اتوار، 15 ستمبر، 2013

مظفر نگر فساد:آنکھوں دیکھا حال

قیامت کے دن ہیں مصائب کی راتیں

محمد علم اللہ اصلاحی
کبھی کسی کی زبانی سنا تھا ’’فساد تو دراصل فروٹ ہوتا ہے اس سے پہلے کھاد ،پانی اور بیج بویا جاتا ہے نفرت ،تعصب ،ظلم اور بربریت کا ‘‘۔اس قول کی سچی تعبیر اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہم مغربی یوپی کے علاقہ مظفر نگر اور اس کے مضافات میں ہوئے فسادات کے بعد حالات کا جائزہ لینے کے لئے وہاں پہونچے۔پولس اور فورس کی بھاری نفری نے نقض امن کی دہائی دیکر ہمیں ان علاقوں میں جانے تو نہیں دیا جہاں یہ واردات انجام دی گئی تھیں۔مگر ہم نے متاثرین پر ہوئے ظلم و تشدد کی کہانی سننے اور حقیقی واقعہ کی تلاش کے لئے عارضی طور پر بنے کیمپوں کا رخ کیا اور وہیں بے یار و مددگار اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے متاثرین سے ملاقات کی۔
ریاست اترپردیش کے ضلع کاندھلہ ،شاملی اور باغپت جیسے ضلعوں کے مختلف مدرسوں ،اسکولوں، عید گاہوں و گھروں میں مقیم ایک لاکھ سے بھی زائد مہاجرین کی الگ الگ داستان اور الگ الگ واقعات تھے ،جنھیں سنتے ہوئے ہمارے دل لرز رہے تھے تو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے تھے۔یہیں معلوم ہوا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ان کی کربناک داستان الگ ہے جن میں ہزاروں لوگ قرب و جوار میں اپنے رشتے داروں کے یہاں چلے گئے ہیں۔یہاں پچاسوں ہزارسے بھی زائد کی تعداد میں اپنے جائداد ،لٹے پٹے گھر ،جانور اور اثاثہ کو کھو دینے والے مہاجرین کے چہرے سے خوف اور دہشت صاف عیاں تھی۔
کھلے آسمان تلے ان بے خانماں لوگوں میں کوئی اپنے بیٹے کو کھوچکا ہے تو کسی کی بیٹی غائب ہے ،کوئی عورت اپنے شوہر کے قتل کی روداد سناتے سناتے آنسووں کو ضبط نہیں کر پارہی تو کوئی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو کاندھا دینے کی دلخراش کہانی بیان کرتے کرتے رو پڑتا ہے۔کسی کا پورا اثاثہ لٹ گیا ہے ،کسی کے گھر کو آگ لگا دی گئی ہے تو کسی کے شیر خوار بچے کو چھین کر اس کے سامنے ہی قتل کر دیا گیاہے۔کسی کی ماں زخمی ہے تو کسی کا بھائی ہمیشہ کے لئے پاوں سے معذور ہو چکا ہے۔کتنے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی جوان بیٹیوں کو کھو دیا ہے یا انھیں بلوائی اغوا کر لے گئے ہیں۔
دہلی سولہ دسمبر 2012کے غیر انسانی واقعہ میں دامنی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس پر شنوائی کرتے ہوئے عدالت نے چار لوگوں کو پھانسی کی سزا دی ہے ، اس سے کہیں زیادہ شرمناک اور جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے واقعات اس علاقے میں ہماری بہت سی بہنوں کے ساتھ پیش آئے ہیں، یہ دونوں واقعات موازنہ کے قابل نہیں ہیں لیکن واقعاتی نوعیت پر حکومت کے اقدام کا موازنہ ضرور کیا جانا چاہیے، ایک موقع پر عالمی پیمانے پر حکومت کی ساکھ مجروح ہونے کا ڈر تھااس لیے تمام قانونی کارروائیاں عمل میں آگئیں،حکومت نے اخلاقی تقاضے بھی دھڑادھڑ پورے کرڈالے، دوسری طرف صرف اندرون ملک کا سماجی خلفشار ہے ، جو ہمیشہ سے حکومت کی غفلت شعاری کا شکار رہا ہے، اس واقعہ میں بھی سیاسی جماعتیں باہم جھگڑ رہی ہیں اور فساد کے مارے ہوئے لوگ عوام کے ذریعہ پہنچائی گئی مدد کے سہارے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔
مدرسہ اسلامیہ سلیمانیہ کاندھلہ کیمپ
سب سے پہلے ہم سلیمانیہ کاندھلہ مدرسہ اسلامیہ میں واقع کیمپ میں پہنچے۔جس کے ذمہ دارپوری دل جمعی سے پناہ گزینوں کی خدمت کر رہے ہیں۔یہاں تقریبا ساڑھے سات ہزار مہاجرین قیام پذیر ہیں ،اس کیمپ میں زیادہ تر لساڑ گاوں ،نثار گنج ،پھگانہ ،دھوبیان جیسے دیہی علاقوں کے افراد تھے۔اس کیمپ کی دیکھ ریکھ اور دیگر ذمہ داریاں انجام دینے والے مولانا نور الحسن راشد کا کہنا تھا: ’’پورے علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 60ہزار سے بھی زائد مہاجرین اس طرح کے کیمپوں میں ہیں ،مرنے والوں کی تعداد حکومت کے مطابق 48ہے تاہم ہمارا کہنا ہے کہ یہ تعداد بھی دو سو سے کم نہیں ہے۔بعض خاندانوں کے تو پانچ اور بعضوں کے دس دس افراد کو بلوائیوں نے یا تو قتل کر دیا یا زندہ جلا دیاہے۔20سے زائد لڑکیاں غائب ہیں۔لوگوں کے اندر خوف و ہراس اس قدر ہے کہ وہ پولس اور فورس کی موجودگی میں بھی اپنے گھروں کو واپس جانا نہیں چاہ رہے ہیں۔بہت سارے مسلم نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے ،گھراور مسجدیں مسمار کر دی گئی ہیں اور لاش و دیگر شواہد کو مٹانے کے لئے اس کے راکھ تک کو ندی میں بہا دیا گیا ہے۔مکانات جس طرح سے گرائے گئے ہیں وہ ایسا نہیں ہے کہ اچانک ہو گیا بلکہ وہ منظم سازش کا مظہر ہے ،جس میں دھماکہ خیز اشیاء کے علاوہ کچھ خاص قسم کے کیمیکل بھی استعمال کئے گئے ہیں۔سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی اس قسم کے حادثات وقوع پذیر نہیں ہوئے،حتی کہ تقسیم ہند کے بعد بھی جب پورا ملک خاک و خون میں لتھڑ گیا تھا ‘‘۔
یہاں گوکہ ملی تنظیموں کی جانب سے ہیلتھ سینٹر ، اشیائے خوردونوش اور دیگر عام ضروریات زندگی کا نظم کیا گیا ہے لیکن حالات بہر حال نا گفتہ بہ ہیں۔ایک ایک خیمہ میں ہزاروں خواتین ایک ساتھ اور اسی طرح مردوں کے خیمہ میں ہزاروں مرد ایک ساتھ سونے پر مجبور ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر کھیلنے اور اسکول جانے کی ہے ہجرت کی زندگی گذار رہے ہیں۔یہاں پر ہم نے مختلف متاثرین سے ملاقات بھی کی جنھوں نے ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔نثار گنج کے محمد طیب (30)کہتے ہیں ’’سات ستمبر کو کوال میں پنچایت ہوئی اسی کے بعد حالات خراب ہوئے ،سب سے پہلے گاوں کے ہی انصاری لڑکے کو جاٹ لڑکوں نے مارا۔کئی جگہ اس طرح کی واردات سننے میں آ رہی تھیں اور لوگ گھروں کو چھوڑ کر جانے لگے تھے۔ہم نے بھی لڑکیوں اور خواتین کو محفوظ مقام میں پہنچانا شروع کر دیا لیکن راستہ میں جاٹوں کے کھیت میں چار سو سے بھی زائد ہندو اکٹھا ہو گئے اور انھوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔کسی طرح ہم لوگ فورس کی مدد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن ہماری بہت ساری خواتین اور لڑکے چھوٹ گئے اوروہ غائب ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔‘‘
اسی گاؤں کے ایک اور متاثر محمد خالد 25سال کا کہنا تھا: ’’ہم سب سے بعد میں آئے۔مختلف شر پسند عناصر کی جانب سے سی ڈی( CD)کی تقسیم کے بعد جس میں کچھ لوگوں کو مبینہ طور پر دکھایا گیا تھا کہ مسلمان ہندؤوں کو مار رہے ہیں۔ان کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے لوگ جو مر گئے ہیں ان کا بدلہ لیا جائے۔سب سے پہلے ہمارے مکان سے آگ لگائی گئی۔آگ لگانے والوں کے ہاتھ میں پٹرول اور خطرناک ہتھیار تھے۔وہ ڈھول اور باجے کے ساتھ آتے تھے اور آگ لگاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔آگے آگے پولس تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر رہی تھی۔ہم لوگوں نے گنے کے کھیت میں چھپ کر کسی طرح اپنی جان بچائی۔‘‘
اسی کیمپ میں مقیم 40سالہ لساڑ گاوں کے ستارہ مسجد کے امام جمیل احمد کا کہنا تھا: ’’ ہمارے گاوں میں تین سو کے قریب مسلمان گھرانے ہیں ،کوئی بھی نوکری والا نہیں ہے۔جس وقت واردات ہوئی میں جان بچا کر بھاگ رہا تھا۔ میرے سامنے میرے چچا کو ان لوگوں نے قتل کر دیا۔اتوار کا دن تھا آٹھ ستمبر ہمارے چچا، جن کا نام سکھن تھا کو انھوں نے گنڈاسے اور تبلہ سے مار دیا۔حملہ آوروں کے پاس تلوار ،گڑاسا ،بندوق اور رائفلیں تھیں۔انھوں نے مسجد کو بھی آگ لگا دی ،جس میں خاصی تعداد میں قرآن مجید اوردوسری بہت سی چیزیں جل کر راکھ ہو گئیں۔میں نے کھیتوں میں گھس کر جان بچائی اور ندی پار کرکے کاندھلہ پہنچا ‘‘۔
محمد سلیم 44 سال پھگانہ محلہ چھوٹی مسجد دھوبیان کا کہنا تھا ’’آٹھ ستمبر کی صبح کو جاٹ آئے ،جو بھاگ سکے وہ بھاگے۔عورتوں کو انھوں نے زخمی کیا ،کئی کو مار ڈالا۔عمر علی حاجی کی ماں اور ان کے لڑکے اور بھائی کو بری طرح چاقو سے مار کر زخمی کر دیا۔آس محمد نام کے ایک نوجوان کو قتل کر دیا۔اس کی وہ ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس ہے جب وہ ڈاکٹر اور دیگر افراد کو رو رو کر بتا رہا ہے کہ کس طرح اس کے ہاتھ اور پاوں کو کاٹ دیا گیا۔ان تمام واقعات کی اطلاع کے لئے جب ہم نے ایس او کو فون کیا تو انھوں نے فون کاٹ دیا ،میرے سامنے دو لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔لیکن میں کچھ بھی نہیں کر سکا ،اس لئے کہ وہ پوری طرح ہتھیار سے لیس تھے ‘‘۔
