بدھ، 20 نومبر، 2013

دہلی :تاج کس کے سر پر؟

محمد علم اللہ اصلاحی 
دہلی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اور اطلاعات اب تک کی یہی ہیں کہ یہ  انتخابات 4 دسمبر 2013 کوہی ہوگا۔ جبکہ اس کے نتائج 8 دسمبر 2013 کوکئے جائیں گے۔یہ ان اے پانچ انتخابات میں سے ہوں گے۔اب کی ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ تاریخی فیصلہ بھی لیا گیا ہے کہجس میں الیکشن کمیشن نے یہ کہا ہے کہ اس کے تحت انتخابات میں اترے تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق ووٹر کے پاس ہو گا۔اس کے اوپر ابھی تک حالانکہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ یہ ہونا چاہئے یا نہیں لیکن ابھی تک اس کو ہٹائے جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے بتایا جاتا ہے کہ انتخابات کے وقت یہاں کی کل آبادی 16،787،941 ہے جس سے 1،15،07113 لوگ اپنے رائے دہی کا استعمال کر سکیں گے۔
 یہ انتخابات ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں ، تعلیم، صحت اور رہائش جیسی ضروری خدمات پہنچ کے باہر ہو رہی ہیں۔ کانگریس پارٹی اور بی جے پی نے اپنے اپنے انتخابی مہم شروع کر دیے ہیں اور ووٹروں کو بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ لبھایا جانے لگا ہے کہ یہ تمام مسائل ختم ہو جائیں گی اگر " ہماری پارٹی کو ووٹ دے کر اقتدار میں لایا گیا  "۔
یوں تو پانچ ریاستوں میں یہ الیکشن ہونے والے ہیں اور سبھی کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر دہلی کو ہندوستان  کے متوسط ​​طبقے کا نمائندہ شہر کہا جاتا ہے ۔ یہاں پر ہونے والی سیاسی شکست یا فتح کو عملی طور سے کوئی مانے نہیں ہوں پر علامتی معنی گہرا ہوتا ہے۔یہاں سے اٹھنے والی ہوا کے جھونکے پورے ملک کو متاثر کرتے ہیں۔دوسرے ریاستوں کی طرح ، دہلی میں بھی لوگ ایسا تبدیلی چاہتے ہیں جس سےحقیقتا ترقی ہو۔ لیکن ان انتخابات سے ایسی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی انتظام هندوستاني و غیر ملکی اجارےدار کمپنیوں اور سرمایہ داروں ، بڑے  بڑے زمينداروں ، سٹے باجوں اور جمع خوروں کے مفاد میں چلائی جاتی ہیں ، جو عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ اس نظام کے اندر جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے ، یہ صورتحال بدلے گی ایسا نہیں لگتا ۔
اس بار دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے کئی سوال بڑے ہی دلچسپ بن پڑے ہیں۔سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا مسلسل تین بار جیتنے کا کرشمہ کرنے والی شیلا دکشت چوتھی بار بھی جیتنے کا ریکارڈ قائم کر پائیں گی  بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟ کیا پارٹی کے وزیر اعلی کے دعویدار کا نام اعلان کئے بغیر ہی الیکشن لڑے گی ؟ اگر جیت گئی تو وزیر اعلی کون ہوگا -ہرش وردھن  یا پھر کوئی اور ؟
انتخابات میں کانگریس تو کوئی غیر متوقع امیدوار شاید ہی کھڑی کرے لیکن بی جے پی ایساکون سا امیدوار لائے گی جو بعد میں سی ایم کے دعویدار بھی بن سکتے ہیں ؟ ان دلچسپ سوالات کے ساتھ دو اور بڑے سوال آ جڑے ہیں، جن کا تصفیہ دہلی انتخابات میں ہی ہو گا۔یہ دونوں ایسے سوال ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے جواب مئی 2014 کے عام انتخابات دیں گے، لیکن شاید اس وقت تک انتظار کی ضرورت نہیں ہوگی۔دہلی ہی ان کا تصفیہ کر دے گی۔
ان میں بڑا سوال تو یہی ہے کہ نریندر مودی فیکٹر ان انتخابات میں کتنا کام کرتا ہے ؟ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مودی پر عام آدمی کی نگاہ ہے۔مودی کے بہانے بی جے پی کی اور بھی کئیمسائل ہیں۔ہندو ووٹوں کے متحد ہونے کی امیدیں بھی وہ باندھ رہی ہے۔یوں تو بی جے پی کے لئے مودی 2014 کے عام انتخابات کے لئے ٹرمپ کارڈ ہیں لیکن یہ اتفاق ہے کہ دہلی انتخابات میں وہ پہلے ہی کسوٹی پر کسے جا چكےگے ۔اس لئے دہلی انتخابات میں ایک اور بڑا سوال ہے کہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کا مظاہرہ کیسا رہے گا ؟
دہلی کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہوں گے لیکن دہلی کے نتائج کی گونج دور تک جاتی ہے۔جن سنگھ کے طور پر بی جے پی نے اپنا سفر بھی دہلی سے ہی شروع کیا تھا اور ایک بار دہلی میں کامیابی ملنے کے بعد ہی اس نے پورے ملک میں قسمت آزمائےتھے۔بی جے پی بھی دہلی کی اہمیت سمجھتی ہے۔اسی لیے اس نے سب سے پہلے تو وجے گوئل کو صوبائی صدر کے طور پر اتارا۔اگرچہ وجیندر گپتا کو برقرار رکھنا یا ڈاکٹر هرشوردھن کو لانے کے اختیارات بھی تھے لیکن وجے گوئل کی جارحانہ اور محنتی تصویر انہیں دوسروں سے آگے لے گئی۔مگر اختلافات کے بعد پھر ہرش وردھن کو امیدوار بنانا پڑا ۔
اب نتن کڈگری کو انچارج بنانے سے بھی ظاہرہے کہ بی جے پی ہر حال میں ان انتخابات کو جیتنا چاہتی ہے۔بی جے پی کو معلوم  ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی طے ہو جائے گا کہ مودی فیکٹر کتنا کام کر رہا ہے۔بی جے پی کو مودی کے فیکٹر کے مثبت ہونے کی امیدیں شہروں میں ہی زیادہ ہے اور دہلی اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ ہے۔اگر دہلی میں مودی کا جادو نہیں چلا تو پھر 2014 کے لئے یہی پیغام جائے گا کہ" دلی ہنوز دور است" ۔
مودی کے علاوہ ارون کیجریوال کا مظاہرہ کیسا رہے گا ، یہ بھی دہلی انتخابات سے منسلک سوال ہے۔انا ہزارے کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف کیجریوال نے جو جنگ شروع کی ہے، اب وہ سیاسی موڑ پراختیار کر چکا ہے۔پورے ملک میں قسمت آزمانے سے پہلے کیجریوال دہلی میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اور انھوں نے زپنے طور پر پوری کوشش بھی کی ہوئی ہے ۔اب یہ ان انتخابات ہی سےیہ  طے ہو سکے گا کہ ان جیسے کاسیاسی پارٹیوں کی سیاست میں جگہ ہے یا نہیں۔یہ سچ ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں سڑکوں پر بہت بڑی تعداد میں لوگ اترے ہیں، لیکن وہ تعداد ووٹوں میں تبدیل ہو پائے گی، اس سوال کا جواب بھی دہلی کے انتخابات ہی دیں گے۔
عام آدمی پارٹی کا مستقبل دہلی انتخابات سے منسلک ہے۔وہ کانگریس کے ووٹ كاٹےگے یا بی جے پی کے یا ایک نیا ووٹ بینک ان کے نام جڑے گا ، یہ بھی طے ہو جائے گا۔ابھی انتخابات میںایک ماہ کا بھی وقت نہیں رہ گیا ہے ۔لیکن اندازے اٹکل کی بنیاد پر مختلف قسم کی تیریں چلائی جا رہی ہیں ۔وہ تیر کہاں لگے گا ۔کس کے ہاتھ میں پالا آئے گا کہنا مشکل ہے ۔کیونکہ ہر ایک کی اپنی الگ کہانی الگ روداد اور الگ دلائل ہیں ۔ان سوالات کے ساتھ اور کئی سوال بھی جڑ سکتے ہیں، لیکن ان بڑے سوالات کی وجہ سے دہلی انتخابات کا اس بار خاص اہمیت بن گیا ہے۔
مبصرین کی مانیں تو جس طرح سے بی جے پی نے ترقی کا آئینہ گجرات کو اور کامیابی کا چہرہ نریندر مودی کو بنایا ہے اسی طرح کانگریس نے بھی ترقی کے لئے دہلی کو رول ماڈل اور وزیر اعلی شیلا دیکشت کو فرنٹ رنر کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ یہاں شیلا کانگریس کی کامیابی کا صرف دہلی میں چہرہ ہے، اس سے باہر نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی گلیاروں میں یہ بحث بھی زوروں پر ہے کہ جس طرح سے راہل فرنٹ رنر بننے سے کترا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے اگر شیلا چوتھی بار کانگریس کو دہلی کے اقتدار سونپنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو پارٹی ان کے انتخابی تجربہ اور مہارت کا استعمال لوک سبھا انتخابات میں کرنے سے نہیں هچكےگي ۔ ویسے بھی شیلا کی سونیا کے تئیں وفاداری اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں کانگریس کی راہ آسان کر سکے گی۔اس لحاظ سے بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لئے دہلی فتح کرنا وقت کی سب سے ضروری مطالبہ بن گئی ہے۔ اس کا اثر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ دہلی میں بہہ رہی انتخابی ہوا میں مودی کا رنگ اب گهرانے لگا ہے۔
اس مرتبہ دہلی میں مسلمانوں کو ان انتخابات میں رام کرنا کانگریس کے لئے سب سے زیادہ مشکل تصور کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل ایسی خبریں سامنے آئیں ہیں جنکے سبب مسلمانوں میں کانگریس کے تئیں تلخی بڑھی ہے۔خود جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری بارہا کانگریس کی کھنچائی کر چکے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ ان چناؤ ں میں انکی حمایت سماجوادی پارٹی کو حاصل ہوگی ۔پورے ملک میں مسلم  نوجوانوں کو مسلسل پولس کے ذریعہ پریشان کئے جانے جیسے معاملات بھی اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان انتخابات میں کانگریس کو مسلمانوں کو ساتھ لانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے ہونگے۔چناؤ کے اس دنگل میں کسکو جیت اور کسے شکست نصیب ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال جو صورتحال ہے وہ نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس کے لئے بھی غیر یقینی ہے اسلئے ان تمام پارٹیوں کو مل کر کافی محنت کرنی پڑے گی تبھی ان کی ناؤ کنارے لگ سکتی ہے۔