پیر، 22 اکتوبر، 2012

اسمگلروں کے چنگل میں بچپن



اسمگلروں کے چنگل میں بچپن 
محمد علم اللہ اصلاحی

بچے کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل ہیں،انھیں کے دم سے کائنات کی خوبصورتی اور رونق ہے شاید اسی سبب انہیں جنت کے پھو ل بھی کہا گیا ہے اور چونکہ ملکوں اور قوموں کا عروج وزوال قوموں کی مجموعی صورت حال اور ان کی اخلاقی صفات سے ہوتاہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچے قوموں کی تعمیر و ترقی میں سب سے اہم اورمرکزی کردار ادا کرتے ہیںمگرآج معاملہ بالکل اس کے بر خلاف ہے بلکہ نسل انسانی کے اس مخلوق کے ساتھ تو کچھ زیادہ ہی نارو سلوک کیا جا رہا ہے روزانہ ان معصوم بچوں کے ساتھ برا سلوک ،زیادتی، جنسی استحصال ،مار پیٹ ،تشدد کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔حالانکہ ایسے رویوںپر لگام کسنے کیلئے سخت قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میںکوئی کمی ہونے کی بجائے اس میںمزید اضافہ ہی ہو رہا ہے۔یہ اضافہ ساری دنیا میں ہو رہا ہے جس نے حقوق انسانی کی تنظیموں سمیت ہر ایک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں بچوں سے جڑے جرائم کچھ زیادہ ہی ہو رہے ہیں ۔یہ اطلاع ابھی حال ہی میں عدالت عظمی نے ایک فیصلہ کے تناظر میں دیا ہے عدالت کے مطابق جو بچے گم ہو جاتے ہیں یا اغوا کرلئے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر فقیروں یا کوٹھے چلانے والوں اور انسانی اسمگلنگ میںملوث افرادکی درندگی کے شکار بن جاتے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں آئے وزارت برائے شماریات اور پروگرام وعملدرآمد کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے خلاف جرائم کے 33،098 معاملے اجاگر ہوئے، جبکہ 2010 میں یہ تعداد 26،694 تھی۔ اس طرح بچوں کے خلاف جرائم میں 24 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ پورٹ کے مطابق افسوس ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ان جرائم کے بہت سے معاملات میں ان کے قریبی رشتہ دار شامل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف انہیں جنسی کاروبار کی اندھیری دنیا میں ڈھکیلنے والے کئی منظم گروہ سرگرم ہیں۔تازہ مطالعہ میں ایسے سب سے زیادہ کیس مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں پائے گئے ہیں۔ریاستوں میں اتر پردیش کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ہے۔پڑھائی لکھائی اور تمام بیداری مہمات کے باوجود معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں میں تفریق کاسلسلہ ہنوزختم نہیں ہو پایا ہے۔ مگر مسئلہ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینے کی ذہنیت تک محدود نہیں ہے،بلکہ مسئلہ اس سے بھی بہت زیادہ آ گے بڑھ گیا ہے ۔خاص طور کمزور طبقوں کے بچوں کے لئے سماج میں مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور ان میں عدم تحفظ کااحساس بھی۔ ان کے لاپتہ ہونے کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔پولیس ایسے معاملات کا نوٹس لینے اور ان کی تلاش کرنے میں کبھی مستعد نہیں دکھائی دیتی۔ اب تک کے جائزوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گم ہونے والے زیادہ تر بچے بدحال خاندانوں کے ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کے ذریعہ ایسے بچوں کے ماں باپ کو بہلا پھسلا کر، روزگار کے لالچ دے کر ان کا’شکار‘کیاجاتاہے۔ چونکہ بہت سے ماں باپ کےلئے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنا مشکل ہے، اس لئے وہ بآسانی انہیں شہروں میں گھریلو نوکر یا پھر دکان یا کارخانے وغیرہ میں کام کرنے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ 

