بدھ، 19 جون، 2013

دہلی میں وقف جائدادوں کا مسئلہ

آخر کب ہوگی حوالگی ؟

محمد علم اللہ اصلاحی
                ہندوستان میں وقف املاک مسلمانوں کا سب سے بڑا سر مایہ ہے۔اگر اس کی صحیح ڈھنگ سے دیکھ ریکھ اور انتظام و انصرام ہو تو مسلمانوں کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔پھر مسلمان بچوں کو نہ تو اسکالر شپ کی کمی ہوگی اور نا ہی غریبوں کے لئے سرمایہ کاری اور نہ ہیوہ سرکار کے کسی عطیہ کے محتاج رہیں گے۔لیکن اس معاملہ میں نہ تو حکومت چاہتی ہے کہ کوئی عملی اقدام ہو اور نہ ہی اس پر قابض افراد اور اس کے ذمہ داران۔مسلمانوں کی جانب سے چیخ پکار اور مسلم قائدین کے بار بار توجہ دہانی کے بعد حکومت اس کی اصلاح اور بہتری کی بات تو کرتی ہے ، مگر اس مسئلہ کو بھی مسلمانوں کے دیگر مسائل کی طرح سرد خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔اور معاملہ جوں کا توں رہ جاتا ہے ،اس سلسلہ میں بات خواہ سچر کمیٹی رپورٹ کی ہو مشرا کمیشن کی یا پھر ریاستی حکومتوں کے ذریعہ کئے گئے وعدے سب کا یہی حال ہے۔

                ابھی حال ہی میں اسی سلسلہ یعنی ریاست دہلی میں وقف املاک کی حوالگی اور تحفظات کو لیکر دہلی حکومت کا اپنے وعدوں سے پلہ جھاڑنے اور وقف بورڈ کی مقبوضہ اراضی کی حصولیابی کے لئے ایک اعلی کمیٹی کی تشکیل دئے جانے کی بات سے پیچھے ہٹنے کی خبریں آ رہی ہیں۔یہ معاملہ حکومت کی جن وزارتوں سے وابستہ ہے وہ ایک دوسرے کو دستاویز روانہ کر کے اپنا پلہ جھاڑ رہی ہیں۔خبروں کے مطابق نیشنل ہیری ٹیج پروٹیکشن کونسل نے اب تک نصف درجن وزارتوں اور محکموں کو مکتوب روانہ کئے ہیں ،جن کے جواب میں صرف دو سطر ہی میں جواب دیا گیا کہ ہم نے آپ کا مکتوب معلقہ وزارت کوارسال کر دیا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس وزارت کا یہ معاملہ ہے اس نے بھی یہی جواب دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ حالانکہ عدالت اور اٹارٹی جنرل کی رائے کے بعد یہ معاملہ راست طور پر حکومت کے پاس ہی تھا جسے مر کزی کابینہ سے منظوری ملنی تھی۔لیکن خبروں کے مطابق حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک اس معاملہ میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔

                یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ ان جائدادوں یعنی جن 123کی بات کی جا رہی ہے کچھ جائدادیں ایسی ہیں جن پر حکومت کا بھی قبضہ ہے۔ان 123جائیدادوں کے علاوہ اوبرائے ہوٹل، خسروپارک، دہلی پبلک اسکول، سی جی او کمپلیکس، اندراگاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ جیسی پچاسوں عمارات گنوائی جاسکتی ہیں جن پر یا تو غاصبانہ سرکاری قبضے ہیں یا پھر سرکاری اداروں کی سرپرستی میں بلڈرز اور کارپوریٹ گروپ کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ان سب کے علاوہ بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق 300مزید جائدادوں کا سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے قبضہ میں ہونا بتایا جاتا ہے۔مبصرین کے مطابق اگر یہ جائدادیں وقف کو دے دی گئیں توحکومت کو جگہ خالی کرنی پڑے گی۔جبکہ تصرف اور کاغذات کے مطابق یہ جائدادیں وقف کی ہی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی ان جائدادوں کی حالت کو جوں کا توں رکھنے کا حکم دیا تھا۔اب اگر اس پر کسی قسم کا قبضہ یا تعمیری کام ہوتا ہے تو یہ عدالت کی توہین ہوگی۔خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے انھیں رویوں کے سبب حکومت سے خط و کتابت کرنے والے افراد ناامید نظر آ رہے ہیں۔خبروں کے مطابق کونسل کے جنرل سکریٹری محمد سلیم کے ذریعہ بھیجے گئے مکتوب کے جواب میں محکمہ آثار قدیمہ نے جواب میں کہا ہے کہ ”ہم نے آپ کا مکتوب وزارت ثقافت کو بھیج دیا ہے اور ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ وقف املاک نوٹیفیکیشن ،برنی کمیٹی رپورٹ اور عدالت کے حکم کی کاپی مہیا کرائیں تاکہ ہم اس پر کوئی کاروائی کر سکیں “۔

