منگل، 13 نومبر، 2012

کانگریس کی ریلی یا شکتی پردرشن


 کانگریس کی ریلی یا شکتی پردرشن
محمد علم اللہ اصلاحی

دو ہزار چودہ کے الیکشن کی نوید سنائی دینے لگی ہے۔سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں عوام لو لبھانے کے لئے ہاتھ پا?ں مارنے لگے ہیں۔ اس کے لئے جہاں نئی نئی اسکیموں کا اعلان ہو رہا ہے ،وہیں ریلی اور جلسہ و جلوس کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔اتوار کونئی دہلی میں کانگریس اور پٹنہ میں جے ڈی یو نے ریلی منعقد کی ، وہیں دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی نے یوم سیاہ بھی منایا۔ بی جے پی نے دارالحکومت دہلی میں 14 جگہ عوامی جلسہ کاانعقاد کیا۔ بی جے پی لیڈروں کا کہنا تھا کہ کانگریس ایف ڈی آئی کی حمایت میں ریلی کرکے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی لیڈروں نے کہا کہ عوام سمجھدار ہو چکے ہیں۔ کانگریس، عوام کو گمراہ کرنے کی جتنی کوشش کر لے وہ کانگریس کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔جبکہ دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد ہونے والی کانگریس کی ریلی کو عام انتخابات کی تیاریوں کابڑا آغاز تصورکیاجارہاہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ کانگریس نے عرصے بعد دہلی میں ریلی کی اور بھیڑ کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ ملک بھر سے کارکنوں، عہدیداروں کو دہلی بلایا اور مجموعی طور پر میڈیا اور ماہرین میں یہی رائے بنی کہ رام لیلا میدان کا شو موثر تھا۔ کانگریس کی قیادت میں یو پی اے حکومت 2004 سے مسلسل بنی ہوئی ہے۔ 2009 میں جب پھر سے یہ حکومت بنی تو کہا گیا کہ منریگا اور آر ٹی آئی قانون نے اسے دوبارہ اقتدار دلانے میں بڑا کردار ادا کیا۔مگر منموہن حکومت کادوسرا دور نہ تو اندرونی طور پر اور نہ ہی ظاہری طور پر کانگریس کے موافق رہا۔ بدعنوانی کے بڑے معاملات کے قسط وار سامنے آتے جانے سے اس کی شبیہ کو خاصا نقصان پہنچاتو وہیں حکومت کے کام کاج کو بھی نشانہ بنایا گیااور حکومت کی پالیسی سازی پر مختلف اندازمیںتنقیدشروع ہو گئی۔ ملک میں شاید پہلی بار ہوا ہے کہ عام انتخابات کی آہٹ دو ڈھائی سال پہلے سے ہی سنی جارہی ہے۔

اس سلسلے میں ہریانہ کے لیڈر اجے چوٹالا نے ایک دلچسپ بیان میں کہا ریلیوں سے طاقت مخالف مظاہرہ کرتے ہیں۔ کانگریس کی حکومت ہے تو وہ کسے طاقت دکھا رہی ہیں؟ منموہن حکومت کو کیوں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کے پیچھے عوام کھڑے ہیں۔ عوام ہے، تبھی تو وہ اقتدار میں ہے۔ ریلی سے بھلا حکومت کی کیاساکھ بنے گی؟کانگریس کو ریلی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا خردہ کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت کولوگوں نے محسوس کیا؟بلا شبہ ریلی کا مقصد یو پی اے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا تھا۔ اصلاحات کی حمایت میں سیاسی ماحول بنانا تھا۔ اس حیثیت سے کہہ سکتے ہیں کانگریس نے پوری طاقت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ اور چدمبرم کا حوصلہ بڑھایا ہے۔مخالف جماعتوں کو چھوڑ بھی دیں تو اس دوران عوام نے بھی بار بار سڑکوں پر اتر کر حکومت کی پالیسی میںپائی جانے والی ناکامیوں اور اس کی ترجیحات پر سوالات کھڑے کئے ہیں۔ اب جب کہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت اور پارٹیوں پر الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، تو کانگریس اور اس کی قیادت والی حکومت کے لئے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ عوام کے سامنے اپنے موقف اور عزم کو مضبوطی سے رکھے۔ اتوار کو نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس پارٹی کی ریلی کے پیچھے یہی مقصد پوشیدہ تھا۔

