ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

ملک زادہ منظور کی کتاب سے ایک اقتباس

ان دنوں ملک زاد ہ منظور کی خود نوشت رقص شرر زیر مطالعہ ہے آزادی اور اردو کو لیکر نئی نسل کے رویے کی مناسبت سے ایک خوبصورت اقتباس فیس بُک احباب کی خدمت میں۔۔۔۔
۔۔۔اس المیہ کا ماتم کہاں تک کیا جا ئے کہ ہماری نئی نسل آج ان مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں سے واقف بھی نہیں ہے ، جنھوں نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا ۔ واقفیت تو درکنار جو مسلم شخصیتیں آزادی کی لڑائی کی سر براہی کر رہی تھیں ، نئے دور کے رہبر ان اُن کے ناموں کا صحیح تلفظ بھی نہیں کر پاتے ۔ میں نے کسی زمانے میں ایک مرکزی وزیر سے عبد الکلام آزاد کا نام سنا ہے ۔ ایک دوسرے لیڈر نے رفیع احمد قدوائی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جب ان کے اکتسابات پر روشنی ڈالی تو ان فلموں کا تذکرہ بھی کیا جن میں انھوں نے گیت گائے تھے ۔ انھیں یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ رفیع احمد قدوائی اور محمد رفیع دو الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔ایک بار مرحوم عباس حسینی مدیر نکہت الہہ باد نے حسین ڈے میں ایک مقامی نیتا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مدعو کیا ۔ وہ تشریف لائے اور اپنی تقریر میں عباس حسینی کے مناقب و فضائل بیان کرنے شروع کئے اور کہا کہ حسینی صاحب نے اردو کی بڑی خدمت کی ہے نکہت اور جاسوسی دنیا نکالا ہے ۔ شاعروں اور ادیبوں کی سر پرستی کی ہے ۔ تقریر آگے بڑھ رہی تھی کہ کسی نے پیچھے سے ان کی شیروانی پکڑ کر ان کو متوجہ کیا اور کہا کہ یہ جلسہ حسینی صاحب کے لئے نہیں بلکہ امام حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہے جو کر بلا میں شہید ہوئے تھے ۔ مقرر نے فورا سامعین کی طرف رخ کیا اور کہا ساتھیو مجھے تو یہی معلوم تھا کہ حسینی صاحب نے اردو ادب کی بہت زیادہ خد مت کی ہے ۔ لیکن ابھی ابھی بھائی صاحب نے یہ بھی بتلایا کہ وہ کر بلا میں شہید بھی ہو چکے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ حال جب ہمارے اکابر کا ہے تو نئے دو ر کی تر تیب دی ہوئی تاریخ جس سے جان بوجھ کر مسلم مجاہدین ازادی کے ناموں کو حذف کیا جا رہا ہے ، ان سے نئی نسل کیسے واقف ہو سکتی ہے ۔۔۔۔
رقص شرر (خود نوشت)، ملک زادہ منظور، ص۔ 97۔ ۔