                بتایا جاتا ہے کہ اسی قسم کی باتیں وزارت اقلیتی امور نے بھی کہی ہیں یعنی یہ کہ وقف کی 123جائدادوں کی حوالگی کے لئے وزارت برائے شہری ترقیات سے گفت و شنید کی جائے گی۔خبروں کے مطابق تاہم پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں وقف ترمیمی بل 2010کو پاس کرانے پر غور و خوض کیا جائے گا۔بتایا جاتا ہے کہ محمد سلیم نے وزیر اعظم آفس کو بھی مکتوب ارسال کیا تھا اور وہاں سے بھی دو خطوط موصول ہوئے حکومت دہلی کی جانب سے بھی اسی قسم کا مکتوب ملا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام ہی مکتوبات کی زبان تقریبا ایک جیسی ہے کہ متعلقہ محکمہ کو خط ارسال کر دیا گیا ہے۔ان تمام خطوط کو پڑھنے کے بعد بہر حال یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ساری وزارتیں اسی طرح ایک دوسرے کو محض خطوط ارسال کرتی رہیں گی تو معاملہ کا حل کب ہوگا اور کون سا محکمہ اس پر عمل کرے گا۔بقول محمد سلیم ”ہم نے ان وزارتوں کو جو خطوط بھیجے ان کا جواب غیر تسلی بخش اور نا امید کر دینے والا ہے ،ان سب کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ حکومت معاملہ کو حل کرنا ہی نہیں چاہتی اور اسی وجہ سے وہ ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ محض خطوط کو ارسال کرکے وقت کو ضائع کر رہی ہے۔

                حالانکہ یہ اعلان دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے بڑے جوش و خروش سے کیا تھا کہ ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔لیکن ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد ابھی تک کسی بھی قسم کیکوئی کمیٹی کا پتہ نہیں ہے ۔چہ جائے کہ کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی کارروائی کی جاتی اور اس کی میٹنگیں ہوتیں لیکن صحیح معنوں میں دہلی حکومت کا یہ اعلان محض انتخابی شوشہ ثابت ہوا۔اس طرح کے فیصلے یوں تو اور بھی بہت پہلے لئے جاتے رہے ہیں تاہم10مئی 2013کو دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت اور پرنسپل سکریٹری ڈی ایم سپولیا سمیت بورڈ چیر مین وی سی اونیز بورڈ کے کئی عہدے داران کی مشترکہ میٹنگ میں یہ بات کہی گئی تھی۔لیکن ان سب کے باوجود سر د مہری بہر حال سمجھ سے بالا تر ہے۔خبروں کے مطابق دہلی وقف بورڈ کے چیر مین چودھری متین احمد نے باضابطہ طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ غیر قانونی قبضہ سے بورڈ لینڈ چھڑانے پر فوری فیصلہ لینے اور بورڈ کی آمدنی میں فوری اضافہ کر نے کی طرف اعلی سطحی کمیٹی ایک بڑی پیش قدمی ثابت ہوگی۔خبروں کے مطابق مایوس کن بات یہ بھی ہے کہ ماضی اور حال تک اعداد و شمار کے مطابق قابضین کے خلاف زمین کی وا گذاری کے لئے تقریبا 1050نوٹس وقف ایکٹ کی دفعہ54 
کے تحت مختلف ڈی ایم کے پاس بھیجے جا چکے ہیں لیکن کارروائی ندارد ہے۔

                یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس معاملہ کو برسوں قبل آنجہانی اندرا گاندھی نے مظفر حسین برنی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دے کروقف املاک کے تحفظ کی بات کی تھی۔اور اسی وقت کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے 247جائدادوں کی نشاندہی کی تھی اور بتایا تھا کہ ان میں تقریبا 123جائدادیں وقف کی ہیں ،جنھیں ایک روپئے لیز پر واپس کر دینا چاہئے۔مگر تیس سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باجود بھی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔بلکہ پورٹ کے بعد بحث کا سلسلہ چلا، تو ایک دوسری کمیٹی جناب میر نصراللہ صاحب کی چیرمین شپ میں بنائی گئی، محترم میر صاحب نے 321 جائدادوں کی نشاندہی کی، جسے شہری ترقیات کی وزارت کودہلی وقف بورڈ کے حوالہ کردینا چاہئے تھا۔گزشتہ سال ہائی کورٹ نے بھی اس معاملہ کے حل کے لئے حکومت کو ہدایات دی تھیں اور اسی بنیاد پر حکومت نے اٹارٹی جنرل کی لیگل رائے طلب کی تھی مگر معاملہ ہنوز سرد خانہ میں پڑا ہوا ہے۔

                آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟کیا ایسے شوشے محض مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے چھوڑے جاتے ہیں یا پھر اپنے سیاسی مفادات ووٹ بٹورنے کے لئے ؟حکومتوں سے یہ ایک اہم سوال ہے۔حکومتیں اگر واقعی مسلمانوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہیں تو ان کے مسائل کو بھی سنجیدگی سے حل کیا جانا چاہئے۔صرف خالی خولی بیان سے کب تک اپنا مفاد پورا کرتی رہیں گی؟۔یہاں پر مسلمانوں سے بھی یہ بات عرض کر دینے کی ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں خاص کر مسلم رہنما بے لوث ہوکر آگے آئیں اوروقف بورڈکو خود مختار بنانے کے لئے طویل جدوجہدکریں۔اوریہ کوشش اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ مسلمانوں سے متعلق بورڈوں اور کمیشنوں کو آئینی درجہ حاصل نہ ہوجائے۔ورنہ یہ لٹیرے سادہ لوح مسلمانوں کو ایسے ہی لوٹتے رہیں گے اور مفاد پرست لیڈران ووٹوں کی خاطر اپنا بیان دیتے رہیں گے اور معاملہ وہیں کا وہیں رہے گا جہاں اب ہے۔

۔۔۔مزید

جمعرات، 13 جون، 2013

کاروائی ضروری مگر احتیاط سے


محمد علم اللہ اصلاحی
آخر کار طویل انتظار کے بعد وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ میں تمام ہی نے ایک ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے اور سارے مفادات کو کنارے رکھنے کی بات کہی ہے۔واضح رہے کہ یہ میٹنگ گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ میں کانگریسی کارکنوں پر ہوئے نکسلی حملے کے بعد اس لئے بلائی گئی تھی کہ اب اس معاملہ پر کون سا رخ اختیار کیا جائے۔اور شاید ایسا پہلی مرتبہ ہوا جیسا کہ خبروں میں بتایا جا رہا ہے تقریبا تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ نکسلیوں کی لعنت سے ملک کو پاک کرنے کے لئے سخت سے سخت قدم اٹھائے جانے چاہئیں اور جمہوریت کو بچانے کی خاطر کوئی بھی انتہائی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اس میں کسی بھی قسم کے لیت و لعل سے کام نہیں لیا جانا چاہئے۔ اس موقع پر سیاسی جماعتوں نے دہلی میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مسلح عسکریت پسندی کو دبانے کے لئے تمام جائز طریقوں کے استعمال کی نہ صرف وکالت کی بلکہ اس بات پربھی زور دیا کہ وہ مہلک ماونواز نظریات کو قبول نہیں کر سکتے۔اس معاملے پر کسی طرح کے معاہدے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور قرارداد میں ماونواز باغیوں کے خلاف مسلسل مہم اور نکسل متاثرہ علاقوں کی تیز ترقی کی مرکزی حکومت کی دو سطحی حکمت عملی کی حمایت کی۔


بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر ایک قرارد اد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ پا رلیمانی جمہوریت اورہندوستانی آئین کو تشددآمیز طریقوں سے نقصان پہنچانے کے لئے ماونواوازوں کا گمراہ کن مقصد کے ساتھ اس کی انتہا پسندی پر مبنی رجحان سے خطرناک شئے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔اجلاس میں فیصلہ لیا گیا کہ ریاست ماونوازوں کے خلاف جدوجہد کی کمان سنبھالے گی اور مرکزی حکومت اس سلسلے میں ہر طرح کا تعاون ومدد فراہم کرائے گی۔تجویز میں کہا گیا ہے کہ ہم ان سے (مرکز اور ریاستوں سے) درخواست کرتے ہیں کہ ملک اور اس کے اداروں کی حفاظت کے لئے اور مسلح انتہا پسندی اور تشدد کو روکنے کے لئے تمام جائز طریقوں کا استعمال کیا جائے۔ اس اجلاس میں وزیر داخلہ سشیل کمار شندے، کانگریس صدر سونیا گاندھی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج اور ارون جیٹلی، بی ایس پی صدر مایاوتی، سپا صدر ملائم سنگھ یادو، شیوسینا کے اننت گیتے اور جے ڈی یو کے صدر شرد یادو وغیرہ لیڈروں نے حصہ لیا۔اس اجلاس میں سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ 25 مئی کے واقعہ نے اس علاقے میں تمام سیاسی کارکنوں کو دہشت زدہ کرنے کے ارادے سے اور لوگوں کی سیاسی سرگرمی کو روکنے کے لئے سیاسی کارکنوں پریہ حملہ کیا تھا۔ تجویزمیں کہا گیا ہے کہ یہ جمہوریت، اور اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ تھا۔اس لئے ہم تمام لوگ عہد کرتے ہیں کہ ہم متحد رہیں گے ،ہم ایک آواز میں بات کریں گے اور ایک متحدہ مقصد اور عزم کے احساس کے ساتھ قدم اٹھائیں گے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر معاملہ کی طرح اس معاملہ پر بھی یوں تو بہت پہلے سے باتیں ہوتی رہی تھیں تاہم اس خبر کے آنے کے بعد حسب معمول ایک مرتبہ پھر بحث و مباحثہ اورتنقید و تنقیح کا دور جاری ہو گیا ہے کچھ اس کو دیر آید درست آید کے مصداق بہتر فیصلہ سے تعبیر کرتے ہوئے عملی اقدامات جلد سے جلد کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کچھ انتہائی عجلت میں ایسا کوئی بھی فیصلہ سے گریز کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی قسم کا تشدد آمیز رویہ نہ اپنایا جائے کیونکہ ’تشدد کا جواب تشدد‘ کبھی بھی دنیا کے لئے مفید ثابت نہیں ہوا ہے۔اس معاملہ میں لوگ ماضی قریب میں افغانستان ،عراق اور اسی طرح پاکستان وغیرہ میں ہونے والی واردات اور کاروائی کی مثال دے رہے ہیں۔پاکستان کا اپنے ملک میں لال مسجد میں کیا جانے والا آپریشن ،یا پھر اسی طرح خالصتان والے مسئلہ میں اندرا گاندھی کے ذریعہ کرایا گیا بلیو اسٹار آپریشن جیسے واقعات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔حالانکہ اس سلسلہ میں یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیانکسلیوں کایہ معاملہ بھی ویسا ہی ہے ؟یا یہ کوئی الگ قسم کا تشدد ہے؟ اوریہ کہ اس کو کس زمرے میں رکھا جائے گا ؟اس سلسلہ میں حالانکہ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ظلم تو ظلم ہے خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو چاہے چھوٹا ہویابڑا، کم یا زیادہ۔لیکن اس کا خاتمہ کیسے ہوگا اس کو بہت باریکی سے دیکھنا ہوگا۔