ریلی کے تینوں اہم مقررین نے اپنی اپنی طرح سے حکومت اور پارٹی کی پالیسیوں، کامیابیوں اور ترجیحات کو بیان کیا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان الزامات کا بھی جواب دے رہے تھے، جو اس دوران ان پر لگے ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایک بار اقتصادی اصلاحات جاری رکھنے کے قول و قرارکااعادہ کیا اور کہا کہ وہ ہر طرح کے احتجاج اور رکاوٹ کے باوجود اس کے لیے مسائل کا حل تلاش رہے ہیں۔ حکومت کے کچھ فیصلوں کو عام لوگوں کے لئے سخت مانتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو محفوظ مستقبل دینے کے لئے کئی بار ایسے ناخوشگوار فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے دیگر مقررین کے مقابلے میں اپنی بات مزیدمضبوط طریقہ سے رکھی۔ انہوں نے جہاں بدعنوانی کو ملک کے لئے ناسور قرار دیا، وہیں یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت لوک پال بل سمیت وہ تمام اقدامات ضرور کرے گی جس سے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ اپنی باتیں کہتے ہوئے وہ یہ بتانا بھی نہیں بھو ل سکیں کہ ملک کے غریب اور محروم طبقوں کے اعتماد کے بدولت ہی ان کی پارٹی ہمیشہ کامیاب ہوتی رہی ہے اور اب بھی ان کا دل گاو ¿ں سماج کے عام لوگوںپر لگا ہوا ہے اور کانگریس ان کے حق میں کسی بھی دوسرے کی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کے ساتھ کھڑی ہے۔

مطلب کانگریس نے ریلی کے ذریعہ سیاسی پیغام دیا ہے۔ ریلی کا انعقاد راہل گاندھی کی نئی ذمہ داری کی حیثیت سے بھی اہم ہیں۔ کچھ رہنماو ¿ں کے مطابق ریلی کو کامیاب بنانے کے پیچھے راہل گاندھی کی آمد کا مقصد بھی تھا۔ کیا ریلی سے راہل گاندھی کا پروجیکشن بنا؟رام لیلا میدان میں منعقدہ کانگریس کی ریلی تمام تنازعات، الزامات کی پس منظر میں ہوئی۔ اس حیثیت سے اپوزیشن اورناقدین کوجواب دیا جانا فطری تھا۔اس سے کانگرےس کی دھند ختم ہونی چاہئے تھی۔ پارٹی اور حکومت دونوں کو لے کرعام لوگوں میں جو رائے بنی ہے وہی ریلی کی کامیابی یا ناکامی ہے۔ڈھنگ سے کانگریس پارٹی اور یوپی اے حکومت کو ریلی کر کے نہیں پارلیمنٹ میں اپنی طاقت دکھانی ہے۔ پارلیمنٹ کے سرما سیشن میں کانگریس اور حکومت دونوں کی طاقت کا امتحان ہونا ہے۔ سی پی ایم لیڈر پرکاش کرات نے چیلنج کیا ہے کہ اگر حکومت میں دم ہے تو وہ خردہ کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو منظوری دینے کی تجویز کو پارلیمنٹ میں ووٹنگ کےلئے رکھے۔لیفٹ کے اس طرح خم ٹھونکنے کی واجب وجوہات ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن سے پہلے دہلی کے رام لیلا میدان میں کانگریس نے ریلی کر کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور وزیر خزانہ پی چدمبرم کے تئیں اپنی حمایت دکھادی۔ سونیا اور راہل گاندھی نے منموہن چدمبرم کی اقتصادی پالیسیوں کو غیر مشروط حمایت کی۔ساتھ ہی کیرل کو چھوڑ کر کانگریس کی حکمرانی والی تمام ریاستوں سے بھی حمایت دینے کی بات کہی گئی ہے۔اس سے پارلیمنٹ کے سرما ئی سیشن کا ایجنڈا طے کیا گیا ہے۔کانگریس نے آرپار کی لڑائی کا موڈبنایا ہے۔ اس ریلی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کانگریس اور اس کی حامی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آئیں گی۔

