جمعرات، 9 اگست، 2012

چینی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا مگر عالم اسلام خاموش کیوں ؟


چینی مسلمانوں پر ظلم کی انتہا مگر عالم اسلام خاموش کیوں ؟

ہم لوگ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر تو چلا اٹھتے ہیں لیکن چین میں مسلمانوں پر اتنا کچھ ہونے کے باوجود اس سے تجارتی روابط اور دوستی کی خاطر پینگیں بڑھانے سے باز نہیں آتے ۔


محمد علم اللہ اصلاحی

عالم اسلام سمیت پوری 
بیرونی دنیا کو چینی کمیونسٹ پارٹی اپنے قیام کے اول دن سے یہیظاہر  
 کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ اس کے تحت چین میں اندرونی استحکام اور مکمل نظام امن کا ماحول ہے۔مگردنیا کواپنا یک رخی اورچمکیلا چہرہ دکھانے کی لاکھ کوششوں کے باوجودوہ اپنی ذاتی، نسلی اورعصبیت پرستانہ رویہ کو چھپا نہیں پارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے سال کے شروع بلکہ پہلے ہفتہ میں ہی ایک مرتبہ پھر چین نے مع ایک مسجد کی شہادت کے کئی مسلمانوں کوجاں بحق کرنے، اپنی حیوانیت اور تشدد پسندی کا ننگا ناچ ناچنے اور دنیا کو یہ معلوم نا ہو سکے کہ وہ لامذہبیت اور برابری کی آڑ میں کیاکچھ کر رہا ہے،زمین پرپڑے ہوئے خون کو چھپانے کے لئے اس جگہ کو ڈھک دیا ہے یہی نہیں بلکہ یہاں کے فون روابط بھی منقطع کر دئے ہیں تاکہ وہاں کے مظلوم اپنا درد بھی کسی کو نہ بیان کر سکیں۔ اس سلسلہ میں معروف خبر رساں ایجنسی ’رائٹر ‘کے مطابق شمال مغربی چین میں مسلم کمیونٹی کے ایک گاؤں کی مسجد کو گرانے آئے پولیس اور سینکڑوں افراد کے ساتھ جھڑپ ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ہانگ کانگ واقع انسانی حقوق مبصرین کے مطابق یہ مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا جب جمعہ کے روز’ ہیکسی‘ نامی قصبے میں فساد کنٹرولر پولیس نے مسجد کو غیر قانونی ڈھانچہ قرار دے دیکر شہید کر دیا۔خبروں کے مطابق اس جھڑپ میں پولیس نے’ ہوئی‘ نسل کے مسلمان مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ان کے خلاف آنسو گیس ، لاٹھیوں اور چاقوؤں کا استعمال کیا۔جس کے نتیجہ میں زائد از 2 افراد شہید، 50 زخمی اورتقریبا 100 مسلمان حراست میں لے لئے گئے ہیں ، چینی حکام نے مسجد گرائے جانے اور لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے ۔

یاد رہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی خاص کر دوسری جنگ عظیم یعنی 1949کے بعد وہاں کے مسلم اکثریتی والا علاقہ ژنجیانگ (مشرقی ترکستان)کو چین ناجائز طور پر قبضہ میں لینے کے بعد سے مستقل اب تک مسلمانوں پر عصبیت کا رویہ اپناتے ہوئے ان کےساتھ نسل کشی ،فساد ،ظلم و بربریت اور غیر انسانی سلوک کا رویہ اپناتا رہا ہے۔یہاںاسلامی شناخت کو ختم کرنے کیلئے وہ ایک طرف توان علاقوں میں چین کے غیر مسلم اقوام کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مسلم آبادی غالب ترین اکثریت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جا سکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کیلئے مختلف حربے بھی استعمال کر رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح یہاں کی معدنی اور زرعی پیداوار کو نچوڑ کر دوسرے صوبوں میں لے جارہا ہے۔اس قسم کی ظلم و بر بریت کے علاوہ 1964سے لے کر 1996 تک چین نے اپنے تقریبا تمام جوہری تجربات انھیں مسلم علاقوں میں کئے ہیں۔ 

