ہفتہ، 30 نومبر، 2013

کیا حل ہو گئی آروشی مر ڈر مسٹری ؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
نوکر سے پیار،جنسی استحصال اور پھر قتل ،مئی ، ۲۰۰۸ء کی رات سیکٹر ۔۲۵ واقع جل وایو وہار کے ایل ۔۳۲ میں ایسی ہلچل مچی کہ ساری دنیا کی نگاہیں اسی پر ٹک کر رہ گئیں۔ گھر میں والد،والدہ، آروشی اور نوکر ہیم راج تھا۔ ایک فلیٹ میں کل چار افراد تھے اور رات کے ۱۲ سے۱؍ بجے کے درمیان آروشی اور ہیم راج بیک وقت دو لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ۔ آروشی کی لاش قتل کے اگلے دن دوپہر کو اور ہیم راج کا لاشہ تیسرے دن برآمد ہوا۔ قاتل نے تیز وار کئے تھے ، گلے پر وار کے باوجود آروشی کی آواز نہیں نکل سکی تھی۔قتل کے بعد آروشی کے کمرے میں رکھا موبائل اور کمپیوٹر رات ایک سے چار بجے کے درمیان کئی بار استعمال کیا گیا۔ دو لوگ ہی گھر کے اندر تھے۔ جب صبح گھر پرنوکرانی آتی ہے اور سارے ماجرے سے مالک و مالکن کو واقف کراتی تو ڈاکٹر تلوار اور نوپور بیٹی کی موت کے بارے میں پولس سے شکایت کرتے ہیں۔ وہیں ، پولیس بھی صبح جلدی میں جائے حادثہ کو چھوڑ ہیم راج کو تلاش کرنے باہر نکل جاتی ہے۔ایک دن بعد جب ریٹائرڈ ڈی ایس پی کے کے گوتم چھت پر جاتے ہیں تو انھیں نوکر ہیم راج کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد قتل کی اس واردات کا منظرنامہ پورے طور سے بدل جاتا ہے اور آروشی ، ہیم راج قتل ایک معمہ بن جاتا ہے۔لیکن شواہدکی روشنی میں عدالت اور پولس مجرم کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔اور مجرم کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں ۔
یہ ہے اس کہانی کا خلاصہ جو گذشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے جاری رہنے کے بعد۲۶دسمبر ۲۰۱۳ء کوبہ ظاہر اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔اور ملک کے سنسنی خیز جرائم میں سے ایک قتل مسٹری آروشی تلوار اور ہیم راج کے قاتلوں کو سزا سنائی گئی۔خبروں کے مطابق ڈبل قتل کے اس معاملے میں غازی آباد کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے آروشی کے والدین راجیش تلوار اور نپور تلوار کو قتل اور ثبوت مٹانے کا قصوروار قرار دیااورآروشی ۔ ہیم راج قتل کیس میں والدین کو ہی بیٹی اور نوکر کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے دونوں کو عمر قید کی سزا دی، خبروں کے مطابق منگل کو دوپہر بعد اس کیس میں سزا پر بحث ہوئی جس میں سی بی آئی نے پھانسی جب کہ دفاع کے وکیل نے کم سے کم سزا کی مانگ کی۔اس درمیان ایک وقت تک معمہ رہ چکایہ دوہرے قتل کامعاملہ عوام میں موضوع بحث اور میڈیا میں شہ سرخیوں میں رہا۔ لیکن پیر کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے دانتوں کے ڈاکٹر راجیش تلوار اور نوپور تلوار ، کو مجرم قرار دے کر طویل عرصے سے چل رہے اس کیس کا تصفیہ کردیا۔اور اس کے دوسرے دن جج شیام لال نے دونوں کو دفعہ 302 ( قتل ) کے تحت عمرقید، دفعہ 201 کے تحت پانچ سال قید اور راجیش تلوار کو دفعہ 203 کے تحت ایک سال قیدکی سزا دی۔سی بی آئی کے وکیل کے مطابق تلوار جوڑے پر 17 ہزارروپیوں کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا اوران تمام سزاؤوں کا نفاذ بہ یک وقت ہونا طئے پایا۔
جج والدین کے کرتوت سے اس قدر نالاں تھے کہ انھوں نے آروشی کے والدین کو ’ شیطان‘قرار دیا ۔جنہوں نے ’’اپنی ہی اولاد کو قتل کر دیا‘‘۔انہوں نے کہا ’’دونوں ملزمان ( تلوار جوڑے ) نے دوہرے قتل کا گناہ کر کے ملک کے قانون کی سخت خلاف ورزی کی ہے اس لئے دونوں دوہرے قتل کے مجرم قرار دیے جاتے ہیں‘‘۔ جج نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ’’انہوں نے اپنی ہی بیٹی کو قتل کر دیا ، جس نے ابھی اپنی زندگی کی چودہ بہاریں ہی دیکھی تھیں، انہوں نے اپنے نوکر کو بھی قتل کیا اور ایک ڈاکٹر کے طور پر لئے گئے حلف’’\' تم قتل نہیں کرو گے‘‘ کی بھی پروا نہیں کی۔ زندگی کا مطلب بتاتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں مقدس کتاب قرآن مجید کو بھی حوالے کے بطور پیش کیا ’’وَلاَ تَقْتُلُوْا لنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ‘‘(بنی اسرائیل:۷۱: ۳۳)(ترجمہ :’’خدا نے جس جان کو حرمت دی ہے، اْسے ناحق قتل نہ کرومگر حق پر\" )
خبروں کے مطابق حالانکہ تلوار جوڑے کے وکیل نے ان کے حوالے سے کہا کہ ’’ہم ایسے گناہ کے لئے قصور وار قرار دیے جانے پر بے حد مایوس ، دلبرداشتہ اور دکھی ہیں ، جو ہم نے کیا ہی نہیں،ہم ہارے نہیں ہیں اور انصاف کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے‘‘۔ وکیل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک شاذ واقعہ ہے اس لئے اس پر مزیدغور و فکر اور مزید بحث کی گنجایش ہونی چاہئے تھی ،وہیں راجیش تلوار کے بھائی دنیش تلوار نے بھی عدالت کے فیصلے پراپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی میں اپیل کریں گے، دنیش نے کہا ،’’ عدالت کے فیصلے میں بہت سے پہلووں کو نظر انداز کیا گیا ، جسے ہم سپریم کورٹ میں اپیل کرکے اچھی طرح پیش کریں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ہمیں امید تھی کہ آج ہمیں انصاف ملے گا ، آروشی کو انصاف ملے گا ، ہیم راج کو انصاف ملے گا ، جو نہیں ملا‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ آروشی کے قتل کے بعد تحقیقات کے دوران پولیس نے شروع میں راجیش تلوار کو دونوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس حکام کو شبہ تھا کہ یہ قتل حفظ ناموس کے نام پر کیے گئے تھے۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھنے لگے۔ اس کے بعد اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی۔سی بی آئی نے جانچ شروع کرتے ہی تلوار جوڑے کو کلین چٹ دے دی اور ان کے لیبارٹری ساتھی اور دو دیگر افراد کو گرفتار کر لیا۔ لیکن ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے انہیں ضمانت پر چھوڑدیا گیا۔جانچ میں رکاوٹ کی وجہ سے ہو رہی تنقید کو دیکھتے ہوئے سی بی آئی کے ڈائریکٹر اشونی کمار نے ایک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔سی بی آئی کی اس نئی تفتیشی ٹیم نے پھر سے تلوار جوڑے پر قتل کرنے کا شبہ ظاہر کیا تھاجوآخر کار تقریباً ساڑھے پانچ سال تک جاری تفتیشی کارروائی کے بعد آج بہ ظاہر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ڈاکٹر تلوار اور ان کے وکیل پہلے ہی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بات کر چکے ہیں،قانون کے بہت سے ماہرین نے بھی اس فیصلہ پر سوالیہ نشان لگایا ہے ۔
مبصرین کا کہنا ہے استغاثہ کے طور طریقوں اور طویل قانونی عمل پر بھلے ہی سوال اٹھائے جائیں ، مگر عدالت نے آخر کار آروشی کے والدین ڈاکٹر نپور اور راجیش تلوار کو ہی ان کی اپنی بیٹی اور گھریلو نوکر ہیم راج کے قتل کا مجرم پایا ہے۔اصل میں ۱۶ مئی۲۰۰۸ء کی جس رات اس دوہرے قتل کو انجام دیا گیا تھا اس کے بعد سے حالات و شواہد تلوار جوڑے کے مجرم ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ استغاثہ کی یہ دلیل کافی مضبوط تھی کہ جس فلیٹ میں چار لوگ ہوں ان میں سے دو کا قتل ہو جائے اور باقی دو کو اس قتل کے بارے کچھ پتہ ہی نہیں چلے ، یہکیسے ممکن ہے۔یقینی طور پر اس معاملے میں سی بی آئی کا کردار بھی ابتدا سے ہی مشتبہ رہا ہے، جس نے کبھی اس کیس کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ تلوار جوڑے نے بھی اپنی سطح سے ہر طرح کے قانونی دا�ؤپیچ آزمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اس تگ ودو میں یہ نوبت بھی آئی کہ عدالت عظمیٰ نے انہیں کئی بار پھٹکاربھی لگائی۔ ان کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں۔تلوار جوڑا واقعی کوئی پیشہ ور قاتل نہیں ہے ، لیکن انہوں نے جو کچھ کیاوہ مہذب سماج کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ معاملہ اس طرز زندگی پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں اخلاقی اقدار تیزی سے روبہ زوال ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ مجرم ٹھہرائے جانے کے باوجود تلوار خاندان کا رویہ متاثرین جیسا ہے،جبکہ ضرورت ان تین نوکروں کے بارے میں بھی سوچنے کی ہے ، جنہیں کبھیقاتل قرار دیا گیا تھا، کیا اس پر غور نہیں کیاجانا چاہئے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جو اذیتیں اٹھانیپڑیں ، اس کی بھرپائی کیسے ہوگی ؟اور پھر ہیم راج کے اہل خانہ پر جو بیت رہی ہے ، اس کا کیا ہوگا؟ اس فیصلے سے تلوار جوڑے کا غیر مطمئن ہونا فطری ہے ، مگر ان کے لئے عدالت عظمی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، جہاں ان کے وکیل چارہ جوئی کا اعلان کر ہی چکے ہیں،نپور اور راجیش تلوار کو ہندوستانی عدالتی نظام پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔تاہم یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آروشی قتل معاملہ میں مجرم قرار دیے جانے کے فوراً بعد راجیش تلوار اور نوپور تلوار کی طرف سے کورٹ میں ایسے کاغذ تقسیم کئے گئے جن میں ان کے بے گناہ ہونے کے دعوے کے گئے تھے۔ ظاہر ہے انہیں خود کے مجرم قرار دیے جانے کا مکمل اندیشہ رہا ہوگا تبھی یہ کاغذات پہلے سے تیار رکھے گئے ہوں گے۔ تلوار جوڑے کو یہ خدشہ تبھی رہاہوگا جب اس معاملے کو بند کرنے کی اجازت لینے کورٹ پہنچے سی بی آئی کو الٹے آروشی کے والدین کو ملزم بنا کر تحقیقات شروع کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوہرے قتل میں اتنے معمے آگئے تھے کہ ہر کوئی حیران تھا،تاہم مبصرین کے مطابق یہ بھی سچ ہے کہ اس میں بھی خود تلوار ان کی اہلیہ اور مقامی پولیس بڑی حد تک ذمہ دار تھی، تلواراور ان کی اہلیہ بڑے رسوخ والے ہائی ٹیک لوگ تھے،اس لئے قتل کی اطلاع پا کر پہنچی پولیس کو انہوں نے ایسے دائرے میں لیا کہ چھان بین محض خانہ پری بن کر رہ گئی تھی، پولیس اپنی بنیادی ذمہ داری بھی بھول گئی جس میں جائے حادثہ کا گہرائی اور باریک بینی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور اسے سیل کر دیا جاتا ہے تاکہ ثبوت تباہ اور مسخ نہ ہونے پائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ جائے حادثہ پر لوگوں کا ہجوم امڈتا رہا اور ثبوت پیروں تلے روندکرمٹتے چلے گئے۔ ایسے میں یہ فیصلہ ملک کی عدالتی سرگرمی کا ایک اور جیتا جاگتا ثبوت ہے جس میں مجرم اپنے تمام تر اثر ورسوخ کو اختیارکرنے کے باوجودد خود کو انصاف کی زدسے نہیں بچا سکا۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ معاملے کی پہلی ایف آئی آر خود راجیش تلوار نے کرائی تھی اور جس ہیم راج کو نامزد کیا تھا اس کی لاش اسی مکان کی چھت پر چھپا کر رکھی گئی تھی۔ پولیس نے پورے مکان کا جائزہ لینے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی، شاید یہ پولیس کی نااہلی تھی یا تلوارخاندان کی وجاہت سے طاری ہوجانے والا رعب تھا، تلوار اور ان کی اہلیہ کو شکایت ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر انہیں مجرم مان لیا گیا ہے، لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ قانون نے انصاف کے لئے ثبوتوں کے علاوہ حالات کو بھی معیار تسلیم کر رکھا ہے۔ قانون مانتا ہے کہ انسان جھوٹ بول سکتا ہے ، حالات نہیں۔ اس معاملے میں تمام حالات چیخ چیخ کر ان کے گناہ گارہونے کی شہادت دے رہے تھے، تو عدالت بھلاایسے قوی دلائل کو نظر انداز کیسے کرسکتی تھی ۔ 
