پیر، 6 مارچ، 2017

ہندوستان میں مسلم جدوجہد کے استعارے کی موت

ہندوستان میں مسلم جدوجہد کے استعارے کی موت
محمد علم اللہ ٭

اور عدالت کے ایک کونے میں پڑے سید شہاب الدین نے اپنی کھانسی سے دستک دی۔ جو انڈین مسلم نہیں ’’مسلم انڈیا‘‘پرچہ نکالتے تھے اور اپنی ’’انصاف پارٹی‘‘کی لاش سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ عدالت نے شہاب الدین سے پوچھا: ’’ تم یہاں کیسے؟ ‘‘۔ ان دنوں میری حالت مردوں سے بدتر ہے، مجھے کچھ کہنا ہے! اتنا کہہ کر سید شہاب الدین پھر کھانسنے لگے۔ عدالت کھانسی کا جواب نہیں دیتی۔ لیکن اس کھانسی میں بیماری کے جراثیم تھے۔ اس لئے یہ کھانسی بھی دستک بن گئی تھی۔ لیکن دستک کی آواز کون سنتا؟ ۔ دستکیں تو در کھلنے کی آس پر دی جاتی ہیں۔ روشن دلوں پر دی جاتی ہیں۔ جہاں سبھی بہرے ہوں۔ وہاں دستک کون سنتا ہے؟ غیر تو غیر ہی ہوتے ہیں ان سے کیا گلہ؟ لیکن جب اپنے بھی نہ سنتے ہوں تو۔ اس نے وہیں دم توڑ دیا!

سید شہاب الدین کے انتقال کے فوراً بعد فیس بک پر تحریر کردہ میری یہ تحریر کیا محض ایک شخص کی کہانی ہے یا صدیوں کی کہانی؟ حقیقت تو ایک بے لاگ تجزیہ نگار یا مورخ ہی بتائے گا، لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہی ہے کہ سید شہاب الدین کے انتقال کے بعد ہندوستان میں ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ تقریبا تین دہائیوں تک سید شہاب الدین تعریف وتنقید کے درمیان، مسلم سیاسی شعور کی بیداری، شرکت اور تقویت کے لئے سرگرم رہے۔ ان کی کوششوں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن ان کے اخلاص، بے باکی اور ملک و ملت سے بے پناہ محبت کے لئے انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ کام کرنے والوں سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ان سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں لیکن آخری دنوں میں قوم نے ان کے ساتھ جو رویہ اختیارکیا، وہ بھی انتہائی افسوس اور ماتم کے لائق تھا۔ ہماری یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہم شخصیتوں کی خدمات کا اعتراف ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کرتے ہیں، سید شہاب الدین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ بھی ہماری مردم خور قوم کے ساتھ آخر وقت تک انھیں کے لئے لڑتے لڑتے ہمیشہ ہمیش کی نیند سو گئے۔

جمعرات، 27 نومبر، 2014 کی وہ شام آج بھی مجھے یاد ہے جب میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ گلابی سردیوں کی ایک معمول سی شام۔ انتقال کے بعد ان سے متعلق کچھ لکھنے کا سوچا تو بے شمار چیزیں یاد آئیں کیا لکھوں اور کیا چھوڑ دوں۔ میری ان سے بہت زیادہ آشنائی نہیں تھی لیکن مشاورت کے بارے میں تحقیق کے دوران جب ان کی چیزوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا تو احساس ہوا کہ وہ ہندوستان میں اس صدی کے جناح، اقبال اور ابوالکلام آزاد سے کم نہیں ہیں۔ ان کی تحریروں میں سب سے پہلے مسلم مسائل سے متعلق ایک دستاویز کی تیاری کے سلسلے میں معروف انگریزی مجلہ’’مسلم انڈیا‘‘کو پڑھنے کا اتفاق ہوا، جو سید شہاب الدین کی ادارت میں 1983 سے نکلنا شروع ہوا اور 2009میں بند ہو گیا۔ اس رسالے کو دیکھنے اور خصوصاً اس کے اداریوں کو پڑھنے کے بعد ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ حالانکہ ان کے بارے میں بہت پہلے سے سنتا رہا تھا لیکن ان کی علمیت اور قابلیت کا قائل میں ان کی تحریروں کو پڑھ کر ہوا۔ چنانچہ جب میں نے ان سے ملنے کا ارادہ بنایا تو پتہ چلا کہ وہ ایمز میں ایڈمٹ ہیں اور ان کی صحت انتہائی نازک ہے۔ اس خبر کو سن کر دل میں ایک دھکا سا لگا تھا کہ شاید امت مسلمہ ایک اور عظیم قائد سے محروم ہو جائے گی۔ مگر پھر جلد ہی یہ مژدۂ جاں فزا بھی ملا کہ وہ اسپتال سے گھرواپس آگئے ہیں اور پھرموصوف مشاورت کے آفس بھی باضابطہ آنے بھی لگے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب نے بتا یا کہ ا گرچہ پہلے جیسے حالات نہیں ہیں لیکن کام کا شوق اور خالی نہ بیٹھنا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔

اسپتال سے واپسی کے بعد میں نے ان سے ملنے کا پھر ارادہ کیا اور اس غرض سے کئی مرتبہ مشاورت کے دفتر گیا لیکن ان کے انہماک اور کام میں یکسوئی کو دیکھ کر ہمت نہ ہوئی کہ میں ان کے کام میں حارج ہوجاؤں اور وہ بلا وجہ ڈسٹرب ہوں۔ اور پھر ایک بہانہ ہاتھ آگیا۔ ہفت روزہ’’عالمی سہارا‘‘کی جانب سے مجھے ایک اسٹوری لکھنے کوکہا گیا، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے راستے کی نشان دہی کرنے والے بورڈوں اور ہورڈنگز سے پی ڈبلیو ڈی نے لفظ’’اسلامیہ‘‘ کو حذف کر دیاتھا۔ سید شہاب الدین نے اس سلسلہ میں دہلی کے وزیر اعلیٰ سمیت دیگر اعلی ذمہ داران کو متوجہ کراتے ہوئے اس میں اصلاح کی خاطر خطوط ارسال کیے تھے۔ اس کا درست اندازہ ’’مسلم انڈیا‘‘ اور’’مشاورت بلیٹن‘‘کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جس چیز کو اردو اخبارات نے اب موضوع بحث بنایا تھا، اس بارے میں برسوں پہلے منتظمین کو سید شہاب الدین نے خطوط لکھے تھے۔

ان کا بیان ایک انگریزی اخبار میں بہت پہلے میں نے دیکھا تھا اور جب’عالمی سہارا‘ کی جانب سے اس موضوع پر اسٹوری لکھنے کے لئے کہا گیا تو براہ راست سید شہاب الدین سے ملاقات کرنے اور اس موضوع پر ان کی رائے جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا اور ایک صبح مشاورت کے دفترپہنچ گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ ایک نیم تاریک کمرے میں بیٹھے ہیں۔ ٹیبل لیمپ جل رہا ہے اور وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہیں۔ اس قدر پیرانہ سالی میں بھی بابوؤں والا ٹھاٹ نہیں گیا ہے۔ مشاورت کے آفس سکریٹری عبد الوحید صاحب نے میرا نام اور ملاقات کا مقصد لکھ کرانہیں دیا۔ ایک نظر دیکھنے کے بعد انھوں نے کہا بھیج دو۔ کمرے میں تاریکی اور خاموشی دونوں مل کر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہی تھی۔

ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ بات کی ابتدا کیسے کروں کہ آواز آئی ’’جی! تشریف رکھیے! ‘‘آواز میں ارتعاش اور کڑک تھی۔ میں سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ حکم ہوا:۔ ’’فرمائیے کس غرض سے آنا ہوا ہے؟ ‘‘میں نے دیکھا کہ ان کے کانوں میں آلہ سماعت لگا ہوا ہے، میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا، مگر ان کے اشاروں سے لگا کہ وہ میری بات یا تو سن نہیں سکے یا سمجھ نہیں سکے، اب میں نے پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بلندآواز سے بولنا شروع کر دیا، لیکن پھر بھی وہ نہ سمجھ سکے۔ میں تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ انہوں نے اپنے آلہ سماعت کا لیول ٹھیک کیا اور کہا’’چیخئے مت دھیرے دھیرے بولئے‘‘۔ میں نے دھیرے دھرے بولنا شروع کیا، لیکن پھر بھی وہ میری بات نہ سمجھ سکے۔ پھر میں نے ایک کاغذ پر اپنا مدعا اوراپنا سوال لکھ کر بڑھا دیا۔ انہوں نے سوال پڑھتے ہی جواب دینا شروع کر دیا اور بات ختم ہوتے ہی یکے بعد دیگرے میں انہیں سوالات لکھ لکھ کر دیتا رہا اور وہ ان سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ جواب کے درمیان کبھی کبھی وہ زور زورسے ہنسنے لگتے تو کبھی افسوس کا اظہار کرتے۔ جواب کیا تھے بس علم، تاریخ، زبان، سیاست، قیادت، ثقافت کا مرقع تھے، میرا اشہبِ قلم بہت تیزی سے صفحہ قرطاس پر دوڑ رہا تھا اور وہ اسی تیزی سے گفتگو کرتے جا رہے تھے۔ اندازِتخاطب انتہائی دلچسپ اور شاندار تھا اور ایسے میں میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کون سی بات چھوڑ دوں اور کو ن سی لکھوں، جی چاہ رہا تھا وہ گفتگو کرتے رہیں اور میں سنتا رہوں، لیکن اس کا وقت نہیں تھا۔

آپ کو بھی تجسس ہوگا کہ آخر کیا کیا باتیں ہوئیں، یادداشت کی بنیاد پر سب کچھ لکھنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے کہ بات کرتے وقت جس مقصد سے میں اُن کے پاس گیا تھا وہی نکتہ پیش نظر تھا۔ یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے لفظ’’ اسلامیہ‘‘ کے خاتمے کا موضوع۔ اس سے متعلق تحریرعالمی سہارا کے 18 ستمبر2014 کے شمارے میں آچکی ہے جس کا مکرر تذکرہ کرنا یہاں مناسب نہیں۔

اس کے علاوہ میں نے ان سے اور کیا سوالات کیے وہ تو یاد نہیں ہیں لیکن ڈائری میں جو نکات درج کیے تھے ان کی روشنی میں کئی اہم باتوں کا تذکرہ یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جب ہماری بات مکمل ہو گئی تو میں نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر ان کی طرف بڑھا دیا ’’آپ کی خدمات بہت ہیں اور آپ ہماری نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں، کاش آپ میری بات سن سکتے تو میں آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرتا‘‘ اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے :’’ ارے نہیں بھائی! ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کرتا ہے۔ میری خواہش تو بہت کچھ کرنے کی تھی، آپ کو کیا کیا بتاؤں، اب صحت ساتھ نہیں دیتی۔ اب تو بس اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ اگر تجھے لگتا ہے کہ میں کچھ کر سکتا ہوں تو کم از کم مجھے اتنی مہلت دے کہ میں اپنے بکھرے ہوئے کام کو سمیٹ سکوں‘‘۔