مسلمانوں کو بے بس کرنے کے لئے یہاں کے مساجد پرتالالگا یاگیا، اسلامی عبادت و روایات پر مختلف طرح سے پابندیاں عائدکی گئیں اورقرآن پاک کی تعلیمات کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس سے عاجز آکر 1974 میں مسلمانوں نے اپنے مذہبی تشخص کے احیاءکے لئے ملک گیر پیمانے پر کوشش کی،تو انھیں دہشت گرد کہا گیا۔اسی کو لیکرمسلم آبادی والے دوسرے بڑے صوبہ یونّان میں زبردست پر تشدد جھڑپیں ہوئیں، جس میں تقریباً 1700 مسلمان شہید ہوگئے۔چند سال بعد چینی حکومت نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے محدود مذہبی آزادی دے دی۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم رہا۔ ہان نسل کے لوگوں نے حکومت کی تائید سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا جس سے تنگ آکر 1988ءمیں ان کے خلاف ژنجیانگ کے دارالحکومت ارمقی و دیگر شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 1990ءمیں اس وقت کے چینی وزیر اعظم ”لی پانگ“ نے اقلیتوں کی ایک کانفرنس میں ژنجیانگ کے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مذمت کی جس کے خلاف پوری ریاست میں مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ لیکن فوجی آپریشن کے ذریعہ اس کو کچل دیا گیا،جس میں 60مسلمانوں سمیت ایک مسجد بھی شہید ہوگئی۔ گزشتہ سال بھی ایسے ہی مذہبی اجتماع کے موقع پر ایک منظم فساد کے ذریعہ 165 غیورمسلمانوں کوقتل 800 سے زائدافراد کو زخمی اور 1500 افراد گرفتار کیا گیا ۔

پچھلے سال انھیں علاقوں کے مختلف بسوں ،سڑکوں ،گلیوں اور اسکولوں میں مسلمانوں پر نظر رکھنے کے لئے تقریبا17 ہزار کیمرے نصب کیے گئے جبکہ رواں سال بھی کئی ہزار مزید کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔یہاں طلبہ اور اساتذہ کو روزہ رکھنے، سرکاری ملازموں کو مسجد جانے، مردوں کو داڑھی رکھنے، عورتوں کو اسکارف پہننے نیز رمضان میں دن کے اوقات میں ہوٹلوں کو بند کرنے سے منع کر نے کے ساتھ ہی گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر مبنی تاریخی ورثے کو مٹایا جاتا رہا ہے۔مشرقی ترکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہا ہے، اپنے مذموم مقاصد کیلئے یہاں مخلوط تربیتی پروگرام جبرا ترتیب دیا تاکہ بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہو اور اسلام مردوزن کو جس اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کا برسرعام تمسخر اڑا سکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قائدین میں چند نامور نام بھی تھے جنہوں نے چین میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جن میں عبدالرحیم عیسٰی، عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔

لیکن اسکے باوجود حیرت ہے کہ چین کی اس حرکت کے خلاف ابھی تک بین الاقوامی طور پر تودورعالم اسلام میں بھی ترکی اور ہندوستان کے علاوہ کسی مسلم ملک کی جانب سے اس پرغم وغصہ کا بھی اظہار نہیں کیا گیااگرچہ مسئلہ فلسطین اور گیارہ ستمبر جیسے پیچیدہ مسائل کے بارے میں مسلمانوں کے ذرائع ابلاغ بہت کچھ لکھتے رہے ہیں اور ابلاغ عامہ میں تقریباً ہر روز ان کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے چینی مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر ابلاغ عامہ کی کوئی نظر نہیں پڑتی۔ اس مسئلے کو سیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کر دینے کا نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے مسلمانوں کو باقی امت سے کاٹ کر رکھ دیا، اگر ہمیں اپنی تاریخ پڑھنے کا موقع ملے تو ہمیں اپنے علمی اثاثہ سے معلوم ہوگا کہ چین میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے ،یہاں عالم اسلام سے آنے والوں کا اثر صرف دین مبین کی تبلیغ تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی دنیا سے وہ سائنس اور طب ،ریاضیات اور ہیئت کے علوم کے تحفہ بھی لائے ۔چینی کلینڈر کی تدوین میں بھی تقویم سے مدد لی گئی ہے ۔چینی سائنسداں جمال الدین ایک بہت بڑے ہیئت داں تھے ۔چودہویں صدی میں ماشح اور دوسرے مترجموں نے عربی سے ترجمہ کر کے چین کے سائنس کو ایسے ہی مالا مال کیا جیسے عباسی عہد کے مترجموں نے اپنے ہاں کے علوم کی زمین کو آسمان بنا دیا تھا ۔تیرہویں صدی کے سر بر آوردہ چینی مصوروں میں بھی کا کے کنگ نام کے ایک مسلمان تھے ،اور اسی عہد کے ایک عالم شمس الدین تو بہت مشہور ہیں جنھوں نے فلسفہ ،تاریخ ،ریاضی ،فلکیات ،جغرافیہ حتی کہ انجینئرنگ پر بیسیوں تصانیف چھوڑی ہیں۔چین میں خاص کر مسلمان گورنروں اور جر نیلوں کے تذکرے کا یہاں موقع نہیں ،جنھوں نے ہر عہد میں بڑے معرکہ مارے۔ہیں۔

