اردوصحافت
اپنا وقار کیوں کھو رہی ہے؟ ایک دلچسپ مباحثہ
آئی بی سیاردو
نیوز
ہندستان کے نوجوان صحافی محمد علم اللہ نے
اپنی فیس بک وال پر کچھ دن قبل اردو صحافت کے زوال پر ایک بحث چھیڑی اور اردو
اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کی سطحیت پر کچھ سوال اٹھا کر احباب کو اپنی
رائے دینے کے لیے کہا ، علم اللہ کے سوالات کو صحافتی اور علمی حلقوں سے تعلق
رکھنے والے افراد نے سنجیدہ لیا اور اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں آراء دیں . (مدیر)
:محمد علم
اللہ نے
اردو صحافت کے بارے میں لکھا:
گذشتہ دنوں میرے دوست اور ‘دی وائر’
اردو کے ایگزی ‘کیٹیو ایڈیٹر’ جناب مہتاب عالم کے توسط سے وائر اردو کے لئے کچھ
مضامین کے تراجم اور کچھ کی ادارت کا اتفاق ہوا ۔ اس درمیان میں نے ایک چیز شدت سے
محسوس کی کہ ہندی اور انگریزی میں صحافت کافی بالغ، پختہ، وقیع، معلوماتی اور
مضبوط ہے جبکہ ٹھیک اس کے برعکس اردو میں انتہائی سطحی ،کمزور اور لاغر ۔
بلا مبالغہ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ
اردو میں مہینوں بلکہ کبھی تو شاید برسوں میں ایک آدھ مضامین اس قدر وقیع ،علمی
اور معلوماتی پڑھنے کو ملتے ہیں جن کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ ہاں واقعی طبیعت کو
سیری حاصل ہوئی یا کچھ نیا سیکھنے کو ملا ۔
اس احساس کا اظہار میں نے اردو کے اپنے
دو سینئر احباب اور صحافی جناب ‘شاہد الاسلام’ اور’جناب اشرف بستوی’ سے کیا تو
انھوں نے بھی میرے خیال کی تائید کی ۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر اس کی وجہ
کیا ہے ؟ یہاں پر میں اردو کے قلم کار ،صحافی ، محققین اور مدیران کو بھی ٹیگ
کررہا ہوں اس امید کہ ساتھ کہ وہ کچھ وجہ ضرور بتائیں گے اور کم از کم اپنے
اخبارات میں اس کمی کو دور کرنے کی سعی کریں گے .
اس
پوسٹ پر مختلف جہات سے آراء کا تبادلہ ہوا جو ان سطور میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
ہندستان
میں کچھ لوگ ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہیں
ظفر
عمران نے
کہا:اس کی وجہ واضح ہے۔ ہندستان میں اردو رسم الخط سیکھنے سے روزگار میں مدد نہیں
ملتی، یہ تو کچھ لوگ ہیں جو اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ انھیں جہاں کہیں سے مواد ملتا ہے، لے لیتے ہیں، کیوں کہ اردو اخبار کم بکتے
ہوں گے، کم اشتہار ملتے ہوں گے ، ان کے بجٹ نہیں ہوتے کہ لکھنے والوں کی مدد لیں.