مدرسہ اسلامیہ رفیقیہ ریاض العلوم جوگیا کھیڑا
اس کیمپ میں بھی پانچ ہزار کے قریب افراد قیام پذیر ہیں ،یہاں زیادہ تر پھگانہ ،ہڑد ،کھیڑا ،ستان ،شد ناولی ،ٹکری ،ڈونگر ،وغیرہ جیسے گاؤں کے افراد تھے۔لوگوں کے بقول حکومت کے ذمہ داران نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے کھانے پینے ،رہنے سہنے اور ہر قسم کی ضرورتوں کا انتظام کرایا جائے گا ،لیکن فی الحال حکومت کی جانب سے کوئی خاص اقدام نہیں ہوا ہے۔زیادہ تر لوگ نا خواندہ اور کم پڑھے لکھے ہیں۔اس لئے ابھی تک انھوں نے اپنے اوپر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو گئی اور ہر ایک اپنی داستان سنانے کے لئے بے تاب ہو گیا۔اس کیمپ میں اسی سالہ بزرگ سے لیکر 15دن کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی موجود تھے۔
اس کیمپ میں مقیم پھگانہ کی ایک خاتون فاطمہ 35سال کا کہنا تھا :’’بلوائیوں نے انھیں ننگا کر کے آبروریزی کی کوشش کی ،وہ برہنگی کی حالت میں بھاگ کر پولس اسٹیشن آئی جہاں انھیں کپڑا دیا دیا گیا اور اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔جلدی میں اور جان بچانے کے چکر میں ان کی تین سالہ بھتیجی بھی چھوٹ گئی جس کا کچھ پتہ نہیں ہے۔فسادی جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے اور ڈھول بجاتے ہوئے حملہ کے لئے آئے تھے۔،ان لوگوں نے ہمارے کتنے لوگوں کو مارا پتہ نہیں ‘‘۔
پھگانہ کے حاجی مان علی ولد فتح دین( 55سال) کا کہنا تھا :’’ کئی دن پہلے سے مودی کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے تھے۔گاوں کے پردھان نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔پردھان ہمیں یہ کہہ کر گیا تھا کہ آج کے دن نوجوانوں میں ذرا آکروش ہے تو اگر وہ کچھ کہہ بھی دیں تو اس کا جواب نہ دیں۔ہم لوگوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد انھوں نے حملہ کر دیا۔وہ بلم اور تلوار لئے ہوئے تھے۔انھوں نے میرے لڑکے کو گنڈاسا سے مار کر زخمی کر دیا۔اسلام نامی ایک ستر سالہ بزرگ کو میرے سامنے قتل کر ڈالا۔ہم اپنی جان بچانے کے لئے گھر وں کے چھتوں میں چڑھ گئے اور وہاں اینٹیں بھی جمع کر لیں۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم انھیں اینٹوں سے حملہ کریں گے اگر وہ ہماری جانب آنے کی کوشش کریں گے۔بچوں کو ہم نے حوصلہ دلایا کہ ڈرو نہیں ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں اور سچ مچ جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔اس کے بعد ہم نے تھانہ فون کیا لیکن فون ریسیو نہیں کیا گیا۔شام کو سات گھنٹہ بعد فورس آئی اور پھر چھت میں سے جہاں 300افراد جمع تھے ہمیں یہاں منتقل کیا۔اب ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔بھینس اور جانور کھول کر لے گئے۔ کچھ نہیں بچا ہم لٹ گئے ‘‘۔
اسی گاوں کے گلفام (30سال) کا کہنا تھا ’’ہم ہمت کر کے چار دن بعد اپنی بھینیسوں کو لانے گئے اور 6بھینسوں کو لانے میں کامیاب ہوئے ان لوگوں نے بہت سارے جانور ہمارے چرا لئے۔گاوں میں ایک بڑا مدرسہ تھا۔اس کو بھی پوری طرح لوٹ لیا۔اس میں تعمیراتی کام بھی جاری تھا۔عطیہ کی رقم بھی کافی مقدار میں اکٹھا تھی وہ سب لوٹ کر لے گئے۔مسجدوں میں بھگوا جھنڈا گاڑ دیا گیا ہے۔پتہ چلا کہ ہمارے بہت سے جانور وہ لوگ کاٹ کر کھا گئے اور بھی لوگوں کے جانور وہاں بندھے ہوئے تھے ،کئی دنوں سے انھیں کھانا پانی اور چارہ نہیں دیا گیا ہے وہ ویسے ہی وہاں پر بندھے پڑے ہیں اگر ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی تو سب مر جائیں گے ،کئی بچھڑے اور گائیں تو مرچکی ہیں۔‘‘
جولا گاؤں کا کیمپ
یہاں باضابطہ خیمہ گاڑ کر کیمپ نہیں بنایا گیا ہے ،لیکن بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کے گھروں میں مقیم ہیں۔یہاں بھی پانچ ہزار لوگ مقیم ہیں۔کسی کے یہاں دو سو لوگوں کے رہنے کا عارضی انتظام کیا گیا ہے تو کسی کے یہاں ڈیڑھ سو۔بہت سارے خاندان ٹکڑیوں کی صورت میں مختلف لوگوں نے مہمان بنا لئے ہیں ،یہاں بھی زخمی اور بے یار و مددگار اور عزیزوں اور پیاروں کو کھو دینے والے افراد کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام کیا ہے۔یہاں کے مقامی مدرسہ میں ریلیف کا سامان رکھا ہواہے جہاں سے ضرورت مندوں کو سپلائی کیا جا رہا ہے ،ایک اور مدرسہ میں طعام کا انتظام کیا گیا ہے۔یہاں لاکھ گاؤں، باوڑی ،لساڑ اور ڈونگر جیسے علاقوں کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
یہاں حاجی مہدی کے یہاں مقیم 120لوگوں میں سے لاکھ کی رہنے والی ایک 60سالہ رئیسہ خاتون کا کہنا تھا: ’’ 8ستمبر کو صبح کا وقت تھا۔وہ لوگ بڑے بڑے لاٹھی، ڈنڈا اور بلم و چاقو لے کر گاؤں میں گھس گئے ،وہ زور زور سے چلا رہے تھے۔ ساتھ میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور ڈھول و باجا بھی پیٹ رہے تھے۔جب ہم نے انھیں دیکھا تو ہم بیت الخلاء میں چھپ گئے۔انھوں نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے دیور اور شوہر کو مار ڈالا۔میرے دیور کا نام پونی (40)تھا اور شوہر کا نام قاسم (62)۔ہم تو ڈر کے مارے وہاں سے نکلے ہی نہیں۔بعد میں جولا گاوں کے لوگ فورس کے ساتھ آئے اور ہمیں نکال کریہاں لائے ‘‘۔
یہیں مستری مانگی کے یہاں مقیم 137لوگوں میں سے ایک اقبال( 41سال )جس نے اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو کھو دیا کا کہنا تھا :’’۔انھوں نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا۔میرے گھر کو آگ لگا دی ،سارا اثاثہ لوٹ کر لے گئے ،ہم کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔میری امی 75سال کی ہے انھیں بھی ان لوگوں نے سر میں مار کر زخمی کر دیا۔گنڈاسے سے مار کر پیٹھ کو زخمی کر دیا اور آگ لگا کر بھاگ گئے۔اقبال کی والدہ رمضانو سے ہم نے ملاقات کی۔وہ بستر پر پڑی تھی اور آس پاس عیادت کرنے والی خواتین کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ان کا پچھلا حصہ پوری طرح جلا ہوا تھا ،سر پر پٹی تھی اور پشت پر بینڈیج لگا تھا۔
کینوال کیمپ :
شفیق الپٹی نامی گاؤں میں ایک وسیع و عریض سرکاری قطعہ اراضی پر تھوڑے تھوڑے سے فاصلہ پر کئی خیمے لگے ہوئے ہیں ۔وہ خواتین جو کل تک اپنے اپنی گھروں میں ہنسی خوشی زندگی گذار رہی تھیں،یہاں دھوپ کی شدت اور بارش میں ٹپکتے پانی کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور تھے ۔اس کیمپ کے ٓرگنائزر مولانا محمد داؤود اسعدی کے بقول :’’اس کیمپ میں تقریبا پانچ ہزار افراد مقیم ہیں کچھ اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں پھر بھی روزانہ یہاں 300سے زائد لوگوں کا کھانا بنایا جا رہا ہے ۔یہاں 29گاوں کے لوگ ہیں ۔
اس کیمپ میں مقیم ایک بزرگ محمد یوسف 50سال کا کہنا تھا :رات کو پتھرا�ؤکیا گیا ،ہمارے گاؤں سے کسی کے مرنے کی اطلاع تو نہیں ہے لیکن رات بھر بلوائی گالم گلوچ ااور دلوں کو دہلا دینے والے نعرے لگاتے رہے ۔ہم سے کہا گیا کہ اگر یہاں رہنا ہے تو سارے مسلمانوں والے اعمال کرنا چھوڑ دو ،داڑھی کٹوا لو اور ہم جیسا کہیں ویسا ہی کرو نہیں تو ہم تم لوگوں کو مزا چکھا دیں گے ۔ہم بہت ڈر گئے تھے ،دروازہ بند کر لیا تھا ،کئی دنوں تک ہم گھر میں بند رہے 7ستمبر کو فورس آئی اور ہمیں شکار پوئی چھوڑ گئی اور وہاں سے ہم کیمپ میں آ گئے ‘‘
یہیں تنگائی گاؤں کی ایک خاتون جنھوں نے اپنا نام حسینہ بتایا عمر پوچھنے پر ذہن پر ذرا زور دیتے ہوئے 60بتایا ،کہنے لگیں :پہلے تو ان لوگوں نے فساد ہونے سے بھی پہلے ہمارے گاوں میں مسجد کے امام حاجی علی حسن کے اوپر غلط الزام لگا کر انھیں جیل بھیجوا دیا اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر آئے تو ان کے اوپر حملہ کی کوشش کی گئی ،انھیں مارا پیٹا گیا ،ہماری مسجد جسے ستارہ مسجد کہتے ہیں میں خنزیر کا گوشت رکھ دیا ۔ہماری جانب سے احتجاج کیا گیا تو پورے گاوں کو تباہ و برباد کر دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ہمارے کئی جانوروں کو ان لوگوں نے زہر دے کرمار دیا ،ہم اس گاوں میں صرف 30سے 40گھر ہیں ۔ہم واپس نہیں جا سکتے چاہے یہیں ہماری موت کیوں نہ آ جائے ۔
