جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

فحش ویب سائٹس اور ہمارے نوجوان


فحش ویب سائٹس اور ہمارے نوجوان
محمد علم اللہ اصلاحی 

انٹرنیٹ دورِ جدید کی ایک بہت مفید اور کارآمد ایجاد ہے۔ یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبے میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔انٹرنیٹ پر ہر طرح کی معلومات بہت آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس کے ذریعہ لوگ اپنے دور دراز کے عزیزوں سے باآسانی رابطہ کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس نے بڑ ی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی جگہ لے لی ہے۔ہندوستان میں انٹرنیٹ دس سال قبل متعارف ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی گئی۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت ملک کی تقریبا 45فیصد تعلیم یافتہ آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے۔امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑ ھ جائے گی۔

اس حوالے سے یہ امر بے حد تشویشناک ہے کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ کے بیشتر صارفینِ اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ محض اندازہ نہیں بلکہ ابھی حال ہی میں انگریزی روزنامہ” ٹائمس آف انڈیا “ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بیشتر لوگوں کا پسندیدہ شغل، فحش اور عریاں ویب سائٹ دیکھنا ہے۔یہ صورتحال ہر باشعور شخص کے لیے باعث تشویش ہے۔ باخبر لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ یہ تنہاہندوستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس مسئلے سے پریشان ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس ہی دیکھی جاتی ہیں۔ ان سائٹس پربا قاعدگی سے جانے والے لوگ ، دنیا کی نظر سے چھپ کر، انٹرنیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں۔یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کوناپاک کر دیتی ہے۔ اس کے بعد زندگی دو میں سے کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یاتو انسان حلال و حرام کی ہر تمیز کو فراموش کر کے زناکی ہلاکت خےز وادی میں قدم رکھ دیتا ہے یا پھر شادی کا جائز راستہ کھلنے کے بعد بھی تاعمر پورنوگرافی کے نشہ کا عادی بنا رہتا ہے۔

ہمارے معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے غلط رویوں ، نظریات اور بعض حالات کی بنا پر شادی کی مبارک اور آسان رسم کو مشکل ترےن اور خرافات کا مجموعہ بنارکھا ہے۔ جبکہ دنیا بھر میں یا تو مناسب عمرمیں نوجوانوں کی شادی ہوجاتی ہے یا پھر شادی کیے بغیر نوجوان لڑ کے لڑ کیوں کو ساتھ رہنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔”ٹائمس آف انڈیا “کی اس رپورٹ کے ذریعے سے پورے معاشرہ کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ یا تو لوگوں کے لیے نکاح کے جائز راستے کو کھول دیا جائے یا پھر سوسائٹی کی تباہی کے لیے تیار ہوجایا جائے،ورنہ ہماری تہذیب جسے ہم ”تہذیب مشرق“کہتے اور فخر کرتے ہیں وہ 
علامہ اقبال کے شعر

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 
جو  شاخ  نازک   پہ  آشیانہ   بنے گا  نا پا ئے  دار ہو گا

کا مصداق ثابت ہوگی اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہ جائے گا۔اس تناظر میں گذشتہ ماہ دہلی کی معروف دانش گاہ جے این یو یا ڈی یو میں جو حالات پیش آئے اور حیوانیت کا جو ننگا ناچ ناچا گیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 

اس پیغام کا پس منظر یہ بھی ہے کہ جن مغربی ممالک میں نکاح کے بغیر مرد و زن کا تعلق عام ہے ، ان کے ہاں یہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے۔ان کے ہاں کی فلمیں ہوں یا فحش ویب سائٹس، اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھا جائے، باقی لوگ آزاد ہیں جو چاہیں کریں،مگر ہمارے ہاں ، حیا اور عفت بنیادی اقدار ہیں،اسی طرح اخلاقی بحران کے اِس دور میں خاندان کا ادارہ ہماری واحد معاشرتی ڈھال ہے،زنا اور بے حیائی کے فروغ سے یہ اقدار مٹ جائےں گی اور یہ ادارہ ختم ہوجائے گا۔