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش ، چھت پر ملی ہیم راج کی لاش کی شناخت سے انکار کرنا ، چھت پر لگے تالے کو کھولنے سے ہچکچانا ، ہیم راج کو پھنسانے کی کوشش کرنا اور مقدمے کو لمبا کھینچنے کی کوشش کرنا ،حالات اس سے زیادہ اور کیا نشان دہی کر سکتے تھے،سی بی آئی پر وہ چاہے جتنا بھی الزام لگائیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خود تلوار کی بیوی نے سپریم کورٹ تک یہ تنازعہ پہنچا دیا تھا اور ملک کی بڑی عدالت بھی مان رہی تھی کہ ان کے خلاف معاملہ تو بنتا ہی ہے۔ راجیش تلواراور ان کی اہلیہ کے لئے انصاف کے دروازے ابھی کھلے ہیں، جن سے رحم کی ہواؤں کے آنے کی امیدکی جا سکتی ہے، اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے تلوار جوڑے کو یہ سوچنے کا پورا وقت ملے گا کہ ان سے چوک کہاں ہو گئی ! خوشحال زندگی اور کامیاب کیریئر کی چاہ میں ایسی بھی کیا محویت کہ خود اپنی اولادکی تربیت سے غفلت شعاری آگئی ! آروشی میں قابلیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جس کا اعتراف اس کے اساتذہ اور اسکول کے ساتھیو نے بھی کیا ہے ،لیکن وہ اپنے ماں باپ کی مصروف زندگی میں اپنے لیے انس کاپہلو نہیں تلاش کرسکی ، جس میں وہ اپنے جذبات واحساسات کورکھ کر تسکین پاتی اور نتیجتا یہی تنہائی اسے اس منزل پر لے آئی جہاں اسے زندگی داغ مفارقت د ے گئی،یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سماجی اور اقتصادی طور پر ممتاز خاندان میں کہاں چوک ہو گئی، آروشی کے ماں باپ بھی اسے فطری طور پر بہت لاڈ پیار سے ہی پالتے رہے ہوں گے پھر ہوا کیا ، پرورش میں کہاں کمی آگئی، ایسا کیا تھا جو آروشی کو اس کے ماں باپ نہیں دے پائے ۔
درست بات تو یہ بھی ہے کہ وہ دونوں اپنے بہتر کیر یر اور مزید دولت کی تلاش میں’’ وقت‘‘ ہی نہیں دے پائے اپنی اولاد کو، مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچپن سے جب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے وہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے ہی زیادہ گھلتا ملتا ہے۔ اگر ماں باپ بچے کو کم وقت دیتے ہیں اور نوکر زیادہ رہتا ہے بچے کے ساتھ، اس وقت بچہ بھی نوکرکے ساتھ مزید گھل مل جاتا ہے ۔ ماں باپ یہ دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں کہ نوکر کے ساتھ ان کا بچہ بہت خوش ہے اور وہ آرام سے اپنی مصروفیات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ماں باپ یہ سوچ کر اطمینان کر لیتے ہیں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے جب بڑا ہوگا تو اسے اپنے مطابق سمجھا کر جیسا چاہیں گے بنا لیں گے ۔بس یہیں غلطی ہو جاتی ہے شروع سے ہی بچے کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ جو ماں باپ ہیں ان کا کام صرف زندگی کے ضروریات کو پورا کرنا ہے اور دل کے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے نوکر کا ہی سہارا ہے ۔
حالانکہ بچپن سے لے کر بالغ ہونے تک ہی بچے کو ماں باپ کے سہارے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ماں باپ کی، ایسے میں اسے نوکر کے سہارے چھوڑ دینا اسے تباہی کے راستوں کا پتہ دینا ہے۔ یہ بات لڑکے اور لڑکی دونوں کے باب میں مساوی طور پرکہی جاسکتی ہے ۔ بچے کو سائیکل سکھانے کے لئے اسے ایسی سائیکل دلائی جاتی ہے جس کے دونوں طرف دو چھوٹے چھوٹے پہیے اس کا توازن برقرار رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ جب بچے کو توازن بنانا آ جاتا ہے اور اسے چلاتے ہوئے دیکھ کراعتمادپالیتے ہیں کہ اب اس کے پہیے زمین کو نہیں چھو رہے ہیں تب ہی اسے چھوڑا جاتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی پرورش کی جانی چاہئے بچوں کی ۔ماہرین کے مطابق جب تک ہم اس بات پرمطمئن نہ ہو جائیں کہ انہیں اچھے برے کی سمجھ ہو گئی ہے تب تک ہمیں ان کے ساتھ ایک قریبی دوست کی طرح ہی رہنا چاہئے اور بچے میں اتنا یقین پیدا کر دیا جانا چاہئے ماں باپ سے کوئی بھی بات بغیر کسی جھجھک کے کہہ سکے ۔ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گذارنے سے بہت سی الجھنیں یوں ہی حل ہو جاتی ہیں۔ بالغ ہوتے بچے بہت نازک موڑ سے گزررہے ہوتے ہیں ۔ آج کل کے دور میں گھر میں سارے سہولت کے سامان موجود ہیں ،انٹر نیٹ اور ٹی وی کے ذریعے اچھی بری تمام چیزوں تک رسائی ہے ایسے میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور بھی ضروری ہے اور ان پر چیتے کی نظر رکھنا ہی ان کی حفاظت کاضامن ہے ۔

