ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

رینڈم تھاٹ


جہاں تک ہندوستانی ، پاکستانی ڈراموں کی بات ہے ، فلم کی یا آرٹ کی یہ در اصل پھیلاو سے پھلتا ، پھولتا اور پروان چڑھتا ہے ۔اس کے ذریعہ ہم بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں ، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے تکنیک سے لیکر فلم بندی ، اسکرپٹنگ ، مکالمہ نگاری ، کلچر ، سماج کے رویہ جات ٹوٹتے ، بکھرتے ، بنتے ہیں ، سماج کو کیا ضرورت وغیرہ وغیرہ ۔ سر حد کے اِس پار یا اُس پار اس طرح کے چیزوں کی اگر کوئی بائکاٹ کی بات کرتا ہے تو یہ سراسر غلط ہے ، اور درست بات تو یہ ہے کہ یہ ممکن بھی نہیں ہے ۔ اب زمانہ محض ٹیلی ویژن یا کیبل نیٹ ورک تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس نے کہاں تک اپنے پاوں پسار لئے ہیں اور کہاں تک اس کی رسائی ہو گئی ہے ، ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ایسے میں اگر کوئی اچھی چیز کہیں بھی بنتی ہے تو لوگ اس کو دیکھتے ہیں ۔ ہمارے حلقہ احباب میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ ہالی وُڈ کے علاوہ دنیا بھر میں بننے والی فلمیں دیکھتے ہیں کورین ، چائنیز ، نیپالی اب تو چھوٹے چھوٹے ممالک میں بھی لوگ اچھی فلمیں بنا رہے ہیں ، انتہائی معیاری جسے ہم جیسے لوگ بھی جن کا پیشہ ہی اس انڈسٹری سے وابستہ ہے دیکھ کر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ کیا ہندوستان میں پاکستانی فلم بول نے دھماکہ نہیں مچایا ، کیا فلم خدا کے لئے نے اپنی پہچان نہیں بنائی ۔یا پھر پاکستانی ڈراموں نے ہندوستان میں اپنی حیثیت نہیں منوائی ۔خود ہمارےایم اے ماس کام کے کلاس میں پاکستانی سیریل دکھائے جاتے ہیں ، سیکھنے کے لئے ۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہمارے یہاں ہندوستان میں ترکی سیریل بھی انتہائی ذوق و شوق سے دیکھے جا رہے ہیں جو خالص اسلامی اقدار پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایرانی فلموں نے بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ہمارے یہاں ای ٹی وی میں تو عرصہ دراز تک ایرانی فلمیں بغیر ترجمہ کے بھی دکھائی جاتی رہیں اور ٹی آر پی بھی اچھارہا ۔