ان اسمگلروں کے چنگل میں پھنسنے کے بعد ان بچوں کا نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، بہار، جھارکھنڈ وغیرہ کے قبائلی علاقوں سے گھریلو کام کاج کے نام پر شہروں میں لے جائی گئی ہزاروں لڑکیاں لاپتہ ہیں۔ اسی طرح بڑے شہروں کی جھگی بستیوں سے بچوں کے غائب ہونے کے واقعات عام ہیں۔جہاںوہ بچوں کوبندھوا مزدور بھی بنا دیتے ہیں یا پھر انہیں اپاہج بنا کر مندروں، مالس اور مصروف چوراہوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جبکہ عام طور پر لڑکیوں کو جسم فروشی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ملک کی راجدھانی دہلی کوملک کاقلب کہا جاتا ہے، لیکن ہر سال یہاں بڑی تعداد میں بچوں کے لاپتہ ہونے سے کتنے ماں باپ کے دل چھلنی ہو رہے ہیں، اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں اور ان میں سے بہت سے بچوں کا تو کبھی کوئی علم ہی نہیں ہو پاتا۔دہلی خواتین کے لئے تو پہلے ہی محفوظ نہیں تھی، اب یہ بچوں کے لئے بھی محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ شاید اسی سبب یہ بات ہلا دینے والی ہے کہ سال 2009 سے لے کر اب تک یہاں 19 ہزار سے زائد بچے لاپتہ ہو چکے ہیں جن میں سے 1731 لڑکیوں اور 1574 لڑکوں سمیت کل 3305 بچوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔عیاں رہے کہ یہ معلومات حال ہی میں وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں دی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وزارت ان لاپتہ بچوں کے لئے انسانی اسمگلروں سے بھی زیادہ ذمہ دار ان کے والدین کو مانتا ہے۔

وزارت کی طرف سے بتائے گئے 11 وجوہات میں انسانی اسمگلنگ کو آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔ وزارت کے مطابق بچوں کے لاپتہ ہونے کے لیے زیادہ تر ماں باپ ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کہ ہے کہ ابھی کچھ ہی دن قبل سپریم کورٹ نے دارالحکومت میں بڑی تعداد میں بچوں کے لاپتہ ہونے کو ایک ’انتہائی سنجیدہ معاملہ‘ قرار دیا تھا اور 16 اگست کو عدالت نے تمام ریاستوں سے ملک بھر میں لاپتہ 55 ہزار بچوں کا پتہ لگانے کے لئے کی جارہی کوششوں کی بھی معلومات ما نگی تھی۔اس کا فالو اپ کیا ہوا کچھ پتہ نہیں ایسے ہی سست روی کا نتیجہ ہے کہ صرف دہلی میں روز سو سے اوپر بچے غائب ہورہے ہیںاور بجائے اس میں کمی آنے کے اضافہ ہی ہو رہا ہے پولیس بھی ان بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام ہے۔ حالانکہ حکومت اس بات سے انجان نہیں ہے کہ اس طرح غائب ہونے والے بچوں کو بھیک مانگنے، بندھوا مزدوری کرانے، جسم فروشی، فحش فلموں وغیرہ کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دہشت گرد تنظیم بھی ایسے بچوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایسے واقعات کے تار براہ راست غربت سے جڑے ہیں۔ مگر ملک کی ایک بڑی آبادی کا غریب ہونا کوئی نئی صورت حال نہیں ہے۔ اس لئے غریبی کا حوالہ دے کر انسانی اسمگلنگ سمیت بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے سختی سے نمٹنے کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس سوال کے جواب میں کہ دہلی سے اتنی بڑی تعداد میں آخر بچے کیوں لاپتہ ہو رہے ہیں،ریاستی وزیر جتندر سنگھ نے بچوں کےلئے ماں باپ کے ناقص سلوک، ان سے ڈانٹ ڈپٹ اور خاندان کے لئے بچوں کے غصہ کو ہی ذمہ دار قرار دیا۔ اسکول میں زیادہ نمبر لانے کا دباو ¿، محبت کے چکر میں گھر سے بھاگنا، راستہ بھٹک جانا، دماغی حالت کی خرابی، اپنی مرضی سے چلے جانا اور کسی دوست کے گھر جا کر نہ لوٹنا وغیرہ بچوں کے کھونے کےاسباب ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں 5946 بچے راجدھانی میں لاپتہ ہوئے جبکہ 2010 میں 5091، 2011 میں 5111 اور اس سال 15 اگست تک 3171 بچے یہاں لاپتہ ہو چکے ہیں۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2009 اور 2010 میں لاپتہ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کم تھی تاہم گزشتہ سال سے یہ رجحان بدل چکا ہے۔ 2011 سے اب تک 864 لڑکوں کے مقابلے میں 1103 لڑکیاں لاپتہ ہو چکی ہیں۔ جن 3305 لاپتہ بچوں کا اب تک کچھ پتہ نہیں ہے، وہ انسانی اسمگلنگ کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ 2009 اور 2010 سے لاپتہ تقریبا 1400 بچے گزشتہ 2 سالوں سے اپنے گھروں کو نہیں لوٹے۔