اخبار
مالکان قلم کار کو کوئی محنتانہ نہیںدیتے
مکرم نیاز نے ظفر عمران کی رائے سے اختلاف کرتے
ہوئے کہا:اردو اخبار بکتے بھی ہیں اور سرکاری/غیر سرکاری اشتہار بھی انہیں ملتے
ہیں ۔ چند بڑے اخبار مالکان کے پاس بجٹ بھی مناسب ہوتا ہے کہ قلمکار کو معاوضہ دیں
مگر نہ وہ قلمکار کو کوئی محنتانہ دیتے ہیں اور نہ ہی معاوضہ دے کر قلمکاروں سے
مخصوص موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں
اردو
اخبارات کے قارئین کو خطابت اور نعرے بازی کی عادت پڑچکی ہے
عاطف کے
بٹ نے
کہا:خطابت اور نعرے بازی دو ایسے بنیادی عناصر ہیں جن کے بغیر اردو صحافت چلتی ہی
نہیں ، برسوں بلکہ عشروں سے قارئین کو ان دونوں چیزوں کی عادت پڑچکی ہے، لہٰذا
اردو میں آپ کو سنجیدہ، وقیع اور پختہ قسم کی چیزیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ جب تک
ان دونوں عناصر سے جان نہ چھڑائی جائے تب تک اردو صحافت سے سنجیدگی اور پختگی کی
کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
ہندوستان
میں اردو صحافت صرف مسلمانوں کے مسائل کی عکاسی کرتی نظرآتی ہے
جاوید
نہال ہاشمی کہتے ہیں:جس طرح ہندوستان میں اردو
زبان ایک مخصوص قوم کی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اسی طرح اردو صحافت بھی صرف مسلمانوں
کی نمائندگی کرتی اور ان ہی کے مسائل کی عکاسی کرتی نظرآتی ہے۔ اس کے موضوعات میں
تنوع نہ ہونے کا سبب اس کا parochial ہونا ہے۔ یعنی اپنی قوم سے باہر کے
مسائل پر بہت کم لکھا جاتا ہے۔
اگر
معاوضہ اچھا دیا جائے تواردو کا صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر کوریج کرسکتا
ہے
یحیی خان اردو
صحافت کی صلاحیت سے مایوس نہیں ہیں ، ان کے بقول : اردو صحافت میں لکھنے والے بہت
ہیں اور وہ مکمل حوالوں کے ساتھ لکھیں گے ، بہترین لکھیں گے ! لیکن ان دنوں کوئی
بھی اردو اخبار بے باک اور تحقیقاتی رپورٹس کو شائع کرنے سے گھبرارہا ہے ( بعض
معاملات میں تو اشخاص اور اداروں کو تحقیقاتی رپورٹ بتاکرہی سودہ بازی کرلی جارہی
) اب کون آگے آئے گا لکھنے کیلئے . اردو صحافت اعراس شریف ، مجالس ، دیوان خانوں
کے مشاعروں کی خبروں کی جانب واپس لوٹ رہی ہے ، اگر کوئی نمائندہ کہیں سے خبریں
لابھی لیتا ھے تو دیگر ” نااھل” ساتھیوں کے حسد کا شکار ہو جاتا ہے ،اور شکاتیں
شروع ہوجاتی ہیں کہ ان کو ہی فوقیت دی جارہی ہے دیگر زبانوں کے اخبارات باقاعدہ
بھاری معاوضہ دے کر مضامین حاصل اورشائع کرتے ہیں اور موضوعات دے کر مضامین
لکھواتے ہیں ۔ چند اردو اخبارات تو اب مفت میں راوش کمار کی خبروں کا اردو ترجمہ
کرکے شائع کررہے ہیں اور جہاں سے یہ مضمون / ویڈیو اٹھایا ہے ان کیلئے ” بشکریہ ”
تک نہیں لکھ رہے ! اب پڑوسی ملک کے مضامین پر تو ایسے ہاتھ صاف کیا جارہا ہے جیسے
کہ تقسیم کے وقت معائدہ ہوا تھا کہ ایسا کرسکتے ہیں !
یحییٰ
خان نے ایک اور رائے کا جواب دیتے ہوئے مزید کہا: ممبئی کااردو کا مفلس صحافی بھلا
جھارکھنڈ جاکر کیسے کچھ کور کرسکتا ہے !! مقامی کوریج کیلئے جانے کے لئے اس کو
ٹیکسی کا کرایہ تک نہیں دیا جاتا !! اور نہ ہی بیچارے کی اتنی آمدنی ہوتی ہے کہ
اپنی کار / ٹو وھیلر مینٹین کرسکے ، سب مقامات کا یہی حال ھے جناب والا ۔۔۔! اگر
معاوضہ اچھا دیا جائے تو جھارکھنڈ تو کیا اردو کا صحافی دنیا کے کسی بھی کونے میں
جاکر کوریج کرسکتا ہے !
