بدھ، 14 مئی، 2014

اس کی آنکھیں

محمد علم اللہ اصلاحی
ترگڑی گاوں میں دماغی بخار سے بچوں کے مرنے کی افواہیں گشت کر رہی تھیں۔ لیکن میڈیا اب تک خاموش تھا، ممکن ہے حکومت کے دباو یا منتظمین کے سخت رویہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہو ۔ لیکن ہلاک ہونے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ ایک ماہ میں اسی بچوں کی موت ہو چکی تھی اور سو سے زیادہ ہسپتالوں میں تھے۔عوام اور سماجی کارکنان کی آواز تیز ہونے لگی تھی ،سوشل میڈیا میں بھی یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیلی ۔ سماجی حلقوں سے آوازیں اٹھنے لگیں ، سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر لیڈران کی بھی آمد ہونے لگی۔اور پھر چور مچائے شور کے مصداق میڈیا نے بھی اپنی ذمہ داری طوعا و کرہا نبھائی۔آخر حقیقت حال کو میڈیا بھی کب تک چھپاتی ۔
ایک صحافی کی حیثیت سے میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا ۔گاوں شہر سے زیادہ دوری پر نہیں تھا ۔اس لئے ہم نے شام کو ہی ٹھنڈے وقت نکلنا مناسب سمجھا ۔ارادہ یہی تھا کہ رات تک واپس لوٹ آئیں گے ۔اور جب ہم گاوں پہنچے تو وہاں عجیب و غریب منظر تھا ۔شہر کی طرح زیادہ بھیڑ بھاڑ بھی نہیں تھی ۔کئی لوگوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ گاوں والوں نے اس موت کا سبب آسیب اور بلا کو سمجھا تھا ۔اس لئے کئی لوگ گھر بھی چھوڑ چکے تھے۔ کھڑکیوں سے اکا دکا جھانکتی عورتیں یا حقہ کی غڑغڑاہٹ اور بیڑی کے مرغولوں کے بیچ تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے بیٹھے ہوئے بزرگ دکھائی دے رہے تھے جو جانے کیا آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اکا دکا گھروں سے چراغوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔
ایک بزرگ سے ہم نے اس بیماری کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے دوسری گلی میں داخل ہو جانے کے لئے کہا ۔ہمارے قدم دھیرے دھیرے کہانی کی تلاش میں بڑھتے جا رہے تھے۔بزرگ کی ہدایت کے مطابق سب سے پہلے ہم گاؤں میں ان خاندانوں سے ملنے پہنچے جن کے بچے اس بیماری کی وجہ سے حال سے ماضی میں سما چکے تھے۔ ان کے دکھ کی کہانی بھی بڑی عجیب تھی۔ ہم جن جن خاندانوں کے پاس گئے ان میں سے زیادہ تر کے گھروں پر تالے جھولتے ہوئے ملے۔ پوچھ گچھ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے کے ماں اور باپ دھان کاٹنے گئے ہیں۔"وہ آپ کو کھیت میں ملیں گے یا پھر اوپری ٹولہ میں جہاں پینے کا پانی آتا ہے لانے گئے ہوں گے۔" لوگوں نے بتایا۔ یہ سن کر تعجب ہوا اور کافی حیرانی بھی۔
"کل ہی تو ان کے بچے کی موت ہوئی ہے اور یہ آج ہی کام پر چلے گئے !‘
ہم نے اطلاع دینے والے سے پوچھا
‘‘ صاحب ، جانے والا تو گیا۔ اب جو زندہ ہے وہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کیا ؟ اور کھائے گا نہیں تو کیا بھوکا مرے گا ؟ ‘‘اس جواب میں بھوک ، غربت اور زندگی کا پورا فلسفہ سمایا ہوا تھا۔میرا قلم تیزی سے نوٹ بُک پر چل رہا تھا۔
