پیر، 28 اگست، 2017

ایک سفر جس نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا

محمد علم اللہ، نئی دہلی
گزشتہ دنوں معروف ملی قائد اوردہلی اقلیتی کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے ایک منصوبے پر بات چیت ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ ان دِنوں ہندوستان کے مسلمان، خصوصا نوجوان، جس نا امیدی، قنوطیت اور یاس کی کیفیت میں جی رہے ہیں، ان کو اس حالت سے باہر نکالنے کے لیے کچھ عملی اقدام کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ایسی گم نام مگر فعال شخصیات کو متعارف کرانے کی بات سامنے آئی، جنھوں نے واقعی میں کسی صلے کی تمنا کے بغیر کام کیا ہے۔ اس سے ایک تو یہ کہ ان شخصیات میں مزید کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا، دوسرا ایسی شخصیات سے تحریک پا کر نوجوان نسل بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ پائے گی۔ اس منصوبے کے تحت ایک کتابی سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔

سب سے پہلے ہم نے اتر پردیش کی ایک شخصیت کا انتخاب کیا، جن کی بے لوث خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ ان کی خدمات سے لوگ متعارف نہیں ہیں۔ اس کام کے لیے ہم اتوار کی صبح یوپی کے ضلع بلند شہر جا پہنچے۔ منتخب شخصیت سے فون پر پہلے ہی بات ہو چکی تھی۔ ہم اپنی متعین مقام پر پہنچے تو ڈاکٹر ظفر الاسلام خان تھوڑی دیر بیٹھ کر، اپنے کسی کام سے ایک دوسری جگہ چلے گئے اور بات چیت کے لیے مجھے ان کے یہاں چھوڑ گئے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام نے ایک ’’رف آوٹ لائن‘‘ پہلے ہی بنوا دی تھی، کہ کہاں سے بات شروع کرنی ہے اور کیا کیا پوچھنا ہے۔ رسمی خیر خیریت کے بعد ہمارے درمیان بات چیت شروع ہوئی۔ میں ان سے پوچھتا کچھ تھا، وہ جواب کچھ دیتے تھے۔ مجھے احساس ہو گیا، کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں، لیکن ایسا کیوں کر رہے ہیں، یہ میری سمجھ سے بالا تھا۔ وہیں سامنے ان کے بیٹے، بھتیجے اور کچھ رشتے دار بھی موجود تھے۔

میں نے جب پوچھا، ’’آپ اپنے بچپن اور خاندانی پس منظر کے بارے میں بتائیے، جس وقت آپ نے ہوش سنبھالا ملک کی حالت کیسی تھی؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، ان کا بڑا بیٹا انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ارے! کہیں بھی پیدا ہوئے ہوں، تم کو اس سے کیا مطلب؟ تم کون ہو اور کیوں پوچھ رہے ہو یہ سب؟‘‘ اس نے میرے ہاتھ میں سیل فون دیکھا تو کہنے لگا، ’’اچھا! تو تم ریکارڈ بھی کر رہے ہو!‘‘ یہ کہتے میرے ہاتھ سے میرا فون جھپٹ لیا اور ریکارڈنگ ڈیلیٹ کردی۔ میں بالکل سٹپٹا گیا؛ کیوں کہ اس طرح کے سلوک کی مجھے قطعا امید نہ تھی۔ تمام باتیں تو آنے سے پہلے ہی فون پر طے ہو گئی تھیں؛ پھر یہ کیا ماجرا ہے! میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کو کیا جواب دوں۔ وہ جوان لحیم شحیم، مضبوط اور توانا تھا۔ مجھے لگا کہ کہیں وہ مجھے دو چار ہاتھ ہی نہ جڑ دے۔ مجھے حیرانی اس بات پر بھی تھی، کہ اس دوران بزرگ محترم کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کررہے تھے، جس سے ان کے بیٹے کی تشفی ہوتی۔ میں نے اس کو سکون سے بیٹھنے کے لیے کہا اور پوری تفصیل سے آگاہ کیا؛ آمد کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہا کہ میں یہ سب کام اپنے ذاتی غرض کے لیے نہیں کر رہا، اور نا ہی اس میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کوئی شخصی مفاد ہے؛ بلکہ اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے کہ لوگ ان کو جانیں گے، ان کا نام ہوگا۔ لیکن وہ انتہائی غصے میں تھا، اور اسی حالت میں پتا نہیں کیا کیا بولے چلا جا رہا تھا۔ ’’ہمیں نہیں چاہیے نام وام۔‘‘ یہ سب دیکھ کر میں نے اپنا سامان سمیٹتے کہا، ’’ٹھیک ہے، اگر آپ نہیں چاہتے، تو میں بند کر دیتا ہوں۔‘‘ یوں میں نے اپنی تمام چیزیں سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیں۔