حالانکہ اس اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ریاستی حکومتوں اور خاص طور پر چھتیس گڑھ حکومت کو اس بات کا یقین کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے کہ نکسل متاثرہ علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کے لئے مزید مثبت ماحول بنے۔ان کے بقول مرکزی حکومت اس کام میں ریاستوں کو مکمل تعاون دینے کے لئے مصروف عمل ہے۔اس مسئلے کو مستقل طور پر جڑ سمیت اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہمیں تمام اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم ان کے مطابق فوری طور پر یہ بھی یقینی بناناہے کہ نکسلی تشدد پر لگام کس طرح کسی جائے اور چھتیس گڑھ جیسے حملوں کی تکرارپھر مستقبل میں نہ ہو۔وزیر اعظم نے کہاہے کہ حکومت گمراہ کن نوجوانوں کی فکر و جذبات کے بارے میں حساس رہے گی اور اگر ماضی میں ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوئی ہے تو اسے دور کیا جائے گا ،اور ان کے یہاں بے گانگی کے احساس کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جبکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے مشوروں کے مطابق نکسلیوں کے خلاف بہت سخت کارروائی پر غور کر رہے ہیں، انہوں نے ریاستی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لئے اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ مرکز کی طرف سے فراہم کئے گئے وسائل کا استعمال کریں اور متاثرہ ریاستوں میں ترقی کی سرگرمیوں کو تیز کریں۔خبروں کے مطابق جب وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت نکسلیوں کے خلاف فوج کا استعمال کرے گی تو انہوں نے کہا کہ گرچہ میں فوجی مدد لینے کے معاملے پر کچھ نہیں کہوں گا لیکن ہم بہت سخت کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔


یہاں پر اس بات سے قطع نظر کہ اس معاملہ میں واقعی کوئی کاروائی ہوگی بھی یا نہیں اور کاروئی ہونے کے بعد بھی کسی قسم کے مثبت اثرات مرتب ہونگے یانہیں ؟کچھ کہنا مشکل ہوگا تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اس سے بہر حال انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں منصوبے تو خوب بنتے ہیں اور ان کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنانے کی بات بھی ہوتی ہے۔لیکن حقیقی معنوں میں ایسا کچھ ہوتا نہیں۔شاید اسی وجہ سے بہت سے معاملوں میں شہ زوروں ،معاشرے میں انارکی پھیلانے والوں اور اسی طرح لوگوں کے ساتھ حق تلفی و نا انصافی اور ظلم و تشدد برپا کرنے والوں،کو اور موقع مل جاتا ہے اور مظلوم پستے رہتے ہیں۔یہاں پر صرف اس معاملہ کی بات نہیں ہے بلکہ ہزاروں ایسے واقعات ہیں جس پر نہ جانے کتنی قرار داد پاس ہوئیں،کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور کتنے ہی قوانین بنے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں اور نتیجہ وہی نکلا صفر کا صفر۔ اب اس معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوگا یا کچھ اور ، یہ کہنا بے جاہے۔مگریہ بھی حقیقت ہی ہے کہ کاروائی نا ہونے کی وجہ سے کرائم میں اضافہ ہوتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ ختم ہو اس میں مزیدافزودگی ہوتی رہتی ہے اور اس کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔یہ کوئی ہوا ہوائی یا یونہی کہہ دینے والی بات نہیں ہے۔


