کھڑکی پر کامران
رویش کمار (انکر این ڈی ٹی وی ہندی)
دس منزلہ کمرے کی کھڑکی سے اپنی بیٹی کو باہر کی دنیا دکھا رہا تھا۔ اچانک ایک نوجوان رسی سے لٹکا ہوا کھڑکی پر آ گیا۔ پانی چاہئے۔ اتنی اونچائی پر بے خوف وہ ان دیواروں کو رنگ رہا تھا جس کے رنگین ہونے کا سکھ شاید ہی اسے ملے۔ میری بیٹی تو انتہائی خوش ہو گئی کہ کوئی دیوار کی طرف سے کھڑکی پر لٹک کر بات کر رہا ہے۔ ڈر نہیں لگتا ہے، یہ میرا پہلا سوال تھا۔ دیوار پر رنگ کا ایک کوٹ چڑھا کر کہتا ہے - نہیں۔ ڈر کیوں۔ کیا نام ہے۔ کامران۔
پھر کامران سے بات ہونے لگتی ہے۔ بہار کے ارریہ ضلع کا رہنے والا ہے۔ چھ ماہ پہلے دہلی کمانے آیا ہے۔ دو دنوں تک بیٹھ کر دیکھتا رہا کہ کوئی کس طرح خود کو رسی سے باندھ کر لکڑی کی پٹری پر بیٹھ کر اتنی اونچائی پر اکیلا رنگ رہا ہوتا ہے۔ تیسرے دن سے کامران خود یہ کام کرنے لگتا ہے۔
میں نے پوچھا ’’ کوئی تربیت ہوئی ہے تمہاری‘‘۔
’’نہیں! بس دیکھ کر سیکھ لیا‘‘۔
تو کسی نے کچھ بتایا نہیں کہ کیا کیا احتیاط برتني چاہئے۔
’’نہیں‘‘۔!
’’تو تمہیں ڈر نہیں لگتا ہے نیچے دیکھنے میں۔‘‘
نہیں لگتا۔
اس سے پہلے کتنی منزل کی عمارت کا رنگ و روغن کیا ہے تم نے
۔ سینتیس منزل۔
میں سوچنے لگا کہ جہاں کامران کا بچپن گزرا ہوگا وہاں اس نےاتنی اونچائی کی عمارت کبھی دیکھی نہ ہوگی لیکن دہلی آتے ہی تیسرے دن سے وہ اونچائی سے کھیلنے لگتا ہے۔’’ تو کیوں کرتے ہو یہ کام‘‘۔
’’ اس میں مزدوری زیادہ ملتی ہے۔ رسک ہے نہ‘‘۔
’’کتنی ملتی ہے‘‘۔
’’ پانچ چھ سو روپے ایک دن کے‘‘۔۔۔۔۔پھر اچانک ’’ پانی دیجئے نہ‘‘۔
میری دلچسپی کامران سے بات کرنے میں تھی۔ تیسری بار اس نے پانی مانگا۔ ’’اوہ، بھول گیا‘‘۔
’’ابھی لاتا ہوں‘‘۔
گلاس لے کر آیا تو کامران نے اپنے ساتھ رنگ رہے ایک اورشخص کی طرف گلاس بڑھا دیا۔ جب گلاس لوٹايا تو میں نے کہا’’ مجھے لگا کہ تمہیں پیاس لگی ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کھڑکی کے باہر کوئی اور بھی لٹکا ہوا ہے‘‘۔
’’نہیں سر! ، وہ ہندو ہے۔ اسے پیاس لگی ہے۔ میرا روزہ چل رہا ہے‘‘۔
رویش کمار (انکر این ڈی ٹی وی ہندی)
دس منزلہ کمرے کی کھڑکی سے اپنی بیٹی کو باہر کی دنیا دکھا رہا تھا۔ اچانک ایک نوجوان رسی سے لٹکا ہوا کھڑکی پر آ گیا۔ پانی چاہئے۔ اتنی اونچائی پر بے خوف وہ ان دیواروں کو رنگ رہا تھا جس کے رنگین ہونے کا سکھ شاید ہی اسے ملے۔ میری بیٹی تو انتہائی خوش ہو گئی کہ کوئی دیوار کی طرف سے کھڑکی پر لٹک کر بات کر رہا ہے۔ ڈر نہیں لگتا ہے، یہ میرا پہلا سوال تھا۔ دیوار پر رنگ کا ایک کوٹ چڑھا کر کہتا ہے - نہیں۔ ڈر کیوں۔ کیا نام ہے۔ کامران۔
پھر کامران سے بات ہونے لگتی ہے۔ بہار کے ارریہ ضلع کا رہنے والا ہے۔ چھ ماہ پہلے دہلی کمانے آیا ہے۔ دو دنوں تک بیٹھ کر دیکھتا رہا کہ کوئی کس طرح خود کو رسی سے باندھ کر لکڑی کی پٹری پر بیٹھ کر اتنی اونچائی پر اکیلا رنگ رہا ہوتا ہے۔ تیسرے دن سے کامران خود یہ کام کرنے لگتا ہے۔
میں نے پوچھا ’’ کوئی تربیت ہوئی ہے تمہاری‘‘۔
’’نہیں! بس دیکھ کر سیکھ لیا‘‘۔
تو کسی نے کچھ بتایا نہیں کہ کیا کیا احتیاط برتني چاہئے۔
’’نہیں‘‘۔!
’’تو تمہیں ڈر نہیں لگتا ہے نیچے دیکھنے میں۔‘‘
نہیں لگتا۔
اس سے پہلے کتنی منزل کی عمارت کا رنگ و روغن کیا ہے تم نے
۔ سینتیس منزل۔
میں سوچنے لگا کہ جہاں کامران کا بچپن گزرا ہوگا وہاں اس نےاتنی اونچائی کی عمارت کبھی دیکھی نہ ہوگی لیکن دہلی آتے ہی تیسرے دن سے وہ اونچائی سے کھیلنے لگتا ہے۔’’ تو کیوں کرتے ہو یہ کام‘‘۔
’’ اس میں مزدوری زیادہ ملتی ہے۔ رسک ہے نہ‘‘۔
’’کتنی ملتی ہے‘‘۔
’’ پانچ چھ سو روپے ایک دن کے‘‘۔۔۔۔۔پھر اچانک ’’ پانی دیجئے نہ‘‘۔
میری دلچسپی کامران سے بات کرنے میں تھی۔ تیسری بار اس نے پانی مانگا۔ ’’اوہ، بھول گیا‘‘۔
’’ابھی لاتا ہوں‘‘۔
گلاس لے کر آیا تو کامران نے اپنے ساتھ رنگ رہے ایک اورشخص کی طرف گلاس بڑھا دیا۔ جب گلاس لوٹايا تو میں نے کہا’’ مجھے لگا کہ تمہیں پیاس لگی ہے، مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کھڑکی کے باہر کوئی اور بھی لٹکا ہوا ہے‘‘۔
’’نہیں سر! ، وہ ہندو ہے۔ اسے پیاس لگی ہے۔ میرا روزہ چل رہا ہے‘‘۔
۔۔۔مزید