کئی خاندانوں سے ہم نے ان کے کھیتوں میں ہی جا کر ملاقات کی۔رات کافی بھیگ چکی تھی۔ ہمیں خبروں اور تصاویر کے لئے شہر میں واقع ہاسپیٹل بھی جانا تھا۔ بیمار بچوں کا علاج وہیں ہو رہا تھا۔ ہسپتال پہنچے تو عجب ہی ماحول تھا۔ کئی عورتوں کے رونے اور بچوں کی سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔ہسپتال کے باہر کچھ لوگ سو رہے تھے، کچھ جاگ رہے تھے ۔ ہسپتال کے حالات کا اگر تفصیل سے تذکرہ کروں کئی صفحے بھر جائیں گے لیکن اس کی حالت زار کی تصویر مکمل طور پر نہیں بن پائے گی۔ یہ ہسپتال کیا تھا ، اس کے نام پر مکمل مذاق تھا۔ کوئی سہولت نہیں ، مشینیں خراب ، دوائیں ندارد لیکن علاج چل رہا تھا اور بچے مر رہے تھے۔
ہم سیدھے سی ایم او کے کیبن میں داخل ہو گئے ،ڈاکٹر اونگھ رہا تھا جو شاید دروازے کی کھٹ کھٹ سے بیدار ہوا ۔ہم نے اسے اپنا مدعا بتایا۔ سی ایم او نےایک ڈاکٹر کو بلا کر کہا کہ وہ ہمیں اس بیماری سے متاثر بچوں کے وارڈ میں لے جائے۔ وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گیا جس کے باہر دروازے کے ٹھیک اوپر سبز رنگ کا ایک بورڈ لگا تھا ، جس پر لکھا تھاانسفلائٹس وارڈ۔ ہم کمرے میں داخل ہو گئے تھے ۔کراہتے بچوں اور بلکتےی ماوں کی آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔
بستروں پر جو بچے لیٹے ہوئے تھے، ان کی ناکوں ، ہونٹوں اور ہاتھوں میں طرح طرح کے پائپ لگے تھے جو کمرے کے خوفناک ماحول کو اور بھی پر اسرار بنا رہے تھے۔ مجھے تصویریں لینی تھیں ، لیکن میں اس خاموش فضا میں اپاہجوں کی طرح ساکت کھڑا تھا، جیسے میرے ہاتھوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا، دس پندرہ منٹ تک تو میں نے کوئی تصویر کھینچی ہی نہیں۔راہ چلتے ہوئے، عام چیزوں کی تصویریں کھینچنے اور ان میں مختلف جذبات کی رویں تلاش کرنے والے کی آنکھیں آج جیسے ٹھٹک گئی تھیں۔فوٹو گرافی کی ساری تیکنک ، سارا علم جیسے غائب ہو گیا تھا۔میرے اوپر جیسے جھر جھری سی طاری ہو گئی ۔
کچھ دیر بعد میں اپنی حالت پر قابو پا چکا تھا اور تصویریں کھینچنے کی تیاری کرنے لگا تھا، میرا ساتھی ڈاکٹر سے کچھ باتیں کر رہا تھا، لیکن میں سامنے پڑی لڑکی کی طرف جیسے کھنچا کھنچا چلا گیا۔ چھ یا سات سال کی عمر ہوگی اس کی۔ اس کا جسم جیسے سوکھ چکا تھا،محض آنکھیں چمک رہی تھیں ،ہاتھ میں گلوکوز ڈرپ کی سوئی والی اسٹرپ لگی تھی۔ جس میں خون کے نشان بھی صاف نظر آ رہے تھے ۔چہرے پر مچھر بھن بھن کر رہے تھے جنہیں میں اچھی طرح دیکھ سکتا تھا ۔ اس نیم تاریک ماحول میں آنکھوں کی سفیدی کچھ زیادہ ہی ابھر آئی تھی۔ جس میں سرخی کی لکیریں نظر آ رہی تھیں۔ مجھے کلیم نجارو آتش فشاں کی تصویریں یاد آئیں، وہ برف پوش آتش فشاں پہاڑ جو وقتاً فوقتاً پھٹ پڑتا ہے۔