اردو میں
صحافت نہیں ہے، محرری اور چوری چماری ہے
محمد
ہاشم خان نے کہا:انگریزی والوں کو مضمون لکھنے
کے جتنے پیسے ملتے ہیں اس حساب سے وہ گھٹیا مضامین لکھتے ہیں، اردو والوں کے پاس
پیسے نہیں سو ان کی ساری صحافت فرض کفایہ ہے. کچھ یہاں سے چرا لیا اور کچھ وہاں
سے. مجھے اس مفروضے”اردو میں صحافت ہے ” پر اعتراض ہے . اردو میں صحافت نہیں ہے،
محرری اور چوری چماری ہے، آپ نے کب کسی اردو صحافی کو کسی اہم جائے حادثہ پر دیکھا
ہے؟ کوئی ایسی مثال کہ ممبئی کا کوئی صحافی کسی حادثے کو کور کرتے ہوئے جھارکھنڈ
میں آپ کو ملا ہو؟
ای ٹی
آئی ، پی ٹی آئی . رائٹر ، اے ایف پی، اے پی (اخباری ایجنسیاں )سب ان کے ڈیسک پر
سجدہ ریز ہوتے ہیں. اردو اخبارات کے 99 فیصد مالکان کمیونٹی سوداگر ہیں ، جو صحافت
کی اخلاقیات سے بس اتنا ہی واقف ہیں کہ جہاں جس قیمت پر موقع ملے بیچ سکیں.
پاکستان کی اردو صحافت اور بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے کہ تمام سرکاری مراعات اور
عوامی حمایت (عوامی حمایت ریڈرشپ کے معنی میں ہے) وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں
رہے ، نیز زرد صحافت حاوی رہی. وہاں کے اداریے پڑھتا رہتا ہوں. معذرت خواہ ہوں کہ
کوئی خاص کیفیت نہیں پیدا کرتے. بہت کچھ ہے کہنے کے لیے کہاں تک سنو گے اور کہاں
تک ہم سنا پائیں گے.
مواد اور
خیالات کے حوالے سے یہاں کی صحافت کو بھی بہت اعلی قرار نہیں دیا جا سکتا
اقبال
حسن کا
کہنا تھا:میری نظر سے آپ (ہندوستان )کے اردو اخبارات کم گزرے ہیں اس لیے قطعیت کے
ساتھ کچھ کہنا عبث ہے لیکن پھر بھی غنیمت جانیے کہ اسی بہانے اردو زندہ ہے۔مواد
اور خیالات کے حوالے سے یہاں کی صحافت کو بھی بہت اعلی قرار نہیں دیا جا
سکتا۔ادارتی تحاریر تک بعض اوقات زبان و بیان کے تعلق سے معیاری نہیں ہوتیں۔یہ امر
میرے لیے ہمیشہ باعث تعجب رہا کہ اردو کو مسلمان کی زبان فرض کر لیا گیا ہے جبکہ
یہ ہندوستانی زبان ہے۔اگر یہ فارسی رسم الخط میں نہ ہوتی تو شاید اس الزام سے مبرا
ٹھہرتی۔
اردو
جریدوں کی اکثر رپورٹس بین الاقوامی اداروں سے ہی لی جاتی ہیں، انگریزی صحافتی
ادارے ملازمین کی تربیت کرتے ہیں
سلمیٰ جیلانی اردو صحافت کے بارے میں اپنا مشاہدہ
بیان کرتی ہیں :چونکہ میری دسترس آن لائن اخبار اور رسائل تک ہے اور اردو میں
پاکستان کے جو جریدے آن لائن پڑھتی ہوں ، ان کے یہاں صحافت کے معیار کو پست تو
نہیں کہا جا سکتا. پرنٹ میڈیا(اخبارات ) کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، ویسے بھی
اکثر رپورٹس بین الاقوامی اداروں سے ہی لی جاتی ہیں اور ترجمے کے ذریعے اردو میں
منتقل ہوتی ہیں .
