منگل، 30 اپریل، 2013

2014 مرکزی انتخابات :کیا کریں اور کدھر جائیں مسلمان؟


محمد علم اللہ اصلاحی 
سہ روزہ دعوت میں شائع
گرچہ ابھی 2014 مرکزی انتخابات کی آمد میں کافی وقت باقی ہے مگر اس کی نوید ہمیں سنائی دینے لگی ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی بساط بچھانا اور اپنا اپنا بگل بجانا شروع کر دیا ہے۔غرض یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں باضابطہ طور پر الیکشن کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں سے لے کر عام آدمی تک سبھی نے اپنے اپنے حربے استعمال کر نے  شروع کر دِیے ہیں۔اس کے لیے جہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے اپنے راگ الاپنے میں مصروف ہیں، وہیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں پر بھی پروپیگنڈہ جاری ہو گیا ہے۔ نئے نئے اخبارات و رسائل و جرائد بھی نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ قیاس آرائیاں ،چہ می گوئیاں ،تبصرے اور لعن طعن کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ فرقے اور کمیونٹیاں اپنے اپنے منصوبوں میں جٹ گئی ہیں۔لیکن اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کی جانب سے اب تک اس قسم کی کوئی سر گرمی شروع نہیں ہو ئی ہے۔ اور نہ اس کی کوئی رمق دکھائی دے رہی ہے۔ہم بیدار تو ہوتے ہیں لیکن اس وقت جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔حالانکہ دنیا میں کامیاب وہی قوم ہوتی ہے جو پہلے سے منصوبے بناتی ہے،لائحہ عمل مرتب کرتی ہے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوگا یا اس سے ہٹ کر کچھ نیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ کیونکہ ہم ہمیشہ سے ہی اپنی بے وقوفی کا مظاہرہ کر ہزیمت اٹھاتے رہے ہیں۔سیکولرازم،مذہب اور انسانیت کی آڑ میں سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو مہرا بناتے ہوئے جس قدر استحصال کیا ہے،شاید ہی کسی اور قوم کے نام پر اتناکچھ ہوا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہماری مسلم جماعتوں نے بھی محض قرار داد منظور کرنے ،منصوبہ بنانے ،ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے ،فتوے بازی کرنے ،فسادات کے بعد باز آباد کاری کا کام کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا قیام ہر طرح کی رہنمائی اور قیادت کے لیے عمل میں آیا تھا۔لیکن اس کا رویہ بھی قابل افسوس اور تشویش کا ہی رہا۔ بعد میں سب کو ملانے اور ایک ہو کر کام کر نے کے لیے مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل ہوئی لیکن یہ بھی دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔اور انھوں نے بھی وہی ڈھرا اپنایا جو دوسروں کا اب تک رہا تھا۔جمعیت علمائے ہند ،جماعت اسلامی ہند، جمعیت اہل حدیث وغیرہ ملک کی بڑی مسلم تنظیمیں ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انھوں نے بھی اس طرح کے معاملہ میں کوئی منظم قدم یا فیصلہ نہیں لیا اور نہ ہی مسلمانوں کی کوئی بہتر رہنمائی کی۔

اس صورتحال میں اب مسلمان کیا کریں، کون سی راہ اپنائیں، کدھر جائیں، کسے ووٹ دیں، جسے ووٹ دے رہے ہیں اس سے کیا مطالبہ اور کیا معاہدہ کریں؟۔ یہ سب انتہائی اہم سوالات ہیں۔ اور ان کے جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم نے اس کا کوئی جواب نہیں ڈھونڈا تو پھر ہمارا حال وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اب تک فسادات سے لے کر ظلم و استحصال ،حق تلفی و ناانصافی جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے یہ سب ہمارے اسی غلط رویہ،منصوبہ بندی کے نہ ہونے اور ہماری غفلت شعاری کا نتیجہ ہے۔اس میں ہمارے علمائے دین کی بھی غلطی ہے کہ انہوں نے ہمیں محض نماز،روزہ، زکاۃ اور حج تک محدود رکھا۔دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں بنا دیں۔حالانکہ اسلام میں تو دین و دنیا کی کوئی تفریق ہے ہی نہیں۔اگر دنیوی امور شریعت کے احکامات کی پابندی کے ساتھ ہو تو ہماری دنیا بھی دین ہی ہے۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی کی تعلیم دی تھی۔انہوں نے دین اور دنیا کی قیادت کی کوئی تفریق نہیں کی تھی۔اسلام کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک پیکیج ڈیل (Package Deal) ہے۔صرف خانقاہوں اور مسجدوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کر نے اور محض چند ارکان پر عمل کر لینے سے معاملات حل نہیں ہو نے والے۔ اسلام کل زندگی اور ضابطہ حیات کا نام ہے جس میں سیاست،قیادت سبھی کچھ شامل ہے۔