۔۔۔مزید

بدھ، 20 نومبر، 2013

دہلی :تاج کس کے سر پر؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
دہلی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اور اطلاعات اب تک کی یہی ہیں کہ یہ  انتخابات 4 دسمبر 2013 کوہی ہوگا۔ جبکہ اس کے نتائج 8 دسمبر 2013 کوکئے جائیں گے۔یہ ان اے پانچ انتخابات میں سے ہوں گے۔اب کی ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ تاریخی فیصلہ بھی لیا گیا ہے کہجس میں الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے کہ اس کے تحت انتخابات میں اترے تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق ووٹر کے پاس ہو گا۔اس کے اوپر ابھی تک حالانکہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ یہ ہونا چاہئے یا نہیں لیکن ابھی تک اس کو ہٹائے جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے بتایا جاتا ہے کہ انتخابات کے وقت یہاں کی کل آبادی 16،787،941 ہے جس سے 1،15،07113 لوگ اپنے رائے دہی کا استعمال کر سکیں گے۔
 یہ انتخابات ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں ، تعلیم، صحت اور رہائش جیسی ضروری خدمات پہنچ کے باہر ہو رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی اور بی جے پی نے اپنے اپنے انتخابی مہم شروع کر دیے ہیں اور ووٹروں کو بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ لبھایا جانے لگا ہے کہ یہ تمام مسائل ختم ہو جائیں گی اگر " ہماری پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لایا گیا  "۔
یوں تو پانچ ریاستوں میں یہ الیکشن ہونے والے ہیں اور سبھی کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر دہلی کو ہندوستان  کے متوسط ​​طبقے کا نمائندہ شہر کہا جاتا ہے ۔ یہاں پر ہونے والی سیاسی شکست یا فتح کو عملی طور سے کوئی مانے نہیں ہوں پر علامتی معنی گہرا ہوتا ہے۔یہاں سے اٹھنے والی ہوا کے جھونکے پورے ملک کو متاثر کرتے ہیں۔دوسرے ریاستوں کی طرح ، دہلی میں بھی لوگ ایسا تبدیلی چاہتے ہیں جس سےحقیقتا ترقی ہو۔ لیکن ان انتخابات سے ایسی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی انتظام هندوستاني و غیر ملکی اجارےدار کمپنیوں اور سرمایہ داروں ، بڑے  بڑے زمينداروں ، سٹے باجوں اور جمع خوروں کے مفاد میں چلائی جاتی ہیں ، جو عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اس نظام کے اندر جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے ، یہ صورتحال بدلے گی ایسا نہیں لگتا ۔
اس بار دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے کئی سوال بڑے ہی دلچسپ بن پڑے ہیں۔سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا مسلسل تین بار جیتنے کا کرشمہ کرنے والی شیلا دکشت چوتھی بار بھی جیتنے کا ریکارڈ قائم کر پائیں گی  بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟ کیا پارٹی کے وزیر اعلی کے دعویدار کا نام اعلان کئے بغیر ہی الیکشن لڑے گی ؟ اگر جیت گئی تو وزیر اعلی کون ہوگا -ہرش وردھن  یا پھر کوئی اور ؟
انتخابات میں کانگریس تو کوئی غیر متوقع امیدوار شاید ہی کھڑی کرے لیکن بی جے پی ایساکون سا امیدوار لائے گی جو بعد میں سی ایم کے دعویدار بھی بن سکتے ہیں ؟ ان دلچسپ سوالات کے ساتھ دو اور بڑے سوال آ جڑے ہیں، جن کا تصفیہ دہلی انتخابات میں ہی ہو گا۔یہ دونوں ایسے سوال ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے جواب مئی 2014 کے عام انتخابات دیں گے، لیکن شاید اس وقت تک انتظار کی ضرورت نہیں ہوگی۔دہلی ہی ان کا تصفیہ کر دے گی۔
ان میں بڑا سوال تو یہی ہے کہ نریندر مودی فیکٹر ان انتخابات میں کتنا کام کرتا ہے ؟ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مودی پر عام آدمی کی نگاہ ہے۔مودی کے بہانے بی جے پی کی اور بھی کئیمسائل ہیں۔ہندو ووٹوں کے متحد ہونے کی امیدیں بھی وہ باندھ رہی ہے۔یوں تو بی جے پی کے لئے مودی 2014 کے عام انتخابات کے لئے ٹرمپ کارڈ ہیں لیکن یہ اتفاق ہے کہ دہلی انتخابات میں وہ پہلے ہی کسوٹی پر کسے جا چكےگے ۔اس لئے دہلی انتخابات میں ایک اور بڑا سوال ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟
دہلی کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہوں گے لیکن دہلی کے نتائج کی گونج دور تک جاتی ہے۔جن سنگھ کے طور پر بی جے پی نے اپنا سفر بھی دہلی سے ہی شروع کیا تھا اور ایک بار دہلی میں کامیابی ملنے کے بعد ہی اس نے پورے ملک میں قسمت آزمائےتھے۔بی جے پی بھی دہلی کی اہمیت سمجھتی ہے۔اسی لیے اس نے سب سے پہلے تو وجے گوئل کو صوبائی صدر کے طور پر اتارا۔اگرچہ وجیندر گپتا کو برقرار رکھنا یا ڈاکٹر هرشوردھن کو لانے کے اختیارات بھی تھے لیکن وجے گوئل کی جارحانہ اور محنتی تصویر انہیں دوسروں سے آگے لے گئی۔مگر اختلافات کے بعد پھر ہرش وردھن کو امیدوار بنانا پڑا ۔
اب نتن کڈگری کو انچارج بنانے سے بھی ظاہرہے کہ بی جے پی ہر حال میں ان انتخابات کو جیتنا چاہتی ہے۔بی جے پی کو معلوم  ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی طے ہو جائے گا کہ مودی فیکٹر کتنا کام کر رہا ہے۔بی جے پی کو مودی کے فیکٹر کے مثبت ہونے کی امیدیں شہروں میں ہی زیادہ ہے اور دہلی اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ ہے۔اگر دہلی میں مودی کا جادو نہیں چلا تو پھر 2014 کے لئے یہی پیغام جائے گا کہ" دلی ہنوز دور است" ۔
مودی کے علاوہ ارون کیجریوال کا مظاہرہ کیسا رہے گا ، یہ بھی دہلی انتخابات سے منسلک سوال ہے۔انا ہزارے کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف کیجریوال نے جو جنگ شروع کی ہے، اب وہ سیاسی موڑ پراختیار کر چکا ہے۔پورے ملک میں قسمت آزمانے سے پہلے کیجریوال دہلی میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اور انھوں نے زپنے طور پر پوری کوشش بھی کی ہوئی ہے ۔اب یہ ان انتخابات ہی سےیہ  طے ہو سکے گا کہ ان جیسے کاسیاسی پارٹیوں کی سیاست میں جگہ ہے یا نہیں۔یہ سچ ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں سڑکوں پر بہت بڑی تعداد میں لوگ اترے ہیں، لیکن وہ تعداد ووٹوں میں تبدیل ہو پائے گی، اس سوال کا جواب بھی دہلی کے انتخابات ہی دیں گے۔
عام آدمی پارٹی کا مستقبل دہلی انتخابات سے منسلک ہے۔وہ کانگریس کے ووٹ كاٹےگے یا بی جے پی کے یا ایک نیا ووٹ بینک ان کے نام جڑے گا ، یہ بھی طے ہو جائے گا۔ابھی انتخابات میںایک ماہ کا بھی وقت نہیں رہ گیا ہے ۔لیکن اندازے اٹکل کی بنیاد پر مختلف قسم کی تیریں چلائی جا رہی ہیں ۔وہ تیر کہاں لگے گا ۔کس کے ہاتھ میں پالا آئے گا کہنا مشکل ہے ۔کیونکہ ہر ایک کی اپنی الگ کہانی الگ روداد اور الگ دلائل ہیں ۔ان سوالات کے ساتھ اور کئی سوال بھی جڑ سکتے ہیں، لیکن ان بڑے سوالات کی وجہ سے دہلی انتخابات کا اس بار خاص اہمیت بن گیا ہے۔
مبصرین کی مانیں تو جس طرح سے بی جے پی نے ترقی کا آئینہ گجرات کو اور کامیابی کا چہرہ نریندر مودی کو بنایا ہے اسی طرح کانگریس نے بھی ترقی کے لئے دہلی کو رول ماڈل اور وزیر اعلی شیلا دیکشت کو فرنٹ رنر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ یہاں شیلا کانگریس کی کامیابی کا صرف دہلی میں چہرہ ہے، اس سے باہر نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی گلیاروں میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ جس طرح سے راہل فرنٹ رنر بننے سے کترا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے اگر شیلا چوتھی بار کانگریس کو دہلی کے اقتدار سونپنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو پارٹی ان کے انتخابی تجربہ اور مہارت کا استعمال لوک سبھا انتخابات میں کرنے سے نہیں هچكےگي ۔ ویسے بھی شیلا کی سونیا کے تئیں وفاداری اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں کانگریس کی راہ آسان کر سکے گی۔اس لحاظ سے بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لئے دہلی فتح کرنا وقت کی سب سے ضروری مطالبہ بن گئی ہے۔ اس کا اثر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ دہلی میں بہہ رہی انتخابی ہوا میں مودی کا رنگ اب گهرانے لگا ہے۔
اس مرتبہ دہلی میں مسلمانوں کو ان انتخابات میں رام کرنا کانگریس کے لئے سب سے زیادہ مشکل تصور کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل ایسی خبریں سامنے آئیں ہیں جنکے سبب مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں تلخی بڑھی ہے۔خود جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری بارہا کانگریس کی کھنچائی کر چکے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ان چناؤ ں میں انکی حمایت سماجوادی پارٹی کو حاصل ہوگی ۔پورے ملک میں مسلم  نوجوانوں کو مسلسل پولس کے ذریعہ پریشان کئے جانے جیسے معاملات بھی اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان انتخابات میں کانگریس کو مسلمانوں کو ساتھ لانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے ہونگے۔چناؤ کے اس دنگل میں کسکو جیت اور کسے شکست نصیب ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال جو صورتحال ہے وہ نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس کے لئے بھی غیر یقینی ہے اسلئے ان تمام پارٹیوں کو مل کر کافی محنت کرنی پڑے گی تبھی ان کی ناؤ کنارے لگ سکتی ہے۔ 

