پیر، 28 اگست، 2017

ہندوستان کی تعلیم میں علم کو ٹھونسا جارہا ہے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے بر عکس طلبہ کورٹّوبنایا جارہا ہے/ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

ہندوستانی اسکالر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب سے انٹرویو

 محمد علم اللہ 

گذشتہ دنوں معروف ملی قائد ، محقق، مترجم اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کے ساتھ دلی کے پاس ضلع بلند شہر جانا ہوا۔ مقصد تھا ایک گمنام مگرآئیڈیل شخصیت اور مجاہد آزادی عبدالعلی خان سے ملاقات اور انٹرویو کرنا۔ عبدالعلی خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ ہیں۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات کو انہوں نے نہ صرف بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ ایک مجاہد کی حیثیت سے اس میں شریک بھی رہے ہیں ۔ آزادی کے بعد انہوں نے لندن کوچ کیا اور وہاں سے ایک انگریزی جریدہ (مسلم نیوز) جاری کرکے پہلی مرتبہ عالم اسلام کے مسلمانوں کی آواز اس پلیٹ فارم سے اٹھانے کے لئے اپنی کوشش کی ، یہ الگ بات ہے کہ کئی سال بعد یہ رسالہ بند ہو گیا لیکن اپنی جرات ، بے باکی اور شاندار تبصروں اور فیچرز کے لئے آج بھی اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انگریزی زبان میں پہلا نیوز میگزین تھا ۔ کئی سال لندن میں نکلنے کےبعد وہ پاکستان منتقل ہوا لیکن جنرل ایوب خان کے عتاب کی وجہ سے اس کے فائننسر باوانی صاحب نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ پرچہ بند ہوگیا اور عبد العلی خان اپنے وطن لوٹ آئے لیکن یہاں ان کو حکومت نے چین سے نہیں رہنے دیا ۔ برسہا برس کی لڑائی کے بعدان کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت ملی لیکن ایک غیر ملکی کے طور سے۔ برطانوی شہریت رکھنے کے باوجود پاکستان میں چند سال گذارنے سے وہ بھی “دشمن” کی فہرست میں لکھ لئے گئے اور کئی بار نوبت ہندوستان سے نکالے جانے کی آئی اور بڑی مشکلوں سے ٹلی ۔ اب تقریبا نوے سال کی عمر میں وہ بلند شہر کے قصبے سیانا میں اپنی زندگی کے آخری ایام گن رہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام کا شدید احساس ہے کہ اس غیر معمولی شخصیت سے مسلمانان ہند نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور خود ان کے وطن نے ان کے ساتھ جفا کی ساری حدود پار کردیں۔

ہم جب ان کی رہائش گاہ پہونچے تو وہ بستر پر دراز تھے اور طبیعت بھی خراب تھی ۔ معلوم ہوا کہ کچھ دنوں قبل ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے ۔ حوائج وغیرہ کے لئےبھی انھیں دوسروں کا سہارا لینا پڑرہا تھا ۔ ایسے میں مناسب نہیں تھا کہ مزید ان کو زحمت دی جائے ۔ اس لئے آئندہ کے لئے انٹرویو کے پروگرام کو ملتوی کرتے ہوئے ہم وہاں سے واپس چلے آئے۔البتہ موقع کو غنیمت دیکھتے ہوئے میں نے مناسب جانا کہ اس موقع سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب کا ہی انٹرویو کیوں نہ کرلیا جائے۔ وہ نہ صرف اپنی علمی ،ادبی اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک شناخت رکھتے ہیں بلکہ اپنے علم اور فضل کی وجہ سے ایک بڑے حلقے میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسی شخصیتوں کی زندگی میں بہر حال سبق کے بہت سے پہلو مضمر ہوتے ہیں ۔ اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے اپنے موبائل کا ریکارڈر آن کیا اور ڈاکٹر ظفرالاسلام سے سوالات کرکے ان کی زندگی کے کئی گوشوں کو ٹٹولنے کی کوشش کی۔
جس چیز کو “انٹرویو” کہتے ہیں، اس انداز سے یہ انٹرویو نہیں لیا گیا ۔ اس کے لئے پہلے سے نہ تو کوئی تیاری کی گئی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہی تھا ۔ لیکن ان سب کے باوجود اس انٹرویو کی اہمیت اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ انٹرویو چلتی ہوئی گاڑی میں ریکارڈ کیا گیاہے ۔ قارئین کو اس انٹرویو سے اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کو شخصیت بننے میں کن طویل اور دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔کیا ایک شخص ماں کے پیٹ سے ہی سیکھ کر جنم لیتا ہے ، یا پھر اسکی محنت، جد وجہد اور آرزواس کو کہیں پہونچاتی ہے؟
اگرچہ یہ منتشر سوالات کے منتشر جوابات ہیں لیکن پھر بھی ان میں بہت کچھ ایسا ہے جس سے ہم ہمت اور حوصلہ لیکر آگے کے مراحل طے کر سکتے ہیں ۔ یہ انٹرویو خصوصا مدارس سے فارغ طلباء کے لئے دلچسپی کی چیز ہے ۔ اس انٹرویو کے ذریعے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ایک شخص کس طرح خار دار جھاڑیوں ، رویوں اور راہداریوں کو پار کر تے ہوئے اپنا مقام بناتا ہے ۔ تو آیئے بات چیت کو سنتے ہیں۔
محمد علم اللہ
نئی دہلی

سوال: ہندوستانی تعلیم اور بیرونی تعلیم کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور دونوں میں آپ کو کیا فرق نظرآیا؟
جواب: بہت فرق ہے ۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کی تعلیم میں علم کو ٹھونسا جارہا ہے یعنی سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے بر عکس طلبہ کورٹّوبنایا جارہا ہے۔ بس یاد کرلو ، امتحان پاس کر لینا ، پھر بھول جانا ۔ باہر ایسا نہیں ہے ۔ طلبہ کو ہر چیزسمجھنی پڑتی ہے اور آپ ایک بار کسی چیز کوسمجھ لیں تو زندگی بھر اسکو بھولیں گے نہیں ۔ پریکٹیکل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ ہر طالب علم کو ذاتی اٹنشن ملتا ہے۔ ایک کلاس میں بہت زیادہ طالب علم نہیں ہوتے ہیں بلکہ ایک استاد کے ذمے چھوٹی چھوٹی کلاسیں ہوتی ہیں ۔ ہال یا کمرے پوری طرح بھرے نہیں ہوتے ۔ مصر میں بھی ہمارے یہاں والی حالت ہے ۔ وہاں بھی ہال بھرے ہوتے ہیں لیکن انگلینڈمیں حالات بہت مختلف ہیں ۔ وہاں ذاتی اٹنشن ملتا ہے اور ہر طالب علم کافی استفادہ کر سکتا ہے ا گرکرنا چاہے ۔ نہیں کرنا چاہے تو الگ بات ہے، اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جو لوگ انگلینڈ وغیرہ سے پڑھے ہوئے ہیں ان کے دماغ کھل جاتے ہیں، و ہ صحیح اور غلط کو سمجھنے کی تمیز اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، صحیح مشورہ دے سکتے ہیں ، صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر غور وفکر کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ہمارے یہاں ہندوستان میں یہ حالت ہے ، اور وہ مصرمیں بھی ایک حد تک ہے ،کہ جو بات کہہ دی گئی اس کو اندھے بہرے ہوکے قبول کرلو ۔ انگلستان میں ایسا نہیں ہے بلکہ وہاں کا استادآپ سے کہتا ہے کہ خود فیصلہ کرو،دماغ استعمال کرو، صحیح ہے غلط ہے تم فیصلہ کرو، ہم نہیں کریں گے۔ہمارے یہا ں معاملہ بالکل الٹا ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے یہاں قائدانہ صلاحیت والی شخصیتیں نہیں نکلتیں۔یہاں اس کو پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا نظام دوسرا ہے ۔وہاں شخصیت اور غوروفکر کوابھارا جاتا ہے ۔اور جن کے اندر خاص صلاحیت نہیں ہے ان کا حل بھی نفسیاتی تجزیہ کے ذریعے نکالا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ سب طلبہ بعد میں اپنے اپنے میدان میں بہت نمایاں رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہزاروں کی کھیپ مدارس اور یونیورسٹیوں سے نکل رہی ہے لیکن شاذونادر ہی ان میں سے ایک دو ایسے نکلتے ہیں جوکہ واقعتا اپنے علم پر دست رس رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ اسی وقت نکلیں گے جب آدمی کا دماغ کھل جائے گا۔ جب آدمی کا دماغ بند ہو، اس سے آنکھ بند کرکے جو بھی کہا جارہا ہو قبول کرنے کو کہا جائے تو اس کا دماغ کبھی کھلے گا ہی نہیں ۔
سوال: اچھا یہ بتائے کہ ہندوستان میں آپ نے جو کچھ بھی پڑھااور باہر بھی پڑھائی کی تو ہندوستان کی تعلیم کس حد تک آپ کے لئے کارآمد ثابت ہوئی ، آپ نے اپنی ابتدائی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان کے مختلف مدارس میں گذارا تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہندوستان کے مدارس میں یا ہندوستان میں آپ نے جو کچھ سیکھا وہ کس حد تک آپ کی زندگی میں کار آمد رہا۔آپ نے کتنا اس سے فائدہ اٹھایا؟
جواب: یہاں بھی جو علم ملتا ہے وہ بہر حال کہیں جا کے فٹ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہ بالکل بیکار ہوتا ہے۔، ہم نے یہاں عربی پڑھی ، فقہ پڑھی اور نحو پڑھی۔ ان سب کا فائدہ ہے۔ لیکن میرا مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جو بھی ہے اور جو انسان اس تعلیم سےبنتا ہے وہ مجموعی طور سے کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ انسان سازی نہیں ہوتی ہے ۔فارم کوئی بھر دیا، امتحان دے دیا، سرٹیفکٹ لے لیا اور نوکری کرلی ۔۔۔ بس اسی پر بات ختم ہو جاتی ہے ۔ نوکری کر لینا مقصد کبھی نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس میدان میں بھی آدمی کام کرے اسے قائدانہ ہونا چاہئے ۔ آدمی چاہے جو بھی کام کرے اسے بہترین ہونا چاہئے۔ میں تو کہتا ہوں موچی بھی ہو تو اس کو بہترین موچی ہونا چاہئے ۔ آدمی کسی قسم کا کاریگر ہو تو اسے اپنے پیشے میں بہترین ہونا چاہئے۔ اسکا بہت احترام ہوگا اپنے میدان میں۔ یوں ہمیں اپنا مقام بنانا چاہئے ۔ کسی عالم یا مفتی میں جب تک اخاذ اور اجتہادی کیفیت نہیں پیدا ہوگی ،وہ خالی ایک ٹٹو بن کے رہے گا۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں یہاں ، کوئی مسئلہ آیا فوراََ جاکر کے کوئی پرانی صدیوں پہلے لکھی گئی کتاب کھول کے دیکھتے ہیں ۔ اب وہاں پہ نئے مسائل کے بارے میں لکھا تو ہے نہیں۔ ایسے مسائل تھے ہی نہیں اس زمانے میں تو وہاں پہ کیسے لکھا ہو گا ۔ لیکن اگر انہوں نے علوم پر تمکن حاصل کرلیا ہوتا اور شریعت کی روح سے آشنا ہوگئے ہوتے تو یقیناًکوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے۔
سوال: میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ طلبہ ہندوستان کے مدارس میں اتنا عرصہ گذارتے ہیں اور انھیں عربی کی تعلیم اتنی پختہ دی جاتی ہے، لیکن آج تک کوئی ایسا نام نظر نہیں آتا جو کوئی بہت بڑا ادیب یا صاحب قلم ہوا ہو ۔ ادھر آزادی کے بعد تو بالکل خلا نظر آتا ہے ۔ جب کہ اسی طرح کے طلبہ جب باہر جاتے ہیں تووہ بہت کچھ کرتے ہیں عربی میں ۔ ان کی لکھنے کی صلاحیت بھی ہوجاتی ہے اور عربی میں ان کی استعداد اتنی اچھی ہوجاتی ہے کہ وہ لکھ اور بول سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں اس طرح کیوں نہیں ہوپاتا ہے؟ کیا کمی ہے ؟ کیا ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ اس لائق نہیں ہے کہ ان کے اندر استعداد پیدا کرسکے؟ کچھ تو ہے ! آپ کیا سمجھتے ہیں ؟۔
جواب: ہمارے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ طلبہ پرانے نصوص کو سمجھنے لگیں ۔ تو یہ ہوجاتا ہے ۔ صحیح ہے یہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کہ طالب علم قادر الکلام ہوجائے ، خود لکھنے کے لائق ہوجائے ، خود ایسی عربی لکھے جو کہ دوسرے لوگ سمجھیں، ایسی عربی بولے جس کو دوسرے لوگ قابل قدر نگاہ سے دیکھیں ۔ تو یہ نہیں ہوتا ہے، اس لئے کہ اسکے لئے ان کواس کے لئے تیار ہی نہیں کیا گیا ۔آج جدید سے جدید جو کتابیں آپ کے یہاں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ ستر سال پرانی ہیں ۔ زبان بدلتی رہتی ہے ۔ مروجہ عربی زبان بھی بدلتی رہی ہے ۔قرآن شریف نہیں بدلا،لیکن عربی زبان جو کہ عام انسان آج استعمال کرتا ہے اورلکھتا ہے یا جو کتابوں میں لکھی جاتی ہےیا اخبارات میں یا مجلات میں لکھی جاتی ہیں وہ روز بدل رہی ہے۔ نئے الفاظ ،نئی تراکیب ، نئی تعبیرات روزانہ آتی رہتی ہیں ۔ اگر آپ اس سے واقف نہیں ہونگے توکیسے کوئی قائدے کی عربی لکھیں گے یا پڑھیں گے یا سمجھیں گے۔؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء ایسی عربی لکھتے ہیں جو وہ خود ہی سمجھتے ہیں ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ پرانے نصوص وغیرہ پر ہمارے علماء کی جو دسترس ہے وہ شاید عام عربوں میں بھی نہیں ہے۔ قدیم عربی شعر اور قدیم عربی ادب آج کے عام عرب نہیں سمجھ پائیں گے،لیکن ہمارے مدارس میں اگر کسی نے ٹھیک سے تعلیم حاصل کر لی ہے تو بآسانی انھیں سمجھ سکتا ہے،اس لئے کہ ہمارا کل منشا یہی یہ ہے کہ اتنی عربی پڑھ لو کہ قرآن پاک اور قدیم فقہی کتب سمجھ پاؤ۔ اس کو بدلنا چاہئے ۔ یہ علم بھی مطلو ب ہے لیکن آج کی عربی بھی مطلوب ہے ۔ آج کی عربی میں ہم اگر اپنی بات نہیں کہہ سکتے یانہیں لکھ سکتے تو اپنی بات وہاں تک کیسے پہنچائیں گے؟ میرے خیال میں ہمارے طلبہ جو کہ مدارس سے نکلتے ہیں ان کو بہت اچھی اردو بھی نہیں آتی جبکہ اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اردو بذات خود ایک موضوع کے طور سے نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ یعنی جدید اردو ادب، تنقید ، غزل اور شاعری کے نئے رجحانات وغیرہ سے بھی واقف ہوناضروری ہے۔ ہمارے مدارس میں اس پربھی کچھ وقت دینا چاہئے ۔ اردو آج ایک نئی زبان ہے ۔ ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے کیا نئے رجحانات ہیں تبھی جاکر ان کی زبان اچھی بنے گی ۔ ورنہ ان کا نشان قدامت پرستی رہے گا ۔ وہ اردو لکھتے ہیں لیکن اس میں چاشنی نہیں ہوتی،روانی نہیں ہوتی ہے ۔روانی اسی وقت آئے گی جب وہ دوسرے ادب یاجدید لکھنے والوں کی تحریریں پڑھیں گے۔
سوال: مجھے یہ بتائیے کہ آپ کی شخصیت میں رفتہ رفتہ کیسے ارتقاء آیا ہے ۔ مدرسۃ الاصلاح سے آپ ندوۃ العلماء گئے ۔ آج مجھے پتہ چلا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی کچھ عرصہ گذارا۔اس کے بعد جامعہ ازہر اور قاہرہ یونیورسٹی میں اور پھر مانچسٹر یونیورسٹی میں۔ تو ان چاروں پانچوں جگہوں میں کیسے کیسے آپ میں تبدیلی آئی، یعنی مرحلہ وار ارتقاء،اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟۔
جواب: یہ سب چیز اتنی آسان اور مختصر نہیں ہے کہ ایک جملے میں بتا دی جائے ۔ انسان جب کسی جگہ کسی معاشرے میں کئی کئی سال گذارتا ہے، تو اس سے بہت سبق لیتا ہے۔میری حالت تھی کہ مجھے ہمیشہ سے آنکھ بند کرکے کوئی چیز تسلیم کرنے کی عادت کبھی نہیں رہی۔کسی کو بہت زیادہ سر پہ چڑھانے کی عادت بھی کبھی نہیں رہی بچپن سے ۔ اور اسی وجہ سے جب ہم لکھنؤ میں تھے تو ہم کو باغی سمجھا جاتا تھا ۔ اس طرح کی کوئی بات نہیں تھی۔ہمارا صرف یہ مسئلہ تھا کہ آنکھ بند کر کے کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے تھے اورکسی کے سامنے اتنا سر تسلیم خم بھی نہیں کرتے تھے کہ سجدہ کرنے لگیں ۔ احترام الگ بات ہے۔ تو یہ عادت ہمیشہ سے ہماری رہی ہے اس کی وجہ سے فائدے اور نقصانات دونوں ہوتے ہیں۔ لیکن اس بات سے سکون ملتا ہے کہ ہمارا مقصد صحیح ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ مجھے بہت زیادہ فائدہ مصر جانے سے ہوا ۔ مصر کا معاشرہ بہت کھلامعاشرہ ہے ، یعنی open society ہے۔ ان کے یہاں کافی اعتدال ہے ،دوسرے کی رائے کو سننے سمجھنے کی خواہش اور صلاحیت ہے ۔ ہمارے یہاں پر جو تنگ نظری ہے، مسلکی ،مذہبی وغیرہ اسلامی بھی جو ہے ، وہ سب وہاں نہیں ہے۔ یعنی وہاں لوگ بہت معتدل ہیں ۔یہاں تک کہ جن لوگوں کو ہم تنگ نظر کہہ سکتے ہیں وہ بھی ہمارے یہاں کے لحاظ سے بہت معتدل ہیں ۔ اس تجربے کا مجھے بہت فائدہ ہوا ۔مصر کے اس معاشرہ میں، میں سات سال رہا ۔ اور اس عرصہ میں ،میں مصری معاشرے میں بہت گھل مل گیا ۔شایداتنا تو اورکسی ہندوستانی کو نصیب نہ ہوا جتنا کہ مجھے ۔ ہرسطح کے لوگوں سے قریبی تعلقات قائم ہوئے جن میں شعراء بھی تھے ، ادباء و صحافی بھی تھے ، اساتذہ بھی تھے، یہاں تک کہ ایک وزیر بھی تھے یعنی ڈاکٹر حلمی مراد جو پہلے عین شمس یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ، پھر وزیر تعلیم ہوئے ۔ ان لوگوں کے گھروں پر آنا جانا ہوگیا ۔ ان میں ایک بہت بڑے ادیب یحیٰ حقی بھی تھے ، ڈاکٹر مصطفی محمود بھی تھے، شیخ محمد الغزالی ، ڈاکٹر عبد الصبور شاہین بھی تھے ، صحافیوں میں بہت سے لوگ تھے ۔ ان میں میرےجامعۃ القاہرۃ میں ہم سبق ڈاکٹر عبد الحلیم عویس بھی تھے۔ان لوگوں کا بہت بڑا نام آج بھی ہے ۔ ان کی کتابیں جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے ۔ان کے گھروں بھی میں آنا جانا ہو گیا ۔ بعض ادباء وشعراء وصحافی اس وقت نوجوان تھے ، بعد میں بہت مشہور ہوگئے لیکن اس وقت اتنے مشہور نہیں تھے جیسے شاعر حسن توفیق ، شاعر عفیفی مطر جو” سنابل” نامی ادبی پرچہ نکالتے تھے ، نقاد کمال حمدی وغیرہ، وغیرہ ۔اس تجربے سے مجھے کافی فائدہ ہوا جو کہ شاید اگر میں ہندوستان میں ہوتا تو نہ ہوتا ۔ یہاں پہ ہوتا تو تقلیدی قسم کا مولوی نہیں تو مسٹر ہی ہوجاتا، لیکن وہ وسعت نظری اور دماغ کا جو کھلا پن ہوتا ہے وہ نہیں ملتا اگر میں مصر نہیں گیا ہوتا ۔جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے قاہرہ یونیورسٹی میں چند سال گذارے اور وہیں سے اسلامی تاریخ میں ایم اے کیا جس کے لئے مجھے مصر کی اکسچینج اسکالرشپ دو سال کے لئے ملی ۔ پھر میں نے قاہرہ ریڈیو میں بحیثیت اردو اناؤنسر بھی کام کیا ۔ فروری ۱۹۷۳ ء سے میں نے لیبیا کی وزارت خارجہ میں چھ سال بحیثیت مترجم و ایڈیٹر کام کیا ۔ اس وقت مجھے باقاعدہ ملازمت کی ضرورت ہوگئی تھی کیونکہ ۱۹۷۲ ء کے آخر میں میری شادی ہوگئی تھی اور شادی کے بعد ضرورتیں بڑھ جاتی ہیں اور خود ہندوستان ،میں میرے والدین کو ضرورت تھی۔ اس لئے میں نے لیبیا میں چھ سال گذارے کہ یہ مسئلہ حل ہو حالانکہ وہاں کی سنگلاخ زمین اور بدو معاشرے میں کافی وقت گزارنا مشکل ہے ۔
بہر حال جب لگا کہ گھر پر مسائل کسی حد تک حل ہوگئے ہیں۔ والد صاحب کی کتابیں چھپنے لگی تھیں اور الرسالہ کو چھپتے ہوئے کئی سال ہو گئے تھے ، تو میں اکتوبر ۱۹۷۹ ء میں لندن چلا گیا ۔ گیا تو تھا مزید پڑھنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے ،لیکن اس کا زیادہ موقع نہیں ملا کیونکہ مسلم انسٹی ٹیوٹ نے ، جس نے مجھے بلایا تھا، مجھے اپنے کام میں اتنا مشغول کردیا کہ میں ٹھیک سے پڑھائی نہیں کرسکا،حالانکہ کہ میں نے وہا ں مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا۔ میرا موضوع “تصور ہجرت “تھا یعنی مفسرین، علماء حدیث اور فقہاء نے حکم “ہجرت” کو کیسے سمجھا اور اسلامی تاریخ میں اس پر کیسے عمل کیا گیا۔ میں نےکچھ کام کیا لیکن بہت زیادہ نہیں کرسکا ۔برطانیہ میں رہنے سے بہت فائدہ ہو ا۔ مغربی معاشرہ یا انگریزی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی خوبیاں ،ان کی محنت ،بچے سے لیکر 80 سال کے بوڑھے سب کو کام کرتے دیکھا ۔ سب محنت کے خوگر ہیں۔ کوئی اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے کہ کوئی دوسرا اس کا کام کر دے گا۔ یہ سب چیزیں دیکھ کربہت متاثر ہوا ۔ سال بھر موسم خراب رہنے کے باوجود انکی وقت کی پابندی (Punctuality)ان کے کردار کا پتہ دیتی ہے ۔ سارے دفاتر اور بینکوں کے باہر لکھا ہے کہ 9 بجے کھلے گا تو 9بجے کھلا ہوا ملتا ہے اور ہر کارندہ اپنی سیٹ پر ہوتا ہے، چاہے موسم کیسا بھی ہو۔ موسم ان کا بہت خراب ہے ہمارے لحاظ سے ۔ کبھی خوب بارش ہوتی ہے تو کبھی خوب برف پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمیشہ ہم نے کبھی اور کہیں ایک منٹ کی دیر نہیں دیکھی ۔ اول وقت میں بینک گیا تو کھلا ہو ا دیکھا ۔ ہر کاؤنٹر پر لوگ بیٹھے ہوئے ملے ۔ یہ ایک بار نہیں بلکہ ہر بار ہوا ۔ یہ سب چیزیں میں نے دیکھیں اور ان سے سبق بھی لیا اور ایک حد تک ان کو اپنی زندگی میں برتنے کی کوشش کی ۔ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں ۔ انگریز کام چور نہیں ہیں ۔ جو کام ان کو دیا جائے ، اس کو ذمے داری سے پورا کرتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھ کوذاتی طور سے بھی ہوتا تھا کہ اپنے پروفیسر (اڈمنڈ بوزورتھ) کو میں اپنا چیپٹر شام کو دیتا تھا اور وہ اسے اگلی صبح کو پڑھ کر واپس کر دیتے تھے جب کہ ہندوستان میں پرفیسر حضرات سال سال بھر چیپٹر رکھے رہتے ہیں اور مصر میں مہینوں رکھے رہتے تھے ۔ یہ ان پروفیسر کی بات ہے جو عالمی شہرت واہمیت کے حامل ہیں اور انسائکلو پیڈیا آف اسلام کے چیف ایڈیٹر تھے۔ شام کو چیپٹر دینے پر کہتے تھے کہ اگلے دن صبح میری سیکریٹری سے لے لینا ۔ جب میں صبح میں جاتا تھا جو وہ چیپٹر سیکریٹری کے پا س ملتا تھا ۔ یہ تجربہ ہر بار ہوا۔ تو یہ کام کا طریقہ ہے ۔یہ مجھ کو مصر میں نہیں ملا ۔ انگلینڈ میں ہر آدمی اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کر رہا ہے ۔ جب پورا سسٹم ذمہ دار ی کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے تو سب کچھ ٹھیک چلتا ہے ۔ ایسی قوم اور ایسے ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
سوال: اچھا ڈاکٹر صاحب !اس کا انکشاف تو آج ہوا کہ آپ نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں بھی تعلیم حاصل کی ہے ۔ وہاں کا تجربہ کیسا رہا؟
جواب : دراصل جب میرے والد صاحب جماعت اسلامی میں تھے تو مولانا جلال الدین عمری صاحب سے بہت متاثر تھے ۔ رام پور میں جماعت کے آفس میں دونوں ساتھ ہی شعبہ تصنیف میں کام کرتے تھے ۔ دونوں کی کرسیاں ایک ہی کمرے میں ساتھ ساتھ تھیں۔ اس تعلق کی وجہ سے والد صاحب نے مجھے جامعہ دار السلام عمر آباد بھیج دیا۔ میں نے ایک سال وہاں زیادہ تر فارسی پڑھی ۔ چھٹی میں رام پور آیا اور جب دوبارہ عمر آباد واپس جانے کا وقت آیا تو میں نے پہلی دفعہ زندگی میں ابا سے مخالفت کرتے ہوئے کہا :میں نہیں جاؤں گا وہاں ، اتنی دور ، بالکل ایک نئی جگہ، زبان الگ ، تہذیب الگ ، جامعہ کے باہر سب لوگ تامل بولتے ہیں ۔ مجھے بھی تامل تھوڑی موڑی آگئی تھی جیسے’’ ٹیا کڑپاّ ‘‘(چائے لاؤ)۔ تامل کی گنتیاں وغیرہ بھی سیکھ لی تھی ۔ لیکن مجھے وہاں بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس لئے وہاں واپس نہیں گیا۔ پھر والد صاحب نے مجھے مدرسہ اصلاح بھیج دیا جو ہمارے اپنے ہی ضلع اعظم گڑہ میں ہے۔ مدرسہ اصلاح میں میں تین سال رہا : عربی کے درجات اول ، دوم اورسوم۔ اس دوران والد صاحب تصنیف و تالیف کے سلسلے میں لکھنؤ آگئے، ندوۃ العلماء کے شعبہ تصنیف وتالیف جس کا نام مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ہے۔ اب انہوں نے مجھ کو لکھنؤ بلا لیا ۔ میں مدرسۃ الاصلاح سے درجہ سوم عربی پاس کرکے آیا تھا ۔ یہاں ٹسٹ ہوا ۔ آپ کو معلوم ہے میرا داخلہ کس کلاس میں ہوا ؟ چھٹے میں ہوا اس شرط کے ساتھ کہ عربی نحو (شذور الذہب) اور ایک کسی اور مضمون میں اگلے سال امتحان دوں اور اس کو پاس کر لوں ۔ یوں عربی ششم میں شرط کے ساتھ داخلہ ہو ا۔ عربی کے استاد و ادیب مولانا سعیدالرحمن اعظمی نے میرا ٹسٹ لیا تھا جو اب ندوۃ العلماء کے مهتمم ہیں۔ یوں میں مدرسۃ الاصلاح کے درجہ سوم سے نکل کر ندوہ کے درجہ ششم پہنچا۔
جن دو موضوعات میں مجھے امتحان دینا تھاوہ اگلے سال میں نے امتحان دے کر پاس کر لیا۔ اس طرح سے ہم عربی ہفتم (ساتویں) درجے میں پہنچے ۔ اس وقت ندوے میں عا لمیت سات سال کی ہی تھی۔لیکن مجھے لگا کہ مجھے یونیورسٹی جانا چاہئے ۔ تب تک والد صاحب شاید ندوے سےچلے گئے تھے ۔ یوں ہم نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ وہاں پر بھی “عالم” ہوتا ہے جو یونیورسیٹی کے بورڈ آف اورینٹل اسٹڈیز کے تابع ہے۔ جیسے اب علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی کا بریج کورس ۔ تو اگر لکھنو یونیورسٹی کا عالم اور فاضل پاس کر لیں تو پھر بی اے میں داخلہ ہوجاتا ہے۔عالم اور فاضل دونوں ایک ایک سال کا کورس تھا۔ ہم نے عالم میں داخلہ لے لیا۔ ہم عمر میں بہت چھوٹے تھے اور ہمیں اساتذہ وغیرہ کچھ سمجھتے نہیں تھے۔مطلب کوئی بھاؤ نہیں دیتے تھے ۔ لیکن جب امتحان کانتیجہ آیا تو ہم فرسٹ فرسٹ آئے (ہنستے ہوئے)۔ فرسٹ ڈیویژن اور ٖفرسٹ پوزیشن دونوں ۔اس کے بعد اساتذہ کا رویہ بالکل بدل گیا۔
اس دوران مصر کے جامعۃ الازہر کی اسکالر شپ کی بات آئی تھی ،امریکن یونیورسٹی قاہرہ کی اسکالر شپ کی بات بھی آئی تھی۔ ان دونوں میں ہم نے درخواست دیدی ۔ اور ان میں دونوں میں ہمارا سیلیکشن ہو گیا ۔ لیکن ہمارا پاسپورٹ نہیں بن پارہا تھا ۔ اس زمانے میں پاسپورٹ بہت مشکل سے ملتا تھا ۔ لکھنو یونیورسٹی میں ہمارے ایک ساتھی اور ہم سبق ایک صاحب صبرحد کے محمد صابر صاحب تھے جو کہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ لائبریرین ہوئے۔ ان کے توسط سے پاسپورٹ بنا ۔ ورنہ یہ بہت مشکل کام تھا۔ پاسپورٹ بنانا اس زمانے میں آج کی طرح آسان نہیں تھا ۔ آج تو تھوک کے بھاؤ سے پاسپورٹ بنتے ہیں۔پہلے بڑی انکوائری ہوتی تھی۔لیکن ضابطے میں یہ بھی تھا کہ سرکار کا کوئی اعلیٰ افسر، کم از کم ڈپٹی سکریٹری رینک کا، اگر لکھ دے کہ ہم ان کو جانتے ہیں تو پولیس انکوائری نہیں ہوتی تھی۔
ہم کئی بار لکھنو میں پاسپورٹ آفیسر کے پاس گئے ۔ ہر بار اس نے کہا: نہیں، یا تو تمہاری پولیس انکوائری ہوگی جس میں دو تین مہینہ یا کتنا وقت لگے گا ہم نہیں جانتے ،یا پھر تم کسی بڑے افسر سے لکھوا کر لاؤ ۔ ہم کو جانے کی جلد ی تھی کیونکہ مصر میں تعلیمی سال شروع ہورہا تھا۔ کئی لوگوں کے پاس گئے ، جن میں ہمارے ایک دور کے رشتے دار اسلام احمد صاحب ڈی آئی جی پولیس بھی تھے لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ہمارے ساتھی محمد صابر صاحب ہم کو اپنے ایک رشتےدار کے گھر لے گئے جو اس وقت یو پی گورنمنٹ کے لیگل ریممبرنسر(قانونی مشیر) تھے۔ وہ صاحب ہم کو نہیں جانتے تھے مگر صابر صاحب کے کہنے پر انھوں نے فارم پر دستخط کر دیا ۔ اسے ہم نے اگلے ہی دن پاسپورٹ آفس میں جمع کر دیا اور یوں ہمیں جلدی سے پاسپورٹ مل گیا۔پاسپورٹ کے بعد پیسے کی ضرورت تھی ۔ اس کے لئے ہم لکھنو سے اعظم گڑھ گئے اور والد صاحب کے توسط سے درکار رقم بڑے ابا (عبد العزیز خان صاحب) سے حاصل کی ۔ پھرلکھنو واپس آئے اور جب ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کا مرحلہ آیا تو معلوم ہو ابھی ایک اور کاروائی باقی ہے۔ اس زمانہ میں ملک سے باہر جانے والے کو ریزرو بینک آف انڈیا سے اجازت لینی پڑتی تھی۔
بڑی مشکل تھی بھائی۔ کام آسان نہیں تھا ۔ اس زمانہ میں کانپور میں ریزرو بینک آف انڈیا کاریجنل آفس تھا اور شاید اب بھی ہو۔ وہ لکھنؤ سے قریب تھا ۔ تووہا ں گئے ۔ وہاں ہمارے ایک رشتہ دار شعیب صاحب تھے اعظم گڑھ کے ۔ ان کے یہاں ٹھہرے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے ایک بھائی ریزرو بینک میں کام کرتے ہیں۔تو ان سے جاکر بات کی ۔ ان صاحب نے کہا کاغذات جمع کرادیجئے اور اگلے دن آجائیے گا ۔ انہوں نے کام کروا دیا اور اس طرح اگلے دن ہمیں اپناپاسپورٹ ریزرو بینک کے “نو آبجکشن” کی مہر کے ساتھ واپس مل گیا ۔اس طرح اللہ پاک نے یکے بعد دیگرے راستے کھولے ۔ اگر شاید ہم اپنے اوپر رہتے تو پاسپورٹ بھی نہ بنتا ، نہ ہم قاہرہ جاتے۔ ریزرو بینک کے کام کے بعد ہم دلی گئے ۔ یہاں پہلے ہم مصری سفارت خانے گئے ویزہ لینے کے لئے ۔ وہاں بھی بغیر کسی مشکل کے ویزہ مل گیا ۔ اس ہم چند دن کے بعد بریٹش ایر ویز سے ، جو اس وقت بی۔او۔ اے ۔سی کہلاتی تھی، قاہرہ پہنچ گئے۔باہر جاتے ہوئے اس وقت کے قاعدے کے مطابق مجھے ۳ (تین) بریٹش پاؤنڈ کی زر مبادلہ ملی ۔ اس کے علاوہ میرے پاس صرف ۳۰۰ ہندوستانی روپئے تھے جو ملک کے باہر بیکار تھے لیکن مصر میں مقیم ایک ہندستانی طالب علم نے اسے مجھ سے خرید لیا۔
قاہرہ پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارا اسکالرشپ امریکن یونیورسٹی والا ختم ہوچکا تھا لیکن جامعۃ الازہر والے اسکالرشپ کا ٹسٹ بھی دلی میں ہم پاس کرچکے تھے ۔ جامعۃالازہر کا یہ اسکالرشپ ، جو ہندوستانی ایجوکیشن منسٹری کے ذریعہ ہو اتھا ، ہمیں کچھ کوشش اور تاخیر کے بعد مل گیا۔اس طرح سے الازہر کے کلیۃ اصول الدین میں تعلیم شروع ہوئی اور ازہر کے بیرونی طلبہ کے ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ بھی مل گیا۔
سوال: آپ کو یہ شوق کیسے پیدا ہوا کہ باہر جاکر پڑھائی کریں؟
جواب : شوق کی بات نہیں تھی! بات دراصل یہ ہے کہ میں جو پڑھائی کر رہا تھا ، اس میں میرا کوئی اختیار نہیں تھا ۔والد صاحب نے زبردستی بھیجاتو میں چلا گیا ۔ ایک مدرسہ میں نہیں گیا تو دوسرے مدرسہ میں بھیج دیا ۔ دوسرے سے نکال کر تیسرے میں داخل کرا دیا ۔ اس میں میرا کوئی اختیا ر نہیں تھا ۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ میرے سامنے اس تعلیم سے فراغت کے بعد کوئی مستقبل نہیں تھا ۔ یعنی میرا مستقبل یہی تھا کہ اسی طرح کا ایک مدرس بن جاوں یا کوئی امام وغیرہ ۔ اس تعلیم سے اسی قسم کے کام مل سکتے تھے ۔بہرحال میرے خیال میں اس وقت بھی میرے پاس اتنی سمجھ تھی کہ وہ سب چیزیں میری صلاحیت سے بہت کم ہیں ۔ اس طرح سے میں زندگی میں جو کنا چاہتا ہوں نہیں کرپاون گا ۔ میرے خیال سے یہی وہ واحد سبب تھا جس کی وجہ سے میں کسی بھی طرح سے یہاں سے نکل کر بھاگا۔ میں،گیا نہیں، بلکہ بھاگا ،تاکہ میں اس زندگی سے جو نظر آرہی تھی سے بھاگ کر میں کچھ بن سکوں ۔ میرے خیال میں اس وقت میری سمجھ میں یہی بات آرہی تھی اور غالبا میں اگر میں باہر نہ گیاہوتا تو میں بھی آج کسی مدرسہ میں پڑھا رہا ہوتا اور کڑھ رہا ہوتا یاور اس کڑھن کی وجہ سے شاید متعدد امراض کا شکار بھی ہوچکا ہوتا ۔ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ ایک طرح سے میں نے غیر مطمئن مستقبل سے ، جو مجھے نظر آرہا تھا، بھاگنے کی کوشش کی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں مجھے ناکامی نہیں ہوئی ۔ ٹھیک ہی ہوا ۔ یہاں جو ہوسکتا تھا اس سے بہر حال بہتر ہی ہوا ۔
سوال: ایک مرتبہ آپ نے بہت پہلے بتایا تھا کہ جب آپ مصر جارہے تھے تو آپ کے والد صاحب راضی نہیں تھے اور آپ کے جانے کے بعد انھوں نے کہا تھا آپ سے کہ تم نے مجھے دیوار قہقہ پھندوا دیا۔ان کا خیال شاید یہ تھا کہ آپ مصر کی جدیدیت میں کھو جائیں گے ؟
جواب: نہیں !نہیں! یہ غلط ہے ۔ دراصل یہ بات مولانا عبدالباری ندوی صاحب نے کہی ، جو متکلم و فلسفی کہے جاتے تھے ۔ وہ بہت مشہور عالم اور ندوہ کے فارغین میں سے تھے ۔آج لوگ ان کو نہیں جانتے لیکن انکا بہت ہی بڑا مقام تھاجیسے مولانا سلیمان ندوی وغیرہ کا تھا ۔ وہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے شعبہ فلسفہ کے صدر اور استاذ بھی تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنؤ میں رہتے تھے ۔ اس وقت ان کی کافی عمر ہوچکی تھی ۔ میں جاکر ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور انکی باتیں سنا کرتا تھا ۔مجھے ہمیشہ سے پسند تھا کہ میں اس طرح کے ذی علم اور میری عمر سے بہت بڑے لوگوں کے پاس بیٹھوں تاکہ کچھ سیکھ سکوں ۔ تو جب میں قاہرہ چلا گیا تو یہ بات مولانا عبدالباری صاحب نے میرے والد سے کہی کہ آخر کار آپ نے ظفرالاسلام کو دیوار قہقہ پھندوا دیا ۔ مطلب یہ ہےکہ قصوں میں مشہور ہے کہ کوئی دیوار تھی ،دیو مالائی دیوار، کوئی اسطوری دیوار ، جس پہ لوگ کھڑے ہوتے تھے، مسکراتے تھے اور چھلانگ مارکر دوسری طرف چلے جاتے تھے اور پھرکبھی واپس نہیں آتے تھے۔ تو ایک طرح سے اسکا مجازا یہ کہنا تھاکہ یہ لڑکا مصر چلا گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا، وہاں کی جدیدیت میں گم ہو جائے گا ، وغیرہ ۔
میرے خیال میں مولانا عبدالباری کی یہ پیشن گوئی تھی پوری طرح سے غلط ثابت ہوئی۔ نہ میں مصر جاکر کوئی ملحد اور کافر ہوگیا نہ یہ کہ مصر جاکرمیں واپس نہیں آیا ۔ وہاں بھی میں اپنے دین اور عقیدہ پر قائم بھی رہا اور واپس بھی ہندوستان آیاجب کہ مجھے یہا ں آنے کی کوئی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ جب میں انگلستان گیاتو وہاں پرحالات بہر حال اللہ پاک کے فضل سے ٹھیک تھے۔ وہاں پہ میرا اچھا خاصہ کام تھا، ملازمت تھی ۔ میں نے وہاں مکان بھی خرید لیا تھا ۔ وہاں مکان خریدنے کے بعد لگتا ہے کہ آدمی وہاںسٹل ہوگیا ہے۔ عموما یہی ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود میں نے وہ مکان بیچ دیا اورہندوستان واپس آگیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ہندوستان میں ہی مجھے کام کرنا چاہئے۔ یعنی اپنے اصل مقام پر کام کرنا چاہئے ۔ دوسرے لفظوں میں میرے جیسے آدمی کو اپنےملک جانا چاہئے حالانکہ میرے ملک میں بہت مشکلات تھیں۔ اگر چہ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں جن میں میں ابھی نہیں جاتا، لیکن بحیثیت مجموعی میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ درست ہی کیا۔ حالانکہ اس کی اس وقت بہت لوگوں نے مخالفت کی۔ میرے گھر والوں یعنی بیوی اور بچوں نے کی اور دوسرے رشتہ داروں نے بھی مخالفت کی کہ کیا بیوقوفی کرتے ہو تم، بھلا کوئی انگلستان چھوڑ کر آتا ہے اس طرح سے؟
بہر حال میں نے سوچا تھا کہ یہاں واپس آکر کہ کچھ کروں گا،اور میرے خیال میں ایک حد تک میں نے کیا بھی۔ پوری طرح سے تو نہیں کرسکا کیونکہ یہاں آنے کے بعد میں بہت سے مسائل میں گھر گیا ،جسکی مجھے توقع نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود میں نے یہاں الحمد للہ سروائیو بھی کیا یعنی باقی وقائم رہا، بچوں کی مناسب تعلیم بھی ہوئی اور ایک حد تک میں نے کام بھی کیاجس میں ملی گزٹ سترہ سال تک نکالنا شامل ہے جوکہ میرے جیسے اکیلے آدمی کے لئے ،جس کے پاس وسائل کی سخت کمی تھی ، ایک معجزہ ہی تھا۔ کسی کے پاس بہت وسائل ہوں، یا اس کے پیچھے ایک بڑا ادارہ ہو ،تو اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ لیکن میں نے جو بھی کمایا وہ ملی گزٹ وغیرہ میں لگایا اور اس کے ساتھ اپنا پورا وقت بھی لگایا۔ ملی گزٹ کے ذریعے میں نے سترہ سال تک ملت کی آواز دنیا تک پہنچائی اور اسی کے ساتھ ساتھ اس عرصے کے سارے واقعات کو ایک رجسٹر کی طرح محفوظ بھی کر دیاکہ کبھی کوئی آدمی آئے اور جاننا چاہے کہ ان سترہ سال میں ہندوستانی مسلمان کیا کہہ رہے تھے ،کیا بول رہے تھے، کیا سوچ رہے تھے، ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا ، تو اس کو ایک حد تک وہ تصویریں مل جائیں گی جو شاید اور جگہوں پر نہ ملے۔ اور یہ بھی پوری کوشش کی گئی کہ جذباتیت سے دور رہ کر یہ سب بیان کیا جائے ، اگر چہ کافی مشکل ہوتا ہے کہ آدمی ایسے حالات میں جب بہت سنگین واقعات ہورہے ہیں ،جیسے گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو ۲۰۰۲ میں ہوا اور اسی طرح جیسے آسام اور مظفر نگر میں جو کچھ ہو ا، ن سب کے باوجود ہم نے اپنے ہوش کو برقرار رکھااور عدل وانصاف کی بات کی جو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے خیال میں ہم نے ملی گزٹ میں اپنے ہوش وحواس کو برقرار رکھااور انصاف کی با ت کہی، چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور ملت کو بھی اس کی تلقین کی۔ بہرحال لندن سے واپسی کے بعد بہت کچھ ہو جس میں سترہ سال نکالنا شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے یہ سب کار خیر ہی تھا۔اللہ پاک اس کا ثواب انشاء اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیں گے۔
سوال: ایک چیز یہ بتائیے کہ آپ جب لندن سے لوٹ رہے تھے تو آپ نے کوئی پلان بنایا تھا کہ مجھے ہندوستان میں جاکر یہ کرنا ہے۔ کوئی لانگ ٹرم پلان یا شارٹ ٹرم پلان ؟ تو آپ نے اپنے پلان اور ہدف کو کس حد تک پورا کیا اورکس حد تک آپ کو کامیابی ملی اور کیا آپ نہیں کرسکے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ میں یہ کرسکتا تھا لیکن نہیں کر پایا، یا آگے کا آپ کا کوئی خواب ہے جو آپ نے دیکھا اور وہ پورا نہ ہوپایاہو؟
جواب :دیکھئے ، ابھی میں اس کو نہیں بتاؤں گا۔ یہ بات انشاء اللہ کبھی مجھے اپنی سوانح عمری لکھنے کاوقت اگر ملا ۔۔ معلوم نہیں ملے گا یانہیں۔۔بہر حال، اگر موقع ملا تو انشاء اللہ اس میں یہ سب باتیں لکھوں گا ۔ میرا جو ہندوستان آنا ہوا اکتوبر سنہ 1984ء میں وہ در حقیقت میرے اپنے پلان کے مطابق نہیں تھا ۔ میرا پلان ہندوستان واپس آنے کا ضرور تھا لیکن اتنی جلدی نہیں تھا ۔ آنا کیوں اور کن حالات میں ہوا، اس کے بارے میں انشاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا ۔ ابھی میں اسکے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔



۔۔۔مزید

ایک سفر جس نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا

محمد علم اللہ، نئی دہلی
گزشتہ دنوں معروف ملی قائد اوردہلی اقلیتی کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے ایک منصوبے پر بات چیت ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ ان دِنوں ہندوستان کے مسلمان، خصوصا نوجوان، جس نا امیدی، قنوطیت اور یاس کی کیفیت میں جی رہے ہیں، ان کو اس حالت سے باہر نکالنے کے لیے کچھ عملی اقدام کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ایسی گم نام مگر فعال شخصیات کو متعارف کرانے کی بات سامنے آئی، جنھوں نے واقعی میں کسی صلے کی تمنا کے بغیر کام کیا ہے۔ اس سے ایک تو یہ کہ ان شخصیات میں مزید کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا، دوسرا ایسی شخصیات سے تحریک پا کر نوجوان نسل بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ پائے گی۔ اس منصوبے کے تحت ایک کتابی سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔

سب سے پہلے ہم نے اتر پردیش کی ایک شخصیت کا انتخاب کیا، جن کی بے لوث خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ ان کی خدمات سے لوگ متعارف نہیں ہیں۔ اس کام کے لیے ہم اتوار کی صبح یوپی کے ضلع بلند شہر جا پہنچے۔ منتخب شخصیت سے فون پر پہلے ہی بات ہو چکی تھی۔ ہم اپنی متعین مقام پر پہنچے تو ڈاکٹر ظفر الاسلام خان تھوڑی دیر بیٹھ کر، اپنے کسی کام سے ایک دوسری جگہ چلے گئے اور بات چیت کے لیے مجھے ان کے یہاں چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام نے ایک ’’رف آوٹ لائن‘‘ پہلے ہی بنوا دی تھی، کہ کہاں سے بات شروع کرنی ہے اور کیا کیا پوچھنا ہے۔ رسمی خیر خیریت کے بعد ہمارے درمیان بات چیت شروع ہوئی۔ میں ان سے پوچھتا کچھ تھا، وہ جواب کچھ دیتے تھے۔ مجھے احساس ہو گیا، کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں، لیکن ایسا کیوں کر رہے ہیں، یہ میری سمجھ سے بالا تھا۔ وہیں سامنے ان کے بیٹے، بھتیجے اور کچھ رشتے دار بھی موجود تھے۔

میں نے جب پوچھا، ’’آپ اپنے بچپن اور خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیے، جس وقت آپ نے ہوش سنبھالا ملک کی حالت کیسی تھی؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، ان کا بڑا بیٹا انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ارے! کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں، تم کو اس سے کیا مطلب؟ تم کون ہو اور کیوں پوچھ رہے ہو یہ سب؟‘‘ اس نے میرے ہاتھ میں سیل فون دیکھا تو کہنے لگا، ’’اچھا! تو تم ریکارڈ بھی کر رہے ہو!‘‘ یہ کہتے میرے ہاتھ سے میرا فون جھپٹ لیا اور ریکارڈنگ ڈیلیٹ کردی۔ میں بالکل سٹپٹا گیا؛ کیوں کہ اس طرح کے سلوک کی مجھے قطعا امید نہ تھی۔ تمام باتیں تو آنے سے پہلے ہی فون پر طے ہو گئی تھیں؛ پھر یہ کیا ماجرا ہے! میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کو کیا جواب دوں۔ وہ جوان لحیم شحیم، مضبوط اور توانا تھا۔ مجھے لگا کہ کہیں وہ مجھے دو چار ہاتھ ہی نہ جڑ دے۔ مجھے حیرانی اس بات پر بھی تھی، کہ اس دوران بزرگ محترم کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کررہے تھے، جس سے ان کے بیٹے کی تشفی ہوتی۔ میں نے اس کو سکون سے بیٹھنے کے لیے کہا اور پوری تفصیل سے آگاہ کیا؛ آمد کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہا کہ میں یہ سب کام اپنے ذاتی غرض کے لیے نہیں کر رہا، اور نا ہی اس میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کوئی شخصی مفاد ہے؛ بلکہ اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے کہ لوگ ان کو جانیں گے، ان کا نام ہوگا۔ لیکن وہ انتہائی غصے میں تھا، اور اسی حالت میں پتا نہیں کیا کیا بولے چلا جا رہا تھا۔ ’’ہمیں نہیں چاہیے نام وام۔‘‘ یہ سب دیکھ کر میں نے اپنا سامان سمیٹتے کہا، ’’ٹھیک ہے، اگر آپ نہیں چاہتے، تو میں بند کر دیتا ہوں۔‘‘ یوں میں نے اپنی تمام چیزیں سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیں۔

ابھی میں گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھا، کہ کیا کیا جائے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو تفصیل بتاتا تو وہ ناحق پریشان ہوتے اور اپنا کام ادھورا چھوڑ کر جلد ہی لوٹ آتے۔ اس درمیان ظہر کی اذان کی آواز آئی۔ میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا رہا، پھر سوچا کیوں نہ مسجد جایا جائے۔ میں پوچھتے پاچھتے مسجد پہنچ گیا۔ وضو کیا اور صحن کو عبور کرتے ہوئے اس حصے میں داخل ہوا، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسجد میں اکا دکا لوگ دکھائی دے رہے تھے؛ ابھی نمازیوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ میری نظر ایک باریش پر گئی، جو کرتا اور لنگی پہنے ہوے تھا۔ ماشاء اللہ! خاصی لمبی ڈاڑھی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ حال حلیے سے مسجد کا امام لگ رہا تھا۔ میں اس کے قریب گیا، سلام کیا اور پوچھا، ’’جناب! جماعت کتنے بجے ہے؟‘‘ اس نے میرے سلام کا جواب بھی نہ دیا، اور انتہائی رعونت سے میری جانب دیکھا۔ میں جینز شرٹ پہنے ہوئے تھا؛ داڑھی بھی چھوٹی تھی، جو شاید اسے بری لگی۔ نہایت کریہہ لہجے میں ٹوکری نما پلاسٹک کی ٹوپیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’مسجد کا احترام لازم ہے، پہلے سر پر ٹوپی رکھ لو۔‘‘ مجھے اس کا یہ انداز بہت برا لگا؛ تعجب بھی ہوا۔ موڈ تو پہلے سے خراب تھا، جی میں آئی، کہ اس کو سخت جواب دوں، لیکن پھر کچھ سوچ کر تلخ جواب نہ دیا؛ فقط اتنا کہا کہ ٹوپی نماز کا حصہ نہیں ہے اور سنت پڑھنے کے بعد مسجد کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ ابھی جماعت کھڑی ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ میں نے دیکھا؛ وہی باریش ایک دوسرے باریش سے کچھ کھسر پھسر کر رہا ہے۔

مسجد میں بہت سے نمازی اکٹھے ہو چکے تھے۔ جماعت کھڑی ہونے لگی تو وہی شخص کھڑا ہوا اور زور سے چیخ کر کہنے لگا، ’’جناب! ٹوپی پہننا سنت ہے اور بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنا مکروہ، اور مکروہ حالت میں جان بوجھ کر نماز پڑھنا حرام ہے۔‘‘ سب نمازی مجھے خشمگین نظروں سے گھور رہے تھے، جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ (سچ مچ میں کسی اور دنیا کا باسی تھا) میں سوچ رہا تھا، ’’یا اللہ میں کہاں آکر پھنس گیا۔ کیا تیرے گھر میں بھی امان نہیں ہے؟‘‘ بہرحال جیسے تیسے نماز ادا کی۔

انجان جگہ تھی نماز تو پڑھ لی اب کہاں جاتا؟ کیا کرتا؟ سوچا وقت گزاری کے لیے تھوڑی دیر قران ہی پڑھ لوں۔ سامنے رکھے ریک سے قرآن اٹھایا، جلد گرد آلود تھی، اس کو جھاڑا اور ایک طرف بیٹھ کر دل ہی دل میں تلاوت کرنے لگا، لیکن مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی، کہ ایک شخص میرے سامنے داروغے کی طرح آن کھڑا ہوا۔ کہنے لگا، ’’قرآن پیچھے ہو رہا ہے، آپ قرآن کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ آگے ہو کر بیٹھ جائیے۔‘‘ اس کے سرزنش کرنے پر میں نے اپنا رخ تبدیل کر لیا، لیکن اب میرا دل و دماغ پر بیزاری طاری ہو گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا، کیا اسی اسلام کی تعلیم لے کر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تھے؟ ذرا تصور کیجیے، اگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو حکمرانی دے دے، تو پھر وہ کیا کیا غدر نہ مچائیں گے!

طبیعت بالکل مکدر ہوگئی تھی۔ قرآن ہاتھ میں پکڑ کر مسجد ہی میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند لیں۔ تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ میزبان کا دوسرا بیٹا مجھے تلاش کرتے مسجد آن پہنچا۔ آتے ہی کہا، ’’چلیے کھانا کھانے۔‘‘ اس کوفت کی حالت میں کھانا کیا کھاتا، سو میں نے کہا، ’’میں تو کھانا کھا چکا ہوں۔‘‘ وہ بہت ضد کرنے لگا لیکن میں نے بھی ہٹ نہ چھوڑی۔ پھر وہ انتہائی لجاجت سے کہنے لگا، ’’اچھا چلیے! گھر چلتے ہیں۔‘‘ اس کی باتوں میں کچھ اپنائیت بھی تھی اور کچھ ندامت بھی۔ میرا دل پگھل گیا اور میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ گھر پہنچا تو سبھی ایک مرتبہ پھر کھانے کے لیے ضد کرنے لگے، لیکن میں نے کھانا نہیں کھایا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا بڑا بھائی، جس نے بد تمیزی کی تھی، مجھ سے معافی مانگنے لگا اور کہا۔

’’مجھے اس طرح نہیں بولنا چاہیے تھا، غصے میں بول دیا۔ آپ کو برا لگا اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
میں عجیب مخمصے سے گزر رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘

پھر اس نے اپنی داستان سنانا شروع کی۔ ’’چالیس سال سے ہم مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ اب نہیں چاہتے کہ کوئی اور مصیبت جھیلیں۔ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے ایک غیر ملکی کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ابا ہجرت کر کے لندن چلے گئے۔ ہم سب کی پیدائش وہیں ہوئی تو ہم بھی غیر ملکی ٹھہرے۔ ہر قدم پر پہرے ہیں، سازش ہے، ہم کوئی بزنس نہیں کر سکتے، ہم کہیں اپنی آواز نہیں رکھ سکتے، ہم ووٹ نہیں دے سکتے، ہمارے بارے میں من گھڑت اور فرضی رپورٹس اور کوئی نہیں اپنے ہی بھائی بند ایجنسیوں تک پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اگرچہ آپ مثبت مقصد سے لکھیں گے لیکن چالیس سال کے بعد جس مصیبت سے ہم باہر نکلے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ اس عمر میں آکر پھر کسی نئی افتاد میں جا پھنسیں۔ شاید اسی احساس کی وجہ سے میں آپ کو ایسا بول گیا، مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘

وہ اپنی کہانی سنا کر چلا تو گیا، مگر میں ایک ایسے دو راہے پر کھڑا تھا، جہاں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔

یہ دونوں واقعات اگرچہ معمولی ہیں، لیکن ان کے اندر جھانک کر دیکھیے تو آپ کو حقیقت سمجھ آ جائے گی۔ دونوں واقعوں میں قوم کے لیے سبق ہے۔ ایک طرف ہم نے اسلام کی ایسی شبیہہ بنائی ہے، جہاں جہالت اور تشدد ہی تشدد ہے، برداشت کا مادہ نہیں۔ دوسری طرف مخالف ہم سے برسرِ پیکار ہے لیکن ہم نوشتہ دیوار پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ اے کاش! ہم نوشتہ دیوار پڑھتے، اپنے اندر لچک پیدا کرتے، دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑتے، تو آج جن حالات سے دو چار ہیں، یقیناً یہ دن ہمیں دیکھنے نہ پڑتے۔

http://www.humsub.com.pk/74456/muhammad-alamullah-3/

۔۔۔مزید

وزیر اعظم ہند جناب نریندر مودی کے نام کھلا خط


عزت مآب وزیر اعظم ہند جناب نریندر دمودر داس مودی صاحب

آداب و تسلیمات

سارے ہندوستان نے کل اکہترواں یوم آزادی کا جشن منایا۔ آپ نے صبح صبح لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سی باتیں کی ہیں، وہیں یہ بھی کہا کہ نیا ہندوستان جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جمہوریت صرف ووٹ تک محدود نہیں ہے۔ نئے ہندوستان کی جمہوریت ایسی ہوگی جس میں نظام کے بجائے عوام سے ملک چلے گا۔ آپ نے فرمایا، ملک کی سلامتی آپ کی اولین ترجیح ہے؛ ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے حوصلے پست کرنے کے آپ اہل ہیں۔ آپ نے خاصے دنوں کے بعد ملک میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ کا بھی ذکر کیا اور کہا ہے کہ عقیدے کے نام پر تشدد کو ملک میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ ملک امن، اتحاد اور خیر سگالی سے چلتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہماری تہذیب اور ثقافت ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں مجھے آپ کی باتوں کا عوامی سطح پر کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ تین سال قبل جب آپ اقتدار میں آئے تھے، اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی باتیں کی تھیں مگر حالات دن بدن بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ آپ نے جو وعدے کیے تھے، وہ محض وعدے ہی رہے، جن سے ہم جیسے نوجوان تشویش میں مبتلا ہیں اور اسی تشویش نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں آپ کو خط لکھوں۔

گزشتہ کئی روز سے میرے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات ہیجان برپا کیے ہوئے ہیں اور میں انھیں جھٹک کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرتا ہوں۔ صبح سے شام تک اٹھتے، بیٹھتے، کھاتے پیتے، آفس میں کام کرتے ہوئے، ہرجگہ، ہر لمحہ، یہ پریشان خیالی مجھے اطمینان نہیں لینے دیتی؛ ڈھیروں سوالات جنم لیتے ہیں مگر کسی سوال کا کوئی جواب سمجھ نہیں آتا؛ بس ہر طرف وحشت اورتاریکی نظر آتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مشعل بردار نہیں، کوئی خضر راہ نہیں۔ ایک عجیب خوف ہے، سراسیمگی ہے، بے یقینی اور تذبذب ہے یہ تمام چیزیں دل کے نہاں خانوں میں جاکر ایک ایک کونا پکڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ میں اپنے سوالات کے جوابات تلاش کرنے سے پہلے ہی بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہوں؛ اس لیے نہیں کہ مجھے کوئی بیماری ہے یا میرا کوئی بہت قریبی عزیز مر گیا ہے، یا مجھ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے۔ خدا کا شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تو پھر میں اس قدر پریشان کیوں ہوں؟۔ بظاہرمیرا بہت بے باک قلم بھی جو میں سوچ رہا ہوں اس کو لکھنے سے کترا رہا ہے، مصلحت سے کام لینے کے لیے کہ رہا ہے۔ اسے ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں جذبات کی رو میں کوئی ایسی بات نہ لکھ دوں جس سے آپ کی شان میں کوئی گستاخی ہو جائے اور اس کی وجہ سے مجھے”غدار وطن“ کہہ کر میرے قتل کو جائز قرار دے دیا جائے۔

لیکن یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ یہ نہ لکھنے سے پہلے، کون سا مجھ کو دیش بھکتی (محب وطن) کا سرٹیفیکٹ مل گیا تھا؟ پھر ڈر کیسا؟ کیوں؟ یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم! اگرآپ کہتے ہیں کہ یہ واہمہ ہے تو خدا کرے کہ یہ واہمہ ہی ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہماری یہ حالت اسی طرح کے واہموں میں گرفتار رہنے کا نتیجہ ہے۔ آج میں ان واہموں سے باہر نکلنا چاہتا ہوں اوراس خوف و بے چینی کی وجہ تلاش کرنا چاہتا ہوں جس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میں ایک آزاد ملک میں رہتے ہوئے آزاد ہوں یا زندگی کسی کولیٹرل ڈیمیج کے کنٹینر میں حصار بند ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں پرورش و پرداخت پانے کے باوجود’سرودھرم سمبھاؤ ‘والے اس قدیم ترین تہذیبی ملک میں، مجھے اجنبیت کا شکار کیوں ہونا پڑ رہا ہے، یا شکار بنایا جارہا ہے!؟ کیوں؟

مجھ جیسا ایک اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والا نوجوان اس محتاط پرندے کی طرح کیوں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جو دانا چگتے ہوئے چاروں طرف نظر رکھتا ہے کہ مبادا کوئی اس پر حملہ نہ کر دے! کوئی شکاری اسے جھپٹ نہ لے، اس کی آزادی پر قدغن نہ لگادے، اس کا حصہ اس سے چھین نہ لے۔ شاید اس وجہ سے وہ ایک ایسی بستی میں رہنا پسند کرتا ہے، جہاں نوے فی صد سے زیادہ اس کے اپنے بھائی بند رہتے ہیں۔ یعنی کہ گھیٹو (Ghetto) میں رہتا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو کسی زمانے میں مشرقی یورپ کی یہودی بستیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب یہ لفظ ہماری اجتماعی حالت کی علامت بن چکا ہے۔ وہ گھیٹو میں رہتا ہے پھر بھی اسے یہ خوف ستاتا رہتا ہے کہ خدا جانے کب پوری بستی کو خاک و خون میں نہلا دیا جائے؟ کب بم بلاسٹ کرا کے پورے علاقہ کو تباہی و بربادی کے دہانے پر دھکیل دیا جائے۔ کب اس کے آشیانے کو تہس نہس اور برباد کر دیا جائے۔

اپنے آبائی وطن یا دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہوئے ٹرین اور بس میں وہ کیوں بہت محتاط ہو جاتا ہے؟ گھر سے نکلتے وقت ماں بار بار یہ کیوں کہتی ہے ذرا جی بھر کے دیکھ لینے دو، پھر ملاقات ہوگی یا نہیں کون جانتا ہے؟ زمانہ بہت خراب ہو گیا ہے۔ بوڑھے ابو جو کبھی اسٹیشن چھوڑنے کے لیے نہیں آتے تھے، اب کیوں آتے ہیں؟ اور کیوں بار بار یہ کہتے ہیں کہ سفر میں کسی بھی موضوع پر کسی سے بھی مباحثہ، بات چیت یا الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ بہن کیوں کہتی ہے، بھیا! اردو کی کتاب بیگ میں رکھ لیجیے آپ کو ٹرین میں پڑھنا ہی ہے تو یہ والی ہندی کتاب یا وہ انگریزی کتاب اوپر رکھیے؛ ٹرین میں اسی کو پڑھیے گا۔ گھر ایک دن نہ فون کرنے پر امی، ابو اور گھر والے سب تشویش میں کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں؟ مزید پڑھائی کی چاہ میں دیر گئے رات تک اگر کسی دن لائبریری میں رک جانے کا منصوبہ بن جائے اور احباب کو نہ بتایا ہو تو وہ کیوں پریشان ہو جاتے ہیں کہ اتنی دیر تک کمرے میں واپس کیوں نہیں لوٹے؟ کہیں کسی پولِس یا اسپیشل سیل والوں نے اٹھا تو نہیں لیا؟ کرتا پاجامہ اور شلوار پہن کر سفر کرتے ہوئے اسے خوف کیوں آتا ہے؟ ایک طالب علم ہونے کے ناطے وہ دنیا جہان کے لوگوں سے بات کر سکتا ہے لیکن علم کی طلب کے لیے بہت معتبر اور علم و ادب کے پرستار سینیر اور بڑے پاکستانی فن کار، استاد، ادیب یا قلم کار سے فیس بک پر بھی علمی باتیں کرتے ہوئے اسے دھڑکا کیوں لگا رہتا ہے کہ جانے کب اس کی کون سی بات کو داستان بنا دیا جائے، اور کب اس کی یہ علمی چاہ اسے جیل کی کال کوٹھری میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دے؟

گھر میں بھائی ابو کو کیوں کہتا ہے: ابا! اب آپ گوشت کے شوق کو چھوڑ ہی دیجیے، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم گوشت کھائیں، آپ گرچہ بہت چھپا کے کاغذ اور پلاسٹک میں لپیٹ کر گوشت لے آتے ہیں، مگر لوگوں کو تو بس بہانہ چاہیے؛ نہیں دیکھتے، آئے دن جنونی ہجوم کس طرح نہتے مسلمانوں کو تشدد اور قتل کا نشانہ بنا رہا ہے، ہم سبزی سے ہی کام چلا لیں گے۔

میری امی کو پتاہے، کہ مجھے بریانی بہت پسند ہے اور وہ توشہ میں لے جانے کے لیے بریانی بناتی ہیں، پیک بھی کر دیتی ہیں، پھر جانے کیا خیال آتا ہے اور بریانی میں سے سارے گوشت چن لیتی ہیں، کیوں کہ پتا نہیں کب، کیا حادثہ پیش آ جائے؟

دہلی جیسے مرکزی شہرمیں آٹو والا جس علاقے میں پہلے ہی سے خوف زدہ نوجوان رہتا ہے، وہاں نہیں جانا چاہتا؛ اسے لگتا ہے کہ اس علاقے میں دہشت گرد بستے ہیں۔ حیدر آباد جیسے بڑے شہر میں اسے کمرہ اس لیے نہیں ملتا کہ وہ مسلمان ہے۔ اپنی شناخت چھپا کر وہ ایک جگہ کرائے کا مکان لینے میں کام یاب بھی ہو جاتا ہے مگر جیسے ہی مالک مکان کو پتا چلتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، اسے جلد از جلد کمرہ خالی کر دینے کا الٹی میٹم دے دیا جاتا ہے۔ اس کے ایک رشتے دار کی بچی جوعلاقے کے معروف انگریزی میڈیم اسکول میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم ہے اور جس نے ابھی دنیا نہیں دیکھی ہے اور جو ابھی زمانے کے اتار چڑھاو سے بھی واقف نہیں ہے، اس بات پرخوشی کا اظہار کرتی ہے کہ اس کا نام 'ماریہ' ہے اور اسے یہ نام اس لیے پسند ہے کہ اس کا نام عیسائیوں جیسا ہے اور وہ اپنے اسکول کے بچوں کو نہیں بتانا چاہتی کہ وہ مسلمان ہے مبادا وہ بھی ان مسلم بچوں کی طرح عتاب کا شکار ہو جائے جن کے بارے میں وہ اکثر سنتی رہتی ہے۔

لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، واقعات و حادثات کی ایک لمبی فہرست؛ جسے واقعی اگر نوک قلم پر لانے لگوں تو ایک دفتر تیار ہو جائے، لیکن پھر بھی میرے اور میرے جیسے ان لاکھوں نوجوانوں کے سوالوں کا جواب نہیں مل سکے گا جو ہر دن انتہائی کرب کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں؛ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں ان کی مرضی کے مطابق ملازمت نہیں ملتی۔ انھیں شک و شبہ اور تجسس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جاتے ہیں؛ ان کے اداروں کو قومی دھارے سے الگ کہہ کر دہشت گردی کا اڈہ کہا جاتا ہے۔ ان کے گھروں میں گھس کرچولھا، فریج اور دیگچی کو چیک کیا جاتا ہے کہ اس کے گھر میں کیا پکا ہے؟

کہاں تک سنیے گا اور کہاں تک سناؤں!؟ لیکن نہیں! سنیے! کہ زندگی حادثہ ہوتے ہوتے کیسے بچی ہے؛ ہم رائیگاں کے ریگ زار میں رزق خاک ہونے سے کیسے بچے؟ عید کا دوسرا دن ہے۔ میں اور میرا دوست وسیم اکرم شہر رانچی سے ایک دوسرے شہر لوہردگا اپنی بہن کو لینے جا رہے ہیں؛ ابھی شہر رانچی کی سرحد میں داخل ہی ہوئے ہیں کہ دیکھتے ہیں، ایک ہجوم سامنے ہے۔ زعفرانی لباس میں ملبوس جنونیوں کا ہجوم 'جے شری رام' کے نعرے لگا رہا ہے؛ ہجوم کے ہاتھوں میں تلوار، بلم، لاٹھی، ڈنڈا اور تیل کے کنستر ہیں؛ وہ ہر گاڑی والے کو روک کر چیک کر رہے ہیں، لوگوں کو نکال کر مار رہے ہیں، انھیں آگ کے حوالے کر رہے ہیں۔میں موت کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں؛ موت کبھی بھی ہماری گاڑی کے شیشے پر دستک دے سکتی ہے۔ اب ہم بچنے والے نہیں ہیں۔ وسیم تسلی دیتا ہے گھبراو نہیں، سورہ رحمٰن کی تلاوت کرو، ان شا اللہ کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے جتنی دعائیں یاد تھیں سب کا ورد کر ڈالا۔ صد شکر خدا نے سن لی! میں نے اپنے کانوں سے یہ آواز سنی : ”یہ اپنے لوگ ہیں، کٹوا نہیں ہیں سالے! آگ مت لگانا“۔

وسیم نے کسی طرح گھسٹتے ہوئے اسٹیرنگ گھمایا اور ایک تھانے کے پاس آ کر گاڑی روک دی۔ وہ گاڑی میرے استاد مولانا نسیم انور ندوی کی تھی اور انھوں نے چند روز پہلے ہی ایک ہندو بھائی سے خریدی تھی ۔ اس کے آگے 'جے ماتا دی' لکھا ہوا تھا۔ کیا اگر گاڑی پر 'جے ماتا دی ' نہ لکھا ہوتا تو ہم مار دیے جاتے؟ ہاں! مار دیے جاتے۔

مجھے معلوم ہے، میری اس تحریر پر میرے بہت سے اپنے ہی اعتراض کریں گے، لیکن اگر وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے، تو میرے خیال سے خود کو متفق پائیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کتنے ہی بلند بانگ دعوے کرلیں، اپنی قدیم تہذیب و ثقافت، تعددیت ، عقیدہ، مساوات اور سرو دھرم سمبھاو کی باتیں کرلیں، ہر جگہ یہ کہتے پھریں، کہ مجھے”بھارتیہ“ ہونے پر’گرو‘ ہے، لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں میرے لیے اب یہ صرف چند کھوکھلے الفاظ ہیں؛ معنویت سے عاری کلیشے ہیں۔ جب اس قسم کے بے روح الفاظ میری سماعت سے ٹکراتے ہیں تو دل کڑھتا ہے، غصہ بھی آتا ہے اور شرم بھی کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہمیں ان پر فخر محسوس کرنا چاہیے یا شرم۔

یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی، کہ سچر کمیٹی، مشرا کمیشن، کنڈو کمیٹی اور نہ جانے اس قسم کی کتنی ان گنت کمیٹیوں کی سفارشات ہمیں ہماری حالت بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم دلتوں سے بھی بد تر ہیں، ہم آئے دن کے فسادات کی نذر ہوتے ہیں، جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر ہمارے نوجوانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔عدالت عالیہ سالوں گذرنے کے بعد ان کو معصوم قرار دیتی ہے لیکن کوئی معافی نہیں مانگی جاتی ، کوئی معاوضہ نہیں ملتا، کوئی سعی غم خواری نہیں کی جاتی۔ ایک جانور کے مرنے پر پوری حکومت اور اس کے کارندے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، لیکن ایک انسان کی موت پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا! کیا پھر بھی میں یہ کہوں کہ مجھے ایک ہندوستانی ہونے پر فخر ہے؟ پتا نہیں کیوں، مگر مجھ سے یہ کہا نہیں جاتا کہ مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں منافقت کر رہا ہوں؛ خود کو شاید جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کر رہا ہوں اور کچھ بھی نہیں!

میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پڑھائی کی ہے، سنا ہے اب آپ کی حکومت اس کا اقلیتی کردار بھی ختم کرنے جا رہی ہے اور اس کے لیے آپ کی حکومت سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرے گی۔ اگر اس کا اقلیتی کردار ختم ہو گیا تو ہم جیسے نوجوان کہاں جائیں گے، جہاں بہت ساری جگہوں پر صرف ہماری شناخت دیکھ کر داخلہ نہیں دیا جاتا۔ پھر ہم غریبوں کے پاس اتنی رقم بھی تو نہیں ہوتی کہ ہم بڑی یونیورسٹیوں میں موٹی رقم دے کر پڑھائی کر سکیں۔ آپ ہمیشہ ' سب کا ساتھ سب کا وکاس' کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔

آپ نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کے درمیان اِس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ ”ہمیں فرقہ پرستی اور نسل پرستی“ سے آزاد ہوناہے ۔ اس 'خواب' کو حقیقت میں بدلنے کا ’سپنا‘ آپ کس انداز میں دیکھ رہے ہیں، مجھے اس کا اندازہ نہیں ہے، لیکن اِس بات کا اندازہ مجھے ضرور ہے کہ 'فرقہ پرستی' اور 'نسل پرستی' کے خلاف اب تک کہی گئی آپ کی باتوں پر خود آپ کے نام لیوا بھی عمل نہیں کر رہے ہیں! حال میں جتنے بھی ایسے ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ہیں، اُن میں سے زیادہ تر معاملوں میں میڈیا کی زبانی جو خبریں سامنے آ رہی ہیں، اور ایسے معاملوں میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، اُن میں سے کئی معاملوں میں کوئی دوسرا نہیں بلکہ خود آپ کی جماعت سے جڑے ہوئے لوگوں ہی کو پولِس نے پکڑا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو آپ کے خوش کن نعرہ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ کا عملاً مذاق اُڑا رہے ہیں۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کی فکرمندیاں، آپ کی وارننگ اور آپ کی پھٹکار کے باوجود ایک خاص طبقے کے 'وناش' کی کوشش کیسے ہورہی ہے؟ میری باتوں پر اگر آپ کو یقین نہ آئے تو 'عدم تحفظ'کے شکار لوگوں کے 'من کی بات' آپ خود سن لیجیے! اپنی اُس ’رعایا‘ کو جسے جمہوری لفظوں میں ”عوام“ کہا جاتا ہے،”جنتا “پکارا جاتا ہے، اور جس کا تعلق بطور خاص مسلم طبقے سے ہے، کے ’دردِ دل‘ کوآپ نہیں سنیں گے، تو آخر کون سنے گا؟ آپ پردھان سیوک ہیں؛ آپ کے ’من کی بات‘ ہم سب سنتے ہیں؛ ہمارے ’من کی بات‘ آپ بھی تو سن لیجیے!

امید کرتا ہوں کہ آپ میری فکرمندیوں پر توجہ دیں گے اور میرے جیسے ان لاکھوں نوجوانوں کے اضطراب کو دور کرنے کے لیے جلد از جلد کوئی عملی اقدام کریں گے۔

آداب

ہندوستان کا ایک دکھی ناگرک

محمد علم اللہ ، نئی دہلی

http://www.humsub.com.pk/73751/muhammad-alamullah-2/

۔۔۔مزید

اردوصحافت اپنا وقار کیوں کھو رہی ہے؟ ایک دلچسپ مباحثہ

اردوصحافت اپنا وقار کیوں کھو رہی ہے؟ ایک دلچسپ مباحثہ
آئی بی سیاردو نیوز

ہندستان کے نوجوان صحافی محمد علم اللہ نے اپنی فیس بک وال پر کچھ دن قبل اردو صحافت کے زوال پر ایک بحث چھیڑی اور اردو اخبارات میں‌ شائع ہونے والے مواد کی سطحیت پر کچھ سوال اٹھا کر احباب کو اپنی رائے دینے کے لیے کہا ، علم اللہ کے سوالات کو صحافتی اور علمی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے سنجیدہ لیا اور اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں آراء دیں . (مدیر)
:محمد علم اللہ نے اردو صحافت کے بارے میں لکھا:
گذشتہ دنوں میرے دوست اور ‘دی وائر’ اردو کے ایگزی ‘کیٹیو ایڈیٹر’ جناب مہتاب عالم کے توسط سے وائر اردو کے لئے کچھ مضامین کے تراجم اور کچھ کی ادارت کا اتفاق ہوا ۔ اس درمیان میں نے ایک چیز شدت سے محسوس کی کہ ہندی اور انگریزی میں صحافت کافی بالغ، پختہ، وقیع، معلوماتی اور مضبوط ہے جبکہ ٹھیک اس کے برعکس اردو میں انتہائی سطحی ،کمزور اور لاغر ۔
بلا مبالغہ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اردو میں مہینوں بلکہ کبھی تو شاید برسوں میں ایک آدھ مضامین اس قدر وقیع ،علمی اور معلوماتی پڑھنے کو ملتے ہیں جن کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ ہاں واقعی طبیعت کو سیری حاصل ہوئی یا کچھ نیا سیکھنے کو ملا ۔
اس احساس کا اظہار میں نے اردو کے اپنے دو سینئر احباب اور صحافی جناب ‘شاہد الاسلام’ اور’جناب اشرف بستوی’ سے کیا تو انھوں نے بھی میرے خیال کی تائید کی ۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ یہاں پر میں اردو کے قلم کار ،صحافی ، محققین اور مدیران کو بھی ٹیگ کررہا ہوں اس امید کہ ساتھ کہ وہ کچھ وجہ ضرور بتائیں گے اور کم از کم اپنے اخبارات میں اس کمی کو دور کرنے کی سعی کریں گے .
اس پوسٹ پر مختلف جہات سے آراء کا تبادلہ ہوا جو ان سطور میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
ہندستان میں کچھ لوگ ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں
ظفر عمران نے کہا:اس کی وجہ واضح ہے۔ ہندستان میں اردو رسم الخط سیکھنے سے روزگار میں مدد نہیں ملتی، یہ تو کچھ لوگ ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں جہاں کہیں سے مواد ملتا ہے، لے لیتے ہیں، کیوں کہ اردو اخبار کم بکتے ہوں‌ گے، کم اشتہار ملتے ہوں‌ گے ، ان کے بجٹ نہیں ہوتے کہ لکھنے والوں کی مدد لیں.
اخبار مالکان قلم کار کو کوئی محنتانہ نہیں‌دیتے
مکرم نیاز نے ظفر عمران کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا:اردو اخبار بکتے بھی ہیں اور سرکاری/غیر سرکاری اشتہار بھی انہیں ملتے ہیں ۔ چند بڑے اخبار مالکان کے پاس بجٹ بھی مناسب ہوتا ہے کہ قلمکار کو معاوضہ دیں مگر نہ وہ قلمکار کو کوئی محنتانہ دیتے ہیں اور نہ ہی معاوضہ دے کر قلمکاروں سے مخصوص موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں

اردو اخبارات کے قارئین کو خطابت اور نعرے بازی کی عادت پڑچکی ہے
عاطف کے بٹ نے کہا:خطابت اور نعرے بازی دو ایسے بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر اردو صحافت چلتی ہی نہیں ، برسوں بلکہ عشروں سے قارئین کو ان دونوں چیزوں کی عادت پڑچکی ہے، لہٰذا اردو میں آپ کو سنجیدہ، وقیع اور پختہ قسم کی چیزیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ جب تک ان دونوں عناصر سے جان نہ چھڑائی جائے تب تک اردو صحافت سے سنجیدگی اور پختگی کی کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
ہندوستان میں اردو صحافت صرف مسلمانوں کے مسائل کی عکاسی کرتی نظرآتی ہے
جاوید نہال ہاشمی کہتے ہیں:جس طرح ہندوستان میں اردو زبان ایک مخصوص قوم کی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اسی طرح اردو صحافت بھی صرف مسلمانوں کی نمائندگی کرتی اور ان ہی کے مسائل کی عکاسی کرتی نظرآتی ہے۔ اس کے موضوعات میں تنوع نہ ہونے کا سبب اس کا parochial ہونا ہے۔ یعنی اپنی قوم سے باہر کے مسائل پر بہت کم لکھا جاتا ہے۔
اگر معاوضہ اچھا دیا جائے تواردو کا صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر کوریج کرسکتا ہے
یحیی خان اردو صحافت کی صلاحیت سے مایوس نہیں ہیں ، ان کے بقول : اردو صحافت میں لکھنے والے بہت ہیں اور وہ مکمل حوالوں کے ساتھ لکھیں گے ، بہترین لکھیں گے ! لیکن ان دنوں کوئی بھی اردو اخبار بے باک اور تحقیقاتی رپورٹس کو شائع کرنے سے گھبرارہا ہے ( بعض معاملات میں تو اشخاص اور اداروں کو تحقیقاتی رپورٹ بتاکرہی سودہ بازی کرلی جارہی ) اب کون آگے آئے گا لکھنے کیلئے . اردو صحافت اعراس شریف ، مجالس ، دیوان خانوں کے مشاعروں کی خبروں کی جانب واپس لوٹ رہی ہے ، اگر کوئی نمائندہ کہیں سے خبریں لابھی لیتا ھے تو دیگر ” نااھل” ساتھیوں کے حسد کا شکار ہو جاتا ہے ،اور شکاتیں شروع ہوجاتی ہیں کہ ان کو ہی فوقیت دی جارہی ہے دیگر زبانوں کے اخبارات باقاعدہ بھاری معاوضہ دے کر مضامین حاصل اورشائع کرتے ہیں اور موضوعات دے کر مضامین لکھواتے ہیں ۔ چند اردو اخبارات تو اب مفت میں راوش کمار کی خبروں کا اردو ترجمہ کرکے شائع کررہے ہیں اور جہاں سے یہ مضمون / ویڈیو اٹھایا ہے ان کیلئے ” بشکریہ ” تک نہیں لکھ رہے ! اب پڑوسی ملک کے مضامین پر تو ایسے ہاتھ صاف کیا جارہا ہے جیسے کہ تقسیم کے وقت معائدہ ہوا تھا کہ ایسا کرسکتے ہیں !
یحییٰ خان نے ایک اور رائے کا جواب دیتے ہوئے مزید کہا: ممبئی کااردو کا مفلس صحافی بھلا جھارکھنڈ جاکر کیسے کچھ کور کرسکتا ہے !! مقامی کوریج کیلئے جانے کے لئے اس کو ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں دیا جاتا !! اور نہ ہی بیچارے کی اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ اپنی کار / ٹو وھیلر مینٹین کرسکے ، سب مقامات کا یہی حال ھے جناب والا ۔۔۔! اگر معاوضہ اچھا دیا جائے تو جھارکھنڈ تو کیا اردو کا صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر کوریج کرسکتا ہے !
اردو میں صحافت نہیں ہے، محرری اور چوری چماری ہے
محمد ہاشم خان نے کہا:انگریزی والوں کو مضمون لکھنے کے جتنے پیسے ملتے ہیں اس حساب سے وہ گھٹیا مضامین لکھتے ہیں، اردو والوں کے پاس پیسے نہیں سو ان کی ساری صحافت فرض کفایہ ہے. کچھ یہاں سے چرا لیا اور کچھ وہاں سے. مجھے اس مفروضے”اردو میں صحافت ہے ” پر اعتراض ہے . اردو میں صحافت نہیں ہے، محرری اور چوری چماری ہے، آپ نے کب کسی اردو صحافی کو کسی اہم جائے حادثہ پر دیکھا ہے؟ کوئی ایسی مثال کہ ممبئی کا کوئی صحافی کسی حادثے کو کور کرتے ہوئے جھارکھنڈ میں آپ کو ملا ہو؟
ای ٹی آئی ، پی ٹی آئی . رائٹر ، اے ایف پی، اے پی (اخباری ایجنسیاں )سب ان کے ڈیسک پر سجدہ ریز ہوتے ہیں. اردو اخبارات کے 99 فیصد مالکان کمیونٹی سوداگر ہیں ، جو صحافت کی اخلاقیات سے بس اتنا ہی واقف ہیں کہ جہاں جس قیمت پر موقع ملے بیچ سکیں. پاکستان کی اردو صحافت اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے کہ تمام سرکاری مراعات اور عوامی حمایت (عوامی حمایت ریڈرشپ کے معنی میں ہے) وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے ، نیز زرد صحافت حاوی رہی. وہاں کے اداریے پڑھتا رہتا ہوں. معذرت خواہ ہوں کہ کوئی خاص کیفیت نہیں پیدا کرتے. بہت کچھ ہے کہنے کے لیے کہاں تک سنو گے اور کہاں تک ہم سنا پائیں گے.

مواد اور خیالات کے حوالے سے یہاں کی صحافت کو بھی بہت اعلی قرار نہیں دیا جا سکتا
اقبال حسن کا کہنا تھا:میری نظر سے آپ (ہندوستان )کے اردو اخبارات کم گزرے ہیں اس لیے قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا عبث ہے لیکن پھر بھی غنیمت جانیے کہ اسی بہانے اردو زندہ ہے۔مواد اور خیالات کے حوالے سے یہاں کی صحافت کو بھی بہت اعلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ادارتی تحاریر تک بعض اوقات زبان و بیان کے تعلق سے معیاری نہیں ہوتیں۔یہ امر میرے لیے ہمیشہ باعث تعجب رہا کہ اردو کو مسلمان کی زبان فرض کر لیا گیا ہے جبکہ یہ ہندوستانی زبان ہے۔اگر یہ فارسی رسم الخط میں نہ ہوتی تو شاید اس الزام سے مبرا ٹھہرتی۔
اردو جریدوں کی اکثر رپورٹس بین الاقوامی اداروں سے ہی لی جاتی ہیں، انگریزی صحافتی ادارے ملازمین کی تربیت کرتے ہیں
سلمیٰ جیلانی اردو صحافت کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہیں :چونکہ میری دسترس آن لائن اخبار اور رسائل تک ہے اور اردو میں پاکستان کے جو جریدے آن لائن پڑھتی ہوں ، ان کے یہاں صحافت کے معیار کو پست تو نہیں کہا جا سکتا. پرنٹ میڈیا(اخبارات ) کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، ویسے بھی اکثر رپورٹس بین الاقوامی اداروں سے ہی لی جاتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے اردو میں منتقل ہوتی ہیں .

عمومی طور پر جو سوال علم اللہ نے اٹھائے ہیں ان کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انگریزی میں پلیجر ازم (چربہ سازی )ایک جرم ہے جس کی سزا جیل ہو سکتی ہے،دوسرے کاپی رائٹ ایکٹ ، اور پرائیویسی ایکٹ کے فعال ہونے کی وجہ سے چوری کر کے لکھنا ناممکن ہے ، اس کے علاوہ بینچ مارک اور دوسرے اصولوں کی موجودگی میں سب کو معیار کی ایک خاص سطح کی پابندی کرنی پڑتی ہے ، اس کے لئے انہیں اپنے ملازمین کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے، مغربی ملکوں میں صحافت ایک باوقار پیشہ ہے ، اس کی وجہ معیار کا بلند ہونا ہی ہے
اردو صحافت، مطالبہ، احتجاج، محرومی کا رونا اور شکایتی رپورٹنگ کا نام ہے۔
آزاد میر کے بقول :ہمارے ہاں اردو صحافت، مطالبہ، احتجاج، محرومی کا رونا اور شکایتی رپورٹنگ کا نام ہے۔اس میں اب کاپی پیسٹ بھی شامل ہو چکا ہے۔اپنی محنت اورخود کے ذرائع سے جو خبریں چھاپی جاتی ہیں ، وہ اعلان برائے چندہ، اظہار تعزیت، مجلس، بزم شاعری کا انعقاد، اور دستار بندی، چاند دیکھنے وغیرہ کی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ نتیجہ اردو اخبار جو تھڑا بہت بکتے ہیں ، اپنی انہی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔باقی خبروں کیلئے لوگ ہندی انگریزی اخبار اور ٹی وی کو ترجیح دیتے ہیں۔

سطحی اور غیر معیاری ہونے کی ایک وجہ صحافی کو خاطرخواہ معاوضہ نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے
منصور قاسمی کا کہنا تھا:اردو صحافت ہندوستان میں اب تک باقی ہے ، یہ کوئی کم نہیں ہے۔ جن حالات پر آ پ کو شکوہ ہے ، مجھے اس سے بھی بدتر حالات مستقبل میں نظر آرہے ہیں۔سطحی اور غیر معیاری ہونے کی ایک وجہ صحافی کو خاطرخواہ معاوضہ نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے ،مطلب جیسا دال بھات ویسی فاتحہ.

اردومیڈیا میں آج بھی اپنے ذاتی خیالات اور جذبات کے اظہار ہی کو صحافت سمجھا جاتا ہے
محمد غزالی خان نے اٹھائے گئے سوالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: بدقسمتی سے اردومیڈیا میں آج بھی اپنے ذاتی خیالات اور جذبات کے اظہار ہی کو صحافت سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو پورے واقعے پر تبصرہ ہوجاتا ہے جبکہ واقعے کی تفصیلات لمبے چوڑے مضمون میں برائے نام ہی ملیں گیں۔ مضمون پڑھتے وقت ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا مگر جن لوگوں کو اردو سے انگریزی یا کسی اور زبان میں ترجمہ کرنا پڑا ہو انہیں معلوم ہو گا کہ بڑوں بڑوں کے مضامین کی زبان بھی اتنی مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے کہ ترجمہ کرنے والے کوخود کوئی بات سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے ، بیچارہ ترجمہ کیا کرے گا۔ جو معلومات فراہم کی بھی جاتی ہیں ان کا کوئی حوالہ مشکل ہی سے ملے گا۔رپورٹنگ انتہائی ناقص ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو رپورٹنگ کے نام پر پورا تبصرہ ہوتا ہے۔آپ حالات حاضرہ کو چھوڑ دیجیے ، مذہبی کالموں تک کا یہی حال ہے ، جس پر مزید تبصرہ کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ بہتر ہے کہ یہیں رک جایا جائے۔
انہوں‌نے مزید کہا:اس بحث میں اگر اس خاص نکتے کو شامل نہ کیا گیا تو ناانصافی ہوگی اور وہ یہ ہے کہ اردو صحافت کا محور ہمارے ملی مسائل ہیں۔ یا یہ کہیے کہ اردواخبارات کمیونٹی نیوز پیپرز کا کردار زیادہ ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان اخبارات میں غیر ملی مسائل پر مواد یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا شکار کسی قدر ہمارے انگریزی نیوز پورٹلز بھی ہیں۔ اس لحاظ سے دیگر اخبارات سے ان کا موازنہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ اور اردو میں لکھنے والے تمام صحافیوں کو ایک ہی خانے میں رکھ دینا بھی زیادتی ہے کیونکہ کئی نام ایسے ہیں جن کے کالمز میں معلومات بھی ہوتی ہیں اور جن مسائل پر وہ بات کرتے ہیں ان پر سیر حاصل بحث بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے سر دست جو نام ذہن میں آرہے ہیں ان میں حسن کمال صاحب، حفیظ نعمانی صاحب، آغا منصور صاحب،ودود ساجد صاحب، اشرف بستوی صاحب، معصوم مراد آبادی صاحب شامل ہیں۔
محمد غزالی نے منصور قاسمی کی رائے پر یوں ردعمل کا اظہار کیا:منصور قاسمی بڑی حد تک آپ کی بات درست ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جیسی تیسی اردو صحافت زندہ ہے وہ دینی مدارس اردو کو زندہ رکھ کر اور اس طرح اردو اخبارات کو آکسیجن دے کر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی جب ایک کام ہو رہا ہے تو کیوں نہ اسے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کی جائے؟ تھوڑی سی محنت اور کر لی جائے۔ مثال کے طور پر یونیفارم سول کوڈ پر لکھتے وقت یہ کہنے کے بجائے کہ “قانون بنانے والوں نے مسلمانان ہند کو یقین دلایا تھا کہ ان کے آئیلی قوانین محفوظ رہیں گے۔” کیوں نہ قاری کو حوالے کے ساتھ بتایا جائے کہ جس وقت دستور ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ زیر بحث آیا، مسلمانوں نے اس پر سخت اعتراض کیا جس کے جواب میں ڈاکٹر امبیڈکر نے یقین دلایا کہ ۔۔۔
کسی کو اس بات سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر حکومت کے پاس اختیارات ہوں گے تو وہ فوراً کوئی ایسا قدم اٹھالے گی جو مسلمانوں یا عیسائیوں یا کسی دوسرے فرقے کیلئے قابل اعتراض ہو۔ جن مسلم ارکان نے اس مسئلے پر تقاریر کی ہیں ان سمیت ہم سب کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اختیارات ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ ان اختیارات کو استعمال کرتے وقت مختلف فرقوں کے جذبات کا خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنے اختیارات اس انداز میں استعمال نہیں کر سکتی کہ وہ مسلمانوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر آمادہ کر دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی حکومت نے ایسا کیا تو وہ احمق حکومت ہوگی۔
(حوالہ: Constituent Assembly Debates Vol VII)
ایسی کوشش کیلئے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں۔

اردو صحافت ہندوستان میں غیروں کے کرم پر زندہ ہے
شمس تبریز قاسمی کا کہنا ہے:اردو صحافت کے بجائے ”ہندوستان کی اردو صحافت” لکھیں ۔پاکستان میں اردو صحافت بہت مضبوط ہے ، دوسری بات اردو صحافت کی بے بسی کا شکوہ کرنے کے ساتھ کبھی اس کے اسباب وسائل اور قارئین کا بھی جائزہ لیں۔اردو صحافت ہندوستان میں غیروں کے کرم پر زندہ ہے ۔
آپ جائزہ لیں کہ آپ کے محلے میں کتنے لوگ اردو اخبارات خریدتے ہیں

طنز و تشنیع کے عادی لوگ تجزیہ کرنے، اسباب و علل سے واقفیت حاصل کرنے سے عاجز ہیں
ابوطلحہ نے کہا:اصل بات یہی ہے. جتنے لوگوں نے طنز و تشنیع سے متعلق الفاظ کی دکان لگائی ہے، وہ تجزیہ کرنے، اسباب و علل سے واقفیت حاصل کرنے سے عاجز محض ہیں اور رد عمل کی نفسیات کا شکار ہیں

سیاست دانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالنے سے صحافت یا اخبار نہیں چلتا
شمس الرحمان علوی نے تفصیلی رائے دی :یہ ایک عجیب و غریب مسئلہ ہے۔ اس میں نہ وسا ئل کی کمی والی بات ہے اور نہ زبان اور صرف مسلمان تک محدود رہنے کا معاملہ۔ یہ در اصل ویژن کی کمی، عدم واقفیت، ٹرینینگ اور تربیت کی کمی ہے۔ اخبار اور جرنلسٹ کا کام خبر لانا ہوتا ہے، آپ سوسائٹی میں رہتے ہیں اور آپ کو خبریں نہیں ملتیں .. .؟ اردو اخبار ہفتے یا مہینے میں کتنی ایسی خبریں چھاپتے ہیں جو دوسرے اخبار میں نہیں ہوتیں اور جن کی وجہ سے ان کو ڈسکس کیا جائے؟ اردو کے صحافی کی تربیت کا نظام دفتروں میں صحیح نہیں ہے اور نہ ان کو رہنمائی کرنے والے ملتے ہیں۔ مسلم اداروں، اوقاف یا سیاست دانوں کی پریس کانفرنس کور کرنا ہی اور اس میں بھی صرف بنیادی خبر لکھنا ہی صحافت نہیں ہے۔

بہت چھوٹے اخبارات جو چھ اور آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا سرکولیشن نہیں ہوتا، ان کے رپورٹرز بھی جانتے ہیں کیسے اپنی خبر پر امپکیٹ ہو سکتا ہے، کیسے سرکار ایکشن لے سکتی ہے۔ زبان الگ ہو اس کے باوجود، یہاں مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ آپ رپورٹر ہیں تو ایک بنیادی ٹرینینگ ہوتی ہے، کس خبر میں کس کا ”کوٹ” لینا ہے، اسکیم پر کس طرح لکھنا ہے، دس سے بارہ اہم ”بیٹ” ہوتی ہیں، جن میں آپ شروع کے کئی سال کام کرتے ہیں، زمین پر اس ‘بیٹ’ کا ہر آدمی آپ کو پہچاننے لگتا ہے۔ مگر اردو اخباروں میں شاید یہ سکھایا نہیں جاتا۔
اگر ایک ان کاؤنٹر ہوا ہے تو اس کو کب تک فالو کرنا ہے اور یہ کہ کس کس طرح اس پر ایکشن ہوا، ایک غریب آدمی کی اگر پولیس کے تشدد سے موت ہوتی ہے تو آپ خاطی پولیس والوں کو صرف سسپنڈ نہیں بلکہ سخت سزا دلوا سکتے ہیں مگر آپ کو وہ طریقے، سسٹم تو پتا ہوں، یہ پتا چلتے ہیں ”بیٹ” میں سالوں محنت سے کام کرنے سے ۔ہر شہر میں ہر بیٹ میں آپ کو کئی ایکسپرٹ صحافی ملیں گے، مثال کے طور پر اگر کوئی پاور دیکھتا ہے تو اسے یہ سب تو معلوم ہوتا ہے کہ پاور کمپنیز میں کیا گھوٹالے چل رہے ہیں ، ساتھ ہی اس کے ٹیکنیکل ایشوز بھی اتنے معلوم ہو تے ہیں کہ کئی بار اسپیشلسٹ سے زیادہ اس کی سمجھ ہوتی ہے، یہ سب لوگ ٹی وی پر نہیں آتے، مگر ان کے نالج کی وجہ سے ان کی اہمیت ہوتی ہے
آپ کرایم دیکھتے ہیں تو آپ کو صرف کنٹرول روم یا تھانے یا پی ایچ کیو نہیں بلکہ انٹیلیجینس، اے ٹی ایس، لوکایکت، اور تمام برانچز، بٹالینز، سب جگہ جانا ہوتا ہے، شروعاتی چند سالوں کی محنت ہوتی ہے اور پھر سب آپ کو جان جاتے ہیں، زندگی بھر خبریں خود چل کر آتی ہیں۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ‘اسٹرنگر’ ہوتے ہیں مگر ان کی طاقت سے سب واقف ہوتے ہیں کیوں کہ بوقت ضرورت وہ نیشنل ٹی وی چینل کے جرنلسٹس کو مزیدار اور ضروری اِن پُٹ دیتے ہیں، وہ لوگ بھی ایسےاسٹرنگر کا خیال رکھتے ہیں اور اس کی بھیجی کسی خبر کو نیشنل بریکنگ نیوز بنا کر صوبے سے قومی لیول تک ہنگامہ کروا سکتے ہیں،زیادہ تر انگریزی اخباروں کے اسٹرنگر ہندی میں خبریں بھیجتے ہیں مگر باہر لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا۔
افسوس کے لوگ بغیر محنت کیے ہی سب کچھ چاہتے ہیں، اور ساتھ ہی دہلی میں کیرل کے ملیالی اخبار کے نامہ نگار بھی اکثر آپ کو جرنلسٹس میں اپنی اہمیت منواتے ملیں گے کیوں کہ ان کے پاس خبر ہوتی ہے، ایکسپرٹیز ہوتی ہے، یہاں عالم یہ ہے کہ حیدر آباد جیسے شہر میں جب روہت ویمولا کی موت ہوئی آٹھ نو بجے رات میں پتا چل گیا تھا کہ کچھ ہوا ہے، مگر اردو سائٹس خاموش رہیں، اگلے دن اردو اخبار خالی تھے۔ حد تو تب ہو گئی کہ سینٹرل یونیورسٹی میں جو مہم چلی جس کا پورے ہندوستان پر اثر ہوا اس کو ایک دن بھی بڑے اردو اخباروں نے نامہ نگار بھیج کر کور نہیں کیا
بیحد سطحی اور ایجنسی جیسی رپورٹس اکا دکا نظر آتی تھیں، جب کہ حیدرآباد کے اخباروں کو اس میں لیڈ کرنا چاہیے تھا۔ جھارکھنڈ میں بچہ چوری میں لوگ مارے جاتے ہیں تو اگلے دن کا کم از کم دو دن بعد اردو اخباروں میں جامع گراؤنڈ رپورٹ تو ہونی چاہیے، . . . نہیں ہوتی! ہاں ویوز(تبصرے) ضرور ہوتے ہیں۔صحافی کو خبر پر نظر رکھنی چاہیے، سیاست دانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالنے سے صحافت یا اخبار نہیں چلتا، کیوں کہ یہ تو سب سے آسان ہے،صحافی کو ‘ایکسیس’ ہوتا ہے، اصل چیز تو خبر ہے۔
عوام اور خواص ہر جگہ برانڈ کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اس بات کی کہ آپ نظر آئیں۔ ایسے بہت صحافی ہوتے ہیں جو کہیں نہیں ہوتے مگر لوگ انہیں صحافی مانتے ہیں کیوں کہ وہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، افسر یا کوئی مظلوم بھی ان کو اس لئے خبر بتاتا ہے کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے یہ خبر آگے نشر ہو جائےگی، وہ صحافی چاہے وہاٹس ایپ گروپس کے ذریعہ یا درجنوں دوسرے طریقوں سے خبر کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے کیوں کہ وہ اس نیٹ ورک میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں، سارے اردو اخبارات غریب نہیں ہیں، کم از کم ایک رپورٹر کو تو بھیج کر اسپیشل سیریز کروا سکتےہیں، مظفر نگر یا پہلو خان کی موت یا آسام میں شہریت کے مسئلہ پر جو ہو رہا ہے، اس پر بریکنگ اسٹوریز اردو اخبار میں کیوں نہیں ہوتیں جو بعد میں انگریزی اور ہندی والے بھی فالو کریں . . . بالکل ہو سکتی ہی- جو خبر لکھے گا یا چھاپےگا، اسی کی خبر ڈسکس ہوگی، اسی کو کل کوئی اسمبلی میں کوٹ بھی کرے گا، ایکشن بھی ہوگا مگر۔۔۔
اخبار کا قاری گاہک ہوتا ہے آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مال خریدو تو ہم تمہیں آئندہ اچھا مال دیں گے
افسر فریدی نے کہا:اردو صحافت میں جو احباب ہیں وہ رپورٹنگ پر توجہ دیں تو صورت حال میں قدرے بہتری آسکتی ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کم ہی کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری صلاحیت صرف جامعہ نگر کو کور کرنے کی ہے لیکن ہم پورے ملک کو کور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب کچھ ہوا میں لکھتے ہیں۔ اخبار کا قاری گاہک ہوتا ہے آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مال خریدو تو ہم تمہیں آئندہ اچھا مال دیں گے ۔
اردو اخبارات کا حلقہ قارئین جذبات سے لبریز اور ”تیز” مسالے دار چیزوں کا عادی ہے
فرحان احمد خان نے کہا:یہ دلچسپ موضوع ہے ۔ میرے خیال میں اردو اخباری صحافت اور چینلزکا سب سے بڑا مسئلہ اس کا جذباتی پن ہے۔اردو اخبارات کا حلقہ قارئین جذبات سے لبریز اور ”تیز” مسالے دار چیزوں کا عادی ہے۔ وہ گہرائی میں جانے کی مشقت پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سطحی اور قدرے تیز مواد دیا جاتا ہے ۔ ایسے مواد کی زندگی کم ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اردو میں جو چیزیں شائع ہوتی ہیں ، وہ اب ٹھوس حوالے کی حیثیت کھوتی جا رہی ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اردو صحافت میں کام کرنےوالے کو بہت حد تک کلرک بنا دیا گیا ہے ۔ وہ دفتر سے باہر نہیں نکلتا ۔ وہ رئیل ٹائم اسٹوریز کی بجائے ٹیبل اسٹوریاں کرتا ہے ۔ وہ پہلے سے شائع شدہ چیزوں کا ترجمہ کرتا ہے یا الفاظ کو آگے پیچھے کر کے صفحات بھرتا ہے ۔ اسٹوری کےلیے کچھ سہولیات اور وقت کے حوالے سے ذرا ڈھیل درکار ہوتی ہے ، جو اسے اداروں کی جانب سے میسر نہیں آتی ۔ اب اردو صحافت میں کوریج تو مل جاتی ہے لیکن تحقیقاتی اسٹوریاں نہیں ملتیں ۔ ایک اوروجہ یہ ہے کہ حالات بہت تیزی سے بدلتے ہیں ۔ پہلے کی گئی اسٹوری کا فالو اپ بھلا دیا جاتا ہے ۔ اس طرح اس اسٹوری کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ شاید قارئین بھی بھول جاتے ہیں ۔ اب اردو 
صحافت کا بڑا حصہ صرف ”ری پروڈکشن” کر رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔

http://ibcurdu.com/news/51343

۔۔۔مزید