آزادی سے پہلے 1600 سال تک حکمرانی کرتے رہنے کے باوجود انگریزوں کی غلامی میں 200سال تک جکڑ جانے میں بھی ہمارے یہی عوامل کار فرما تھے۔یہ الگ بات ہے کہ مورخین اور تجزیہ کار اسے مغلوں کی نا اہلی ،معیشت کی تباہ حالی یا پھر اورنگ زیب کی کٹر پالیسی جیسی وجوہات سے تعبیر کرتے ہیں۔معاملہ چاہے جو بھی ہو اس پر ہمیں فی الحال بحث نہیں کرنی ، لیکن اگر اس کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو کہیں نہ کہیں ہمارے یہ رویّے ضرور سامنے آتے ہیں، جس سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بہر حال غلطی ہماری رہی تھی۔ اس غلطی کے احساس کے بعد گرچہ ملک کو آزاد کرانے کے جتن کئے گئے اور ہمیں اس میں کامیابی بھی ملی، لیکن ہماری حالت ،اور ہماری فکر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بلکہ ہماری اسی نا اہلی کے سبب دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور ملک کا بٹوارہ ہو گیا،ہم اقلیت میں آ گئے۔ اور بھی قومیں اقلیت میں آئیں لیکن انھوں نے سیاست ،معیشت ہر اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ہم ساٹھ سال میں اور بھی بد سے بد تر ہوتے گئے۔ہم نے کبھی اپنے حالات میں سدھار لانے کی کوشش نہیں کی۔ اس بات کا تجزیہ کرنا گوارہ ہی نہیں کِیا کہ اب تک ہم نے کیا پایا ،کیا کھویا اور پھر آگے کیا کرنا ہے۔ غصہ کرنا ہے، بے صبری کا مظاہرہ کرنا ہے، محض ایک دوسرے پر الزام لگانا ہے، اپنے ہی نظریات کو صحیح سمجھنا ہے خواہ وہ غلط ہی کیوں نا نہ ہوں ،چند کھوٹے سکوں کی خاطر ہماری ہی بیخ کنی کرنے والی پارٹیوں کا آلہ کار بنے رہنا ہے یا پھر یہ سب چھوڑ کر واقعی مسائل پر غور کرنا ہے۔

یہ ساری باتیں مجھے اکثر بے چین کر دیتی ہیں۔اور اسی بے چینی نے مجھے یہ سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔میرے ناقص فہم میں ان تمام تفکرات و ترددات سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب ہم متحد ہوں گے تب ہی کچھ کر پائیں گے۔ہمیں سیاستدانوں کے آگے پیچھے خوشامدانہ انداز میں گھومنے، جذباتی اور بے تکی باتیں کرنے، اخباروں اور کتابوں سے بیزاری برتنے۔ فٹ پاتھ سے ون بائی ٹو چائے لے کر غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے اور اچھے مشورے دینے والوں پر لعن طعن کرنے سے باز آنا ہوگا۔اور یہ بھی اچھی طرح پہچاننا ہوگا کہ کون ہمارا دشمن ہے اور کون دوست۔ ہمیں کوئی مناسب اور منظم لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور اسی کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔اب تک جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمارے سامنے جو بھی ہے اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔

ہمیں تمام چیزوں کو بھلا کر یہ کوشش کرنی ہوگی کہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں کالج ہوں، ہاسٹل ہوں، اسپتال ہوں، جم ہوں، بینکوں کی شاخیں ہوں، انجینئرنگ کالج ہوں، کونسلنگ سنٹرس ہوں، اچھے راستے اور پارک ہوں، بجلی اور پانی کا اچھا انتظام ہو، روزگار کے مواقع ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لئے ہر حلقہ میں ایم ایل اے کے ساتھ آپ کی عدالت جیسے پروگرام ہوں اور ان سے ٹائم باونڈ وعدے لئے جائیں۔اس کے لئے باضابطہ طور پر پارٹیوں سے معاہدہ کر کے تھوک کے بھاو میں انھیں ووٹ دیا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ماہرین کو بھی چاہئے کہ جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ مسلمانوں میں تعلیمی، معاشی اور سیاسی شعور پیدا کریں۔اور اس میں بات علاقائی زبانوں میں بھی سمجھانے کی کوشش کی جائے مثلاً مراٹھی، کنڑ، تامل، ملیالم، بنگالی، اڑیہ، پنجابی جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں تاکہ کم پڑھا لکھا اور ایک عام آدمی بھی بات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکے۔

یہ فی الحال مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اس کا احساس مسلم لیڈروں کو بھی ہمیشہ رہا ہے۔ چنانچہ ماضی میں مسلم مجلس ،اتحاد المسلمین جیسی سیاسی پارٹیوں کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن اب تک ان کی ملک گیر تو چھوڑیئے ریاست گیر سیاسی شناخت بھی قائم نہیں ہو سکی ، وہ ہر الیکشن میں کسی دوسری پارٹی کے حاشیہ برداربنتے رہے۔ادھر ماضی قریب میں بھی بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کے بعد علماء کونسل اور پھر ابھی کچھ سال قبل ویلفیر پارٹی آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا ہے۔اسے بھی اوپر اٹھانے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب علماء اور مسلم لیڈر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آئیں اور طے کریں کہ مسلمان کس پارٹی کو ووٹ دیں۔مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمان نمائندوں کی جیت کو یقینی بنائیں اورساتھ ہی فرقہ پرستوں کو کسی بھی صورت میں اقتدار سے باہر رکھیں۔

کہا جاتا ہے کہ ’’آزمائے ہوئے کو آزمانا بہت بڑی غلطی ہے‘‘۔ ہم نے بی جے پی اور کانگریس دونوں کو بار بار آزما کر دیکھ لیا۔ دونوں کی ذہنیت ایک ہے بس نام الگ الگ ہیں۔ لیکن اس بابت اس کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس وقت مسلم بیزاری کی جو لہر پورے ہندوستان میں جاری ہے ان حالات میں کوئی مسلم سیاسی پارٹی عام ووٹروں کوکس طور متاثر کر پائے گی۔ اگر آسام کی طرح علماء کونسل یا متحدہ مسلم محاذ کو بھی کچھ کامیابی مل جاتی ہے یا اسی طرح آندھرا پردیش میں مجلس اتحاد مسلمین یا کرناٹک میں ایس۔ڈی۔پی۔آئی (سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا)اپنی حد تک مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے۔مگر اس سے مکمل مسلمانوں کے مسائل حل تو نہیں ہوں گے۔ہاں! اس تجربہ سے ایک حد تک خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔مسائل حل نہ بھی ہوں تو جن سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بندھوا غلام سمجھ رکھا ہے یا جنہوں نے بی جے پی کا خوف دلا کر یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمان جائیں گے کہاں ؟ لامحالہ ان ہی کے سیکولر دروازہ پر سجدہ ریز ہونگے ایسی تمام پارٹیوں کو ایک زبردست چوٹ لگ سکتی ہے اور تب ان کو مسلمانوں کی سیاسی قوت کا اندازہ ہوگا۔ اس پس منظر میں چھوٹی چھوٹی علاقائی مسلم سیاسی پارٹیوں کی افادیت تو ہے لیکن پورے مسائل کے حل کا یہ علاج نہیں ہے۔ملک کے مختلف علاقوں کا سروے کر کے دیکھا جائے کہ کہاں کہاں مسلمانوں کے ایسے علاقے ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں ، ان مقامات کی نشاندہی کر کے ان علاقوں میں پوری طاقت صرف کی جائے اور مسلمانوں کو تیار کیا جائے کہ وہ اجتماعی طور پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور کسی قیمت پر ووٹ تقسیم نہ ہونے دیں۔مسلمانوں کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کا متحدہ الیکشن مینی فیسٹو ہو۔ مختلف چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنانے سے گریز کریں۔اور نہ ہی ایسی پارٹیاں بنائی جائے جو خالص مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہو اس سے فرقہ واریت بڑھے گی۔ اور فرقہ پرستوں کو بالراست فائدہ ہوگا۔