۔۔۔مزید

اتوار، 10 نومبر، 2013

مدیر ماہنامہ "تدبر"لاہور مولانا خالد مسعود کی یاد میں

یہ غالبا 1999 یا 2000 کا واقعہ ہے ۔مدرسۃ الاصلاح میں امین احسن اصلاحی سیمنار تھا ۔اُ س میں مولانا پاکستان سے انڈیا تشریف لائے تھے ۔حُلیہ تو پوری طرح یاد نہیں اُس وقت میں کافی چھوٹا تھا غالبا دس سال کا ۔ہلکا ہلکا ذہن میں عکس بھر ہے لمبے تڑنگے ۔تُرکی ٹوپی پہنے ہوئے انتہائی پر وقار شخصیت ۔اس وقت اصلاح میں کافی ہنگامہ تھا کہ امین احسن اصلاحی کے شاگرد آ رہے ہیں ۔بھیڑ بہت زیادہ تھی یوں کہہ سکتے ہیں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو مولانا کو دیکھنے کے لئے امنڈ پڑا تھا ۔

مولانا نے زبردست تقریر کی تھی ۔۔۔ ۔۔کیا کہا تھا ؟۔۔۔ یہ بھی مجھے یادنہیں ہے ،لیکن میں نے زبردست کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ اساتذہ سے بعد کے ایام تک بھی جب تک میں اصلاح میں رہا اس خطاب کا تذکرہ کرتے سنا ۔مجھے یاد پڑتا ہے سرائے میر کے ریلوے اسٹیشن سینیر طلباء اور اساتذہ مولانا کو چھوڑنے گئے تھے تو سب کی آنکھیں نمدیدہ تھیں ۔

آج اچانک اپنی فائل میں سے کچھ ضروری کاغذات ڈھونڈ رہا تھا تو ضیاء الرحمان اعظمی صاحب کی یہ نظم ملی سوچا کیوں نا محفل میں شیر کر دوں ۔یہی بہانے محفوظ بھی ہو جائے گی اور لوگ واقف بھی ہو سکیں گے۔کہ یہ عظیم شخصیت کون تھی ؟۔

مولانا کے انتقال پرمولانا طالب الہاشمی صاحب جو غالبا جاوید احمد غامدی صاحب کے ادارہ سے وابستہ ہیں نے ماہنامہ"المورد " میں مولانا کے انتقال کے بعد اپنے جس غم اور درد کا اظہار کیا تھا۔نیچے دی گئی تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے انٹرنیٹ سرچ میں مجھے یہ مل گیا ۔تو اسے بھی یہاں منسلک کر رہا ہوں ۔
(علم)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
خالد مسعود کی رحلت
صاحب سیرت و کردار علما کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ ہمارا یہ زمانہ تو بطور خاص رجال خیر و صلاح کے قحط کا زمانہ ہے۔ خالد مسعود صاحب مرحوم ان چند افراد میں سے ایک تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دین کا علم بھی دیا تھا اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی بخشی تھی۔
وہ قرآن کے عالم تھے۔ وہ حدیث کے عالم تھے۔ ان کی اسلامی تاریخ پر اچھی نظر تھی۔ ان موضاعات پر ان کا وقیع علمی کام کتابوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن اس جلالت علمی کے باوجود ان کی شخصیت انتہائی سادہ تھی۔ کوئی طنطنہ اور طمطراق یا علم کا زعم، اس طرح کی کسی چیز کی پر چھائیں بھی ان کی شخصیت پر نظر نہیں آتی تھیں۔ ہاں ان کے لیے فخر کی بات اور ان کا سرمایہ حیات ایک ہی بات تھی اور وہ یہ کہ وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد تھے۔
بلاشبہ، وہ مولانا امین احسن اصلاحی کے لائق شاگرد تھے۔ انھوں نے ان سے علوم اسلامی کی تحصیل کی اور پھر ساری عمر ان کے افکار کی خدمت میں صرف کردی۔ روزی کمانے کے جھنجھٹ کے بعد ان کی ساری سرگرمیوں کا محور و مرکز مولانا امین احسن اصلاحی تھے۔ استاد کی شخصیت میں گم ایسے شاگرد دنیا نے کم ہی دیکھے ہوں گے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس کی شہرت اور ناموری سے کرتے ہیں۔ ایسے گوشہ گیر جو علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہوں، زمانے کی نگاہ میں نہیں آتے۔ سچی عظمت کیا ہے کہ آدمی خدا کا سچا بندہ ہو اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے متصف ہو۔ خالد مسعود ہر اعتبار سے ایسے ہی عظیم لوگوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھے۔
مرحوم کا علمی کام اور ان کی دینی خدمات ان کے خیر کو جاری رکھیں گی۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ان کے حسنات کو قبول فرمائے۔ ان کی کمزوریوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ انھیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے۔ جیسا ان کا چہرہ دنیا میں روشن و تاباں تھا، ایسا ہی آخرت میں روشن و تاباں رہے۔"
http://www.al-mawrid.org/pages/articles_urdu_detail.php?rid=883&cid=533