ریلی میں جتنی بھیڑ نظر آئی اس سے کانگریس کی طاقت دیکھ کر اتحادی پارٹیوں کے دل میں سے یہ بھرم نکل سکتا ہے کہ بدعنوانی اور مہنگائی کے سبب کانگریس کمزور ہوئی ہے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس ریلی نے بکھرے ہوئے حزب اختلاف کو بھی متحد ہونے کاموقع دے دیا ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیوں میں حکومت کو کوگھیرنے کے لئے متحدہ کوشش کی شروعات ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں مشترکہ اپوزیشن کا مقابلہ کانگریس اور یو پی اے حکومت کے لیے بھاری پڑ سکتا ہے۔ اب تک کانگریس حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان کے اختلاف کا فائدہ لیتی رہی تھی۔اس ریلی کا ایک مقصد تو حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کو پارٹی کی حمایت دلانا تھا۔ لیکن دوسرا مقصد کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کو بڑے کردار میںپیش کرنا بھی تھا۔ تاہم اس کردار کا اعلان سرکاری طور پر نہیں ہوا۔ لیکن فورم پر بیٹھنے کا انتظام اور تقریر کرنے کے سلسلے سے یہ طے ہو گیا کہ پارٹی میں سونیا گاندھی کے بعد راہل ہی ہیں۔ کانگریس کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اس ریلی میں راہل گاندھی کی پالیسیوں پر اپنی رائے کانگریس کارکنان سے شیئر کریں گے۔اس لحاظ سے راہل اتنے موثر نہیں نظر آئے۔ اتنی بڑی ریلی کے لحاظ سے جیسی تیاری ہونی چاہئے تھی ویسی تیاری راہل کی نہیں دکھائی دی۔ اب کانگریس کے کئی لیڈران کا کہنا ہے کہ نو نومبر کے ڈائیلاگ سیشن میں راہل اپنی بات مزید قائد ے سے رکھیں گے۔

بہرحال رام لیلا میدان کی ریلی میں مقررین نے جو تقریر کی اس سے حکمت عملی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر ان کی مشکوکیت ظاہر ہوئی۔ ایک طرف وہ معاشی اصلاحات اور مہنگائی کا دفاع کر رہے تھے تو دوسری طرف اروندکیجریوال کی طرح نظام پر حملہ بھی۔ انہوں نے ساری بد انتظامی کا الزام موجودہ نظام کو دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام انہی کی پارٹی چلا رہی ہے اور وہ جن لیڈروں کا دفاع کر رہے تھے وہیں لوگ نظام کو چلا رہے ہیں۔کانگریسی لیڈروں کی تقریر سے ایسا لگا کہ وہ پارٹی اور حکومت چلانے کی عملی مجبوریوں کے ساتھ بھی ہیں اور این جی او کی ذہنیت والے اپنے کچھ مشیروں کے اثر میں بھی ہیں۔ اس لئے کبھی وہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور مہنگائی کے سبب مچی افرا تفری کا دفاع کر رہے تھے تو کبھی موجودہ نظام کو تمام مسائل کی جڑ قرار دے رہے تھے اور اس کو تبدیل کرنے کی بات کر رہے تھے۔ کانگریس جنرل سیکریٹری راہل گاندھی کا زور کانگریس کارکنان اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے اور تنظیمی سطح پر پارٹی کو مضبوط کرنے پر تھا۔ وہ اپنی اس سوچ کو نظام میں تبدیلی کی ضرورت سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے تھے۔ کانگریس کے ان تینوں لیڈروں کی باتیں سن کر ایک بات تو ضرور یہ کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی سب سے پرانی پارٹی نے اپوزیشن کے حملوں اور تمام چیلنجوں سے گھرنے کے باوجود اپنا وہ حوصلہ ابھی نہیں کھویا ہے جس کے بل پر اگلے ڈیڑھ سال اسے حکومت چلانی ہے اور پھر انتخابی میدان میں اترنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس حوصلے کے جوش کو ایک بارگی نہیں بلکہ ہمیشہ ظاہرکرتے رہنا ہوگا بات تب ہی بنے گی۔لیکن بدقسمتی سے سیاست میں یہ دونوں اسٹینڈ ایک ساتھ نہیں چلیں گے راہل کو ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا۔
(Md Alamullah Islahi, Delhi)
 






