ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

ایک ناتمام افسانہ

ایک ناتمام افسانہ
محمد علم اللہ
اگست کے آخری عشرے کی تاریخ ہوگی ، وہی کوئی چوبیس یا پچیس ۔ان کے عمروں کی ہی طرح جوان ۔دونوں یو نیورسٹی جا رہے تھے ۔ کیب نہ ملنے کی وجہ سے دونوں نے آٹو کیا ، اور منزل کے لئے سوار ہو گئے ۔ سورج غروب ہوچکا تھا ،مگر تاریکی ابھی پوری طرح چھائی نہیں تھی ۔رات جس تیزی کے ساتھ تاریکی کی جانب بڑھ رہی تھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ آٹو بھی سڑک پر دوڑنا شروع کر دیا تھا ۔رات اور آٹو دونوں کو اپنی منزل تک جلد از جلد پہنچ جانے کی بے تابی تھی ۔ رات صبح کے انتظار میں اپنے وجود کو کھوتی جا رہی تھی ، تو آٹو ڈرائیور کسی اور مسافرکی چاہ میں اپنی گاڑی کو تیزی سے بھگاتا چلا جا رہا تھا ۔
تیلگو فلم کا کوئی اداس مگر پر کیف نغمہ ایف ایم میں بج رہا تھا ۔ اس کے بول سمجھ میں نہیں آ رہے تھے ۔لیکن آواز سحر میں گرفتار کر دینے والی تھی ۔ دونوں کچھ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اس پر تبصرہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ پھر شانزہ نے اپنا موبائل آن کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ یہ گانا سنو! ،اس نے آئی فون کا ایک سرا اپنے کان میں ڈالا اور دوسرا انتہائی پیار سے طاہر کے کان میں ڈال دیا ۔جسم و جاں میں ترنگ پیدا کر دینے والا نغمہ انتہائی سریلی آواز میں رس گھولنا شروع کر دیا تھا۔
اتی سی خوشی
اتی سی خوشی
اتا سا ٹکڑا چاند کا
خوابوں کے ٹھکانوں سے
چل بنائیں آشیاں ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں دونوں ایک انمول دنیا میں داخل ہو چکے تھے ۔ ایک ایسی دنیا جو،ان کے لئے کسی جنت سے کم نہ تھی۔طاہر پہلی مرتبہ شانزہ کے وجود کواپنے سامنے محسوس کر رہا تھا ۔ بالکل سامنے ، اسے یقین نہیں آیاکہ اس کی باتیں شانزہ سے ہی ہو رہی ہے۔جسے وہ جی بھر کے دیکھنے کا متمنی تھا ۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے یہ ساری چیزیں وہ خواب میں دیکھ رہا ہے ۔اور پھراس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، یقین کرنے کے لئے۔ غصہ کے ساتھ اس نے اس کے ہاتھ کو پرے دھکیل دیا ۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہا ہے ۔اس نے ایک مرتبہ پھر اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ۔ہلکے غصے کے آثار اسکے چہرے پراب بھی عیاں تھے۔اسے ایسا لگا جیسے اب وہ رو دے گی ، خوف کی لہر اس کے اندر تک سرایت کر گئی ۔ پھر اس نے اس سے انتہائی عاجزی کے ساتھ سوری کہا ! اور اس کے ہاتھوں کو فرط جذبات سے چوم لیا۔پھر چپکے سے اس نے اس کے کان میں کہا ’’تم میرے لئے بہت قیمتی ہو ‘‘۔
اس نے کہا ’’ کچھ قیمتی نہیں ہوتا ، یہ سب لڑکوں کے ڈھکوسلے ہوتے ہیں ‘‘ ۔
’’تم غلط سمجھ رہی ہو ، اعتبار کر کے دیکھو ‘‘۔
’’یہ آپ کو اچانک کیا ہو گیا ‘‘۔
’’کچھ بھی تو نہیں ‘‘
تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی ۔وہ دبک کر ذرا کنارے سرک گئی ،طاہر سوچنے لگا اب کیا کرے اور پھر سکوت کو توڑتے ہوئے ہمت کر کے ایک مرتبہ پھر گویا ہوا۔
’’خاموش کیوں ہو، سفر کو بور نہ بناو، سوری تو بول دیا نا ! ‘‘
’’میں خاموش نہیں ہو ں ، کچھ سوچ رہی ہوں ۔ ‘‘
’’کیا ؟ ‘‘
’’ بس ایسے ہی کچھ سوچ رہی تھی ‘‘
مجھے بھی بتاو ؟ کیا سوچ رہی تھی ؟
نہیں جانے دو ۔۔!! کچھ بھی نہیں ۔
اب چھپاو نہیں ۔ بتا بھی دو ۔۔!
دھیمی آواز میں وہ کچھ بد بدائی ۔ جسے وہ سن نہیں سکا ۔ شاید تیز رفتار آٹو ،شور مچاتی ، چنگھاڑتی، گاڑیوں اورٹریفک میں اس کی آواز تحلیل ہو گئی تھی ۔ وہ اس کی آواز کو اپنی سماعت میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا ۔ اس نے کان اس کے قریب کر دیا ۔وہ سمٹ کر تھوڑی آگے چلی گئی ۔اس نے کہا زور زور سے بولو ، تمہاری آواز سنائی نہیں دے رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