ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

جرس انذار

جرس انذار
محمد علم اللہ
اب کی گھر گیا تو ہمارے چچا محترم جو دیہات میں رہتے ہیں نے ایک بات کہی ، سوچا تھا اس کو بنیاد بنا کر ایک افسانہ لکھوں گا ، یا کوئی کالم ، مگر پتہ نہیں کب اس کی نوبت آتی ہے اس لئے من و عن ویسے ہی شیر کئے دیتا ہوں،پہلے چاچو کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں چھوٹا ناگپوری زبان میں :
"سے دِنوا پھلنوا گھر سوئت رہیئی ، رائت کے تین بجے نیند کُھل لئی ، تو کا دیکھلئی لا اوکر سب چھوین چھوٹ سے بڑ، ہپکُنیا سوئت کے موبائل میں ماتل ہتھِن ، بِہان ہم نماج پیڑھ کے آلیئی سے برا لے سب سوتل رہتِھن ، ایج کائل ہر گھر کر ایہے حال ہو ، کا ہوتئی جمانہ کر ۔۔۔۔۔۔"
ترجمہ :
" اُس دن اتفاقا فلاں کے گھر رکنا ہوا ، رات کو اچانک نیند کھلی ، تقریبا تین بج رہے ہونگے ۔کیا دیکھتا ہوں ، فلاں کے بچے ،چھوٹے سے لیکر بڑے، سبھی پیٹ کے بل سوئے ہوئے ہیں اور ان کی نظریں موبائل کے اسکرین پر مرکوز ہیں ، صبح میں بیدار ہوا اور نماز پڑھ کے واپس آیا ، تب تک اُس کے سارے بچے سو ہی رہے تھے ، میں سوچنے لگا یہ صرف اس گھر کا حال ہے ، یہ تو اجتماعی المیہ ہے ،کیا ہوگا ہمارا ۔۔۔۔۔۔۔"
کئی مرتبہ میں دیر گئے رات ضرورت کے تحت بھی جاگتا ہوں تو چاچا کی یہ بات جرس انذار کی طرح کان میں ٹن ٹن سنائی دیتی ہے ۔