اس وقت سب سے اہم مسئلہ مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کا بھی ہے۔ہمارا نوجوان طبقہ اس وقت سب سے زیادہ ذہنی اور فکری انتشار کا شکار ہے۔یوں تو تقریباً تمام معاملات میں ان کی حالت ایسی ہی ہے لیکن اس معاملہ میں کچھ زیادہ ہی انتشار کا شکار ہے۔مانا کہ حالیہ دنوں میں تعلیم وغیرہ کو لے کر نوجوانوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور ان کے اندر سوجھ بوجھ بھی پہلے کے مقابلہ میں کافی حد تک بیدار ہوئی ہے۔لیکن انہیں تعلیمی لیاقت کے مطابق ملازمت نہ ملنے ،ہر جگہ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھے جانے،ملک کی بیشتر منفی وارداتوں میں بلا وجہ انہیں پھنسا دِیے جانے جیسے رویوں سے ان کے اندر ایک قسم کی بے چینی، اضطراب اور خوف و دہشت کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔وہ زبان کھولتے ہوئے بھی ڈر تے ہیں۔کچھ لوگ اگر زبان کھول بھی رہے ہیں تو جذبات کی رَو میں انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔اور شر پسند عناصر اسی کا فائدہ اٹھانے کے فراق میں رہتے ہیں۔یہ نوجوان ہر اس شخص کو مسیحا سمجھتے ہیں جو ان سے روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ کئی انتخابات میں اسی وعدہ پر نہ جانے کتنے ووٹ بٹورے گئے۔ نوجوان اپنے رہنماؤں سے سب سے پہلے یہی امید وابستہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کئی مسائل ہیں لیکن روزگار ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کو سیاسی سطح پر ہی حل کیا جاسکتا ہے صرف وعدہ فردا اس کا حل نہیں ہے۔عام طور پر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ الیکشن کے آس پاس فسادات، دھماکے اور اس طرح کی غیر انسانی حرکتیں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔جس کا فائدہ شر پسند عناصر اٹھانا چاہتے ہیں ایسے موقع پر احتیاط سے کام لینے کے علاوہ مسلم نوجوانوں کے اندر خصوسا صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے اور ہم ان امور میں کامیاب ہو گئے تواس بات کا اغلب امکان ہے کہ ہماری تعداد کے حساب سے انتخابی حلقے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونگے جہاں مسلم اجتماعی فیصلے کے تحت اپنا جلوہ دکھا سکتے ہیں۔ فی الوقت مسلمانوں کو ہر پارٹی میں شامل ہو کر اپنی بات منوانی ہو گی۔ ہم کسی ایک پر نہ تو بھروسہ کر سکتے ہیں نہ ہی کسی ایک پر منحصر رہ سکتے ہیں۔مسلم قیادت اس پر بھی توجہ دے سکتی ہے۔ سیاست میں حصہ لینے والے ملک کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی حالات کا بھی قریب سے جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی اور مسلمانوں کے ساتھ ہم وطن بھائیوں، دلتوں اور پسماندہ طبقات سے سیاسی وسماجی تعلقات اور ان کے مسائل کو بھی جاننا ہوگا۔ موجودہ مسائل کے حل کے لئے ہم محض اللہ کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے بلکہ ہمیں خود ہی پیش قدمی کرنی ہوگی۔ اللہ کی مدد اسی صورت میں آ سکتی ہے کیوں کہ اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے،اور بقول علامہ اقبال:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں جناب اعجاز عبید صاحب (حیدر آباد)،جناب ڈاکٹر سیف قاضی(مہاراشٹر)،محترمہ عندلیب صاحبہ( حیدرآباد)،جناب شوکت عزیز (ممبئی)،جناب فارقلیط رحمانی( گجرات) اورجناب عبد الحسیب صاحب (حیدرآباد)کا تعاون شامل رہا ۔جنھوں نے مضمون کی تیاری میں اپنے قیمتی آراء،تجاویز اور مشوروں سے نوازا۔میں سبھوں کا مشکور ہوں ۔اور دعاگو بھی کہ اللہ تعالی انھیں علم و عمل اور دین و دنیا میں مزید ترقی عطا فرمائے ۔اور سبھوں کی شفقت و محبت تادیر قائم رکھے (آمین)