میرے اندر ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ خود کو جٹاتے ہوئے میں اس کے قریب گیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے اوپر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میں ٹاپ اینگل سے اس کی تصویر اتارنے کی کوشش کر نے لگا، اس کی بڑی بڑی آنکھیں لینس کے اندر سے اور بھیانک نظر آنے لگیں ۔ گویا وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیوں لے رہے ہو میری تصویر۔ تمہیں نظر نہیں آ رہا میں بیمار ہوں !کیا تم میری بے بسی کا مذاق اڑانا چاہتے ہو ۔
میری انگلیاں بٹن پر جیسے جم گئیں اور تمام کوششوں کے باوجود میں اس کی تصویر نہیں لے سکا۔وہ آنکھیں کیمرے کے لینس میں ویسی ہی جمی رہیں۔ اور تبھی مجھے بچپن میں ہمارے چچا کے گھر پلے لیبرے ڈور کتے کی یاد آ گئی۔ جب وہ کھانے کے برتن میں منہ ڈال کر چپر چپر کھاتا تھا ، تب اس کے پاس جا کر کھڑا ہونا کافی مشکل تھا۔ وہ کھانا چھوڑ کر اپنی آنکھوں کو کھول کر گھورتا۔ اس کے اوپری جبڑے سے دو نوک دار دانت باہر نکل آتے ، اس کے دونوں کھڑے کانوں کے درمیان کی کھال پر گہری نالیاں سی بن جاتیں اور اسکےغرانے کی ہلکی مگر خوفناک آواز آتی۔ مجھے اس لڑکی کی آنکھیں دیکھ کر ڈر لگنے لگا۔ وہ اب لڑکی کی آنکھیں نہیں تھیں ۔مجھے لگا جیسے کتے کی طرح لپک کر وہ میری گردن میں اپنے نوکیلے دانت گھسا دے گی۔ میں ڈر کے مارے اوپر سے نیچے تک لرز اٹھا ۔وہ آنکھیں میرے پورے وجود پر چھانے لگی تھیں۔ میں وہاں سے ہٹ ہی رہا تھا کہ ساتھ آئے ڈاکٹر کی باتیں سن کر اور زیادہ خوف زدہ ہو گیا ۔ اس نے بے فکری سے کہا ،” یہ لڑکی دماغی طور پر مر چکی ہے۔ آپ چاہیں تو تصویر لے سکتے ہیں اسے کچھ نہیں نظر آ رہا۔ ایک دو دن میں یہ جسمانی طور پر بھی مر جائے گی۔
ڈاکٹر نے مجھ سے جو کچھ کہا ، شاید وہ اس کی کوشش تھی مجھے معمول پر لانے کی ، لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہی رہا۔پیشہ ور ہونے کے ناطے میں نے کچھ تصویریں ضرور لیں ۔لیکن یہ تصویر اور وہ لڑکی میرے اعصاب پر برابر چھائی رہی۔
اس واقعہ کے ہوئے کئی سال گذر گئے ۔ میں نے جاننا بھی نہیں چاہا کہ اس بچی کا کیا ہوا ، زندہ رہی یا مر گئی۔وہ تصویر اب بھی میرے پاس ہے۔ خالی وقت میں میں اپنے کیمرے میں تمام تصاویر دیکھتا ہوا ماضی کو جیتا ہوں لیکن اس تصویر پر میں ایک پل بھی نہیں ٹھہرتا۔ کیوں ؟ شاید اس لئے کہ اس کی آنکھوں میں جو سوال تھا اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔
alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید

منگل، 13 مئی، 2014

سفید کپڑوں والی


سفید کپڑوں والی (افسانہ)
محمد علم اللہ اصلاحی( نیو دہلی انڈیا)



رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ بسوں، کتوں اور الووں کی آوازیں سناٹے کو چیرتی ہوئی دور سے کبھی کبھی سنائی دے رہی تھیں۔ دور دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ،برگد کی جھکی ہوئی شاخیں جیسے کسی چڑیل کے بالوں کی لٹیں معلوم ہو رہی تھیں۔ فراز بڑی تیزی سے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک آسمان میں شدید بجلی کڑکی ،چونک کر اس نے نظر اٹھا کے دیکھا۔ آسمان ایک طرف سے بالکل کالا دکھائی دے رہا تھا۔اور اس میں چاند اور تاروں کی جگہ اسے عجیب و غریب مخلوقات کے ہیولے دکھائی دے رہی تھیں۔ان کے منہ زمین کی طرف تھے اور وہ آگ کے شعلے اگل رہے تھے۔ کسی اجنبی اندیشے سے اس کا دل کانپ اٹھا۔ وہ چلنا چھوڑ کر اب دوڑنے لگا۔ اسی وقت آسمان سے آگ کے بڑے بڑے گولے گرنے لگے۔اور وہ گرتے ہی ارد گرد کے درختوں اور پودوں کو اپنی گرفت میں لینے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں فراز شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کو اپنی موت بالکل قریب نظر آ رہی تھی۔اچانک سامنے اسے ایک بچہ دکھائی دیا جو جلتی ہوئی آگ میں بھی ننگے پاوں اسی کی طرف بڑھا چلا آ رہا تھا۔ بچے کے ہاتھ میں ایک لالٹین تھی جس کی روشنی بہت محدود تھی۔پاس آ کر بچے نے اپنی انگلی اوپر اٹھا لی، فراز نے اسی سمت دیکھا تو ایک خاکسترشدہ درخت کے پاس ایک بڑھیا کھڑی تھی، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھی اور بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھی۔اسے دیکھ کر اس کی چیخ ہی نکل گئی۔
چیخ کے ساتھ ہی یک لخت کسی برتن کے ٹکرانے کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی ،اس کا سارا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔اس نے اٹھتے ہی لائٹ آن کی تو دیکھا ایک کالی بلی فرش پر گرا ہوادودھ چاٹ رہی تھی ،وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اسے جتنی بھی قرآنی سورتیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں۔ گھڑی کی طرف نظر دوڑائی، ابھی رات کے تین بجے تھے، یعنی صبح ہونے میں ابھی بھی کافی وقت باقی تھا۔ اس نے اپنی بیوی کی طرف نظر ڈالی، وہ اس وقت آرام سے سو رہی تھی لیکن اس کے چہرے پر اضمحلال کے آثار تھے، البتہ اس کے بچے بے فکری کی نیند سو رہے تھے۔پانی پی کر اس نے ایک سگریٹ سلگائی اور نیچے اتر کر گھر سے باہر آ گیا اور سگریٹ پیتے ہوئے سوچنے لگا۔ گزشتہ کئی ماہ سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اسے اکثر رات کو ایسے ہی خوفناک خواب آنے لگے تھے۔اور آج تو یہ سفید کپڑوں والی بڑھیا بھی!!!
سگریٹ ختم کر کے وہ واپس بستر پر لیٹ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ صبح اٹھتے ہی کسی ڈاکٹر سے اس بارے میں مشورہ کرے گا اور یوں ہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔جب بیدار ہوا تو صبح کے سات بجے تھے۔اس نے مریم کی طرف دیکھا جو ابھی سو ہی رہی تھی، وہ تیزی سے باتھ روم کی طرف بھاگا۔ وہ آج پھرآفس کے لئے لیٹ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ہی تیار ہو کر وہ سائٹ کے لئے نکل پڑا۔اس طرح کا خواب وہ اس سے پہلے اس گھر میں اور بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا۔ لیکن اس نے اس کا اظہار کسی سے نہیں کیا تھا۔