مدیر ماہنامہ "تدبر"لاہور
مولانا خالد مسعود کے انتقال پر

ضیاء الرحمان ضیاء اصلاحی

جاتی ہے اب تو وائے رے عظمت رہی سہی
ائے دل بتا یہ کیسی مصیبت سہی گئی

وا حسرتا !کہ گُم ہے متاع گراں بہا
وا ویلتا ! ہے دامن فردا تہی تہی

وہ سر گیا جو شان کُلاہ بلند تھا
ڈوبی وہ نبض جس میں حرارت بھری رہی

دانائے راز اُٹھ گیا محفل اداس ہے
مجموعہء صفات وہ ہستی نہ اب رہی

جاں کا ہ حادثہ ہےیہ ،غم بے بیان ہے
اب صبر کیجئے کہ عبادت ہے یہ بڑی

ملتے ہیں ایسے لوگ زمانے میں خال خال
اٹھتے ہیں سر فروش بھی ایسے کبھی کبھی

اللہ کی رضا پہ بھلا کس کا زور ہے
وہ لے گیا کہ یہ تو امانت اسی کی تھی

خالد تو جاوداں ہے دیار خلود میں
ہوئے نصیب اس کو شفاعت رسول کی

ائے صبر آ! کہ غم کا مداوا ضرور ہے
ہوگا نہ ختم ،کم سہی اتنا ضرور ہے
مولانا مرحوم کے بارے میں مزید معلومات انگریزی وکی پیڈیاسے بھی حاصل کی جا سکتی ہیں ملاحظہ فرمائیں : 
http://en.wikipedia.org/wiki/Khalid_Masud

۔۔۔مزید

جمعہ، 1 نومبر، 2013

بی جے پی : دہلی میں کون بنے گا صدر ؟



 تعین کے باوجود گھمسان جاری
محمد علم اللہ اصلاحی 
بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ میں نہ تھمنے والے گھمسان کو لے کر فی الحال پارٹی کے اعلی رہنما مشکل میں ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں پھولتے نظر آ رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میںچند ماہ کا وقت بھی نہیں بچا ہے اور حالات یہ ہیں کہ وزیر اعلی شیلا دکشت اور کانگریس کے خلاف مورچہ لینے کی جگہ پارٹی کے ریاست کے بڑے لیڈران آپس میں ہی الجھ رہے ہیں۔ اورانتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جانے کے باوجود بی جے پی کا ایک طبقہ ابھی بھی وزیر اعلی کے امیدوار کااعلان کروانے کے لئے سرگرم ہے ، جبکہ کوئی امیدوار نہ اعلان ہونے پر ریاستی صدر وجے گوئل کے حامی اور میڈیا کا ایک طبقہ انہیں ہی وزیر اعلی کا امیدوار پیش کر رہا ہے۔ وزیر اعلی شیلا دکشت نے یہ کہہ کر نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ وزیر اعلی بنے یا نہ بنے کانگریس چوتھی بار اسمبلی انتخابات جیتے گی ۔کانگریس میں تو وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت ہی نہیں ہے۔ا انتخابی نتائج کے بعد پارٹی اراکین تجویز پاس کرکے وزیر اعلی کے انتخاب کا اختیار کانگریس کی صدر کو دے دیتےہیں اور وہیں سے جو نام طے ہوتا ہے وہ وزیر اعلی بن جاتا ہے۔

بی جے پی نے پانچ ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لئے تو وزیر اعظم کا امیدوارکون ہوگا یہ عام کر دیا لیکن دہلی اسمبلی کے لئے کسی کو وزیر اعلی کے امیدوارکی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ اور اس کے پہلے اچانک 15 فروری کو وجیندر گپتا کے مقام پر وجے گوئل کو صوبائی صدر بنا دیا گیا۔ پھر دو ماہ بعد اچانک سابق ریاستی صدر ڈاکٹر هرش وردھن کو وزیر اعلی کے امیدوارکے طور پر اعلان کرنے کی تیاری کر لی گئی اور جب یہ معلومات میڈیا میں آ گئی تو اعلان ٹال دیا گیا۔ تب سے پارٹی کے دہلی انتخابات کے انچارج نتن گڈکری اور دوسرے لیڈر اسی ناپ تول میں لگے ہوئے ہیں کہ وزیر اعلی کا امیدوار اعلان کرنے سے پارٹی کو فائدہ ہوگا یا نقصان ۔پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے جس امید کے ساتھ اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے تمام مخالفتوں کو نظرانداز کرکے وجے گوئل کو دہلی کی کمان سونپی تھی اب اس پر ہی سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔ کسی بھی ریاستی  انتخابات کے دوڑ میں اتنی جلدی اس  مسئلہ کا تنازعات میں آ جانا پارٹی کے لئے ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ بی جے پی کے مرکزی سطح کے لیڈر بھی مسٹر گوئل کے طریقہ کار کو لےناخوشی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ یہ بات راج ناتھ سنگھ کے دربار تک بھی جا پہنچی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مسٹر گوئل کو باگ ڈور دہلی میں گروپ بندی ختم کر پارٹی کو متحد کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ انہیں دیا گیا ضرورت سے زیادہ فری ہینڈ کہیں بی جے پی سے جیتی ہوئی بازی نہ چھین لے۔

