بڑوں کا بچپن
کہانی ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی
ایک عزیز کے عزیز آنے والے تھے ،فون پر بات ہو گئی تھی، انھیں دو دن رکنا تھا، ان کی وجہ سے کل آفس سے چھٹی کے بعد میں کوچنگ پڑھانے نہیں گیا ،سیدھے کمرے آیا ،مجھے کچھ تاخیر ہو گئی تھی تو روم پارٹنر کو ریسیو کرنے کے لئے بھیج دیا،شام ناشتہ وغیرہ لیکر واپس لوٹا تو دوست نے بتایا کہ وہ ہوٹل چلے گئے ، میں نے وجہ دریافت کی تواس نے بتایا مجھے نہیں پتہ؟ بس ان لوگوں نے کہا ہم ہوٹل جا رہے ۔ میں نے انھیں فون کیا تو ادھر سے جواب ملا ہاں ہم ہوٹل چلے آئے انھوں نے کوئی وجہ نہ بتائی،شاید ان کو ہمارا غریب خانہ پسند نہیں آیا یا انھوں نے کمفرٹ محسوس نہیں کیا، ان کے اس رویہ پر مجھے غصہ تو آیا لیکن خوشی بھی ہوئی کہ چلو اچھا ہوا !جان چھوٹی ، دہلی جیسے شہر میں اپنا ہی وجود سنبھالنا مشکل ہوتا ہے، اب دوسروں کے نخرے کون برداشت کرے۔
میں دوبارہ خود کو معمول پر لاتے ہوئے چند فرلانگ پر واقع مرکزی مکتبہ کی لائبریری کی اور نکل آیا، مگر پڑھائی میں بالکل بھی جی نہیں لگ رہا تھا، ایسے ہی سر سری طور پر نظریں دوڑانے لگا تو میگزین کے شیلف میں ایک رسالہ پر نظر پڑی " جنت کے پھول"ایڈیٹر عنایت اللہ خان۔ واقعی پھولوں کی سی کشش لئے رسالہ کو اٹھا کر دیکھا تو "بڑوں کا بچپن " کے عنوان سے ایک خاص نمبر تھا،جس میں کئی اچھے لوگوں نے اپنے بچپن کی کہانی خوبصورت انداز میں بیان کی تھی ۔ مجھے آپ بیتیوں سے شروع سے دلچسپی رہی ہے سو اس کی ورق گردانی شروع کر دی ۔
اسی میں ایک کہانی معروف عالم دین ،متعدد کتابوں کے مصنف ، مترجم اور حکیم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کی بھی تھی، جو مزیدار ، دلچسپ اور معلوماتی کے ساتھ ساتھ عبرت آموز بھی تھی اور جس میں سیکھنے کے لئے یقینا بہت کچھ تھا ۔ کہانی پڑھتے ہوئے طبیعت کا سارا تکدر دور گیا۔ تو سوچا اسے احباب کی نذر بھی کرتا چلوں ۔
ڈاکٹر صاحب سے میری کئی ملاقاتیں رہی ہیں ، یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ روزانہ ہی ایک دو مرتبہ آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے ۔اس کہانی کو پڑھنے کے بعدان کی شخصیت کے اور بھی کئی در وا ہوئے ، ڈاکٹر صاحب انتہائی مرنجان مرنج شخصیت ہیں،مجھے ان سے اس لئے بھی محبت ہے کہ ان سے ملاقات سے قبل ان کی شخصیت کا جو ہیولہ ذہن میں تھا، ملاقات کے بعد میں نے انھیں اس سے بالکل الگ پایا ۔
جب ہم مدرسے میں تھے تو ایک استاد نے درس کے دوران کہا تھا اصلاح اور فکر فراہی کے ہند میں تین دشمن ہیں ایک تابش مہدی دوسرے رضی الاسلام ندوی اور تیسرے برہان الدین سنبھلی، استاذ محترم نے تقریر کے دوران ان شخصیتوں کے کارناموں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ ہم بھی انھیں قابل نفریں شخصیت سمجھتے رہے، مگر جب ان سے براہ راست ملاقات ہوئی تو یہ تاثر زائل ہو گیا اور ہم نے معاملہ بالکل اس کے بر عکس پایا۔ آخر الذکر سے تو اب تک ملاقات کی نوبت نہیں آئی ہے ، لیکن اول الذکر دونوں شخصیتوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ، بلکہ رضی الاسلام ندوی صاحب سے جتنی مرتبہ بھی ملا علم و ادب کے نئے در وا ہوئے ،اور انھیں علم و عمل کا پیکر پایا ۔
بہرحال ان کی کہانی انھیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔ بقیہ باتیں پھر کبھی ۔۔۔
محمد علم اللہ
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں