جمعرات، 19 فروری، 2015

بزم اردو لائبریری کی اینڈرائڈ ایپ

بزم اردو لائبریری کی اینڈرائڈ ایپ
محبان اردو کے لیے ایک خاص تحفہ
محمد علم اللہ
کچھ ہی سال قبل کی بات ہے کہ ہم موبائل فون صرف  بات چیت اور ٹیکسٹ میسج کے لیے  استعمال کرتے تھے موبائل فون میں ایک یا دو گیم ہوا کرتے تھےاورموبائل فون رکھنا بڑے سٹیٹس (Status)کی بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ اس لئے بھی کہ موبائل فون سے گفتگو بہت مہنگی پڑتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اچانک موبائل  فون کی دنیا میں ایک نیا انقلاب رونما ہوا۔  پہلے رنگین موبائل  بازار میں آئے، پھر  موبائل کمپنیوں نے کچھ  تحقیق کر کے مزید خصوصیات والے موبائل فون مارکیٹ میں جاری کیے۔ اور یوں ایپل ،میک اور اینڈرائڈ اسمارٹ فون  ایک کرامتی آلہ بن گئے۔ دنیا کی کوئی بھی معلومات  چاہئے ہو، اپنے فون پر انگلیاں گھمائیے،  فوراً معلومات حاضر۔ چاہیں نئی پرانی چیزوں کی خرید و فروخت ہو یا بینک کے ٹرانزیکشنز ، کسی بین الاقوامی تجارتی ادارے سے متعلق معلومات حاصل کرنی ہو یا کسی سرکاری دفتر کا فارم حاصل کرنا ہو یہ سب کام اسمارٹ فون سے ہونے لگے۔ 
اسمارٹ فون کی اہمیت اور اس سے مستفیدہونے والے بڑے طبقہ کو دھیان میں رکھ کر مختلف زبانوں کے فروغ کے لیے کام کرنے وا لے اشخاص بھی آگے آئے اور مختلف زبانوں کی  جامع لغات ، وسیع ترین لائبریریاں اور زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے لیے مختلف ایپس متعارف کروائے گئے۔نئے نئے گیم ، ڈکشنریاں ، فوٹو ایڈیٹنگ اور گفتگو و پیغام رسانی کے لئے چھوٹے چھوٹے اپلی کیشنز متعارف کرائے گئے ۔ جس نے نہ صرف عام آدمی کی زندگیوں کو آسان کیا بلکہ ان کی سہولت کے مطابق اس  کے حصول  کو بھی ممکن بنایا ۔
اردو میں اس کمی کو بہت شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا ۔حالانکہ اس سلسلہ میں کوششیں تو بہت ہوئی یا ہو رہی ہیں لیکن اس میں کامیابی بہت کم ہی لوگوں کو مل سکی ہے ، دوسرے لفظوں میں اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ کہ کچھ لوگوں نے اس جانب توجہ تو دی لیکن اس کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہے جو اردو والوں کی آسودگی کو مٹا نہیں سکی ۔اردو زبان و ادب کی خدمت  کے لیے جوایپس متعارف کروائی گئی ان ایپس کا جائزہ لینے کے بعد لغات، تفاسیر و تلاوت قرآن،  احادیث اور دیگر کچھ اہم ایپس کو چھوڑ کر باقی بہت ساری ایپس غیر معیاری او رناقابل استعمال ہیں۔
اردو کتابوں کی جہاں تک بات کی جائے تو  تقریباً تمام ہی  ایپس اپنے امیج فارمیٹ کی وجہ سے صارفین کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن حال ہی میں " بزم اردو  لائبریری " نام سے گوگل پلے اسٹور میں ایک ایسی ایپ متعارف کرائی گئی ہے جو  محبان اردو کے لیے کسی نعمت غیر متبرقہ سے کم نہیں ہے۔اور بجا طور پر اس کے لئے ڈاکٹر سید قاضی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ اس لائبریری میں  ہزاروں دینی علمی اور ادبی کتب جمع کر دی گئی ہے۔اس لائبریری ایپ کی سب سے بڑی خصوصیت کتابوں کا یونیکوڈ فارمیٹ میں ہو نا ہے۔
یونیکوڈ فارمیٹ کی وجہ سے کتاب کے صفحات کو ڈاونلوڈ نہیں کرنا پڑتا بلکہ پوری کتاب چند ساعتوں میں موبائل فون میں نظر آنے لگتی ہے۔  اس لحاظ سے 2 جی  جیسے سست رفتار کنیکشن والوں کے لیے بھی یہ ایپ انتہائی مفید ہے۔اس ایپ کی دوسری بڑی خصوصیت کتابوں کا جملہ حقوق سے آزاد ہونا ہے عام طور سے انٹرنیٹ پر پائی جانے والی لائبریریوں میں مصنفین و ناشرین کے حقوق کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا لیکن اس ایپ میں شامل کتابیں مصنفین کی اجازت کے ساتھ شامل کی گئی ہیں جو پرانی  کتابیں جملہ حقوق سے آزاد ہو جاتی ہیں ان کتابوں کو لائبریری سے منسلک رضاکار دوبارہ یونیکوڈ فارمیٹ میں ٹائپ کرتے ہیں  اور بعد میں یہاں اپلوڈ کر دیا جاتا ہے۔
ایپ میں موجود تمام کتابوں کو  دین و مذہب ، نثری ادب ، شعری ادب  ، بزم اطفال اور متفرقات کے تحت زمرہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے۔  دین و مذہب میں کسی ایک مسلک کی نمائندگی کرنے کی بجائے  اس ایپ میں تمام مکاتب فکر کی کتابیں جمع کی گئی ہیں۔اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کتابوں کی جمع و ترتیب اور انتخاب میں حیدرآباد کی مشہور علمی و ادبی شخصیت مجاہد اردو محترم اعجاز عبید صاحب نے کلیدی رول نبھایا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو زبان و ادب کے حوالے اعجاز عبید صاحب نے جو کارنامہ انجام دیا ہے یا اس سلسلہ میں انھیں جو مقام و اعتبار حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور کو ہوگا اس لیے بجا طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بزم اردو میں شامل اردو ادب کی تمام تر کتابیں  انتہائی معیاری ہیں۔ 
اس ایپ کو متعارف کرانے والے ڈاکٹر سیف قاضی کہتے ہیں کہ اب تک بزم اردو لائبریری محض ویب سائٹ پر دستیاب تھی، اور اب بھی بغیر اس ایپ کے بھی اس پتے پر اسے کمپوٹر یا موبائل فون کے براؤزر کے  ذریعے دیکھا جا سکتا ہے:http://lib.bazmeurdu.netلیکن اب  اس  ایپ کی وجہ سے بآسانی موبائل فون پر بھی کتابیں پڑھی جا سکیں گی۔وہ خوش ہیں کہ اردو کی خدمت کے لئے انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ۔ اس سلسلہ میں یقینا  جناب اعجاز عبید اور ڈاکٹر سیف قاضی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے  مریضوں کی قطار اور کاموں کی مصروفیات کے باوجود اردو کے لئے اتنا وقت چُرا لیا اور وہ کارنامہ محض اپنے بل بوتے پر انجام دے دیا جو بڑے بڑے ادارے انجام نہیں دے سکے ۔
اردو کے خاموش مجاہدوں کا یہ کارنامہ یقینا لا زوال ہے ، جنھوں نے بغیر کسی ستائش اور تمنا کے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا۔ تاریخ  میں اپنا کارنامہ رقم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وسائل کے بغیر محض یقین محکم اور جہد مسلسل کو بروئے کار لاکر کچھ کر دکھایا جائے بزم اردو لائبریری کی ویب سائٹ اور اینڈرائڈ ایپ اسی کی ایک مثال  ہے کہ  ایک ماہر ارضیات ( اعجاز عبید – حیدرآباد ) نے اردو یونیکوڈ  کتابوں کی جمع و ترتیب و تدوین کا ذمہ اپنے سر لیا  اور ایک ڈاکٹر ( سیف قاضی – منماڑ ) نے  اپنی ذاتی لگن اور محنت سے  تکنیکی ٹیم کی عدم موجودگی میں نہ صرف  ویب سائٹ تیار کی بلکہ اینڈرائڈ ایپ تیار کر کے اردو ادب کے اس سرمایہ کو آپ کے موبائل تک پہنچا دیا۔

۔۔۔مزید

بدھ، 11 فروری، 2015

تعلیم کی نجکاری اور نوجوان



تعلیم کی نجکاری اور نوجوان

تعلیم کی نابرابری سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ،ان کی بے روزگاری ملک کوخطرناک مستقبل کی طرف لیے جارہی ہے۔

محمد علم اللہ اصلاحی

آج ہماراتعلیمی نظام صاف طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے، ایک جدید تعلیم کا نظام ہے جس کے تحت روزگارپر مشتمل نصاب ہے اور دوسری طرف روایتی تعلیمی نظام ہے جس کے ساتھ روزگار کے بہت کم مواقع جڑے ہوئے ہیں۔ روزگار کے مواقع حاصل کرانے والی تعلیم کے لیے اقتصادی طور پر خوشحال طبقہ میں دلچسپی دکھائی دیتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کے بچے اس تعلیم کو حاصل کرکے ہی بڑے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ہمارے دیہی نوجوانوں کے ماں باپ اتنے خوشحال نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کو مہنگی تعلیم فراہم کر سکیں، ہمارے ملک میں تعلیم کے لئے ایسا ماحول تیار ہوتا جا رہا ہے جس میں سبھی کو سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا،ایسے ماحول کے لئے ہماری سرکاری پالیسی ہی ذمہ دار ہے۔ 

ملک کی آزادی کے وقت لارڈ میکالے کے ذریعہ دئے گئے تعلیمی نظام کو ہی حرف آخر سمجھا کیا گیا جس سے ہمارے ملک کا آج تک صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ آج بھی ہم تعلیم کے لئے دیہی سطح پر بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں کر سکے ہیں۔کئی گاؤں میں آج بھی بنیادی اسکولوں کی کمی ہے، بچے آج بھی کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جانے پر مجبور ہیں۔ ایسے ماحول میں کمزور اقتصادی حالت والے خاندان اپنے بچوں کومزید تعلیم کے لئے شہروں میں بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔آج بھی تقریباً 60 فیصد بچے پرائمری اسکول سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت نہےں رکھتے۔ 40 فیصد بچے ثانوی درجات کی تعلیم کے بعدسکول چھوڑ دیتے ہیںجب کہ 20 سے 25 فیصد بچے ہائی سکول تک کی تعلیم ہی حاصل کرپاتے ہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مسائل انہیں آگھیرتے ہیں، ایسے حالات میں اعلٰی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوانوں کی کس قدر نمائندگی ہوگی؟روایتی تعلیم کے میدان میں کوئی دیہی نوجوان گریجویٹ تک کی تعلیم حاصل کرلےنے کے باوجود روزگار کے بازار میں اپنے آپ کوکسی مقام پر نہیں پاتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔گزشتہ کئی سالوں کے تجزیہ کے مطابق روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہمارے دیہی سماج کے صرف 12.0 فیصد نوجوان ہی مینجمنٹ یاپروفیشنل کورس کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں، ان میں سے صرف.0 2 فیصد ہی کوئی بڑا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ہماری حکومت نے جس تیزی سے روزگار سے جڑے تعلیم کی نجی کاری کی ہے اس سے مفلس اورعام طبقہ کو ایسی تعلیم سے محرومی ہی نصےب ہوئی ہے۔اس نجی کاری نے انجینئرنگ ، طب ، مینجمنٹ ، کمپیوٹر اور مختلف روزگار فراہم کرنے والے ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورسوں کے ذریعہ تعلیمی نظام پرغاصبانہ قبضہ کر لیا ہے ،من مانے طریقہ سے داخلہ جاتی عمل اور فیس کا ڈھانچہ کھڑا کر لیا گےا ہے جس کے ذریعہ تعلیمی ادارے محض پیسہ کمانے کا مر کز بن کر رہ گئے ہیں،جہاں خوشحال لوگوں کے بچوں کو داخلہ دے کر موٹی فیس وصولی جاتی ہے تاکہ ان کی اور ان کے ادارے کی صحت بنی رہے، تعلیم کے اصل مقصد سے منحرف یہ ادارے سرکاری ہدایات و احکامات پرکبھی عمل نہیں کرتے ،کیونکہ انہوں نے اپنے اصول قانون اپنی سہولت کے مطابق گڑھ لیے ہیں۔ 

اس نجی کاری کے ذریعہ غریب اور دیہی نوجوانوں کو اعلی تعلیم سے ہی محروم رکھنے کاکھیل نہیں چل رہا ہے بلکہ انہیں اسکول کی تعلیم سے بھی محروم رکھنے کی سازش چل رہی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑے پبلک اسکولوں کے پاس بھی ان غریبوں کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے،وہ ملکی مفاد میں سوچنے کے لئے مجبور نہیں ہیںوہ صرف انہیں ہی اپنے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں جو ان کے مقرر کردہ فیس کوبلاتامل ادا کر سکیں۔اس ناروا تقسیم کے نتیجہ میں ابتدائی دورسے ہی معیار زندگی پستی کی راہ پر لگ جاتاہے اوربالآخر امیر ،غریب دو متوازی سماج تشکیل پاتے ہیں، ان میں سے ہر دو کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، ایک طبقہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر حسدکاشکار ہوجاتااور دوسراافراط زر اور وسائل کی فراوانی میں کوتاہ بیں اور غفلت شعار بن جاتاہے۔ 

تعلیم کی نابرابری سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ،ان کی بے روزگاری ملک کوخطرناک مستقبل کیطرف لیے جارہی ہے۔ دیہی نوجوان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہی شہر کی طرف رخ کر رہے ہیں جس سے ملک کے بنےادی ذریعہ آمدنی زراعت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شہروں میں معیار زندگی میں بھاری فرق کو دیکھتے ہوئے کچھ نوجوان جلد امیر بننے کے چکر میں جرائم کے مرتکب ہوجاتے ہیں، گاؤں میںرہ کر بھی وہ کھیتی میں کامےاب نہیں ہوتے ،کیونکہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج کل کھیتی گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہے ، اس میں لگائے گئے سرمایہ کی قیمت نکالنا ہی مشکل ہو گیا ہے، ایسے حالات میں تمام راستوں کو بند دیکھ کر دیہی نوجوان کشمکش کا شکارہیں۔ ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھے اور دیہی نوجوانوں کے لئے ایسا لائحہ عمل مرتب کرے کہ وہ اپنی زندگی کو سماج کے مرکزی نقطہ سے جوڑنے میں کامیاب ہو سکیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ دیہی نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کرے کہ وہ بے چارئہ محض نہ بنیں بلکہ” تعلیم سب کے لئے “”اسکول جائیں ہم“ اور” مڈ ڈے میل“ جیسی سرکاری کوششوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے تاکہ اس کے خاطر خواہ فوائد ظاہر ہوسکیں۔
alamislahi@gmail.com
Md.Alamullah Islahi


۔۔۔مزید