ابھی میں گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھا، کہ کیا کیا جائے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو تفصیل بتاتا تو وہ ناحق پریشان ہوتے اور اپنا کام ادھورا چھوڑ کر جلد ہی لوٹ آتے۔ اس درمیان ظہر کی اذان کی آواز آئی۔ میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا رہا، پھر سوچا کیوں نہ مسجد جایا جائے۔ میں پوچھتے پاچھتے مسجد پہنچ گیا۔ وضو کیا اور صحن کو عبور کرتے ہوئے اس حصے میں داخل ہوا، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسجد میں اکا دکا لوگ دکھائی دے رہے تھے؛ ابھی نمازیوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ میری نظر ایک باریش پر گئی، جو کرتا اور لنگی پہنے ہوے تھا۔ ماشاء اللہ! خاصی لمبی ڈاڑھی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ حال حلیے سے مسجد کا امام لگ رہا تھا۔ میں اس کے قریب گیا، سلام کیا اور پوچھا، ’’جناب! جماعت کتنے بجے ہے؟‘‘ اس نے میرے سلام کا جواب بھی نہ دیا، اور انتہائی رعونت سے میری جانب دیکھا۔ میں جینز شرٹ پہنے ہوئے تھا؛ داڑھی بھی چھوٹی تھی، جو شاید اسے بری لگی۔ نہایت کریہہ لہجے میں ٹوکری نما پلاسٹک کی ٹوپیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’مسجد کا احترام لازم ہے، پہلے سر پر ٹوپی رکھ لو۔‘‘ مجھے اس کا یہ انداز بہت برا لگا؛ تعجب بھی ہوا۔ موڈ تو پہلے سے خراب تھا، جی میں آئی، کہ اس کو سخت جواب دوں، لیکن پھر کچھ سوچ کر تلخ جواب نہ دیا؛ فقط اتنا کہا کہ ٹوپی نماز کا حصہ نہیں ہے اور سنت پڑھنے کے بعد مسجد کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ ابھی جماعت کھڑی ہونے میں چند منٹ باقی تھے کہ میں نے دیکھا؛ وہی باریش ایک دوسرے باریش سے کچھ کھسر پھسر کر رہا ہے۔

مسجد میں بہت سے نمازی اکٹھے ہو چکے تھے۔ جماعت کھڑی ہونے لگی تو وہی شخص کھڑا ہوا اور زور سے چیخ کر کہنے لگا، ’’جناب! ٹوپی پہننا سنت ہے اور بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنا مکروہ، اور مکروہ حالت میں جان بوجھ کر نماز پڑھنا حرام ہے۔‘‘ سب نمازی مجھے خشمگین نظروں سے گھور رہے تھے، جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ (سچ مچ میں کسی اور دنیا کا باسی تھا) میں سوچ رہا تھا، ’’یا اللہ میں کہاں آکر پھنس گیا۔ کیا تیرے گھر میں بھی امان نہیں ہے؟‘‘ بہرحال جیسے تیسے نماز ادا کی۔

انجان جگہ تھی نماز تو پڑھ لی اب کہاں جاتا؟ کیا کرتا؟ سوچا وقت گزاری کے لیے تھوڑی دیر قران ہی پڑھ لوں۔ سامنے رکھے ریک سے قرآن اٹھایا، جلد گرد آلود تھی، اس کو جھاڑا اور ایک طرف بیٹھ کر دل ہی دل میں تلاوت کرنے لگا، لیکن مصیبت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی، کہ ایک شخص میرے سامنے داروغے کی طرح آن کھڑا ہوا۔ کہنے لگا، ’’قرآن پیچھے ہو رہا ہے، آپ قرآن کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ آگے ہو کر بیٹھ جائیے۔‘‘ اس کے سرزنش کرنے پر میں نے اپنا رخ تبدیل کر لیا، لیکن اب میرا دل و دماغ پر بیزاری طاری ہو گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا، کیا اسی اسلام کی تعلیم لے کر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تھے؟ ذرا تصور کیجیے، اگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو حکمرانی دے دے، تو پھر وہ کیا کیا غدر نہ مچائیں گے!