۔۔۔مزید

پیر، 12 نومبر، 2012

دنیا کے ترقی پذیر شہروں میں نچلی سطح پر دہلی اور ممبئی



دنیا کے ترقی پذیر شہروں میں 
نچلی سطح پر دہلی اور ممبئی
محمد علم اللہ اصلاحی 
ہمارے یہاں ہندوستان میں بہت ساری کمیوں اور خامیوں کے باوجود اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا روج ختم نہیں ہو رہا ہے ۔شاید اسی وجہ سے جب ہمیں کوئی شیشہ میں ہمارا چہرہ دکھا بھی دیتا ہے تو ہم اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ آئینہ دکھانے والے کو ہی برا بھلا کہ دیتے ہیں حالانکہ کہیں نہ کہیں اس میں صداقت بہر حال ہوتی ہے اور اس کو مان لینے سے اصلاح کے امکانات بھی باقی رہتے ہیں نیزیہ کہ حقیقت کاسامناکرنے سے ترقی کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ہم میںحقیقت سے آنکھیںملانے کی ہمت ہی نہیں ہے!اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اور ہمارا ملک ترقی کے نام نہاد نعروں کے درمیان مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے ۔اس کا انکشاف ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ہوا ہے جس میں اس عالمی ادارہ نے نئی دہلی اور ممبئی کو خوشحالی کی طرف جا رہے دنیا کے 95 شہروں کی فہرست میں ناکام اور سست رو بتایا ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہاں ماحولیات کی بدحالی، عدم مساوات، خراب انفراسٹکچر،پراڈکٹی وٹی ،لائف اسٹنڈرڈانتہائی پست ہے ۔اس رپورٹ کو پڑھتے ہی مجھے آج سے دو دہائی قبل میر تقی میر کا کہا ہوا کلام یاد آنے لگا جب انھوں نے دہلی سے عاجز آکر لکھنو ¿ جاتے وقت کہا تھا 
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویرانہ کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
اقوام متحدہ نے اسی اجڑے دیار کی کہانی اور اس کی حقیقت کو ایک مرتبہ پھر ان لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے جو تمام تر ناکامیوں کے باجود ان شہروں کو پیرس اور لندن سے بھی زیادہ خوبصورت بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ۔حالانکہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے خوشحالی کی طرف بڑھتے دنیا کے 95 شہروں میں دہلی اور ممبئی کا نام ہر ہندوستانی کےلئے خوشی کی بات ہے۔لیکن ساری خوشیاں اس وقت کافور ہو جاتی ہیںجب بات ماحول کی اٹھتی ہے تو دہلی سب سے نچلی سطح پر کھڑا نظر آتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ہم بھلے ہی ہریالی کے کتنے ہی دعوے کر لیں، سچائی یہی ہے کہ ابھی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کی امیروں کے شہروں کی فہرست میں دہلی اور ممبئی کو جگہ ملنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس فہرست میں دہلی کا مقام 58 واں اور ممبئی کا نمبر 52 واں ہے۔جبکہ پانچ سب سے اچھے شہروں میں ویانا، نیویارک، ٹورنٹو، لندن اور اسٹاک شامل ہے۔ حیدرآباد کو جہاں میڈیسن دارالحکومت کے طور پر تعریف کی گئی ہے وہیں آئی ٹی کی وجہ سے بنگلور کو کافی بہتر پایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق انفراسٹکچر بڑھانے کےلئے ہندوستانی شہروں پر کافی پیسہ خرچ ہوا ہے، لیکن ان کی ترقی زیادہ گاؤں کی قیمت پر ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دہلی کا مقام ممبئی سے کافی پیچھے ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دونوں میٹروپولیٹن شہر خراب بنیادی ڈھانچے اور ابترماحولیاتی حالات کی وجہ سے چین کے بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں سے بھی کافی پیچھے ہیں۔اقوام متحدہ نے جن پانچ بنیادوں پر دنیا کے مختلف شہروں کا تجزیہ کیا و ہیں پیداوار، معیار زندگی، بنیادی ڈھانچے، ماحولیات اور مساوات جیسے مسائل شامل ہیں یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان پانچوں معیار میںصرف بنگلہ دیش اور نیپال ہی دلی ممبئی کے پیچھے آئے ہیں اور باقی سب ہمارے دونوں شہروں سے اوپر ہیں۔دل والوں کی دہلی اورعروس البلاد ممبئی ایشیا کے کئی شہروں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔دہلی کو ماحول کے نام پر ہی 95 شہروں میں سب سے کم 0 448.نمبر ملے ہیں۔ آلودگی کے معاملے میں دہلی کی صورتحال صاف نہیں ہے لیکن ممبئی کو ماحولیات کے معاملے میں کافی بہتر کیا گیا ہے ۔ممبئی کو اس کےلئے درجہ بندی میں 645.0 پوائنٹ حاصل ہوئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کے معاملے، بجلی پانی جیسی ضروری چیزوں کے لئے بھی ممبئی کی جگہ دہلی سے کہیں آگے ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ شہرت اور عمارت کی ترقی میں دہلی کی رفتار سست ہے۔ ماہرین کے مطابق خراب ماحول کی وجہ سے دہلی کو کافی نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے نامور 95 شہروں کے مقابلے میں دلی کی ساکھ اور اثر و رسوخ دونوں ہی کم ہوئی ہیں۔ہمارے لیڈر دہلی کو نیویارک اور ممبئی کو شنگھائی بنانے کی بات کرتے ہیں پر اس سمت میں کتنے موثر قدم اٹھائیں ہیں اس کی پول اقوام متحدہ کی رپورٹ نے کھول کر رکھ دی ہے۔مطلب یہ کہ نیویارک اور شنگھائی تک پہنچنے کے لئے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہوگا۔ اس رپورٹ سے ایک حقیقت یہ بھی ابھر کر آتی ہے کہ ہمارے یہاں باتیں تو بہت کی جاتی ہیں پر ٹھوس اقدامات کرنے میں کہیں کوتاہی نظر اتی ہے۔رپورٹ میں ہندوستان کے سب سے بڑے شہر کولکتہ، دہلی، ممبئی اور چنئی کو شامل کرنے والی بہتر اور خوبصورت منصوبے کی تعریف کی گئی ہے جو ہمارے لئے خوش آئند بات ہے۔تاہم یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہمارے ملک میں انفراسٹکچرکی اپنی کوئی معاشی حیثیت ہی نہیں بن پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بظاہر خوب ترقی کر لیتے ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ سڑکیں ذرا سی بارش میں بدحال ہو جاتی ہیں۔ عوامی سہولیات کے نام پر خواتین کے لئے ٹولےٹ کی بات تک نہیں کی جاتی۔آمدورفت کے ذرائع میں دہلی کا عالم یہ ہے کہ جن راستوں پر میٹرو کا لنک نہیں ہے وہاں ٹریفک کانظام خستہ ہے۔ وہیں اچھے پارک اور میدان کی بھی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔بچے کھیلنے کی جگہ تلاشتے رہ جاتے ہیں۔ روز مرہ کی ضروریات کی چیزیں ہر جگہ ایک ہی قیمت پر اور مساوی سطح کی نہیں مل پاتیں۔ہندوستان کے پروڈکشن سینٹر جیسی دہلی اور ممبئی کی شناخت ابھی ماضی کی باتیںہوکر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تر سامان باہر سے لا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ دہلی کی ہریالی کو لے کر کافی دعوے کئے جاتے رہے ہیں، لیکن اس محاذ پر بھی یہ شہر اب کہیں نہیں ٹھہرتا۔ یہاں جس رفتار سے جنگل کاٹ کر عمارت کھڑے کئے جارہے ہیں، اس رفتار سے درخت نہیں لگائے جا رہے۔کسی اسکیم کے لاگو ہوتے وقت کہا تو یہ جاتا ہے کہ اس سے جتنے درختوں کا نقصان ہوگا اتنے پھر لگائے جائیں گے، لیکن ایسا کبھی ہو نہیں پاتا۔