ایک این جی او ”بچپن بچا
آندولن “کے قومی سکریٹری راکیش سےگر کا کہنا ہے کہ” دہلی سے دیگر شہروں کو بچوں کی اسمگلنگ کرنے والے کسی بھی بڑی تعداد کا پتہ لگانے میں دہلی پولیس ناکام رہی ہے۔ حال کے پانچ سالوں میں دہلی سے لاپتہ بچے میرٹھ، سہارنپور اور باغپت میںفیکٹری اور کھیتوں میں کام کرتے دیکھے گئے ہیں۔ایک اور کیس میں اقبال علی نامی شخص کا 2 سال سے لاپتہ 11 سالہ بیٹا عرفان پنجاب سے بھاگ کر دہلی اپنے گھر لوٹنے میں کامیاب رہا۔عرفان کو اغوا کر کے اسے لدھیانہ لے جا کر ایک شخص کو فروخت کر دیا گیا جو اس سے کھیتوں اور فیکٹری میں کام کرواتا رہا۔ عرفان کے ساتھ اسی علاقے سے 4 لڑکیاں بھی لاپتہ ہوئی تھیں جن کا پتہ ہی نہیں چل سکا۔جامعہ ملیہ میں شعبہ سماجیات کی پروفیسر گومتی بودرا کا کہنا ہے ”بچے سب سے سافٹ ٹارگیٹ ہوتے ہے اس لئے مجرم انہیں اپنا نشانہ بناتے ہیں اور آسانی سے چھوٹ بھی جاتے ہیں۔ قانون میں بچوں کے لئے ہونے والے جرائم کے لئے کوئی خاص قانون نہیں ہے۔ ساتھ ہی وہ سماج میں بڑھتی فاطرانہ ذہنیت اور خاندانوں میں آنے والی دوری کو اس کی وجہ بتاتی ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ہی بچے ماں باپ سے کھل کر اپنی پریشانیاں شیئر نہیں کر پاتے۔تاہم بچوں کے حقوق کے لئے کئی غیر سرکاری ادارے موجود ہیں جو ان کے مفاد میں کام کر رہی ہےںمگر بچوںکے جنسی استحصال کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لئے بیداری لانا مزید ضروری ہے۔ پروفیسر گومتی سماجی سطح پر حالت کوبہتر بنانے کے لئے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہتی ہے کہ بچوں کے لئے ورکشاپ کا انعقاد کیا جانا چاہئے اور انہیں اسکولی سطح پر بیداری بنایا جائے۔

اخیر میں یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ دارالحکومت دہلی ہندوستانی اقتدار کا مرکز ہونے کے علاوہ دنیا بھر کے سفارت خانوں کا مرکز بھی ہے اور اس لحاظ سے یہاں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ سخت عوامی سلامتی ہونے کی توقع کی جاتی ہے لیکن اس اعداد و شمار سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ دہلی تو بچوں کے لئے بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ جب ملک کی دارالحکومت میں یہ حال ہے تو ملک کے دیگر حصوں میں صورتحال کیسی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ بات اس لئے بھی کہی جا رہی ہے کہ دنیا کے تقریبا وہ تمام ممالک جو خود کو انسانیت کا ہمدردقراردیتے ہیںانہیں یہ چیزیںدکھائی نہیں دیتیں اور ان کے نزدیک یہ کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔ حالانکہ تمام ہی بچوں کے بنیادی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے منشور پرہندوستان نے بھی دستخط کئے ہیں۔ملک میںبچوں کے حقوق کے تحفظ کے کمیشن بھی موجودہے،مگر ان کے حقوق اور ان کے لئے بنے قوانین کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔کاش اس جانب صدق دل سے کام کیا جاتا تو مثبت نتائج بر آمد ہوتے۔

alamislahi@gmail.com
(Md Alamullah, Delhi)


۔۔۔مزید

جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

فحش ویب سائٹس اور ہمارے نوجوان


فحش ویب سائٹس اور ہمارے نوجوان
محمد علم اللہ اصلاحی 

انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعہ لوگ اپنے دور دراز کے عزیزوں سے باآسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس نے بڑ ی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔ہندوستان میں انٹرنیٹ دس سال قبل متعارف ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی گئی۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت ملک کی تقریبا 45فیصد تعلیم یافتہ آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑ ھ جائے گی۔

اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ محض اندازہ نہیں بلکہ ابھی حال ہی میں انگریزی روزنامہ” ٹائمس آف انڈیا “ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے۔یہ صورتحال ہر باشعور شخص کے لیے باعث تشویش ہے۔ باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تنہاہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ ان سائٹس پربا قاعدگی سے جانے والے لوگ ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کوناپاک کر دیتی ہے۔ اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یاتو انسان حلال و حرام کی ہر تمیز کو فراموش کر کے زناکی ہلاکت خےز وادی میں قدم رکھ دیتا ہے یا پھر شادی کا جائز راستہ کھلنے کے بعد بھی تاعمر پورنوگرافی کے نشہ کا عادی بنا رہتا ہے۔