طبیعت بالکل مکدر ہوگئی تھی۔ قرآن ہاتھ میں پکڑ کر مسجد ہی میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند لیں۔ تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ میزبان کا دوسرا بیٹا مجھے تلاش کرتے مسجد آن پہنچا۔ آتے ہی کہا، ’’چلیے کھانا کھانے۔‘‘ اس کوفت کی حالت میں کھانا کیا کھاتا، سو میں نے کہا، ’’میں تو کھانا کھا چکا ہوں۔‘‘ وہ بہت ضد کرنے لگا لیکن میں نے بھی ہٹ نہ چھوڑی۔ پھر وہ انتہائی لجاجت سے کہنے لگا، ’’اچھا چلیے! گھر چلتے ہیں۔‘‘ اس کی باتوں میں کچھ اپنائیت بھی تھی اور کچھ ندامت بھی۔ میرا دل پگھل گیا اور میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ گھر پہنچا تو سبھی ایک مرتبہ پھر کھانے کے لیے ضد کرنے لگے، لیکن میں نے کھانا نہیں کھایا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا بڑا بھائی، جس نے بد تمیزی کی تھی، مجھ سے معافی مانگنے لگا اور کہا۔

’’مجھے اس طرح نہیں بولنا چاہیے تھا، غصے میں بول دیا۔ آپ کو برا لگا اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
میں عجیب مخمصے سے گزر رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘

پھر اس نے اپنی داستان سنانا شروع کی۔ ’’چالیس سال سے ہم مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ اب نہیں چاہتے کہ کوئی اور مصیبت جھیلیں۔ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے ایک غیر ملکی کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ابا ہجرت کر کے لندن چلے گئے۔ ہم سب کی پیدائش وہیں ہوئی تو ہم بھی غیر ملکی ٹھہرے۔ ہر قدم پر پہرے ہیں، سازش ہے، ہم کوئی بزنس نہیں کر سکتے، ہم کہیں اپنی آواز نہیں رکھ سکتے، ہم ووٹ نہیں دے سکتے، ہمارے بارے میں من گھڑت اور فرضی رپورٹس اور کوئی نہیں اپنے ہی بھائی بند ایجنسیوں تک پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اگرچہ آپ مثبت مقصد سے لکھیں گے لیکن چالیس سال کے بعد جس مصیبت سے ہم باہر نکلے ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ اس عمر میں آکر پھر کسی نئی افتاد میں جا پھنسیں۔ شاید اسی احساس کی وجہ سے میں آپ کو ایسا بول گیا، مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘

وہ اپنی کہانی سنا کر چلا تو گیا، مگر میں ایک ایسے دو راہے پر کھڑا تھا، جہاں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔

یہ دونوں واقعات اگرچہ معمولی ہیں، لیکن ان کے اندر جھانک کر دیکھیے تو آپ کو حقیقت سمجھ آ جائے گی۔ دونوں واقعوں میں قوم کے لیے سبق ہے۔ ایک طرف ہم نے اسلام کی ایسی شبیہہ بنائی ہے، جہاں جہالت اور تشدد ہی تشدد ہے، برداشت کا مادہ نہیں۔ دوسری طرف مخالف ہم سے برسرِ پیکار ہے لیکن ہم نوشتہ دیوار پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ اے کاش! ہم نوشتہ دیوار پڑھتے، اپنے اندر لچک پیدا کرتے، دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑتے، تو آج جن حالات سے دو چار ہیں، یقیناً یہ دن ہمیں دیکھنے نہ پڑتے۔

http://www.humsub.com.pk/74456/muhammad-alamullah-3/