منگل، 28 جولائی، 2015

سابق صدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر ابوالفاخر زین الدین عبدالکلام کی رحلت پر منظوم خراج عقیدت ۔

27 جولائی ۵۱۰۲ء

سابق صدرجمہوریہ ہند، ہندوستان کے مایہ ناز ڈاکٹر ابوالفاخر زین الدین عبدالکلام کی رحلت پر برادر مکرم ضیاء الرحمان اصلاحی کا منظوم خراج عقیدت ۔

کشور ہندوستان پر سوگ طاری آج ہے
آسمان ہند پر اختر شماری آج ہے
رشک مہر وماہ تھاوہ اک ستارہ اوج کا
انجمن کی شان تھا وہ اور سہارا فوج کا
نبض ہندوستاں تھمی ہے تیرے اٹھ جانے کے بعد
ایک افتاد آپڑی ہے تیرے اٹھ جانے کے بعد
سب موافق او ر مخالف کر رہے ہیں آہ آہ
کارناموں پر ترے جو کر رہے تھے واہ واہ
اک صف ماتم بچھی ہے خاک ہندوستان پر
حرف آیا ہے ترے جانے سے اس کی شان پر
مسند عالی کو بخشیں تونے ایسی رفعتیں
جن کی وہ شایاں تھی لیکن اس پہ گذریں مدتیں
علم و حکمت اور تدبر اور سیاست کا کفیل
اس ریا کے دور میں اگلوں کی رفعت کا مثیل
تیرے ایجادات پر ہندوستان کو ناز ہے
اس کے نغموں کے لیے تیرا سراپا ساز ہے
طالبان علم کا تو ہم دم و دمساز تھا
اوررقیبوں کے لیے تو اک بت طناز تھا
تیرے عزم و جزم کی باتیں رہیں گی آن سے
ہم تری رسمیں ادا کرتے رہیں گے شان سے
کر رہے ہیں تیری عظمت کو کھڑے ہو کر سلام
نام تیرا زندہ و پائندہ ہے عبدالکلامA

