرتا ہوں۔ آ ج کے اس مادہ پرستانہ دور میں جبکہ ہر چیز کو لوگ مادیت سے ناپتے ہیں، ایسے مخلص لوگوں کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ انسان بہتوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے، میں نے اپنے قلمی زندگی میں جن لوگوں سے سیکھا ہے، ان میں ظفر عمران صاحب کے علاوہ ناموں کی ایک طویل اور لمبی فہرست ہے۔ ان میں بچے سے لے کر جوان، بوڑھے اور ادھیڑ سبھی شامل ہیں۔ میں انشاء اللہ وقتا فوقتا ان شخصیات پر لکھنے کی کوشش کروں گا، جن سے میں کسی طور متاثر ہوا اور کچھ سیکھا۔ میں فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کا بھی شکر گذار ہوں کہ اس کی بنائی ہوئی فیس بک کی بدولت ہم ایسے مخلص اہل علم و ادب اور اپنی پسندیدہ شخصیتوں مکمل نہ سہی نصف ہی مل تو پاتے ہیں۔
کہتے ہیں آرٹسٹ کی کوئی سرحد یا حد بندی نہیں ہوتی ہے، وہ انسانیت کے لئے جیتے اور انسانت کے لیے مرتے ہیں۔ سرحد کے اس پار اور سر حد کے اس پار بھی دونوں جانب ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان امن چاہتے ہیں محبت چاہتے ہیں۔۔ ظفر عمران صاحب سے کتنی ہی مرتبہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے اور انھوں نے دونوں ملکوں کے مابین خلیج، دراڑ اور نفرت پر افسوس کا اظہار کیا ہے. آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے افراد کو لے کر آگے بڑھیں اور دونوں جانب امن، اخوت، محبت کے پھول اگائیں تاکہ آئندہ آنے والی ہماری نسلوں کو ایک ایسا خطہ ملے، جس میں بم، بارود کی بو، توپ، میزائل اور ٹینکوں کی گھن گرج نہیں بلکہ الفت، محبت اور رحمت کے نغمے سننے کو ملے جہاں خوشحالی، بھائی چارگی اور ہمدردی کے نقوش ملیں۔
24/09/2017

۔۔۔مزید

جمعرات، 21 ستمبر، 2017

رویش جی! آپ کو کیا چیز ڈراتی ہے؟


بٹلا ہاوس اِنکاونٹر کے پس منظر میں ’شبلی‘ تم تو واقف تھے؟

نوٹ : اس مضمون کا مرکزی خیال میرے عزیز دوست فہیم خان(فلم ہدایت کار اور اسکرپٹ رائٹر) کے فیس بُک وال سے اخذ کیا گیا ہے، فہیم بھائی کا درد میرا درد ہےاور یہ مضمون اسی کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔

محمد علم اللہ ، نئی دہلی
ان دِنوں رویش کمار (پیدائش 5 دسمبر 1974ء ) مشرقی چمپارن بہار سے تعلق رکھنے والے این ڈی ٹی وی سے وابستہ معروف صحافی اور ٹی وی اینکر کو دھمکی دی جا رہی ہے، کہ وہ سیکولرازم کی بقا، اقلیتوں اور پچھڑے طبقات، جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، کی آواز اٹھاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رویش کمار فی زمانہ ایک حق گو اور بے باک صحافی کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے بہتوں کو ان سے امیدیں بھی ہیں کہ ایک ایسے دور میں، جب ایک خاص ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، رویش جیسے لوگ اندھیرے میں امید کا چراغ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انسان بہرحال انسان ہوتا ہے اور خواہ کتنا ہی جرات مند اور بے باک ہو اس کے اپنے مفادات اور اپنی مصلحتیں ہو تی ہیں۔ ہم اس پر بات نہیں کریں گے تاہم ان دنوں پورے ملک میں ایک خاص قسم کے خوف اور دہشت کی نفسیات کو ہوا دی جا رہی ہے اور رویش بھی تقریبا ہر تقریر میں اس کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ملک میں ایسا ماحول ہے جس نے ہر باشعور شہری کو متفکر کر دیا ہے۔ یہاں بات کسی فرد واحد یا کسی ایک قوم کے تحفظ کی نہیں، بلکہ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے تحفظ کی ہے۔ اس لیے ہم آج اسی پر گفتگو کریں گے، اور ہمارے مخاطب براہ راست رویش جی ہوں گے۔
رویش کمار جی! آج آپ خوف کی جس لہر کی بات کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ خود آپ کو خوف زدہ کرتی بھی ہے یا نہیں؛ لیکن زیادہ دور نہیں بس یہی آٹھ نو سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس وقت آپ نے خوف کی اس لہر کو ہمارے سینوں میں اتارنے کا کام کیا تھا۔ اور تب ہم سچ میں ڈر گئے تھے۔ کہتے ہیں خوف ایک خطرناک بیماری ہے جو انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ وہ انسان کی نفسیات پر طویل عرصے تک غالب رہتی ہے اور یہ بات شخصیت کے ارتقا کے لیے سم قاتل سے کم نہیں ہے۔ بات اس دن کی ہے جب ہمارے علاقے (بٹلا ہاوس) میں19 ستمبر 2008ء کو مبینہ طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو طالب علموں کو دہشت گرد قرار دے کر ایک ”انکاونٹر“ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس دن ایک ریلی نکالی تھی۔ ان دنوں ہم ایک اخبار کے لیے خبر فراہم کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ دن بھر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ انکاونٹر والی جگہ پر خبروں کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے۔ شام تک ہم نے اپنے آفس کو خبریں فائل کر دی تھیں۔ رات کو ٹیلی ویژن پر کیا آتا ہے، اس کا انتظار تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب انسپکٹر موہن چند شرما (پیدائش 23 ستمبر 1965ء وفات 19 ستمبر 2008ء، ایک متنازع پولیس انسپکٹر جو مشتبہ طور پر بٹلہ ہاوس انکاونٹر کے دوران ہلاک ہوا اور جسے بعد میں حکومت نے اشوک چکر سے نوازا) کے مرنے کی خبر آئی تو ٹی وی اسٹوڈیو میں نام نہاد حب الوطنی کا رنگ ظاہر ہونے لگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آج کل ظاہر ہورہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ این ڈی ٹی وی بہت سنجیدہ چینل ہے، دیکھتے ہیں یہ کیا دکھاتا ہے۔ رویش جی آپ بھی اسٹوڈیو میں بیٹھے تھے، ویسے ہی کوٹ پینٹ پہنے ہوئے، پرائم ٹائم سلاٹ پر، جیسا کہ ارنب گوسوامی (9 اکتوبر 1973ء کو گوہاٹی میں پیدا ہونے والے، چیخنے چلانے اور نام نہاد وطنیت کا گن گانے والا صحافی) بیٹھا رہتا ہے۔ آپ ارنب کی طرح چیختے چلاتے نہیں۔ یہ فرق اس دن بھی تھا۔ آپ آپے سے باہر نہیں تھے، سنجیدہ ہی دکھائی دے رہے تھے۔ یہ آپ کا انداز ہے، لیکن اس دن آپ کی سنجیدگی پر ”حب الوطنی“ کا پر تو صاف جھلک رہا تھا۔ ”انا الحق“ والے منصور کو سب پتھر مار رہے تھے، بڑے بڑے پتھر۔ منصور مسکرا رہا تھا، مگر جب منصور کے دوست شبلی نے بھی ایک پھول سے منصور کو مارا تو منصور درد سے چیخ اٹھا۔ شبلی تم بھی؟! لوگوں نے پوچھا: جب سب مار رہے تھے تو تم مسکرا رہے تھے، شبلی نے تو پھول سے مارا؟ منصور نے کہا کہ وہ لوگ جانتے نہیں کہ وہ معذور ہیں مگر شبلی جانتے ہیں، اس لیے ان کا پھول مجھ پر گراں گزرا۔ اس کے بعد منصور کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دیے گئے اور آنکھیں نکال دی گئیں (ٹھیک اسی طرح جیسے آج کل بعض خاص طبقات کے ساتھ ہورہا ہے) رویش آپ بھی۔۔۔؟
ہاں! ہاں! اس دن، دِبانگ (بھگوا چولا کے پرستار ہندی نیوز چینل اے بی پی سے وابستہ صحافی، جو روزانہ پرائم ٹائم اور ہفتہ واری پریس کانفرنس شو کی میزبانی کرتے ہیں) کے ساتھ اسٹوڈیو میں بیٹھے آپ بھی بٹلہ ہاوس انکاونٹر پر بحث کر رہے تھے اور گراؤنڈ زیرو سے رپورٹنگ کرنے والی عارفہ خان شیروانی کا لائیو پروگرام جاری تھا تو رپورٹنگ کو درمیان ہی کاٹ کر آپ نے ایک جملہ کسا تھا۔ وہ طعنہ ارنب کے پتھر نہیں بلکہ شبلی کے پھول تھے جس نے ہمیں زخمی کر دیا تھا۔ اس دن ہم چوٹ سے بلبلا اٹھے تھے۔ آپ نے تو محض ایک طعنہ دیا تھا جو صرف عاطف اور ساجد پر نہیں تھا بلکہ پوری کمیونٹی پر تھا، ایک پورے علاقے پر تھا، اور اس دن کی رپورٹنگ کی وجہ سے عارفہ کو آپ کا چینک چھوڑنا پڑا تھا۔
کیا یہ آپ کی مجبوری تھی؟ شاید نہیں! لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی بات آتی ہے توآپ اور آپ ایسے بہتوں کے رویے ان کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ اچھے اچھے لوگ ایسے مواقع پر پھسل جاتے ہیں، بہک جاتے ہیں؛ ان کے قدم لڑ کھڑا جاتے ہیں اورجام ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ ذہین، سمجھ دار اور سیکولر افراد بھی اس مفروضے اور رویے کو کنارے نہیں رکھ پاتے، جس میں ہم انھیں ماضی میں ’حملہ آور‘ اور حال میں ’دہشت گرد‘ نظر آتے ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ اپنے ضمیر کی سنتے ہیں، لیکن جب پورا ہجوم پتھر مار رہا ہوتا ہے، تو آپ بھی انھی میں شامل ہو جاتے ہیں یعنی پتھر مارنا شبلی کی مجبوری بن جاتی ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر ایسی مجبوری کہاں سے آتی ہے؟ کیا اس مجبوری کی بنیاد خوف ہے؟ کیا اس دن آپ سچ مچ ڈر گئے تھے؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس دن آپ ڈرگئے تھے۔ آپ تو چوتھے ستون کی طرح مضبوط نظر آ رہے تھے، اپنے کندھے پر حکومت کی چھت لیے۔ آپ شہید گنیش شنکر ودیارتھی (پیدائش 26 اکتوبر 1890ء وفات 25 مارچ 1931ء، کانپور۔ ہندی صحافت کے ستون جو کانپور فسادات کے دوران انگریزوں کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے) کے صحافت کے اصولوں کو فراموش کرکے انسپکٹر موہن چندرا شرما کے وکیل دکھائی دے رہے تھے۔ آپ جذبات میں بہہ گئے تھے۔ جذباتی ہونا غلط بات نہیں ہے، یہ اچھی بات ہے۔ ملک کے ہرباشندے کو اپنے وطن کے تئیں جذباتی ہونا ہی چاہیے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ایک صحافی کو بھی محب وطن اور اس کی محبت میں جذباتی رویہ اپنانا چاہیے۔ یہ قابل تعریف ہے۔ مگر جو لوگ آج آپ کی حب الوطنی کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، ان کی نظروں میں ہماری ’دیش بھکتی‘ ہمیشہ سے مشکوک رہی ہے۔ انھوں نے اسی شک کی بنیاد پر ہمارا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ کئی مرتبہ آپ بھی ہمارے خلاف اس شک میں ان کے ہم جولی اور ہم نوا دکھائی دیئے اور بٹلہ ہاوس انکاونٹر والے دن بھی آپ ان کے ساتھ تھے۔ جس بے لگام بھیڑ کو لے کر آپ آج بے چین ہو رہے ہیں، اس دن اسی بھیڑ کے ساتھ آپ بھی تھے۔
آپ من موہن سنگھ سے تو وہ سوالات کر لیتے ہیں، جس کی مثال اب آپ اپنی وضاحتوں میں بھگتوں کو دیتے ہیں، مگر وہ سوالات جو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر اٹھائے گئے تھے یا اٹھائے گئے ہیں، ان میں آپ من موہن سنگھ حکومت کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے، انھی کے جملے میں کہ ایک انسپکٹر کی موت کے بعد بھی کمیونٹی کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ عاطف اور ساجد دہشت گرد تھے۔ رویش جی! آپ کو بھی اب یقین آ گیا ہوگا کہ صرف ماضی ہی نہیں بلکہ حال بھی اطمینان کے قابل نہیں ہے۔
آپ کی طرح نہ تو مجھے زبان و بیان پر گرفت ہے اور نا ہی میرے پاس آپ جیسے منطقی دلائل ہیں۔ مگر ایک چیز اب میرے اور آپ کے درمیان یکساں ہو گئی ہے، اور وہ ”خوف“ کی وہ لہر ہے جو میرے اور آپ کے وجود کی گہرائی تک اتر گئی ہے۔ اب آپ کو بھی ڈرایا جا رہا ہے جیسے ہم لوگوں کو ڈرایا جاتا رہا ہے، صدیوں سے۔ جس خوف کی نفسیات کے بارے میں آپ بول رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے البتہ یہ پہلے ایک خاص طبقے تک ہی محدود تھی اور اب ذراعام ہوگئی ہے، جس پر ملک کا لبرل طبقہ فکرمند نظر آرہا ہے۔ آپ غور کیجیے۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بطور خاص اس وقت جب یہ خوف ایک فرد کا نہ ہو کر ایک طبقہ اور کمیونٹی اور پوری ایک قوم کا مقدربن جائے۔ میں آپ کو بتاوں، اس ڈر نے ہمیں بہت دکھی کیا ہے اور اب بھی اکثر ستاتا رہتا ہے۔ بنا کسی جرم اور قصور کے کسی کو مجرم بنا دینا یا سمجھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی اسٹوڈیو ہے، پرائم ٹائم، کوٹ ٹائی اور آپ کے چاہنے والوں کا ایک جم غفیر ہے۔ ہمارے پاس کیا ہے؟ خوف کے لفافوں میں لپٹے ہوئے ماضی کے طعنے اور حال کے الزامات۔ میرا خیال ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ خوف کے عالم میں جینے والے کیسا محسوس کرتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے آپ سے بے انتہا محبت کرنے والے بہت سے لوگوں کو میری یہ بات اچھی نہیں لگے گی اور وہ مجھ سے یہ سوال کر سکتے ہیں، کہ اب جب کہ رویش کی امیج بہت بدل چکی ہے تو آپ نے اس کے ماضی اور حال کے کردار کا موازنہ کیوں ضروری سمجھا، تو ان سے مجھے یہ کہنا ہے کہ انسان کو جس سے امید ہوتی ہے، شکایت بھی اسی سے ہوتی ہے۔ جب آپ یا آپ جیسے لوگ، جو بظاہر انصاف اور حق کی بات کرتے ہیں، ان کو مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ جن کو لوگ اپنا سمجھتے ہیں ان سے جب کوئی زیادتی ہوتی ہے تو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ چوں کہ اب آپ کو ڈر کا احساس ہو گیا ہے اس لیے بھی ہم نے یہ سطریں لکھنے کی جرات کی ہے۔ میں آپ سے یہ قطعا نہیں کہوں گا کہ آپ کسی خاص طبقے کی حمایت کی بات کریں۔ ایسا ممکن بھی نہیں ہے، مگرجس چیز کے لیے آپ جانے جاتے ہیں اس میں تو سچے بنیے۔ اگر آپ معروضیت پسند (objective) نہیں رہ سکتے تو پھرصاف ستھرے (fair & accurate) تو رہیے۔ یہاں پر بات کسی خاص طبقے کی نہیں ہے بلکہ بات ملک کی سالمیت، اس کی بقا اور ترقی کی ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس کے لیے آگے آنا ہوگا اور عوام کے دلوں سے خوف کی اس لہر کو دور کرنا ہوگا۔
خوف کی وہ لہر جوآپ کو اور ہم سب کو ستاتی ہے، وہ لہر اور اس کی خوف ناکی اپنی جگہ، مگر میرے اندرون میں ایک اور لہر دندناتی پھر رہی ہے، جو اس لہر سے قدرے مختلف ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ خوف کی یہ لہر کہیں ہمارے وجود پر اور خاص کر رویش کمار جیسے دیو ہیکل وجود پر مصلحت کی چادر نہ تان دے اور وہ اپنی موجودہ بے باکی اور منصفانہ امیج کو کہیں اپنے من گہرائیوں میں دفن کرکے پھر سے وہیں نہ جا بیٹھیں جہاں آپ اس دن بیٹھے تھے، یعنی 19 ستمبر 2008ء کو، اور ایسا ہوتا ہے، بلکہ ہوچکا ہے۔ اس کے لیے صرف چند مثالیں دوں گا۔ دور کیوں جائیں، قریب ہی میں دیکھتے ہیں ایم جے اکبر کو جس نے اپنے بے باک مضامین اور India: The Siege Within: Challenges to a Nation’s Unity اور Riots after Riots جیسی کتابیں لکھ کردنیائے صحافت میں نام پیدا کیا تھا، مگر اب کہاں چلے گئے؟ اسی طرح اگر کلدیپ نائیر کی بات کی جائے تو چند لمحات ہی کے لیے سہی لیکن 2014ء میں لغزش کھا گئے تھے اور اپنے رشتے دار ارون جیٹلی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے پہنچ گئے تھے، مگر انھیں اپنی غلطی کا جلد احساس ہوگیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ڈر ہے کہ کہیں آپ اور آپ جیسے جری صحافی مصلحت جسے ہم ڈر بھی کہہ سکتے ہیں، کا واقعی شکار نہ ہو جائیں۔