میں نے سید صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کی شخصیت سے متعلق ایک کتاب لکھوں۔ ابھی کچھ مصروفیات ہیں۔ ان سے نمٹ لوں تو بہت جلد آپ کی خدمت میں حاضری دوں گا، یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں جیسے چمک سی آ گئی۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے : ’’ارے بھئی! یہ تو بس ڈاکٹر صاحب کی محبت ہے کہ انھوں نے مجھ ہیچ مداں کے بارے میں یہ سوچا۔ ’’میں نے جلدی سے ایک اورکاغذلکھ کر بڑھایا ’’نہیں! میں نے خودبھی ’’مسلم انڈیا‘‘کی فائلیں پڑھی ہیں۔ آپ نے جو لکھ دیا ہے وہ خود ایک تاریخ ہے۔ ‘‘یہ سنتے ہی کہنے لگے :’’آپ نے کتاب لکھنے کی بات کہی تو کیا بتاؤں بہت سی یادیں ہیں کن کن چیزوں کا تذکرہ کروں۔ کوئی اچھا اسٹینو گرافر مل جائے تو اسے لکھوا دوں‘‘۔ پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’آہا! وہ کیا زمانہ تھا اور کیسے کیسے لوگ تھے اس زمانے میں! دیکھئے آپ نے تذکرہ کیا تو یاد آیا، آپ کو بتاتا ہوں: ’’میں نے سول سروسز کے لئے امتحان دیا میرا نام آ گیا لیکن مجھے جوائننگ لیٹر نہیں ملا۔ میرے ماموں نے مجھ سے کہا ارے بھئی شہاب الدین! تمہارے تمام ساتھیوں کا تو لیٹر آ گیا، تمہیں اب تک کیوں نہیں ملا؟ تو میں سیدھے ڈی ایم آفس گیا اور ان سے ڈائرکٹ کہا: آپ نے میرے خلاف کیا لکھا۔ وہ مجھے جانتے تھے، مسکرا کر کہنے لگے جو کچھ میں نے لکھا ہے اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کیا لکھا ہے؟ تو انھوں نے دراز میں سے اس خط کی کاپی نکالی اور دکھاتے ہوئے کہا دیکھو میں نے اس میں لکھا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں یہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد دو سال سے پٹنہ یونیورسٹی میں استاذ ہے اور اس درمیان میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے جو قابل اعتراض ہو ‘‘۔

(ہنستے ہوئے! ) ’’اصل میں مجھے ڈر اس بات کا تھا کہ جب میرے کالج میں پنڈت نہرو پٹنہ آئے تھے تو میں نے ان کے خلاف لڑکوں کو موبلائز کیا تھا اور انھیں کالا جھنڈا دکھایا تھا۔ میرے ذہن میں یہی بات تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اسی وجہ سے میری جوائننگ روک دی گئی ہے۔ بات یہی تھی۔ اس کا علم مجھے بعد میں ہوا اورانہیں ڈی آئی جی صاحب نے مجھے یہ بات بتائی کہ میری فائل پنڈت نہرو کے پاس گئی۔ اور میری فائل میں انھوں نے جو لکھا وہ قابل قدر بات ہے۔ اس سے بڑے لوگوں کے بڑکپن کا اندازہ ہوتا ہے۔ پنڈت نہرو نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا تھاوہ ایسے ہی ہے جیسے لوگ حافظ کے اشعار کو نقل کرتے ہیں‘‘۔ صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے انہوں نے فخریہ انداز میں کہا’’’میں پنڈت جی کی بات آپ کو سناتا ہوں ’’( اپنا گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا )‘‘انگریزی سمجھتے ہیں ناں؟ ’’میں نے کہا: جی! ۔ اچھا تو پنڈت جی نے لکھا :

I know I have met Shahabuddin. His participation in the part of disturbances was not for politically motivated; it was an expression of his youthfulness.

یعنی’’ انہوں نے یہ کام جوانی کے جوش میں کیا۔ اس کے پیچھے کوئی سیاست نہیں تھی‘‘۔ اب میں اس آدمی کے بارے میں کیا کہوں؟ میں نے تو اسے کالا جھنڈا دکھایا تھا اور میرے بارے میں وہ یہ تبصرہ کر رہا ہے، ان سے میری زبانی کشتی بھی ہوئی۔ کالج کے زمانے میں نے انہیں بتایا کہ بی این کالج کی دیوار پر 74گولی کے نشانات ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ چل کر دیکھیں۔ تو پنڈت جی کہنے لگے ’’ دیکھئے بھائی! دیکھ کے کیا کریں گے‘‘ارے بڑے افسوس کی بات ہے اسی لئے تو ہم یہاں آئے ہیں پٹنہ‘، پھر کہنے لگے : ’ارے بھئی! گولی چلنا بڑی بری بات ہے وہ جب چلتی ہے تو کسی کو بھی لگ سکتی ہے ‘‘۔ اسی رات کو جب پنڈت نہرو تقریر کے لئے آئے تو خوب ہنگامہ ہوا، ہم نے تو کچھ نہیں کہا لیکن پنڈت جی خود ہی کہنے لگے :’’بچے آئے تھے ملنے کے لئے، ہم نے ان سے کہہ دیا ہے جو کارروائی ہونی ہے کریں گے ‘‘، کچھ لوگوں نے ادھر سے شور مچایا کہ واپس جاؤ! واپس جاؤ! تو تنک مزاج تو تھے ہی بگڑ گئے، کہنے لگے (پنڈت نہرو کے ہی انداز میں اچک کر اور سینہ تان کر)’ابھی میں نے آپ کو سمجھایا۔ جو کچھ کہا آپ نے سن لیا ہے، میں نے بات کر لی ہے، جو ممکن ہے وہ کروں گا، اب میں آپ سے کچھ دیس کی ترقی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہاں تو میں نے یہ بھی کہا بچوں سے کہ اگر پولیس کی غلطی پائی گئی تو اس کو سزا دی جائے گی۔ ‘‘ تو میاں خوب تالیاں بجیں وہاں لان کے میدان میں۔ (پھر اچانک نہرو کے ہی اسٹائل میں چیخ کر)’تالیاں کیوں نہیں بجاتے ہیں، بجائیے تالیاں ‘۔ (ہنستے ہوئے ) کیا آدمی تھا :

سید شہاب الدین نے پھر تھوڑی دیر توقف کیا اور آگے بات کی۔ ’’ایک ڈیڑھ سال کے بعد موقع ملا مجھ کو پنڈت جی کے گھرپراُن کے ساتھ کھانا کھانے کا۔ کھانے کے بعد کافی پینے کے لئے وہ کمرے سے باہر نکلے۔ اور مدعو لوگوں کے ساتھ میں بھی تھا پنڈت جی کے ساتھ، تو میرے کندھے پر انہوں نے ہاتھ رکھا۔ میں نے کہا اے پنڈت جی :تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا :

‘‘You are that mischievous boy from Bihar’’

’’تم وہ شرارتی لڑکے ہو بہار والے۔ پیار سے کہا انھوں نے۔ عجیب و غریب انسان تھا وہ۔ ‘‘

ابھی ہماری بات جاری ہی تھی کہ ایک شخص دوا لے کر ان کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بات اس سے ہونے لگتی ہے۔ ’’اچھا تو یہ دوا ہے ‘‘۔ پھر دوا کو ہاتھ میں لیتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگے : ’’اب یہی میری زندگی ہے جس کے سہارے ٹکا ہوں۔ بہت کام کر لیا، جو کچھ کرنا تھا سب کر لیا۔ اب تو بس نماز میں اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! اگر تومیری زندگی اوررکھنا چاہتا ہے تو مجھے طاقت دے کہ میرا جو بکھرا ہوا کام ہے، اس کو پورا کر سکوں۔ (پھر پر امید لہجہ میں)’’: دیکھئے اگر اللہ نے صحت دی تو’ اداریہ ‘ کو جمع کر کے کتابی شکل میں لاؤں گا۔ اس کے لئے کام شروع بھی کر دیا ہے۔ اب دیکھئے کب تک مکمل ہوتا ہے۔ ‘‘

پھر اچانک جیسے انھیں کچھ یاد آ جاتا ہے۔ ’’جائیے اب مجھے کام بھی کرنا ہے، لیکن ہاں اتنی گذارش ہے اب جب کبھی آئیں تو ریکارڈر ضرورساتھ لائیں ‘‘۔ میں نے ایک چھوٹی سی شکریے کی چٹ لکھ کر ان کی جانب بڑھا دی۔ وہ ’’ویلکم‘‘کہتے ہوئے مسکرا دیے اور میں یہ سوچتے ہوئے واپس آگیا کہ اس ضعیف العمری میں بھی کام کا انہیں بے حد احساس ہے۔ کس کے لئے کام؟ اپنے لئے نہیں بلکہ قوم کے لیے، اے کاش اگر ایسا ہی احساس ہمارے سب قائدین کو ہو جاتا تو آج ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ افسوس آج وہ مرد درویش نہ رہا جس کی سوانح لکھنے کی میری تمنا پوری نہ ہوسکی اور خود ان کی خواہش بھی ان کے سینے میں ہی دفن ہوگئی۔

٭ محمد علم اللہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہیں ۔

۔۔۔مزید