آخر کب ہوگی حوالگی ؟
محمد علم اللہ اصلاحی
ہندوستان میں وقف املاک مسلمانوں کا سب سے بڑا سر مایہ ہے۔اگر اس
کی صحیح ڈھنگ سے دیکھ ریکھ اور انتظام و انصرام ہو تو مسلمانوں کے بہت سارے مسائل خود
بخود حل ہو جائیں گے۔پھر مسلمان بچوں کو نہ تو اسکالر شپ کی کمی ہوگی اور نا ہی غریبوں
کے لئے سرمایہ کاری اور نہ ہیوہ سرکار کے کسی عطیہ کے محتاج رہیں گے۔لیکن اس معاملہ
میں نہ تو حکومت چاہتی ہے کہ کوئی عملی اقدام ہو اور نہ ہی اس پر قابض افراد اور اس
کے ذمہ داران۔مسلمانوں کی جانب سے چیخ پکار اور مسلم قائدین کے بار بار توجہ دہانی
کے بعد حکومت اس کی اصلاح اور بہتری کی بات تو کرتی ہے ، مگر اس مسئلہ کو بھی مسلمانوں
کے دیگر مسائل کی طرح سرد خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔اور معاملہ جوں کا توں رہ جاتا
ہے ،اس سلسلہ میں بات خواہ سچر کمیٹی رپورٹ کی ہو مشرا کمیشن کی یا پھر ریاستی حکومتوں
کے ذریعہ کئے گئے وعدے سب کا یہی حال ہے۔
ابھی حال ہی میں اسی سلسلہ یعنی ریاست دہلی میں وقف املاک کی حوالگی
اور تحفظات کو لیکر دہلی حکومت کا اپنے وعدوں سے پلہ جھاڑنے اور وقف بورڈ کی مقبوضہ
اراضی کی حصولیابی کے لئے ایک اعلی کمیٹی کی تشکیل دئے جانے کی بات سے پیچھے ہٹنے کی
خبریں آ رہی ہیں۔یہ معاملہ حکومت کی جن وزارتوں سے وابستہ ہے وہ ایک دوسرے کو دستاویز
روانہ کر کے اپنا پلہ جھاڑ رہی ہیں۔خبروں کے مطابق نیشنل ہیری ٹیج پروٹیکشن کونسل نے
اب تک نصف درجن وزارتوں اور محکموں کو مکتوب روانہ کئے ہیں ،جن کے جواب میں صرف دو
سطر ہی میں جواب دیا گیا کہ ہم نے آپ کا مکتوب معلقہ وزارت کوارسال کر دیا ہے۔حیرانی
کی بات یہ ہے کہ جس وزارت کا یہ معاملہ ہے اس نے بھی یہی جواب دیا ہے۔بتایا جاتا ہے
کہ حالانکہ عدالت اور اٹارٹی جنرل کی رائے کے بعد یہ معاملہ راست طور پر حکومت کے پاس
ہی تھا جسے مر کزی کابینہ سے منظوری ملنی تھی۔لیکن خبروں کے مطابق حیرت کی بات یہ ہے
کہ اب تک اس معاملہ میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ ان جائدادوں یعنی جن
123کی بات کی جا رہی ہے کچھ جائدادیں ایسی ہیں جن پر حکومت کا بھی قبضہ ہے۔ان 123جائیدادوں
کے علاوہ اوبرائے ہوٹل، خسروپارک، دہلی پبلک اسکول، سی جی او کمپلیکس، اندراگاندھی
انٹرنیشنل ایئرپورٹ جیسی پچاسوں عمارات گنوائی جاسکتی ہیں جن پر یا تو غاصبانہ سرکاری
قبضے ہیں یا پھر سرکاری اداروں کی سرپرستی میں بلڈرز اور کارپوریٹ گروپ کا غاصبانہ
قبضہ ہے۔ان سب کے علاوہ بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق 300مزید جائدادوں کا سرکاری
و غیر سرکاری اداروں کے قبضہ میں ہونا بتایا جاتا ہے۔مبصرین کے مطابق اگر یہ جائدادیں
وقف کو دے دی گئیں توحکومت کو جگہ خالی کرنی پڑے گی۔جبکہ تصرف اور کاغذات کے مطابق