مریم سے بھی نہیں جو اس کی بیوی تھی بہت پیاری بیوی۔حالانکہ مریم بھی کئی مرتبہ اسے اس طرح کے خوفناک واقعات کا تذکرہ کر چکی تھی۔مریم نے اسے اپنے خواب کی ایک سفید لباس میں ملبوس بڑھیا کے بارے میں بھی بتایا تھا جو اسے لے جانا چاہتی تھی۔کئی مرتبہ مریم جیسے نیند میں اس سے کہہ چکی تھی ” فراز وہ مجھے لے جائے گی ،دیکھو دیکھو نا دروازے کے پیچھے۔۔ ہاں وہ وہ آ گئی مجھے لے جانے کے لئے۔۔۔ ۔“ اور وہ کبھی اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیتی۔ فراز مریم کو پکڑنے کی کوشش کرتا لیکن وہ بھاگی ہی چلی جاتی اور پھر اکیلے ہی بڑبڑانا شروع کر دیتی ، کئی مرتبہ وہ اسی حالت میں بے ہوش بھی ہو گئی تھی۔اور جب ہوش میں آتی تو مریم کو حیرانی ہوتی کہ وہ یہاں کیسے چلی آئی تھی۔اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ خوف زدہ رہنے لگی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی آسیب یا چڑیل نے ان کے گھر میں ڈیرا جما لیا ہے ،مریم اکثرکام کرتے ،پڑھاتے یا بچہ کو دودھ پلاتی ہوئی بھی چیخ پڑتی۔ دو تین بار ڈاکٹروں کو بھی دکھایا، وہ نیند کی گولیاں دے دیتے یا ہاضمے کی، یا کچھ اور۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اب تک۔
سائٹ سے کام نمٹا کر جب وہ گھر پہنچا تو اسے مریم کا چہرہ کچھ اترا ہوا دکھائی دیا۔
”کیا بات ہے آج پھر تمہارا چہرہ اترا اترا دکھائی دے رہا ہے “ فراز نے سوال کیا۔
”پھر وہی سفید کپڑوں والی بڑھیا آئی تھی!!“
جب مریم نے بتایا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ پھر ایک مرتبہ خوف اور ڈر کے سمندر میں غوطہ لگانے لگا۔ ایک دم جھر جھری سی طاری ہو گئی اس کے اوپر۔
مریم بتا رہی تھی ”آج میں نے پھر اس بڑھیا کو دیکھا وہ مجھے چلنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ وہ مجھے مار دے گی فراز۔ وہ میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔ اس کے پاوں الٹے تھے اور وہ لوہے کے بڑے بڑے نتھنے اور کان پر لمبی لمبی پیتل کی بالی پہنے ہوئے تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا نما سانپ تھا جسے وہ پکڑی ہوئی تھی۔ اس کا ہاتھ سانپ کے پھن پر تھا۔“ مریم بتاتے بتاتے رونے لگی تھی۔
فراز نے اسے تسلی دی ”چلو یہ سب وہم ہے تمہارا ، بے پر کی باتیں مت سوچا کرو کتنی مرتبہ تم سے کہا ہے ”اپنے آپ کو مصروف رکھا کرو ،اور تنہا مت بیٹھا کرو ،خالی ذہن میں ایسے ہی خیالات آتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ یہ صرف تمہارے خیالات ہیں جھٹک دو انہیں۔“
فراز نے مریم کی بانہوں میں بانہیں ڈال دیں”چلو آج کہیں باہر چائے پینے چلتے ہیں اور باہر ہی رات کا کھانا بھی کھائیں گے۔بچوں کو بھی تیار کر لو“
تھوڑی دیر بعد مریم گلفشاں کوسینے سے چپکائے ہوئے تھی اور انظر کو فراز گود میں لئے تھا۔ دونوں باہر نکل کر پیدل ہی پاس کے ہی ایک ریستوران کی طرف بڑھنے لگے ۔ فراز اپنے کسی خیال میں کھویا چل رہا تھا کہ مریم کی آواز نے جیسے اس کو چونکا دیا۔