اس معاملہ میں چونکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جیسی اہم شخصیات کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور ملک کے تقریبا تمام ہی پارٹیوں نے اسے ہری جھنڈی دکھانے کی بات کہی ہے تو ہو سکتا ہے کہ واقعی اس مرتبہ کچھ ہو لیکن اس کا مطلب ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ ظلم کا جواب ظلم سے دئے جانے میں حیوانیت کا ننگا ناچ ناچا جائے ،ماضی میں ایسا ہوا ہے اور کئی جگہ تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قصور کسی اور کا تھا اور زد میں کوئی اور آ گیا۔کشمیر اور اسی طرح دیگر کئی جگہوں پر فوج کو چھوٹ دئے جانے کا جو نتیجہ بر آمد ہوا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ ان جگہوں پر فوج نے جمہوریت اور ملک کی بقاء کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور اس کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کرنے سے گریز نہیں کیا لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اسی فوج نے وہ وحشت اور درندگی کے گل کھلائے کہ شیطان بھی ایسی حرکتوں سے شرمسار ہو جائے ،اسی فوج نے بے جا معصوموں اور بے قصوروں کو تشدد و حبس کا نشانہ بنایا ہے اور خواتین اور نابالغ لڑکیوں کی عزتوں کو تار تار کیا ہے جس کی خبریں برابر میڈیا میں آتی رہی ہیں۔لہذا اس معاملہ میں بھی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔ایسا نہ ہو کہ تشدد کے خاتمہ کے نام پرکسی بھی طرح سے بے قصوروں اور معصوموں کا ناحق خون بہے۔اور کاروائی کے نام پر فوجیوں یا پولس کو ننگا ناچ ناچنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے ،اس سے معاملہ بجائے سلجھنے کے مزید الجھ سکتا ہے۔

۔۔۔مزید

اتوار، 9 جون، 2013

بارہویں کا رزلٹ : حکومت ،سرپرست اور بچوں سے کچھ باتیں


محمد علم  اللہ اصلاحی
ہندوستان میں میٹرک کے بعد بارہویں کے امتحان کو زندگی کا سب سے اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے ،والدین اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ یہیں سے تمہاری زندگی کا سفرطے ہونا ہے،اس میں کامیابی سے ہمکنار ہو گئے تو گویا آگے کی منزل انتہائی آسان اور سہل ہے۔بات تقریباً دُرُست بھی ہے کیونکہ اسی کے بعدہمارے بچے کیا کریں گے اس کا فیصلہ ہوتا ہے ،طرح طرح کے کورسز اور پروگراموں میں داخلہ کا ہدف بھی اسی کے بعد متعین کیا جاتا ہے ،شاید اسی سبب سے پورے ملک میں اس رزلٹ کاانتہائی شدت سے انتظار رہتا ہے ،کیا بچے ،کیا والدین کیا حکومت سبھی اس کو لے کر فکر مند اور تشویش میں مبتلا رہتے ہیں بعض ریاستوں میں اس کے پیش نظر بجلی اور ٹرانسپورٹیشن کی باضابطہ سروسیز مہیا کرائی جاتی ہیں تاکہ بچوں کو پریشانی نہ ہواور وہ اچھے ڈھنگ سے اپنے امتحانات دے سکیں ،اس معاملہ کولے کر بچوں کے اوپر اس قدر دبا ہوتا ہے کہ ناکامی یا کم نمبر آنے کی صورت میں وہ خودکشی جیسے انتہائی قدم بھی اٹھالیتے ہیں۔دہلی میں اس قسم کی وارداتیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں ،اس کے باوجود بھی کہ حسب معمول یہاں کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے پہلے ہی ہر قسم کی حوصلہ افزائی کے علاوہ کم سے کم بچوں کو فیل کئے جانے کا الٹی میٹم دیا ہوا تھا، اب کی بھی ایسا ہی ہوا اور دہلی جیسے شہر میں رزلٹ ان کے یاسرپرستوں کے منشا کے مطابق نا آنے سے دو بچوں نے خود کشی کر لی۔دہلی اور اتر پردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں سے بھی اس قسم کی خبریں سننے کو ملی ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے یا ایسا کیوں ہوا ؟‘اس پربات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امتحانات کے رزلٹ پرایک نظر ڈال لی جائے۔ چونکہ ہمارے ملک میں اس کے لئے کوئی ایک بورڈ متعین نہیں ہے بلکہ مختلف ریاستوں کے اپنے الگ الگ بورڈ اور الگ الگ نصابات ہیں۔اس لئے ہر ریاست کا تناسب اور رزلٹ بھی الگ الگ ہے۔ہم یہاں ہر ریاست کے ہر بورڈ کی بات نہیں کریں گے۔کیونکہ تمام ہی ریاستوں کے تمام ہی بورڈوں کا نہ تو ہمارے پاس کوئی ڈاٹا ہے اور نا ہی بیورا۔پھر یہاں پر ہر ایک کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ہمارا مقصد نہیں ہے۔اس لئے ہم یہاں سینٹرل بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن ( سی بی ایس ای) بورڈکی بات کرتے ہوئے دیگر ریاستوں میں بھی اس کی صورتحال اور بارہویں کے بعد ہونے والے واقعات و حالات کا تجزیہ کریں گے۔