یہ جائدادیں وقف کی ہی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی ان جائدادوں کی حالت
کو جوں کا توں رکھنے کا حکم دیا تھا۔اب اگر اس پر کسی قسم کا قبضہ یا تعمیری کام ہوتا
ہے تو یہ عدالت کی توہین ہوگی۔خبروں میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے انھیں رویوں کے سبب
حکومت سے خط و کتابت کرنے والے افراد ناامید نظر آ رہے ہیں۔خبروں کے مطابق کونسل کے
جنرل سکریٹری محمد سلیم کے ذریعہ بھیجے گئے مکتوب کے جواب میں محکمہ آثار قدیمہ نے
جواب میں کہا ہے کہ ”ہم نے آپ کا مکتوب وزارت ثقافت کو بھیج دیا ہے اور ہم آپ سے درخواست
کرتے ہیں کہ وقف املاک نوٹیفیکیشن ،برنی کمیٹی رپورٹ اور عدالت کے حکم کی کاپی مہیا
کرائیں تاکہ ہم اس پر کوئی کاروائی کر سکیں “۔
بتایا جاتا ہے کہ اسی قسم کی باتیں وزارت اقلیتی امور نے بھی کہی
ہیں یعنی یہ کہ وقف کی 123جائدادوں کی حوالگی کے لئے وزارت برائے شہری ترقیات سے گفت
و شنید کی جائے گی۔خبروں کے مطابق تاہم پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں وقف ترمیمی بل
2010کو پاس کرانے پر غور و خوض کیا جائے گا۔بتایا جاتا ہے کہ محمد سلیم نے وزیر اعظم
آفس کو بھی مکتوب ارسال کیا تھا اور وہاں سے بھی دو خطوط موصول ہوئے حکومت دہلی کی
جانب سے بھی اسی قسم کا مکتوب ملا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام ہی مکتوبات کی زبان
تقریبا ایک جیسی ہے کہ متعلقہ محکمہ کو خط ارسال کر دیا گیا ہے۔ان تمام خطوط کو پڑھنے
کے بعد بہر حال یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ساری وزارتیں اسی طرح ایک دوسرے کو محض
خطوط ارسال کرتی رہیں گی تو معاملہ کا حل کب ہوگا اور کون سا محکمہ اس پر عمل کرے گا۔بقول
محمد سلیم ”ہم نے ان وزارتوں کو جو خطوط بھیجے ان کا جواب غیر تسلی بخش اور نا امید
کر دینے والا ہے ،ان سب کو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ حکومت معاملہ کو حل کرنا
ہی نہیں چاہتی اور اسی وجہ سے وہ ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ محض خطوط کو ارسال
کرکے وقت کو ضائع کر رہی ہے۔
حالانکہ یہ اعلان دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت نے بڑے جوش و خروش
سے کیا تھا کہ ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔لیکن ایک ماہ سے زائد کا عرصہ
گزر جانے کے بعد ابھی تک کسی بھی قسم کیکوئی کمیٹی کا پتہ نہیں ہے ۔چہ جائے کہ کمیٹی
کے قیام کے ساتھ ہی کارروائی کی جاتی اور اس کی میٹنگیں ہوتیں لیکن صحیح معنوں میں
دہلی حکومت کا یہ اعلان محض انتخابی شوشہ ثابت ہوا۔اس طرح کے فیصلے یوں تو اور بھی
بہت پہلے لئے جاتے رہے ہیں تاہم10مئی 2013کو دہلی کی وزیر اعلی شیلا دکشت اور پرنسپل
سکریٹری ڈی ایم سپولیا سمیت بورڈ چیر مین وی سی اونیز بورڈ کے کئی عہدے داران کی مشترکہ