عمومی
طور پر جو سوال علم اللہ نے اٹھائے ہیں ان کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انگریزی میں
پلیجر ازم (چربہ سازی )ایک جرم ہے جس کی سزا جیل ہو سکتی ہے،دوسرے کاپی رائٹ ایکٹ ،
اور پرائیویسی ایکٹ کے فعال ہونے کی وجہ سے چوری کر کے لکھنا ناممکن ہے ، اس کے
علاوہ بینچ مارک اور دوسرے اصولوں کی موجودگی میں سب کو معیار کی ایک خاص سطح کی
پابندی کرنی پڑتی ہے ، اس کے لئے انہیں اپنے ملازمین کی تعلیم و تربیت کا خیال
رکھنا ضروری ہوتا ہے، مغربی ملکوں میں صحافت ایک باوقار پیشہ ہے ، اس کی وجہ معیار
کا بلند ہونا ہی ہے
اردو
صحافت، مطالبہ، احتجاج، محرومی کا رونا اور شکایتی رپورٹنگ کا نام ہے۔
آزاد میر کے بقول :ہمارے ہاں اردو صحافت،
مطالبہ، احتجاج، محرومی کا رونا اور شکایتی رپورٹنگ کا نام ہے۔اس میں اب کاپی پیسٹ
بھی شامل ہو چکا ہے۔اپنی محنت اورخود کے ذرائع سے جو خبریں چھاپی جاتی ہیں ، وہ
اعلان برائے چندہ، اظہار تعزیت، مجلس، بزم شاعری کا انعقاد، اور دستار بندی، چاند
دیکھنے وغیرہ کی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔ نتیجہ اردو اخبار جو تھڑا بہت بکتے
ہیں ، اپنی انہی ضرورتوں کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔باقی خبروں کیلئے لوگ ہندی
انگریزی اخبار اور ٹی وی کو ترجیح دیتے ہیں۔
سطحی اور
غیر معیاری ہونے کی ایک وجہ صحافی کو خاطرخواہ معاوضہ نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے
منصور قاسمی کا کہنا تھا:اردو صحافت ہندوستان میں
اب تک باقی ہے ، یہ کوئی کم نہیں ہے۔ جن حالات پر آ پ کو شکوہ ہے ، مجھے اس سے بھی
بدتر حالات مستقبل میں نظر آرہے ہیں۔سطحی اور غیر معیاری ہونے کی ایک وجہ صحافی کو
خاطرخواہ معاوضہ نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے ،مطلب جیسا دال بھات ویسی فاتحہ.
اردومیڈیا
میں آج بھی اپنے ذاتی خیالات اور جذبات کے اظہار ہی کو صحافت سمجھا جاتا ہے
محمد
غزالی خان نے اٹھائے گئے سوالات سے اتفاق کرتے
ہوئے کہا: بدقسمتی سے اردومیڈیا میں آج بھی اپنے ذاتی خیالات اور جذبات کے اظہار
ہی کو صحافت سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو پورے واقعے پر تبصرہ ہوجاتا ہے جبکہ
واقعے کی تفصیلات لمبے چوڑے مضمون میں برائے نام ہی ملیں گیں۔ مضمون پڑھتے وقت
ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا مگر جن لوگوں کو اردو سے انگریزی یا کسی اور زبان
میں ترجمہ کرنا پڑا ہو انہیں معلوم ہو گا کہ بڑوں بڑوں کے مضامین کی زبان بھی اتنی
مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے کہ ترجمہ کرنے والے کوخود کوئی بات سمجھنے میں مشکل
ہوتی ہے ، بیچارہ ترجمہ کیا کرے گا۔ جو معلومات فراہم کی بھی جاتی ہیں ان کا کوئی