لوئی گاوں کا کیمپ :
یہاں بھی بقول یہاں کے پردھان مہربان علی کے پانچ ہزار سے زائد افراد مقیم ہیں وہ کرودا ،نرپڑا ،بڑہل ،باوڑی دہا اور دوسرے گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ تو رہنے کا کوئی بندو بست ہے اور نا ہی کوئی مناسب ہیلتھ سینٹر اور دیگر سہولیات کا انتظام جس کے سبب کئی بچوں کی موت ہو چکی ہے۔کئی ایک شدید طور پر زخمی ہیں ،جن کا مناسب علاج ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔یہاں بھی زیادہ تر لوگ ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے افراد ہیں۔لوگوں کی آمد کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ،اور یہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے رہنے سہنے اور دیگر ضروریات کا انتظام کرانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔حکومت کی جانب سے محض امید اور دلاسا دلایا جا رہا ہے۔لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر جو کچھ ہو سکا ہے کیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اورمتعدد کیمپ ہیں لیکن چونکہ رات کافی ہو گئی تھی اور ہمیں دہلی واپس بھی آنا تھا اس لئے ہم ان جگہوں کا دورہ نہیں کر سکے اور یوں ہمیں اس خواہش کے باوجود کے اور بھی لوگوں سے ملاقات کرتے انھیں حوصلہ دلاتے اور دکھ درد میں شریک ہوتے وقت نہ ہونے کے سبب واپس لوٹنا پڑا۔واضح رہے کہ ہمارا یہ دورہ مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں تھا جن کے ساتھ مشاورت کے رکن مرکزی عاملہ نوید حامد ،ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے اخلاق احمد کے علاوہ کئی سماجی کارکنان بھی شامل تھے۔اس وفد نے پرانی دہلی کے عوام اور مقتدر طبقہ کی جانب سے عطیہ کی شکل میں دئے گئے کپڑے ،چادریں اور ضروری سامان بھی متاثرین کے درمیان تقسیم کئے۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور نوید حامد نے تفصیل سے متاثرین کی بات سنی، انھیں دلاسا دیا اور اعلی ذمہ داران تک ان کی بات پہنچانے و انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔
عمومی تاثرات
لوگ ابھی بھی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔زیادہ تر لوگ ان پڑھ ،ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے انھیں اپنے حقوق کے لئے لڑنے حتی کہ ایف آئی آر کس طرح سے درج کرائی جائے یا کیسے لکھی جائے معلوم نہیں ہے۔پولس اور دیگر منتظمین کا رویہ متعصبانہ ہے اور وہ حقیقت حال نہ تو جاننا چاہ رہے ہیں اور نہ ہی مجرمین کو کوئی سزا دینا ،بلکہ بعض جگہوں پر جیسا کہ متاثرین نے بتایا ،حکومتی ذمہ داران نے جان بوجھ کر لوگوں کو ڈھیل دی کہ مسلمانوں پر حملہ کیا جائے اور ان کے جان و مال کو لوٹا جائے۔اس بابت پھگانہ سے شروع ہونے والے ایس او علاقہ کے اوم بی سروہی کے کر دار پر لوگوں نے سوالیہ نشان کھڑے کئے۔اسی طرح لوگوں نے ہریش چندر جوشی کاندھلہ کے موجودہ ایس او کی کافی تعریف بھی کی اور کہا کہ ان کا کر دار اس معاملہ میں مثبت رہا۔جہاں پر واردات ہوئی ہیں حکومت کی جانب سے سروے اور دیگر احکام جاری ہونے کے بعد بھی پولس کی جانب سے شواہد کے مٹانے کا کام پڑے پیمانہ پر جاری ہے۔ فساد شروع ہونے سے پہلے پولیس نے مسلم گھروں سے ان کے روزمرہ کے استعمال کے اشیاء بلم، گنڈاسے اور چاقو وغیرہ ، جو ان کے دفاع میں کام آسکتے تھے، جمع کرالئے ،جب کہ باہر سے اسلحے وغیرہ لاکر فسادی عناصر میں تقسیم کئے گئے۔بعض معمر لوگ اور بچے ابھی تک مخدوش گاؤوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ پانی۔ پولیس ان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں مدد نہیں کررہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگرتوجہ نہ دی گئی تو ان میں سے کچھ کمزور لوگ مرگئے ہوں گے یا عنقریب مر جائیں گے۔ جہاں مسلم اکثریت میں ہیں ان علاقوں سے بعض ہندو بھی احتیاطاً بھاگے لیکن مسلمانوں نے ان کی حفاظت کی اور کہیں بھی ان کے خلاف کوئی واردات انجام دینے کی خبریں نہیں ملیں۔کافی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہے۔وہ کہاں ہیں کس حالت میں ہیں کسی کو علم نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام طرح کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک کوئی مثبت رویہ سامنے نہیں آیا ہے۔
مجھ پر کیا گذری :
سچ مچ ان تمام حالات اور واقعات کو دیکھنے کے بعد مجھ پر کیا گذری میں اسے بیان نہیں کر سکتا ،کئی جگہ میری آنکھیں بھر آئیں ۔ہم صحافی لوگ روزانہ کسی نہ کسی معاملے میں کسی کے مرنے کی خبر سنتے ہیں اور اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہیں سڑک حادثہ ،تو کہیں قتل کہیں لڑائی جھگڑا ،وہاں پر ہمارے لئے صرف اور صرف خبر کی اہمیت ہوتی ہے اگر ہم ان میں جذبات کو حاوی ہونے دیں تو شاید ایک سطر بھی نہ لکھ سکیں ۔لیکن یہاں کا منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے ،میں اپنے آنسووں کو روک نہیں پایا ۔انھیں تسلی کیا دیتا یہاں تو خود اپنی حالت ہی غیر تھی ۔شاید اسی وجہ سے واپسی کے موقع سے ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب جن کی معیت میں مجھے جانا نصیب ہوا تھا سے میں نے کہہ ہی دیا کہ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد تو جینے کی جیسے تمنا ہی ختم ہو جاتی ہے ،اس سے بہتر تو مر جانا ہے ،ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا اور کافی دیر تک مجھے سمجھاتے رہے ،کہنے لگے’’ اسی معاشرے کو تو بدلنا ہے اپنی فکر سے اپنے علم سے۔۔۔ ‘‘ ۔
فساد زدہ علاقوں سے لوٹنے کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ایسا لگ رہا ہے جیسے الفاظ ہی ختم ہو گئے ۔میں دیکھ رہا ہوں سڑک کے دونوں جانب لہلہاتے ہرے بھرے کھیت ہیں لیکن ان میں بھی اداسی چھائی ہوئی ،پتہ نہیں قدرت کے ان کرشمہ سازیوں کو دیکھنے کے بعد دل میں جو سرور اور طمانیت نصیب ہوتی ہے آج مجھے وہ بالکل بھی نظر نہیں آ رہا ہے ۔ایک ہو اور سناٹے کا عالم ہے ۔میں اپنے دوست اویس سلطان خان سے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں ’’یہ نظروں کا پھیر ہے‘‘،ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن پتہ نہیں مجھے تو بڑی بے چینی ہو رہی ہے اور مجھے ہر کوئی بے قرار اور آبدیدہ نظر آ رہا ہے ۔
میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جس کے ذریعہ میں اپنی ماوں اور بہنوں کے درد اور کرب کو بیان کر سکوں ،میرے اندر اتنی ہمت ہی نہیں کہ میں ان بوڑھے بزرگ اور لاٹھی ٹیکتے ضعیف العمرلوگوں کی کہانی کو لفظوں کا روپ دے سکوں ،ان معصوم بچوں کی ان کہی کہانیوں کو لکھ سکوں جو وقت سے پہلے ،مستقبل سے بے خبر یتیم ہو گئے ۔معروف جرمن شاعر اور ادیب رائندر ماریہ رلکے نے اپنے شاگرد صحافی فرانز ژاور کاپس کو ایک خط میں لکھا تھا’’ اگر زندگی کی حقیقتوں کو بیان نہیں کر سکتے ،معاشرے کی عکاسی نہیں کر سکتے تو تم سمجھ لو کہ ایک اچھا تخلیق کار نہیں بن سکتے ،تمہیں لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘اگر ماریہ رلکے کہ اس حقیقت پسندانہ بیان کو دیکھا جائے تو مجھ جیسے مبتدی قلم کار کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔لیکن اس کے باوجود میں نے اسے اس لئے لکھنے کی کوشش کی ہے کہ آنے والے دنوں کے لئے سند رہے ۔مجھے پتہ ہے اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے پھر بھی نے اسے اس لئے لکھا کہ ہمارا ۱قومی ذرائع ابلاغ اور خود اردو اخبارات جو ہمیشہ اور ہر آن قوم کی قصیدہ خوانی کا گن گاتے اور آواز اٹھانے کا دم بھرتے ہیں اتنے بڑے حادثہ کو بیان کرنے میں لگی لپٹی سے کام لیتے رہے ۔اللہ ان سب کو سمجھ عطا کرے، کہنے والے اس کو عصبیت کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں، تو کچھ سیاسی بازی گری کا نتیجہ ،لیکن میں کیا کہوں مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔


۔۔۔مزید

منگل، 10 ستمبر، 2013

دہشت گردی کے انتہائی وسائل حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار


محمد علم اللہ اصلاحی
انسانی سماج کے لئے نہ تو جنگ نیا لفظ ہے اور نہ دہشت گردی۔ انسانی معاشرہ کے آغاز سے آج تلک اور مختلف تہذیبوں کی ترقی سے تباہی کے صفحات پر ان کی مہر لگی صاف دکھائی دیتی ہے۔ انسانیت، محبت، امن اور خدا پر ایمان و یقین رکھنے والے افراد اور ان کے سرگروہان کی اس سلسلہ میں کارگزاری بھی کوئی خیر پہ مبنی نہیں ہے۔رہے وہ،جن کا کوئی مذہب ہی نہیں.... ان کی بات ہی الگ ہے، انہوں نے اپنے اپنے ازم کی تبلیغ اورفکر و فلسفہ کی ترویج کے لئے وقتاً فوقتاً اس لعنت کا سہارا لینے سے گریز نہیں کیاہے اور نہ کر رہے ہیں۔اس کی تازہ مثال شام میں ظالموں کے ذریعہ کیمیائی گیس سے سینکڑوں لوگوں کا جابرانہ اور وحشیانہ قتل ہے۔اس بارے میں ابھی تک اس بات کا انکشاف ہی نہیں ہو سکا ہے کہ حقیقت میں یہ حملہ کیا کس نے!!محض اٹکل کے تیر چلائے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ جا ری ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بابت یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حقیقت کے ادراک کے باوجود بھی انجام کار کوئی مثبت چیز سامنے لائے شاید ہی ہی ممکن ہے ،کیونکہ کہ یہ سارا کا سارااپنے مفاد اور محض اپنے مقصد کی حصولیابی کی خاطر ہوا ہے۔
اور اسمیں کوئی شک نہیں کہ ایسے نام نہاد فتح و کامرانی کی ہوس اور خواہشِ اقتدار نے انسانوں کو ہر دور میں جنگ کے نئے نئے وسائل کی تلاش میں لگائے رکھا ہے۔اوراسی سبب جسمانی جنگ، مہارت میں کارکردگی، تیر، تفنگ ، تلوار، برچھی ، گولی ، بندوق،توپ ، بارود، بم وغیرہ کی حدیں پار کرتے ہوئے آج انسان کیمیائی ہتھیاروں اور میزائل کے ذخیرے پر کھڑا نہ صرف خود اپنی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے، بلکہ نسل انسانی کی تباہی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے اب تباہ کن حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ایسے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار جن کی مدد سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو پل بھر میں موت کی نیند سلایا جا سکتا ہے یا پھر طرح طرح کی بیماریوں کی زد میں لا کر سسک سسک کرجینے مرنے کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔جب تک لوگوں کو اس قسم کے حملے کی معلومات ہوگی تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔مجھے حیرت تو سب سے زیادہ اس بات کی ہے کہ جو قوم ان کی تلاش میں سب سے آگے آگے دوڑ رہی ہے وہی آج اس سے سب سے زیادہ ڈری اور سہمی ہوئی ہے اور اس کے لئے کہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں، تو کہیں انسانیت کے تحفظ کا ریاکارانہ سہارا لے کرمعصوموں کا بے دریغ قتل کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہے۔انھیں خوف ہے کہ کوئی نام نہاد غیر ذمہ دار حکومت یا دہشت گرد گروہ ایسے ہتھیاروں کو نہ تیار کر لے یا کہیں سے انہیں قبضہ میں نہ لے لے۔اوریوں ان کےاپنے خاص مقصد اور ایجنڈہ کو زک پہنچے۔
قانون کی دھجیاں کس نے اڑائیں:
اس سلسلہ میں ماضی قریب جسے پوری انسانی عہد میں سب سے زیادہ پر امن ،تعلیم اور ترقی یافتہ گردان کر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ،سب سے زیادہ تباہی اسی عہد میں ہوئی ہے۔اور اس بابت جو سب سے زیادہ خود کو امن کا نقیب ثابت کرنے اور مسیحائی کا گن گانے کی بات کر رہا ہے نے انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔چنانچہ اس بارے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ خلیج کی جنگ کے وقت امریکہ جیسی سپر پاور کو عراق کے نام نہاد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ڈر سب سے زیادہ ستا رہا تھا ،کیونکہ ان کی خفیہ نظام کی معلومات کے مطابق عراق نے ایسے ہتھیاروں کے سلسلے میں وسیع تحقیق کی تھی اور ان کو بڑی مقدار میں جمع کر رکھا تھا۔ تاہم اس جنگ میں ان کا خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔اسی معاملہ کو لے کر ایران اور بعض دوسرے ممالک کو بھی دھمکیاں دی جاتی رہتی ہیں۔اور یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل مسلم ہے کہ 2009 میں مبینہ طور پر 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا خوف امریکہ کوزیادہ ستانے لگاہے۔ اس کو سب سے بڑا ڈر عراق جیسے ممالک سے تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ یہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کو ایسے ہتھیار بھی دے سکتا ہے یا پھر خود اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔اسی خوف کی وجہ سے عراق پر حملہ بھی کیا گیا اور ایسے ہتھیاروں کی تلاش وہاں آج بھی چل رہی ہے، جس میں فی الحال کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔
ان تباہ کن تمام صورتحال کو دیکھ اور سن کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہتھیارکیا ہیں ، یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ اور لوگ ان سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں ؟یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اس کے باوجود اس کا استعمال دھڑلے سے کیوں ہو رہا ہے ؟اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ عظیم میں مو ¿ثر طور پر کیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات براہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوزکو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور ہوا کے رخ کے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس گیس کی خوفناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لئے ایک معاہدے پر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے دستخط کئے۔ پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قواعد و قوانین کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرزسے بھلا کون ناواقف ہوگا؟
تاریخی حوادث اور اس کے اثرات :
آج کل سائنسدان کیڑے مارنے والے ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم ہندوستان میں بھوپال گیس حادثہ سے،جہاں یونین کاربائڈ پیسٹی سائیڈز یعنی کرم کش ( کیڑے مار ادویات بنانے والی فیکٹری ) میں حادثہ کی صورت میں 2 دسمبر 1984 کے دن ٹاکسک اور بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا کے ذریعہ کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئیں اور لاکھوں افراد آج بھی اس کے اثرات کو جھیل رہے ہیں۔یعنی پیدائشی طور پر بچوں کا معذور پیدا ہونا یا ایسی بیماریوں کی گرفت میں آ جانا جس کی دوائیں بھی عموما دستیاب نہیں ہیں سے لگا سکتے ہیں۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر 1995 میں ”مسنر و “نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر میں اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس کا رساو ¿کر کے ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لئے شاید ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔فی زمانہ ہتھیاروں کے معاملے میں تکنیکی ترقی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جہاں انسانیت کے خلاف عمل کرنے والے لوگوں کو تازہ ترین ہتھیار قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ بربادی اور دہشت پھیلا سکتے ہیں اور پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اب تک وسیع قتل عام والے ہتھیاروں کی پیداوارکے ذخیرہ اور استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ اگرچہ بعض ممالک نے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے قوانین کے لئے قرارداد بھی منظور کی ہوئی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی طرح کی کانفرنسیں کی گئیں ،لیکن ان کا نتیجہ بھی سب پر واضح ہے۔
کون کتنا آگے:
 تحقیقات کے مطابق 1985 میں 68،000 اعلی خطرناک ہتھیار تھے ، جن میں سے کچھ یعنی 4،100 فعال ایٹمی ہتھیاراب بھی ہیں اور 2013 ءتک پوری دنیا میں 17،000 کل ایٹمی ہتھیار اب موجود ہیں۔ ان میں امریکہ کے پاس سب سے زیادہ2,150 / 7,700 ہتھیار ہیں جبکہ روس کے پاس 1,800 / 8,500، فرانس کے پاس 290 / 250،برطانیہ کے پاس 160 / 225،چین کے پاس 250، ہندوستان کے پاس 65 اور پاکستان کے پاس 25 جوہری ہتھیار ہیں۔ ان سب کے علاوہ دنیا کے 80 ممالک نے وسیع قتل عام والے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ امریکہ نے 1200 سے زیادہ جوہری ٹیسٹ کیے ہیں تو روس نے تقریبا 1000، برطانیہ نے تقریبا 45، فرانس نے 210، چین نے 50 اور ہندوستان نے تقریبا 10 جوہری تجربے کیے ہیں۔ پاکستان نے بھی تقریبا 10 کے آس پاس جوہری ٹیسٹ کیے ہیں، ایران، عراق، شمالی کوریا جنوبی کوریا اور لیبیا نے بھی رپورٹ کے مطابق ایٹمی ہتھیار پروگرام چلا رکھے ہیں۔ یہی بات اسرائیل کے تناظر میں بھی کہی جا رہی ہے بلکہ اس نے تو تمام حدود کو پار کر دیا ہے۔
کتنے خطرناک ہیں یہ :
لیکن انسانیت کے لئے اس کی زہر ناکی اور خطرناکی کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔حالانکہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ حیاتیاتی کیمیائی عناصر جاندار کو جیسے ہی مس کرتے یا اس کے جسم میں داخل ہوتے ہیں ،اپنا عمل شروع کر دیتی ہے اور اس کا انجام آخر کار زندگی کاخاتمہ ہی ہوتا ہے۔یہ کس طرح عمل کرتی ہے اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ اولین صورت میں یہ عضلات کے معلومات کے نظام کی خلیات کے لئے "ایسی ٹل کولین " نامی کیمیکل کا اخراج کرتی ہیں۔ اور چونکہ پٹھوں کا بھی نظام کی ترسیل پر ہی انحصارہوتا ہے۔اس لئے اگر اعصابی نظام کے خلیات سے ایسی ٹل کولین کو نہ ہٹایا جائے تو ہمارے جسم کااعصابی نظام پورے طور سے مسلسل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اور اگر ایساسینہ اور پیٹ کو الگ کرنے والے ڈائی فرام کے پٹھوں کے ساتھ ہوا توانسان گھٹ کر مر جائے گا۔ایسی ٹل کولین کو اعصابی نظام کے خلیات سے دور کرنے کے لئے کولینسٹریز نامی اینزائم کی ضرورت پڑتی ہے۔جبکہ سیرین اور وی ایکس ' جیسی زہریلی گیسیں مندرجہ بالا اینزائم سے رد عمل کر کے ایسی ٹل کولین کو ہٹانے کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، نتیجہ میں مبتلا شخص کی موت کچھ ہی لمحات میں دم گھٹنے سے ہو جاتی ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں میں مندرجہ بالا گیسوں کی ایک ملی گرام کی مقدار ہی زندگی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔مسٹرڈ اور لیوسائٹ جیسی گیسوں کے ضمنی اثرات جلد پر چھالے اور پھیپھڑوں کے ٹشو کی تباہی کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔مسٹرڈ گیس کا استعمال تو پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی ہے۔ اس کی دس ملی گرام کی مقدار ہی موت کے لئے کافی ہے۔ ویسے تو بہت سے زہریلے کیمیکل ہیں جن کا غلط استعمال کیمیائی ہتھیاروں کے طور پر ہو سکتا ہے، لیکن مندرجہ بالا کیمیکل سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ زیادہ تر بیماریوں کی جڑ میں جراثیم ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اینٹی بایوٹکس اور اسی طرح کی دیگر ادویات کی تلاش سے پہلے طاعون اورہیضہ جیسی بیماریوں نے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں لی ہیں اور آج بھی انسان ایڈز،کینسراور سارس جیسی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے راستہ تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ دوسری طرف انسان انہیں بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں لاکھوں جانداروں کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے۔اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورتحال نیوکلئیر اور کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے کہیں زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گیری دکھا کراس کی افزائش میں لگی ہوئی ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟ظاہر ہے ایسے حملے کے لئے کسی جدیداسلحہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ کسی بھی ذریعہ سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذرائع کا کام کر رہا ہے۔ یہ اس عمل کا محض ایک مثال بھر ہے۔
تنویمی معمول  :
سائنسدان کھاد پر بھی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں جبکہ یہ ثابت شدہ ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلہ سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب یا پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو انجانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ اس قسم کے حملوں کے بعد ہم ایک نادیدہ دشمن کے رحم وکرم پہ ہوں گے ، جس کا نہ چہرہ ہو گا نہ شناخت....ایسے میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں تو کیسے؟ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتہ بھی کر لیں تو بھی کوئی بڑا فائدہ نہ ہو گا۔ یوں کبھی نہ ختم ہونے والا حادثوں کا سلسلہ شروع ہوگا ،اس لئے کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کرنے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بائٹک بھی کام نہیں کر پائیں گے۔ اور اس کی وجہ سے وہ ہوا ، جسے ہم سانس کے ذریعے اندر لے جاتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اوراس وقت تک شاید پورے انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی،حالانکہ یہ حیاتیاتی ہتھیار کے استعمال کا سب سے سستا لیکن بھونڈا طریقہ ہے۔
اب ذرا کچھ ایسی مثالوں پر توجہ دیتے ہیں جوحقیقی خطرہ ہیں اور لوگ جن سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔اینتھریکس(Anthrax) پھیلانے والے بیسلس اینتھریسس (Bacillus anthracis) نامی بیکٹیریا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بکٹریا متعدی نہیں ہے اور بنیادی طور پر جانوروں میں پھیلتا ہے، پھر بھی کھانے پینے سے سانس کے ساتھ اس کے جراثیم ہمارے جسم کے مسامات میں پہنچ کرجان لیواثابت ہو سکتے ہیں۔یہاں تک کہ ہماری جلد میں بھی اگر کوئی زخم ہے تو وہاں بھی یہ اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں اس بیماری کی جان لیوا علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آئے” سپورز“(Spores)سات سے دس دن کے اندداخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ بخار، کھانسی، سردرد، قے، سردی، کمزوری، پیٹ اور سینے میں درد، سانس لینے میں دقت وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں، جو کچھ گھنٹے سے لے کر کچھ دن تک رہتے ہیں۔ پھر یہ علامات کچھ وقت کے لئے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔ دوسری بار ان علامات سے سانس کی تکلیف، پسینے کے ساتھ بخار ....نیزجلد پر نیلے دھبے .....نتیجہ بالآخر موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
کھانے پینے کے ساتھ اینتھریکس کے اسپورز ہماری غذائی نالی میں پہنچ کرمتلی ، خونی قے، خونی اسہال، پیٹ درد وغیرہ کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ 25 سے 60 فیصد لوگوں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ جلد پر اس کا اثر چھوٹے چھوٹے دانوں کے طور پر نظر آتا ہے جو جلد ہی پھوڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے پانی کی طرح پیپ بہتی رہتی ہے۔ ابتدائی علامات کے وقت اس کی تشخیص " سپرو فلاکسیسین (Ciprofloxacin) نامی " اینٹی بایو ٹک " کے ذریعے سے کیا جا سکتی ہے لیکن بعد میں صرف اس " ببیکٹیریا " کو تباہ کیا جا سکتا ہے.....بیماری کو نہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل سے اس بیکٹریا کے ا سپورز کو پاوڈر کی شکل میں ڈاک کے ذریعہ سے پھیلانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی تھی ،جس سے امریکہ کے لوگ کافی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ اسمال پاکس جسے ہم چیچک کے نام سے بھی جانتے ہیں، صدیوں سے ایک جان لیوا بیماری کے طور میں بدنام رہی ہے۔ اس کی زد میں آکر لاکھوں لوگ اپنی جانسے ہاتھ دھو بیٹھے اور آنکھیں تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ لوگ گنوا چکے۔ کتنے ہی چہرے اور جسم پر مستقل خوفناک داغوں کے ساتھ بدصورتی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ویری ولا نامی وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے ویکسی نیشن کی مدد سے پوری دنیا کو نجات مل گئی۔ 1975 کے بعد اس بیماری کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا ہے پھر بھی لوگوں کو خوف ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد گروہ یا کوئی سرپھرا فوجی آمر اس وائرس کے کسی رد عمل کے طور پرجارحیت کا استعمال کسی حیاتیاتی ہتھیار کی مدد سے نہ کر دے۔
اسی طرح” ہیموریجک “(Hemorrhagic)بخار پیدا کرنے والا آر اے نئے قسم کا ابولا وائرس بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وائرس میں مبتلا مریض کی شناخت سب سے پہلے 1975 میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھی۔اس کی انفیکشن کے اثرات 2 سے 21 دنوں کے اندر نظر آتےہیں۔ بخار، سر درد، جوڑوں اور پٹھوں میں درد وغیرہ اس کی ابتدائی علامات ہیں. بعد میں دست، قے اور پیٹ درد کی علامات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں جلد پر ددورے، لال آنکھیں اور بیرونی اور اندرونی کمزوری وغیرہ علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بیماری سے کچھ مریض خود ٹھیک ہو جاتے ہیں توبہت سے مر بھی جاتے ہیں .....اور ایسے لاکھوں کیس موجود ہیں۔
”باٹیولن بیکٹیریا “(Botyulin bacteria)کے ذریعہ سے پیدا زہر کے ایک گرام کا اربواں حصہ ہی ہمارے جسم میں’ لقوہ ‘ اور فالج پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔یہ زہر اعصابی خلیوں سے ان کیمیکلز کا اخراج روک دیتا ہے جن کی طرف سے پٹھوں کا داخلہ ہوتا ہے۔ جانوروں میں منہ کھر بیماری پھیلانے والا ببیکٹیریا بھی حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، ان وسائل کا استعمال دہشت گرد سرگرمیوں، ہتھیاروں کے لئے تحقیق اور تعمیر پر خرچ کیا جا رہا ہے،جب کہ ان کا استعمال دوسرے مثبت کاموں میں کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد حملے نہ صرف زندگی چھینتے ہیں، بلکہ صحت،کی امید اور لوگوں کی توقعات کا بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ انفراسٹرکچر، رہن سہن اور رہائش، کھیت کھلیان، پل، ہسپتال اور باقی سہولیات کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔اس سے بنیادی ضروریا ت جیسے بجلی، پانی وغیرہ کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہیں۔ قابلِ کاشت زمین زہریلی ہو جاتی ہے، سڑکوں اور گلیوں میں بیریر لگا دیے جاتے ہیں اور لوگوں کی ان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
حیاتیاتی و کیمائی ہتھیار کا فرق:
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار بنیادی طور پر دو مختلف نوعیت کے ہتھیار ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیاروں میں ہمیشہ کسی جاندار فنگس، بیکٹیریا یا جاندار نما اجسام جیسے وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے دشمن کو ہلاک یا مفلوج کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کو چلانے کے بعد سے لے کر اس کے کارگر ثابت ہونے تک عموماً کچھ گھنٹوں سے کچھ دن لگتے ہیں یعنی ہتھیار کے چلائے جانے اور دشمن کی ہلاکت کے درمیان کچھ وقت حائل ہوتا ہے کیونکہ ان اجسام کو پلنے، بڑھنے اور پھر کام دکھانے میں وقت لگتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حیاتیاتی ہتھیار کا مقصد دشمن کو ہلاک کرنے سے زیادہ مفلوج کرنا ہوتا ہے تاکہ دشمن پر زیادہ سے زیادہ دھاک بٹھائی جا سکے۔ موجودہ دور میں یہ ہتھیار براہ راست انسان کو نقصان پہنچانے، فصلوں کی تباہی، زمین کی تباہی یا پھر مال مویشی کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کا اپنا اپنا طریقِ مبارزت ہوتا ہے جو اس میں استعمال ہونے والے ذریعے پر منحصر کرتا ہے۔
کیمیائی ہتھیار کا عمومی مقصد دشمن کی ہلاکت ہوتا ہے۔ کیمیائی ہتھیار اسی غرض سے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی مدد سے فی الفور دشمن کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیمیائی ہتھیار کی عام اور قدیم ترین قسم دشمن کے علاقے میں گھس کر یا اپنے علاقے کو چھوڑتے وقت پانی کے ذخائر کو زہر آلود کر دینا ہوتا تھا جس کی مدد سے دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ اس کی مثالوں میں ویت نام میں ایجنٹ اورینج اور افغانستان میں روس کی جانب سے زہر وغیرہ کو پانی میں ملانا شامل ہیں۔
تاہم یہ ہتھیار جنہیں ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہا جاتا ہے، اب ایک طرح سے ماضی کا قصہ ہیں۔ نئے دور کی جنگ اب اس سے کہیں زیادہ جدید ہو چکی ہے۔ اب موسمیاتی طرز کو کنٹرول کرنے، بارش برسانے یا کسی علاقے سے بارش کو یکسر ختم کر دینے، زلزلے اور دیگر "قدرتی" تباہی جیسے طوفان برپا کرنےجیسے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں۔اور ظاہر ہے اس طرح کے حملوں کا سیدھا مطلب تو یہ یہی ہے کہ لوگوں کو کھانا بھی نصیب نہیں ہوگا۔ پانی پینے کے قابل نہیں ہو گا، عمارتیں بری حالت میں اور ٹوٹی پھوٹی ہوں گی۔صحت کی سہولیات کا ملنا دوبھر ہو جائے گا اور دشمنی ختم ہونے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی قابل رحم ہوگی۔اس لئے دہشت گردی کے انتہائی وسائل کے خاتمہ اور انسانیت کی تحفظ کی خاطر سب کو صدق دلی سے ایماندارانہ کردار ادا کرناہوگا اورا س عفریت سے پوری دنیا کے ممالک کو مل کر نپٹنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والی نسلوں کو ایک صاف اور صحت مند ماحول اورآب و ہوا دے سکیں گے۔
ماحصل
ان سب کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے لئے ہمارے پاس کوئی طریقہ ہے۔ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا ،حالانکہ اب اس بات پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کا سوال ہے، اصل میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اور موثر طریقہ کارموجود نہیں ہے۔ جنگ کے علاقے میں فوجی جوان تو گیس ماسک اور جلد کو پوری طرح صاف رکھنے والے سوٹ پہن کر اپنا دفاع کسی حد تک کر سکیں گے۔ مندرجہ بالا ملبوسات کے علاوہ مختلف قسم کے ویکسین اور مختلف قسم کی بایوٹکس کی بھاری خوراک حیاتیاتی ہتھیاروں کے حملے سے بھی بچاو ¿میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن کسی ملک کے عوام، خاص طور پہ غریب اور ترقی پذیر یا پسماندہ ملک کے باسی اپنا دفاع کس طرح کر پائیں گے ؟ کیا وہ ریاستیں اپنے عوام کی حفاظت کے مندرجہ بالا اقدامات کا خرچ برداشت کر سکیں گی؟ چلیے، ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ممکن ہے تو کیا مندرجہ بالا اقدامات کافی ہوں گے؟ اس پر بھی سوچنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید

جمعرات، 5 ستمبر، 2013

ہم جو ہوئے بیمار

احوالِ نا سازیِ طبع اور یاراں

محمد علم اللہ اصلاحی​
ہسپتال جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے مریض ہوتے ہیں وہاں؟ اور ان مریضوں کی تشویش ناک اور کرب ناک حالت کو دیکھ کراور ان کے امراض کے متعلق جان کر، خود کو لاحق تکلیف یا مرض بہت چھوٹا نظر آنے لگتا ہے ۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔گذشتہ دنوں اچانک پیٹ میں درد کی شدید لہر اٹھی، اور یہ سلسلہ اتنا زیادہ بڑھا کہ یوں محسوس ہونے لگا گویا اب موت ہی آنے کو ہے۔ ایسے میں میں ایک دوست کو بدقت تمام فون پر خبرہی دے سکا اور کچھہی دیر بعد میں اسپتال میں تھا ۔ پہنچتے ہی انجکشن، درد کم کرنے کی دوا اورساتھ ہی گلوکوز چڑھایا گیا ۔ الٹراساؤنڈ، ایکسرے، خون اور پیشاب کے ٹیسٹ ، الغرض ہر قسم کی تشخیص اور چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ساری چیزیں نارمل ہیں، لیکن چونکہ انسان فطرتاَ بڑا ہی متجسس اور خوف زدہ پیدا کیا گیا ہے سو فکر اور پریشانی دامن گیر ہی رہی، ویسے بھی یہ کوئی نہیں چاہتا کہ وہ تکلیف میں زندگی گزارے یا اس کا ایک پل بھی دکھ میں بسر ہو۔ بھلا میں کیوں اس سے مستثنیٰ رہتا؟

اسی تشویش میں ہی شاید!جب مجھے کوئی خاص افاقہ محسوس نہ ہوا تو میں نے دوستوں کوایک دوسرے اسپتال لے جانے کے لئے کہا۔ وہاں بھی یہی سب کچھ ہُوا، سارے ٹیسٹ دکھائے، لیکن ڈاکٹروں نے کہا: ”کسی دوسرے اسپتال کی رپورٹ کو ہم نہیں مانتے، کراس چیکنگ کرانی پڑے گی۔“اور یوں کراس چیکنگ ہوئی، مگر یہاں بھی خداوند قدوس کی مہربانیوں سے ٹسٹوں کےنتائج منفی ہی رہے۔ ادھر میری تکلیف کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر مزید کچھ دن اسپتال میں روکنا چاہ رہے تھے، لیکن چونکہ انجکشن اور دواؤں کی وجہ سے مجھے تکلیف میں کمی محسوس ہوئی تھی، جیب کا بھی خیال آتا تھا اس لئے دوستوں کے مشورے سےچھٹی کراکر واپس اپنے کمرے لوٹ آیا، اس وقت رات کے تقریبا تین بج رہے تھے ۔

مجھے نیند بالکل بھی نہیں آ رہی تھی ،جانے کیا کچھ یاد آرہا تھا ۔ایک مرتبہ پہلے بھی مجھے ایسے ہی درد کی شکایت ہوئی تھی ،جاڑوں کے دن تھے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا اور مجھے سچ مچ اپنی موت سامنے نظر آنے لگی تھی ۔میں نے سوچا تھا دن میں لوگوں کو لاش نکالنے میں دقت ہوگی دروازہ کھول دوں ،اور دروازہ کھولنے کے لئے بستر سے جیسے ہی اٹھا ،چٹخنی کھولتے ہی درد سے بے تاب ہوکر بے ہوش ہو چکا تھا ۔اس وقت بھی ہاسٹل میں کافی بھگدڑ مچ گئی تھی اور دوست مجھے اٹھا پٹھا کر فورا اسپتال لے گئے تھے ۔گرنے کے سبب سر میں شدید چوٹ آئی تھی اور ٹانکے بھی لگے تھے ۔لیکن خدا کا کرم اس وقت بھی مجھے کچھ نہیں ہوا اور ڈاکٹروں نے چند گھنٹے اسپتال میں رکھنے کے بعد چھٹی دے دی تھی ۔

ایک مرتبہ مجھے دانت میں درد کی شکایت ہوئی تھی ،اس وقت میں بہت چھوٹا تھا ،مجھے یاد آتا ہے ان دنوں میں نانی کے گھر میں تھا ۔امی گھر پر اکیلی تھیں اور میں درد سے پورے بر آمدے میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ماموں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے ۔وہ تمام واقعات یاد آآکر میری پریشانی میں اضافہ کر رہے تھے ۔رات یوں ہی سوچوں میں گزر گئی ۔صبح ہوئی تو میں نے جامعہ ہیلتھ سینٹر کےایک سینئر ڈاکٹر شریف صاحب سے ملاقات کی اور اپنی اس تکلیف کی وجہ جاننی چاہی۔انھوں نے مجھے اپنے ایک شناسا ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا ۔ جنھوں نے ساری رپورٹیں دیکھیں اور دوائیں چیک کیں اور کہا کہ بیٹا ! کچھ بھی نہیں ہے زیادہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اکثر ایسا ہوجاتا ہے ۔ کچھ پرہیز بتایا دوائیاں لکھیں اور کہا جاؤ آرام کرو ۔

اب درد بھی نہیں ہے اور نہ ہی بخار ۔اب تو طبیعت بالکل بحال ہو چلی ہے ۔پہلے سے زیادہ بھلا چنگا ہوں خدا کا شکر ہے۔تاہم میں سوچ رہا ہوں انسان بھی کتنا بڑا نا شکرا ہے۔ عام دنوں میں اسےاپنے رب کی نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ زندگی کی مصروفیات اس بات کا موقع ہی نہیں دیتیں کہ انسان ذراٹھہر کر اس بارے میں سوچے اور اپنے مالک و خالق کا شکر بجا لائے ، لیکن کسی نعمت میں ذرا سا فرق آ جائے، کوئی عیب یا اچانک کوئی انہونی ہوجائے تو انسان بے چین ہو جاتاہے اور پکار اٹھتا ہے: ”بار الہا!! مدد--“ میں بھی پکار اٹھا تھا: ”خدایا! رحم فرما“ اور آن کی آن میں کتنے احباب جمع ہو گئے تھے۔ کیسے ؟ امی اور ابو پریشان ہو گئے تھے۔امی کو تو کسی نے اطلاع نہیں دی تھی انھوں نے مجھے فون کیا اور کہنے لگی گھبراہٹ ہو رہی تھی اس لئے کال کیا ،میں نے انھیں بتایا نہیں لیکن کیسے وہ جان گئیں ؟کس طرح بار بار احباب کو فون پر ابو کی ہدایات مل رہی تھیں؟ کیسے سب جاننے والے حبیب بیتاب اور پریشان ہوگئے تھے؟۔ میں خود خدا تعالی سے کیا کیا منتیں کر رہا تھا؟، مگر ہائے رے ناشکرے متوحش انسان ! محض دو رکعت شکرانے کی نماز پڑھی اور خوش ہو لیے۔اس موقع سے میں نے دوستوں کو بھی بہت پریشان کیا اور انھوں نے بھی دوستی کا خوب بھرم نبھایا اللہ سب کو نیک بدلہ دے ۔

سوچتا ہوں اتنے اچھے اور اتنے مہرباں دوست ،ماں باپ کی شفقت و محبت ،مجھے میرے جس رب نے سب کچھ تو دیئے ۔ اس رب کا شکر ادا نہ کرنا تو نالائقی ہی ہوگی --- اے اللہ ! میں تیرا عاجز و درماندہ بند ہ ترا شکر ادا کرتا ہوں ۔تو نے مجھے جو بھی دیا بہت اچھا دیا اس کا احساس مجھے اسپتال جانے کے بعد ہوا ۔اسپتال جانے کے بعد سچ مچ یہ پتہ چلا کہ میری بیماری تو کچھ بھی نہیں تھی، بلکہ مجھ سے سیریس اور زیادہ تکالیف میں مبتلا مریضوں کی قطار لگی ہوئی تھی، کسی کا ہاتھ ٹوٹا تھا تو کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی، ایک لڑکی پاٖؤں زمین پر نہیں رکھ پا رہی تھی، اس کا پورا پاٖؤں زخموں سے لتھڑا پڑا تھا اور مکھیاں اس پر بھنبھنا رہی تھیں۔ ایک معصوم بچہ اتنی تیز سانس لے رہا تھا کہ اس کی آواز دوسرے مریضوں کو بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔ ایک بوڑھا اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا، پورے اسپتال میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی، ایک طرف خواتین رو رہی ہیں تھیں تو دوسری جانب مرد حضرات مایوس کھڑے تھے ۔ مریضوں کی درد سے بھری چیخ وپکار اور تیمارداروں کی منتیں، بیزار ڈاکٹرز اور شفقت سے بے نیاز نرسوں کی بے حس آنکھیں۔ مہنگی دواؤں کے پرچے ہاتھ میں لیے پریشانی کے عالم میں باہر جاتے لوگ اور باہر سے اپنے پیاروں کو ملنے آنے والے رشتہ داروں کی بھیڑ۔ ایسی عجب سی دنیا تھی کہ الامان و الحفیظ۔

اس بیماری کے دوران میں نے ایک اورچیز بھی محسوس کی وہ یہ کہ مریض سے ہمدردی کا ایک بول بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ،مریض سے کبھی بھی حتی کہ غیر دانستہ طور پر بھی کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہو ۔ ابھی جب یہ بات نکلی تو مجھے یاد آیا جب میں بیمار تھا تو میرے ایک دوست نے مجھے فون کیا اور کہنے لگا : ’’سنا تھا تمہاری طبیعت خراب ہے ۔تم ابھی تک زندہ کیسے ہو مرے کیوں نہیں !‘‘ مجھے اس کی یہ بات بہت بری لگی ۔میں نے یہ بات اس سے نہیں کہی البتہ غصہ سے فون منقطع کردیا،۔اس نے دوبارہ فون کیا لیکن میں نے ریسیو نہیں کیا ۔بعد میں وہی دوست مجھے ہسپتال لے جانے والوں میں تھا اور اسپتال میں دیگر دوستوں کے ساتھ رات بھر موجود رہا ۔ مجھے پتہ ہے اس نے یہ بات مذاق میں کہی تھی اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہے کہ اس کی یہ بات مجھے بری لگی تھی ۔ میں سوچتا ہوں کیا مذاق میں بھی کسی کو ایسا کہنا جائز ہوسکتا ہے؟

رات جب میں یہ سطریں لکھ رہا تھا تو میری نگاہ گیلری پر پڑی ۔ جو بالکل ویران تھی ۔یہ منظر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میرے کمرے کی گیلری میں کچھ دنوں سے گلہریوں کی آمد نہیں ہوئی اور میں تنہا درو دیوار کو تکتا رہتا ہوں ۔ میں بے تابی سے صبح کا انتظار کرنے لگا لیکن گلہریاں دکھائی نہ دیں ۔ مجھے یاد آیا کہ میں تو کل تک ان گلہریوں کوکوسا کرتا تھا اور جب وہ صبح کے وقت چلانا شروع کرتیں تو مجھے بہت غصہ آتا تھا کہ کم بخت نیند خراب کرنے چلی آتی ہیں ۔انھیں زور زورسےڈانٹتا اور کرسی پٹختے ہوئے دوبارہ دروازہ بند کر سوجاتا اور یوں گلہریاں بھاگ جاتیں ۔شاید ڈر کر ۔۔مجھے احساس ہوا کہ ان کی آواز مجھے اس تنہائی میں کسی کے قرب کا احساس دلا تی تھیں ۔لیکن گلہریاں شاید روٹھ گئی ہیں اس لئے تو اب نہیں آتیں۔

مجھے ایک ترکیب سوجھی ۔بیماری کے ان دنوں میں دوست میرے لیے جو بسکٹ لے کر آئے تھے میں نے ان میں سے دوچار گیلری میں رکھ دئیے۔مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی جب گلہریوں کو گیلری میں ادھر سے ادھر پھدکتے دیکھا ۔ صبح ان کی آواز سے ہی بیدار ہوا نماز بھی پڑھی اور خوب پڑھائی بھی کی ۔اب میں انھیں ڈانٹتا نہیں ،میں نے ان سے اب دوستی کر لی ہے ۔بہت دنوں سے ایک الارم کلاک خریدنے کاسوچ رہا تھا ۔موبائل والے الارم سے نہیں اٹھ پاتا کئی مرتبہ تو یہ بجتا بھی نہیں ۔لیکن اب اس کی ضرورت نہیں میں نے گلہریوں سے کہہ دیا ہے مجھے روزانہ چیخ چیخ کر جگا دینا تمہیں بسکٹ بھی دوں گا گلہریاں بھی کافی سمجھدار ہیں اپنی ڈیوٹی خوبصورتی سے نبھا رہی ہیں ۔ان کے بدولت جلد اٹھنا بھی نصیب ہو رہا ہے اور صحت بھی اب کافی اچھی اوربہتر ہے ۔

۔۔۔مزید