”تم نے کچھ کہا؟“ فراز نے پوچھا۔
”ہاں، لیکن ریستوران پہنچ کر“
اور جب ریستوران میں کھانا سرو کر دیا گیا، تو پہلے دونوں نے بچوں کو کھلانا شروع کیا، لیکن فراز اور مریم دونوں کسی انجانے خوف سے اپنی پلیٹیں چھو بھی نہیں سکے۔ آخر مریم نے ہی سکوت ایک جھناکے سے توڑ دیا۔
”وہ۔۔۔ سفید کپڑوں والی بڑھیا کہہ رہی تھی کہ فراز سے پوچھو کہ کیا اسے سفید پری یاد نہیں“
”سفید پری ؟؟؟ لیکن میں تو کسی سفید پری کو نہیں جانتا“
”لیکن یاد کرو، کوئی پرانی یاد ہو ایسی تو۔۔۔ “
”میری زندگی میں تو کبھی کوئی لڑکی ہی نہیں آئی تھی، تم کو بتایا تھا نا۔۔۔ میں تو کالج کے زمانے سے ہی کلاسوں کے بعد ٹیوشن پڑھانے میں مصروف ہو جاتھا کہ اپنا اور گھر کا خرچ چلا سکوں۔ تم کو معلوم تو ہے وہ سب۔۔ پھر یہ عشق وشق کی لت کون پالتا۔۔“ فراز نے بوجھل ہوتے ماحول کو ذرا ہلکا پھلکا بنا دیا کہ مریم بھی مسکرا دی۔
تھوڑی دیر بعد فراز نے بولنا شروع کیا۔
”آج سائٹ پر ٹھیکے دار ایک ڈاکٹر کی بات کر رہا تھا جو بہت اچھا ذہنی معالج ہے۔ اس کا نام بھی اس نے بتایا تھا، عامر، پتہ نہیں یہ وہ عامر تو نہیں جو میرا اسکول کا دوست تھا مظفر نگر میں۔“
”اللہ جانے یہ کوئی بیماری بھی ہے یا نہیں“ مریم نے اپنی پلیٹ میں باقی کھانا ایسے ہی چھوڑ دیا۔ ”چلو، اب تم کھا چکو تو چلیں“
”بس میں بھی کھا ہی چکا ہوں“ فراز نے کہا اور ویٹر کو بل کے لئے اشارہ کیا۔
تھوڑی دیر بعد دونوں بچوں کو لے کر اٹھ گئے۔
گھر آ کر مریم تو بچوں کو سلانے میں لگ گئی، اور فراز اپنے بریف کیس میں وہ کاغذ دیکھنے لگا جس میں سائکیٹرسٹ کا نمبر تھا۔
جب بچوں کو سلاتے سلاتے مریم بھی اونگھنے لگی تو اس نے فون ملایا۔
”کیا میں ڈاکٹر عامر صدیقی سے بات کر رہا ہوں“
”سپیکنگ، آپ کون کہاں سے بول رہے ہیں؟“
عامر کی آواز سنتے ہی فراز نے اسے پہچان لیا اور فوراً کہنے لگا۔
’میں فراز بول رہا ہوں، مظفر نگر والا،لیکن فی الحال دہلی میں ہی ہوں جامعہ نگر میں“
’اوہو فراز!! آٹھ دس سال بعد اب تم سے رابطہ ہو رہا ہے، آج ہی تمہارا ذکر نکلا تھا۔ کیا کر رہے ہو آج کل؟ انجینئرنگ کا تو معلوم ہوا تھا تمہارا!!“
دونوں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ فراز نے اپنے بارے میں تفصیل بتائی، مگر اپنے اور مریم کے بے تکے خوابوں کا فوراً تذکرہ نہیں کیا۔ سوچا کہ ملاقات پر ہی بتائے گا۔ عامر نے بھی اپنی تفصیلات بتائیں کہ اس نے علی گڑھ سے ڈاکٹری کی ڈگری لی اور پھر امریکہ چلا گیا تھا، وہیں شادی کر لی تھی۔
”لیکن امریکن لڑکی سے نہیں یار، اپنی طرف کی ہی ہندوستانی لڑکی سے۔ مزے میں گزر رہی ہے، بلقیس سے ملو گے تو تم بھی خوش ہو گے بس ایک کمی تھی، وہ بھی اب پوری ہو گئی ہے۔ اب ہمارے پاس ظفر آ گیا ہے، ہمارا بچہ، جسے ہم نے گود لیا ہے“
”واہ، میرا بیٹا انظر ہے اور تمہارا ظفر“
”اور وہ بھی کچھ ایسا انجانا نہیں، تم کو فرزانہ یاد ہے یا اسے بھول گئے؟ اسی تو ذکر نکلا تھا جو تمہاری یاد آئی تھی“