۔۔۔مزید

اتوار، 17 ستمبر، 2017

ماسٹر اللہ داد کریم---- محمد علم اللہ

کس طرح امانت نہ رہوں غم سے میں دل گیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
(امانت لکھنوی)
انسان کے ذہن پر کچھ ایسے نقوش بن جاتے ہیں، جو کبھی نہیں مٹتے۔ ان ہی میں سے ایک ماسٹر اے ڈی کریم کا نقش بھی ہے، جن سے وابستہ میرے بچپن کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں مرتسم ہیں۔ 21 اگست 2017ء کو یہ اطلاع ملی کہ ماسٹر اللہ داد کریم جنہیں ہم ماسٹر اے ڈی کریم کے نام سے جانتے تھے کا انتقال ہو گیا۔ یہ اطلاع میرے گاؤں کے نام سے موجود فیس بک پیج پر ایک ساتھی کے ذریعہ ملی تو ماسٹر صاحب سے وابستہ کئی یادیں عود کر آئیں۔ انتقال کی خبر ملنے کے بعد ہی سوچا تھا کہ ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں اور باتوں کو رقم کروں گا۔ لیکن ادھر کچھ ایسی مصروفیات اور ذہنی خلجان میں مبتلا رہا کہ چاہ کر بھی کچھ نہ لکھ سکا۔ پھر پانچ ستمبر کو یوم اساتذہ کے موقع پر بھی کچھ لکھنے کا خیال آیا، لیکن عید الاضحی اور دیگر روزانہ کے معمولات میں اس قدر مصروف رہا کہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ آج ایک مرتبہ پھر فیس بک پیج پر موجود اس خبر کو دیکھا توماسٹر صاحب سے متعلق کئی باتیں یاد آئیں اور میں یہ سطریں لکھنے بیٹھ گیا۔

ماسٹر صاحب کو جب میں یاد کرتا ہوں، تو مجھے جگنو، تتلی اور بیر بہوٹی یاد آتے ہیں؛ دراصل ماسٹر صاحب نے ہی بتایا تھا کہ جگنو کیا ہوتا ہے، تتلی کسے کہتے ہیں اور بیر بہوٹی کیا شئے ہے۔ ان کے پڑھانے کا انداز نرالا اور سب سے الگ تھا۔ ابھی جب میں ماسٹر صاحب سے متعلق یادوں کوضبط تحریر کرنے بیٹھا ہوں تو میری نظروں کے سامنے پندرہ سولہ سال قبل گاؤں کے اسکول درس گاہ اسلامی اٹکی کا منظرنامہ سامنے ہے، جس نے کئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ہی خلوص، محبت، الفت اور تہذیب و شایستگی کا پاٹھ پڑھایا ہے۔ ماسٹر صاحب اس انمول ادارے کے ایسے جاں نثار تھے، جنھوں نے انتہائی کم اجرت کے باوجود اسے اپنے خون جگر سے سینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے بہار شریف کے دور افتادہ علاقے سے آ کر خود کو اس ادارہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ماسٹر صاحب درس گاہ کے عقبی حصے میں قائم کمرے میں رہتے تھے۔ ان کا اپنا انداز اور اسٹائل تھا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے؛ دو پلی کج کلاہ ان کی شان تھی۔ وہ اونچے درجے کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے، کچھ کلاس چھوٹے بچوں کی بھی لیتے اور وہ کلاس ہم بچوں کے لئے عذاب جاں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اس زمانے میں جن اساتذہ کے مر نے کی دعائیں کیں ان میں ماسٹر صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن ماسٹر صاحب کو ہماری دعاوں کے صدقے نہ مرنا تھا اور نہ مرے، وہ تو اپنی طبعی موت مرے۔ انھوں نے شاید ہی کبھی کلاس آنے میں تاخیر کی ہو۔



سارے بچے ماسٹر صاحب سے بے حد خوف کھاتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر صاحب مارتے بہت تھے۔ ان سے خوف کا یہ عالم تھا کہ گھر پر بھی شرارت کرنے پر والدین یا سرپرست ماسٹر صاحب سے شکایت کی دھمکی دیتے تو بچہ سہم ساجاتا، مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ ماسٹر صاحب صرف غصیلے اور مارنے ہی والے تھے؛ ماسٹر صاحب اچھے بھی تھے اور سبق یاد کرنے والے بچوں کو شفقت و محبت سے نوازتے اور انھیں انعام بھی دیتے تھے؛ ہم ماسٹر صاحب کی ان دونوں ہی خصوصیات سے خوب فیض یاب ہوئے، مار بھی کھائی اور کئی مرتبہ چاکلیٹ، اٹھنی اور ایک دو مرتبہ ایک آدھ روپے بھی وصول کیے۔
مجھے یاد پڑتا ہے ماسٹر صاحب جہاں رہتے تھے اس سے ذرا آگے پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کیاریوں کے بیچوں بیچ مچان لگا کر کدو، کریلے، کھیرا اور ککڑی وغیرہ کے پودے لگائے گئے تھے، جنھیں ماسٹر صاحب ہی نے بچوں سے لگوایا تھا۔ یہ ماحولیات کے کلاس کا حصہ تھا، جس میں بچوں نے اپنے ہاتھوں سے کیاریاں بنائی تھیں۔ اینٹوں سے اسے گھیرا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پھول کھلے تھے؛ ان پھولوں میں رات کی رانی کے علاوہ گل بہار، چنبیلی، بیلا، موتیا، چمپا، نرگس، گیندا اور گلاب کے پھول تھے جو ہمیشہ پوری فضا کو معطر رکھتے۔ اس قدر خوش نما منظر ہونے کے باوجود ہم بچے رات کی رانی کے پھول کے قریب نہیں جاتے تھے، کیوں کہ بچوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ رات کی رانی میں جنات بسیرا کرتے ہیں اور ماسٹر صاحب کی ان جناتوں سے دوستی ہے۔ ماسٹر صاحب اپنی چھڑی بھی اسی رات کی رانی کی جھاڑیوں میں چھپا کر رکھا کرتے۔ جب کلاس آتے تو اپنی چھڑی کو آستین میں چھپا لیتے تاکہ بچے ڈریں نہیں۔ چھڑی کو وہ تنبیہ الغافلین کہا کرتے تھے۔ مشہور تھا کہ ماسٹر صاحب چھڑیوں سے صرف انسانوں کے بچوں ہی کی دھنائی نہیں کرتے ہیں بلکہ جناتوں کی پٹائی بھی کرتے ہیں اور جنات بھی ان سے خوف کھاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب چھڑی کو مضبوطی کے لیے تیل پلاتے تھے، جس کی وجہ سے چھڑی میں ایک عجب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔
یوں تو درس گاہ کے سبھی اساتذہ مخلص، بے ریا اور شفیق تھے لیکن ماسٹر صاحب کا انداز ان میں سب سے جدا تھا؛ اسی لیے وہ مارتو خان یعنی بہت زیادہ مارنے والا، گسیڑو یعنی بہت زیادہ غصے والا، ظالم، قصائی اور نہ جانے کن کن ناموں سے مشہور تھے۔ جن القابات سے ہم بچے ماسٹر صاحب کو جانتے ماسٹر صاحب اس کے بالکل برعکس ہم بچوں کو پھول ہی کے لقب سے نوازتے۔ کسی کو گلاب، کسی کو چنبیلی، کسی کو چمپا، کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ۔ کسی نے بہت اچھا کام کیا تو اسے گلاب کہہ دیا۔ کسی نے ان کی مرضی کے خلاف کام کیا، یا ہوم ورک نہ کیا تو ماسٹر صاحب اسے گڑھل کا پھول کہتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک لڑکی تھی، پڑھنے میں بہت کم زور؛ وہ کبھی بھی ہوم ورک مکمل کر کے نہیں لاتی تھی؛ ماسٹر صاحب اس کو بہت سمجھاتے، مارتے ڈانٹتے مگر اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں گھستا، ماسٹر صاحب نے اس کا نام گڑھل رکھ دیا۔ گڑھل پھول کے بارے میں وہ بتاتے کہ یہ بے گن کا پھول ہے جو خوب صورت تو ہے مگر اس میں کوئی خوش بو نہیں، اور وہ پھول ہی کیا جس میں خوش بو نہ ہو۔ ماسٹر صاحب ہم بچوں کو خوب صورت پھول کے ساتھ ساتھ بوئے خوش بودار یعنی مہک دار پھول بننے کی بھی ترغیب دیتے اور کہتے؛ جس طرح سے اچھے پھول کو لوگ دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں اور اس کی کشش لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے، انسان کو بھی ویسا ہی بننا چاہیے۔ ایک لڑکا گول مٹول اور موٹا تازہ تھا ماسٹر صاحب اسے گیندے کا پھول کہتے، ایک لڑکی بہت شرمیلی تھی، اس کا نام ماسٹر صاحب نے چھوئی موئی رکھا ہوا تھا۔ ایک لڑکی کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ماسٹر صاحب اسے سورج مکھی کہتے۔ ایک لڑکی دبلی پتلی تھی بالکل سوئی کی طرح ماسٹر صاحب اس کو سرو کہتے اور پھر یہ کس طرح دیو قامت ہوتا ہے اس کی کہانی بتاتے۔
مجھے امید ہے کہ کلیوں، کیاریوں اور پھولوں کا شوقین، نا تراشیدہ پتھروں کو زندگی بھر تراش کر خوب صورت روپ دینے کی کوشش کرنے والا وہ صورت گر ویسے ہی خوب صورت، پر بہار، تر و تازہ اور خوش بووں سے معطر باغوں میں آرام کی نیند سو رہا ہوگا۔


طلبا کے علاوہ اساتذہ بھی ماسٹر صاحب کا بڑا احترام کرتے؛ ماسٹر صاحب ایک فوجی جوان کی طرح ہمیشہ فٹ رہتے اور بچوں کو بھی اسی طرح چاق چوبند رہنے کی تلقین کرتے۔ ماسٹر صاحب بہت با رعب دکھائی دیتے؛ ان کی کلاس چھوڑنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اچھے سے اچھے کائیاں اور ڈھیٹ بچے کو بھی ٹھیک کر دیا کرتے تھے۔ انھیں غیر حاضری یا کلاس میں موجود ہونے کے باوجود پڑھائی میں توجہ نہ دینا، بالکل بھی پسند نہ تھا۔ وہ ایک چیز کو کئی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتے، کبھی کبھی غصے بھی ہو جاتے۔ جسے وہ ’محبت‘ کا نام دیا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی اس مخصوص’شفقت و محبت‘ کا شکار میں بھی ہوا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے شاید درجہ دوم یا سوم تھا، ٹھیک طرح سے یاد نہیں، ماسٹر صاحب کلاس میں پڑھا رہے تھے کہ پتا نہیں کیسے مجھے نیند آ گئی اور میں اونگھنے لگا۔ انھوں نے اشارے سے کسی بچے کو مارنے یا جگانے کے لیے کہا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، جیسے بچے اسی انتظار میں بیٹھے تھے، تڑا تڑ کئی ہاتھ میرے سر پر پڑے اور میں رونے لگا۔ ماسٹر صاحب نے سبھی لڑکوں کو بلایا اور ان کی گوشمالی کرتے ہوئے کہا ”میں نے اتنا زور سے مارنے کے لیے تھوڑا ہی کہا تھا، میں نے تو محض جگانے کو کہا تھا۔ “
ماسٹر صاحب کی تربیت کا انداز بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ بچوں کی ایمان داری کو آزمانے کے لیے سر راہ کچھ روپے یا پیسے گرا دیتے اور یہ دیکھتے کہ بچہ اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہے یا پھر ہیڈ ماسٹر کے حوالہ کرتا ہے۔ اگر بچے نے لے جا کر لقطہ کی پیٹی، ہیڈ ماسٹر یا پھر جس کا سامان ہے اس کے حوالہ کر دیا تب تو ٹھیک اور اگر غلطی سے بھی اپنی جیب میں رکھ لیا تو اس کی خیر نہیں؛ ایمان داری دکھانے پر ماسٹر صاحب بچوں کو شاباشی دیتے اور شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرتے۔
ماسٹر اللہ داد کریم ہر فن مولا تھے یعنی ریاضی، جغرافیہ، اردو، تاریخ، سوشل سائنس، اسلامیات سبھی کچھ پڑھاتے مگر بنیادی طور پر وہ انگریزی کے استاد تھے؛ شکل صورت سے بھی بالکل انگریزوں کی طرح گورے چٹے اور لمبے تڑنگے نظر آتے۔ سبق یاد نہ کرنے والے بچوں کی وہ ایسی دھنائی کرتے کہ بس۔ ایسے موقع پر وہ اپنے مخصوص انداز میں کہا کرتے ’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ اور یہ کہتے ہوئے چھڑیوں کی برسات کر دیتے۔ ماسٹر صاحب کے نزدیک ساری بیماریوں کا علاج بس چھڑی ہی سے ممکن تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے درس گاہ میں ہم سارے بچے کلاسیں شروع ہونے سے قبل ترانہ اور دعا پڑھا کرتے تھے۔ دعا کیا تھی علامہ اقبال کی ’یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اس وقت ہمیں ترانہ ختم ہونے کے بعد آداب سکھائے جاتے مثلاً کوئی چیز گری پڑی ملے تو اس کا کیا کرنا ہے، چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا ہے، سننے والے کو جواب میں یرحمک اللہ، جمائی کے وقت الٹا ہاتھ منہ پر رکھنا ہے، کھانا بسم اللہ سے شروع کرنا ہے، کھانے کے بعد دعا پڑھنی ہے، سڑک میں بائیں طرف سے جانا اور دائیں طرف سے لوٹنا ہے وغیرہ۔ یہ سب باتیں ماسٹر صاحب بڑے ہی دل نشیں انداز میں بتاتے۔ صفیں سیدھی کرنے کا طریقہ اور دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا سلیقہ بھی وہ اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے۔ صف ذرا بھی ٹیڑھی ہوئی تو بس وہ تنبیہ الغافلین ہی کا سہارا لیتے۔ ناخن چیک کرتے اور بڑھے ہوئے ہونے پر اسی چھڑی سے ناخنوں پر کُٹائی (ضرب کاری) ہوتی۔ ماسٹر صاحب اپنا قلم، کان کے اوپری حصے پر کھونس کر رکھتے۔ اگر کبھی چھڑی بھول گئے تو قلم کا بھی سہارا لیتے اور سزا کے طور پر قلم انگلیوں کے بیچ رکھ کر اتنے زور سے دباتے کہ بچے بلبلا اٹھتے۔ ماسٹر صاحب کو چچا غالب کی طرح آم بڑے پسند تھے؛ ماسٹر صاحب آم کو بھوجن گھسیڑ کہتے۔ جو بچے ان کے نشانے پہ رہتے، وہ انھیں غصے سے ”ایڈیا“ کہا کرتے تھے۔ جب ماسٹر صاحب کو اس کی خبر ہو جاتی تو وہ دبے پاوں کلاس میں داخل ہوتے اور اس بچے کو پکڑ کر کہتے، ’’کیا کہا تھا تم نے؟ ایڈیا آ رہا ہے۔ لو ایڈیا آ گیا“۔ اور پھر کسی نئے آئیڈیا یا مشکل سبق میں اس کو گرفتار کر لیتے اور مجرم بے چارہ سوچتا ہی رہ جاتا۔
ماسٹر صاحب کی کچھ عادتیں بڑی عجیب سی تھیں، آج انھیں یاد کرتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ان کے انداز تربیت پر مسکرائے بغیر نہیں رہا جاتا۔ امتحان کے دنوں میں ماسٹر صاحب امتحان ہال میں طلبہ کو کچھ نہیں کہتے بس اخبار پڑھنے میں مصروف ہوجاتے، مگر نقل کرنے والوں کو بہت آسانی سے پکڑ لیتے۔ ان کا انداز ہی نرالا تھا، جس اخبار کے مطالعے میں بظاہر وہ غرق دکھائی دیتے اس میں ایک دو جگہ چھوٹے چھوٹے شگاف کر دیتے اور انھیں شگافوں سے طلبہ پر نظر رکھتے، جب کہ طلبہ یہ سمجھتے کہ ماسٹر صاحب تو اخبار کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

ماسٹر صاحب بچوں سے باقاعدگی سے دریافت کرتے کہ کس نے نماز نہیں ادا کی ہے، نگرانی کے لیے ہر محلے کے ایک ایک دو دو لڑکوں کو ایک دوسرے کی ذمہ داری سونپ دیتے کہ دیکھنا فلاں مسجد میں آیا تھا، یا نہیں؛ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ہم لوگ سانٹھ گانٹھ (Setting) بھی کر لیتے، لیکن پتا نہیں کیسے ماسٹر صاحب کو اندازہ ہو جاتا تھا اور پھر ہماری درگت بنتی تھی؛ نماز نہ پڑھنے پر الگ اور جھوٹ بولنے پر الگ۔

ماسٹر صاحب کتاب پڑھاتے تو کبھی کبھی متن کی قرات بھی کراتے تھے، اس میں ح، ہ، ق، ک، س، ش وغیرہ پر بڑی باریک نظر رکھتے۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کیے رہتے ایسا لگتا جیسے سو رہے ہیں مگر جیسے ہی غلطی ہوتی صرف ٹوکتے ہی نہیں بلکہ دوبارہ، سہ بارہ اس کو درست کراتے۔ آزمایش کے لیے چاک یا پنسل دور پھینک دیتے اور کہتے اسے اٹھا لاؤ اور ایک دو، تین، چار گنتے ہوئے جاؤ اور گنتے ہوئے واپس آو؛ اس درمیان بچے کو گنتی سے زیادہ اپنی غلطی کے اصلاح پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی کہ گنتی ختم ہوتے ہی ماسٹر صاحب وہی الفاظ پھر دہرانے کو کہتے اور غلطی ہونے پر دھنائی کرتے۔ جغرافیہ کی کلاس میں بحرالکاہل، بحرمنجمد شمالی، بحر اوقیانوس، اور اس طرح کے بھاری بھرکم الفاظ یاد نہ رکھنے پرنہ جانے کتنے طلبہ کی شامت آتی۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے عجیب کیفیت سے دو چار ہوں؛ ماسٹر صاحب ہم لوگوں کو اسپورٹس بھی سکھاتے اور ہفتے میں ایک آدھ دن ورزش بھی کراتے۔ کبھی کبھی وہ کلاس کی چہار دیواری سے باہر نکال کر میدان میں لے جاتے اور وہیں اپنے مخصوص انداز میں پڑھاتے۔ میں آج بھی اپنے اسکول سے متصل اس بوڑھے آم کے پیڑ کو نہیں بھول سکتا، جب اس کے نیچے لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر ماسٹر صاحب ہمیں درس دیا کرتے تھے اور ہم بچے ان کے گرد حلقہ بنائے کھڑے ہوا کرتے۔ ماسٹر صاحب کی موٹے لینس والی عینک سے جھانکتی آنکھیں، برسوں کے تجربات سے سفید ہوئی داڑھی اور حالات زمانہ کے سبب ہاتھوں میں پڑی ہوئی جھریاں اور اس میں موٹی سی بانس کی قمچی آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔


آج میں ایک مرتبہ پھر گاؤں آیا ہوں اور آتے ہی اسکول کی طرف رخ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سو خاموشی چھائی ہے، ماسٹر صاحب کے کوارٹر کا دروازہ بند ہے۔ کنوئیں کا منڈیر جہاں ماسٹر صاحب بیٹھ کر وضو کرتے تھے خالی خالی سا ہے۔ بچے اپنے اپنے درجوں میں پڑھائی میں مشغول ہیں لیکن پھول کی کیاریاں، مچان اور اس میں اگے ہوئے سبز پتے کدو، ککڑی، کھیرا اور پھول اور سبزیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ جہاں ہم لوگ ترانہ اور دعائیں پڑھا کرتے تھے وہ لان بھی خالی پڑا ہے، مجھے لگا ماسٹر صاحب وہیں کرسی پر کونے میں بیٹھے ہیں، میری نگاہ کونے پر طرف گئی وہاں بے ترتیب اینٹوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں موجود وہ چارپائی بھی خالی ہے، جس پر ماسٹر صاحب لیٹا کرتے تھے۔ میں چند لمحے وہاں رکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ابھی ماسٹر صاحب کچھ بولیں گے؛ اپنا کرتا اور ٹوپی ٹھیک کرتے ہوئے کچھ پوچھیں گے۔ ”پڑھائی تو ٹھیک چل رہی ہے ناں؟ کھانے پینے کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ مجھے امید ہے تم ہم سب کا نام روشن کروگے، ہمیں تم پر فخر ہے۔ “ اور میں صرف جی جی کرتے ہوئے، شرم سے گڑا جارہا ہوں؛ اپنی کم مائیگی اور نا ہنجاری پر شرمندہ، خدا تعالیٰ سے دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں، خدایا! عزت رکھ لیجیو! کاش میں الفت و محبت اور امید کی لو لگائے ہوئے ان بزرگوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر پاوں۔ میرے اندر مزید وہاں رکنے کی ہمت نہیں ہے اور میں بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول سے باہر نکل آیا ہوں۔

۔۔۔مزید

منگل، 12 ستمبر، 2017

کرائم شوز: چند سوالات اور ان کے جوابات


فرحان احمد خان معروف صحافی اور مترجم ہیں جو متعدد موضوعات پر  لکھتے ہیں ، گذشتہ دنوں انھوں نے اپنے فیس بُک پر کرائم شوز سے متعلق چند سوالات کئے تھے ، ان کے سوالوں کا میں نے بھی اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی تھی ۔سوالوں کے ساتھ جوابات فیس بُک احباب کی نذر ہے ۔ فرحان بھائی کے شکریے کے ساتھ ۔
محمد علم اللہ
دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

1- کیا یہ پروگرام معاشرے کے سدھار کے لیے ضروری ہیں؟اگر ہاں تو کیسے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس سے سماج کے سدھار کے بارے سوچنا ویسے ہی ہے جیسے ریت میں سراب کے پیچھے دوڑنا ۔ایک منفی رویہ کو فروغ دیکر اس سے مثبت نتیجہ کی توقع  کیسے کی جا سکتی ، ببول بوکر آپ گلاب نہیں اگا سکتے  ۔ چونکہ اس میں باضابطہ طور پر  جرم کو فلما کر دکھایا جاتا ہے یا اس کی تفصیلات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ظلم کس طرح وقع پذیر ہوا یا اس کے پیچھے کیا کیا عوامل  تھے  کس طرح کا اسلحہ ، زہر اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے والی اشیاء کا کیسے  استعمال کیا گیا اور آج کل چھوٹے سے لیکر بڑے تک یہاں تک کہ بچے بھی  ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ کے ذریعہ ایسے پرگراموں تک بآسانی رسائی  رکھتے ہیں ۔متاثر نہ ہونا ناممکن ہے ۔ انسان کسی نا کسی حد تک  اس کا اثر بھی قبول کر تا ہی ہے ۔

2- کیا جرائم پیشہ افراد کی آپ بیتیاں نشر کر کے جرائم ختم ہو جائیں گے؟
جواب : 
آپ بیتی ، سوانح ، افسانہ ، کہانی یہ سب کچھ در اصل معاشرہ کا آئینہ ہوتے ہیں ،آپ معاشرے کو جس طرح کا آئینہ دکھائیں گے اثر اس کا ویسے ہی ہوگا ، اس معاملہ میں گرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک برائی کو برائی نہیں کہا جائے گا بندہ کیسے جانے گا کہ یہ غلط ہے ،  یا صحیح ، اپنی جگہ پر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے جرائم پیشہ لوگوں کی آپ بیتیاں شائع نہیں کرنی چاہئے ، اگر  شائع کرنا بہت ضروری بھی ہو تو اسکرپٹ اس انداز سے لکھا جانا چاہئے کہ بجائے اس سے ہمدردی پیدا ہو، اس کو واقعی جرم تصور کئے جانے کا مادہ پیدا ہو ۔ لوگ  خاص کر بچے اس کو آئیڈیل کے طور پر قبول نہ کریں بلکہ جانیں کہ یہ ایک خراب آدمی تھا جس کو لوگ آج اس کے خراب کام سے یاد کر رہے ہیں نا کہ اچھے کام سے ۔ 

3-کیا جرائم کی تمثیلی منظر کشی اور پیش کش جرائم کی تعلیم تو نہیں بن رہی؟
جواب : 
بہت حد تک ، اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے  اور اکثر  نوجوانوں کی زبان سے اس طرح کی باتیں سنیں گے کہ اس نے اس چیز کو یوں انجام دیا اور اس کو  کو فلاں فلم میں یوں دکھایا گیا ہے  وغیرہ وغیرہ ۔  جب انسان کے اندر جنون سوار ہوتا ہے تو پھر اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی منظر کشی یا لٹریچر جنونی کیفیت پیدا کرنے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں قبل کہیں میں نے یہ پڑھا تھا کہ نوجوان بڑی تعداد میں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں اور سیکس اور جنسی موضوعات کے علاوہ وہ جن چیزوں کو گوگل میں تلاش کر رہے ہیں ان میں بلا تکلیف آسان طریقہ خود کشی  کیا ہے ؟ اس  بارے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایسے معاشرے میں جرائم کی تمثیلی منظر کشی جذبات کو مزید بر انگیختہ کرنے کا کام کرے گا چہ جائکہ ہم اس سے اصلاح اور سدھار کی امید رکھیں ۔ 

4- پولیس سرکاری ادارہ ہے، بتایا جاسکتا ہے کہ کس ضابطے کے تحت کسی نجی چینل کو پولیس کی نفری بطور ایکٹر فراہم کی جاتی ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں پولس کی باضابطہ نفری تو کسی چینل کو فراہم نہیں  کی جاتی ہوگی ، جو چینل  یا  پروڈکشن ہاوس اس طرح کے پروگرام کراتے ہیں ان کے پاس مختلف قسم کے ڈریس اور میک اپ کا ساز و  سامان ہوتا ہے جس سے وہ اپنا مطلوبہ کیریٹر ڈیولپ کرلیتے ہیں ۔ آپ جیسا  بتا رہے ہیں اگر کسی چینل یا ادارے کو واقعی اداکاری کے لئے باضابطہ اور حقیقی کارکن فراہم کئے جا رہے ہیں تو یہ تباہی کا عندیہ ہے ، اس کی روک تھام کے لئے سماجی کارکنان اور سنجیدہ طبقہ کو آگے آنا چاہئے ۔ 

5- ریٹنگ اور منافع کے لیے پروگرام چلانے والے چینلز کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے تن خواہ پانے والے پولیس اہلکار کیسے میسر آجاتے ہیں ؟ انہیں پیشہ وارانہ مصروفیات میں سے فلم شوٹنگ کا وقت کیسے مل جاتا ہے؟
جواب : 
یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے ، صحافی حضرات اور سماجی کارکنان کو اس  پر نظر رکھنی چاہئے اور اس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرنا چاہئے بلکہ ان پر  تادیبی کاروائی کے لئے  منسلکہ اداروں کے ذمہ داران  کے علاوہ  عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے ۔ 

6- کرائم پروگراموں کے اینکرز کو جیلوں میں ملزمان یا مجرموں سے براہ راست بات چیت کی اجازت کس ضابطے کے تحت اور کیوں دی جاتی ہے؟ وہ کس اختیار کت تحت سوال پوچھ کر نشر کرتے ہیں ؟
جواب : 
اس کی اجازت  کسی بھی ملک کا قانون نہیں دیتا ، یہ ساری چیزیں افسران اور ایسے افراد کے ملی بھگت سے انجام دی جاتی ہیں ۔  دسمبر 2012 میں دہلی میں ایک چلتی بس میں لڑکی کو ریپ کرنے والے مجرموں سے بات چیت پر مبنی دستاویزی فلم لیزلی اڈون نے جب بنائی تھی اور اس میں مجرموں سے بات چیت کی تھی تو اس وقت ہندوستان سمیت عالمی سطح پر اس  موضوع پر کافی بحث ہوئی تھی ، اس فلم پر  حالانکہ ہندوستانی حکومت نے پابندی عاید کر دی تھی یہ الگ بات ہے کہ وہ فلم بعد میں لندن سے نشر ہوئی ۔ اس سلسلہ میں ماہرین کی رائے گوگل سرچ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

7- میڈیا کو گالیاں دینے والے ناظرین نے کبھی ان چٹ پٹے پروگراموں کی پیش کش پر غور کیا ہے؟ کوئی سنجیدہ سوال اٹھایا ہے؟
جواب : 
میرے خیال میں اس طرح کی چیزوں پر دونوں طرح کےافراد پائے جاتے ہیں ، کچھ اس کو پسند کرتے ہیں کچھ نا پسند ، ایک سنجیدہ معاشرے میں اس کے اثرات پر  دونوں جانب سے غور کیا جانا چاہئے اور منطقی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہندوستان میں یا پاکستان میں اس طرح کے پروگراموں پر کسی نے باضابطہ آواز اٹھائی ہے ۔ ہماری یہاں بد نصیبی تو یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ، نہ تو اس طرح کے موضوعات پر ریسرچ ہو تی ہے اور نہ ہی اس کے مثبت اور منفی پہلووں پر کوئی غور و خوض کرتا ہے ۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا پورا بر صغیر کا معاشرہ دن بدن قعر مذلت میں گر رہا ہے ۔ یہ صرف جرائم سے متعلق اثرات کی بات نہیں ہے ، ماحولیات ، بیماری ، حفظان صحت وغیری جیسے موضوعات کو بھی لیکر  ہمارے یہاں آپ کو غیر سنجیدگی ہی نظر آئے گی ، گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ، اور جب تک آپ کسی چیز کو مسئلہ نہیں سمجھیں گے اس کے حل کی تد بیر کیسے تلاش کریں گے ۔ 

8- کیا ان پروگراموں میں آپ نے کبھی کسی ہائی پروفائل مجرم یا ملزم کو چیخنے والے اینکر کے سامنے نظریں جھکائے ہتھکڑی لگے کھڑے دیکھا ہے؟
جواب : 
میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔

9- کیا آپ کے ذہن میں یہ سوال نہیں اٹھتا ہے کہ پولیس ، مجرم ، اور عدلیہ کے بیچ کسی بھی تیسرے گروہ کاکمرشل مقاصد کے لیے حائل ہونا پہلے ہی سے خستہ حال نظام عدل کو مزید متاثر کر رہا ہے ؟
جواب : 
بالکل متاثر کر رہا ہے ، ہمارے یہاں عدالتی نظام جس سست روی کا شکار ہے ، اس کی وجہ سے یہ عناصر تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں ۔ جرمن سماجی علوم کے ماہر جرگن  ہیبر ماس  نے 18 ویں صدی سے لے کر اب تک کے ميڈيائی ترقی  کا مطالعہ کیا  اس کی تحقیق کے مطابق لندن، پیرس اور تمام یورپی ممالک میں اس کا رواج  پبلک اسفیر  کے آس پاس  ہوا ،   عوامی  مباحثے کو کافی  ہاوس  اور سیلون سے حاصل کیا گیا تھا لیکن یہ طویل عرصہ تک نہیں تھا۔  انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاست پارلیمان میں اور میڈیا میں ہوتی  ہے، جبکہ عوام کے مفادات اقتصادی مفادات پر غلبہ رکھتے ہیں۔  یہ  تسلیم  کیا  گیا کہ عوام  کے خیالات  کا تبادلہ کھلے عام نہیں  بلکہ بڑے لوگوں کے اثرات اور توڑنےمروڑنے کے سٹائل پر منحصر ہے۔ ظاہر ہے کہ اکثر  اقدام  جس عوام کے نام پر کی جاتی ہے، وہ اصل میں خود سکھ سے متاثر دماغی تانے بانے کا شکار ہوتی ہے۔
جرم کے نام سے تیزی سےکٹتی فصل   بھی اس نقطہ نظر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ قریب 225 سال کی عمر پرنٹ میڈیا اور 60 سال سے ٹکے رہنے کی جدوجہد کر رہے الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کا پیمانہ جرم کی بدولت اکثر چھلكتا ظاہر ہوتا ہے۔ خاص طور پر 24 گھنٹوں کے ٹیلی ویژن کی تجارت میں، جرم کی دنیا خوشی کا سب سے بڑا سبب بن گیا ہے کیونکہ جرم کی دریا کبھی  بھی خشک نہیں ہوتی  ہے۔ نادان صحافی مانتے ہیں کہ جرم کی ایک انتہائی معمولی خبر میں بھی اگر مہم جوئی، راز، مستی اور تجسس  پروس  دیا جائے تو وہ چینل کے لئے  دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن عوام کا خیال ہے کہ، کوئی ثابت کرنے کے لئے کافی مضبوط نہیں ہے۔
گونگا باکس کہلانے والا ٹی وی اپنی  پیدائش کے کچھ ہی سال بعد اتنی تیزی سے کروٹیں بدلنے لگے گا، اس کا تصور آج سے چند سال پہلے شاید کسی نے بھی نہیں کیا ہوگا ، لیکن ہوا یہی ہے اور یہ تبدیلی اپنے آپ میں ایک بڑی خبر بھی ہے۔ میڈیا انقلاب کے اس دور میں، قتل، عصمت دری اور تشدد کے واقعات  سبھی میں کوئی  نہ کوئی خبر ہے۔ یہی خبر  24 گھنٹے کے چینل کی خوراک ہے۔ یہ نئی صدی کی نئی چھلانگ ہے۔

10-کیا یہ سنسنی خیر پروگرام سماج میں شک ، عدم تحفظ اور خوف سمیت دیگر تباہ کن نفسیاتی عوارض کا باعث نہیں بن رہے ؟
جواب : 
بالکل بن رہے ہیں ، اسی لئے میں نے کہا یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو اس جانب توجہ دینا چاہئے اور اس کی پوری تحقیق کر کے اس سے سماج میں پڑنے والے اثرات سے عوام کو رو برو کرانا چاہئے ۔ اس وقت ہمارے سامنے میڈیا کا  جو چہرہ ہے وہ مستقل تغیر پذیر  ہے۔ اس میں اتنی لچک ہے کہ پلک جھپکتے ہی  یہ ایک نئے اوتار کی شکل میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے۔ نئے زمانے میں نئے  انداز  اور جرم کے نئے  طریقوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ایسے میں اس کے  روک تھام کی بھی  ضرورت  بڑھ رہی ہے۔

۔۔۔مزید

پیر، 28 اگست، 2017

ہندوستان کی تعلیم میں علم کو ٹھونسا جارہا ہے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے بر عکس طلبہ کورٹّوبنایا جارہا ہے/ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

ہندوستانی اسکالر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب سے انٹرویو

 محمد علم اللہ 

گذشتہ دنوں معروف ملی قائد ، محقق، مترجم اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کے ساتھ دلی کے پاس ضلع بلند شہر جانا ہوا۔ مقصد تھا ایک گمنام مگرآئیڈیل شخصیت اور مجاہد آزادی عبدالعلی خان سے ملاقات اور انٹرویو کرنا۔ عبدالعلی خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ ہیں۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کو انہوں نے نہ صرف بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ ایک مجاہد کی حیثیت سے اس میں شریک بھی رہے ہیں ۔ آزادی کے بعد انہوں نے لندن کوچ کیا اور وہاں سے ایک انگریزی جریدہ (مسلم نیوز) جاری کرکے پہلی مرتبہ عالم اسلام کے مسلمانوں کی آواز اس پلیٹ فارم سے اٹھانے کے لئے اپنی کوشش کی ، یہ الگ بات ہے کہ کئی سال بعد یہ رسالہ بند ہو گیا لیکن اپنی جرات ، بے باکی اور شاندار تبصروں اور فیچرز کے لئے آج بھی اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انگریزی زبان میں پہلا نیوز میگزین تھا ۔ کئی سال لندن میں نکلنے کےبعد وہ پاکستان منتقل ہوا لیکن جنرل ایوب خان کے عتاب کی وجہ سے اس کے فائننسر باوانی صاحب نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ پرچہ بند ہوگیا اور عبد العلی خان اپنے وطن لوٹ آئے لیکن یہاں ان کو حکومت نے چین سے نہیں رہنے دیا ۔ برسہا برس کی لڑائی کے بعدان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت ملی لیکن ایک غیر ملکی کے طور سے۔ برطانوی شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان میں چند سال گذارنے سے وہ بھی “دشمن” کی فہرست میں لکھ لئے گئے اور کئی بار نوبت ہندوستان سے نکالے جانے کی آئی اور بڑی مشکلوں سے ٹلی ۔ اب تقریبا نوے سال کی عمر میں وہ بلند شہر کے قصبے سیانا میں اپنی زندگی کے آخری ایام گن رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام کا شدید احساس ہے کہ اس غیر معمولی شخصیت سے مسلمانان ہند نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور خود ان کے وطن نے ان کے ساتھ جفا کی ساری حدود پار کردیں۔

ہم جب ان کی رہائش گاہ پہونچے تو وہ بستر پر دراز تھے اور طبیعت بھی خراب تھی ۔ معلوم ہوا کہ کچھ دنوں قبل ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے ۔ حوائج وغیرہ کے لئےبھی انھیں دوسروں کا سہارا لینا پڑرہا تھا ۔ ایسے میں مناسب نہیں تھا کہ مزید ان کو زحمت دی جائے ۔ اس لئے آئندہ کے لئے انٹرویو کے پروگرام کو ملتوی کرتے ہوئے ہم وہاں سے واپس چلے آئے۔البتہ موقع کو غنیمت دیکھتے ہوئے میں نے مناسب جانا کہ اس موقع سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب کا ہی انٹرویو کیوں نہ کرلیا جائے۔ وہ نہ صرف اپنی علمی ،ادبی اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک شناخت رکھتے ہیں بلکہ اپنے علم اور فضل کی وجہ سے ایک بڑے حلقے میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسی شخصیتوں کی زندگی میں بہر حال سبق کے بہت سے پہلو مضمر ہوتے ہیں ۔ اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے اپنے موبائل کا ریکارڈر آن کیا اور ڈاکٹر ظفرالاسلام سے سوالات کرکے ان کی زندگی کے کئی گوشوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔
جس چیز کو “انٹرویو” کہتے ہیں، اس انداز سے یہ انٹرویو نہیں لیا گیا ۔ اس کے لئے پہلے سے نہ تو کوئی تیاری کی گئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہی تھا ۔ لیکن ان سب کے باوجود اس انٹرویو کی اہمیت اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ انٹرویو چلتی ہوئی گاڑی میں ریکارڈ کیا گیاہے ۔ قارئین کو اس انٹرویو سے اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کو شخصیت بننے میں کن طویل اور دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔کیا ایک شخص ماں کے پیٹ سے ہی سیکھ کر جنم لیتا ہے ، یا پھر اسکی محنت، جد وجہد اور آرزواس کو کہیں پہونچاتی ہے؟
اگرچہ یہ منتشر سوالات کے منتشر جوابات ہیں لیکن پھر بھی ان میں بہت کچھ ایسا ہے جس سے ہم ہمت اور حوصلہ لیکر آگے کے مراحل طے کر سکتے ہیں ۔ یہ انٹرویو خصوصا مدارس سے فارغ طلباء کے لئے دلچسپی کی چیز ہے ۔ اس انٹرویو کے ذریعے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کس طرح خار دار جھاڑیوں ، رویوں اور راہداریوں کو پار کر تے ہوئے اپنا مقام بناتا ہے ۔ تو آیئے بات چیت کو سنتے ہیں۔
محمد علم اللہ
نئی دہلی

سوال: ہندوستانی تعلیم اور بیرونی تعلیم کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور دونوں میں آپ کو کیا فرق نظرآیا؟
جواب: بہت فرق ہے ۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کی تعلیم میں علم کو ٹھونسا جارہا ہے یعنی سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے بر عکس طلبہ کورٹّوبنایا جارہا ہے۔ بس یاد کرلو ، امتحان پاس کر لینا ، پھر بھول جانا ۔ باہر ایسا نہیں ہے ۔ طلبہ کو ہر چیزسمجھنی پڑتی ہے اور آپ ایک بار کسی چیز کوسمجھ لیں تو زندگی بھر اسکو بھولیں گے نہیں ۔ پریکٹیکل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ ہر طالب علم کو ذاتی اٹنشن ملتا ہے۔ ایک کلاس میں بہت زیادہ طالب علم نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک استاد کے ذمے چھوٹی چھوٹی کلاسیں ہوتی ہیں ۔ ہال یا کمرے پوری طرح بھرے نہیں ہوتے ۔ مصر میں بھی ہمارے یہاں والی حالت ہے ۔ وہاں بھی ہال بھرے ہوتے ہیں لیکن انگلینڈمیں حالات بہت مختلف ہیں ۔ وہاں ذاتی اٹنشن ملتا ہے اور ہر طالب علم کافی استفادہ کر سکتا ہے ا گرکرنا چاہے ۔ نہیں کرنا چاہے تو الگ بات ہے، اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ انگلینڈ وغیرہ سے پڑھے ہوئے ہیں ان کے دماغ کھل جاتے ہیں، و ہ صحیح اور غلط کو سمجھنے کی تمیز اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، صحیح مشورہ دے سکتے ہیں ، صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ہمارے یہاں ہندوستان میں یہ حالت ہے ، اور وہ مصرمیں بھی ایک حد تک ہے ،کہ جو بات کہہ دی گئی اس کو اندھے بہرے ہوکے قبول کرلو ۔ انگلستان میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں کا استادآپ سے کہتا ہے کہ خود فیصلہ کرو،دماغ استعمال کرو، صحیح ہے غلط ہے تم فیصلہ کرو، ہم نہیں کریں گے۔ہمارے یہا ں معاملہ بالکل الٹا ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے یہاں قائدانہ صلاحیت والی شخصیتیں نہیں نکلتیں۔یہاں اس کو پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا نظام دوسرا ہے ۔وہاں شخصیت اور غوروفکر کوابھارا جاتا ہے ۔اور جن کے اندر خاص صلاحیت نہیں ہے ان کا حل بھی نفسیاتی تجزیہ کے ذریعے نکالا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سب طلبہ بعد میں اپنے اپنے میدان میں بہت نمایاں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہزاروں کی کھیپ مدارس اور یونیورسٹیوں سے نکل رہی ہے لیکن شاذونادر ہی ان میں سے ایک دو ایسے نکلتے ہیں جوکہ واقعتا اپنے علم پر دست رس رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ اسی وقت نکلیں گے جب آدمی کا دماغ کھل جائے گا۔ جب آدمی کا دماغ بند ہو، اس سے آنکھ بند کرکے جو بھی کہا جارہا ہو قبول کرنے کو کہا جائے تو اس کا دماغ کبھی کھلے گا ہی نہیں ۔
سوال: اچھا یہ بتائے کہ ہندوستان میں آپ نے جو کچھ بھی پڑھااور باہر بھی پڑھائی کی تو ہندوستان کی تعلیم کس حد تک آپ کے لئے کارآمد ثابت ہوئی ، آپ نے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان کے مختلف مدارس میں گذارا تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس میں یا ہندوستان میں آپ نے جو کچھ سیکھا وہ کس حد تک آپ کی زندگی میں کار آمد رہا۔آپ نے کتنا اس سے فائدہ اٹھایا؟
جواب: یہاں بھی جو علم ملتا ہے وہ بہر حال کہیں جا کے فٹ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بالکل بیکار ہوتا ہے۔، ہم نے یہاں عربی پڑھی ، فقہ پڑھی اور نحو پڑھی۔ ان سب کا فائدہ ہے۔ لیکن میرا مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جو بھی ہے اور جو انسان اس تعلیم سےبنتا ہے وہ مجموعی طور سے کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ انسان سازی نہیں ہوتی ہے ۔فارم کوئی بھر دیا، امتحان دے دیا، سرٹیفکٹ لے لیا اور نوکری کرلی ۔۔۔ بس اسی پر بات ختم ہو جاتی ہے ۔ نوکری کر لینا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس میدان میں بھی آدمی کام کرے اسے قائدانہ ہونا چاہئے ۔ آدمی چاہے جو بھی کام کرے اسے بہترین ہونا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں موچی بھی ہو تو اس کو بہترین موچی ہونا چاہئے ۔ آدمی کسی قسم کا کاریگر ہو تو اسے اپنے پیشے میں بہترین ہونا چاہئے۔ اسکا بہت احترام ہوگا اپنے میدان میں۔ یوں ہمیں اپنا مقام بنانا چاہئے ۔ کسی عالم یا مفتی میں جب تک اخاذ اور اجتہادی کیفیت نہیں پیدا ہوگی ،وہ خالی ایک ٹٹو بن کے رہے گا۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں یہاں ، کوئی مسئلہ آیا فوراََ جاکر کے کوئی پرانی صدیوں پہلے لکھی گئی کتاب کھول کے دیکھتے ہیں ۔ اب وہاں پہ نئے مسائل کے بارے میں لکھا تو ہے نہیں۔ ایسے مسائل تھے ہی نہیں اس زمانے میں تو وہاں پہ کیسے لکھا ہو گا ۔ لیکن اگر انہوں نے علوم پر تمکن حاصل کرلیا ہوتا اور شریعت کی روح سے آشنا ہوگئے ہوتے تو یقیناًکوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے۔
سوال: میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ طلبہ ہندوستان کے مدارس میں اتنا عرصہ گذارتے ہیں اور انھیں عربی کی تعلیم اتنی پختہ دی جاتی ہے، لیکن آج تک کوئی ایسا نام نظر نہیں آتا جو کوئی بہت بڑا ادیب یا صاحب قلم ہوا ہو ۔ ادھر آزادی کے بعد تو بالکل خلا نظر آتا ہے ۔ جب کہ اسی طرح کے طلبہ جب باہر جاتے ہیں تووہ بہت کچھ کرتے ہیں عربی میں ۔ ان کی لکھنے کی صلاحیت بھی ہوجاتی ہے اور عربی میں ان کی استعداد اتنی اچھی ہوجاتی ہے کہ وہ لکھ اور بول سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں اس طرح کیوں نہیں ہوپاتا ہے؟ کیا کمی ہے ؟ کیا ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ اس لائق نہیں ہے کہ ان کے اندر استعداد پیدا کرسکے؟ کچھ تو ہے ! آپ کیا سمجھتے ہیں ؟۔
جواب: ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ طلبہ پرانے نصوص کو سمجھنے لگیں ۔ تو یہ ہوجاتا ہے ۔ صحیح ہے یہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کہ طالب علم قادر الکلام ہوجائے ، خود لکھنے کے لائق ہوجائے ، خود ایسی عربی لکھے جو کہ دوسرے لوگ سمجھیں، ایسی عربی بولے جس کو دوسرے لوگ قابل قدر نگاہ سے دیکھیں ۔ تو یہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے کہ اسکے لئے ان کواس کے لئے تیار ہی نہیں کیا گیا ۔آج جدید سے جدید جو کتابیں آپ کے یہاں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ ستر سال پرانی ہیں ۔ زبان بدلتی رہتی ہے ۔ مروجہ عربی زبان بھی بدلتی رہی ہے ۔قرآن شریف نہیں بدلا،لیکن عربی زبان جو کہ عام انسان آج استعمال کرتا ہے اورلکھتا ہے یا جو کتابوں میں لکھی جاتی ہےیا اخبارات میں یا مجلات میں لکھی جاتی ہیں وہ روز بدل رہی ہے۔ نئے الفاظ ،نئی تراکیب ، نئی تعبیرات روزانہ آتی رہتی ہیں ۔ اگر آپ اس سے واقف نہیں ہونگے توکیسے کوئی قائدے کی عربی لکھیں گے یا پڑھیں گے یا سمجھیں گے۔؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء ایسی عربی لکھتے ہیں جو وہ خود ہی سمجھتے ہیں ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ پرانے نصوص وغیرہ پر ہمارے علماء کی جو دسترس ہے وہ شاید عام عربوں میں بھی نہیں ہے۔ قدیم عربی شعر اور قدیم عربی ادب آج کے عام عرب نہیں سمجھ پائیں گے،لیکن ہمارے مدارس میں اگر کسی نے ٹھیک سے تعلیم حاصل کر لی ہے تو بآسانی انھیں سمجھ سکتا ہے،اس لئے کہ ہمارا کل منشا یہی یہ ہے کہ اتنی عربی پڑھ لو کہ قرآن پاک اور قدیم فقہی کتب سمجھ پاؤ۔ اس کو بدلنا چاہئے ۔ یہ علم بھی مطلو ب ہے لیکن آج کی عربی بھی مطلوب ہے ۔ آج کی عربی میں ہم اگر اپنی بات نہیں کہہ سکتے یانہیں لکھ سکتے تو اپنی بات وہاں تک کیسے پہنچائیں گے؟ میرے خیال میں ہمارے طلبہ جو کہ مدارس سے نکلتے ہیں ان کو بہت اچھی اردو بھی نہیں آتی جبکہ اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اردو بذات خود ایک موضوع کے طور سے نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی جدید اردو ادب، تنقید ، غزل اور شاعری کے نئے رجحانات وغیرہ سے بھی واقف ہوناضروری ہے۔ ہمارے مدارس میں اس پربھی کچھ وقت دینا چاہئے ۔ اردو آج ایک نئی زبان ہے ۔ ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے کیا نئے رجحانات ہیں تبھی جاکر ان کی زبان اچھی بنے گی ۔ ورنہ ان کا نشان قدامت پرستی رہے گا ۔ وہ اردو لکھتے ہیں لیکن اس میں چاشنی نہیں ہوتی،روانی نہیں ہوتی ہے ۔روانی اسی وقت آئے گی جب وہ دوسرے ادب یاجدید لکھنے والوں کی تحریریں پڑھیں گے۔
سوال: مجھے یہ بتائیے کہ آپ کی شخصیت میں رفتہ رفتہ کیسے ارتقاء آیا ہے ۔ مدرسۃ الاصلاح سے آپ ندوۃ العلماء گئے ۔ آج مجھے پتہ چلا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی کچھ عرصہ گذارا۔اس کے بعد جامعہ ازہر اور قاہرہ یونیورسٹی میں اور پھر مانچسٹر یونیورسٹی میں۔ تو ان چاروں پانچوں جگہوں میں کیسے کیسے آپ میں تبدیلی آئی، یعنی مرحلہ وار ارتقاء،اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟۔
جواب: یہ سب چیز اتنی آسان اور مختصر نہیں ہے کہ ایک جملے میں بتا دی جائے ۔ انسان جب کسی جگہ کسی معاشرے میں کئی کئی سال گذارتا ہے، تو اس سے بہت سبق لیتا ہے۔میری حالت تھی کہ مجھے ہمیشہ سے آنکھ بند کرکے کوئی چیز تسلیم کرنے کی عادت کبھی نہیں رہی۔کسی کو بہت زیادہ سر پہ چڑھانے کی عادت بھی کبھی نہیں رہی بچپن سے ۔ اور اسی وجہ سے جب ہم لکھنؤ میں تھے تو ہم کو باغی سمجھا جاتا تھا ۔ اس طرح کی کوئی بات نہیں تھی۔ہمارا صرف یہ مسئلہ تھا کہ آنکھ بند کر کے کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے تھے اورکسی کے سامنے اتنا سر تسلیم خم بھی نہیں کرتے تھے کہ سجدہ کرنے لگیں ۔ احترام الگ بات ہے۔ تو یہ عادت ہمیشہ سے ہماری رہی ہے اس کی وجہ سے فائدے اور نقصانات دونوں ہوتے ہیں۔ لیکن اس بات سے سکون ملتا ہے کہ ہمارا مقصد صحیح ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ مجھے بہت زیادہ فائدہ مصر جانے سے ہوا ۔ مصر کا معاشرہ بہت کھلامعاشرہ ہے ، یعنی open society ہے۔ ان کے یہاں کافی اعتدال ہے ،دوسرے کی رائے کو سننے سمجھنے کی خواہش اور صلاحیت ہے ۔ ہمارے یہاں پر جو تنگ نظری ہے، مسلکی ،مذہبی وغیرہ اسلامی بھی جو ہے ، وہ سب وہاں نہیں ہے۔ یعنی وہاں لوگ بہت معتدل ہیں ۔یہاں تک کہ جن لوگوں کو ہم تنگ نظر کہہ سکتے ہیں وہ بھی ہمارے یہاں کے لحاظ سے بہت معتدل ہیں ۔ اس تجربے کا مجھے بہت فائدہ ہوا ۔مصر کے اس معاشرہ میں، میں سات سال رہا ۔ اور اس عرصہ میں ،میں مصری معاشرے میں بہت گھل مل گیا ۔شایداتنا تو اورکسی ہندوستانی کو نصیب نہ ہوا جتنا کہ مجھے ۔ ہرسطح کے لوگوں سے قریبی تعلقات قائم ہوئے جن میں شعراء بھی تھے ، ادباء و صحافی بھی تھے ، اساتذہ بھی تھے، یہاں تک کہ ایک وزیر بھی تھے یعنی ڈاکٹر حلمی مراد جو پہلے عین شمس یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، پھر وزیر تعلیم ہوئے ۔ ان لوگوں کے گھروں پر آنا جانا ہوگیا ۔ ان میں ایک بہت بڑے ادیب یحیٰ حقی بھی تھے ، ڈاکٹر مصطفی محمود بھی تھے، شیخ محمد الغزالی ، ڈاکٹر عبد الصبور شاہین بھی تھے ، صحافیوں میں بہت سے لوگ تھے ۔ ان میں میرےجامعۃ القاہرۃ میں ہم سبق ڈاکٹر عبد الحلیم عویس بھی تھے۔ان لوگوں کا بہت بڑا نام آج بھی ہے ۔ ان کی کتابیں جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ۔ان کے گھروں بھی میں آنا جانا ہو گیا ۔ بعض ادباء وشعراء وصحافی اس وقت نوجوان تھے ، بعد میں بہت مشہور ہوگئے لیکن اس وقت اتنے مشہور نہیں تھے جیسے شاعر حسن توفیق ، شاعر عفیفی مطر جو” سنابل” نامی ادبی پرچہ نکالتے تھے ، نقاد کمال حمدی وغیرہ، وغیرہ ۔اس تجربے سے مجھے کافی فائدہ ہوا جو کہ شاید اگر میں ہندوستان میں ہوتا تو نہ ہوتا ۔ یہاں پہ ہوتا تو تقلیدی قسم کا مولوی نہیں تو مسٹر ہی ہوجاتا، لیکن وہ وسعت نظری اور دماغ کا جو کھلا پن ہوتا ہے وہ نہیں ملتا اگر میں مصر نہیں گیا ہوتا ۔جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے قاہرہ یونیورسٹی میں چند سال گذارے اور وہیں سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا جس کے لئے مجھے مصر کی اکسچینج اسکالرشپ دو سال کے لئے ملی ۔ پھر میں نے قاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر بھی کام کیا ۔ فروری ۱۹۷۳ ء سے میں نے لیبیا کی وزارت خارجہ میں چھ سال بحیثیت مترجم و ایڈیٹر کام کیا ۔ اس وقت مجھے باقاعدہ ملازمت کی ضرورت ہوگئی تھی کیونکہ ۱۹۷۲ ء کے آخر میں میری شادی ہوگئی تھی اور شادی کے بعد ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں اور خود ہندوستان ،میں میرے والدین کو ضرورت تھی۔ اس لئے میں نے لیبیا میں چھ سال گذارے کہ یہ مسئلہ حل ہو حالانکہ وہاں کی سنگلاخ زمین اور بدو معاشرے میں کافی وقت گزارنا مشکل ہے ۔
بہر حال جب لگا کہ گھر پر مسائل کسی حد تک حل ہوگئے ہیں۔ والد صاحب کی کتابیں چھپنے لگی تھیں اور الرسالہ کو چھپتے ہوئے کئی سال ہو گئے تھے ، تو میں اکتوبر ۱۹۷۹ ء میں لندن چلا گیا ۔ گیا تو تھا مزید پڑھنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے ،لیکن اس کا زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ، جس نے مجھے بلایا تھا، مجھے اپنے کام میں اتنا مشغول کردیا کہ میں ٹھیک سے پڑھائی نہیں کرسکا،حالانکہ کہ میں نے وہا ں مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا۔ میرا موضوع “تصور ہجرت “تھا یعنی مفسرین، علماء حدیث اور فقہاء نے حکم “ہجرت” کو کیسے سمجھا اور اسلامی تاریخ میں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ میں نےکچھ کام کیا لیکن بہت زیادہ نہیں کرسکا ۔برطانیہ میں رہنے سے بہت فائدہ ہو ا۔ مغربی معاشرہ یا انگریزی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی خوبیاں ،ان کی محنت ،بچے سے لیکر 80 سال کے بوڑھے سب کو کام کرتے دیکھا ۔ سب محنت کے خوگر ہیں۔ کوئی اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کا کام کر دے گا۔ یہ سب چیزیں دیکھ کربہت متاثر ہوا ۔ سال بھر موسم خراب رہنے کے باوجود انکی وقت کی پابندی (Punctuality)ان کے کردار کا پتہ دیتی ہے ۔ سارے دفاتر اور بینکوں کے باہر لکھا ہے کہ 9 بجے کھلے گا تو 9بجے کھلا ہوا ملتا ہے اور ہر کارندہ اپنی سیٹ پر ہوتا ہے، چاہے موسم کیسا بھی ہو۔ موسم ان کا بہت خراب ہے ہمارے لحاظ سے ۔ کبھی خوب بارش ہوتی ہے تو کبھی خوب برف پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیشہ ہم نے کبھی اور کہیں ایک منٹ کی دیر نہیں دیکھی ۔ اول وقت میں بینک گیا تو کھلا ہو ا دیکھا ۔ ہر کاؤنٹر پر لوگ بیٹھے ہوئے ملے ۔ یہ ایک بار نہیں بلکہ ہر بار ہوا ۔ یہ سب چیزیں میں نے دیکھیں اور ان سے سبق بھی لیا اور ایک حد تک ان کو اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کی ۔ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں ۔ انگریز کام چور نہیں ہیں ۔ جو کام ان کو دیا جائے ، اس کو ذمے داری سے پورا کرتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھ کوذاتی طور سے بھی ہوتا تھا کہ اپنے پروفیسر (اڈمنڈ بوزورتھ) کو میں اپنا چیپٹر شام کو دیتا تھا اور وہ اسے اگلی صبح کو پڑھ کر واپس کر دیتے تھے جب کہ ہندوستان میں پرفیسر حضرات سال سال بھر چیپٹر رکھے رہتے ہیں اور مصر میں مہینوں رکھے رہتے تھے ۔ یہ ان پروفیسر کی بات ہے جو عالمی شہرت واہمیت کے حامل ہیں اور انسائکلو پیڈیا آف اسلام کے چیف ایڈیٹر تھے۔ شام کو چیپٹر دینے پر کہتے تھے کہ اگلے دن صبح میری سیکریٹری سے لے لینا ۔ جب میں صبح میں جاتا تھا جو وہ چیپٹر سیکریٹری کے پا س ملتا تھا ۔ یہ تجربہ ہر بار ہوا۔ تو یہ کام کا طریقہ ہے ۔یہ مجھ کو مصر میں نہیں ملا ۔ انگلینڈ میں ہر آدمی اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کر رہا ہے ۔ جب پورا سسٹم ذمہ دار ی کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے تو سب کچھ ٹھیک چلتا ہے ۔ ایسی قوم اور ایسے ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
سوال: اچھا ڈاکٹر صاحب !اس کا انکشاف تو آج ہوا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی تعلیم حاصل کی ہے ۔ وہاں کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب : دراصل جب میرے والد صاحب جماعت اسلامی میں تھے تو مولانا جلال الدین عمری صاحب سے بہت متاثر تھے ۔ رام پور میں جماعت کے آفس میں دونوں ساتھ ہی شعبہ تصنیف میں کام کرتے تھے ۔ دونوں کی کرسیاں ایک ہی کمرے میں ساتھ ساتھ تھیں۔ اس تعلق کی وجہ سے والد صاحب نے مجھے جامعہ دار السلام عمر آباد بھیج دیا۔ میں نے ایک سال وہاں زیادہ تر فارسی پڑھی ۔ چھٹی میں رام پور آیا اور جب دوبارہ عمر آباد واپس جانے کا وقت آیا تو میں نے پہلی دفعہ زندگی میں ابا سے مخالفت کرتے ہوئے کہا :میں نہیں جاؤں گا وہاں ، اتنی دور ، بالکل ایک نئی جگہ، زبان الگ ، تہذیب الگ ، جامعہ کے باہر سب لوگ تامل بولتے ہیں ۔ مجھے بھی تامل تھوڑی موڑی آگئی تھی جیسے’’ ٹیا کڑپاّ ‘‘(چائے لاؤ)۔ تامل کی گنتیاں وغیرہ بھی سیکھ لی تھی ۔ لیکن مجھے وہاں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس لئے وہاں واپس نہیں گیا۔ پھر والد صاحب نے مجھے مدرسہ اصلاح بھیج دیا جو ہمارے اپنے ہی ضلع اعظم گڑہ میں ہے۔ مدرسہ اصلاح میں میں تین سال رہا : عربی کے درجات اول ، دوم اورسوم۔ اس دوران والد صاحب تصنیف و تالیف کے سلسلے میں لکھنؤ آگئے، ندوۃ العلماء کے شعبہ تصنیف وتالیف جس کا نام مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ہے۔ اب انہوں نے مجھ کو لکھنؤ بلا لیا ۔ میں مدرسۃ الاصلاح سے درجہ سوم عربی پاس کرکے آیا تھا ۔ یہاں ٹسٹ ہوا ۔ آپ کو معلوم ہے میرا داخلہ کس کلاس میں ہوا ؟ چھٹے میں ہوا اس شرط کے ساتھ کہ عربی نحو (شذور الذہب) اور ایک کسی اور مضمون میں اگلے سال امتحان دوں اور اس کو پاس کر لوں ۔ یوں عربی ششم میں شرط کے ساتھ داخلہ ہو ا۔ عربی کے استاد و ادیب مولانا سعیدالرحمن اعظمی نے میرا ٹسٹ لیا تھا جو اب ندوۃ العلماء کے مهتمم ہیں۔ یوں میں مدرسۃ الاصلاح کے درجہ سوم سے نکل کر ندوہ کے درجہ ششم پہنچا۔
جن دو موضوعات میں مجھے امتحان دینا تھاوہ اگلے سال میں نے امتحان دے کر پاس کر لیا۔ اس طرح سے ہم عربی ہفتم (ساتویں) درجے میں پہنچے ۔ اس وقت ندوے میں عا لمیت سات سال کی ہی تھی۔لیکن مجھے لگا کہ مجھے یونیورسٹی جانا چاہئے ۔ تب تک والد صاحب شاید ندوے سےچلے گئے تھے ۔ یوں ہم نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ وہاں پر بھی “عالم” ہوتا ہے جو یونیورسیٹی کے بورڈ آف اورینٹل اسٹڈیز کے تابع ہے۔ جیسے اب علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی کا بریج کورس ۔ تو اگر لکھنو یونیورسٹی کا عالم اور فاضل پاس کر لیں تو پھر بی اے میں داخلہ ہوجاتا ہے۔عالم اور فاضل دونوں ایک ایک سال کا کورس تھا۔ ہم نے عالم میں داخلہ لے لیا۔ ہم عمر میں بہت چھوٹے تھے اور ہمیں اساتذہ وغیرہ کچھ سمجھتے نہیں تھے۔مطلب کوئی بھاؤ نہیں دیتے تھے ۔ لیکن جب امتحان کانتیجہ آیا تو ہم فرسٹ فرسٹ آئے (ہنستے ہوئے)۔ فرسٹ ڈیویژن اور ٖفرسٹ پوزیشن دونوں ۔اس کے بعد اساتذہ کا رویہ بالکل بدل گیا۔
اس دوران مصر کے جامعۃ الازہر کی اسکالر شپ کی بات آئی تھی ،امریکن یونیورسٹی قاہرہ کی اسکالر شپ کی بات بھی آئی تھی۔ ان دونوں میں ہم نے درخواست دیدی ۔ اور ان میں دونوں میں ہمارا سیلیکشن ہو گیا ۔ لیکن ہمارا پاسپورٹ نہیں بن پارہا تھا ۔ اس زمانے میں پاسپورٹ بہت مشکل سے ملتا تھا ۔ لکھنو یونیورسٹی میں ہمارے ایک ساتھی اور ہم سبق ایک صاحب صبرحد کے محمد صابر صاحب تھے جو کہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ لائبریرین ہوئے۔ ان کے توسط سے پاسپورٹ بنا ۔ ورنہ یہ بہت مشکل کام تھا۔ پاسپورٹ بنانا اس زمانے میں آج کی طرح آسان نہیں تھا ۔ آج تو تھوک کے بھاؤ سے پاسپورٹ بنتے ہیں۔پہلے بڑی انکوائری ہوتی تھی۔لیکن ضابطے میں یہ بھی تھا کہ سرکار کا کوئی اعلیٰ افسر، کم از کم ڈپٹی سکریٹری رینک کا، اگر لکھ دے کہ ہم ان کو جانتے ہیں تو پولیس انکوائری نہیں ہوتی تھی۔
ہم کئی بار لکھنو میں پاسپورٹ آفیسر کے پاس گئے ۔ ہر بار اس نے کہا: نہیں، یا تو تمہاری پولیس انکوائری ہوگی جس میں دو تین مہینہ یا کتنا وقت لگے گا ہم نہیں جانتے ،یا پھر تم کسی بڑے افسر سے لکھوا کر لاؤ ۔ ہم کو جانے کی جلد ی تھی کیونکہ مصر میں تعلیمی سال شروع ہورہا تھا۔ کئی لوگوں کے پاس گئے ، جن میں ہمارے ایک دور کے رشتے دار اسلام احمد صاحب ڈی آئی جی پولیس بھی تھے لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ہمارے ساتھی محمد صابر صاحب ہم کو اپنے ایک رشتےدار کے گھر لے گئے جو اس وقت یو پی گورنمنٹ کے لیگل ریممبرنسر(قانونی مشیر) تھے۔ وہ صاحب ہم کو نہیں جانتے تھے مگر صابر صاحب کے کہنے پر انھوں نے فارم پر دستخط کر دیا ۔ اسے ہم نے اگلے ہی دن پاسپورٹ آفس میں جمع کر دیا اور یوں ہمیں جلدی سے پاسپورٹ مل گیا۔پاسپورٹ کے بعد پیسے کی ضرورت تھی ۔ اس کے لئے ہم لکھنو سے اعظم گڑھ گئے اور والد صاحب کے توسط سے درکار رقم بڑے ابا (عبد العزیز خان صاحب) سے حاصل کی ۔ پھرلکھنو واپس آئے اور جب ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہو ابھی ایک اور کاروائی باقی ہے۔ اس زمانہ میں ملک سے باہر جانے والے کو ریزرو بینک آف انڈیا سے اجازت لینی پڑتی تھی۔
