جمعہ، 1 نومبر، 2013

بی جے پی : دہلی میں کون بنے گا صدر ؟



 تعین کے باوجود گھمسان جاری
محمد علم اللہ اصلاحی 
بھارتیہ جنتا پارٹی کی دہلی یونٹ میں نہ تھمنے والے گھمسان کو لے کر فی الحال پارٹی کے اعلی رہنما مشکل میں ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں پھولتے نظر آ رہے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میںچند ماہ کا وقت بھی نہیں بچا ہے اور حالات یہ ہیں کہ وزیر اعلی شیلا دکشت اور کانگریس کے خلاف مورچہ لینے کی جگہ پارٹی کے ریاست کے بڑے لیڈران آپس میں ہی الجھ رہے ہیں۔ اورانتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جانے کے باوجود بی جے پی کا ایک طبقہ ابھی بھی وزیر اعلی کے امیدوار کااعلان کروانے کے لئے سرگرم ہے ، جبکہ کوئی امیدوار نہ اعلان ہونے پر ریاستی صدر وجے گوئل کے حامی اور میڈیا کا ایک طبقہ انہیں ہی وزیر اعلی کا امیدوار پیش کر رہا ہے۔ وزیر اعلی شیلا دکشت نے یہ کہہ کر نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ وزیر اعلی بنے یا نہ بنے کانگریس چوتھی بار اسمبلی انتخابات جیتے گی ۔کانگریس میں تو وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت ہی نہیں ہے۔ا انتخابی نتائج کے بعد پارٹی اراکین تجویز پاس کرکے وزیر اعلی کے انتخاب کا اختیار کانگریس کی صدر کو دے دیتےہیں اور وہیں سے جو نام طے ہوتا ہے وہ وزیر اعلی بن جاتا ہے۔

بی جے پی نے پانچ ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لئے تو وزیر اعظم کا امیدوارکون ہوگا یہ عام کر دیا لیکن دہلی اسمبلی کے لئے کسی کو وزیر اعلی کے امیدوارکی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ اور اس کے پہلے اچانک 15 فروری کو وجیندر گپتا کے مقام پر وجے گوئل کو صوبائی صدر بنا دیا گیا۔ پھر دو ماہ بعد اچانک سابق ریاستی صدر ڈاکٹر هرش وردھن کو وزیر اعلی کے امیدوارکے طور پر اعلان کرنے کی تیاری کر لی گئی اور جب یہ معلومات میڈیا میں آ گئی تو اعلان ٹال دیا گیا۔ تب سے پارٹی کے دہلی انتخابات کے انچارج نتن گڈکری اور دوسرے لیڈر اسی ناپ تول میں لگے ہوئے ہیں کہ وزیر اعلی کا امیدوار اعلان کرنے سے پارٹی کو فائدہ ہوگا یا نقصان ۔پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے جس امید کے ساتھ اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے تمام مخالفتوں کو نظرانداز کرکے وجے گوئل کو دہلی کی کمان سونپی تھی اب اس پر ہی سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔ کسی بھی ریاستی  انتخابات کے دوڑ میں اتنی جلدی اس  مسئلہ کا تنازعات میں آ جانا پارٹی کے لئے ایک بڑا سوال بن گیا ہے۔ بی جے پی کے مرکزی سطح کے لیڈر بھی مسٹر گوئل کے طریقہ کار کو لےناخوشی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ یہ بات راج ناتھ سنگھ کے دربار تک بھی جا پہنچی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مسٹر گوئل کو باگ ڈور دہلی میں گروپ بندی ختم کر پارٹی کو متحد کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن یہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ انہیں دیا گیا ضرورت سے زیادہ فری ہینڈ کہیں بی جے پی سے جیتی ہوئی بازی نہ چھین لے۔