امسال سی بی ایس ای کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس سال مجموعی طور 9،44،721 طلباءنے بارہویں کا امتحان دیا تھا جو گزشتہ سال کے مقابلے تقریبا 16فیصد زیادہ ہے۔اب کی کامیاب ہونے والے طلباءمیں لڑکیوں کا فیصد 87.89رہی جبکہ 77.78فیصد لڑکوں نے بھی کامیابی حاصل کی۔سی بی ایس ای کے نتائج ہر سال بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔کامیاب ہونے والے طلبائکی تعداد کے حساب سے بھی اور ان کے نمبرات کے لحاظ سے بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلہ 67فیصد زیادہ طلبا نے 95فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کئے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ 90فیصد یا 85فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد بھی بڑھی ہوگی۔ظاہر ہے 90یا 95فیصد نمبرات حاصل کرنے والے طلباءذہین بھی ہونگے اور محنتی بھی اور ایسے شاندارنتائج سے ان کے والدین خوش بھی ہونگے۔لیکن کم از کم دہلی میں 95فیصد نمبر بھی اپنی پسند کے کالجوں میں اپنے پسند کے کورسز میں داخلہ کی گارنٹی نہیں ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ امسال کٹ آف بھی اوپر جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نامی کالجوں میں پہلا کٹ آف 95فیصد سے کافی اوپر ہو۔یہاں تک کہ اتنے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلباءبھی اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ کئی اداروں کو لاٹری کا متبادل سوچنا پڑ رہا ہے۔اگر کسی کو 95فیصد نمبر لیکر بھی من چاہی تعلیم مہیا نا ہو یا پھر لاٹری کے بھروسے رہنا پڑے تو یقینا یہ بھی تشویش ناک امر ہے۔ملک میں ضروری تعلیم کا حصول اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کمی ہے۔یہ تفاوت اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ تعلیم کی لگاتار گرتے معیار سے رفتہ رفتہ ہوا ہے۔اس کا خمیازہ وہ پیڑھی بھگت رہی ہے جو زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے کی ہوڑ اور دوڑ میں سب کچھ بھول کر شامل ہو رہی ہے۔والدین ،سرپرست ،کوچنگ سینٹر ،اساتذہ ،اسکول سب دوڑ میں کامیابی کے نسخے تلاش کر رہے ہیں حالانکہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ زیادہ نمبرات من چاہے تعلیم کا حقدار بھی دیں گے۔

ماہرین کے مطابق امسال کا یہ بیچ پچھلے سال کے بیچ سے اس معاملہ میں الگ ہے کہ اس کے سامنے دسویں کے بورڈ امتحانات دینے کے مصیبت نہیں تھی۔اس نے پہلی بار سیدھے بارہویں کے بورڈ امتحانات دِیے ہیں۔ظاہر ہے اس کا ایک خاص تناؤ بچوں پر رہا ہوگا۔ممکن ہے اپنے نمبر سے نا مطمئن طبقہ اس کو بھی ایک فیکٹر کے طور پر اپنے تشویش یا احتجاج میں شامل کر لے۔اس مرتبہ ایک اور بھی نئی بات یہ ہے کہ ملک کے معروف انجینئرنگ اداروں میں داخلہ کے لئے کامن ٹیسٹ (جے ای ای )میں اس امتحان کا نمبر بھی کچھ حد تک فیصلہ کن ہوگا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کے لئے آگے کا راستہ مشکل ہو گیا ہے۔سچائی یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں نمبر کے ہوڑ کے کے خلاف ایک ماحول بنا ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بارہویں کا نتیجہ ہی کسی کی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے۔وہ زمانہ لد گیا جب فرسٹ پوزیشن یعنی60 فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنا ہی دسب سے بڑا ماحصل ہوا کرتا تھا ،اور 75فیصد تو انتہائی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ایسے لوگوں کو آگے داخلہ جات میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی تھی تاہم اب ایسی باتیں نہیں ہیں نمبروں کو لے کر مائنڈ سیٹ یوں ہی نہیں بدلا ہے۔پچھلے کئی سالوں میں ہندوستان میں واقعی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے۔اب ہر طرح کے بچوں کے سامنے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اختیارات موجود ہیں۔کئی نئے پروفیشنل کورسیز سامنے آئے ہیں اور نئےادارے بھی کھلے ہیں۔اب روزی روزگار کو لے کر سماج میں چلی آ رہی بوڑھی سوچ ختم ہو رہی ہے۔جس کا فائدہ یقینا اس بیچ کے بچوں کو ملے گا۔

یہاں پر یہ بات عرض کر دینے کی ہے کہ2012 میں یہی تناسب لڑکوں کا 75.80اور لڑکیوں کا پاس فیصد 86.21رہا تھا پچھلے سال کے مقابلہ اب کی لڑکیوں کا 01.77فیصد کامیابی کا گراف بڑھا جبکہ لڑکوں کا 01.98فیصدیعنی تعلیمی اعتبار سے دونوں کا گراف ایک ایک فیصد بڑھا مگر اس کے باوجود لڑکیوں نے بازی ماری۔ایک ایسے وقت میں جب لڑکیوں کی حفاظت اور عزت کا سوال معاشرے میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہو لڑکیوں کی یہ کامیابی یقیناً خوش کن اور قابل تحسین ہے ،اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی کامیابی کو معیار نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر لڑکیاں تعلیم میں اتنی ہی تیزہوتی ہیں تو اعلی تعلیم میں ان کا گراف کم کیوں ہو جاتا ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور اس کا جواب دیا بھی جا سکتا ہے۔لیکن بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لڑکیوں میں لڑکوں کے مقابلے سنجیدگی اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت کافی ہوتی ہے ان میں محنت اور لگن کا جذبہ بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔اس لئے مثبت ماحول ملنے پر وہ بہتر اور اچھا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔مگر ہمارے معاشرے اور سماج کی یہ بد قسمتی ہے کہ انھیں خاطر خواہ مواقع فراہم نہیں کئے جاتے اور تمام طرح کی ہدایات اور قانون کے باوجود بھی ان کے حقوق مار لئے جاتے ہیں ،شایدلڑکیوں کا یہ’ احساس‘بھی انھیں خود کو کامیاب بنانے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ہر طرح سے مساوات اور انصاف کی بات کئے جانے کے باوجود لڑکیوں کو وہ حق نہیں ملتا جو واقعی انھیں ملنا چاہئے اور لڑکیوں کا یہی احساس انھیں آگے بڑھنے اورمحنت کرنے پراکساتا ہے کہ اس کے ذریعہ انھیں عزت و احترام بھی ملے گا اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑی بھی ہو سکیں گی۔

ہمارا مقصد یہاں پر لڑکے لڑکیوں کا موازنہ کرانا نہیں ہے ،مگر یہ بات بہر حال کہنے کی ہے کہ حکومتوں اور اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔کہ اسی سے ملک بھی ترقی کرے گا اور ہمارا سماج اور معاشرہ بھی اعتدال کی جاب گامزن ہو سکے گا ،اسی سے توازن بھی قائم ہوگا اور سوچ و فکر میں بھی تبدیلی بھی آئے گی۔ملک کے مختلف حصوں میں کئی طلباءکا ناکامی یا کم نمبر آنے کے بعد خود کشی کرنے کی بھی اطلاعات ہیں ،اس سلسلہ میں اصل ضرورت ہے خود اعتمادی پیدا کرنے اور احساس کمتری سے باہر نکالنے کی ہے۔بچہ کے اوپر بلا وجہ دبا نہ ڈالیں ،اسے ڈرانے ،دھمکانے کی کوشش نہ کریں اس کی عزت نفس کا خیال کریں ،کیریر کے دیگر بہتر امکانات کی تلاش کریں ،نفسیات کو ٹٹولیں یہ کام والدین اور ذمہ داران کے کرنے کا ہے۔وہ انھیں بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی نکھارنے کا موقع دیں ،ان کی خواہش اور جذبہ کو بھی جانیں کہ وہ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور کس میں بہتر کر سکتے ہیں۔
وہیں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے انتظامات کرے کہ کم نمبر لانے والے طلباء بھی اچھے کورسز میں ایڈمیشن لے سکیں۔پچھلے کچھ سالوں سے ملک کے معروف کا لجوں کا کٹ آف بڑھتا گیا ہے۔اس جانب بھی غور کیا جاناہے کہ سال در سال کامیاب ہونے والے طلب کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اور ضرورت کے حساب سے ابھی اچھے کالج اور انسٹی ٹیوشن نہیں ہیں،اور جو ہیں بھی تو وہ کچھ ہی علاقوں میں سمٹے ہوئے ہیں۔پیشہ ور تعلیم دینے والے نجی ادارے بھی راجدھانی اور بڑے شہروں میں ہی کھل رہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے 80فیصدی میڈیکل کالج ساتھ انڈیا میں ہیں۔حکومت کو توازن برقرار رکھنے کے لئے ہر ریاست پر یکساں توجہ دینی ہو گی ،اس بابت تعلیمی اداروں کی مرکزی حیثیت سر کاری ہی نہیں پرائیوٹ اداروں کے لئے بھی ہونا چاہئے اس پر بھی مرکزی حکومت کو غور کرنا چاہئے ،ساتھ میں تعلیم سب کے لئے ارزاں ہو اس کوکیسے ممکن بنائیں اس جانب بھی توجہ دیں۔تبھی شائننگ انڈیا ،طاقت ور انڈیا اور ترقی یافتہ انڈیا کا خواب پورا ہو سکے گا۔