حوالہ مشکل ہی سے ملے گا۔رپورٹنگ انتہائی ناقص ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو رپورٹنگ
کے نام پر پورا تبصرہ ہوتا ہے۔آپ حالات حاضرہ کو چھوڑ دیجیے ، مذہبی کالموں تک کا
یہی حال ہے ، جس پر مزید تبصرہ کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ بہتر ہے کہ یہیں رک جایا
جائے۔
انہوںنے
مزید کہا:اس بحث میں اگر اس خاص نکتے کو شامل نہ کیا گیا تو ناانصافی ہوگی اور وہ
یہ ہے کہ اردو صحافت کا محور ہمارے ملی مسائل ہیں۔ یا یہ کہیے کہ اردواخبارات
کمیونٹی نیوز پیپرز کا کردار زیادہ ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان اخبارات میں غیر
ملی مسائل پر مواد یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا
شکار کسی قدر ہمارے انگریزی نیوز پورٹلز بھی ہیں۔ اس لحاظ سے دیگر اخبارات سے ان
کا موازنہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ اور اردو میں لکھنے والے تمام صحافیوں کو ایک ہی
خانے میں رکھ دینا بھی زیادتی ہے کیونکہ کئی نام ایسے ہیں جن کے کالمز میں معلومات
بھی ہوتی ہیں اور جن مسائل پر وہ بات کرتے ہیں ان پر سیر حاصل بحث بھی کرتے ہیں۔
ان میں سے سر دست جو نام ذہن میں آرہے ہیں ان میں حسن کمال صاحب، حفیظ نعمانی
صاحب، آغا منصور صاحب،ودود ساجد صاحب، اشرف بستوی صاحب، معصوم مراد آبادی صاحب
شامل ہیں۔
محمد
غزالی نے
منصور قاسمی کی رائے پر یوں ردعمل کا اظہار کیا:منصور قاسمی بڑی حد تک آپ کی بات
درست ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جیسی تیسی اردو صحافت زندہ ہے وہ دینی مدارس اردو کو
زندہ رکھ کر اور اس طرح اردو اخبارات کو آکسیجن دے کر زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر پھر
بھی جب ایک کام ہو رہا ہے تو کیوں نہ اسے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کی جائے؟
تھوڑی سی محنت اور کر لی جائے۔ مثال کے طور پر یونیفارم سول کوڈ پر لکھتے وقت یہ
کہنے کے بجائے کہ “قانون بنانے والوں نے مسلمانان ہند کو یقین دلایا تھا کہ ان کے
آئیلی قوانین محفوظ رہیں گے۔” کیوں نہ قاری کو حوالے کے ساتھ بتایا جائے کہ جس وقت
دستور ساز اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ زیر بحث آیا، مسلمانوں نے اس پر سخت
اعتراض کیا جس کے جواب میں ڈاکٹر امبیڈکر نے یقین دلایا کہ ۔۔۔
“کسی
کو اس بات سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر حکومت کے پاس اختیارات ہوں گے تو وہ
فوراً کوئی ایسا قدم اٹھالے گی جو مسلمانوں یا عیسائیوں یا کسی دوسرے فرقے کیلئے
قابل اعتراض ہو۔ جن مسلم ارکان نے اس مسئلے پر تقاریر کی ہیں ان سمیت ہم سب کو یہ
بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اختیارات ہمیشہ محدود ہوتے ہیں۔۔۔ کیونکہ ان اختیارات
کو استعمال کرتے وقت مختلف فرقوں کے جذبات کا خیال رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ کوئی بھی
حکومت اپنے اختیارات اس انداز میں استعمال نہیں کر سکتی کہ وہ مسلمانوں کو مشتعل
کر کے بغاوت پر آمادہ کر دے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی حکومت نے ایسا کیا تو وہ
احمق حکومت ہوگی۔”
(حوالہ: Constituent
Assembly Debates Vol VII)
ایسی
کوشش کیلئے اضافی وسائل کی ضرورت نہیں۔
اردو
صحافت ہندوستان میں غیروں کے کرم پر زندہ ہے
شمس
تبریز قاسمی کا کہنا ہے:اردو صحافت کے بجائے
”ہندوستان کی اردو صحافت” لکھیں ۔پاکستان میں اردو صحافت بہت مضبوط ہے ، دوسری بات
اردو صحافت کی بے بسی کا شکوہ کرنے کے ساتھ کبھی اس کے اسباب وسائل اور قارئین کا
بھی جائزہ لیں۔اردو صحافت ہندوستان میں غیروں کے کرم پر زندہ ہے ۔
آپ
جائزہ لیں کہ آپ کے محلے میں کتنے لوگ اردو اخبارات خریدتے ہیں
طنز و
تشنیع کے عادی لوگ تجزیہ کرنے، اسباب و علل سے واقفیت حاصل کرنے سے عاجز ہیں
ابوطلحہ نے کہا:اصل بات یہی ہے. جتنے لوگوں نے
طنز و تشنیع سے متعلق الفاظ کی دکان لگائی ہے، وہ تجزیہ کرنے، اسباب و علل سے
واقفیت حاصل کرنے سے عاجز محض ہیں اور رد عمل کی نفسیات کا شکار ہیں
سیاست
دانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالنے سے صحافت یا اخبار نہیں چلتا
شمس الرحمان علوی نے تفصیلی رائے دی :یہ ایک عجیب و غریب
مسئلہ ہے۔ اس میں نہ وسا ئل کی کمی والی بات ہے اور نہ زبان اور صرف مسلمان تک
محدود رہنے کا معاملہ۔ یہ در اصل ویژن کی کمی، عدم واقفیت، ٹرینینگ اور تربیت کی
کمی ہے۔ اخبار اور جرنلسٹ کا کام خبر لانا ہوتا ہے، آپ سوسائٹی میں رہتے ہیں اور
آپ کو خبریں نہیں ملتیں .. .؟ اردو اخبار ہفتے یا مہینے میں کتنی ایسی خبریں
چھاپتے ہیں جو دوسرے اخبار میں نہیں ہوتیں اور جن کی وجہ سے ان کو ڈسکس کیا جائے؟
اردو کے صحافی کی تربیت کا نظام دفتروں میں صحیح نہیں ہے اور نہ ان کو رہنمائی
کرنے والے ملتے ہیں۔ مسلم اداروں، اوقاف یا سیاست دانوں کی پریس کانفرنس کور کرنا
ہی اور اس میں بھی صرف بنیادی خبر لکھنا ہی صحافت نہیں ہے۔
بہت
چھوٹے اخبارات جو چھ اور آٹھ صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا سرکولیشن نہیں
ہوتا، ان کے رپورٹرز بھی جانتے ہیں کیسے اپنی خبر پر امپکیٹ ہو سکتا ہے، کیسے
سرکار ایکشن لے سکتی ہے۔ زبان الگ ہو اس کے باوجود، یہاں مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ آپ
رپورٹر ہیں تو ایک بنیادی ٹرینینگ ہوتی ہے، کس خبر میں کس کا ”کوٹ” لینا ہے، اسکیم