بتایا جاتا ہے کہ جس وقت وجے گوئل کو باگ ڈور سونپی گئی تھی تو آر ایس ایس کو بھی یہ کہہ کر اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ بی جے پی میں سب کو متحد کر کے پارٹی میں نئی روح پھونکنے کا کام کریں گے ، جس سے کہ دہلی اسمبلی کا انتخاب بی جے پی آسانی سے فتح کر سکے گی۔ لیکن یہ اندازہ صرف اندازہ ہی رہ گیا۔ مسٹر گوئل نے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی وہاں موجود تمام رہنماؤں کو اشاروں اشاروں میں سمجھا دیا تھا کہ وہ اپنی ہی چلائیں گے۔ ان کی یہ بات اس وقت پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بری  بھی لگی تھی لیکن امید تھی کہ ایسا انہوں نے جوش، جذبہ میں کیا ہے اور منجھے ہوئے لیڈر ہونے کی وجہ سے وہ بی جے پی کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھال لیں گے لیکن کہانی کچھ اور ہی ہوئی۔ مسٹر گوئل نے پہلے ہی دن سے اپنے نشانے پر ان سابق لیڈران کو لے لیا جو مستقبل میں وزیر اعلی کے دعویدار ہو سکتے تھے۔ مسٹر گوئل نے دہلی بی جے پی کے ضلعی صدر کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے ارادوں کی جھلک بھی دے دی اور ریاست کے سابق لیڈران  کے حامیوں کو جگہ دینا تو دور کی بات ان کا قہر مخالفین کو ان کے ہی علاقے میں اتنی ہوا دے دی جو سیاسی طور پر انہیں جھٹکا دینے والا تھا۔ اسی طرح  شہر کے تینوں کارپوریشنوں میں تبدیلی کے وقت سابق صدر وجیندر گپتا کی نزدیکیوں کے ساتھ ساتھ بڑے لیڈروں کے قہر نے حامیوں کو کارپوریشن میں اہم عہدوں سے بھی باہر کر دیا۔ 

حالانکہ اس معاملے میں اس وقت مجروح کاؤنسلروں اور لیڈروں میں سے زیادہ تر نے مسٹر گوئل کے یہاں حاضری لگانے کے بجائے چپ رہنا مناسب سمجھا۔یوگیندر چندوليا ضرور خاموش رہے جو کارپوریشن میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے صدر کے عہدے پر برقرار نہ رہ پانے کے بعد پالا بدل کر گوئل کی پناہ میں چلے گئے اور ان کی ٹیم میں نائب صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے پیچھے قرول باغ وارڈ میں منسلک ان کی کچھ مجبوریاں بھی بتائی جا رہی ہیں۔ صدارتی عہدے کے اعلان کے بعد رہی سہی یہ کسر بھی واضح ہو گئی کہ اضلاع میں مخالفین کی نظر اندازی  محض اتفاق نہیں تھی بلکہ حکمت عملی کے تحت تھی کیونکہ بنیادی ٹیم میں بھی وہی سب کچھ دہرایا گیا۔

 ریاست کی طرف سے کارپوریشن کا ؤنسلروں کو اپنےاپنے علاقوں میں عوامی عدالتیں لگانے کی ہدایات سے کونسلر تونا خوش ہیں ہی اسمبلی بھی خفا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان عوامی عدالتوں میں مسئلہ تو حل ہونا نہیں ہے الٹا عوام کی ناراضگی بڑھے گی کیونکہ وہاں بجلی، پانی، ڈی ڈی اے سمیت ایسے مسائل اٹھائےجائیں گے جن کا تعلق زیادہ تر دہلی حکومت کے محکموں سے ہے اور ان سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہو گا۔وہاں بیٹھ کر جب ہم ان کے حل کی بات کریں گے تو "آ بیل مجھے مار "والی کہاوت براہ راست نافذ ہوگی اور اس کا خمیازہ کاؤنسلرز کا ؤنسلروں کو نہیں ہمیں اسمبلی انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی جو وجیندر گپتا کی اسمبلی میں دلبرداشتہ تھے اور وجے گوئل کے بننے سےپارٹی اور بی جے پی ممبر اسمبلی پارٹی میں تال میل بڑھنے کی امید کر رہے تھے، انھوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس سے ٹھیک تو پہلا صدر تھا۔

