محمد علم اللہ، حیدرآباد
میرا ایک ہندو دوست ہے، انتہائی عزیز، جب وہ 2010 میں جامعہ آیا تو ہم سارے ہی احباب اسکی جن سنگھی اور بھگوا سوچ سے کافی پریشان ہوئے ۔ ہماری اس سے بشمول بھگوا بریگیڈافکار و نظریات کے کافی بحثیں ہوتیں، بسااوقات یہ بحثیں۔۔ تو تو۔ میں میں ۔۔اور تکرار تک پہنچ جاتیں ، وقت گذرتا رہا پھر 23/فروری 2011 کو جامعہ کا اقلیتی کردار بحال ہوا، تواس وقت ہماری بحث کچھ زیادہ ہی بھیانک صورتحال اختیار کر گئی ۔ایک دن ہماری زبردست بحث اس بات پر ہوئی کہ جامعہ کو اقلیتی کردار ملنا چاہئے یا نہیں ؟ میرے دوست کی رائے تھی کہ بالکل نہیں ملنی چاہئے ، ہماری رائے الگ تھی اور ہمارے پاس اپنے دلائل تھے ، اس دن اس موضوع پر گفتگو کچھ ایسی ہوئی کہ ہم دونوں پھٹ پڑے اور اس دن ہمارے راستے الگ الگ ہو گئے ۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ میرا وہ فاضل دوست میرے پاس آیا اور کہنے لگا بھائی تم درست کہتے تھے ، میں غلط تھا، مجھے معاف کرنا اور پھر ہم دونوں کی دوستی ہو گئی اور یہ دوستی ایسی ہوئی کہ آج بھی جب تک ہم دونوں ایک مرتبہ دوری کے باوجود فون پر ہی سہی گفتگو نہیں کر لیتے ہمارا دن نہیں کٹتا ۔
ایک دن میرے دوست نے مجھے بتایا "جامعہ آنے سے قبل میں نے جامعہ کے علاوہ جے این یو ، بی ایچ یو ، ڈی یو کے بھی فارم پُر کئے تھے اور اتفاق سے جامعہ کے ساتھ ڈی یو اور بی ایچ یو میں بھی میرا نام آ گیا تھا ، میرے دادا اور گھر والوں کا شدید اصرار تھا کہ میں بی ایچ یو میں داخلہ لوں ، لیکن میری خواہش تھی کہ میں جامعہ میں ایڈمیشن لوں ،اس لئے کہ ماڈرن ہسٹری میں جامعہ کا ایک مقام ہے ،لیکن گھر والے مان نہیں رہے تھے ، دادا کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہے تھے ، آخر میں نے دادا سے وجہ دریافت کی کہ کیوں جامعہ میں داخلہ نہ لوں؟ تو انھوں نے کہا کہ جامعہ مسلمانوں کا ادارہ ہے اوروہاں سا رے کٹر پنتھی پڑھتے ہیں ، انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جامعہ میں دہشت گرد پڑھتے ہیں ، میرے پورے گھر میں لوگوں کی یہی رائے تھی ، سب ڈرے ہوئے تھے اور سبھی کا کہنا تھا کہ جامعہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے ، لیکن میں بضد ہو کر جامعہ میں داخلہ لیا جس کے لئے مجھے لڑائی بھی لڑنی پڑی ۔آج میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پورے ہندوستان میں سہی معنوں میں اگر کہیں سیکولرزم کا نمونہ دیکھنا ہے تو جامعہ میں دیکھنا چاہئے ۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ میں جامعہ کا طالب علم ہوں ، میں جامعہ کا احسان مند ہوں کہ اس نے مجھے علم و ادب کا وہ پاٹھ پڑھایا جو شاید میں دوسری جگہ نہیں پا سکتا تھا "۔
اس نے مجھ سے جامعہ آنے سے قبل کی اپنے ، اور اپنے گھر والوں کی اور بھی بہت ساری غلط فہمیوں کے بارے میں بتایا، جس پر اکثر وہ نادم بھی ہوتا رہتا ہے ۔ وہ ساری چیزیں میں یہاں نہیں لکھنا چاہتا۔ بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر پرو فیسر طلعت نے نریندر مودی جی کو جامعہ آنے کی دعوت دے ہی دی ہے، تو اسے آنے دینا چاہئے تاکہ وہ بھی دیکھے کہ جامعہ میں کیا کچھ ہے ، اور قوم و وطن کے لئے جامعہ کیا قربانی پیش کر چکا ہے اور کر رہا ہے ۔ مودی جی نے جامعہ کے تعلق سے 2014 الیکشن کمپین کے دوران خطاب میں جامعہ کی بابت جو کچھ کہا تھا ، میں ان کی باتیں یہاں نقل کرکے اپنے قارئین کا وقت کا ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ وہ خطاب یو ٹیوب میں موجود ہے احباب اسے دیکھ سکتے ہیں، وہ خطاب کوئی معمولی خطاب نہیں بلکہ جامعہ اور جامعہ برادری کے خلاف خطرناک زہر ہے ، جسے سُن کر سینہ چھلنی اور دل اداس ہو اٹھتا ہے کہ ہماری مادر علمی کی بابت کوئی ایسی رائے رکھتا ہے ۔ اس سوچ کی عکاسی بی جے پی اور ایسی سوچ رکھنے والے لوگ اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف اکثر کرتے رہتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں اس میں غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم حقیقت حال سے انھیں واقف کرانے کے لئے کوشش نہیں کرتے ۔ میں اپنے دوست کی ایک اور بات نقل کرتے ہوئے اپنی بات سمیٹنے کی کوشش کروں گا ۔ اس نے مجھ سے کہا تھا "ہندووں کی ایک بری تعداد مسلمانوں کے رہن سہن ، مذہب اور فکر سے لاعلم ہے ، اس لئے نادانی اور کچھ لوگوں کی زہر افشانی کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو غلط سمجھتے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ صرف اور صرف مس انڈر اسٹندنگ اور دونوں قوموں کے درمیان بُعد کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ایک دوسرے کا ساتھ لیکر آگے بڑھنا ہوگا ، جب ہم ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں گے تو تفرقہ میں بھی یقینا کمی آ ئے گی "۔
مجھے لگتا ہے اگر مودی جی جامعہ کو قریب سے دیکھیں گے تو ان کی سوچ میں بھی میرے دوست کی طرح ہی تبدیلی ضرور آئے گی اور وہ یقینا اس بات پر قوم سے معافی مانگیں گے ، جو انھوں جامعہ کے تعلق سے کہی ۔ اس لئے مودی جی کو جامعہ ضرور دکھانا چاہئے کہ۔
یہ اہل شوق کی بستی یہ سر پھروں کا دیار
یہاں کی صبح نرالی، یہاں کی شام نئی
یہاں کی رسم و رہ مے کشی جدا سب سے
یہاں کے جام نئے، طرح رقص جام نئی
یہاں پہ تشنہ لبی مے کشی کا حاصل ہے
یہ بزم دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی
alamislahi@gmail.com
۔۔۔مزید