پر کس طرح لکھنا ہے، دس سے بارہ اہم ”بیٹ” ہوتی ہیں، جن میں آپ شروع کے کئی سال
کام کرتے ہیں، زمین پر اس ‘بیٹ’ کا ہر آدمی آپ کو پہچاننے لگتا ہے۔ مگر اردو
اخباروں میں شاید یہ سکھایا نہیں جاتا۔
اگر
ایک ان کاؤنٹر ہوا ہے تو اس کو کب تک فالو کرنا ہے اور یہ کہ کس کس طرح اس پر
ایکشن ہوا، ایک غریب آدمی کی اگر پولیس کے تشدد سے موت ہوتی ہے تو آپ خاطی پولیس
والوں کو صرف سسپنڈ نہیں بلکہ سخت سزا دلوا سکتے ہیں مگر آپ کو وہ طریقے، سسٹم تو
پتا ہوں، یہ پتا چلتے ہیں ”بیٹ” میں سالوں محنت سے کام کرنے سے ۔ہر شہر میں ہر بیٹ
میں آپ کو کئی ایکسپرٹ صحافی ملیں گے، مثال کے طور پر اگر کوئی پاور دیکھتا ہے تو
اسے یہ سب تو معلوم ہوتا ہے کہ پاور کمپنیز میں کیا گھوٹالے چل رہے ہیں ، ساتھ ہی
اس کے ٹیکنیکل ایشوز بھی اتنے معلوم ہو تے ہیں کہ کئی بار اسپیشلسٹ سے زیادہ اس کی
سمجھ ہوتی ہے، یہ سب لوگ ٹی وی پر نہیں آتے، مگر ان کے نالج کی وجہ سے ان کی اہمیت
ہوتی ہے
آپ
کرایم دیکھتے ہیں تو آپ کو صرف کنٹرول روم یا تھانے یا پی ایچ کیو نہیں بلکہ
انٹیلیجینس، اے ٹی ایس، لوکایکت، اور تمام برانچز، بٹالینز، سب جگہ جانا ہوتا ہے،
شروعاتی چند سالوں کی محنت ہوتی ہے اور پھر سب آپ کو جان جاتے ہیں، زندگی بھر
خبریں خود چل کر آتی ہیں۔ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ‘اسٹرنگر’ ہوتے ہیں مگر ان کی
طاقت سے سب واقف ہوتے ہیں کیوں کہ بوقت ضرورت وہ نیشنل ٹی وی چینل کے جرنلسٹس کو
مزیدار اور ضروری اِن پُٹ دیتے ہیں، وہ لوگ بھی ایسےاسٹرنگر کا خیال رکھتے ہیں اور
اس کی بھیجی کسی خبر کو نیشنل بریکنگ نیوز بنا کر صوبے سے قومی لیول تک ہنگامہ
کروا سکتے ہیں،زیادہ تر انگریزی اخباروں کے اسٹرنگر ہندی میں خبریں بھیجتے ہیں مگر
باہر لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا۔
افسوس
کے لوگ بغیر محنت کیے ہی سب کچھ چاہتے ہیں، اور ساتھ ہی دہلی میں کیرل کے ملیالی
اخبار کے نامہ نگار بھی اکثر آپ کو جرنلسٹس میں اپنی اہمیت منواتے ملیں گے کیوں کہ
ان کے پاس خبر ہوتی ہے، ایکسپرٹیز ہوتی ہے، یہاں عالم یہ ہے کہ حیدر آباد جیسے شہر
میں جب روہت ویمولا کی موت ہوئی آٹھ نو بجے رات میں پتا چل گیا تھا کہ کچھ ہوا ہے،
مگر اردو سائٹس خاموش رہیں، اگلے دن اردو اخبار خالی تھے۔ حد تو تب ہو گئی کہ
سینٹرل یونیورسٹی میں جو مہم چلی جس کا پورے ہندوستان پر اثر ہوا اس کو ایک دن بھی
بڑے اردو اخباروں نے نامہ نگار بھیج کر کور نہیں کیا –
بیحد
سطحی اور ایجنسی جیسی رپورٹس اکا دکا نظر آتی تھیں، جب کہ حیدرآباد کے اخباروں کو
اس میں لیڈ کرنا چاہیے تھا۔ جھارکھنڈ میں بچہ چوری میں لوگ مارے جاتے ہیں تو اگلے
دن کا کم از کم دو دن بعد اردو اخباروں میں جامع گراؤنڈ رپورٹ تو ہونی چاہیے، . .
. نہیں ہوتی! ہاں ویوز(تبصرے) ضرور ہوتے ہیں۔صحافی کو خبر پر نظر رکھنی چاہیے،
سیاست دانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر فیس بک پر ڈالنے سے صحافت یا اخبار نہیں چلتا،
کیوں کہ یہ تو سب سے آسان ہے،صحافی کو ‘ایکسیس’ ہوتا ہے، اصل چیز تو خبر ہے۔
عوام
اور خواص ہر جگہ برانڈ کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اس بات کی کہ آپ نظر آئیں۔ ایسے
بہت صحافی ہوتے ہیں جو کہیں نہیں ہوتے مگر لوگ انہیں صحافی مانتے ہیں کیوں کہ وہ
ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، افسر یا کوئی مظلوم بھی ان کو اس لئے خبر بتاتا ہے کیوں کہ
انہیں معلوم ہوتا ہے یہ خبر آگے نشر ہو جائےگی، وہ صحافی چاہے وہاٹس ایپ گروپس کے
ذریعہ یا درجنوں دوسرے طریقوں سے خبر کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے کیوں کہ
وہ اس نیٹ ورک میں ہوتا ہے۔
اس کے
علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں، سارے اردو اخبارات غریب نہیں ہیں، کم از کم ایک
رپورٹر کو تو بھیج کر اسپیشل سیریز کروا سکتےہیں، مظفر نگر یا پہلو خان کی موت یا
آسام میں شہریت کے مسئلہ پر جو ہو رہا ہے، اس پر بریکنگ اسٹوریز اردو اخبار میں
کیوں نہیں ہوتیں جو بعد میں انگریزی اور ہندی والے بھی فالو کریں . . . بالکل ہو
سکتی ہی- جو خبر لکھے گا یا چھاپےگا، اسی کی خبر ڈسکس ہوگی، اسی کو کل کوئی اسمبلی
میں کوٹ بھی کرے گا، ایکشن بھی ہوگا مگر۔۔۔
اخبار کا
قاری گاہک ہوتا ہے آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مال خریدو تو ہم تمہیں آئندہ
اچھا مال دیں گے
افسر
فریدی نے
کہا:اردو صحافت میں جو احباب ہیں وہ رپورٹنگ پر توجہ دیں تو صورت حال میں قدرے
بہتری آسکتی ہے۔ ہم اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کم ہی کام کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہماری صلاحیت صرف جامعہ نگر کو کور کرنے کی ہے لیکن ہم پورے ملک کو
کور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب کچھ ہوا میں لکھتے ہیں۔ اخبار کا قاری گاہک ہوتا ہے
آپ ان سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا مال خریدو تو ہم تمہیں آئندہ اچھا مال دیں گے ۔
اردو
اخبارات کا حلقہ قارئین جذبات سے لبریز اور ”تیز” مسالے دار چیزوں کا عادی ہے
فرحان احمد خان نے کہا:یہ دلچسپ موضوع ہے ۔ میرے خیال
میں اردو اخباری صحافت اور چینلزکا سب سے بڑا مسئلہ اس کا جذباتی پن ہے۔اردو
اخبارات کا حلقہ قارئین جذبات سے لبریز اور ”تیز” مسالے دار چیزوں کا عادی ہے۔ وہ
گہرائی میں جانے کی مشقت پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سطحی اور قدرے تیز
مواد دیا جاتا ہے ۔ ایسے مواد کی زندگی کم ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اردو میں جو
چیزیں شائع ہوتی ہیں ، وہ اب ٹھوس حوالے کی حیثیت کھوتی جا رہی ہیں ۔ دوسری بات یہ
ہے کہ اردو صحافت میں کام کرنےوالے کو بہت حد تک کلرک بنا دیا گیا ہے ۔ وہ دفتر سے
باہر نہیں نکلتا ۔ وہ رئیل ٹائم اسٹوریز کی بجائے ٹیبل اسٹوریاں کرتا ہے ۔ وہ پہلے
سے شائع شدہ چیزوں کا ترجمہ کرتا ہے یا الفاظ کو آگے پیچھے کر کے صفحات بھرتا ہے ۔
اسٹوری کےلیے کچھ سہولیات اور وقت کے حوالے سے ذرا ڈھیل درکار ہوتی ہے ، جو اسے
اداروں کی جانب سے میسر نہیں آتی ۔ اب اردو صحافت میں کوریج تو مل جاتی ہے لیکن
تحقیقاتی اسٹوریاں نہیں ملتیں ۔ ایک اوروجہ یہ ہے کہ حالات بہت تیزی سے بدلتے ہیں
۔ پہلے کی گئی اسٹوری کا فالو اپ بھلا دیا جاتا ہے ۔ اس طرح اس اسٹوری کا مقصد فوت
ہوجاتا ہے ۔ شاید قارئین بھی بھول جاتے ہیں ۔ اب اردو
صحافت کا بڑا حصہ صرف ”ری
پروڈکشن” کر رہا ہے جو افسوسناک ہے ۔
http://ibcurdu.com/news/51343
0 تبصرہ جات:
ایک تبصرہ شائع کریں