۔۔۔مزید

بدھ، 8 جولائی، 2015

انکاؤنٹر


محمد علم اللہ دہلی
            ہم چار مینار پولس اسٹیشن کے قریب اس کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ برآمدے کے دوسری جانب کا پٹ کھلا ہوا تھا لیکن میری نگاہیں اس کا جائزہ بھی نہ لے پائی تھیں کہ ایک پولس والے نے اس کو بند کر دیا۔ اب کچھ نظر تو نہیں آ رہا تھا لیکن ہم کسی کے چیخنے کی آواز صاف سن سکتے تھے۔
کچھ پوچھ تاچھ چل رہی ہے کیا؟“میں نے قریب ہی کھڑے ایک آفیسر سے پوچھا۔اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ، کئی افسران چائے پی رہے تھے اور کچھ اخبار بینی میں مصروف تھے۔
            حیدر آباد آئے ہوئے یہ میرا پانچواں مہینہ تھا۔ بہت سارے سینئر صحافیوں سے دوستی ہو گئی تھی۔دہلی چھوڑنے کا غم اب دھیرے دھیرے محو ہو رہا تھا۔نئے لوگ ،نئی زندگی ،نئی راہیں ،سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ یوں بھی جب کسی چیز سے سمجھوتہ کرنا پڑے، تو انسان کونہ چاہتے ہوئے بھی بہت ساری چیزوں سے نباہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
            ریڈی میرا بہت عزیز دوست تھا۔ اس سے میری ملاقات حیدر آباد آنے کے بعد ہوئی۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ میں رہتے تھے۔ وہ ایک اچھا صحافی تھا اور بہت اچھا لکھتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے  پورے صحافتی حلقہ میں اس کی بڑی عزت تھی۔اعلیٰ افسران سے لے کر نچلی سطح کے لوگوں تک ،سبھی سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ اس نے ایک انجان شہر کی صحافتی دنیا میں تعلقات بنانے میں میری کافی مدد کی ۔ میں اکثر تو نہیں لیکن کبھی کبھی اس کے ساتھ رپورٹنگ کے لئے چلا ہی جا یا کرتا ۔ ہمارے میدان جسے صحافت کی اصطلاح میں بیٹ کہتے ہیں، الگ الگ تھے۔وہ کرائم رپورٹر تھا اور میرے ذمہ اقلیتی امور، ثقافت اور تعلیم کا شعبہ تھا لیکن پھر بھی ہم دونوں بہت سے وقوعے ایک ساتھ ہی  کور کرتے ۔
            آج جب ریڈی نے بتایا کہ وہ وجے سے ملنے جا رہا ہےتو میری بھی خواہش ہوئی کہ اس کے ساتھ چلوں ، وجے انکاؤنٹر اسپشلسٹ تھا۔ اچانک اور نا گہانی حالات میں بھی مورچہ کیسے سنبھالا جائے، دہشت گردوں کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟ ان معاملات سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ایسا اس کے بارے میں کہا جاتا تھا لیکن وہ کچھ لوگوں کے نزدیک بدنام بھی تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جعلی انکاؤنٹر بھی کرتا رہتا ہے۔ ایسے ہی ایک الزام میں وہ پھنس گیا تھا اور اب وہ کل ہی عدالت سے بری ہو کر آیا تھا۔
وجے کے آفس پہنچنے سے پہلے ہی مٹھائی کے دو ڈبے آئے، مجھے بھی ایک بڑے ڈبے سے لڈو پیش کیا گیا  ، اس سے نہ میں نےکچھ لیا اور نہ ہی ریڈی نے۔لڈو دیکھ کر ریڈی کچھ بڑ بڑا یا، وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا، میں نہیں سمجھ سکا  لیکن اس کے چہرے سے نا پسندیدگی جھلک رہی تھی۔کئی ذمہ دار اور با اثر شخصیات کے آنے جانے کا سلسلہ  جاری  تھا۔انتظار کی گھڑیاں بے قراری میں بدلنے لگییں۔میں نے ریڈی پوچھا”کب آئے گاتمہارا وہ آفیسر؟“ابھی میرا سوال ختم ہی ہوا تھا کہ پولس اسٹیشن میں اچانک ہلچل سی پیدا ہوئی۔ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ وجے آن پہنچا تھا۔ پولس والے اسے مبارکباد دے رہے تھےاور وہ مسکراتے ہوئے سب کی مبارکبادیں قبول کرتا رہا تھا۔ ایک نے تیلگو میں کہا:
             ” وجے بہادر! کل سے کام شروع کردو۔
            اس کے بعد ریڈی نے اس کا انٹرویو لینا شروع کیا۔ وجے ریڈی سے اچھی طرح واقف تھا اور شاید دونوں میں کچھ بے تکلفی بھی تھی۔ریڈی سوالات کرتا رہا اور وجے نہایت اطمینان سے اس کے ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔اور جب ریڈی اپنا انٹرویو ختم کر چکا تو میں نے بھی ایک سوال پوچھ ہی لیا ۔
  ”وجے جی! آپ کتنی مڈبھیڑوں میں شامل رہے ہیں اور کس طرح کی بندوقیں استعمال کرتے ہیں ؟ “اس نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور پھر فخریہ انداز میں گویا ہوا:
  ” اب تک بیس لوگوں کا انکاو ٔنٹر کر چکا ہوں۔“ پھر اس نے دراز میں سے چمڑے کا ایک پاؤچ نکالا، اسے کھولا اور میرے ہاتھ  میں تھما دیا۔ یہ سکس شوٹر تھا جس کا ہنڈل بھورا اوربیرل اسٹیل کا تھا۔ اس پر ٹائٹن ٹائگر کا لوگو بنا ہوا تھا اور اس کے نیچے 38 اور مایا ایف ایل کندہ تھا۔ اس کے ہینڈل پر داڑھی والا نارس گاڈ بنا ہوا تھا۔ یہ 1950ءکے زمانے کے ہالی ووڈ کی کسی فلم کے سین جیسا نظر آ رہا تھا۔ میں نے بیرول کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر وجے سے پوچھا:
کبھی مڈبھیڑ کے بعد یا کسی کی زندگی لینے کے بعد آپ کو برا لگا ؟
 ” وہ انسان نہیں تھے۔ “اس نے فوراً جواب دیا۔
وہ جانور تھے سب کے سب ۔ ایک زندگی لینے سے پہلے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مرنے والا انسان نہیں بلکہ ایک بیکار جانور ہے۔۔۔آپ کو پہلے یہ ماننا پڑے گا۔ “اس نے جواب دیا۔
کیا کبھی مڈبھیڑ کے دوران آپ نے خطرہ محسوس کیا؟“میرا اگلا سوال تھا۔میرا سوال سن کر وہ تھوڑی دیر کے لئے رکا۔ پھر کہنے لگا:
  ” کبھی نہیں، طریقہ یہ ہے کہ جوابی کا رروائی سے پہلے نشانہ پر گولی داغ دو۔ میں کوئی بہت اچھا نشانہ باز نہیں ہوں ، پھر بھی مجھے کبھی بھی پچیس فٹ سے زیادہ فاصلے سے گولی چلانی نہیں پڑی۔“میں نے اس سے کہا:
 ”ابھی فاضل جج نے حال ہی میں ایک فیصلہ کی بابت لکھا ہے کہ ملزم نے جدید ہتھیار اے۔کے 56 سے گولی چلائی  جس سے ایک منٹ میں چھ سو راؤنڈ گولیاں چلتی ہیں اور اس کی وار کرنے کی صلاحیت تین سو میٹر تک ہے مگر نہ معاون پولس افسران اور نہ ہی کمانڈر افسرکو ایک خراش تک لگی؟“ابھی میری بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ وجے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا:
بھیا ہم پولس والے ہیں۔“ریڈی نے اس کے خاندان کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کی دس سال کی بیٹی ہے:
  ” کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے بچے پولس میں شامل ہوں۔“میرا اگلا سوال تھا۔
            اس نے اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا :
 ”نہیں! “گفتگو کے ساتھ ساتھ میرا صحافیانہ ذہن کچھ اور چیزیں بھی دیکھ رہا تھا ، گفتگو کے دوران مبارکباد دینے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک سینئر انسپکٹر نے کہا کہ وہ مڈبھیڑ میں حصہ لینے والے ٹیم کے ہر رکن کو اکٹھا کریں گے اور جشن منائیں گے ، شراب کا دور چلے گا اور رنڈیاں بھی نچوائیں گے۔میرا سر چکرانے لگا تھا۔ میں بہت جلد یہاں سے نکل جاناچاہتا تھا ،میں نے ریڈی کو ایک ٹہوکادیا:
  ” اب چلو ۔۔۔بہت دیر ہو چکی ہے۔ “وجے نے مسکراتے ہوئے اجازت دی ۔ ہم اپنی کار میں بیٹھ چکے تھے۔ میرا ذہن نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا اور ریڈی بولے جا رہا تھا۔
 ”تم کرائم رپورٹنگ میں شاید پہلی مرتبہ آئے ہو، یار میں بھی جانتا ہوں، یہ سب غلط ہے لیکن کیا کریں کرنا پڑتا ہے یہ سب۔میں نے ایسے بہت سے واقعات دیکھے اور سنے ہیں۔ اور میں ایک راز کی بات بتاؤں؟ مجھے اُس واقعہ کی ایک پولیس افسر کے ذریعہ سن گن مل گئی تھی۔ یہ میرے لئے بہت بڑی خبر تھی  اور میں چاہتا تو ایک انسان کی جان بچ سکتی تھی  لیکن میں نے اس پر کوئی فالو اپ نہیں کیا۔اس کا قلق آج تک مجھے ہے۔ اس واقعہ کو میں آج بھی نہیں بھول سکتا  ۔ تم سُن رہے ہونا“میں نے نیند میں اونگھتے ہوئے  ہہہ ں  کہا :
وہ کہہ رہا: تھا اب بھی جب کبھی مجھے وہ واقعہ یاد آتا ہے، میرا دل دہل جاتا ہے۔میں نے اس واقعہ کو دیکھا ، بہت قریب سے دیکھا بلکہ اسے تم ایک کامیاب اسٹنگ آپریشن بھی کہہ سکتے ہو۔ میں نے اس دن اُس آدمی کو زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔اسے مڈبھیڑ کہنا غلط ہوگا۔ وہ جان بوجھ کر ایک قتل کا معاملہ تھا، پولس اس کو وقت سے پہلے ہی نمٹا دینا چاہتی تھی۔اس بے چارے کو اس کے کھڑے ہونے کی جگہ دکھا دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہاں سے ہلنا مت۔ تمہیں گولی لگ سکتی ہے۔“ بولتے بولتے ریڈی جذباتی ہو گیا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی:اس دن رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ۔پولس کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچے ۔ اس آدمی کو پتہ تھا کیا ہونے والا ہے۔ وہ ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھااور اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔“
             میرے بچے ہیں سر! پلیز مجھے بخش دیں ! میں کچھ بھی کروں گا۔ میں انفارمر بن جاؤں گا۔“ جب وہ اپنی زندگی مانگ رہا تھا تو ایک پولس والے نے اپنی بندوق اٹھائی اور گولی چلانا شروع کر دیا ۔ الگ الگ زاویے سے الگ الگ شاٹ، ایک منظم سازش کے تحت۔ا س طرح ایک پولس والا ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری جگہ پر۔ اس بات پر سمجھوتہ ہو چکا تھااور اس شخص پر لگ بھگ چھ سات راؤنڈ گولیاں چلائی گئیں۔ گولی چلاتے ہوئے وہ اسے گالیاں دے رہے تھے۔ ان پولس والوں کے چہرے پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ جب آدمی زمین پر گر گیا تو انھوں نے ساتھ لائے رومال میں لپٹے ریوالور کو مردہ آدمی کے ہاتھ میں رکھ کر اس سے دو گولیاں داغ دیں۔ جو بھی عام لوگ جائے وقوعہ پر تھے پہلے ہی پولس کی آواز سن کر بھاگ گئے تھے۔ پولس نے پنیتالیس منٹ تک انتظار کیا کہ اس میں زندگی کی  رمق بھی باقی نہ رہے، پھر اسے اسپتال لے کر گئے۔ میں اس رات تین بجے تک نہیں سو سکا۔ اور تین دن کھانا نہیں کھایا۔ میں نے پہلی مرتبہ کسی کو اس طرح مارے جاتے ہوئے دیکھا تھا:”اس واقعہ کے بعد سے پولس سے میرے تعلقات بدل گئے۔میں ان سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ سب  حرامی ہیں !کتے ہیں سالے !اگر مجبوری نہ ہوتی تو کب کا اس پیشہ سے توبہ کر لیتا۔ “گاڑی ایک جھٹکے سے رکی ، مگر ریڈی خاموش نہیں ہوا تھا ۔
 ” مجھے افسوس ہے بھائی میں نے اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ایک سطر بھی نہیں۔ پولس مڈبھیڑ کے بارے میں جو بھی خبریں چھپتی ہیں وہ بکواس ہوتی ہیں۔ آج کا انٹرویو بھی جھوٹا تھا۔ ہم صحافی نہیں اسٹینو گرافر ہیں اسٹینو گرافر! ہم پولس کے منشی ہیں۔“ میں نے ریڈی کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور چہرہ کسی پتھر کی طرح بے جان نظر آ رہا تھا۔
نوٹ : یہ افسانہ سہ ماہی ادبی جریدہ  ثالث  “ مونگیر میں شائع ہو چکا ہے ۔

۔۔۔مزید

جمعرات، 2 جولائی، 2015

بچپن کا روزہ


محمد علم اللہ
خود کو بچپن کے دنوں میں لےگئے تو ایک ہوک سی دل میں اٹھی ۔کہاں وہ مستیوں ، رنگ رلیوں ، بے فکریوں کے دن اور کہاں یہ کمپٹیشن ، امتحان ، پڑھائی ، نوکری کی تلاش ، بچھڑے رشتے ، دوستوں کی کرم فرمائیاں ، ناراضگیاں،دغابازیاں یعنی کہ بے شمار حاضر اور ماضی کی یادیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں ۔
خود کو جب آج سے بیس بائس سال پیچھے ماہ رمضان المبارک میں لے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہر چہار جانب سے تلاوت قران مجید کی پر سوز آوازیں آ رہی ہیں ۔ خوشیوں اور چہچاہٹوں کا ریلا ، بھائیوں ، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کا میلا ۔نانی اماں بڑے سے ریحل میں موٹے موٹے حروف والا قران لیکر پڑھنے میں مصروف ہیں ۔ ادھر ہم بچوں کی دھما چوکڑی اور اچھل کود جاری ہے ۔کبھی لڑتے ، گرتے ہیں تو کبھی ہنسیوں کے فوارے چھوٹے پڑ رہے ہیں ۔ امی قران پڑھ رہی ہیں ، ہماری نیند کھل چکی ہے اور ہم رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ ہمیں کیوں نہ اٹھایا سحری میں، امی لاکھ سمجھائیں کہ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا لیکن کہاں مان کے دیتے ہیں ۔ ابو آئے انھوں نے گود میں اٹھا لیا سمجھایا، بجھایا اور دیر تک کھلاتے رہے ۔
چچا کے ڈر سے کبھی ہم ادھر بھاگ رہے ،کبھی اُدھر دروازے کے پیچھے چھپے ہیں کہ ابھی کہیں گے جی میاں! درود شریف سنائیے، دعائے قنوت سنائیے،قنوت نازلہ ،آیۃ الکرسی یہ کیا ایک ہی تو غلطی ہوئی جی ہاں اب سو مرتبہ انھیں سناؤ۔ یا خدا یہ مر کیوں نہیں جاتا ۔اب سوچتے ہیں تو عجیب سا لگتا ہے ، بچپنے کی سوچ بھی کیسی عجیب و غریب ہوتی تھی۔ یہ مرنے کی بددعا کرنے والا قصہ بھی عجیب ہے، شکر ہے اللہ کا کبھی ایسی دعا قبول نہ ہوئی ورنہ کتنوں کی شفقت سے محروم رہتے اور کتنے اللہ کے پیارے ہو چکے ہوتے ۔گھر میں چھوٹے چچا کا بھی یہی حال تھا ۔ کبھی پہاڑاسناؤ،تو کبھی کلمہ، کبھی جملوں کی ترکیب کرو تو کبھی نحوی و صرفی تحلیل۔اسکول سے چھٹی کیا ملتی تھی، گھر پر  ایک نیا مدرسہ کھل جاتا  اور سب موقع کی تلاش میں گھیرے میں لینے کو تیار رہتے ۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ سبھی بچے بڑوں کے راڈار پر رہتے ۔ اس سے تربیت بھی ہوتی اور سب ایک دوسرے کی نگرانی میں رہتے ۔ جوائنٹ فیملی میں جہاں بہت ساری پیچیدگیاں ہیں، وہیں بہت سے فائدوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
خیر ۔۔۔ گھرسے نجات ملی تو اچھلتے کودتے نانی کے گھر بھاگتے ۔نانی کا گھر قریب ہی تھا، سب پوچھتے "روزہ رکھے ہو؟"