 اراکین اسمبلی کے قریبی کہتے ہیں کہ 4-4 بار کے جیتے ممبران اسمبلی کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پکی مان کر نہ چلیں ، اس سے بڑی بےعزتی ان کی اور کیا ہو سکتی ہے۔مسٹر گوئل نے بھلے ہی اسمبلی انتخابات لڑنے نہ لڑنے کو لے کر کوئی تبصرہ نہ کیاہو لیکن مانا جا رہا ہے کہ وہ اپنے لئے محفوظ ( مضبوط ) نشست تلاش کر رہے ہیں ، جہاں سے انہیں مزید محنت نہ کرنی پڑے۔ان کے والد چرت لال گوئل نے سال 1993 میں جس ماڈل ٹاؤن سیٹ سے جیتا تھا ، وہاں تین بار سے کانگریس کا قبضہ ہے ، وہیں آس پاس کی مضبوط سیٹیں جو بی جے پی کے پاس ہیں انہیں کسی بھی رکن اسمبلی سے خالی کرانے پر بغاوت ہو سکتی ہے۔پارٹی کی مرکزی سیکریٹری آرتی مہرا کی ڈنر پارٹی کو وجے گوئل کے خلاف بغاوت کی شروعات سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ اس پارٹی میں شامل کچھ رہنماؤں نے مسٹر گوئل کو صفائی دی ہے کہ وہ تو عام پارٹی مان کر گئے تھے انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا مقصد دوسرا ہے دکھاوے کے لئے وجے گوئل اگرچہ اس واقعہ کو عام کہہ کر کوئی اہمیت نہیں دے رہے لیکن اس حوالے سے وہ چوکنا ہو گئے ہیں اور مخالفین پر جوابی حملہ کا راستہ بھی ڈھونڈرہے ہیں۔ پارٹی میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پارٹی کے اعلی لیڈروں کو فی الحال ایک ہی حل نظر آ رہا ہے کہ جلد سے جلد ایک ایسےموثر لیڈر کو دہلی کا انچارج بنا دیا جائے جو مسٹر گوئل پر بھی بھاری ہو اور تمام غیر مطمئن رہنماؤں کو متحد کر سکے۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تو شروع سے پارٹی کی باگ ڈور اس وقت کے ریاستی صدر ڈاکٹر ہرش وردھن کے ہاتھ میں تھا۔اچانک 26 ستمبر 2008 کو پارٹی قیادت نے سینئر رہنما وجے کمار ملہوترا کو وزیر اعلی کے امیدوار کی حیثیت سے نامزد  کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے ان کا تعاون کیا لیکن اس کے سال بھر پہلے ہوئے کارپوریشن انتخابات کی جیت کا سارا جوش کارکنوں میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ کل 62،42،917 ووٹ ڈالے گئے اور اس میں کانگریس کو 24،89،817 اور بی جے پی کو 22،75،711 ووٹ ملے یعنی بی جے پی 2،14،106 ووٹوں کے فرق سے الیکشن ہار گئی۔ بی ایس پی کو 9،01،670 ووٹ ملے تھے. کانگریس کو 70 میں 43 اور بی جے پی کو 23 سیٹیں ملیں۔لوک سبھا انتخابات اور لین بدلی کے بعد اب کانگریس کے تو 43 رکن ہی ہیں بی جے پی کے رکن 24 ہو گئے ہیں۔ 1993 کے اسمبلی انتخابات کے وقت مدن لال كھرانا صوبائی  بی جے پی کے صدر تھے۔ کافی کوششوں کے بعد پارٹی نے انہیں وزیر اعلی کےعہدیدار کے طور پر اعلان کیا ۔ پارٹی نے انہیں فری ہینڈ دیا تو نتائج بی جے پی کے حق میں آئے۔ اس کی ایک وجہ جنتا دل کو ملے 18 فیصد ووٹ بھی مانے جا رہے ہیں۔

1998کے اسمبلی انتخابات کے پہلے تو بی جے پی میں گروپ بندی بھاری چلی۔كھرانا کے دباؤ میں صاحب سنگھ ورما کو ہٹایا گیا لیکن ان دونوں کے نہ چاہتے ہوئے سشما سوراج کو وزیر اعلی بنا کر ان پر اگلے انتخابات میں بی جے پی کو جتانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔ وہ طریقہ کار  کامیاب نہیں ہوااور بی جے پی انتخابات ہارگئی ۔ اسی طرح 2002کے کارپوریشن انتخابات ہارنے کے بعد مانگےرام گرگ کو ریاستی صدر سے ہٹا کر پھر سے كھرانا کو ریاستی صدر بنایا گیا۔ تب تک حالات کافی بدل چکے تھے، اس بار كھرانا نہیں چلے اور شیلا دکشت کاایجنڈاچل گیا۔ كھرانا اس سے پہلے اور اس کے بعد کئی کوششیں کر چکے تھے۔ یہ انتخابات كھرانا دور کے اختتام کا اعلان کرنے والا تھا۔ كھرانا کے ساتھی ملہوترا کو كھرانا کے رہتے مزید اہمیت نہیں ملی تو انہوں نے اس کے بعد اپنی چلوا لی۔ نتائج جگ ظاہر ہونے کے بعد ہی اس بار پارٹی قیادت ابھی تک فیصلہ نہیں لے پا رہی ہے۔

