جمعرات، 7 مارچ، 2013

استاد محترم جناب الف عین صاحب سے ملاقات کا قصہ:


محمد علم اللہ اصلاحی 
میں نے آج سے تقریبا پندرہ دن قبل جوش میں آ کر استاد صاحب سے کہہ تو دیا کہ میں ضرور آپ سے ملاقات کروں گا، خواہ اس کے لئے مجھے علی گڈھ ہی کیوں نہ آنا پڑے۔
استاد محترم نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، لیکن سچ پوچھئے تو یہ ایام اور دنوں کے بہ نسبت کچھ زیادہ ہی مصروفیت میں گزرے اور میں نہ تو علی گڑھ جا سکا اور نہ ہی اس درمیان ملاقات کا خیال آیا۔
رات گئے دیر تک جاگنا اور دن میں کلاس اور ٹیوشن وغیرہ کی مصروفیات کے باعث مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا ہے۔
4مارچ کی صبح تقریبا 10بجے فون کی گھنٹی بجی، تب خیال آیا کہ میں نے کسی سے کچھ وعدہ بھی کیا تھا ؟
بہر حال جب فون آیا تو پہلے پہل تو ذہن میں یہ بات آئی کہ چلو فون کاٹ دیتے ہیں، لیکن پھر اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس خیال کا آنا تھا کہ انگلی خود بخود ریسیو کے بٹن پر پہنچ گئی۔
ادھر سے آواز آئی:
”علم اللہ بول رہے ہو؟ میاں! میں اسٹیشن میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، کہاں ہو؟“
یہ سنتے ہی ایک طرف تو ملنے کی خواہش اور دوسری طرف ظالم ٹیچر کی کلاس۔ بہر حال میں نے فیصلہ کیا کہ کلاس جائے بھاڑ میں۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ سوچتے ہی میں نے جلدی جلدی بیگ اٹھایا اور بھاگا۔
بس سے جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہ میرے بس کا روگ بھی نہیں ہے، سو میں نے آٹو لیا اور تقریبا ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے پہنچ گیا نئی دہلی ریلوے اسٹیشن۔
اسٹیشن پہنچتے ہی استاد محترم کو فون کیا اور یوں مجھے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔
محفل میں تصویر دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں جو ہیولیٰ بنایا تھا، اگرچہ اس سے ان کا نقشہ بالکل بھی میل نہیں کھا رہا تھا،لیکن میں نے دیکھا کہ استاد محترم دور ہی سے ہاتھ ہلاتے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔
قریب گیا، سلام کیا اور معانقہ بھی ہوا۔
یہاں پر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وہ نقشہ جو میں نے اپنے ذہن میں بنایا ہوا تھا کیسا تھا؟ ٹھیک اسی طرح جب کوئی انسان کسی کی بابت اس کی تحریریں پڑھ کر، اس کے بارے میں لوگوں سے سن کر یا پھر اس کے کام اور کارکردگی کو دیکھ کر اپنے ذہن میں خاکہ سا بنا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ اسی طرح ہونگے۔ سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور میں نے بھی اولاً اپنے ذہن میں ایک خاکہ سا بنا لیا تھا کہ جن سے ملنے جا رہا ہوں وہ ایسے ہونگے، ویسے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔
میرے ذہن میں ایک بزرگ اور پیر مغاں جیسے کسی شخص کی تصویر گر دش کر رہی تھی، میں سوچ رہا تھا آگے پیچھے ان کے حواری ہوں گے، حشم و خدم ہوں گے، جیسا کہ آج کل عموما پڑھے لکھے اور مالدار لوگوں میں دیکھنے کو مل جا تا ہے۔
مگر یہ کیا۔۔۔ ۔! جب ملاقات ہوئی تو ایسا کچھ بھی نہ تھا، بلکہ ایک عام سا دبلا پتلا آدمی ،مسکراتا چہرہ ، سفید ہوتے ریش مبارک اور بال،صحت مند اور ہٹے کٹے، نہ کوئی ٹپ ٹاپ، نہ کسی قسم کا تصنع اور دکھاوا ، معمولی قسم کا ایک بیگ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہیں، جس میں ایک چھوٹا سا لیپ ٹاپ اور کچھ کپڑے ، ہاتھ میںایک پرانا سا تھیلا تھامے ہوئے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔
تھیلے میں سے بھی علمی و ادبی رسالوں کے کئی تازہ شمارے باہر جھانک رہے ہیں۔
جب میں نے یہ سوچ کر کہ سامان بھاری ہوگا ان کا تعاون کرنا چاہا تو فرمانے لگے:
”نہیں، نہیں، بھاری نہیں ہے۔“
میں بضد ہوا اور تھیلا اپنے ہاتھ میں لے ہی لیا تو پتا چلا کہ یہ تھیلا بھی بستہ ہی ہے،جس میں کئی کتابیں رکھی ہیں،اور کچھ معمولی سامان۔
خیر یہ تو میرا اپنا تاثر تھا ایک اور محفل کے ساتھی اشرف بستوی کی کہانی سنئے !وہ بھی ملاقات کے لئے آنا چاہ رہے تھے لیکن اپنی مصروفیت کے سبب نہیں آئے ۔ابھی میں الف عین صاحب سے بات ہی کر رہا تھا کہ ان کا فون آیا اور انھوں نے بات کرانے کی گزارش کی میں نے فون استاذ محترم کو دے دیا ۔ دونوں کے درمیان بات شروع ہوئی اورتھوڑی ہی دیرکے بعد فون کٹ گیا ۔اور دوبارہ فون کی گھنٹی بجی اشرف صاحب ذرا غصہ مگر پیار سے کہنے لگے یار ! الف عین صاحب سے بات کرا !فون پرآواز بدل کر بات مت کیا کرو !
میں نے کہا آپ انھیں سے تو بات کر رہے تھے ۔مگر اشرف صاحب کو یقین ہی نہیں آتا تھا ۔آخر میں مجھے قسم کھا کر انھیں یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ آپ کی بات انھیں سے ہو رہی تھی تب انھیں سکون ملا ۔بعد میں انھوں نے مجھے بتایا محفل میں تصویر دیکھ کر میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی بزرگ ہونگے لیکن آواز سے تو ایسا نہیں لگ رہا تھا ۔پھر میں نے انھیں بتایا ہیں تو بزرگ ہی لیکن آواز 20،25والی ہی ہے تو ہنسنے لگے ۔
لیکن سہی بات تو یہ ہے کہ میری بھی جب پہلی مرتبہ بات ہوئی تھی تو میں بھی ایسا ہی سمجھا تھا ۔
خیریہاں اسٹیشن میں کھڑے کھڑے نہ جانے ہم نے کتنی باتیں کر لیں،مجھے اچانک خیال آیا کہ چائے وغیرہ پینی چاہئے کہ اسٹیشن میں اس کے علاوہ اور ملتا بھی کیا ،میں چلنے کے لئے کہا تو استاذ محرم نے بتایا ایک اور صاحب ملاقات کے لئے آنے والے ہیں اور وہ بھی محض انٹرنیٹ ہی کے ذریعے جانتے ہیں پھر چلیں گے ۔
کافی انتظار کے بعد وہ صاحب آئے۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ صاحب کون ہیں؟
وہ صاحب معروف اردو ناول نگار ”مشرف عالم ذوقی“ تھے۔
آتے ہی دونوں خوب تپاک سے ملے اور پھر فورا چائے اور ناشتے وغیرہ کے لئے جگہ کی تلاش شروع ہوئی۔
سامنے ہی ایک عالی شان ریستوران تھا۔ ہم لوگ وہاں گئے اور گرما گرم پنیر، پکوڑے اور کافی پی، حالانکہ مشرف صاحب تو لنچ کرانے کے لئے بضد تھے، لیکن میری بھی طبیعت بالکل کھانے کی نہیں تھی اور استاد محترم نے تو پہلے ہی منع کر دیا تھا۔
بہر حال چائے کے دوران کافی علمی اور ادبی گفتگو ہوتی رہی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے کئی لوگوں کے نام سننے کو ملے۔
مشرف صاحب تو ”اردو محفل “اور” بزم اردو “کا سن کر حیرت زدہ تھے کہ اردو میں اتنا اچھا کام ہو رہا ہے،لیکن وہ ہندوستانی ادیبوں سے کافی مایوس نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں جتنے بھی ادیب یا اردو لکھنے والے بڑے لوگ ہیں، ان کو انٹرنیٹ یا سائبر کی دنیا سے تو کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔
خیر اس کے بعد ہم بذریعہ کار نطام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچے کہ استاد محترم کو یہیں سے ٹرین پکڑنی تھی۔
یہاں آنے کے بعد مشرف صاحب پھر بضد ہوکر کہنے لگے: ”نہیں، آپ لوگوں کو کچھ تو لینا ہی پڑے گا۔
تو میں نے کوک لیا، استاد محترم کو بھی کوک دلایا اور زبردستی کھانا بھی کھلایا۔
یہاں بھی مختلف موضوعات فلم، ادب اور آرٹ کے حوالے سے کافی معلوماتی گفتگو ہوئی، دوران گفتگو کئی پردہ نشینوں کے نام بھی آئے، جو اردو کے نام میں اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو وہ کہیں بھی معیار اور کسوٹی میں نہیں ٹھہرتے۔
یہاں کچھ ہی دیر رکنے کے بعد مشرف صاحب کو چونکہ کسی ضروری اور اہم میٹنگ میں جانا تھا سو وہ چلے گئے۔ میں نے بھی سوچا جب کلاس بنک کر ہی دیا ہے تو کیوں نہ کچھ چیزیں سیکھ لوں۔ اسامہ سرسری بھائی کی وہ بات مجھے یاد آئی جو انھوں نے محفل میں اس تعلق سے کہی تھی کہ محترم سے خوب فائدہ اٹھانا۔
بہت زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن ہاں مزہ آیا اور سچ مچ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع مل ہی گیا۔
استاد محترم نے اردو کمپیوٹنگ سے متعلق کئی اہم چیزیں بتائیں۔ انھوں نے ان پیج سے ڈائریکٹ کاپی پیسٹ ورڈ میں کر سکنے والا سافٹ ویر بھی دیا، لیکن افسوس کہ میں نے اس کوہاسٹل آنے کے بعد اپنے کمپوٹر میں چلانے کی کوشش کی تو وہ چلانہیں۔
سچ پوچھئے تو ہماری یہ تین چار گھنٹے کی ملاقات بڑی اچھی اور یادگار رہی۔
ٹرین کا وقت بھی ہو چکا تھا، باتیں بہت تھیں، لیکن مجھے ”الوداع“ کہنا ہی پڑا اور استاد محترم نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دیں اور فرمایا: ”ٹھیک ہے بیٹا! پھر ملیں گے۔
اور ٹرین سیٹی بجاتی ”چھک چھک“ کرتی منزل کی طرف بڑھ گئی۔ میں تھوڑی دیر تک ٹرین کو دیکھتا رہا اور پھر میں بھی ہاسٹل کی طرف چل دیا۔