"ہاں رکھا ہوں"
 "چل جھوٹے، ذرا منہ تو دکھا۔ آآآ کر آآآ" خالہ نے جوں ہی یہ کہا، ان سے لڑ پڑے،پھر تھوڑی دیر بعد ہی خالہ کے ساتھ دوڑ دوڑ کے کام کر رہے ہیں، دیکھنا اس میں نمک زیادہ تو نہیں اور اس میں شکر کم تو نہیں ،تو بھیا ہم نمک بھی چکھ رہے۔ماموں کے لئے دوکان میں افطار پہنچا رہے ہیں اور پھر شام کو افطار کے بعد فیرنیاں، مٹھائیاں،جلیبیاں،کیا مزے کے دن تھے۔
ہم امی سے ضد کرکے روزے رکھتے۔ حالانکہ وہ ضد کرتیں بچوں کا روزہ آدھے دن کا ہوتا ہے، لیکن صاحب مان کے نہیں دیتے ۔ یوں تو ہر جگہ اور ہر علاقہ کی اپنی اپنی روایات ہیں اور وہی انفرادیت اور خصوصیت اس علاقہ کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ۔رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے قبل ہی مسجد کے مینار پر کئی بڑے بڑے بانس کو ملا کر کھڑا کیا جاتا اور رسیوں سے مسجد کے مینار پر باندھ دیا جاتا جس میں لال اور ہری بتیاں لگی ہوتیں ۔ ہری بتی افطار کا وقت ہونے پر جلتی۔ جب کہ لال بتی انتہاے سحری کے وقت جلتی۔ ہم بچے اس لائٹ کو دیکھنے کے لئے بہت بے قرار رہتے خصوصا شام میں ہری بتی جلنے کا بڑی بے صبری سے انتظار رہتا اور جیسے ہی ہری بتی جلتی ایک شور ہوتا ’’ بتی جل گئی روزہ کھولو‘‘۔
مجھے یاد پڑ ا رمضان کا مہینہ آتا تو پورے علاقہ میں ایک جشن کا سا ماحول ہوتا ۔حالانکہ ایسا اب بھی ہوتا ہے لیکن آج کل کی تیز رفتار زندگی میں وہ روحانی منظر کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم بچوں میں تلاوت کلام مجید کا کمپٹیشن ہوا کرتا تھا ۔ کون کتنے پارے روزانہ پڑھتا ہے ،اور یوں اس کمپٹیشن کی بدولت ہم کئی کئی مرتبہ قران مجید ختم کر لیا کرتے تھے ۔
یوں تو گھر میں پورے رمضان ہی اچھے اچھے پکوان اور قسم قسم کی ڈشیں بنتی اور آس پڑوس میں بھجوایا جاتا لیکن جس دن محلہ سے باہر اور رشتہ داروں کو افطار بھجوانا ہوتا اس دن سب دو پہر سے ہی بھڑ جاتے۔ کیا باجی ، امی ، ابو بھی اپنا شوق پورا کرنے میں پورے انہماک سے جٹ جاتے، ابو کو کھانا پکانے اور کھانے کا بڑا شوق تھا، اور یہ شوق الحمد للہ اب بھی جوان ہے ۔ مختلف قسم کے پکوان بنائے جا رہے، پکوڑیاں، پھلواریاں، سموسے، سنگھاڑے، آلو چاپ ، انڈا چاپ ، گگھنی ، چھلکا روٹی ، دُھسکا ، پُوا ٹکیاں اور نہ جانے کیا کیا ۔ اب تو صرف اس کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں ۔ دیہاتوں میں افطار تقسیم کرنے ، اور خصوصی طور پر غرباء کا خیال رکھنے کا بڑا رواج تھا ، یہ چیزیں شہروں میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں ۔یہاں تو ایک فلیٹ والے کو بغل والے فلیٹ کے بارے میں پتہ نہیں رہتا۔
