بدھ، 11 مئی، 2016

آج کی ڈائری



محمد علم اللہ
کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تھا ۔
قریب والے اے ٹی ایم میں پیسے نہیں تھے ۔
بھوک بہت شدت کی لگی تھی ۔
کل سوچا تھا آفس میں کسی سے قرض لے لوں گا ، مگر کسی سے مانگنے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔
حسب معمول صبح واپس لوٹا تو نیند اتنی تیز آ رہی تھی کہ بس آتے ہی سو گیا ۔شام چھہ بجے آنکھ کھلی تو قریبی اے ٹی ایم میں پیسے نکالنے کے لئے گیا ، مگر اتفاق سے آج بھی وہا ں پیسے نہیں تھے ، بڑا غصہ آیا ۔
کمرے میں واپس آ کر رات کا انتظار کرنے لگا کہ اب آفس کے کینٹین میں ہی کھا لیں گے ، کیٹین میں کوپن سسٹم ہےاور کوپن میں ابھی کافی پیسے پڑے ہیں ، مگر گیارہ بجے رات تک انتظار کرنا بہت مشکل تھا ، بھوک کی شدت اور بھی بڑھ رہی تھی ، خود کو کوسنے لگا کہ پانی نہ پیتا تو نفلی روزہ ہی رکھ لیتا ، بے چینی سے، جیب ، پرس ، بیگ سبھی ٹٹولا مگر نہ تو پیسے ملے اور نہ ہی کچھ کھانے کا سامان ، دل بہلانے کے لئے وشنو پر بھاکر کی آوارہ مسیحا لیکر بیٹھ گیا ، مگر جب پیٹ میں کچھ نہ ہوتو مطالعہ میں کہاں جی لگتا ہے ۔اچانک یاد آیا گھر میں جب چھوٹی بہن کپڑے دھلتی تو شام کو پیسے لوٹاتی ہوئی کہتی بھیا یہ لیجئے ! آپ کے پاکٹ میں پڑا تھا ، اور میں پیار سے کہتا تم رکھ لو تو وہ کتنی خوش ہوتی تھی ۔
اس خیال کے آتے ہی میں نے اپنے اتارے ہوئے کپڑے جسے کئی ہفتہ سے دھلنے کی سوچ رہا تھا ، ٹٹولنا شروع کیا ،تو ایک پرانی جینس میں سے سو روپئے کا نوٹ نکلا جسے میں نے پہننا بھی چھوڑ دیا تھا ، اس سور روپئے کے نوٹ کو پاکر اتنی خوشی ہوئی کہ پورے مہینے کی تنخواہ پا کر بھی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی ، فرط جذبات سے میں نے نوٹ کو پیشانی سے لگایا اور چوم لیا ۔پھر دو رکعت شکرانہ نماز پڑھی ۔باہر نکلا جوس پیا، سموسے کھائے ، چائے پی اور پھر روم واپس آ گیا۔
رہے نام باقی اللہ کا