انٹر نیٹ پورنوگرافی کا کوئی حل ابھی تک جدید دنیا دریافت نہیں کرسکی ہے، سعودی عرب اور سنگاپور جیسے ممالک نے سنسرشپ کے ذریعے سے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس طرح کا حل بہت زیادہ موثر نہیں ہو سکا ہے، ہمارے ہاں بھی سنسر شپ کی کوشش کی گئی مگر اس سےبھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا، بلکہ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جتنے زیادہ انٹرنیٹ کو استعمال کرنے والے بڑ ھیں گے اتنے ہی زیادہ فحش سائٹس کا مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد بڑ ھتی چلی جائے گی۔

اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں، وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں، ان کو وقت کی رفتار کے حوالے نہ کریں بلکہ زندگی کے ہر سرد و گرم میں ان کی رہنمائی کریں۔ بچوں کے شعور میں حیا اور عفت کی اہمیت واضح کریں۔ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر یہ واضح کریں کہ یہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔جب بچے بڑ ے ہوجائیں تو ایک مناسب عمر میں ان کی شادی کو اپنی ترجیحات میں بہت اوپر رکھیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔

بچوں کے شادی کی عمرتک پہنچ جانے کے بعد بھی اگرکسی خاندان کے لیے ان کے بچوں کی شادی بہت بڑی مشکل بن گئی ہے تو معاشرہ کے دولت مندوں پر اس وقت یہ اخلاقی فرض عائد ہوجاتاہے کہ وہ اس قسم کے ناداروں کی کفالت کریں اور ان کو پاکیزہ زندگی گذارنے کے مواقع فراہم کریں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو سماج میں ایسی برائیاں جنم لیں گی جن کے خاتمہ کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکے گی۔

ایسے لوگ جو انفرادی طور پر شادی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت دی ہے :
وَلیَستَعفِفِ الَّذِینَ لاَ یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغنِےَھُمَ اللّٰہُ مِن فَضلِہ۰۰۰۰ الخ ۔سورة النور، الآیة -۳۳
اور وہ لوگ جو نکاح کی مقدرت نہیں رکھتے ان کو چاہیے کہ وہ پاک دامنی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے بے نےاز کردے۔(سورة النور، آیت -۳۳)

اس پاک دامنی کی تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علےہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے:
یَا مَعیشَرَ الشَّبَابِ مَنِ استَطَاعَ مِنکُمُ البَائَ ةَفَلییَتَزَوَّج فَاِنَّہ اَغَضُّ لِلبَصَرِ وَ اَحصَنُ لِلفَرجِ وَمَن لَّم یَستَطِع فَعَلَیہِ بِالصَّومِ فَاِنَّہ لَہ وِجَآ ئ۔ (خرجہ مسلم فی صحیحہ، و النسائی و ابن ماجہ والدارمی فی السنن فی کتاب النکاح )
اے نوجوانو! تم میں سے جس کو گھر بسانے کی قدرت ہو اس کو شادی کرلینا چاہیے ، کیوں کہ یہ نگاہ اور شرم گاہ دونوں کی حفاظت کا باعث ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا اس کو روزہ رکھنا چاہیے، کیوں کہ روزہ شہوت کو توڑنے والی چیز ہے۔(صحیح مسلم، سنن نسائی،سنن ابن ماجہ، سنن دارمی کتاب النکاح میں اس حدیث کی تخریج ہے)

قرآن مجید کی یہ ہدایت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پےغام تمام انسانوں کو عام ہے،اہلعلم کے سامنے جب اس حکم کی اشاعت کے مواقع آئیں تو ان کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور دونوں مصادر میں جس پاک دامنی کے اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اس کی اہمیت اور کیفیت لوگوں کے سامنے حکمت سے بیان کرکے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہیے۔

رابطہ کا پتہ 
Md Alamullah
9911701772
alamislahi@gmail.com