ہمارے ملک کے بہت سے اسکولوں اور کالجوں میں ابھی بھی بہت ساری بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ،انفراسٹکچر کی کمی ہے ،بہت سے ادارے ایسے ہیں جہاں بیت الخلاءتک کاالگ الگ انتظام نہیں ہے ،اس قسم کی خبریں برابر اخباروں میں آتی رہتی ہیں ،اساتذہ کی بھی کمی کی شکایت ہوتی ہے۔خاص کر اردو اساتذہ کے کمی اورسرکاری اردو میڈیم اسکولوں کونظر انداز کئے جانے کی بھی باتیں ہوتی رہی ہیں،اردو میڈیم کے طلباءکو اردو میں کتابیں دستیاب نہ ہونے کی بھی اطلاعات ملتی رہی ہیں ان سب کے باوجودبھی خبر ہے کہ اردو میڈیم کے بچوں نے بھی اطمینان بخش کامیابی حاصل کی ہے ،اس جانب حقیقت کیا ہے حکومتوں کو اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس قسم کی خبریں واقعی درست اور صحیح ہیں تو اسکی انکوائری کروانی چاہئے۔اور اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک میں کسی خاص فرقہ کے ساتھ اس قسم کا سوتیلا رویہ نہ تو زیب دیتا ہے اور نا ہی انسانیت اور ملک کے حق میں مفید ہے۔

ایک بات اور جو بطور خاص مسلم بچوں اور والدین سے کرنی ہے وہ یہ کہ امسال مسلم طلبا و طالبات کے بہتر نتائج سامنے آئے ہیں جس کے لئے دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ان نتائج میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم شان سے سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چل سکیں۔ان بچوں کے نمبر اتنے اچھے نہیں ہیں کہ سب کو کالجوں و دیگر یونیورسٹیوں میں اچھے مضامین یا کورسوں میں داخلہ مل سکے اور وہ اس مقابلہ جاتی دور میں اچھا کیر یر بنا سکیں۔بورڈ کے امتحانات میں بہت کم طلبا و طالبات کی تعداد ایسی ہے جنھوں نے 90فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔موجودہ زمانہ کے مد نظر مسلم طلباءو طالبات کو 90فیصد نمبرات حاصل کر نے کے لئے کئی سطح پر سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔

بورڈ کے موجودہ نتائج صرف اس معنوں میں ذرااطمینان بخش ہیں کہ امتحانات دینے والے زیادہ تر طلبا کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔یعنی وہ اپنی کلاسوں میں پاس ہو گئے ہیں اور مسلم بچوں کا پاس فیصد بڑھ گیا ہے۔تاہم یہ دیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مسلم بچوں نے کس سطح کی کامیابی حاصل کی ہے۔کیا وہ اپنی پسند کے کورسیز اسکولوں یا کالجوں میں داخلہ لے سکیں گے یا اس کے لئے انھیں اب بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پاس ہونے کے باوجود ’خاکم بدہن‘اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے کے اہل ہی نہ ہوں۔

نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے کہ کتنے مسلم بچوں نے 90فیصد تک نمبر حاصل کئے ہیں تو اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں لیکن حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔90 فیصد تو دور کی بات معدودے چند بچے ہی 75 فیصد کے امتیازی نشان تک پہنچ پائے ہیں۔اور اگر اردو میڈیم اسکولوں پر نظر ڈالیں یہ یہ نتائج اور بھی ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں۔اور چند طلبا و طالبات ہی پہلے ڈویژن یعنی 60 فیصد کے ہندسے کو پار کر پاتے ہیں۔کئی اردو میڈیم اسکولوں کے پرنسپل نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے جس میں انھوں نے بر ملا یہ کہا کہ اس سال دیگر سالوں کے مقابلہ مقدار( کوانٹٹی) تو بہتر ہے لیکن معیار(کوالٹی) نہیں۔اس لئے اس جانب توجہ دینی ہوگی اور جائزہ لینا ہوگا کہ کمی کہاں رہ گئی ہے۔امتحان میں صرف پاس ہو جانے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب یہ مسلم بچے کالج یا یونیورسٹی جائیں گے تو وہاں داخلہ کے لئے محض مسلمان بچوں کی میرٹ ہی جاری نہیں کی جائے گی بلکہ سبھی طلبا کا مقابلہ ایک ساتھ ہوگیا۔حق تعلیم قانون کے نفاذ نے بچوں کو پاس ہونے کی فکر سے آزاد کر دیا ہے اور اب ہمیں اپنے نتائج کو بلند کرنے کی فکر کرنی ہی ہوگی ۔



۔۔۔مزید