ان ہی دنوں کی بات ہے یہ میرے ضدی پن کی وجہ سے ہوا تھا ، جس کا نشان اب بھی باقی ہے ۔ افطار سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا، میرا چھوٹا بھائی یا بہن  مجھے اچھی طرح یاد نہیں  ہاں اتنا یاد ہے کہ امی اس سے دق ہو رہی تھیں ۔ میں سامنے ہی تھا امی نے کہا :’’کچھ نہیں کر رہے ہو تو کم از کم بچے کو ہی باہر لے کر جاؤافطار کے وقت آنا‘‘۔ ہم غصہ سے بچہ کو لیکر باہر نکلے۔افطار کا وقت ہو گیا لیکن ہم گھر نہیں گئے ابو نے یکے بعد دیگرے گھر کے تقریبا ًٍہر فرد کو بلوانے کے لئے بھیجا۔امی ، بھیا ، بڑی آپا ، اس سے چھوٹی والی آپا ، چھوٹا بھائی ، چچا ، لیکن صاحب مجال ہے چھوٹے میاں اپنا غصہ توڑ دیں ،میں نے تو جیسے قسم کھا لی تھی گیا ہی نہیں۔
تھوڑی دیر بعد ابو خود آئے، انتہائی غصہ کے عالم میں اور مجھے ساتھ لے کر گئے جہاں دسترخوان پر افطاری سجی تھی  ۔ابھی ہم اندر گئے ہی تھے کہ آذان ہو گئی میں روزے سے تھا لیکن غصہ کی وجہ سے میں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا ۔امی نے کہا ’’روزہ مکروہ ہو جائے گا اور دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ‘‘ لیکن نہیں۔ سبھوں نے بڑی کوشش کی لیکن نہیں ۔ اب بڑے میاں کی باری تھی ان کے ہاتھ میں گلاس تھا ۔انھوں نے کہا اگر تین گننے تک نہ لیا تو گلاس چلا کے مار دوں گا۔ لیکن ہم بھی تو ضدی باپ کے ضدی بیٹے تھے ۔ نہ لیا اور پھرگنتی شروع ہوئی ایک ۔۔۔دو۔۔۔ تین ۔۔۔اور یہ کیا انھوں نے سچ مچ گلاس چلا دیا ،بھن۔۔۔ اسٹیل کا بھاری گلاس تیز اسلحہ کی طرح ۔ناک کے نچلے حصہ کو کاٹتا ہوا نکل گیا۔خون کا فوارہ ابل پڑا ۔ مجھ سے زیادہ امی نے رونا دھونا شروع کر دیا ۔ فورا ًہاسپیٹل لیکر گئے ۔اور علاج و معالجہ شروع ہوا۔ اس وقت مجھ سے زیادہ بڑے میاں کی حالت خراب تھی ۔
بعد کو جب چوتھی  کلاس میں مجھے ہاسٹل میں داخل کرایا گیا۔ تب ایک مدت بعد گھر لوٹنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ خوب آو بھگت ہوتی لیکن جیسے جیسے رمضان ختم ہونے کے دن آتے، اور عید کی گونج سنائی دیتی ۔ ہمارے دل پرآ ریاں چلنا شروع ہو جاتیں کہ اب چھٹیاں ختم ہوتے ہی ہاسٹل واپس جانا پڑے گا ،دل کرتا کہ یہ رمضان کا مہینہ ختم ہی نہ ہو ۔جیسے جیسے عید قریب آتی جاتی ، گھر چھوڑنے اور سب سے جدائی کا غم ستانا شروع کر دیتا ۔ کھانا پینا کچھ بھی اچھا نہ لگتا تھا یاد کرتے کہ پھر مدرسہ جانا پڑے گا ، اور دل ہی دل میں کڑھتے کہ پھر وہی تنہائی ہوگی ، وہی ظلم ہوگا اور باقی رہ جائیں گی صرف یادیں ۔
نوٹ : میں محترمہ کو ثر بیگ صاحبہ کا ممنون ہوں جنہوں مجھے رمضان سے جڑیں بچپن کی یادیں قلمبند کرنے کی تحریک دی۔


۔۔۔مزید