میٹنگ میں یہ بات کہی گئی تھی۔لیکن ان سب کے باوجود سر د مہری بہر حال سمجھ سے بالا
تر ہے۔خبروں کے مطابق دہلی وقف بورڈ کے چیر مین چودھری متین احمد نے باضابطہ طور پر
یہ اعلان کیا تھا کہ غیر قانونی قبضہ سے بورڈ لینڈ چھڑانے پر فوری فیصلہ لینے اور بورڈ
کی آمدنی میں فوری اضافہ کر نے کی طرف اعلی سطحی کمیٹی ایک بڑی پیش قدمی ثابت ہوگی۔خبروں
کے مطابق مایوس کن بات یہ بھی ہے کہ ماضی اور حال تک اعداد و شمار کے مطابق قابضین
کے خلاف زمین کی وا گذاری کے لئے تقریبا 1050نوٹس وقف ایکٹ کی دفعہ54
کے تحت مختلف
ڈی ایم کے پاس بھیجے جا چکے ہیں لیکن کارروائی ندارد ہے۔
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس معاملہ کو برسوں قبل
آنجہانی اندرا گاندھی نے مظفر حسین برنی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دے کروقف املاک
کے تحفظ کی بات کی تھی۔اور اسی وقت کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے 247جائدادوں
کی نشاندہی کی تھی اور بتایا تھا کہ ان میں تقریبا 123جائدادیں وقف کی ہیں ،جنھیں ایک
روپئے لیز پر واپس کر دینا چاہئے۔مگر تیس سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باجود بھی
حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔بلکہ پورٹ کے بعد بحث کا سلسلہ چلا، تو ایک دوسری کمیٹی
جناب میر نصراللہ صاحب کی چیرمین شپ میں بنائی گئی، محترم میر صاحب نے 321 جائدادوں
کی نشاندہی کی، جسے شہری ترقیات کی وزارت کودہلی وقف بورڈ کے حوالہ کردینا چاہئے تھا۔گزشتہ
سال ہائی کورٹ نے بھی اس معاملہ کے حل کے لئے حکومت کو ہدایات دی تھیں اور اسی بنیاد
پر حکومت نے اٹارٹی جنرل کی لیگل رائے طلب کی تھی مگر معاملہ ہنوز سرد خانہ میں پڑا
ہوا ہے۔
آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟کیا ایسے شوشے محض مسلمانوں کو خوش
کرنے کے لئے چھوڑے جاتے ہیں یا پھر اپنے سیاسی مفادات ووٹ بٹورنے کے لئے ؟حکومتوں سے
یہ ایک اہم سوال ہے۔حکومتیں اگر واقعی مسلمانوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہیں تو ان
کے مسائل کو بھی سنجیدگی سے حل کیا جانا چاہئے۔صرف خالی خولی بیان سے کب تک اپنا مفاد
پورا کرتی رہیں گی؟۔یہاں پر مسلمانوں سے بھی یہ بات عرض کر دینے کی ہے کہ وہ بھی اس
سلسلہ میں خاص کر مسلم رہنما بے لوث ہوکر آگے آئیں اوروقف بورڈکو خود مختار بنانے کے
لئے طویل جدوجہدکریں۔اوریہ کوشش اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ مسلمانوں سے متعلق بورڈوں
اور کمیشنوں کو آئینی درجہ حاصل نہ ہوجائے۔ورنہ یہ لٹیرے سادہ لوح مسلمانوں کو ایسے
ہی لوٹتے رہیں گے اور مفاد پرست لیڈران ووٹوں کی خاطر اپنا بیان دیتے رہیں گے اور معاملہ
وہیں کا وہیں رہے گا جہاں اب ہے۔
۔۔۔مزید