بتایا جاتا ہے کہ جس وقت وجے گوئل کو باگ ڈور سونپی گئی تھی تو آر ایس ایس کو بھی یہ کہہ کر اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ بی جے پی میں سب کو متحد کر کے پارٹی میں نئی روح پھونکنے کا کام کریں گے ، جس سے کہ دہلی اسمبلی کا انتخاب بی جے پی آسانی سے فتح کر سکے گی۔ لیکن یہ اندازہ صرف اندازہ ہی رہ گیا۔ مسٹر گوئل نے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی وہاں موجود تمام رہنماؤں کو اشاروں اشاروں میں سمجھا دیا تھا کہ وہ اپنی ہی چلائیں گے۔ ان کی یہ بات اس وقت پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بری  بھی لگی تھی لیکن امید تھی کہ ایسا انہوں نے جوش، جذبہ میں کیا ہے اور منجھے ہوئے لیڈر ہونے کی وجہ سے وہ بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھال لیں گے لیکن کہانی کچھ اور ہی ہوئی۔ مسٹر گوئل نے پہلے ہی دن سے اپنے نشانے پر ان سابق لیڈران کو لے لیا جو مستقبل میں وزیر اعلی کے دعویدار ہو سکتے تھے۔ مسٹر گوئل نے دہلی بی جے پی کے ضلعی صدر کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے ارادوں کی جھلک بھی دے دی اور ریاست کے سابق لیڈران  کے حامیوں کو جگہ دینا تو دور کی بات ان کا قہر مخالفین کو ان کے ہی علاقے میں اتنی ہوا دے دی جو سیاسی طور پر انہیں جھٹکا دینے والا تھا۔ اسی طرح  شہر کے تینوں کارپوریشنوں میں تبدیلی کے وقت سابق صدر وجیندر گپتا کی نزدیکیوں کے ساتھ ساتھ بڑے لیڈروں کے قہر نے حامیوں کو کارپوریشن میں اہم عہدوں سے بھی باہر کر دیا۔ 

حالانکہ اس معاملے میں اس وقت مجروح کاؤنسلروں اور لیڈروں میں سے زیادہ تر نے مسٹر گوئل کے یہاں حاضری لگانے کے بجائے چپ رہنا مناسب سمجھا۔یوگیندر چندوليا ضرور خاموش رہے جو کارپوریشن میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے صدر کے عہدے پر برقرار نہ رہ پانے کے بعد پالا بدل کر گوئل کی پناہ میں چلے گئے اور ان کی ٹیم میں نائب صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے پیچھے قرول باغ وارڈ میں منسلک ان کی کچھ مجبوریاں بھی بتائی جا رہی ہیں۔ صدارتی عہدے کے اعلان کے بعد رہی سہی یہ کسر بھی واضح ہو گئی کہ اضلاع میں مخالفین کی نظر اندازی  محض اتفاق نہیں تھی بلکہ حکمت عملی کے تحت تھی کیونکہ بنیادی ٹیم میں بھی وہی سب کچھ دہرایا گیا۔

 ریاست کی طرف سے کارپوریشن کا ؤنسلروں کو اپنےاپنے علاقوں میں عوامی عدالتیں لگانے کی ہدایات سے کونسلر تونا خوش ہیں ہی اسمبلی بھی خفا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان عوامی عدالتوں میں مسئلہ تو حل ہونا نہیں ہے الٹا عوام کی ناراضگی بڑھے گی کیونکہ وہاں بجلی، پانی، ڈی ڈی اے سمیت ایسے مسائل اٹھائےجائیں گے جن کا تعلق زیادہ تر دہلی حکومت کے محکموں سے ہے اور ان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہو گا۔وہاں بیٹھ کر جب ہم ان کے حل کی بات کریں گے تو "آ بیل مجھے مار "والی کہاوت براہ راست نافذ ہوگی اور اس کا خمیازہ کاؤنسلرز کا ؤنسلروں کو نہیں ہمیں اسمبلی انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی جو وجیندر گپتا کی اسمبلی میں دلبرداشتہ تھے اور وجے گوئل کے بننے سےپارٹی اور بی جے پی ممبر اسمبلی پارٹی میں تال میل بڑھنے کی امید کر رہے تھے، انھوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس سے ٹھیک تو پہلا صدر تھا۔

 اراکین اسمبلی کے قریبی کہتے ہیں کہ 4-4 بار کے جیتے ممبران اسمبلی کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پکی مان کر نہ چلیں ، اس سے بڑی بےعزتی ان کی اور کیا ہو سکتی ہے۔مسٹر گوئل نے بھلے ہی اسمبلی انتخابات لڑنے نہ لڑنے کو لے کر کوئی تبصرہ نہ کیاہو لیکن مانا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لئے محفوظ ( مضبوط ) نشست تلاش کر رہے ہیں ، جہاں سے انہیں مزید محنت نہ کرنی پڑے۔ان کے والد چرت لال گوئل نے سال 1993 میں جس ماڈل ٹاؤن سیٹ سے جیتا تھا ، وہاں تین بار سے کانگریس کا قبضہ ہے ، وہیں آس پاس کی مضبوط سیٹیں جو بی جے پی کے پاس ہیں انہیں کسی بھی رکن اسمبلی سے خالی کرانے پر بغاوت ہو سکتی ہے۔پارٹی کی مرکزی سیکریٹری آرتی مہرا کی ڈنر پارٹی کو وجے گوئل کے خلاف بغاوت کی شروعات سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ اس پارٹی میں شامل کچھ رہنماؤں نے مسٹر گوئل کو صفائی دی ہے کہ وہ تو عام پارٹی مان کر گئے تھے انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا مقصد دوسرا ہے دکھاوے کے لئے وجے گوئل اگرچہ اس واقعہ کو عام کہہ کر کوئی اہمیت نہیں دے رہے لیکن اس حوالے سے وہ چوکنا ہو گئے ہیں اور مخالفین پر جوابی حملہ کا راستہ بھی ڈھونڈرہے ہیں۔ پارٹی میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے اعلی لیڈروں کو فی الحال ایک ہی حل نظر آ رہا ہے کہ جلد سے جلد ایک ایسےموثر لیڈر کو دہلی کا انچارج بنا دیا جائے جو مسٹر گوئل پر بھی بھاری ہو اور تمام غیر مطمئن رہنماؤں کو متحد کر سکے۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تو شروع سے پارٹی کی باگ ڈور اس وقت کے ریاستی صدر ڈاکٹر ہرش وردھن کے ہاتھ میں تھا۔اچانک 26 ستمبر 2008 کو پارٹی قیادت نے سینئر رہنما وجے کمار ملہوترا کو وزیر اعلی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد  کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے ان کا تعاون کیا لیکن اس کے سال بھر پہلے ہوئے کارپوریشن انتخابات کی جیت کا سارا جوش کارکنوں میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ کل 62،42،917 ووٹ ڈالے گئے اور اس میں کانگریس کو 24،89،817 اور بی جے پی کو 22،75،711 ووٹ ملے یعنی بی جے پی 2،14،106 ووٹوں کے فرق سے الیکشن ہار گئی۔ بی ایس پی کو 9،01،670 ووٹ ملے تھے. کانگریس کو 70 میں 43 اور بی جے پی کو 23 سیٹیں ملیں۔لوک سبھا انتخابات اور لین بدلی کے بعد اب کانگریس کے تو 43 رکن ہی ہیں بی جے پی کے رکن 24 ہو گئے ہیں۔ 1993 کے اسمبلی انتخابات کے وقت مدن لال كھرانا صوبائی  بی جے پی کے صدر تھے۔ کافی کوششوں کے بعد پارٹی نے انہیں وزیر اعلی کےعہدیدار کے طور پر اعلان کیا ۔ پارٹی نے انہیں فری ہینڈ دیا تو نتائج بی جے پی کے حق میں آئے۔ اس کی ایک وجہ جنتا دل کو ملے 18 فیصد ووٹ بھی مانے جا رہے ہیں۔

1998کے اسمبلی انتخابات کے پہلے تو بی جے پی میں گروپ بندی بھاری چلی۔كھرانا کے دباؤ میں صاحب سنگھ ورما کو ہٹایا گیا لیکن ان دونوں کے نہ چاہتے ہوئے سشما سوراج کو وزیر اعلی بنا کر ان پر اگلے انتخابات میں بی جے پی کو جتانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ وہ طریقہ کار  کامیاب نہیں ہوااور بی جے پی انتخابات ہارگئی ۔ اسی طرح 2002کے کارپوریشن انتخابات ہارنے کے بعد مانگےرام گرگ کو ریاستی صدر سے ہٹا کر پھر سے كھرانا کو ریاستی صدر بنایا گیا۔ تب تک حالات کافی بدل چکے تھے، اس بار كھرانا نہیں چلے اور شیلا دکشت کاایجنڈاچل گیا۔ كھرانا اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی کوششیں کر چکے تھے۔ یہ انتخابات كھرانا دور کے اختتام کا اعلان کرنے والا تھا۔ كھرانا کے ساتھی ملہوترا کو كھرانا کے رہتے مزید اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اس کے بعد اپنی چلوا لی۔ نتائج جگ ظاہر ہونے کے بعد ہی اس بار پارٹی قیادت ابھی تک فیصلہ نہیں لے پا رہی ہے۔

دراصل سروے کی روایت نے وزیر اعلی ، وزیر اعظم کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت کو اور بڑھا دیا ہے۔ اسی کے ساتھ  ساتھ میڈیا میں بھی سروے کو کور کروانے یا خود سروے کرنے کی دوڑ سی لگ گئی۔اس کے بعد تو پارٹیاں اپنے آپ وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے لگیں۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی ڈھنگ کے امیدوارکا اعلان نہیں کرے گی تب ایسا ہی ہوگا کہ شیلا دکشت کا موازنہ اروند کیجری وال جیسے لیڈر سے کیا جائے گا۔ کانگریس میں تو شیلا دکشت کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا اعلان ہوا ہےتو انہیں وزیر اعلی کے امیدوار اپنے آپ مان لیا گیا ہے۔ 1998 میں مشرقی دہلی لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد انہیں چو پریم سنگھ کو ہٹا کر ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔ انہیں صدر بنوانے والے رہنماؤں میں اےایچ کے ایل بھگت ، سجن کمار ، جگدیش ٹايٹلر وغیرہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے ملزم ہونے کے سبب خود ریاستی صدر نہیں بن سکتے تھے تو انہوں نے دہلی کی سیاست کی کم علم اور کم پکڑ والی شیلا دیکشت کو ریاستی صدر بنوایا ۔ سال بھر میں دکشت نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے حساب سے چلیں گی تو تمام ان کے خلاف ہو گئے۔بڑا مہم چلا، شیلا دکشت نہ صرف بچ گئیں بلکہ اپنی زمین کو سب سے زیادہ مضبوط بنا لیا۔

ن2003اسمبلی انتخابات آتے آتے تو دلی میں ان کا سکہ چلنے لگا۔بی ایس پی کے بڑھتے اثر کو کم کرنے کے لئے 2002، میں پھر چو پریم سنگھ کو اسمبلی کے صدر کے بجائے ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔چو پریم سنگھ کے حامیوں نے یہی کہ کیا کہ اگر کانگریس جیتی توپریم سنگھ وزیر اعلی ہوں گے۔ لیکن انتخابات کے نتائج آنے کے بعدپریم سنگھ کے ممبران اسمبلی کی رائے لینے کی ضد کے باوجود شیلا دکشت وزیر اعلی بنیں۔ انہوں نے انتخابات میں چالاکی سے موجودہ اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کی وکالت کی تھی جبکہ پریم سنگھ ایک دو ٹکٹ پر ہی اٹک گئے تھے۔ دوسرے ان کے دہلی میں نئے تجربات کا بھی یہ انتخاب تھا۔ تیسرے انتخابات میں تو وہ اپنے آپ وزیر اعلی کی امیدوار بن گئیں، جیسے اس بار بنی ہوئی ہیں۔ تمام لیڈر بھی انہی کا نام لیتے ہیں، ویسے پارٹی کی قیادت وزیر اعلی شیلا دکشت اور پردیش کانگریس صدر جے پرکاش اگروال کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی بات کرتا ہے لیکن بی جے پی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی کسی کو وزیر اعلی کا امیدوار طے نہیں کیا جا  سکا ہے لیکن ایسے اعلان کی ضرورت پارٹی کے زیادہ تر لوگ محسوس کر رہے ہیں۔

ریاستی انچارج کے طور پر جو نام گردش میں ہیں ان پر فی الحال اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے ، لیکن اس بارے میں جلد فیصلہ لیا جائے گا۔صدر کون بنے گا یہ تو پارٹی کے بڑے لیڈر ہی طے کریں گے لیکن اسمبلی انتخابات سے پہلے جو حالات دہلی بی جے پی میں بنے ہیں وہ مستقبل کے لئے اچھے اشارے نہیں دے رہے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ دہلی بی جے پی میں جو" ' ایکلا چلو رے" کی جوروایت شروع ہوئی ہے وہ بھی پارٹی کے گراف کو نیچے کی طرف لے جا رہی ہے۔ہائی کمان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 alamislahi@gmail.com

۔۔۔مزید