بڑی مشکل تھی بھائی۔ کام آسان نہیں تھا ۔ اس زمانہ میں کانپور میں ریزرو بینک آف انڈیا کاریجنل آفس تھا اور شاید اب بھی ہو۔ وہ لکھنؤ سے قریب تھا ۔ تووہا ں گئے ۔ وہاں ہمارے ایک رشتہ دار شعیب صاحب تھے اعظم گڑھ کے ۔ ان کے یہاں ٹھہرے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے ایک بھائی ریزرو بینک میں کام کرتے ہیں۔تو ان سے جاکر بات کی ۔ ان صاحب نے کہا کاغذات جمع کرادیجئے اور اگلے دن آجائیے گا ۔ انہوں نے کام کروا دیا اور اس طرح اگلے دن ہمیں اپناپاسپورٹ ریزرو بینک کے “نو آبجکشن” کی مہر کے ساتھ واپس مل گیا ۔اس طرح اللہ پاک نے یکے بعد دیگرے راستے کھولے ۔ اگر شاید ہم اپنے اوپر رہتے تو پاسپورٹ بھی نہ بنتا ، نہ ہم قاہرہ جاتے۔ ریزرو بینک کے کام کے بعد ہم دلی گئے ۔ یہاں پہلے ہم مصری سفارت خانے گئے ویزہ لینے کے لئے ۔ وہاں بھی بغیر کسی مشکل کے ویزہ مل گیا ۔ اس ہم چند دن کے بعد بریٹش ایر ویز سے ، جو اس وقت بی۔او۔ اے ۔سی کہلاتی تھی، قاہرہ پہنچ گئے۔باہر جاتے ہوئے اس وقت کے قاعدے کے مطابق مجھے ۳ (تین) بریٹش پاؤنڈ کی زر مبادلہ ملی ۔ اس کے علاوہ میرے پاس صرف ۳۰۰ ہندوستانی روپئے تھے جو ملک کے باہر بیکار تھے لیکن مصر میں مقیم ایک ہندستانی طالب علم نے اسے مجھ سے خرید لیا۔
قاہرہ پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارا اسکالرشپ امریکن یونیورسٹی والا ختم ہوچکا تھا لیکن جامعۃ الازہر والے اسکالرشپ کا ٹسٹ بھی دلی میں ہم پاس کرچکے تھے ۔ جامعۃالازہر کا یہ اسکالرشپ ، جو ہندوستانی ایجوکیشن منسٹری کے ذریعہ ہو اتھا ، ہمیں کچھ کوشش اور تاخیر کے بعد مل گیا۔اس طرح سے الازہر کے کلیۃ اصول الدین میں تعلیم شروع ہوئی اور ازہر کے بیرونی طلبہ کے ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ بھی مل گیا۔
سوال: آپ کو یہ شوق کیسے پیدا ہوا کہ باہر جاکر پڑھائی کریں؟
جواب : شوق کی بات نہیں تھی! بات دراصل یہ ہے کہ میں جو پڑھائی کر رہا تھا ، اس میں میرا کوئی اختیار نہیں تھا ۔والد صاحب نے زبردستی بھیجاتو میں چلا گیا ۔ ایک مدرسہ میں نہیں گیا تو دوسرے مدرسہ میں بھیج دیا ۔ دوسرے سے نکال کر تیسرے میں داخل کرا دیا ۔ اس میں میرا کوئی اختیا ر نہیں تھا ۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ میرے سامنے اس تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی مستقبل نہیں تھا ۔ یعنی میرا مستقبل یہی تھا کہ اسی طرح کا ایک مدرس بن جاوں یا کوئی امام وغیرہ ۔ اس تعلیم سے اسی قسم کے کام مل سکتے تھے ۔بہرحال میرے خیال میں اس وقت بھی میرے پاس اتنی سمجھ تھی کہ وہ سب چیزیں میری صلاحیت سے بہت کم ہیں ۔ اس طرح سے میں زندگی میں جو کنا چاہتا ہوں نہیں کرپاون گا ۔ میرے خیال سے یہی وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی طرح سے یہاں سے نکل کر بھاگا۔ میں،گیا نہیں، بلکہ بھاگا ،تاکہ میں اس زندگی سے جو نظر آرہی تھی سے بھاگ کر میں کچھ بن سکوں ۔ میرے خیال میں اس وقت میری سمجھ میں یہی بات آرہی تھی اور غالبا میں اگر میں باہر نہ گیاہوتا تو میں بھی آج کسی مدرسہ میں پڑھا رہا ہوتا اور کڑھ رہا ہوتا یاور اس کڑھن کی وجہ سے شاید متعدد امراض کا شکار بھی ہوچکا ہوتا ۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ ایک طرح سے میں نے غیر مطمئن مستقبل سے ، جو مجھے نظر آرہا تھا، بھاگنے کی کوشش کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں مجھے ناکامی نہیں ہوئی ۔ ٹھیک ہی ہوا ۔ یہاں جو ہوسکتا تھا اس سے بہر حال بہتر ہی ہوا ۔
سوال: ایک مرتبہ آپ نے بہت پہلے بتایا تھا کہ جب آپ مصر جارہے تھے تو آپ کے والد صاحب راضی نہیں تھے اور آپ کے جانے کے بعد انھوں نے کہا تھا آپ سے کہ تم نے مجھے دیوار قہقہ پھندوا دیا۔ان کا خیال شاید یہ تھا کہ آپ مصر کی جدیدیت میں کھو جائیں گے ؟
جواب: نہیں !نہیں! یہ غلط ہے ۔ دراصل یہ بات مولانا عبدالباری ندوی صاحب نے کہی ، جو متکلم و فلسفی کہے جاتے تھے ۔ وہ بہت مشہور عالم اور ندوہ کے فارغین میں سے تھے ۔آج لوگ ان کو نہیں جانتے لیکن انکا بہت ہی بڑا مقام تھاجیسے مولانا سلیمان ندوی وغیرہ کا تھا ۔ وہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے شعبہ فلسفہ کے صدر اور استاذ بھی تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنؤ میں رہتے تھے ۔ اس وقت ان کی کافی عمر ہوچکی تھی ۔ میں جاکر ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور انکی باتیں سنا کرتا تھا ۔مجھے ہمیشہ سے پسند تھا کہ میں اس طرح کے ذی علم اور میری عمر سے بہت بڑے لوگوں کے پاس بیٹھوں تاکہ کچھ سیکھ سکوں ۔ تو جب میں قاہرہ چلا گیا تو یہ بات مولانا عبدالباری صاحب نے میرے والد سے کہی کہ آخر کار آپ نے ظفرالاسلام کو دیوار قہقہ پھندوا دیا ۔ مطلب یہ ہےکہ قصوں میں مشہور ہے کہ کوئی دیوار تھی ،دیو مالائی دیوار، کوئی اسطوری دیوار ، جس پہ لوگ کھڑے ہوتے تھے، مسکراتے تھے اور چھلانگ مارکر دوسری طرف چلے جاتے تھے اور پھرکبھی واپس نہیں آتے تھے۔ تو ایک طرح سے اسکا مجازا یہ کہنا تھاکہ یہ لڑکا مصر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، وہاں کی جدیدیت میں گم ہو جائے گا ، وغیرہ ۔
میرے خیال میں مولانا عبدالباری کی یہ پیشن گوئی تھی پوری طرح سے غلط ثابت ہوئی۔ نہ میں مصر جاکر کوئی ملحد اور کافر ہوگیا نہ یہ کہ مصر جاکرمیں واپس نہیں آیا ۔ وہاں بھی میں اپنے دین اور عقیدہ پر قائم بھی رہا اور واپس بھی ہندوستان آیاجب کہ مجھے یہا ں آنے کی کوئی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ جب میں انگلستان گیاتو وہاں پرحالات بہر حال اللہ پاک کے فضل سے ٹھیک تھے۔ وہاں پہ میرا اچھا خاصہ کام تھا، ملازمت تھی ۔ میں نے وہاں مکان بھی خرید لیا تھا ۔ وہاں مکان خریدنے کے بعد لگتا ہے کہ آدمی وہاںسٹل ہوگیا ہے۔ عموما یہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود میں نے وہ مکان بیچ دیا اورہندوستان واپس آگیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ہندوستان میں ہی مجھے کام کرنا چاہئے۔ یعنی اپنے اصل مقام پر کام کرنا چاہئے ۔ دوسرے لفظوں میں میرے جیسے آدمی کو اپنےملک جانا چاہئے حالانکہ میرے ملک میں بہت مشکلات تھیں۔ اگر چہ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں جن میں میں ابھی نہیں جاتا، لیکن بحیثیت مجموعی میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ درست ہی کیا۔ حالانکہ اس کی اس وقت بہت لوگوں نے مخالفت کی۔ میرے گھر والوں یعنی بیوی اور بچوں نے کی اور دوسرے رشتہ داروں نے بھی مخالفت کی کہ کیا بیوقوفی کرتے ہو تم، بھلا کوئی انگلستان چھوڑ کر آتا ہے اس طرح سے؟
بہر حال میں نے سوچا تھا کہ یہاں واپس آکر کہ کچھ کروں گا،اور میرے خیال میں ایک حد تک میں نے کیا بھی۔ پوری طرح سے تو نہیں کرسکا کیونکہ یہاں آنے کے بعد میں بہت سے مسائل میں گھر گیا ،جسکی مجھے توقع نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود میں نے یہاں الحمد للہ سروائیو بھی کیا یعنی باقی وقائم رہا، بچوں کی مناسب تعلیم بھی ہوئی اور ایک حد تک میں نے کام بھی کیاجس میں ملی گزٹ سترہ سال تک نکالنا شامل ہے جوکہ میرے جیسے اکیلے آدمی کے لئے ،جس کے پاس وسائل کی سخت کمی تھی ، ایک معجزہ ہی تھا۔ کسی کے پاس بہت وسائل ہوں، یا اس کے پیچھے ایک بڑا ادارہ ہو ،تو اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ لیکن میں نے جو بھی کمایا وہ ملی گزٹ وغیرہ میں لگایا اور اس کے ساتھ اپنا پورا وقت بھی لگایا۔ ملی گزٹ کے ذریعے میں نے سترہ سال تک ملت کی آواز دنیا تک پہنچائی اور اسی کے ساتھ ساتھ اس عرصے کے سارے واقعات کو ایک رجسٹر کی طرح محفوظ بھی کر دیاکہ کبھی کوئی آدمی آئے اور جاننا چاہے کہ ان سترہ سال میں ہندوستانی مسلمان کیا کہہ رہے تھے ،کیا بول رہے تھے، کیا سوچ رہے تھے، ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا ، تو اس کو ایک حد تک وہ تصویریں مل جائیں گی جو شاید اور جگہوں پر نہ ملے۔ اور یہ بھی پوری کوشش کی گئی کہ جذباتیت سے دور رہ کر یہ سب بیان کیا جائے ، اگر چہ کافی مشکل ہوتا ہے کہ آدمی ایسے حالات میں جب بہت سنگین واقعات ہورہے ہیں ،جیسے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو ۲۰۰۲ میں ہوا اور اسی طرح جیسے آسام اور مظفر نگر میں جو کچھ ہو ا، ن سب کے باوجود ہم نے اپنے ہوش کو برقرار رکھااور عدل وانصاف کی بات کی جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم نے ملی گزٹ میں اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھااور انصاف کی با ت کہی، چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور ملت کو بھی اس کی تلقین کی۔ بہرحال لندن سے واپسی کے بعد بہت کچھ ہو جس میں سترہ سال نکالنا شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے یہ سب کار خیر ہی تھا۔اللہ پاک اس کا ثواب انشاء اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیں گے۔
سوال: ایک چیز یہ بتائیے کہ آپ جب لندن سے لوٹ رہے تھے تو آپ نے کوئی پلان بنایا تھا کہ مجھے ہندوستان میں جاکر یہ کرنا ہے۔ کوئی لانگ ٹرم پلان یا شارٹ ٹرم پلان ؟ تو آپ نے اپنے پلان اور ہدف کو کس حد تک پورا کیا اورکس حد تک آپ کو کامیابی ملی اور کیا آپ نہیں کرسکے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں یہ کرسکتا تھا لیکن نہیں کر پایا، یا آگے کا آپ کا کوئی خواب ہے جو آپ نے دیکھا اور وہ پورا نہ ہوپایاہو؟
جواب :دیکھئے ، ابھی میں اس کو نہیں بتاؤں گا۔ یہ بات انشاء اللہ کبھی مجھے اپنی سوانح عمری لکھنے کاوقت اگر ملا ۔۔ معلوم نہیں ملے گا یانہیں۔۔بہر حال، اگر موقع ملا تو انشاء اللہ اس میں یہ سب باتیں لکھوں گا ۔ میرا جو ہندوستان آنا ہوا اکتوبر سنہ 1984ء میں وہ در حقیقت میرے اپنے پلان کے مطابق نہیں تھا ۔ میرا پلان ہندوستان واپس آنے کا ضرور تھا لیکن اتنی جلدی نہیں تھا ۔ آنا کیوں اور کن حالات میں ہوا، اس کے بارے میں انشاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا ۔ ابھی میں اسکے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔



۔۔۔مزید