’‘کون فرزانہ؟ مجھے تو یاد نہیں“
”ارے وہی جسے ہم سفید پری کہتے تھے۔ بلکہ وہ تو تم سے باقاعدہ عشق فرماتی تھی یار!!“
فراز چونک گیا۔” سفید پری۔ سفید کپڑوں میں کوئی بھوتنی، یا چڑیل یا کوئی روح۔ کیا اس کا تعلق فرزانہ سے تو نہیں!!“ اس نے سوچا۔ عامر مزید بتا رہا تھا۔
”فرزانہ کی شادی بھی ہوئی تھی اور دہلی میں ہی تھی۔ لیکن وہ اپنے شوہر سے خوش نہیں تھی۔ سننے میں بھی یہی آیا تھا کہ وہ کسی سے پیار بھی کرتی تھی، پہلے تو یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ تم ہی تھے یا تمہارے علاوہ کوئی اور۔ ایک بیٹا بھی ہوا تھا، وہی ظفر۔ لیکن وہ شادی کے بعد سے ہی ذہنی طور پر مستحکم نہیں تھی۔ شمیم اس کا شوہر میرے پاس لے کر آیا تھا اسے۔ میں نے علاج شروع ہی کیا تھا، لیکن پچھلے ماہ اس نے خود کشی کر لی۔ اور ظفر کو میں نے شمیم سے مانگ لیا، بلقیس بھی بہت خوش ہوئی۔ “
اب ساری گتھیاں سلجھ چکی تھیں۔ لیکن فراز سوچ میں پڑ گیا کہ اس کی مشکلوں کا حل کیا ہو گا، وہ عامر کو بتائے بھی یا نہیں۔لیکن ابھی عامر کی داستان اور بھی باقی تھی۔
”اور ہاں، آج ہی شمیم مجھ سے ملا تھا، بتا رہا تھا کہ اس کے خواب میں فرزانہ نے آ کر کہا کہ اب وہ ظفر کی طرف سے تو مطمئن ہو گئی ہے، بس ایک خواہش اس کی یہ اور ہے کہ اس کے دونوں چہیتے۔۔ ظفر اور فراز قریب قریب ایک دوسرے کی نظروں کے سامنے رہیں۔“
”عامر دوست، میں تو واقعی فرزانہ کو بھولا ہوا ہی تھا۔ حالانکہ ایک خط اس نے مجھے لکھا تھا، جس کا جواب بھی نہیں دیا تھا میں نے، وہ تو اسکول کی بات تھی نا۔ پھر میں دہلی آ گیا انجینئرنگ کے لئے۔۔ اور بالکل ذہن سے نکل ہی گئی فرزانہ“
”مگر بیٹا اس کا سچا عشق بھی تو دیکھو!!۔ اچھا چھوڑو اس کو، کل آ جاو تم، ہم دونوں چھٹی لے لیں اپنے کام سے اور دن بھر کا پروگرام بنایا جائے“
”مگر تم رہ کہاں رہے ہو“ فراز نے پوچھا۔
”ارے میں نے بہت بڑا گھر لے رکھا ہے ڈھولا کنواں میں۔ ”عامر نے جواب دیا ”اس میں دو پورشنس ابھی خالی پڑے ہیں، سوچا تھا کہ کرائے پر دے دوں گا، اب اگر تم آ سکتے ہو تو اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے ایک چھوٹا پورشن شمیم کو ہی دے رہا ہوں کہ وہ بھی اپنے بچے کے نزدیک رہے تو اچھا ہے۔ ایک حصہ کرائے پر اٹھانے کا سوچ رہا تھا کہ بلقیس کو بھی کوئی ساتھی مل جائے!!“
”ٹھیک ہے کل مل کر طے کر لیں گے۔ میرا بھی سارا کام ڈھولا کنواں کے آس پاس ہی ہو رہا ہے“
فراز نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔” بس کوئی جگہ بتا دو، وہاں پہنچ کر کال کرتا ہوں صبح نو دس بجے تک“
عامر اپنے مکان کا پتہ بتانے لگا۔
پھر خدا حافظ کہہ کر فراز فون رکھ ہی رہا تھا کہ مریم نیند سے اٹھ گئی۔
”ارے میں بھی بستر پر نہیں تھی اور تم بھی اب تک نہیں سوئے“
”عامر سے بات کر رہا تھا، کل اس کے گھر چلیں گے، ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا“۔
۔۔۔ ختم شد۔۔۔
alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید