پیر، 8 اپریل، 2013

رام سنگھ کی خودکشی کا معمہ!



 !رام سنگھ کی خوکشی کا معمہ

محمد علم اللہ اصلاحی
کہا جاتا ہے کہ امید ہی زندگی ہے، اور جب زندگی میں کوئی آس ہی نہ بچے تو سب کچھ سونا سونا سا لگتا ہے ۔زندگی بے معنی سی لگنے لگتی ہے، گذشتہ دنوں ایسا ہی کچھ دہلی میں پچھلے سال دسمبرمیں رونما ہوئے اجتماعی عصمت دری واقعہ کے کلیدی ملزم رام سنگھ کے ساتھ ہوا، جس نے تہاڑ جیل میں اپنے کپڑوں سے ہی خود کشی کے ذریعہ اپنی زندگی کا قصہ تمام کیا ۔ اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے ان گنت سوالات،سیاسی ،سماجی انتظامی اور نہ جانے کیا کیا ۔اس واقعہ کے بعد جہاں سیاسی سطح پر لے دے شروع ہو ئی ،وہیں یہ سوال اٹھا کہ آخر ملک کی سب سے محفوظ جیل میں یہ ہوا کس طرح۔
 ابتدائی تحقیقات کہتی ہے کہ رام سنگھ نے بیرک میں لگے روشندان کی گرل اور کپڑوں کے ذریعے اپنی زندگی کی روشنی گل کی۔ لیکن تہاڑ انتظامیہ یہ بتانے کی حالت میں نہیں ہے کہ جب رام سنگھ نے دم توڑا تو جےل انتظامیہ کہاں اور کیا کر رہی تھے۔بحث اس پر بھی جاری ہے کہ اس کا یہ اقدام کس سبب اور وجہ کی بنا پر تھا ۔بہر حال دنیا یہ جانتی ہے کہ اگر ملزم کو اس بات کا پکا احساس ہو جائے کہ اسے اب پھانسی سے کم کچھ نہیں ملنے والی، تو اس کی زندگی کا دوسرا پل کیوں؟ اور کس لئے؟ والی حیثیت کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں اگر مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس سے ہماری انصاف ،انتطامیہ اور سرکاری مشینری کے رویوں پر انگلیاں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں؟تو یہ غلط بھی نہیں ہے۔ کیونکہ پھانسی کہ سزا سنانا اور اسے نافذ کرنا انہیں دونوں کے ذمہ ہے، اورآنے والے وقت میں ایسا نہ ہو یہ بھی انہیںکو تیقن کرانا ہے؟ اگرمظلومہ اپنے پر ہوئے ظلم کی ایک دردناک داستان لکھ گئی ہے ، تو وہیں اس قتل کے اہم ملزم رام سنگھ نے بھی تہاڑ جیل میں رہ کر جو کارنامہ کو انجام دیا ہے، شاید اسی لئے کئی مبصرین نے کہا ہے کہ رام سنگھ کا یہ عمل بھی کسی بھیانک جرم مظلومی سے کم نہیں اور اس میں یقینا ہمیںمظلوم اور ظالم دونوں کے درمیان ایک مساوی لکیرکھینچنی ہی پڑے گی، کیونکہ مسئلہ انصاف کا ہے جہاںترازو کے دونوں پلڑو ںکا برابر ہونا انصاف کی سب سے اہم جیت ہے۔
شاید اسی لئے سیاسی سطح پر بھی جاری رسہ کشی اور سرد جنگ کھل کر سامنے آ گئی۔ مرکزی وزیر داخلہ سشل کمار شدے نے اشاروں میں واضح کر دیا کہ وہ آئے دن شیلا دکشت کی طرف سے دہلی پولیس اور اس ان کے عمل پر اٹھائے جانے والے سوالیہ نشانوں سے خوش نہیں ہے۔انہوں نے کہا، اگر انہیں کوئی شکایت ہے یا پھر وہ دہلی پولیس کو اپنے تابع کرنا چاہتی ہیں تو انہیں یہ لکھ کر دینا چاہئے۔اور بھی کئی لیڈران سے اس پر اپنے اپنے انداز میں باتیں کہی ہیں ۔حالانکہ ماہرین نے اس بابت کہا ہے کہ اس سے دہلی اجتماعی عصمت دری کیس میں میں ملزم رام سنگھ کی خود کشی سے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق رام سنگھ کے خلاف اب ٹرائل نہیں چلے گا۔ باقی ملزمان کے خلاف ٹرائل پہلے کی طرح چلتا رہے گا۔قانونی ماہرین اور دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائر جسٹس ایس ایس ڈھینگرا کے مطابق جب بھی کسی ملزم کی حراست میں موت ہو جاتی ہے تو عدالت کو اس بارے میں بتایا جاتا ہے اور جیل اتھارٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد عدالت اس ملزم کے خلاف ٹرائل ختم کر دیتی ہے لیکن باقی ملزمان پر کیس چلتا رہتا ہے۔ مرنے والے ملزم کے خلاف ثبوتوں کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا کیونکہ جو ملزم مر چکا ہوتا ہے اسے قانون کے تحت مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گواہی کے دوران اس کے کردار کا ذکر ضرور ہو سکتا ہے۔ کئی ایسے معاملے بھی ہوتے ہیں جس میں ملزم کو مجرم قرار دیئے جانے کے بعد اپیل کے اسٹیج میں اس کی موت ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مجرم کے گھر والے اگر چاہیں تو وہ اسے بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کیس دائر کر سکتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے جہاں ایک طرف رام سنگھ نے خود کو پھانسی دے کر انصاف کے ایک پلڑے کو اپنے حق میں جھکا لیا ہے، جو آنے والے وقت میں انصاف کے ترازو کو برابر رکھنے کے کئی مواقع فراہم کرے گا ۔ وہیں ایشیا کی سب سے بڑی اور جدید مانی جانی والی تہاڑ جیل میں اتنے چاق چوبند انتظامات کے باوجود کوئی ملزم اپنے کرتے پجامے یا پینٹ قمیض سے واقعہ کو سرعام انجام تک پہنچا گیا، جس پھانسی کے لئے ہم اسپیشل رسی کا بنا پھندا اور جلاد کا نظم کرتے ہیں، اسے رام سنگھ کھلم کھلا انجام دے گیا، اور حکومت اور عدلیہ کو اس طرح کےن ناخوشگوار واقعہ کا راستہ تلاش نا ہی ہوگا ۔اس سارے واقعات کے پس منظر میں ملک کے شہریوں کا اپنا غم وغصہ اور میڈیاکی دل دہلا دینے والی خبر ہر پل پھانسی صرف پھانسی اور پھانسی سے کچھ کم نہیں چاہتے نے ملزمان کے دل میں اتنی جڑیں جمالیں کہ ان میں سے ایک اہم ملزم کو اس کام کو انجام دینے میں ذرا بھی وقت نہیں لگا، اور اتنی بڑی جدید جیل کے تمام تر انتظامات دھرے کے دھرے رہے گئے اس کام کو کر رام سنگھ نے بخوبی برسوں سے پھانسی کا انتظار کر رہے تمام ملزموں کو جو عرصے سے زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں کو ان سے نجات پانے کا راستہ دکھا دیا، جس کے اثرات مستقبل میں ضرور دیکھنے کو ملیں گے ۔
حالانکہ یہ اپنے آپ میں متضاد سا لگتا ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خطرناک جرم کو انجام دےنے والے مجرموں کی سیکورٹی جیل انتظامیہ کی اولین بلکہ ترجیحی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ اس لیے، کیونکہ ’سزا‘ کا ایک وسیع سماجی تناظر ہوتا ہے۔ سخت سزا دے کر عدالت یہ پیغام دیتی ہے کہ ایسے جرائم کا یہی انجام ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ سنگین جرم کے معاملات کی سماعت پر گہری نظر رکھتی ہے۔ رام سنگھ کی پیر کو عدالت میں پہلی پیشی ہونی تھی۔ اسے قانون کے سوالات کا سامنا کرنا تھا۔ پوچھتے وقت رام سنگھ شاید یہ بھی بتا پاتا کہ آخر اس کی مجرمانہ ذہنیت کی تعمیر کس طرح ہوئی۔ یہ معلومات مستقبل میں ایسے جرائم کو روکنے میں کام آ سکتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رام سنگھ کی خود کشی ہندوستانی جیلوں کی ناکامی کو ظاہر کر رہی ہے۔ جیلوں میں خودکشی کے واقعات کی بابت نشنل کرائم ریکارڈ بیورو کا کہنا ہے کہملک کی جیلوں میں ہر سال اوسطا 40 لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ 2011 کی رپورٹ کے مطابق اس سال ہندوستان کی جیلوں میں 68 قیدیوں نے خود کشی کی۔ سنگین جرم کے ملزمین کی طرف سے یہ راستہ منتخب کرنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔اسی لیے جیل انتظامیہ ایسے مجرموں پر نظر رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔لیکن نگرانی کے مناسب نظام کی عدم موجودگی اور جیلوں میں اہلیت سے کہیں زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے یہ کام کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ رام سنگھ کو بھی’ سوسائڈ واچ ‘ کے اندر رکھا گیا تھا۔جیل ذرائع کے مطابق چند روز قبل ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس میں خود کشی کے رجحان تیزی سے پنپ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اس واقعہ کو روکا نہیں جا سکا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ رام سنگھ سخت سے سخت سزا کا حقدار تھا، لیکن اسے یہ سزا قانون کے دربار میں ہی ملنی چاہئے تھی۔
فی الحال ایک تاریخی معاملے میں، جس پر پورے ملک کی نظر لگی ہوئی ہے، قانون اور اس کا نظام اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے چوک گیا ہے کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔موت کیا ہے؟ پھانسی کیا ہے؟ سالوں مہینوں کا خوف اور پل بھر میں اس خوف سے ہمیشہ کے لئے نجات۔ اب حکومت کیا کرے گی؟ اب بہر حال یہ سوال ہے کہ رام سنگھ کی موت کے بعد اس معاملے کا کیا ہوگا، کیا باقی کے ملزمان کو کچھ راحت مل جائے گی؟ معاملہ کمزور تو نہیں ہوگا؟ اصل میں یہی پولیس اور عدالتی نظام کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس ہونہار لڑکی کے باقی کے گنہگاروں کو سزا دلائے، جس نے اپنے ساتھ ہوئی بر بریت کے باوجود آخری سانس تک جد و جہد کی۔ وہ تمام ادارے جواحتجاج کے وقت جھولی بھر کر کھڑی تھیں، وہ انسانیت کے ناطے کچھ مدد کریں گی؟ وگرنا بغیر اس کے  ترازو کا پلہ کیسے برابری پر ہوگا؟ عام دنوں میں تو ہم یہی کہتے سنتے آئے ہیں کہ ”ہمیں مجرم سے نہیں جرم سے نفرت کرنا چاہئے“ رام سنگھ نے پھانسی لگا کر چاہے وہ خوف سے کیا یا ضمیرکے بوجھ سے یا پل پل کی ملامت سے کر خود کو اس جرم کا خود ہی سزا دے کر، ملک کے تمام لوگوںاور جماعتوں کا غصہ ٹھنڈا کر ایک دل میں جگہ بنانے والی ایک اہم پہل کی ہے، چونکہ وہ بھی اسی سماج کا حصہ تھا اس لئے انسانیت کے ناطے حکومت کو اس کی مدد اپنے سرکاری فرائض کو ضرور پوری کرنی چاہئے حالانکہ ہمارے ملک میں جینے سے لے کر مرنے تک ہر بات میں سیاست ضرور ہوتی ہے، اور کچھ تشدد پسند ضدی،رائی کا پہاڑ بنانے والے روڑے ضرور اٹکائیں گے کیونکہ وہ سب ایک ہی آنکھ والے ہیں، جنہیں مظلو م کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آنے والا ۔
اور جیسا کہ خود وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پرائمری سطح پر یہ معاملہ خود کشی کا لگ رہا ہے، مگر عدالتی جانچ سے ہی پوری صورتحال واضح ہوگی۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے کے ملزم کی ملک کی سب سے محفوظ جےل مےں موت کیسے واقع ہوگئی، جس پر دنیا بھر کی نظر ہے۔وہ وواقعہ جس نے پورے ملک میں لوگوں کوہلا کررکھ دیا تھا، اور اس کے بعد ہی خواتین کی حفاظت کو لے کر سخت قانون کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ ساتھ ہی عدالتی اور پولیسیائی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے بھی مشاورت تیز کر دی گئی تھی رام سنگھ کی موت کے بعد اس طرح کی بہتری کی ضرورت اور بھی ضروری لگنے لگی ہے۔حالانکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس واقعہ نے تہاڑ کی کمزور نظام کو بھی اجاگر کیا ہے۔ کئی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں محض تہاڑ کی ہی بات نہیں ہے،بلکہ ملک کی تمام جیلوں کا حالت تشویشناک ہے۔ وہاںاہلیت سے زیادہ قیدی ہیں، جن پر ہر وقت نگرانی رکھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔مبصرین اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ معاملے کے ملزمین پر نگرانی رکھنے کی جیلوں میں کیا انتظام ہو، کیونکہ ان میں خود کشی کے رجحان پنپ سکتے ہیں۔ بے شک رام سنگھ کے اہل خانہ کو اس کی موت کا سچ جاننے کا حق ہے، پر اس کی آڑ میں ہمدردی کی لہر غلط رجحانات کو جنم دے سکتی ہے۔ اس واقعہ کو اجتماعی عصمت دری کے قانونی عمل میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