ہمارے معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں ، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی مبارک اور آسان رسم کو مشکل ترےن اور خرافات کا مجموعہ بنارکھا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں یا تو مناسب عمرمیں نوجوانوں کی شادی ہوجاتی ہے یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑ کے لڑ کیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔”ٹائمس آف انڈیا “کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پورے معاشرہ کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ یا تو لوگوں کے لیے نکاح کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہوجایا جائے،ورنہ ہماری تہذیب جسے ہم ”تہذیب مشرق“کہتے اور فخر کرتے ہیں وہ 
علامہ اقبال کے شعر

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 
جو  شاخ  نازک   پہ  آشیانہ   بنے گا  نا پا ئے  دار ہو گا

کا مصداق ثابت ہوگی اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ جائے گا۔اس تناظر میں گذشتہ ماہ دہلی کی معروف دانش گاہ جے این یو یا ڈی یو میں جو حالات پیش آئے اور حیوانیت کا جو ننگا ناچ ناچا گیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 

اس پیغام کا پس منظر یہ بھی ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام ہے ، ان کے ہاں یہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ان کے ہاں کی فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے، باقی لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں،مگر ہمارے ہاں ، حیا اور عفت بنیادی اقدار ہیں،اسی طرح اخلاقی بحران کے اِس دور میں خاندان کا ادارہ ہماری واحد معاشرتی ڈھال ہے،زنا اور بے حیائی کے فروغ سے یہ اقدار مٹ جائےں گی اور یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔

انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے، سعودی عرب اور سنگاپور جیسے ممالک نے سنسرشپ کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ موثر نہیں ہو سکا ہے، ہمارے ہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس سےبھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا، بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑ ھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس کا مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی جائے گی۔

اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں، وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں، ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔جب بچے بڑ ے ہوجائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔

بچوں کے شادی کی عمرتک پہنچ جانے کے بعد بھی اگرکسی خاندان کے لیے ان کے بچوں کی شادی بہت بڑی مشکل بن گئی ہے تو معاشرہ کے دولت مندوں پر اس وقت یہ اخلاقی فرض عائد ہوجاتاہے کہ وہ اس قسم کے ناداروں کی کفالت کریں اور ان کو پاکیزہ زندگی گذارنے کے مواقع فراہم کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو سماج میں ایسی برائیاں جنم لیں گی جن کے خاتمہ کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکے گی۔

ایسے لوگ جو انفرادی طور پر شادی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت دی ہے :
وَلیَستَعفِفِ الَّذِینَ لاَ یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغنِےَھُمَ اللّٰہُ مِن فَضلِہ۰۰۰۰ الخ ۔سورة النور، الآیة -۳۳
اور وہ لوگ جو نکاح کی مقدرت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ وہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے بے نےاز کردے۔(سورة النور، آیت -۳۳)

اس پاک دامنی کی تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علےہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے:
یَا مَعیشَرَ الشَّبَابِ مَنِ استَطَاعَ مِنکُمُ البَائَ ةَفَلییَتَزَوَّج فَاِنَّہ اَغَضُّ لِلبَصَرِ وَ اَحصَنُ لِلفَرجِ وَمَن لَّم یَستَطِع فَعَلَیہِ بِالصَّومِ فَاِنَّہ لَہ وِجَآ ئ۔ (خرجہ مسلم فی صحیحہ، و النسائی و ابن ماجہ والدارمی فی السنن فی کتاب النکاح )
اے نوجوانو! تم میں سے جس کو گھر بسانے کی قدرت ہو اس کو شادی کرلینا چاہیے ، کیوں کہ یہ نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت کا باعث ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا اس کو روزہ رکھنا چاہیے، کیوں کہ روزہ شہوت کو توڑنے والی چیز ہے۔(صحیح مسلم، سنن نسائی،سنن ابن ماجہ، سنن دارمی کتاب النکاح میں اس حدیث کی تخریج ہے)

قرآن مجید کی یہ ہدایت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پےغام تمام انسانوں کو عام ہے،اہلعلم کے سامنے جب اس حکم کی اشاعت کے مواقع آئیں تو ان کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور دونوں مصادر میں جس پاک دامنی کے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اس کی اہمیت اور کیفیت لوگوں کے سامنے حکمت سے بیان کرکے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہیے۔

رابطہ کا پتہ 
Md Alamullah
9911701772
alamislahi@gmail.com


۔۔۔مزید