ہماری حکومتیں اگر اس رپورٹ کو درکنار کرنے یا اس سے پریشان ہونے کی بجائے، اس کے مثبت پہلو کو سمجھنے کی کوشش کریں گی تو ہو سکتا ہے مستقبل میں ہمارے شہروں کی تصویر بدل جائے۔ملک کا دل کہی جانے والی دہلی اورعروس البلاد ممبئی بھلے ہی ہمارے ملک میں ترقی یافتہ شہر کہے جاتے ہوں پر دونوں ہی دنیا کے کئی دوسرے شہروں سے پیچھے ہیں۔ کسی شہر کی شکل بنانے میں سب سے بڑا حصہ وہاں کی اصل سوچ اور فکر کا ہوتا ہے۔یہاں پریشانی یہ بھی ہے کہ جو وسائل دستیاب ہیں، ان کا استعمال سمجھداری سے نہیں کیا جا رہا ہے۔حالانکہ اس میں ایسا نہیں ہے کہ بڑے شہروں پر پیسہ خرچ نہیں کیا جا رہا، لیکن یہ پیسہ امیر علاقوں میں ہی لگ رہا ہے، غریب علاقوں کو بہتر بنانے میں یہ پیسہ نہیں لگ رہا ہے۔ پھر جس طرح سے ہمارے شہروں کی ترقی ہو رہی ہے، اس میں غریب لوگ حاشیے پر جا رہے ہیں، جہاں نہ وہ خود محفوظ ہیں اورنہ ہی مستقل روزگار کے مواقع ہی دستیاب ہیںنا بجلی، پانی، سیور، ٹرانسپورٹ جیسی ضروری خدمات۔ ممبئی کی تو آدھی سے زیادہ آبادی گندی بستیوں میں رہتی ہے۔ دہلی کی حالت اس سے کچھ ہی بہتر ہے۔ لیکن شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روزگار اور ضروری سہولیات دلوانے کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ ہمارے شہری منصوبہ بندی میں کہیں نظر نہیں آتی۔کافی سارے مسائل تو مبینہ منصوبہ بندی سے ہی پیدا ہوئی ہیں۔ اگر شہروں میں جھگی بستیاں یا غیر قانونی کالونیاں بڑھی ہیں اور اچھے اور سستے مکانوں کا بحران ہے، تو اس کا بہت کچھ کریڈٹ حکومت یا ایسے ہی ترقی اتھارٹیوں کو جاتا ہے، جنہوں نے شہری زمین پرنا حق قبضہ کر لیا اور ضرورت کے مطابق ترقی کی کوشش نہیں کی۔ اس سے غیر قانونی تعمیرات اور روزگار علاقوں سے کئی گنا مزید بڑھ گئے۔یہاں مسائل اس لئے بھی پیدا ہوئے کہ شہروں کی ترقی کے ذرائع کے مقامی اداروں کے نہیں، ریاست یا مرکزی سطح کی سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں رہے۔نتیجہ کے طور پر لیڈران کے ووٹ بینک تو دیہی علاقوں میں تھے اس لئے انہوں نے شہری ترقی کی بے اعتنائی کی اور شہروں کو صرف پیسہ اور جائیداد حاصل کرنے کا ذریعہ مانا، شہروں میں صرف خوشحالی کے کچھ جزائر بنا لئے گئے، جن میں با اثر لوگ رہتے ہیں اور بڑی آبادی کو بغیر شہری سہولیات کی گندی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔ممبئی کے علاوہ دہلی اس بات کی مثال ہے کہ یہاں قدرتی وسائل کی بربادی کس طرح کی جاتی ہے۔جمنا ندی میں صرف سیور کا پانی بہتا ہے اور باقی سینکڑوںٹن پانی برباد جاتے ہیں۔ دہلی کو ریگستانی ہواؤں سے بچانے والے اراولی کے جنگل ہی نہیں پہاڑ تک کاٹ دیے گئے ۔کسی بھی شہر یا چھوٹے شہرکی ترقی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا خیال نہیں رکھا گیا، گڑگاوں یا گریٹر نوئیڈا میں آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ تقریبا نہیں ہے۔ حکومت کی اس آبادی بنام بربادی سے کچھ لوگ امیر ہو سکتے ہیں، لیکن سب کی خوشحالی صرف سمجھداری سے وسائل کے استعمال اور تقسیم سے ہو سکتی ہے، اوپر جن اچھے شہروں کے نام گنائے گئے ہیں ان کے مقامی ادارے ہمارے ملک کی طرح حکومت کی طرف سے کئے گئے پیسے پر انحصار نہیں کرتے ہیں ۔ ان کا اپنا آزاد اقتصادی بنیاد ہوتا ہے ۔آج ضرورت ہے کہ معیار زندگی اور بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی بہتر بنایا جائے،یہی اس رپورٹ کا ہندوستان کے لئے پیغام ہے۔
     (Md Alamullah, Delhi)  


۔۔۔مزید