الغرض یہ کہ چینی مسلمانوں نے اسلام کے لئے جو خدمات انجام دی ہیں اسے ہم اس مختصر سے مضمون میں بیان نہیں ایسے میں انھیں اسلامی امت کر سکتے تاہم اس بابت اتنا ضرور کہیں گے کہ کہ اسلامی تاریخ اور اس کی نشرو اشاعت میں ان کی حصہ داری جزولاینفک ہے ،ان کے ان ہی خدمات کے سبب ماضی قریب تک چین میں مشرقی ترکستان کا ایک فعال کردار رہا ہے جسے اسلامی مملکت ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، اگرچہ یہ کردار ہمارے ہاں کوئی بڑی پذیرائی حاصل نہیں کر سکا جس کی وجہ ابلاغ عامہ کی خیانت ہے اور اب بھی وہاں اسلامی سرگرمیاں ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ برابر زور پکڑ رہی ہیں۔اور چین اسے انتہا پسند ،طالبانی ،دہشت گرد جیسے الفاظ سے نہ صرف پکار رہا ہے بلکہ ان سے اسی انداز سے پیش بھی آ رہا ہے اور آئے دن جس طرح سے تبتیوں کو اپنے عتاب کا شکار بنایا ان کے ساتھ بھی وہی انداز اپنائے ہوئے ہے ۔یہ صحیح ہے کہ تبتیوں کے حقوق کو لے کر جتنی بیداری اور ہمدردی مغربی دنیا میں ہے ، وہ یہاں کے مسلمانوں کے لئے نہیں ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ ابھی بھی باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور ان کے پاس دلائی لامہ جیسا کوئی شخصیت موجود نہیں ہے ، جو ان کے حقوق کے تئیں بیداری پھیلائے۔پھر مسلمانوں کے حقوق کے لئے جو لوگ پر امن طریقے سے بھی جدوجہد کر رہے ہیں ان پر بھی چین نے دہشت گرد ہونے کا ٹھپاا لگا دیا ہے۔

ہم لوگ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر تو چلا اٹھتے ہیں، ہم نے ان کی خاطرکئی مرتبہ اسرائیل کا بائیکاٹ کئے جانے کا بھی اعلان کیا ، جب کہ کچھ عرب ممالک نے تو اسرائیل سے باقاعدہ تجارتی روابط رکھے ہوئے ہیں۔یہاں پر اگر یہ کہا جائے تو بالکل غلط نا ہوگا کہ چین کا مسئلہ بھی تقریبا ویسے ہی ہے لیکن اس کے باوجودعالم اسلام بھی چین سے اپنی تجارتی روابط مستحکم کرنے اور اس سے اس سے دوستی کی خاطر پینگیں بڑھانے سے باز نہیں آتے ،ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہیں آمیز خاکے شائع ہونے پر اپنے ہی ملک میں اپنے بھائیوں کے کاروبار تباہ کردیتے ہیں،(ایساپاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں ہو چکا ہے )صرف اس لئے کہ ان کا کاروبار کسی ایک خاص کمپنی کی فرن چائز ہوتا ہے، ہم لوگ مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے روئیے پر تو شور کرتے ہیں، مگر جب اپنے ہی پچھواڑے میں مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ہو تو خاموش کیوں رہتے ہیں ؟اس کا جواب حقوق انسانی کے مبینہ علمبر داروں سمیت پورے عالم اسلام کو دینا ہی پڑے گا ۔یاد رہے کہ چونکہ گزشتہ دنوں گیتا سے متعلقہ ایک تنازعہ کو لیکر ہندوستان نے باقائدہ سفارتی سطح پر روس سے بات چیت کی تھی اسلئے یہ امید کی جا رہی تھی کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ کو پاکستان سفارتی سطح پر چین سے اٹھائے گا لیکن ان سطور کے لکھے جانے تک ایسی کوئی خبر نہیں ہے۔
alamislahi@gmail.com