دراصل سروے کی روایت نے وزیر اعلی ، وزیر اعظم کے امیدوار کا اعلان کرنے کی روایت کو اور بڑھا دیا ہے۔ اسی کے ساتھ  ساتھ میڈیا میں بھی سروے کو کور کروانے یا خود سروے کرنے کی دوڑ سی لگ گئی۔اس کے بعد تو پارٹیاں اپنے آپ وزیر اعلی کے امیدوار کا اعلان کرنے لگیں۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی ڈھنگ کے امیدوارکا اعلان نہیں کرے گی تب ایسا ہی ہوگا کہ شیلا دکشت کا موازنہ اروند کیجری وال جیسے لیڈر سے کیا جائے گا۔ کانگریس میں تو شیلا دکشت کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا اعلان ہوا ہےتو انہیں وزیر اعلی کے امیدوار اپنے آپ مان لیا گیا ہے۔ 1998 میں مشرقی دہلی لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد انہیں چو پریم سنگھ کو ہٹا کر ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔ انہیں صدر بنوانے والے رہنماؤں میں اےایچ کے ایل بھگت ، سجن کمار ، جگدیش ٹايٹلر وغیرہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے ملزم ہونے کے سبب خود ریاستی صدر نہیں بن سکتے تھے تو انہوں نے دہلی کی سیاست کی کم علم اور کم پکڑ والی شیلا دیکشت کو ریاستی صدر بنوایا ۔ سال بھر میں دکشت نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے حساب سے چلیں گی تو تمام ان کے خلاف ہو گئے۔بڑا مہم چلا، شیلا دکشت نہ صرف بچ گئیں بلکہ اپنی زمین کو سب سے زیادہ مضبوط بنا لیا۔

ن2003اسمبلی انتخابات آتے آتے تو دلی میں ان کا سکہ چلنے لگا۔بی ایس پی کے بڑھتے اثر کو کم کرنے کے لئے 2002، میں پھر چو پریم سنگھ کو اسمبلی کے صدر کے بجائے ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا۔چو پریم سنگھ کے حامیوں نے یہی کہ کیا کہ اگر کانگریس جیتی توپریم سنگھ وزیر اعلی ہوں گے۔ لیکن انتخابات کے نتائج آنے کے بعدپریم سنگھ کے ممبران اسمبلی کی رائے لینے کی ضد کے باوجود شیلا دکشت وزیر اعلی بنیں۔ انہوں نے انتخابات میں چالاکی سے موجودہ اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کی وکالت کی تھی جبکہ پریم سنگھ ایک دو ٹکٹ پر ہی اٹک گئے تھے۔ دوسرے ان کے دہلی میں نئے تجربات کا بھی یہ انتخاب تھا۔ تیسرے انتخابات میں تو وہ اپنے آپ وزیر اعلی کی امیدوار بن گئیں، جیسے اس بار بنی ہوئی ہیں۔ تمام لیڈر بھی انہی کا نام لیتے ہیں، ویسے پارٹی کی قیادت وزیر اعلی شیلا دکشت اور پردیش کانگریس صدر جے پرکاش اگروال کی قیادت میں الیکشن لڑنے کی بات کرتا ہے لیکن بی جے پی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی کسی کو وزیر اعلی کا امیدوار طے نہیں کیا جا  سکا ہے لیکن ایسے اعلان کی ضرورت پارٹی کے زیادہ تر لوگ محسوس کر رہے ہیں۔

ریاستی انچارج کے طور پر جو نام گردش میں ہیں ان پر فی الحال اتفاق نہیں ہو پا رہا ہے ، لیکن اس بارے میں جلد فیصلہ لیا جائے گا۔صدر کون بنے گا یہ تو پارٹی کے بڑے لیڈر ہی طے کریں گے لیکن اسمبلی انتخابات سے پہلے جو حالات دہلی بی جے پی میں بنے ہیں وہ مستقبل کے لئے اچھے اشارے نہیں دے رہے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ دہلی بی جے پی میں جو" ' ایکلا چلو رے" کی جوروایت شروع ہوئی ہے وہ بھی پارٹی کے گراف کو نیچے کی طرف لے جا رہی ہے۔ہائی کمان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 alamislahi@gmail.com